Saturday 30 June 2018

سجدہ سے متعلق شرعی احکام اور حرمت سجدہ تعظیمی

0 comments
سجدہ سے متعلق شرعی احکام اور حرمت سجدہ تعظیمی

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبْلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ٭۫ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۴﴾
ترجمہ : اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا ۔

اسْجُدُوۡا لِاٰدَمَ: آدم کو سجدہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالَم روحانی و جسمانی کا مجموعہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایاتو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنے مقولہ’’اَتَجْعَلُ فِیۡہَا ‘‘ کی معذرت بھی ہے۔ بہرحال تمام فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیااور ملائکہ مقربین سمیت تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہے اوراس جیسے انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے ۔ اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا۔حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ قرآن پاک کی سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔

اس آیت میں سجدے کا ذکر ہے اس مناسبت سے یہاں سجدے سے متعلق چند احکام بیان کئے جاتے ہیں :

(1)… سجدے کی دو قسمیں ہیں : (۱)عبادت کا سجدہ(۲) تعظیم کا سجدہ۔ ’’عبادت کا سجدہ‘‘ کسی کو معبود سمجھ کر کیا جاتا ہے اور’’ تعظیم کا سجدہ‘‘ وہ ہوتا ہے جس سے مسجود(یعنی جسے سجدہ کیا جائے اس) کی تعظیم مقصود ہوتی ہے ۔

(2)…یہ قطعی عقیدہ ہے کہ’’ سجدئہ عبادت‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے کسی اور کے لیے نہیں ہوسکتا اورنہ کسی شریعت میں کبھی جائز ہوا۔

(3)… فرشتوں نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تعظیمی سجدہ کیا تھا اور وہ باقاعدہ پیشانی زمین پر رکھنے کی صورت میں تھا ،صرف سر جھکانا نہ تھا۔

(4)… تعظیمی سجدہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا ہماری شریعت میں منسوخ کردیاگیا اب کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ لہٰذا کسی پیر یا ولی یا مزار کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام ہے لیکن یہ یاد رہے کہ تعظیمی سجدہ کرنے والوں پر یہ بہتان باندھنا کہ یہ معبود سمجھ کر سجدہ کرتے ہیں یہ اس تعظیمی سجدہ سے بڑا جرم ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کو مشرک و کافر کہنا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ نے غیرُاللہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے حرام ہونے پر ایک عظیم کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے: ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ (غیرُ اللہ کیلئے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے کا بیان)‘‘یہ کتاب فتاویٰ رضویہ کی 22 ویں جلد میں موجود ہے اور اس کا مطالعہ کرنا انتہائی مفید ہے ۔

غیر اللہ کو سجدہ کسی طرح جائز نہیں نہ بطورِ عبادت نہ بطریق تعظیم۔ حرمت سجدہ پر قرآن و احادیث شاہد و ناطق ہیں۔ آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں۔ (1) یا ایھا الذین آمنوا ارکعوا واسجدوا واعبدوا ربکم۔(سورۃ الحج آیت۷۷) اے ایمان والو اپنے رب کے لئے رکوع کرو، سجدہ کرو اور عبادت کرو۔ (2) فاسجدوا للّٰہ واعبدوہ۔(سورۃ النجم آیت۲۶) اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو۔ (3) واسجدو للّٰہ الذی خلقھن ان کنتم ایاہ تعبدون۔(سورۃ فصّلت آیت ۷۳)اور اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیداکیا اگر تم اس کے بندے ہو۔

اور اس سلسلے میں احادیث کثرت سے وارد ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث جسے امام ترمذی نے روایت فرمایا ہے لکھی جاتی ہے ۔

عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم لو کنت آمرا احدا ان یسجد لاحد لامرت المرأۃ ان تسجد لزوجھا۔
ترجمہ : اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم کرتا تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ (جامع ترمذی رقم ۹۵۱۱۔مسنداحمدبن حنبل رقم۲۲۴۹۱۔مسندالبزار رقم۸۱۳۴۔السنن الکبری للبیہقی رقم ۱۰۱۵۱،چشتی)

البتہ امم سابقہ میں سجدۂ تعظیمی جائز تھا اور حضرت آدم علیہ السلامکو جو فرشتوں نے سجدہ کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو جو ان کے بھائیوں نے اور والد نے سجدہ کیا وہ اسی قبیل سے تھا مگر سجدۂ تعظیمی ہمیں جائز نہیں کہ ہماری شریعت نے ہمیں اس سے روکا ہے جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے ۔

امام ابوبکر جصاص حنفی رحمۃ اللہ علیہ احکام القرآن میں فرماتے ہیں۔وقدکان السجود جائزا فی شریعۃ آدم علیہ السلام للمخلوقین و یشبہ ان یکون قد کان باقیا الی زمان یوسف علیہ السلام الخ ۔
ترجمہ : مخلوق کو سجدہ کرنا آدم علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھااور شاید حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے تک باقی رہا ۔
اسی میں ہے۔الا ان یکون السجود لغیر اللّٰہ تعالی علی وجہ التکرمۃ والتحیۃ منسوخ بماروت عائشۃ و جابر ابن عبداللّٰہ و انس ان النبی علیہ السلام قال ما ینبغی لبشر ان یسجد لبشر و لو صلح لبشر ان یسجد لبشر لامرت المرأۃ ان تسجد لزوجھا من عظم حقہ علیھا۔(احکام القرآن ص 35 ج1،چشتی)
ترجمہ:مگریہ کہ غیراللہ کوسجدہ تکریم یا تحیۃ کے طورپرمنسوخ ہے اس وجہ سے جوحضرت عائشہ،جابربن عبداللہ اور حضرت انس سے روایت کیا گیا۔کسی انسان کی شان نہیں کہ وہ دوسرے کو سجدہ کرے اگر ایک انسان کا دوسرے انسان کو سجدہ کرناممکن ہوتاتوضرورمیں عورت کو اپنے شوہر کے حق کی عطمت کی وجہ سے سجدہ کرنے کاحکم دیتا۔ اور جس کو زیادہ تحقیق مطلوب ہو وہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمہ اللہ تعالی کے رسالہ ”الزبدۃ الزکیۃ فی تحریم سجدۃ التحیۃ“ کا مطالعہ کرے۔ ایسا شخص جس کا عقیدہ وہ ہو جو سوال میں مذکورہوا عند الشرع فاسق و فاجر و مستحق سزا ہے۔ حاکم وقت اپنی صوابدید پر اسے مناسب سزا دینے کا مجاز ہے اور لوگوں پر لازم ہے کہ ایسے شخص سے بچیں اس سے اُٹھنا بیٹھنا و سلام و کلام سب ترک کر دیں ۔

قال اللّٰہ تعالی و اما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین۔(سورۃ الانعام آیت ۸۶)

علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : ففیہ تحریم السجود لغیراللّٰہ تعالٰی (الاکلیل فی استباط التنزیل)
یعنی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ حرام قرار دیا گیا۔

حدیث : کسی شخص کا اونٹ بگڑ گیا کسی کو پاس نہ آنے دیتا حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے عرض کی ،آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم صحابہ کے ساتھ جب باغ پہنچے تو اونٹ کی طرف چلے لوگوں نے کہا کہ وہ اونٹ بائولا ہوگیا ہے مبادا حملہ نہ کردے۔ فرمایا ہمیں اس کا اندیشہ نہیں اونٹ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو دیکھ کر آپ کی طرف چلا اور قریب آکر حضور کے لیے سجدے میں گراحضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اس کے ما تھے کے بال پکڑکر کام میں دے دیا ۔صحابہ نے عرض کی کہ یہ چوپایہ ہے عقل نہیں رکھتا اور آپ کو سجدہ کر رہا ہے ہم توعقل والے ہیں زیادہ مستحق ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کسی بشر کو یہ لائق نہیں کہ بشر کو سجدہ کرے۔ (سنن نسائی)
ایک اور جگہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا بیشک سب لوگوں سے بدتر وہ لوگ ہیں جنکے جیتے جی قیامت قائم ہوگی اور وہ لوگ جو قبور کو جائے سجود ٹھراتے ہیں۔ (مسند امام احمد بن حنبل،چشتی)

عالموں اور بزرگوں کے سامنے زمین چومنا حرام ہے اور چومنے والا اور اس پرراضی رہنے والا دونوں گناہ گار ہیں ۔ (درمختار، مجمع الانھر، فتاوٰی عالمگیری، تبیین الحقائق)

سجدہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو جائزنہیں ۔ (فتاوٰی عالمگیری)


امام اہل سنت امام، احمد رضا فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ سجدہ تحیت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : مسلمان اے مسلمان ! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان ، جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عزوجل کے سوا کسی کے لئے نہیں ۔ اس کے غیرکو سجدہ عبادت تو یقینا اجماعا شرک مہین و کفرمبین اور سجدہ تحیت حرام و گناہ کبیرہ بالیقین ۔ ہاں ! مثل صنم و صلیب و شمس و قمر کے لئے سجدے پر مطلقا اکفار ۔ تو قرآن عظیم نے ثابت فرمایا کہ سجدہ تحیت ایسا سخت حرام ہے کہ مشابہ کفرہے ۔ والعیاذباللہ تعالی ۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو سجدہ تحیت کی اجازت چاہی ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ کیا تمھیں کفر کا حکم دیں ۔ معلوم ہوا کہ سجدہ تحیت ایسی قبیح چیز ہے جسے کفر سے تعبیر فرمایا ۔ جب خود حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے سجدہ تحیت کا یہ حکم ہے تو پھر اوروں کا کیا ذکر ؟ واللہ الھادی ۔ (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحۃ ۔ کتب خانہ سمنانی میرٹھ ۔ صفحہ 05 اور 10،چشتی)

نوٹ : حضرت فاضل بریلوی رحمتۃ اللہ علیہ کی یہ کتاب اتنی مدلل اور وقیع ہے کہ اس کے بارے میں علامہ ابو الحسن علی ندوی دیوبندی نے لکھا ہے کہ : یہ ایک جامع رسالہ ہے جس سے مولانا بریلوی کے وفور علم اور ان کی وسعت معلومات کا پتہ چلتا ہے "
(نزھۃ الخواطر ۔ صفحہ 40 ۔ جلد ہشتم،چشتی)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ : غیر خدا کو سجدہ کرنا شرک ہے اور سجدہ تعظیم حرام ہے ۔ (تفسیر نعیمی ج3)

مفتی اجمل قادر ی رضوی رحمۃ اللہ علیہ : ہماری شریعت میںیہ سجدۂ تعظیمی حرام ہے (فتاویٰ اجملیہ ج4)

اصل میں سجدہ کی دو بنیادی اقسام ہیں: اور اسلامی و شرعی لٹریچر میں واضح بیان کی گئی ہیں: ایک قسم سجدہء عبادت دوسرا سجدہء تعظیمی۔۔۔جناب سیدناآدم و سیدنایوسف علی نبینا و علیہ السلام کو جو سجدہ ہوا وہ سجدہ تعظیمی تھا ۔ ۔دوسری شریعتوں میں سجدہ تعظیمی ،رب العزت کے علاوہ جائز رکھا گیا تھا۔۔سجدہ عبادت کسی بھی شریعت میں کسی بھی حالت میں کبھی بھی جائز نہیں رہا اور نہ ہی یہ عملا ممکن تھا،بلکہ یہ تو منطق کی اصطلاح میں "ممتنع" ہے۔۔۔سجدہ تعظیمی دوسری شرائع میں جائز تھا ۔۔۔مگر ہماری شریعت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے اسے بھی حرام فرمادیا۔۔۔جی ہاں! حرام ،،یعنی اگر کوئی شخص سجدہ، عبادت کی نیت سے کرتا ہےتو ''شرک'' ہے،لیکن اگر تعظیما کرتاہےتو''حرام "ہے ۔

سجدہء تعظیمی (کسی کی عزت و تعظیم کی نیت سے کیا گیا سجدہ) تو اس کے بارے میں چاروں آئمہ امت حتی کہ غیر مقلدین سمیت ساری امت متفق ہے کہ سجدہء تعظیمی شریعت محمدی :صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : سے پہلے بعض امتوں میں جائز تھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کا سجدہ یا حضرت یوسف علیہ السلام کو کیا گیا سجدہ بھی اسی سجدہء تعظیمی کی مثالیں ہیں۔ لیکن حضور نبی اکرم :صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : کے بعد شریعت اسلامیہ میں یہ سجدہ بھی حرام و ممنوع قرار دے دیا گیا۔ یہ حکم براہ راست سنن ابن ماجه ، كتاب النكاح ، باب حق الزوج على المراة ، حدیث نمبر : 1926 اس حدیث پاک سے ثابت ہے ۔

صحابیء رسول :صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک بار ملک شام گئے ۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ شامی لوگ اپنے اکابرین اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں ۔ وہ جب واپس لوٹے تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو آکر سجدہ کیا ۔ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے پوچھا : معاذ - یہ کیا بات ہے ؟
تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم میں نے اہلِ شام کو اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو آقا آپ :صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : تو اس (سجدہ)کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ت 1159 ـ حسن صحيح , ابن ماجة ( 1853،چشتی)
ترجمہ : اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے (لیکن سجدہ کسی کے لیے جائز نہیں)"حسن صحيح , ابن ماجة ( 1853 ) نتیجہ یہ نکلا کہ بطور امت محمدی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہمارے لیے سجدہ سوائے اللہ تعالی وحدہُ لاشریک کے کسی کو بھی کسی بھی نیت سے کرنا جائز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شرعی احکام کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بزرگوں کے ہاتھ اور ان کے مزارات و مقامات مقدسہ کو چومنا

0 comments
بزرگوں کے ہاتھ اور ان کے مزارات و مقامات مقدسہ کو چومنا

حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا : نعم، جئت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لم آت الحجر .
ترجمہ : ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422)

عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه أَنَّهُ جَاءَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے، پھر اسے بوسہ دیا، پھر فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے(اس حیثیت سے ) نہ نقصان دہ نہ فائدہ مند۔ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے دیکھا نہ ہوتا، تجھے (کبھی) نہ چومتا ۔ (بخاری، الصحیح، 2 : 579، رقم : 1520،چشتی)

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے : أما تقبيل الأماکن الشريفة علی قصد التبرک وکذلک تقبيل أيدي الصالحين وأرجلهم فهو حسن محمود باعتبار القصد والنيه وقد سأل أبو هريرة الحسن رضی اﷲ تعالی عنه أن يکشف له المکان الذي قبله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وهو سرته فقبله تبرکا بآثاره وذريته صلی الله عليه وآله وسلم وقد کان ثابت البناني لايدع يد أنس رضی اﷲ تعالی عنه حتی يقبلها ويقول يد مست يد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. . . أن الامام أحمد سئل عن تقبيل قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم وتقبيل منبره فقال لا بأس بذلک قال فأريناه للشيخ تقی الدين بن تيمية فصار يتعجب من ذلک ويقول عجبت أحمد عندي جليل بقوله هذا کلامه أو معنی کلامه قال وأي عجب في ذلک وقد روينا عن الامام أحمد أنه غسل قميصا للشافعي وشرب الماء الذي غسله به واِذا کان هذا تعظيمه لأهل العلم فکيف بمقادير الصحابه وکيف بآثار الأنبياء عليهم الصلاة والسلام ولقد أحسن مجنون ليلی حيث يقول :

أمر علی الديار ديار ليلی
أقبل ذا الجدار وذا الجدارا

وما حب الديار شغفن قلبی
ولکن حبُّ من سکن الديارا

قال المحب الطبري يمکن أن يستنبط من تقبيل الحجر واستلام الأرکان جواز تقبيل ما في تقبيله تعظيم تعالی فانه ان لم يرد فيه خبر بالندب لم يرد بالکراهه ۔

ترجمہ : حصول برکت کے ارادے سے مقامات مقدسہ کو چومنا، اسی طرح نیک لوگوں کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینا، نیت و ارادہ کے اعتبار سے اچھا اور قابل تعریف کام ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے امام حسن مجتبی رضی اﷲ عنہ سے عرض کی کہ وہ اپنی ناف سے کپڑا اٹھائیں جس کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسہ دیا تھا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی اولاد کے آثار سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسے بوسہ دیا۔ اور (امام) ثابت بنانی جب تک بوسہ نہ دیتے حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ نہ چھوڑتے اور فرمایا کرتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک کو چھوا ہے ۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور منبر اقدس کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ کہا کہ ہم نے یہ قول جب شیخ تقی الدین ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اس پر تعجب کرنے لگے اور کہا مجھے تعجب ہے ۔ میرے نزدیک تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات یا اس سے ملتی جلتی بات عجیب سی لگتی ہے۔ (محب طبری نے ) کہا اس میں تعجب کس بات پر ؟ ہم نے تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات سنی ہے کہ آپ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی قمیض دھو کر اس کا دھون پی لیا تھا تو جب وہ اہل علم کی اتنی تعظیم کرتے تھے تو پھر آثار صحابہ رضی اﷲ عنہ آثار انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام سے کتنی عزت و عظمت سے پیش آتے ہوں گے۔ لیلیٰ کے مجنوں (قیس عامری) نے کیا خوب کہا :

جب لیلیٰ کے شہر سے گزرتا ہوں
کبھی اس دیوار کو چومتا ہوں کبھی اس کو

مکانوں کی محبت نے میرا دل دیوانہ نہیں بنا رکھا
بلکہ ان میں بسنے والوں کی محبت نے یہ حال کر رکھا ہے

علامہ محب طبری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : یہ بھی ممکن ہے کہ حجر اسود اور ارکان کے بوسہ دینے سے ہر اس چیز کو چومنے کا مسئلہ نکالا جائے جس کے چومنے سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم ہے اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث اس عموم استحباب پر مروی تو نہیں مگر اس کی کراہت پر بھی تو کوئی روایت نہیں ۔

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : میں نے اپنے دادا محمد بن ابو بکر کے بعض حواشی میں امام ابو عبد اﷲ محمد بن ابی الصیف رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھا دیکھا ہے کہ کچھ آئمہ دین قرآن کو دیکھتے تو اسے بوسہ دیتے جب اجزائے حدیث کو دیکھتے تو ان کو بوسہ دیتے اور جب نیک لوگوں کی قبروں پر نظر پڑتی تو ان کو بوسہ دیتے فرمایا یہ کچھ بعید نہیں ۔ (عینی، عمدۃ القاری، 9 : 241،چشتی)

عن داؤد بن أبي صالح قال أقبل مروان يوما فوجد رجلا واضعا وجهه علی القبر فقال أ تدري ماتصنع فأقبل عليه فاذا هو أبو أيوب فقال نعم جئت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ولم آت الحجر سمعت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقول لا تبکوا علی الدين إذا وليه أهله ولکن ابکوا عليه إذا وليه غير أهله ۔
ترجمہ : داؤد بن ابی صالح کہتے ہیں ایک دن مروان آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے کہا جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ وہ شخص مروان کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ فرمایا ہاں میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے جب دین کے معاملات اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر مت روؤ۔ ہاں جب امور دین نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر روؤ ۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422، الرقم : 23633، مؤسسة قرطبة مصر)(حاکم، المستدرک، 4 : 515، رقم : 8571)(طبراني، المعجم الکبير، 4 : 158، رقم : 3999)(طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 199، 200، رقم : 286 أيضاً، 10 : 169، رقم : 9362،چشتی) ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

کیا بزرگوں کی قدم بوسی سجدہ اور شرک ہے ؟

0 comments

کیا بزرگوں کی قدم بوسی سجدہ اور شرک ہے ؟

محترم قارئین : آج کل ہر جاہل اٹھتا ہے اور اہل اسلام پر شرک شرک کے فتوے لگا کر فتنہ و فساد پھیلاتا ہے جبکہ اسے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ شرک کسے کہتے ہیں اور کون کون سے اعمال شرک ہیں اور کون سے شرک نہیں ہیں بس انہیں ایک ہی سبق سکھایا گیا ہے کہ شرک شرک کرتے جاؤ انہیں مسائل میں سے ایک مسلہ محبت و عقیدت میں بزرگوں کی دست بوسی و قدم بوسی بھی ہے جسے یہ شرک کے ٹھیکیدار شرک کہتے ہیں نا جانے وہ اس کسے حیثیت میں اور کیونکہ شرک کہتے ہیں خیر ہم اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتے بلکہ اس مسلہ پر مستند دلائل پیش کرتے ہیں فیصلہ اہل اسلام پر چھوڑت ہیں کہ وہ سوچیں کہ ان جہلا کے شرک کے جاہلانہ فتوے کِن کِن مقدس ہستیوں پر لاگو ہوتے ہیں آیئے دلائل کی روشنی میں اس مسلہ کو سمجھتے ہیں :

زارع بن عامر جو وفدِ عبد القیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے سے مروی ہے : لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِيْنَةَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبِّلُ يَدَ رَسُولِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم وَرِجْلَهُ ۔
ترجمہ : جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے کود کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے ۔ اس حدیث کو صحاح ستہ میں سے سنن ابی داود (کتاب الادب، باب قبلۃ الجسد، 4: 357، رقم: 5225) میں روایت کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں اسے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے السنن الکبری (7: 102) میں اور امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دو کتب المعجم الکبیر (5 : 275، رقم : 5313) اور المعجم الاوسط (1 : 133، رقم : 418) میں روایت کیا ہے ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ''الادب المفرد'' میں باب تقبيل الرِّجل قائم کیا ہے یعنی ''پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان۔ '' اس باب کے اندر صفحہ نمبر 339 پر حدیث نمبر 975 کے تحت انہوں نے مذکورہ بالا حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : قَدِمْنَا, فَقِيْلَ: ذَاکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ نُقَبِّلُهَا .
ترجمہ : ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور اُنہیں بوسہ دینے لگے ۔

یہ الفاظ خاص مفہوم کے حامل ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صرف ہاتھ مبارک پکڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ہاتھوں کے علاوہ پاؤں مبارک کو بھی بوسہ دینے کا عمل جاری رکھا درآں حالیکہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑ رکھے تھے ۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسّال ‏رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ قومِ یہود کے بعض افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں : فَقَبَّلُوْا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ. وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ .
ترجمہ : انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا، اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں ۔
اس حدیث مبارکہ کو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے السنن (کتاب تحریم الدم، 7 : 111، رقم : 4078،چشتی) میں اور امام ابن ماجہ نے السنن (کتاب الادب، باب الرجل یقبّل ید الرجل، 2: 1221، رقم: 3705) میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو الجامع میں دو جگہ روایت کیا ہے: پہلی بار ابواب الاستئذان والآداب میں باب فی قبلۃ الید والرجل (5: 77، رقم: 2733) میں اور دوسری بار ابواب التفسیر کے باب ومن سورۃ بنی اسرائیل (5: 305، رقم: 3144) میں ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے المسند (4: 239، 240) میں، امام حاکم نے المستدرک (1: 52، رقم: 20) میں، امام طیالسی نے المسند (ص: 160، رقم: 1164) میں اور امام مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے الاحادیث المختارہ (8: 29، رقم: 18،چشتی) میں روایت کیا ہے ۔

اتنے اجل محدثین علیہم الرّحمہ کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں ۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا ۔

ممدوح وہابیہ ، دیابنہ علامہ ابن تیمیہ کے جلیل القدر شاگرد حافظ ابن کثیر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 101 کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خفا ہو کر جلال میں آگئے تو :
فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ.
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں، ہمیں معاف فرما دیجئے۔ اﷲ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو گئے ۔ اس روایت کو دیگر مفسرین نے بھی متعلقہ آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجل صحابی کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چومنا اور خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں منع نہ فرمانا کیا (معاذ اللہ) عقیدہ توحید کی خلاف ورزی تھا ۔

امام مقری رحمۃ اللہ علیہ (م 381ھ) اپنی کتاب تقبیل الید (ص: 64، رقم: 5) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اس نے آکر عرض کیا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن میں کچھ مزید چاہتا ہوں تاکہ میرے یقین میں اضافہ ہوجائے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تو اعرابی کے بلاوے پر ایک درخت اس کے پاس آیا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔ اس کے بعد طویل روایت ہے اور آخر میں اعرابی نے تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد عرض کیا : يا رسول الله! أئذن لي أن أقبل رأسك ورجلك .
ترجمہ : اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کاسر اقدس اور قدم مبارک چوم لوں ۔ اس کے بعد روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کو اجازت مرحمت فرمائی ۔ اور پھر اس اعرابی نے سجدہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی ۔ امام مقری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کردہ اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (11: 57) میں نقل کیا ہے ۔ نیز علامہ مبارک پوری نے بھی تحفۃ الاحوذی (7: 437) میں اس روایت کو نقل کیا ہے ۔
یہ روایت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم چومنے کی اجازت تو دی لیکن سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر قدم چومنا اور سجدہ کرنا برابر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ان کے مابین فرق نہ فرماتے اور دونوں سے منع فرما دیتے ۔
یہاں تک آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومے جانے پر چند احادیث کا حوالہ دیا گیا ، جس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قدم بوسی ہرگز کوئی شرکیہ عمل نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی ذات اقدس کے لیے بھی کبھی اس کی اجازت نہ دیتے ۔
کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُنہیں اِس عمل سے نہ روکنا اور سکوت فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی ؟
کیا صحابہ کرام ‏رضی اللہ عنھم کا یہ عمل سنتِ تقریری نہ قرار پایا ؟
اگر پاؤں چومنا نعوذ باﷲ سجدہ ہے تو کیا صحابہ کرام ‏رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کر رہے تھے؟
کیا (معاذ اﷲ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - جو توحید کا پیغام عام کرنے اور شرک کے خاتمے کے لیے مبعوث ہوئے - خود شرک کے عمل کی اجازت دے رہے تھے ؟
کاش! قدم بوسی پر اعتراض کرنے والے پہلے کچھ مطالعہ ہی کر لیتے ۔

کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قدم بوسی صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص ہے ۔ لہٰذا ذیل میں ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ غیر انبیاء صالحین اور مشائخ عظام اور اکابر اسلام کی دست بوسی و قدم بوسی کی کیا حقیقت ہے ؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ علماے ‏کرام اور مشائخ عظام کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی نسبت سے تعظیم و احترام بجا لانا منشاء اِسلام ہے ۔ اِن کی تعظیم کو شرک کہنا باطل اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے ۔ کتب سیر و احادیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اکابرین کی قدم بوسی ہمیشہ اہل محبت و ادب کا معمول رہی ہے ۔ اِس سلسلے میں چند نظائر پیش خدمت ہیں :

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، وہ بیان کرتے ہیں : رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَيْهِ وَيَقُوْلُ: يَا عَمِّ ارْضَ عَنِّي .
ترجمہ : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں چومتے دیکھا اور آپ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: اے چچا! مجھ سے راضی ہوجائیں ۔ اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الادب المفرد (ص: 339، رقم: 976) میں، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سیر اعلام النبلاء (2: 94) میں، امام مزی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الکمال (13: 240، رقم: 2905) میں اور امام مقری رحمۃ اللہ علیہ نے تقبیل الید (ص: 76، رقم: 15،چشتی) میں روایت کیا ہے ۔

آسمان علم کے روشن ستارے اور ہر مسلک و مکتبہ فکر کے متفقہ محدث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب الادب المفرد میں ہاتھ چومنے پر ایک پورا باب (نمبر 444) قائم کیا ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب تقبيل اليد میں ''ہاتھ چومنے'' کے حوالے سے تین احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے؛ اور جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری آدابِ زندگی بتارہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اِس باب کے فوری بعد پاؤں چومنے کا باب - بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل - لائے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الادب میں ان ابواب کو ترتیب دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھ چومنا اور قدم چومنا آداب میں سے ہے ۔ اگر وہ اس عمل کو شرک یا سجدہ سمجھتے تو کبھی بھی آداب زندگی کے بیان پر مشتمل اپنی کتاب میں یہ ابواب قائم نہ کرتے اور نہ ہی ایسی احادیث لاتے ۔

اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد امت مسلمہ کے نزدیک ثقہ ترین محدث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے شہر نیشاپور میں جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس حاضر ہوئے تو اَئمہ کے اَحوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ماتھا چوما اور پھر ان سے اجازت مانگی کہ : دعني حتی أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله .
ترجمہ : اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں ۔
اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ ابن نقطہ رحمۃ اللہ علیہ نے 'التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (1: 33)'میں، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے 'سیر اعلام النبلاء (12: 432، 436)' میں، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے 'تہذیب الاسماء واللغات (1: 88)' میں، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمۃ فتح الباری (ص: 488)' میں اور برصغیر کے نام ور غیر مقلد نواب صدیق حسن قنوجی نے 'الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ (ص: 339،چشتی) میں روایت کیا ہے ۔

علامہ شروانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ حواشی (4: 84)' میں لکھتے ہیں : قد تقرّر أنه يسنّ تقبيل يد الصالح بل ورجله ۔
ترجمہ : یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ صالح شخص کے ہاتھ اور پاؤں چومنا مسنون عمل ہے ۔

حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا : نعم، جئت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لم آت الحجر .
ترجمہ : ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422)(حاکم، المستدرک، 4 : 515، رقم : 8571)(طبراني، المعجم الکبير، 4 : 158، رقم : 3999)(طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 199، 200، رقم : 286 أيضاً، 10 : 169، رقم : 9362،چشتی)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

مسلک دیوبند کے نام ور عالم اور جامع الترمذی کے شارح علامہ ابو العلاء عبد الرحمان بن عبد الرحیم مبارک پوری کا علم الحدیث میں ایک نمایاں مقام ہے ۔ انہوں نے تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کی جلد سات کے صفحہ نمبر 437 پر ہاتھ اور پاؤں چومنے پر مذکورہ بالا تمام روایات بطور استشہاد درج کی ہیں، جس کے ان کے مسلک و مشرب کا واضح پتا چلتا ہے ۔ اِس طرح کی بے شمار روایات بطور حوالہ پیش کی جاسکتی ہیں ، مگر چند ایک کے حوالہ جات دینے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے ، جوکہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ صلحاء اور اَتقیاء کی دست بوسی و قدم بوسی کرنا جائز اور پسندیدہ عمل ہے ۔ اہل تصوف و روحانیت مانتے ہیں کہ قدم بوسی معمول کا عمل نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنے والا عقیدت و محبت سے کرتا ہے ۔ اور ایسا عمل بالخصوص قدم بوسی کا عمل ایسی شخصیت کے لیے بجا لایا جاتا جو علم و عمل میں اپنے دور کے امام کی حیثیت رکھتی ہو ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Friday 29 June 2018

رافضی کسےکہتے ہیں رافضی و لفظ شیعہ کا معنیٰ و مفہوم شیعوں کے فریب کا جواب

0 comments
رافضی کسےکہتے ہیں رافضی و لفظ شیعہ کا معنیٰ و مفہوم شیعوں کے فریب کا جواب

رافضی کے معنی : (مجازاً) شیعہ انحراف کرنے والا اہل تشیع کا ایک فرقہ سپاہیوں کا وہ گروہ جو اپنے سردار کو چھوڑ دے فرقہ رافضہ فرقہ رافضہ کا ایک فرد رافضی کے انگریزی معنی :
(one of) a Shi'ite dissenting sect (Plural) روافض rva'fizadj & n.m

رافضہ یا روافض کے لفظ کے ساتھ کوئی پیشین گوئی حدیث میں نہیں ہے ۔ البتہ ان لوگوں نے ایسے ایسے عقیدے گھڑے جو قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہیں ، اس لیئے علماء نے اس جماعت کا نام رافضی رکھا ۔ رافضی کے معنی ہیں تارکِ اسلام ۔ چونکہ انہوں نے اپنے عقائد باطلہ کی وجہ سے اسلام کو چھوڑدیا اس لیئے انہیں رافضی کہا جاتا ہے ۔ مثلاً ان کے عقائد میں سے یہ عقیدہ ہے کہ قرآن تحریف شدہ ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کے قائل ہیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں ۔ حضرت جبرئیل علیہ السّلام کو خائن کہتے ہیں یعنی وحی امام غائب کے پاس لانے کے بجائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ۔ اپنے بارہ اماموں کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ان کو اللہ کی طرف سے نیا دین دیا گیا اور آسمانی نئی کتاب دی گئی ہے ۔

شیعہ در حقیقت رافضی ہی ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو بطور تقیہ شیعہ ظاہر کرتے ہیں تاکہ غیر مضر تشیع کے ذریعے اہلِ سُنّت و جماعت میں بھی رہا جائے اور جب موقعہ ملے تو اپنی رافضیت کو ظاہر بھی کر دیا جائے ۔

شیعہ کا لفظ قرآن مجید میں مذکور ہے۔ لیکن "سنُی" کا لفظ نہیں ہے جو کہ شیعہ مذہب کی صداقت کا ثبوت ہے ؟

اعتراض کا جواب : اہل تشیع بڑی شدومد کے ساتھ بھولے بھالے اہلسنت کو ورغلانے کے لیئے ایک جال پھیلاتے ہیں کہ دیکھو۔ تم اہلسنت ہمیں برا بھلاکہتے ہو، اور اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہو ۔ ایسا نہیں بلکہ معاملہ الٹ ہے۔ وہ اس طرح کہ قرآن کریم میں "شیعہ " کا لفظ موجود ہے ۔ "سنی " کا لفظ نہیں۔ اگر شیعہ بقول تمہارے اللہ اور اسکے رسول کے منکر اور ان کے مخالف ہوتے ۔ تو قرآن کریم میں بارہاا ن کا نام نہ آتا۔ اس لیئے شیعہ لوگوں کو ایک یہودی کے پیروکار بتلانا قطعاً درست نہیں۔ دیکھیئے قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اس لفظ کو استعمال فرمایا ۔ ان من شیعتہ لابراھیم۔ اللہ تعالیٰ کے "شیعہ" میں سے ایک ابراہیم بھی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے تبھی توآ پ بھی اسی کے ایک فرد کہلائے۔ جدالانبیاء علیہ السلام کا جو مذہب تھا۔ وہ آج بھی مقبول و محبوب ہے ۔ لہٰذا سنیوں کو بھی چاہیئے کہ اپنے تئیں سُنی کہلانے کی بجائے شیعہ کہلایا کریں ۔ اور پھراس سے بڑھ کر خود اہلسنت کی کتب میں بھی موجود ہے کہ جنتی ٹولہ یا فرقہ صرف "شیعہ " ہی ہے ۔ تو پھر کیوں اس سے اتنا بغض وحسد کیا جاتا ہے۔
صواعق محرقہ : عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال نزلت ھٰذہ الاٰیۃُ ان الذین امنو وعملو الصلحٰت اولٰئک ھم خیرالبریۃ قال رسول اللہ لعلی ھو انت وشیعتک یوم القیٰبۃ راضین مرضیین ۔ الصواعق المحرقہ صص ۱۶۱فصل ۱ في الآيات الوارده فيهم
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ ان الذین امنو الخ۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک کاموں کے پابند رہے ۔ وہ بہترین مخلوق ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ آیت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور ان کے شیعوں کے لیئے اتری ہے۔ وہ بروز حشر راضی رہیں گے اوراللہ تعالیٰ ان کو راضی کردے گا۔
یہ طعن اہل تشیع کے مناظر اور مبلغ مولوی اسماعیل شیعہ نے فتوحات شیعہ ص ۱۰۷ بعنوان شيعه کے حق میں پیشنگوئی۔ اور ص ۱۵۳ پر بعنوان "مذہب شیعہ قرآن میں"میں ذکر کیا ہے۔ ہم نے اس کا خلاصہ پیش کیا ہے۔
مذکورہ طعن کے تین ارکان
۱۔قرآن کریم میں شیعہ کا نام تو ہے لیکن سنی کا لفظ موجود نہیں۔۲۔حضرت ابراہیم علیہ السلام شیعہ تھے۔ ۳۔ شیعوں کا جنتی ہونا اہلسنت کی کتابوں سے ثابت ہے۔
ان تین باتوں سے ثابت ہوا کہ مذہب شیعہ ہی حق ہے اور اس کے پیروکار ہی جنتی ہیں۔ اور مذہب سنی کوئی اصل نہیں رکھتا۔ اس لیئے جنت کے خواہشمندوں کو شیعہ کہلانا چاہیئے۔
جواب ء اہلسنت بررکن اول؛۔
طعن مذکور کے رکن اول میں یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ شیعہ کا لفظ تو قرآن مجید میں موجود ہے "سنی" کا لفظ نہیں ۔ یہ قرآن کریم سے ناواقف ہونے کیوجہ سے کہا گیا ہے۔ اور حقیقت میں معترض اور اس کے ساتھی قرآن کریم کا علم رکھتے ہی نہیں۔ "سنی" سُنیت کی طرف منسوب ہے۔ اور یہ لفظ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔ چند مقامات پیش خدمت ہیں۔
"سنت" کا لفظ قرآن مجید میں موجود ہے چند آیات بطور حوالہ درج ذیل ہیں
آیت نمبر ۱
سُـنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَۨا۔ پاره ۲۲ايت ۳۸
ترجمہ:۔ خدا کا طریقہ ان لوگوں میں جو پہلے گزر گئے۔ ایک ہی چلا آتا ہے ۔ اور خدا کا حکم ایک حد پر اندازہ کیا ہوتا ہے۔
آیت نمبر ۲
يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوْبَ عَلَيْكُمْ۔سورہ النساء آیت ۲۶پارہ ۵
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ تمہارے لیئے پہلے لوگوں کے طریقے بیان فرمادے۔ اور ان کی طرف رہنمائی کردے اور تم پر رجوع فرمائے۔
آیت نمبر ۳
سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيْلًا ۔ پارہ ۱۵ ع ۸
ترجمه؛۔طریقہ ان رسولوں کا جو آپ سے قبل ہم نے بھیجے تھے اور تم ہمارے طریقہ میں ہیر پھیر نہ پاؤ گے۔
آیت نمبر ۴
سنۃ اللہ التی قدخلت من قبل ولن تجد لسنتنا تبدیلا۔ پ ۲۶ ع ۱۱
ترجمه؛اللہ کے طریقہ کے مطابق جو پہلے سے ہوتا چلا آیا اور تم اللہ کے طریقہ کو ہرگز تبدیل ہوتا نہ پاؤ گے۔
آیت نمبر۵
قد خلت سنۀ الاولين. پ ۱۴ ع ۱
ترجمه؛اورپہلوں کا طریقہ گزر چکا ہے۔
آیت نمبر ۶
الا ان تاۍتيځم سنۀ الاولين . پ ۱۵ ع ۱۹
ترجمه؛مگر یہ کہ آگیا ان کے پاس طریقہ گزرے لوگوں کا۔
آیت نمبر ۷
سنۃ اللہ التی قد خلت فی عبادہ وخسرھنا لک الکٰفرون۔ پ ۲۴.ع ۱۴
ترجمہ؛۔ اللہ کا طریقہ جو اس کے بندوں میں ہوگزرا۔ اور کافروہاں خسارے میں پڑے۔
آیت نمبر ۸
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ ۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ ۔ پ۹ ع آخری۔
ترجمہ؛۔ کفارسے کہہ دیجئیے کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ا ور اگر وہ پھر سے لوٹ کر کفر میں آگئے ۔ تو پھر پہلے سے گزرے لوگوں کا طریقہ ان کے ساتھ بھی برتا جائے گا۔
آیت نمبر ۹
سُـنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا ۔ الاحزاب آیت ۶۲
ترجمہ؛۔اللہ کا طریقہ گزرے لوگوں کے بارے میں۔ا ور تم اللہ کے طریقہ میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے۔
مذکورہ آیاتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور راستہ کو "سنت" کے لفظ سے تعبیر فرمایا۔ خصوصاً حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے طریقہ مبارکہ کو "سنت" کہا گیا۔ اور اس بات کو اہل تشیع کے مجتہدین ومفسرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔
تفسیر منہج الصادقین؛۔
(یرید اللہ) می خواہد خدا (لیبین لکم) تا بیان کند برائے شما۔۔۔۔(ویھدیکم) وراہ نماید شمارا (سکن الذین) راہ ہائے آنانکہ بودند (من قبلکم) پیش از شما یعنی دین ابراہیم واسماعیل۔ (حوالہ؛تفسیر منہج الصادقین جلد ۳ص۷ طباعت تهران طبع جديد،چشتی)
ترجمہ:۔ "اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ تاکہ تمہارے لیئے بیان کرے اور تمہیں راستہ دکھائے اُن لوگوں کی راہوں کی طرف جو تم سے پہلے گزر چکے یعنی حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے دین کی طرف۔
قرآن کریم میں لفظ "سُنت" کے مذکور ہونے کے بارے میں ہم نے جو آیات درج کی ہیں۔ آپ اُن میں غورفرمائیں۔ تو دوچیزیں سامنے آئیں گی۔ اول یہ کہ بعض مقامات میں اس لفظ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف مضاف کیا۔ (یعنی سنۃ اللہ) اور بعض آیات میں اس لفظ کی اضافت اس کے نیک بندوں یعنی حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی طرف کی گئی ہے۔ اہلسنت کے لیئے یہ کتنی بڑی سعادت اور خوش بختی ہے کہ انہوں نے اپنے طریقہ کے امتیاز کے لیئے وہی لفظ استعمال کرنا پسند کیا جس کی اضافت اللہ اور اسکے رسولوں کی طرف ہے۔ لفظ "سنت " کا ایسا امتیازی استعمال کہ کتب شیعہ میں بھی اس کی تصدیق وتائید موجود ہے۔
لفظ سنت کی عظمت کتب اہل تشیع میں؛۔
فروع کافی؛۔
عربی کی الکافی ایڈیشن میں کچھ یوں تحریر ہے کہ ۔ قال من احب ان یتبع سنتی فان سنتی التزویج۔ اور
وسائل الشیعہ جلد ۱۴ ص ۹ کتاب النکاح باب کراهته الغروبته مطبوعہ تہران طبع جدید میں لکھا ہے ۔ فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔ یعنی جو بھی میری سنت سے منہ پھیرے گا وہ میرا نہیں ہے۔
جلا ء العیون:۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے فارغ ہوئے ۔ تو آپ نے مدینہ منورہ کی طرف روانگی کے دوران ایک عظیم فصیح وبلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں یہ الفاظ بھی تھے۔

جلاء العیون: "وصیت می فرمود ایشاں را کہ دست از سنت وطریقہ اوبرنہ دارد"۔ (جلاء العیون جلد اول، صفحہ ۵۹ فصل ۴ دربيان وصيت مطبوعه تهران جديد،چشتی)
ترجمہ؛۔ آپ نے صحابہ کرام کو مخاطب فرما کر ان کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو وصیت فرمائی ۔ کہ میری سنت اور میرے طریقے سے کبھی بھی ہاتھ نہ اٹھانا۔ (یعنی اس کی پابندی کرتے رہنا)۔

معانی الاخبار : عن جعفر بن محمد عن آبائہ علیھم السلام قال قالَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما وجدتم فی کتاب اللہ عزوجل فالعمل لکم بہ لاعذرلکم فی ترکہ ومالم یکن فی کتاب اللہ عزوجل وکانت فیہ سنتہ منی فلاعذرلکم فی ترک سنتی۔ (حوالہ؛۔ معانی الاخبار تصنیف ابن بابویہ قمی ، ص۱۵۶باب معني قول النبي صلي الله عليه وسلم مثل اصحابي الخ، مطبوعه بيروت طبع جديد،چشتی)
ترجمہ؛۔ "امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اپنے آباؤاجداد سے روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہیں جو حکم اللہ رب العزت کی کتاب میں سے ملے۔ تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کے چھوڑنے پر کوئی عذر تمہیں نہیں کرنا چاہیئے۔ اور وہ حکم جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے نہ ملے۔ اور اس کے بارے میں میری طرف سے کوئی سنت مل جائے تو پھر میری سنت کے ترک میں کوئی عذرنہ ہونا چاہیئے"۔
قرآن حکیم کی آیات اور شیعہ مفسرین ومجتہدین کی کتب معتبرہ میں سے بھی آپ پڑھ چکے ۔ کہ لفظ "سنت" کئی دفعہ ذکر ہوا۔ اور اسکی نسبت اللہ نے اپنی طرف یا اپنے برگزیدہ بندوں کیطرف کی۔ اسلیئے ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہم منسوب الی السنت یعنی سُنی کہلاتے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے ۔پھر سنت پرعمل کرنے کی خود نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے تاکید فرمائی۔ اور اس کے تارک کے متعلق فرمایا۔ وہ ہمارا نہیں۔ نتیجہ یہی سامنے آیا۔ کہ معترض کا یہ کہنا کہ "سنی" کا قرآن و حدیث میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ محض لاعلمی پر مبنی ہے اور جہالت کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔
جواب رکن دوم؛۔
قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں مذکور ہے (وان من شیعتہ لابراھیم) بے شک ابراہیم علیہ السلام اس کے شیعوں میں سے ہیں۔ اس آیت میں اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیعہ کہا گیا ہے لیکن اس سےمراد موجودہ دور کے شیعہ (فرقہ) نہیں۔ اور نہ ہی "شیعان علی" ہیں۔ بلکہ اس "شیعہ " لفظ کی ضمیر کا مرجع حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ اب معنی یہ ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے شیعوں میں سے ایک شیعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں۔
لہٰذا اس آیت کریمہ سے یہ ثابت کرنا کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام موجودہ شیعوں میں سے تھے۔ بالکل غلط اور قرآن کریم کی تاویلِ غلط ہے۔ خود اہل تشیع مانتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت نوح علیہ السلام کا شیعہ کہا گیا ہے۔
تفسیر مجمع البیان ؛۔
"وان من شیعتہ لابراھیم ای واِنَ من شیعۃ نوح ابراھیم یعنی انہ علیٰ منھاجہ وسنتہ فی التوحید والعدل واتباع الحق"۔ حوالہ۔ تفسیر مجمع البیان جلد ۴ جز ۸ ص ۴۴۹ پاره نمبر ۲۳مطبوعه تهران طبع جديد۔
ترجمہ؛۔ "اللہ تعالیٰ کا ارشاد (اور بے شک ابراہیم اس کے شیعہ میں سے ہیں) یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے شیعہ میں سے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اسی طریقہ اور اسی راستہ ء توحید وعدل اور اتباع حق پر تھے ۔ جو حضرت نوح علیہ السلام کا تھا"۔
توجس طرح آیت مذکورہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا موجودہ دور کے شیعہ اور شیعان علی میں سے ہونا بالکل ثابت نہیں ہوتا۔ اسی طرح آیت مبارکہ سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ شیعہ مذہب ہی حق ہے۔ اوریہی پاکیزہ مسلک ہے کیونکہ لفظ "شیعہ" کے معنی گروہ کے ہیں۔ جیسا کہ خود نام سے بھی ظاہر ہے۔ "شیعان علی" حضرت علی المرتضےٰ رضی اللہ عنہ کے طرف داروں کو اور "شیعان معاویہ" حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حمایتیوں کو کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی مذہب کا نام نہیں۔ بلکہ کسی ایک گروہ پر لفظ شیعہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ چاہے وہ نیک لوگوں کا ہو یا برے لوگوں کا۔ خود قرآن کریم نے اسے گروہ کے معنی میں استعمال فرمایا ۔ جس میں نیک و بد کا امتیاز نہیں۔
قرآن کریم میں یہود و نصاری فرعونیوں اور جہنمیوں کو بھی "شیعہ" کہا گیا ہے۔
آیت نمبر (۱)۔(پ ۲۰ ع۵) ۔ترجمہ؛"بے شک فرعون زمین میں بڑا بن بیٹھا۔ اور زمین پر بسنے والوں کو شیعہ(گروہ درگروہ)کردیا"۔
آیت نمبر (۲)۔ (پ۸ ع۷)۔ترجمہ؛"بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ اور وہ شیعہ (گروہ) تھے۔ اے حبیب آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں"۔
آیت نمبر (۳)۔ (پ۷ع۱۴)۔ ترجمہ:"فرمادیجیئے! اللہ اس بات پر قادر ہے ۔ کہ تم پر اوپر سے یا پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے۔ یا تم کو شیعہ (گروہ درگروہ) بنا کر باہم لڑائے"۔
آیت نمبر (۴)۔ (پ۲۱)۔ ترجمہ:"جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ان مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ۔ اور وہ شیعہ ہوگئے"۔ (وکانو شیعاً)۔
آیت نمبر (۵)۔ (پ۱۶ع۸)۔ ترجمہ :"آ پ کے پرودگار کی قسم! ہم ضرور انہیں اور شیطانوں کو اکٹھا کریں گے۔پھر جہنم کے اردگرد ہم انہیں لاکھڑا کریں گے۔ پھر ہرشیعہ (گروہ) سے ان لوگوں کو علیحدہ کردیں گے۔ جو ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ سرکشی کا رویہ رکھتےہیں"۔
یعنی مذکورہ آیاتِ قرانیہ میں کہیں تو لفظ "شیعہ " اور کہیں "شیعاً" وارد ہوئے ہیں۔ پہلا مفرد اور دوسرا س کی جمع ہے۔ لیکن ان تمام آیات کریمہ میں اس لفظ سے مراد "مذہب شیعہ" نہیں ۔ اب ہم دنیائے شیعیت کو دعوت دیتےہیں ۔ کہ دوباتوں میں سے جوایک چاہیں اختیار کرلیں۔ اول یہ کہ شیعہ کا معنی گروہ ہے۔ دوم یہ کہ اس لفظ سے مراد "شیعہ مذہب" ہے۔
اگر شق اول تسلیم کرلی جائے، تو پھر یہ کہنا کہ قرآن کریم میں لفظ "شیعہ" ، مذہب ء شیعہ کے لیئے استعمال ہوا ہے بالکل ہی غلط اور لاعلمی کا مظہر ہے۔ کیونکہ گروہ عام مراد ہے۔ چاہے وہ کسی مسلمان کا ہو یا غیرمسلم کا۔ گروہ ء یزید کو "شیعانِ یزید" ، گروہ علی کو "شیعانِ علی" ، گروہ فرعون کو "شیعانِ فرعون" کہا جاتا ہے۔
اور اگر دوسری شق مراد ہو۔ تو پھر ان آیات میں مذکور اس لفظ سے مراد بھی یہی ہوگا ۔
۱۔ فرعون نے جب زمین میں سرکشی کی تو اس نے لوگوں کو شیعہ بنا دیا۔
۲۔جن لوگوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا وہ شیعہ تھے۔
۳۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اوپر نیچے ہرطرف سے عذاب دے گا۔ وہ شیعہ ہوں گے۔
۴۔اور تم مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ، کیونکہ مشرکین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور شیعہ ہوگئے۔
۵۔ پھر ہم ان شیعوں کو کھینچ کھینچ کر دوزخ میں ڈالیں گے۔
ذرا بتائیے کہ ان آیات میں لفظ "شیعہ " واقعی "شیعہ مذہب" کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس مذہب کے ماننے والے فرعون کا نشانہ ، دین کے ٹکڑے کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق، شرک کرنے والے اور دوزخی ہوئے۔ حالانکہ تم اپنے تئیں حق پر اور جنتی ہونے کا دعویٰ کررہے تھے۔ کہاں تمہارا دعوےٰ اور کہاں قرآن کریم کی مذکورہ آیات میں لفظ شیعہ کا مفہوم؟ اس کے باوجود اگر تمہیں اصرا ر ہے کہ قرآن کریم میں لفظ "شیعہ " ہرجگہ پر ہمارے مذہب حق کے لیے ہی استعمال ہوا ہے تو پھرتمہیں اس لفظ کا مستحق ہونے کی ڈھیروں مبارکیں ہوں اور اس میں مزید ترقی نصیب ہو۔ لیکن جاتے جاتے اتنا عرض کرجائیں کہ ، اسی طرح کی غلط اور گمراہ تاویلات (چھوٹے رافضی) یعنی (وہابی) کرتے ہیں ۔جیسے قرآن میں مثال کے طور پر (یداللہ) کا لفظ آیا ہے تو اس کے ظاہری معنی یعنی (اللہ کے ہاتھ) مراد لے کر اس کےلیئے تشبیہہ اور تجسیم رکھنے جیسے شرکیہ عقائد تک جا پہنچتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جملہ فتنوں سے بچائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ہاتھ پاؤں چومنا امام بخاری رحمۃُ اللہ علیہ کی نظر میں

0 comments
ہاتھ پاؤں چومنا امام بخاری رحمۃُ اللہ علیہ کی نظر میں

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘، باب نمبر 444 ’’باب تقبیل الید‘‘ میں حدیث نمبر 972 تا 974، امام بخاری نے ’’ہاتھ چومنے‘‘ کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے ۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آدابِ زندگی بتا رہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا ۔ اس باب کے تحت آپ نے 3 احادیث کا ذکر کیا ۔

ان میں سے پہلی حدیث (972،چشتی) میں ہے کہ : ’’حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ سے دشمن کی تعداد کے زیادہ ہونے اور اپنی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے اپنی موجودہ قوت کے خاتمہ کے ڈر سے میدان جنگ سے الٹے قدم واپس پلٹے اور یہ خیال کیا کہ ہم سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے راہ فرار نہیں اختیار کی بلکہ کامیابی کی طرف لوٹے ہو۔ پس ہم آگے بڑھے اور ’’فقبلنا يده‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ یہ حدیث سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، مسند اور امام احمد بن حنبل میں بھی روایت کی گئی ہے۔ اس کے بعد اگلی حدیث (973،چشتی) میں ہے کہ : عبدالرحمن بن رزین سے روایت ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ یہ حضرت سلمہ بن الاکوع ہیں، ہم ان کے پاس آئے اور سلام کہا، انھوں نے اپنے ہاتھ نکالے اور کہا کہ ان ہاتھوں سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ’’فقمنا اليها فقبلناها ‘‘ ’’ہم نے کی طرف بڑھے اور ان کے ہاتھوں کو چوما ۔

اس سے اگلی حدیث 974 میں ہے کہ : قال ثابت لانس امسست النبی صلی الله عليه وآله وسلم بيدک قال نعم فقبلها

’’حضرت ثابت البنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوا تھا۔ انہوں نے جواب دیا : ہاں، یہ سنتے ہی حضرت ثابت، حضرت انس کے ہاتھ چومنے لگے ۔

پہلی حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے۔۔۔ کئی لوگ اس کو نہیں مانتے اور اگر مان لیں تو کہتے ہیں کہ وہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومے تھے۔۔۔ اس کا آگے اطلاق نہیں ہوتا۔ اگلی حدیث امام بخاری اسی لئے لے آئے کہ جس طرح صحابہ کرام، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ پس اس سے اکابر کے ہاتھ چومنا سنت ثابت ہوا ۔

یہ احادیث لانے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اگلا باب 445 ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ قائم کیا۔ ان تراجم الابواب سے امام بخاری کا عقیدہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اکابر کے ہاتھ اور پاؤں چومنا سنت ہے۔ یہی امام مسلم کا عقیدہ ہے۔ امام بخاری جب نیشا پور میں تشریف لائے اور امام مسلم ان کے پاس حاضر ہوئے تو ائمہ کے احوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری سے اجازت مانگی کہ : يَا سَيّدُ الْمُحَدِّثِيْنَ يَا اُسْتَاذَ الاسْتَاذِيْن .
ترجمہ : اے محدثین کے سردار اور اساتذہ کے استاد مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے قدم چوموں ۔ اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک موقع پر اپنے استاد کے قدم چومنے کی اجازت مانگی ۔ پس اب یہ واضح ہے کہ آج ان عقائد کے حوالے سے کون امام بخاری و امام مسلم رحمۃ اللہ علیہما کے عقیدہ کے مطابق ہے اور کون ان کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ ہاتھ اور پاؤں چومنا کس کے عقیدہ اور مسلک میں جائز اور کہاں ناجائز ہے یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب 445 ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ ’’پاؤں چومنے کا باب‘‘ قائم کیا۔ ان تراجم الابواب سے امام بخاری کا عقیدہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اکابر کے ہاتھ اور پاؤں چومنا سنت ہے۔’’پاؤں چومنے کے باب‘‘ میں امام بخاری حدیث لائے ہیں کہ۔ترجمہ:حضرت وازع بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، ہمیں بتایا گیا کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو ہم گر پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک پکڑ لئے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین پکڑ لئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک چومے کیا یہ سنت آگے امت میں بھی چل سکتی ہے ؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر دیکھ رہی تھی کہ یہ سوال بھی کبھی ہوگا لہذا آپ اگلی حدیث اسی سوال کے جواب میں لائے ۔

الادب المفرد ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل‘‘ حدیث نمبر 976 میں فرمایا : عن صهيب قال رَاَيْتُ عَلِيًا يُقَبِّلُ يَدَالْعَبَّاس وَرِجْلَيْهِ .
ترجمہ : حضرت صھیب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور قدم چومتے دیکھا ۔ اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ باب نمبر 446 ’’قِيَامُ الرَّجُلِ لِلرَّجُّلِ تَعْظِيْمًا.‘‘ ’’ایک آدمی کا دوسرے آدمی کے لئے تعظیماً قیام کرنا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تعظیماً قیام کا باقاعدہ باب قائم کر رہے ہیں جبکہ صحیح بخاری پر اصرار کرنے والے آج تعظیماً قیام پر بحث کرتے پھرتے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)