Monday, 4 June 2018

اعتکاف کی تاریخ ، فضائل و مسائل

اعتکاف کی تاریخ ، فضائل و مسائل

اعتکاف بناہے عَکْف جس کا معنی ہے ٹھہرنا یا قائم رہنا جبکہ اصطلاح شرع میں اس سے مراد اﷲ پاک کے گھرمیں عبادت کی نیت سے ٹھہرنے کوشرعی اعتکاف کہا جاتا ہے ۔ حقیقی اعتکاف یہ ہے کہ ہرطرف سے یکسو ہو کراور سب سے منقطع ہو کر اﷲ تعالیٰ سے لَو لگا کے اس کے در پر مسجد کے کونہ میں بیٹھ جائے اورسب سے علیحدہ تنہائی میں عبادت اس کے ذکروفکرمیں مشغول ہوجائے یہ بھی اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنے کاایک ایسا طریقہ ہے جس میں مسلمان دنیاسے لاتعلق ہوکراﷲ پاک کے گھرمیں صرف اﷲ پاک کی یادمیں متوجہ ہوجاتاہے ۔ معتکف اپنے عمل سے ثابت کرتاہے کہ میں نے حالت حیات ہی میں اپنابال بچہ اورگھربارسب کوچھوڑدیاہے اورمولاٰ!تیرے گھرہی میں آگیاہوں یہ قاعدہ قانون ہے کہ اگرگھروالاکریم اورعزت والاہوتووہ ضرورہراس شخص کی عزت واکرام کرتاہے جواسکے گھرمیں آئے خواہ وہ دشمن کیوں نہ ہو۔بھلاجوارحم الراحمین جوسب داتوں کاداتاہے خالق کائنات مالک ارض وسماوات ہے اسکے گھرمیں کوئی مسلمان جاکرپناہ لے تووہ کریم ذات اسکاکس قدراکرام فرمائیگا۔

اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی طرح بہت پرانی ہے ۔ اﷲ رب العزت اپنی پاک کتاب قرآن مجیدفرقان حمیدمیں ارشادفرماتاہے۔ترجمہ! اورہم نے ابراہیم واسماعیل علیہم السلام کوتاکیدکی کہ میراگھرخوب صاف ستھرارکھناطواف کرنے والوں ،اعتکاف کرنے والوں اوررکوع وسجودکرنیوالوں کے لئے"۔ایک اورمقام پرارشاد باری تعالیٰ ہے"اورعورتوں کوہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف کررہے ہو"۔ (سورۃ البقرہ۱۸۷)

حضرت علی زین العابدین بن امام حسین حسین اپنے والدحضرت امام حسین رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا " جوشخص رمضان المبارک میں دس دن کااعتکاف کرتاہے اس کاثواب دوحج اوردوعمرے کے برابرہے"۔ (طبرانی فی المعجم الکبیر،بیہقی فی شعب الایمان،چشتی)

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم نے ارشادفرمایا’’جوشخص اﷲ تعالیٰ کی رضاکے لئے (صدق وخلوص کے ساتھ)ایک دن اعتکاف بیٹھے اﷲ تعالیٰ اس کے اوردوزخ کے درمیان تین خندقوں کافاصلہ کردیتاہے ہرخندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلہ سے زیادہ لمبی ہے ‘‘۔(طبرانی)حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم نے معتکف کے بارے میں فرمایاوہ گناہوں سے بازرہتاہے اورنیکیوں سے اسے اس قدرثواب ملتاہے جیسے اس نے تمام نیکیاں کیں ۔ (ابن ماجہ) حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم اعتکاف کی خودپابندی فرمایاکرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم ہرسال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اورجس سال آپ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم کاوصالِ مبارک ہوااس سال آپ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم نے بیس دن اعتکاف کیا۔(متفق علیہ)حضور صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم کے دنیاسے ظاہراََپردہ فرمانے کے بعدعام لوگوں نے اس سنت پرعمل کیااورآج تک کررہے ہیں لیکن خاص طورپرحضور صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم کی یادمیں ازواج مطہرات نے اسکی پابندی کی ۔ ام المومنین حضرت عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کیاکرتے تھے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم کاوصال ہوگیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم کے بعدآپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیاہے ۔ (متفق علیہ)ام المومنین سیدتناعائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں"معتکف کے لئے شرعی دستوراور ضابطہ حیات یہ ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے،نہ کسی جنازے کے ساتھ جائے،نہ اپنی بیوی کوچھوئے اورنہ اس سے مباشرت کرے اورغیر ضروری حاجت کے علاوہ اعتکاف گاہ سے نہ نکلے۔(ہاں اگرگزرتے گزرتے بلاتوقف بیمارکی عیادت کی جائے توجائزہے)۔ (سنن ابوداؤد،چشتی)

معتکف کوچاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اﷲ کی عبادت میں گزارے ۔لیکن خاص کرشب قدرکوتلاش کرنے کے لئے ،اکیس ،تئیس،پچیس،ستائیس، انتیس کی راتیں جاگ کرگزارے کیونکہ جوشخص شب قدرمیں عبادت کرتاہے تواسکے بارے میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا"جوشخص لیلۃ القدرمیں حالت ایمان اورثواب کی نیت سے قیام کرتاہے اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں"۔حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ماہ رمضان المبارک کی آمدپرحضور صلی اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلّم نے ارشادفرمایا۔"یہ ماہ جوتم پرآیاہے اس میں ایک رات ایسی ہے جوہزار مہینوں سے افضل ہے جوشخص اس رات سے محروم رہ گیاگویاوہ ساری خیرسے محروم رہااوراس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جوواقعتا ََمحروم ہو"یہ رات کتنی عظمت والی ہے ۔واقعی وہ انسان کتنابدبخت ہے جواتنی بڑی نعمت کوغفلت کی وجہ سے گنوادے۔ہم معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کرگزارلیتے ہیں تواَسّی80سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگناکوئی زیادہ مشکل کام تونہیں۔

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں 1۔ اعتکاف واجب 2۔ اعتکاف سنت 3۔ اعتکاف نفل

اعتکاف واجب وہ ہوتاہے جوکوئی شخص کسی کام کے پوراہوجانے کے لئے مانے یعنی نذرمانے اسکی مدت کم ازکم ایک دن اورایک رات ہے اس میں روزہ رکھناشرط ہے نذرپوری ہوجانے کے بعداس شخص پراعتکاف کااداکرنالازم ہوجاتا ہے۔

اعتکاف سنت وہ اعتکاف ہے جوماہ ر مضان کے آخری دس دنوں میں کیاجاتاہے۔اس کے لئے روزہ شرط ہے یہ سنت کفایہ ہے یعنی اگربستی میں ایک مسلمان نے اس سنت کواداکرلیاتوسب کیطرف سے اداہوجائے گااورسب بستی والوں کوثواب ملیگا۔اگربستی میں کسی ایک شخص نے بھی اعتکاف نہ کیاتوپوری بستی گناہ گارہوگی۔لہذاہم سب مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وقت آنے سے پہلے کسی کواعتکاف کرنے کے لئے تیارکریں ۔جوشخص اعتکاف کررہاہوتاہے وہ پوری جماعت کی طرف سے نمائندہ کی حثیثت سے بیٹھااعتکاف کررہاہوتاہے ۔اُسے چاہیے سب مسلمانوں کے لئے دعاکرے اور اہل علاقہ کوبھی چاہیے وہ اپنے نمائندہ کی ہرطرح سے خدمت کریں سب مل کراسکی ضروریات کھانے پینے کاانتظام کریں اس کے کاروباروغیرہ کی حفاظت کریں۔

اعتکاف نفل وہ ہوتاہے کہ جب مسلمان مسجدمیں داخل ہوتواعتکاف کی نیت کرے اسکی کوئی مدت اورکوئی وقت مقررنہیں اورنہ ہی اسکے لئے روزہ شرط ہے۔اعتکاف کی نیت سے جتنی دیرمسجدمیں رہے گااسکوثواب ملتارہیگااوراس کے لئے وہ کام جائزہوجائے گاجواعتکاف کی نیت نہ کرنے والے پرجائزنہیں جیسے کھاناپینا،سوناوغیرہ۔

اعتکاف کارکن اعظم : اعتکاف کارکن اعظم یہ ہے کہ انسان اعتکاف کے دوران مسجدکی حدودمیں رہے اورضروری حاجت کے سواایک لمحے کے لئے بھی مسجدکی حدودسے باہرنہ نکلے کیونکہ اگرمعتکف ایک لمحے کے لئے شرعی ضرورت (جیسے پاخانہ ،پیشاب وغیرہ)کے بغیرحدودمسجدسے باہرچلاجائے تواس کااعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔
اعتکاف بیٹھنے کی درج ذیل شرائط ہیں۔

مسلمان ہونا،اعتکاف کی نیت کرنا،حدث اکبر(یعنی جنابت) اورحیض ونفاس سے پاک ہونا ،عاقل ہونا،مسجدمیں اعتکاف کرنا،اعتکاف واجب (نذر) کے لئے روزہ بھی شرط ہے۔دوران اعتکاف درج ذیل امورسرانجام دینے چاہیں قرآن حکیم کی تلاوت،درودشریف پڑھتے رہنا،علوم دینیہ کاپڑھنایاپڑھانا،وعظ و نصیحت یااچھی باتیں کرنا،قیام اللیل،ذکرواذکارکی کثرت کرنا۔

اجتماعی اعتکاف میں حتی الامکان نوخیزلڑکے اورآپس میں گپ شب کرنے والے دوستوں کو نیز امرد اور ناسمجھ بچوں کوانتظامیہ مسجدمیں اعتکاف کرنے سے روکنے کی کوشش کرے تاکہ مسجدمیں اودھم بازی اورہڑاہڑی کاماحول پیدانہ ہو۔اعتکاف میں تلاوت قرآن مجیدکرنا، نعت خوانی،ذکرودرود، مسائل فقہ کامطالعہ اورمسائل کی آپس میں تکرارکرناسب جائزہے ۔اگرنفلی عبادات بجانہ لاسکے توخاموش رہ کرمسجدکی بے حرمتی وغیرہ سے بچنابہترین عبادت ہے ۔اعتکاف کرنے والااپنے پاس ضروری سامان کے علاوہ قرآن پاک کاترجمہ،نمازکے احکام،بہارِشریعت اوردیگرعلمائے اہلسنت کی مستند کتابیں ضروررکھے تاکہ یکسوئی سے انکا مطالعہ کرکے انکی فیوض وبرکات حاصل کرتارہے ۔ موبائل فون کا بے جا استعمال ویسے بھی ممنوع ہے ۔ حالتِ اعتکاف میں ،مسجداوررمضان المبارک کی بے حرمتی کاسبب ہونے کی وجہ سے اورزیادہ ممنوع اورناجائزہے لہذااس سے اجتناب کریں ۔ناجائزباتیں مسجدسے باہربھی گناہ ہیں ۔ مسجد میں غیرضروری جائزبات بھی نیکیوں کویوں کھاجاتی ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کواورچوپایاگھاس کوکھاجاتاہے ۔لہذاجوباتوں سے نہیں بچ پاتااس کااعتکاف نہ کرناہی اسکے حق میں بہترہے ۔

شرعی ضروریات جن کے لئے معتکف کا مسجد سے نکلنا جائز ہے وہ ضروریات یہ ہیں : وضوجبکہ مسجدمیں رہتے ہوئے وضوکرناممکن نہ ہواگرمسجدمیں وضوکی ایسی جگہ موجودہے کہ معتکف خودتومسجدمیں رہے لیکن وضوکاپانی مسجدسے باہرگرے تووضوکے لئے مسجدسے باہرجاناجائزنہیں اگرمسجدمیں ایسی جگہ موجودنہیں تووضوکے لئے مسجدسے کسی قریبی جگہ پرجاناجائزہے ،غسل جنابت جبکہ مسجدکے اندرغسل کرناممکن نہ ہومعتکف کوصرف احتلام ہوجانے کی صورت میں غسل جنابت کے لئے مسجدسے باہرجاناجائزہے ۔جبکہ مسجدکے اندرغسل کرناممکن نہ ہویامشکل ہوتوغسل جنابت کے لئے باہرجاسکتاہے ۔غسل جنابت کے علاوہ کسی اورغسل کے لئے مسجدسے باہرنکلناجائزنہیں جمعہ کے غسل یاٹھنڈک کی غرض سے غسل کرنے کے لئے مسجدسے باہرجاناجائزنہیں اگرجائے گاتواعتکاف ٹوٹ جائے گا۔پیشاب پاخانے کی ضرورت کے لئے مسجدسے باہرجاسکتاہے جہاں تک پیشاب کاتعلق ہے اس کے لئے مسجدکے قریب ترین جگہ جس جگہ پیشاب کرناممکن ہووہاں جاناچاہیے ۔ اگرمسجدکے ساتھ کوئی بیت الخلاء بناہواہے اوروہاں قضائے حاجت کرناممکن ہے تواس میں قضائے حاجت کرے کہیں اورنہ جائے ۔اگرکوئی اعتکاف میں بیٹھاہے اوراسے اذان دینے کے لئے مسجدسے باہرجاناپڑے تواسکے لئے جائزہے مگراذان کے بعدٹھہرے نہ فوراًمسجدمیں آجائے۔بہتریہی ہے کہ اعتکاف ایسی مسجدمیں بیٹھاجائے جس میں نمازجمعہ ہوتی ہوتاکہ جمعہ کے لئے باہرنہ جاناپڑے اگرکسی مسجدمیں نمازجمعہ نہیں ہوتی پانچ وقت کی نمازہوتی ہے اس میں بھی اعتکاف بیٹھناجائزہے ۔ایسی صورت میں نمازجمعہ پڑھنے کے لئے دوسری مسجدمیں جاناجائزہے لیکن نمازجمعہ کے لئے ایسے وقت میں نکلے جب اسے اندازہ ہوکہ جامع مسجدپہنچنے کے بعدچاررکعت سنت اداکرلے گاتواس کے بعدفوراًخطبہ عربی شروع ہوجائے گا،اگرکھانے پینے کی اشیاء لانے والاکوئی شخص نہ ہوتوکھانالینے کے لئے مسجدسے باہرجاسکتاہے لیکن کھانالیکرمسجدہی میں کھائے ،ہرمعتکف کے لئے ضروری ہے کہ جس مسجدمیں اعتکاف شروع کیااسی مسجدمیں ہی پوراکرے لیکن اگرکوئی شدیدایسی مجبوری آجائے کہ وہاں اعتکاف پوراکرناممکن نہ رہے یعنی مسجدمنہدم ہوجائے یاکوئی زبردستی وہاں سے نکال دے یاوہاں میں جان ومال کاخطرہ ہووہ دوسری مسجدمیں منتقل ہوکراعتکاف پوراکرسکتاہے بشرطیکہ وہاں سے نکلنے کے بعدراستے میں نہ ٹھہرے فوراًدوسری مسجدمیں چلاجائے ۔ان ضروریات کے علاوہ کسی اورمقصدکے لئے باہرجانامعتکف کے لئے جائزنہیں ۔

وہ کام جن سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے : جن ضروریات کااوپرذکرکیاگیاہے ان کے سواکسی اورمقصد سے اگرکوئی حدودمسجدسے باہرنکل جائے چاہے یہ باہر نکلناایک ہی لمحے کے لئے ہوتواس سے اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔مسجدسے نکلنااسوقت کہاجائے گاجب پاؤں مسجدسے اس طرح باہرنکل آئیں کہ اسے عرفاًمسجدسے نکلناکہاجاسکے لہذااگر صرف سرمسجدسے باہرنکال دیاجائے تواس سے اعتکاف فاسدنہیں ہوگا۔اس لئے بلاضرورت شرعی مسجدسے باہرنہیں نکلناچاہیے ورنہ جان بوجھ کرہویابھول کرغلطی سے ہرصورت میں اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔حالت اعتکاف میں جماع کرنے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتاہے چاہے یہ جماع جان بوجھ کرکرے یابھول کر دن میں کرے یارات میں مسجدمیں کرے یامسجدسے باہراس سے انزال ہویانہ ہواعتکاف ٹوٹ جائیگا۔اگرعورت اعتکاف میں ہوتوحیض ونفاس کاجاری ہوجانے سے اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔کسی عذرکے بغیراعتکاف گاہ سے باہرنکل کرضرورت سے زیادہ ٹھہرنا۔اعتکاف کے لئے چونکہ روزہ شرط ہے اس لئے روزہ توڑدینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ان سب صورتوں میں اعتکاف ٹوٹ جاتاہے۔

وہ کام جومکروہات اعتکاف ہیں : بالکل خاموشی اختیارکرناکہ ذکرونعت اوردعوت و تبلیغ کی بجائے خاموش رہنے کوعبادت سمجھاتویہ مکروتحریمی ہے کیونکہ شریعت میں بالکل خاموش رہناکوئی عبادت نہیں اگربری باتوں سے خاموش رہاتووہ اعلیٰ درجہ کی چیزہے۔مال واسباب مسجدمیں لاکربغرض تجارت بیچنایاخریدنابھی مکروہ ہے ۔لڑائی جھگڑایابیہودہ باتیں کرنا۔اعتکاف کے لئے مسجدکی اتنی جگہ گھیرلیناجس سے دوسرے معتکفین یانمازیوں کوتکلیف ہو۔

ان صورتوں میں اعتکاف توڑناجائزہے : اعتکاف کے دوران کوئی ایسی بیماری لاحق ہوجائے جسکاعلاج اعتکاف گاہ سے باہرجانے کے بغیرممکن نہ ہوتواعتکاف توڑناجائزہے ۔
کسی ڈوبتے یاجلتے ہوئے آدمی کوبچانے یاآگ بجھانے کے لیے بھی اعتکاف توڑکرباہرنکل آناجائزہے۔
ماں ،باپ یابیوی میں سے کسی کی سخت بیماری کی وجہ سے اعتکاف توڑناجائزہے ۔
والدین،بہن بھائی یاکوئی عزیزاچانک فوت ہوجائے تواسکی تجہیزوتکفین کے لئے اعتکاف توڑدیناجائزہے۔
اگرکسی معتکف کوکوئی زبردستی مسجدسے نکال دے یاحکومت اعتکاف میں گرفتارکرلے تواعتکاف ٹوٹ جائے گامگراس صورت میں متعکف پراعتکاف توڑنے کاگناہ نہ ہوگا۔

اعتکاف ٹوٹنے کا شرعی حکم : مذکورہ بالاوجوہات میں سے جس وجہ سے بھی اعتکاف مسنون ٹوٹاہوااس کاحکم یہ ہے کہ جس دن میں اعتکاف ٹوٹاہے ۔صرف اس دن کی قضاواجب ہوگی پورے دس دن کی قضاواجب نہیں ۔(شامی)اس دن کی قضاکاطریقہ یہ ہے کہ اسی رمضان میں وقت باقی ہوتواسی رمضان میں کسی دن غروب آفتاب سے اگلے دن غروب آفتاب تک قضاء کی نیت سے اعتکاف کرلیں ۔اگراسی رمضان میں وقت باقی نہ ہوتویاکسی وجہ سے اس میں اعتکاف ممکن نہ ہوتو رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی دن روزہ رکھ کرایک دن کے لئے اعتکاف کیاجاسکتاہے ۔اگلے سال رمضان میں بھی قضاء کرلے توصحیح ہوگا۔لیکن زندگی پربھروسہ نہیں اس لئے جلدقضاکرنی چاہیے۔اعتکاف مسنون ٹوٹ جانے کے بعدمسجدسے باہرنکلناضروری نہیں لیکن عشرہ اخیرہ کے باقی ماندہ ایام میں نفل کی نیت سے اعتکاف جاری رکھاجاسکتاہے ۔اس طرح سے سنت مؤکدہ توادانہیں ہوگی لیکن نفلی اعتکاف کاثواب ملے گا۔

عورت کے لئے اعتکاف کے مسائل

عورت کومسجدمیں اعتکاف مکروہ ہے بلکہ وہ گھرہی میں اعتکاف کرے ۔جوجگہ گھرمیں نمازپڑھنے اورعبادت کرنے کے لئے بنائی ہوئی ہے اس جگہ میں اعتکاف بیٹھ جائے ۔

اگرعورت نے نمازکے لئے کوئی جگہ مقررنہیں کررکھی ہے توگھرمیں اعتکاف نہیں کرسکتی البتہ اگراس وقت یعنی جبکہ اعتکاف کاارادہ کیاکسی جگہ کونمازکے لئے خاص کرلیاتواس جگہ اعتکاف کرسکتی ہے ۔(درمختار،ردالمختار)

عورت کے لئے ضروری ہے کہ حیض اورنفاس سے پاک ہو۔

اگرعورت شادی شدہ ہے توشوہرسے اجازت لیناضروری ہے شوہرکی اجازت کے بغیراعتکاف میں بیٹھناجائزنہیں ۔فتاوٰی شامی ۔

اگرشوہرنے پہلے اعتکاف کی اجازت دے دی اورعورت نے اعتکاف شروع کردیااب اگرشوہرمنع کرناچاہے تواب منع نہیں کرسکتااگرمنع کرے گاتوبیوی کے ذمہ اس کی تعمیل واجب نہیں ۔

گھرمیں جہاں پرعورت نے اعتکا ف کیا۔وہاں سے شرعی ضرورت کے ہٹناجائزنہیں۔

دوران اعتکاف بہتریہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت ذکرواذکاراورنفلی عبادات میں مصروف رہیں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...