تحریک آزادی پاکستان کے اصل ہیرو
13 اپریل 1946 کوبنارس میں چارروزہ اجلاس منعقدہوا . جس میں پاک و ہندسے قریباً 5000 علماء ومشائخ نےاپنےذاتی خرچ سےشرکت کی اوراجلاس میں ڈیڑھ لاکھ حاضرین کااجتماع ہوا-قیام پاکستان سےقبل سواداعظم اہل سنت کےعلماء نے جو جماعت قائم کی وہ آل انڈیا سنی کانفرنس کےنام سے موسوم تھی . یہ جماعت 1945 سے پہلے قائم ہوچکی تھی ، 1946 میں علماء نے آل انڈیاسنی کانفرنس کی سرگرمیوں کو تیز ترکردیا -اور پھر جلد ہی اس اجلاس کا انعقاد کیاگیا جس میں 5000 علماء اور ڈیڑھ لاکھ حاضرین نےشرکت کی. اس کانفرنس میں حضرت سید محمدمحدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ نےخطبہ صدارت دیا اس کےیہ اقتباسات قابل توجہ ہیں . (حیات صدر الافاضل ص189)
اب بحث کی لعنت چھوڑو، اب غفلت کےجرم سےبازآجاؤ، اٹھ پڑو، کھڑے ہوجاؤ، چلےچلو،ایک منٹ بھی نہ رکو،پاکستان بنالوتوجاکردم لو،یہ کام اےسنیو! سن لوکہ صرف تمہارا ہے-اگر ایک دم سارے سنی مسلم لیگ چھوڑدیں توکوئی مجھے بتادے کہ مسلم لیگ کس کو کہاجائےگا؟اس کادفترکہارہےگا؟ اور اسکا جھنڈا سارےملک میں کون اٹھائےگا ؟؟"" (الخطبہ الاشرگیہ جمہوریت الاسلامیہ ص29-38)
آل انڈیا سنی کانفرنس کےاجلاس منعقدہ بنارس اپریل 1946 میں اتفاق رائےجو قرارداد منظور ہوئی اس کے اہم دفعات درج ذیل ہیں :
1 - یہ اجلاس مطالبہ پاکستان کی پرزور حمایت کرتاہے.اور اعلان کرتاہے کہ علماءومشائخ اہل سنت، اسلامی حکومت کےقیام کی تحریک کوکامیاب بنانےکےلیےہرامکانی قربانی کےواسطے تیارہیں .
2 - یہ اجلاس تجویز کرتاہےکہ اسلامی حکومت کےلیے لائحہ عمل مرتب کرنےکےلیے حسب ذیل علماءکی ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے .
مولانا سید محمدمحدث کچھوچھوی، مولانا نعیم الدین مراد آبادی، مولانا مصطفے رضاخاں، مولاناامجدعلی،مولانا عبدالعلیم میرٹھی،مولانا ابوالحسنات،مولانا ابوالبرکات سیداحمد،مولاناعبدالحامد بدایونی،دیوان سیدآل رسول،خواجہ قمرالدین سیالوی،شاہ عبداکرحمن بھرچونڈی شریف،سیدامین الحسنات مانکی شریف اور مصطفی علی خاں_علیہ الرحمہ (حیات صدر الافاضل ص190 مخلصاً)
جب پاکستان بننے کامقصد پوراہوگیاتو مدرسہ انوارالعلوم ملتان میں علماء اہل سنت کا اجتماع ہوا اور آل انڈیا سنی کانفرنس کانام بدل کرجمیعت العلماء پاکستان رکھاگیا.مولانا ابوالحسنات محمد احمد کوصدر اور علامہ سیداحمدکاظمی شاہ صاحب کوناظم اعلی مقرر کیاگیا.(حیات صدرالافاضل معتوضیع ص166)
تحریک آزادی کامرکزی کردار
جیسا کہ ہم سب انگریزوں کے ہندوستان پہ قابض ہونےکےبعدکیئےجانےوالے تمام مظالم سےآگاہ ہیں یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ انگریز نے ہندو مسلمان دونوں پہ ہی بےحد ظلم ڈھائے انگریز نے آتے ہی انگریزی سکول کھولے تمام مدرسے بند کروانے کی مہم شروع کی،مسلمان کو ختنہ سےروکنےعورت کو نقاب سےروکنے کی بھی مہم شروع کی،مسلمان کو سؤر کی چربی اور ہندوؤں کو گائےکی چربی کے کارتوس دیئے جاتے جو منہ سےکاٹنے پڑتےغرض یہ کہ مظالم اپنی انتہاکو پہنچے ہوئےتھےایسے میں ہر شخص ہی انگریز سے بدظن تھا چنانچہ علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ جو معرکہ ستاون کے مرکزی کردار تھےنے فرمایا
"نص قرآنی سے ثابت ہے ان کی (نصاری کی) محبت کفرہے - کسی حق پرست انسان کو اس میں شک نہیں ہوسکتا-نصاری سے محبت کس طرح جائز ہوسکتی ہے؟ جب یہ لوگ اس ذات اقدس کے دشمن ہیں جن کے طفیل عرض وسما پیدا کیئے گئے - (قصائد فتنتہ الہندص448)
یہ تحریک آزادی کا سب سے پہلے علم بلند کرنےوالی وہ شخصیت ہیں جنکو ظالم مؤرخین نےیکسرفراموش کردیا-بطرحریت،مجاہدملت،میرکاروان جنگ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی عمری حنفی ماتریدی چشتی 1212ھ 1797 میں اپنےآبائی وطن خیرالبلاد خیرآباد میں پیداہوئے-آپ کےوالدماجد مولانافصل امام خیرآبادی علماء عصر میں ممتاز اور علوم عقلیہ کےاعلی درجےپہ سرفرازتھے . حضرت علامہ کےداداحضرت مولانا راشد ہرگام پور سے خیرآبادآکر تشرہف پذیرہوئے-علامہ فضل حق خیرآبادی نے تمام علوم عقلیہ و نقلیہ اپنےوالد ماجدسےحاصل کیئےاورحدیث شریف محدث شہیر شاہ عبدالقادر محدث دہلوی سے دہلی میں حاصل کی-چنانچہ علامہ فضل حق خیرآبادی نے تیرہ برس کی عمرمیں تمام مروجہ علوم نقلیہ وعقلیہ کی تکمیل کی اور کچھ چار ماہ کچھ روز میں ہی قرآن شریف حفظ کیا-(سیرت علامہ فضل حق خیرآبادی، مقدمۃ الیواقیت المہریہ) حضرت کےعلمی مقام و جلالت کااندازہ اس بات دے لگایاجاسکتاہے کہ آپ اپنے معاصرین میں ناصرف حددرجہ ممتاز تھے بلکہ بےنظیر اور اپنی مثال آپ تھے_آپ تقدیس الہی جلّ وعلا
اور ناموس رسالت علیہ التحیہ والثناءکےمحافظ اہل اسلام. اور اسلام کےایسے خیرخواہ تھے کہ آپکا نام ہمیشہ اہلسنت علماء ہندمیں سنہری حروف میں لکھاجائےگا-آپ کو انگریزوں نے فتوی جہاد اور اہل اسلام کو انگریز کےخلاف جہادکےلیےتیارکرنےکےجرم میں فساد ہندکےزمانہ میں جزیرہ رنگون (یعنی جزیرہ انڈمان جسے کالا پانی کہاجاتاہے) میں قیدکردیاوہیں 12 صفرالمظفر1287ھ بمطابق 1861 آپ کا وصال ہوا - ( تذکرہ علماءہندفارسی،مصفنہ مولوی رحمان علی ص165،چشتی)
جس نےبھی علامہ کا ذکرکیاہے اس فتوی جہاد کا ذکر ساتھ ضرور کیاہےجیسا کہ عبدالشاہد خاں شیروانی نے"باغی ہندوستان" میں مولوی حسین احمد مدنی نے"نقش حیات ج 2" میں مفتی انتظام اللہ شہابی نے" ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء ،فضل حق خیرآبادی اور جنگ آزادی1857" میں غلام رسول مہرنے" 1857 کےمجاہد" پروفیسر محمد ایوب قادری نے" مولانا فیض احمد بدایونی" میں ڈاکٹر سید عبداللہ نےاپنےایک مضمون" مولانا فضل حق خیرآبادی سراپا حق سراپاخیر ، ہفتطر و زہزندگی (اذان حق) شمارہ13 نومبر1972 میں ،مولانا عبدالسلام ندوی نے" حکماء اسلام" میں لیکن ماضی قریب میں بعض لوگوں نے آپ کے فتوی جہاد کا انکار بھی کیا ہے جیسا کہ ماہنامہ دہلی شمارہ اگست1907 ازعرش رامپوری نے اسکا جواب علامہ عبدالحکیم صاحب شرف زید مجدہ نے( مقدمہ باغی ہندوستان ص23) پہ اعتراض کا جواب لکھاہے ۔
غرض مختصراً میرامقصد یہ سمجھاناہے کہ ہند میں آزادی کی لہر دوڑائی وہ سب سےپہلانام علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ ہیں جنکا تعلق اہل سنت وجماعت سےہے-اس جنگ میں مولانا علامہ علیہ الرحمہ کےہمنوا مجاہداعظم مولاناسید کفایت علی کافی علیہ الرحمہ ہیں مولانا سیدکفایت علی کافی مرادآباد کےمعززترین سادات خاندان میں پیداہوئے.-علوم نقلیہ وعقلیہ کےجلیل فاضل ہوکرشاعری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا.آپ نے علم حدیث،فقہ،اصول فقہ،منطق،فلسفہ یگانہ روزگارتھے-امام احمدرضاخان قدس سرہ آپکوسلطان نعت فرماتےتھے ۔
آپ اخیرتک باطل کےآگے ڈٹے رہےاور جھکے نہیں آخرکار آپکو 30 اپریل 1858 کومرادآباد میں پھانسی دےدی گئی-آخری لمحات میں بھی آپکی زبان پہ یہ اشعار تھے :
کوئی گل باقی رہےگانئے چمن رہ جائےگا
پررسول اللہ کا دین حسن رہ جائےگا
ہمصفیرو باغ میں ہےکوئی دم کا چہچہا!
بلبلیں اڑ جائینگی سونا چمن رہ جائےگا
سب فناہوجائےگےکافی و لیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پرسخن رہ جائےگا
ان کےعلاوہ مولانا عبدالجلیل علی گڑھ جوانگریز سےجہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے جامع مسجد علی گڑھ میں مدفون ہیں-پھریہاں مجاہداعظم سیداحمداللہ شاہ کا ذکر ناکرنا بہت بڑیبددیانتی ہوگی - مجاہداعظم سیداحمداللہ شاہ شہید1204ھ میں پوناملی ساحل دریائےشورمتعلقات مدارس میں پیداہوئے-آپ کےوالدسید محمدعلی ٹیپوسلطان شہید کےعظیم مقرب مصاحب تھے-مولانا سیداحمداللہ شاہ نےقابل افاضل اوراساتذہ عصر سےعلوم وفنون اسلامیہ عربی کی تکمیل کی-جےپورمیں حضرت پیرقربان علی شاہ سےبیعت ہوئےاورسلسلہ عالیہ چشتیہ میں سلوک طےکیاپھر ٹونک میں جہاد کےجذبات بیدارکیئے-انگریزوں نے غدر کیاتوآپ تحریک کےقائداعظم بن کردہلی پہنچے-انگریزکوناکوں چنےچبوائےپھرآگرہ پہنچے-پھر کانپور پھرلکھنؤ پھرفیض آباد میں برطانوی سامراج کے پتخچےاڑادیئے-بالآخر بےمثال عالم باکمال مجاہد پیرفاتح اعظم بطل جلیل میدان کارزار میں 13 ذیقعد1275ھ کوجام شہادت نوش کیا-(تخلیق پاکستان میں علماء اہلسنت کا کردار) ان نامراد مؤرخین پہ صد افسوس جنہوں نے آپ کوسیداحمد اور اسماعیل دھلوی کاتعلق دار بناکرپیش کیااورآپ کےکردار کوغداراور داغدار بنانے ک بھرپور کوشش کی-ان تمام علماء جنکا ذکر کیاگیاہے کےعلاوہ بےشمار علماء ایسےہیں جنہوں نےجنگ آزادی میں بڑگ چڑھ کرحصہ لیاہے-جیساکہ حضرت مولاناصدرالدین آزردہ مولاناغلام مہرعلی لکھتےہیں کہ جنگ آزادی 1857 میں جوخدمات آپکی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں-دفترکےدفتر انکےمکارم ومحاسن کےلیےناکافی ہیں آپ نےبعض علوم علامہ فضل حق خیرآبادی کےوالدماجدسےاورعلم حدیث شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی سےحاصل کیئے-معقول،فلسفہ ،ریاضی ،کےباکمال استاد فقہ کےممتاز ماہرومفتی تھےخالص سنی حنفی صوفی تھے-(دیوبندی مذہب ص414،تخلیق پاکستان میں علماءاہلسنت کاکردار) بعض توایسے گوہر نایاب ہیں کہ جن کےنام تک محفوظ نہ رہ سکے مؤرخین نےبڑاظلم ڈھایاہے - جن لوگوں نے جانیں دیں تلکیفیں برداشت کیں جوتاریخ کےاصل ہیروہیں ان کا کہیں چرچاہی نہیں غدار اور انگریزکے وفاداروں کو مجاہد اور جنگ آزادی کا ہیرو بنادیا -
دوقومی نظریہ اورعلماء وصوفیاء
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اکبر بادشاہ کادور مسلمانان ہند پہ بہت کڑاوقت تھا-اکبر بادشاہ نے جس نئےدین کی بنیاد ابوالفضل اور فیضی جیسےعلماءسوءکی مدد سےڈالی اسکو "دین الہٰی" کانام دیاگیا- پروفیسر ڈاکٹر محمدمسعود احمد مدظلہ اس دور کی منظر کشی کرتےہوئے-" تیسرےدور میں دین الہی کا آغاز ہوااور وہ کچھ ہوا کہ جوناگفتنی ہے-ہروہ کام کیاجانےلگاجو اسلام کےسراسر منافی ہے-مثلا کلمہ طیبہ میں محمدرسول اللہ کےبجائے اکبر خلیفۃ اللہ پڑھاجانےلگا-گائےکی قربانی پہ پابندی لگادی گئی-خنزیر اور کتوں کا احترام کیاجانےلگا-داڑھیاں منڈوادی گئیں شراب جواءعورت کی بےپردگی عام ہوگئی بادشاہ کوسجدہ تعظیمی کیاجانےلگااور شعائراسلام کا برسرعام مزاق اڑایاجانے لگا"-ایسے دور میں کلمہ حق بلند کرنا اتنامشکل ہوگیا لیکن ایسے دور میں امام ربانی مجدد الف ثانی احمد سرہندی نے سرکاردوعالم صلی اللہ تعالی کی رحلت کے ایک ہزار سال بعد تجدید دین کا کارنامہ سرانجام دیا-چونکہ امام ربانی علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب 29 واسطوں سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے تبھی آپ کےعلماء مشائخ ،صوفیاءعوام ،بادشاہ کے مقربین کو جو مکتوبات لکھے ان کو پڑھتے وقت ایک ایک جملے سے جلال فاروقی جھلکتا محسوس ہوتاہے-
جناب سید شیخ فرید کو بھیجے جانےوالا خط کی تحریر کچھ یوں تھی : اللہ تعالی نے کلام مجیدمیں کافروں کو اپنا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن فرمایاہے-لہذا کفار کےساتھ دوستی اور میل جول بڑاہی گناہ ہوگا-ان کفار کی ہم نشینی اور دوستی کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ احکام شریعت جاری کرنے اور کفرکےنشان مٹانے کی قوت کمزور پڑ جائےگی اور یہ بہت بڑانقصان ہے-"
ایک ایمان والا اللہ پاک اور اسکے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سےسب سے زیادہ محبت رکھتاہے-خودسوچیئےجس شخص سے ایمان کی حد تک محبت ہو کیااسکے دشمن سے محبت ہوگی؟ کیااسکی تعظیم اور عزت کی جاسکتی ہے؟حاشا وکلا یہ محبت کی توہین ہوگی غیرت ایمانی کے سراسر منافی ۔
یہ ہی دوقومی نظریہ ہے جو قرآن و سنت سے بھی ثابت ہے-
اکبری دور کے بعد بیسویں صدی کی ابتداءمیں پھر سےاس فتنے نے سراٹھایا-ہندومسلم بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہوا-امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے علالت کےباوجود " المحجۃ الموتمنہ" لکھ کر ہندومسلم اتحاد کےتار پود بکھیردیئے-قرآن حدیث کی روشنی میں دوقومی نظریہ پوری قوت کےساتھ پیش کیا-کس دردمندی کےساتھ فرماتے ہیں : جب ہندوؤں کی غلامی ٹھہری،پھر کہاں کی غیرت کہا کی خوداری؟___( المحجۃ الموتمنہ)
دوقومی نظریہ اور امام احمد رضاخان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
پہلی جنگ عظیم کےبعد جب مسلمانوں کی طرف سےتحریک خلافت کاآغاز ہوا،توحالات نےنیارخ اختیارکیا،اس تحریک میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،حکیم اجمل خاں،ڈاکٹر انصاری،مولانا ظفرعلی،مولانا حسرت موہانی وغیرہم مشاہیرملت شامل تھے.اسی زمانہ میں انڈین نیشنل کانگریس نےمسٹرگاندھی کےایماء پرترک موالات کی تحریک شروع کی_کانگریس کا قیام اگرچہ 1885 میں عمل میں آگیاتھا مگراسکا مقصد صرف یہ تھا کہ حاکم ومحکوم کےتعلقات کواستوارکرےاور بس بعد میں کامل آزادی کامطالبہ کیاگیا،الغرض 1920 میں کانگریس کےقوم پرست ہندو اور مسلمان تحریک خلافت کےداعی اپنے مشترکہ دشمن انگریز کےخلاف متحد ہوگئے،ہرشخص ترک موالات پرتلاہوانظرآتاتھا.مخالفت کی کسی کوجراءت نہ تھی،جوش جنوں میں انگریزوں سےترک مواصلات بلکہ ترک معاملت کرکےکفارومشرکین سےدوستی ومحبت کےلیےہاتھ بڑھایاگیا.ہندومسلم اتحاد کےمؤیداور ہمارے محترم بزرگ مولانا محمد علی،اورمولانا شوکت علی جب فاضل بریلوی کی خدمت میں حاضرہوئےاور اپنی تحریک میں شمولہت کی دعوت دی تو فاضل بریلوی نےصاف صاف فرمادیا : مولانا میری اور آپ کی سیاست میںفرق ہے،آپ ہندومسلم اتحاد کےحامی ہیں میں مخالف ہوں،اس جواب سےعلی برادران ناراض ہوئےتوفاضل بریلوی نےتالیف قلب کےلیےمکررفرمایا: مولانامیں ملکی آزادی کامخالف نہیں،ہندومسلم اتحاد کامخالف ہوں،(اعلی حضرت کی مذہبی وسیاسی خدمات،مطبوعہ عرفات شمارہ اپریل1970)
محترم قارئین : غورکیجیے جب قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ جیسے مقبول لیڈر کوبھی ترک موالات کےخلاف کچھ کہنے کی جراءت ناہوئی،پوراملک ہندومسلم اتحاد کی طوفانی لہروں میں بہہ رہاتھا.ایسے پرفتن ماحول میں جس مرد مجاہد نے ہندومسلم اتحاد کےخلاف آواز اٹھائی اور دوقومی نظریہ پیش کیاوہ ایک عالم ایک مجدد جناب احمدرضاخاں بریلوی قدس سرہ العزیز کی ذات گرامی تھی.اس ہی ضمن میں دو استفتاءکےجواب میں ایک رسالہ "المحجہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنہ 1920/ھ1339 " کےتاریخی نام سے مولوی حسنین رضاخاں نےمطبع حسنی بریلی سےچھپواکرشائع کیاتھا.یہ پورارسالہ رئیس احمدجعفری نےاپنی تالیف اوراق گم گشتہ" میں شامل کردیاہے،جوبڑے بڑے سائز کےاسی صفحات پہ پھیلاہواہے.
اعلی حضرت کی انگریزوں سے نفرت : کہا جاتا ہے کہ آپ انگریزوں کےپروردہ تھے انگریز پرست تھے مگر آپ توانگریز اور انکی حکومت سےاس قدر نفرت کرتےتھے کہ لفافے پہ ہمیشہ الٹاٹکٹ لگاتےتھےاوربرملا کہتےتھے کہ میں نے جارج پنجم کاسرنیچاکردیا-آپ نےکبھی انگریز کی حکمرانی تسلیم ناکی حتی کہ ایک بار ایہ مقدمہ کےسلسلہ میں آپکو عدالت نےطلب کیا فرمانےلگے کہ میں انگریز کی حکمرانی کونہیں مانتاتواسکےنظام عدل کوکیونکرمانوں؟؟ حتی کےآپکو گرفتار کرنےکےلیےمعاملہ اتنا بڑھ گیاکہ بات پولیس سے نکل کرفوج تک جاپہنچی مگرانکے ہزاروں جانثاروں نےسرپہ کفن باندھ کرانکےگھر کاپہرہ دیاآخرعدالت کوحکم واپس لیناپڑا (ہفت روزہ الفتح، 14،21 مئی 1976 ص17،چشتی)
اور مدیر" الحبیب" لکھتےہیں : ایک مرتبہ انگریز کمیشنر نے35 مربع زمین کی آپ کوپیش کش کی مگر اس مرد قلندرنےفرمایا انگریز اپنی تمام حکومت بھی مجھے دےدےتوبھی میراایمان نہیں خرید سکتا ۔ ( ماہنامہ الحبیب اکتوبر1970ء)
علماء اہلسنت کا قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق
علمائےکرام محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کو دنیاوی امور اور سیاسی امور میں اپنا وکیل اور رہنما سمجھتےہیں. اس ضمن میں آپ شیخ الفقہ مولاناعبدالمتین بہاری
کااستفتاء(ہفت روزہ الفقیہ،امرتسر،مجرمیہ7تا14 جون1946) میں پڑھ سکتےہیں جبکہ امیر ملت سیدجماعت علی شاہ کےمحمدعلی جناح کےبارےنظریات(تحریک پاکستان اورمشائخ عظام ص83-82) میں جبکہ پیرغلام مجدد سرہندی(مٹیاری سندھ) کےنظریات (انوارعلماءاہلسنت سندھ ص600) میں اور مولانا غلام یزدانی علیہ الرحمہ جو صدرالشریعہ کےشاگردتھےکےمحمدعلی جناح کےبارےمیں بیانات (ماہنامہ ضیاءحرم لاہور مجرمیہ اگست1997 ص184) میں پڑھ سکتےہیں- اور عالم اسلام کےمشہور معروف عالم دین تحریک خلافت و تحریک پاکستان کےصف اول کےمجاہدملت مولاناعبدالحامدبدایونی ابن عبدالقیوم بدایونی شہید جوکہ 1899 میں دہلی میں پیداہوئے-آپ نے بھی مسلم لیگ کی ناصرف مکمل حمایت کی بلکہ مختلف مواقع پہ مخلتف اجلاسوں میں بھی شرکت کی ۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سیکولر نہیں تھے
24 نومبر1945 میں محمدعلی جناح نےخانقاہ مانکی شریف علماءکرام اور مشائخ عظام سے خطاب کرتےہوئےفرمایا : آپ نے مجھ سےسپاس نامہ میں پوچھاہےکہ پاکستان کاقانون کونساہوگا؟مجھے آپ کےسوال پہ سخت افسوس ہے-قرآن ہمارا قانون ہےیہی قرآن ہی مسلمان کاقانون ہےجومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سےہمیں ملاہےیہی ہمارا قانون ہوگا اور بس(پیرصاحب مانکی شریف اور انکی سیاسی جدوجہدص32) (قائداعظم اورسرحدص145،چشتی)
ایک اور قول ملاحظہ کریں محمد صادق قصوری لکھتےہیں کہ 1948 میں...میاں افتخارالدین نےاسلامی سوشلزم کانعرہ لگایاتوآپ نےیعنی(مولاناعبدالستارنیازی) نےڈٹ کرمقابلہ کیا-حتی کہ قائداعظم نےواشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا کہ کمیونسٹ ملک میں انتشار پیداکررہےہیں-یادرکھیئےپاکستان میں اسلامی شریعت نافذہوگی-(حیات وخدمات مجاہدملت مولاناعبدالستارخاں نیازی ص104)
خلاصہ بحث
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے 1920میں ترک موالات کی مخالفت کرکے دوقومی نظریہ کی اساس رکھی ۔
صدرالافاضل مولانا سیدنعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ نے1931 میں تقسیم ہندکی تجویزپیش کی ۔
اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے1937میں قیام پاکستان کاخاکہ بنایا ۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے1938 میں قیام پاکستان کی تجویز کوقبول کیا ۔
غورکیجیے کہ یہ تاریخ کاکتنا بڑاالمیہ ہےکہ جولوگ قیام پاکستان کےمحرک اول تھے ۔ ان کا کوئی نام نہیں لیتا اور بعد کےلوگوں کا ڈھنڈورا پیٹاجارہایے ۔
نیرنگئی سیاست دوراں تودیکھیئے
منزل انہیں ملی جوشریک سفرنہ تھے
طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاہور پاکستان
No comments:
Post a Comment