نبی کریم ﷺ کی پسند حلوے کا مذاق اڑانے والوں کو جواب
محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حلواء پسند تھا اور حلواء سے مراد ہر میٹھی چیز ہے جس کے اندر عرفی حلوہ بھی شامل ہے، شھد، گھی اور آٹے کا حلوہ سب سے پہلے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تیار کیا اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بہت پسند فرمایا ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں : كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلى اللّٰهُ عليه وآلہ وسلم يُحِبُّ الحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ ۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلواء اور شہد پسند فرماتے ہیں ۔ (صحیح البخاری كتاب الأطعمة باب الحلواء و العسَل، صفحہ 1018 رقم الحدیث : 5431 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) ۔ (صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 536 حدیث نمبر 5431)
ابن بَطَّال رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : الحلوى : كل شيء حلو ، یعنی ہر میٹھی چیز کو حلواء کہتے ہیں ۔ (شرح البخاري لابن بَطَّال جلد 6 صفحہ 70)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : استقر العُرْف على تسمية ما لا يُشرب مِن أنواع الحلو حلوى، ولأنواع ما يُشرب مشروب ونقيعٌ، أو نحو ذلك ۔
ترجمہ : میٹھی چیزوں میں سے جنہیں پیا نہیں جاتا ، انہیں حلواء کا نام دینے پر عرف مستقر ہے ، اور جنہیں پیا جاتا ہے ، انہیں مشروب اور نقیع وغیرہ کا نام دینے پر (عرف مستقر ہے) ۔ (فتح الباري لابن حجر شرح صحیح البخاری جلد 10 صفحہ 78،چشتی)
امام كَرْمانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : اسم الحلواء لا يقع إلا على ما دخَلَتْهُ الصنعة جامعًا بين حلاوة و دسومة ۔
ترجمہ : حلواء کا نام واقع نہیں ہوتا مگر اس پر جس میں کاریگری داخل ہو اس طور پر کہ وہ میٹھاس اور چربی کی جامع ہو ۔ (الكواكب الدراری جلد 20 صفحہ 51)
امام نووي رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : قال العلماء : المراد بالحلواء هنا : كل شيء حلو ۔
ترجمہ : علماء فرماتے ہیں یہاں حلواء سے ہر میٹھی چیز مراد ہے ۔ (شرح النووی على صحیح مسلم جلد 10 صفحہ 77)
امام قسطلَّاني رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : في فقه اللغة للثعالبي : أن حلوى النبي صلى الله عليه وسلم التي كان يحبها هي المَجِيع بالجيم بوزن عَظِيم، وهو تَمْرٌ يُعجن بلبن، فإن صَحَّ هذا، و إلا فلفظ الحلوى يعمُّ كل ما فيه حلو، و ما يُشابه الحلوى ۔
ترجمہ : فقہ اللغۃ للثعالبی میں ہے : بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلوی وہ جسے آپ پسند فرماتے تھے وہ مجیع ہے جیم کے ساتھ بروزن عظیم اور یہ وہ کجھور ہے جسے دودھ کے ساتھ گوندھا گیا ہو، پس اگر یہ درست ہے ، وگرنہ حلوی کا لفظ ہر اس چیز کو عام ہے جو میٹھی ہو اور جو ہر اس چیز کو حلوی کے مشابہ ہو ۔ (ارشاد الساری شرح بخاری جلد 8 صفحہ 234،چشتی)
امام بدرالدین عينی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : قال الخطابي : اسم الحلواء لا يقع إلا على ما دخَلَتْهُ الصنعة، وفي (المخصَّص) لابن سِيدَه : هو كل ما عُولج مِن الطعام بحلاوة، و هو أيضًا الفاكهة ۔
ترجمہ : امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حلواء کا نام واقع نہیں ہوتا مگر اس پر جس میں کاریگری داخل ہو ، اور المخصص لابن سیدہ میں ہے : حلوی ہر وہ طعام ہے جسے میٹھے کے ساتھ شامل کیا گیا ہو (یعنی ملایا گیا ہو) ، اور وہ بھی فاکھہ ہے ۔ (عُمدة القاری شرح صحيح البخاری جلد 21 صفحہ 61)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
عموماً بزرگانِ دین میٹھی چیز سے محبت کرتے رہے ۔ اس لیے عموماََ فاتحہ و نیاز میٹھی چیز پر ہوتی ہے ، اس کی اصل یہ ہی حدیث ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ مؤمن میٹھا ہوتا ہے ، مٹھائی پسند کرتا ہے ۔ حلوے میں ہر میٹھی چیز داخل ہے ۔ حتیٰ کہ شربت اور میٹھے پھل اور عام مٹھائیاں اور عرفی حلوہ ۔ (مرقات) مروّجہ حلوہ سب سے پہلے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے بنایا ، حضورِ انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جس میں آٹا، گھی اور شہد تھا ۔ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت پسند کیا اور فارسی لوگ اسے دخیص کہتے ہیں ۔ (مرقات) ۔
(مراٰۃُ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 6 صفحہ 25 قادری پبلشرز اردو بازار لاہور)
شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفی اعظمی مجددی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : عام طور پر الحلواء کا ترجمہ شرینی کرتے ہیں یعنی ہر میٹھی چیز مگر حضرت شیخ محقق علامہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اشعۃ اللمعات جلد 3 صفحہ 491 میں "مجمع البحار" کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ اس حدیث میں الحلواء سے مراد حلوہ ہی ہے یعنی وہ کھانا جس میں گھی اور میٹھا ڈال کر پکایا جائے۔ ہمارے ہندوستان میں عام طور پر سوجی یا گیہوں کا آٹا یا چنے کا بیسن گھی اور شکر ملا کر جو کھانا پکتا ہے اس کو حلوا کہتے ہیں۔ اور حدیث میں یہی مراد ہے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حلوہ مرغوب اور پسندیدہ تھا۔
اور بعض شارحین حدیث نے فرمایا کہ الحلواء سے مراد وہ کھانا ہے جس کو مجیع کہتے ہیں جس کے پکانے کی ترکیب یہ ہے کہ کھجور کو پیس کر دودھ میں پکا دیا جائے، درحقیقت یہ بھی ایک حلوہ ہی ہے۔ بہرحال حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو مرغوب اور پسند تھا اور ہر وہ مسلمان جو اس غذا سے محبت کرے اور برغبت اس کو کھائے اور کھلائے، وہ ایک مسنون غذا سے محبت و رغبت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء ملت و مشائخ طریقت شب برات اور دوسرے مبارک دنوں اور برکت والی راتوں میں "حلوہ" پر فاتحہ دلا کر کھاتے اور کھلاتے ہیں۔ اور بہ نیت ادائے سنت اس غذا کو کھا کر اور دوسروں کو کھلا کر ثوابِ عظیم حاصل کرتے ہیں۔
اور جو لوگ شب برات کے حلوہ اور اس پر فاتحہ سے جڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شب برات میں ہر قسم کا کھانا پکانا جائز و درست ہے مگر حلوہ پکانا بدعت و ممنوع ہے۔ ہم ان لوگوں کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ایک ایسی غذا سے نفرت کرنا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی، سراسر ان لوگوں کی بدنصیبی اور مرحومی ہے۔ کیونکہ کسی سنت سے نفرت ایمان کی بربادی کا سگنل ہے۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو اس منحوسیت اور بد نصیبی کی لعنت سے محفوظ رکھے ۔ (جواہرالحدیث صفحہ 220 ، 221 ناشر اکبر بک سیلرز لاہور،چشتی)
دائرہ المعارف الاسلامیہ کےمطابق یہاں درختوں کے ایک جھنڈ کے درمیان گھرا ہوا ایک دیوی کا مندر ہے۔جس کے پیش نظر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیوبند کو دیوی بن (دیوی کا جنگل) کی بگڑی ہوئی شکل تصور کرنا چاہیے۔(دائرہ المعارف الاسلامیہ،جلد 9،طبع پنجاب یونیورسٹی لاہور)
اس بستی کا پرانا نام دیہی بن یعنی دیوی کا جنگل تھا۔(اترپردیش اتحاس،جلد1)
فیروزاللغات (فارسی قدیم) میں ہے کہ ’’دیوبند‘‘ کا لفظ سب سے پہلے قارون کےلیے استعمال ہوا یہ اسکا لقب تھا اور ایران کے بادشاہ جمشید کےلیے بھی یہ لقب پکارا گیا اور ’’دیو‘‘ شیطان کےلیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔(فیروز اللغات، فارسی قدیم)
محترم قارئین : دیوبند تاریخی اعتبار سے شیطانوں اور دیوؤوں کا ٹھکانہ تھا۔جس کو دیوبندی اکابر نے بسروچشم قبول کرلیا۔دیوبندی حضرات بڑےفخریہ طور پر کہتے ہیں کہ ہمارا مسلک دیوبند ہے تو مطلب تو واضح ہے کہ یو لوگ اپنا انتساب کھلے الفاظ میں شیطانوں سےکرتے ہیں ۔
دیو کے معنی شیطان
بند کے معنی قیدی
تو دیوبند کا معنیٰ ہوا شیطان کے قیدی
شیطان کے قیدی کی خوراک کی کہانی خود ان کے بانی کی کتاب کی زبانی کتاب کا نام : ملفوظات حکیم الامت مصنف کا نام حکیم الامت دیوبندعلامہ اشرف علی تھانوی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 322) ۔ ایک آدمی پاخانہ کھایا کرتا تھا منع کرنے سے کہتا ہے جب یہ میرے ہی اندر تھا اب اندر چلا جاوے تو کیا ہرج ہے تھانوی کہتا ہے یہ عمل بھی عقلیات میں ہو سکتا ہے ۔ (معاذاللہ)
فتاوا دارالعلوم دیوبند افادات مفتی عزیزالرحمن عثمانی حسب ہدایت قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند
ترتیب وتخریج مولانا محمد ظفیرالدین جلدنمبر 6 مسائل متفرقات صفحہ نمبر 409 سوال نمبر /268 کسی رنڈی یا ہندو کی بھیجی ہو افطاری سے روزہ افطار کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : مولوی زامن علی جلال آبادی کی رنڈیاں مرید تھیں تو رنڈی عورت کا پکا کھانا جائز ہے اور ہندوں سے مولانا تھانوی کو پیسے ملتے تھے تو ہندو عورت کا پکا کھانا جائز چاہے وہ ذمی ہو یا غیر ذمی
کتاب کا نام اکابر دیوبند کے ایمان افروز واقعات صفحہ نمبر 124 مصنف کا نام مولانا انور بن اختر کاشمیری
ہمارے مولانا الیاس کاشمیری سابقہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مرنے کے بعد مولانا کاشمیری کے منہ مبارک سے دودھ نکل پڑا کفن دینے کے بعد ہم نے پیا تو ایسے لگ رہا تھا جیسے بھینس کا تازہ دودھ نکل رہا ہے ۔
مردے کے منہ کی جھاگ پینے والو ، جس قوم کو دودھ اور جھاگ کے فرق کا پتا نہیں ، اس کے منہ میں گیارہویں کی کھیر کیسے جاۓ گی ۔
کوا دیوبندیوں کی اہم خوراک ہے : ⏬
قطب العالم دیوبند علامہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں مجھے کیا معلوم کوا کھانے میں اللہ نے اتنا اجر رکھا ہے ۔ (تذکرۃ الرشید جلد دوم صفحہ 64 )
قطب العالم دیوبند نے کوا کھانا حلال ہے کا فتویٰ دیا جب مخالفت میں فتوے آئے تو کہا مجھ کو کیا معلوم اللہ نے کوا کھانے میں اتنا اجر رکھا ہے ۔ (تذکرۃ الرشید حصّہ اوّل صفحہ 64 قدیم)
میلاد و شب برات کے کے حلوہ کا مذاق اڑانے والو حلوہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی پسند ہے جب اس کا مذاق اڑاؤ گے تو یہ کوے ہی کھانے نصیب ہونگے ۔ اہم بات قطب العالم دیوبند نے اللہ پر بہتان باندھا کہ کوا کھانے میں اللہ نے اجر رکھا ہے دیوبندیوں کو چیلنج قرآن و حدیث میں کہا اللہ نے کوا کھانے پر اجر بیان فرمایا ہے ؟
امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ کوّے کہ ہمارے دیار میں پائے جاتے ہیں اور اُلّو یہ سب حرام ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 20 صفحہ نمبر 320 جدید،چشتی)
قطب العالم دیوبند رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں کوا کھانے میں ثواب ہوگا ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر 598 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
قطب العالم دیوبند نے کوا کھانا حلال ہے کا فتویٰ دیا جب مخالفت میں فتوے آئے تو کہا مجھ کو کیا معلوم اللہ نے کوا کھانے میں اتنا اجر رکھا ہے ۔ (تذکرۃ الرشید حصّہ اوّل صفحہ 64 قدیم)
وہابیوں کی پسندیدہ غذا : ⏬
ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﺧﻮﺭ ﻗﻮﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ غیر مقلد وہابی حضرات ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻧﮯ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼ ﺩﯾﺎ تاکہ اپنے آقا انگریز کو خوش کر سکیں ۔
علامہ صدیق حسن خان غیر مقلد وہابی لکھتے ہیں : خنزیر کے حرام ہونے سے اس کا ناپاک ہونا ہر گز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں ۔ (بدور الاہلہ صفحہ نمبر 16)
غیر مقلدین کے نزدیک انسان کے بال ، مردار اور خنزیر پاک ہیں اور خنزیر کی ہڈی ، کھُر ، پٹھے ، سینگ تھوتھنی سب پاک ہیں ۔(کنز الحائق صفحہ 13 غیر مقلد نواب وحید)
علامہ نور الحسن بن نواب صدیق حسن غیر مقلد وہابی لکھتا ہے خنزیر کے ناپاک ہونے کا دعویٰ ناتمام ہے ۔ (یعنی خنزیر ناپاک نہیں)۔(عرف الجادی صفحہ 10 غیر مقلد عالم )
نواب صدیق حسن خان ، نواب نور الحسن خان اور نواب ﻭﺣﯿﺪ ﺍﻟﺰﻣﺎﮞ دونوں غیر مقلد وہابی علماء ﻧﮯ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻝ ﺟﯿﺴﺎ ﭘﺎﮎ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻋﺰﺕ ﺩﯼ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﭘﺎﮎ ﮐﮩﺎ تیسرے نے کہا خنزیر کے ناپاک ہونے کا دعویٰ غلط ناتمام ہے ۔
ہمارا ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ حلوے کا مذاق اڑانے والوں سے تھا اور ہے : ہمارا مطالبہ یہ ہے ﮐﮧ ﺁپ لوگوں کا ﺩﻋﻮﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ آپ لوگ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﺮ ﮨﺮ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺢ ﺻﺮﯾﺢ ﻏﯿﺮ ﻣﻌﺎﺭﺽ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﯿﺢ ﺻﺮﯾﺢ ﻏﯿﺮ ﻣﻌﺎﺭﺽ ﺣﺪﯾﺚ ﺍﯾﺴﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ( ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ( ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﯿﺶ ﻧﮧ ﮐﺮﺳﮑﮯ ، ﺍﺩﮬﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﺍﮨﻞ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻣﻼﻣﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻣﻠﮑﮧ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ ﮐﯽ ﭼﺎﭘﻠﻮﺳﯽ ﮐﯽ ﺣﺪ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﺗﮏ ﮐﻮ ﭘﺎﮎ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ غیر مقلدین حضرات ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻼﺅﮞ ﺳﮯ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﮧ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻻﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺎﮨﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺣﻨﻔﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ “میں ایسا ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ۔ یہ کوئی جواب نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسند حلوہ کا مذاق اڑانے والو اب یہی تو تمہارا نصیب ہونا تھا کہ خنزیر تمہاری ماؤں کی طرح ہے یاد رہے یہ تمہارے علماء نے لکھا تو خنزیر جیسی مائیں تمہارے جیسے گستاخ بچے ہی پیدا کریں گی نا ہم نہیں کہہ رہے آپ کے علماء نے لکھا ہے ۔ علمی جواب کا منتظر ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment