انبیاء علیہم السّلام کا ذکر عبادت ہے اور صالحین علیہم الرّحمہ کا ذکر گناہوں کا کفارہ
قرآن و سنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندوں کا ذکر کرنا نہ صرف عبادت ہے بلکہ یہ خالقِ کائنات کی سنت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں جابجا اپنے صالح و مقرب بندوں بالخصوص انبیاء علیہم السلام کا ذکر بالالتزام فرماتا ہے کیوں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مقبول اور منتخب بندے ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ان کی ولادت اور سیرت دونوں مذکور ہیں۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے تذکار اللہ تعالیٰ کی سنت اور حکم کے طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اَقدس سے کئی بار تلاوت کیا گیا۔ اس بناء پر انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت باسعادت کے واقعات اور ان کی جزئیات تک کا ذکر کرتے رہنا سنتِ الٰہیہ بھی ہے اور خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔
عن معاذ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذكر الأنبياء من العبادة و ذكر الصالحين كفارة و ذكر الموت صدقة و ذكر القبر يقربكم من الجنةمن حدیث حسن لغیرہ کذا فی الجامع الصغیر و شرحہ سراج المنیر۔
ترجمہ : روایت ہے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ذکر نبیوں کا ایک قسم کی عبادت ہے اور ذکر صالحین کا (یعنی اولیاء اللہ کا)کفارہ ہے گناہوں کا اور ذکر موت کا صدقہ ہے۔ اور یاد کرنا قبر کا نزدیک کرتا ہے تم کو جنت سے ۔
الحاصل، جب اولیاءاللہ علیہم الرّحمہ اور سائر انبیاء علیہم السلام کا ذکر عبادت اور کفارۂ گناہ ہو تو سلطان الانبیاء والاولیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کا ذکر کس درجہ کی عبادت اور کفارہ گناہوں کا ہوگا ؛ یقین ہے کہ اس ذکر پاک میں بحسبِ خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ایسی خصوصیت ہوگی کہ دوسرے میں ہر گز نہ ہوسکے ۔
قولہ جس کا ذکر پاک ہے گویا کہ ذکر کبریا۔
کما فی الشفا (و روى أبو سعيد الخدري رضی اللہ عنہ) کما فی صحیح ابن حبان و مسند ابی یعلی (أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : أتاني جبريل عليه السلام فقال : إن ربي و ربك يقول : تدري كيف رفعت ذكرك ؟ قلت : الله و رسوله أعلم قال : إذا ذكرت ذكرت معي ) قال ابن عطاء : جعلت تمام الإيمان بذكري معك و قال أيضا : جعلتك ذكرا من ذكرى فمن ذكرك ذكرني ۔
ترجمہ : فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جبرئیل علیہ السلام نے میرے پاس آکر کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جانتے ہو کہ کہ آپ کا ذکر میں نے کیسا بلند کیا ہے؟ میں نے کہا :اللہ اور اس کا رسول جانتا ہے ، کہا کہ جس وقت ذکر کیا جاتا ہوں میں ، ذکر کئے جاتے ہو آپ میرے ساتھ۔ ابن عطا کہتے ہیں کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ ایمان کا تمام و کمال اس بات پر مقرر کیا کہ آپ کا ذکر میرے ذکر کے ساتھ ہو اور آپ کا ذکر میرا ذکر ہے ۔
اورامام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر درمنشور میں لکھا ہے: وأخرج أبو يعلى وابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم وابن حبان وابن مردويه وأبو نعيم في الدلائل عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " أتاني جبريل فقال : إن ربك يقول : تدري كيف رفعت ذكرك ؟ قلت :الله أعلم قال : إذا ذكرت ذكرت معي " ۔
ترجمہ : یعنی تفسیر درمنشور میں ہے کہ حدیث موصوف اتنی کتابوں میں موجود ہے اور قسطلانی نے اس حدیث کو مقصد سادس مواہب لدنیہ میں ذکر کیا ہے مگر اس میں بجائےالله و رسوله اعلم کے الله اعلم ہے اور کہا کہ روایت کیا اس کو طبرانی نے اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے۔
نکتہ : عجب نہیں کہ ( اذا ذکرت ذکرت معی) سے اشارہ ہو طرف حقیقت محمدی علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ کے ۔ جس کی تصریح حضرات صوفیہ و اکابر اولیاء فرماتے ہیں والعاقل تکفیہ الاشارہ اور اتنا تو صراحتہً بھی اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ذکر کیا گیا میں ساتھ ہی آپ بھی ذکر کئے گئے یعنی بلا تعین وقت ۔
آؤ ذکر نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کریں
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں ایک مجلس میںانبیاء علیہم السلام کے فضائل پر گفتگو کررہے تھے کہ ان میںسے کون زیادہ فضیلت والا ہے ؟پس ہم نے حضرت نوح علیہ السلام اورانکی اپنے رب کی طویل عبادت گزاری کا ذکر کیا ،ہم نے حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کا ذکر کیا ، حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا ذکر کیا ،حضرت عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کا ذکر کیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ کا ذکر کیا۔ ابھی ہم اسی حال میںتھے کہ اچانک ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ تشریف لے آئے اورفرمایا:تم آپس میںکس چیز کا تذکرہ کررہے ہو؟ہم نے عرض کیا:یارسول اللہ !ہم فضائلِ انبیاء کا ذکر کررہے تھے کہ ان میںسے کون زیادہ افضل ہے؟ پس ہم نے حضرت نوح علیہ السلام اوران کی اپنے رب کی طویل عبادت گزاری کا ذکر کیا،ہم نے حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کا ذکر کیا ،حضرت عیسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا ذکر کیا،حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا ذکر کیا اوریارسول اللہ ! آپ کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا : تم نے کسی افضل قراردیا؟ہم نے عرض کیا:یارسول اللہ !ہم نے آپ کو افضل قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر مبعوث فرمایا:آپ کوسابقہ و آئندہ گناہوں سے محفوظ فرمایااوریہ کہ، آپ انبیاء کے خاتم ہیں۔‘‘(طبرانی،مجمع الزوائد)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ نے فرمایا:ہرنبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا جب کہ مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا ہے۔‘‘(صحیح بخاری،سنن نسائی،چشتی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:میں سرخ اورسیاہ تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیاگیا ہوں اور(مجھ سے پہلے)ہر نبی محض اپنی بستی کی طرف مبعوث کیا جاتاتھا۔ (طبرانی،مجمع الزوائد)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع فرمایا:اے لوگو!یہ کون سادن ہے ؟صحابہ کرام نے عرض کیا:حج کا دن ۔پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ نے فرمایا: یہ کون ساشہر ہے ؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یہ بلد حرام (مکہ مکرمہ)ہے۔پھر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ نے دریافت فرمایا: یہ مہینہ کون ساہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: حرمت والا مہینہ۔ آپ نے فرمایا:بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہارے خون،تمہارے اموال اورتمہاری عزتوں کو اس دن ،اس ماہ اوراس شہر کی حرمت کی طرح حرام کیا ہے، آگاہ ہوجائو،تم میںسے جو حاضر ہے وہ غائب کو پہنچا دے کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیںہے ۔پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اورفرمایا:اے اللہ! گواہ رہنا۔‘‘ (مجمع الزوائد۔امام ہیثمی)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment