اہل بیت سفینۂ نجات اور صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں رضی اللہ عنہم
اہلسنّت کا ہے بَیڑا پار اَصحابِ حُضُور
نَجم ہیں اور ناؤ ہے عِترَت رسولُ اللّٰہ کی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو سفینۂ نجات اور سلامتی کا ذریعہ قراردیا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار دیا ارشاد فرمایا : أصحابي كالنجوم ، فبأيهم اقتديتم اهتديتم ۔
ترجمہ : میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں ،تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پالوگے ۔ (مشکوۃ المصابیح ص 554، زجاجۃ المصابیح ج 5 ص 334) ۔ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں حضرت ملاعلی قاری رحمہ اللہ الباری امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ کے حوالہ سے رقمطراز ہیں : نحن معاشر اهل السنة بحمد الله رکبنا سفينة محبة اهل البيت واهتدينا بنجم هدی اصحاب النبی صلی الله عليه وسلم فنرجوا النجاة من اهوال القيامة ودرکات الجحيم والهداية الی مايوجب درجات الجنان والنعيم المقيم .
ترجمہ : الحمد للہ ہم اہل سنت وجماعت ، اللہ کے فضل وکرم سے اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کی کشتی میں سوار ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہدایت کے ستاروں سے رہبری پارہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں سے اورجہنم کے طبقات سے نجات عطا فرمائے گا، ہمیشہ رہنے والی اور نعمتوں والی جنت کے اونچے مقاما ت پر پہونچائیگا ۔ (حاشیہ زجاجۃ المصابیح ج 5 ص 315، باب مناقب اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،مرقاۃالمفاتیح ج5ص610،چشتی)
حدیث : أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ کے تمام راوی ثقہ ہیں
حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ” . (الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض » الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه … » الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره …، رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن،چشتی)
ترجمہ حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤگے۔
تخریج حدیث قاضی عیاض
اس حدیث کے رجال تمام کے تمام ثقہ ہیں
الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ الحسين بن محمد الصدفي
ان کے بارے میں امام ذہبی کا کہنا ہے کہ لإمام العلامة الحافظ، برع في الحديث متنا وإسنادا مع حسن امام علامہ الحافظ جن کی حدیث متن و سند کے لحاظ سے حسن ہوتی ہے
أَبُو الْحُسَيْنِ المبارك بن عبد الجبار الطيوري
ان کے بارے میں ابن حجر اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ہیں
وَأَبُو الْفَضْلِ أحمد بن الحسن البغدادي
ان کے بارے میں یحی بن معین السمعانی اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ ثقہ حافظ تھے
أَبُو يَعْلَى أحمد بن عبد الواحد البغدادى
خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں حسن تھے
أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ الحسن بن محمد السنجي
خطیب بغدادی کہتے ہیں یہ بڑے شیخ تھے اور ثقہ تھے
مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ محمد بن أحمد المحبوبی
یہ امام ترمذی کے شاگرد ہیں ان کے بارے میں امام حاکم صاحب مستدرک اور امام ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ ثقہ حافظ تھے
لتِّرْمِذِيُّ محمد بن عيسى الترمذی
یہ امام ترمذی ہیں صاحب السنن الترمزی جن کے حفظ ع ثقات میں کوئی شک نہین ہے
الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الواسطی
ان کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں سنت کے پیرو ہیں اور ابو حاتم و ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہیں
سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ
یہ ثقہ و امام ہیں
زائدة بن قدامة الثقفي
ابو حاتم ، امام نسائی ، ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں
عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ
امام ذہبی ، ابو حاتم ، ابن حجر نے اس کی توثیق کی ہے
رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ابن سعد ، ذہبی ، ابن حجر نے اسے ثقہ کہا ہے
حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ
یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی عدالت پر شق کرنا ہی نقص ایمان کی نشانی ہے ۔
حجۃالوداع سے واپسی کے وقت محبت اہل بیت پر خطبہ
صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے : عَنْ زَيْدِ بْنِ اَرْقَمَ ۔۔۔۔ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَكَّرَ ثُمَّ قَالَ « أَمَّا بَعْدُ أَلاَ أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِىَ رَسُولُ رَبِّى فَأُجِيبَ وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ». فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ « وَأَهْلُ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى .
ترجمہ : حضرت سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز مقام غدیر خم میں خطبہ ارشادفرمانے کے لئے جلوہ گرہوئے جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے۔پس آپ نے اللہ تعالیٰ کاشکر بجالایا،تعریف بیان کی اور وعظ فرمایا، نصیحتیں فرمائیں اورآخرت کی یاد دلائی پھر ارشادرفرمایا:امابعد:اے لوگو !بیشک میں جامۂ بشری میں جلوہ گرہوا ہوں عنقریب میرے رب کا قاصد میرے پاس آئے گا اورمیں اس کی دعوت کو قبول کرونگا ، اور میں تم میں دوعظیم ترین نعمتیں چھوڑے جارہا ہوں ان میں سے ایک کتاب اللہ ہے؛ جس میں ہدایت اور نور ہے ۔ تو تم اللہ کی کتاب کو تھام لو اور مضبوطی سے پکڑے رہو،اس کے بعدآپ نے قرآن کریم کے بارے میں تلقین فرمائی اوراس کی طرف ترغیب دلائی پھر ارشاد فرمایا : (دوسری نعمت ) اہل بیت کرام ہے ۔ میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں ، میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں ۔ (مسلم شریف ج 2 ص 279 حدیث نمبر:2408-مشکوۃ المصابیح ص68- زجاجۃ المصابیح ج 5 ص317/318/319)
اذکرکم اللہ : میرے اہل بیت کرام کے بارے میں،میں تمہیں اللہ کی یاد دلاتاہوں ۔
یہ اس لئے فرمایا کہ اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم سے محبت سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کےلیئے ہے او رآپ سے محبت اللہ کے لئے ہے، لہذا اہل بیت کرام کی محبت اللہ تک پہنچانے والی ہے تو ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو کہ کبھی تمہاری زبان سے ان کے خلاف کوئی نامناسب لفظ نہ نکلے ۔
اس حدیث شریف کی شرح میں حضرت ملاعلی قاری رحمہ اللہ الباری فرماتے ہیں:
کرر الجملةلافادةمبالغة ولايبعد ان يکون اراد باحدهما اٰله وبالاخری ازواجه لماسبق من اهل البيت يطلق عليهما ۔ (مرقاۃالمفاتیح ج5ص594،چشتی)
ترجمہ : سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے "اذکرکم"دومرتبہ فرمایا، اس میں حکمت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ جوفرمایا اس سے مراد اٰل پاک رضی اللہ عنہم ہیں اوردوسرے سے مراد امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہیں ۔
صحابہ کی اذیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت کا باعث
سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق تاکیدی حکم فرمایا کہ ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی تاکیدی امر فرمایا جیسا کہ جامع ترمذی شریف ج 2 ص 225 ابواب المناقب میں ارشاد مقدس ہے : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى،اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِى فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِى وَمَنْ آذَانِى فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ.
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ سے ڈرتے رہو ،میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بناؤ ،پس جس کسی نے ان سے محبت کی توبالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کی بناء پر ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہونچائی یقینااس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرماے ۔
قرآن واہل بیت سے وابستگی ہدایت کی ضمانت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کرام سے تعلق و وابستگی کو باعث نجات اور گمراہی وضلالت سے حفاظت کا ذریعہ قراردیا جو ان حضرات سے وابستہ ہوجاتا ہے وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا توغور کرنا چاہئے!کیاوہ نفوس قدسیہ بے راہ روی ودنیا طلبی کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ العیاذباللہ
چنانچہ حجۃ الوادع کے موقع پر جہا ں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری دنیا کو پیغام امن وسلامتی دیا اوراتمام دین کا اعلان فرمایا وہیں قرآن کریم اور حضرات اہل بیت کرام سے وابستگی کا حکم فرمایا جن سے تعلقِ غلامی ابدی سعادتوں کا ذریعہ ہے اور بے دینی وبدمذہبی اور بداعتقادی وگمراہی سے بچنے کیلئے مضبوط قلعہ ہے ۔
سنن بیہقی وجامع ترمذی شریف کی روایت ہے : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِى حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِى أَهْلَ بَيْتِى.
ترجمہ : حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں دیکھا کہ آپ اپنی مبارک اونٹنی قصواء پرجلوہ گر ہیں اورخطاب فرمارہے ہیں ،میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’اے لوگو !بیشک میں تم کودوعظیم نعمتیں دے کر جارہاہوں جب تک تم انہیں تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے :وہ کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ہیں ۔ ( ترمذی شریف ج2ص219۔حدیث نمبر:3718،چشتی)
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کے مطابق اہل بیت کرام گمراہی سے بچانے والے ہوئے جن سے وابستہ ہونے والا غلط راہ پر نہیں ہوسکتا تو کیا ان پاکباز ومقدس ہستیوں کے متعلق غلط باتیں منسوب کرنا یا ان پر دنیا داری کا الزام لگانا یا ان کے، کے گئے اقدام کو سیاسی اقدام کہنا درست ہوسکتا ہے ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک میں انکی پاکیز گی کے متعلق فرمایا : إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۔
ترجمہ : یقینااللہ تعالیٰ تویہی چاہتا ہے اے نبی کے گھروالوکہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے او رتمہیں پاک کرکے خوب ستھراکردے(سورۃالاحزاب ۔ 33)
اور جن کے لئے حضور پاک صلی اللہ علیہ نے دعافرمائی : اللهم هؤلاء اهل بيتی فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا ۔ ترجمہ : اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان سے رجس وگندگی کودور فرما اور انہیں مکمل پاکیزگی عطافرما ۔ (ترمذی شریف ، ج 2ص 219 حدیث نمبر:3129)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment