جنت کے وارث بندوں کے اوصاف
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اپنے پاکباز بندوں کے اوصاف ذکر فرمائے جو فردوس بریں کے حقدارووارث ہیں ، وارثان جنت کی بعض صفات کا ذکر "سورۃ المؤمنون" کی ابتدائی آیات میں کیا گيا-
جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أُنْزِلَ عَلَىَّ عَشْرُ آيَاتٍ مَنْ أَقَامَهُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ. ثُمَّ قَرَأَ (قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ) حَتَّى خَتَمَ عَشْرَ آيَاتٍ . ترجمہ:مجھ پر دس آیات نازل کی گئیں ، جو شخص ان کے تقاضوں کو پورا کریگاوہ جنت میں داخل ہوگا،پھرآپ نے ’’سورہ مومنون ‘‘کی ابتدائی دس آیتوں کی تلاوت فرمائی ۔(جامع ترمذی شریف ،ابواب تفسير القرآن،حدیث نمبر: 3472،چشتی)
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ . الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ . وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ . وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ . وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ . إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ . فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ . وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ . وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ . أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ . الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ .
ترجمہ : بے شک ایمان والے بامراد ہوگئے ، جو اپنی نمازوں میں عجز ونیاز کرتے ہیں ، اور وہ جو بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے ، اور وہ جو زکوۃ ادا کرتے ہیں ، اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیبیوں کے یا ان کنیزوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں ،بیشک (ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں ، پھر جو ( ان حلال عورتوں ) کے علاوہ کسی اور کا خواہش مند ہوا تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں ، اور وہ لوگ (بامراد ہیں) جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں ، اور وہ جو اپنی نمازوں کی پوری حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس بریں کی میراث پائیں گے ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے-(سورۃ المؤمنون:1/11)
"سورۃ المؤمنون"کی پہلی آیت میں جوفلاح و کامیابی کاذکر کیا گیا اس سے مراد جزوی کامیابی نہیں بلکہ دارین کی ابدی کامیابی مراد ہے ان پاکیزہ صفات سے متصف شخص دنیامیں بھی باسعادت رہے گا اور آخرت میں بھی بامراد رہے گا ۔
جنت کے وارث بندوں کا پہلا وصف "ایمان" ہے جو کہ اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ہے،ایمان کے معنی بیان کرتے ہوئے حضرت ضیاء ملت دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا کہ "اللہ تعالی کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعہ آئی ہوئی تمام چیزوں کی قلب سے تصدیق اورزبان سے اقرارکرنے کا نام ایمان ہے ۔
بندۂ مؤمن اپنی عقل وخرد کا تابع نہیں ہوتا بلکہ کتاب وسنت کی پیروی کرتا ہے،اس کا ایمان وعقیدہ موہوم خیالات وخودساختہ نظریات کے کچے دھاگے کی بنیاد پر نہیں ہوتابلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات وفرمودات کی مضبوط ومستحکم رسی پر ہوتا ہے ۔
اللہ تعالی نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان وعقیدہ کوساری امت کے لئے کسوٹی قرار دیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے اگر کوئي احد پہاڑکے برار سونا خیرات کرے تب بھی وہ صحابہ کے پاؤ سیر جو خیرات کرنے کی برابری نہیں کرسکتا ہے ۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر:6652،چشتی)
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کا ایمان وعقیدہ ساری امت کے لئے ہدایت کا معیار ہے ،اس مقدس جماعت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت بیک زباں اپنا عقیدہ بیان کیا کہ "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !ہم سب آپ کی ایک صفت وہیئت کی طرح نہيں ہوسکتے ۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر:20،چشتی)
" قَالُوا إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ "
اہل خلد کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی کہ وہ خشوع کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں-
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ .
نماز میں خشوع سے مراد یہ ہے کہ اپنی توجہ کو مکمل طور پر نماز میں مرکوز کردیں، ہمہ تن بارگاہ خدا وندی میں متوجہ رہیں اورزبان سے جو ذکر و تلاوت کر رہے ہیں اس میں غور وخوض کریں،نیزمکمل طور پر ظاہری آداب کی رعایت کریں ۔
"خشوع" ایسا جامع لفظ ہے جو اعمال ظاہرہ و باطنہ ہر دوپر شامل ہے،لفظ "خشوع" کی جامع تشریح کرتے ہوئے آپ نے صحیح بخاری کے حوالہ سے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم عبادت اسطرح کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو،اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تب بھی حسن وخوبی سے عبادت انجام دیتے رہو اسلئے کہ وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے-(صحیح بخاری،حدیث نمبر:50،چشتی)
" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ "
وارثان بہشت کا تیسرا وصفیہ بیان کیا گیاکہ وہ "لغو"بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے ۔
وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ .
"لغو"ہر اس قول وفعل کو کہتے ہیں جو بے فائدہ اور فضول ہو۔
مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ لغواور لایعنی اقوال وافعال میں اپنے وقتِ عزیز کو ضائع کرے، وہ لغوبات کا ارتکاب تو کیا اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا ،اگر اتفاقاً نامناسب مقام سے اس کا گزر ہوجائے تب وہ اپنی حفاظت کرتا ہوا کناره کش ہوکروقار ومتانت کے ساتھ گزر جاتا ہے ۔
"سورۃ المؤمنون "کی آیت نمبر:4 میں جنت الفروس کے مستحق حضرات کا چوتھا وصف یہ بیان کیا گیا" وہ زکوۃ ادا کرتے ہیں" ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ۔
مفسرین نے اس آیت کا مطلب یہ بھی بیان فرمایا کہ "وہ دلوں کی پاکیزگی کا کام کرتے ہیں" ۔
قرآن کی نگاہ میں جنت کے وارث بندوں کی پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کرتے ہیں ۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ .
چھٹی اور ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں ۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ .
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے امانت میں خیانت کرنے اور عہد شکنی کو منافقین کی علامت قراردیا ہے ۔
فردوس بریں کے وارثین کاآٹھواں وصف یہ بیان کیا گيا:وہ اپنی نمازوں کی پوری حفاظت کرتے ہیں ۔
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ۔
ان پاکیزہ صفات کے حامل افراد کو رب کائنات کی بارگاہ سے مژدۂ جاں فزا ہے کہ " یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس بریں کی میراث پائیں گے ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے- أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ . الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ .(سورۃ المؤمنون: 11)
ان دس آیات میں جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے ان سے متصف شخص دارین کی سعادتوں کا مستحق ہوتا ہے ، ایسے افراد بقائے امن و صلح کا ذریعہ ہیں کیونکہ ان دس آیات میں تو حید ورسالت ، عبادات ومعاملات ، معاشرت واخلاق جیسے اہم عنوانات کی طرف توجہ دلائی گئی ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment