کیا صحابہ رضی اللّٰہ عنہم نے کبھی اللہ کے علاوہ کسی کو پکارا نجدیوں کو جواب
قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے : وَما نَقَموا إِلّا أَن أَغنٰهُمُ اللَّهُ وَرَسولُهُ مِن فَضلِهِ . (سورة التوبة آیت 59) ۔ ترجمہ : اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ کا رسول ، ہمیں اللہ ہی کی طرف رغبت ہے ۔
نبی پاک علیہ السلام نے اپنے ِصحابی ربیعہ بن کعب رضی اللّٰہ عنہ سے خوش ہو کر فرمایا : مانگو کیا مانگتے ہو ؟ انہوں نے عرض کی (اسئلک) آپ سے مانگتا ہوں جنت میں آپ کی رفاقت. فرمایا کچھ اور مانگنا ہے؟ عرض کی بس یہی. فرمایا کثرت نوافل سے میری مدد کر. (مسلم شریف کتاب الصلاۃ)
مشکوۃ شریف کے دونوں شارحین ملا علی قاری اور شیخ عبدالحق محدث دھلوی علیہما الرّحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی علیہ السلام جس کو جو چاہیں اللہ کے حکم سے عطا فرما دیں .
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں قحط پڑھ گیا . حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللّٰہ عنہ حضور علیہ السلام کی قبر انور پر حاضر ہوئے اور عرض کی . یا رسول اللہ اپنی امت کے لیے بارش کی دعا مانگیے کیونکہ ہم لوگ ھلاک ہوئے جا رہے ہیں. خواب میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ لوگوں کے لیے بارش کی دعا مانگے. انہیں بارش دی جائے گی اور انہیں کہو کے اِحتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہیں . وہ صحابی رضی اللّٰہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ماجرا سنایا. حضرت عمر رو دئیے . اور کہا یا اللہ : میں اپنی بساط بھر کوتاہی نہیں کرتا . (الاستیعاب علامہ قرطبی،چشتی)
فارق اعظم رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں 18 ھجری میں دوبارہ قحط واقع ہوا. حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللّٰہ عنہ سے انکی قوم بنو مزینہ نے کہا, ہم مرے جا رہے ہیں . کوئ بکری ذبح کیجیے . فرمایا بکریوں میں کچھ نہیں رکھا. اصرار پر ایک بکری ذبح کی , جب کھال کھینچی تو نیچے سرخ ہڈی تھی . یہ دیکھ کر حضرت بلال مزنی رضی اللّٰہ عنہ نے پکارا . یا محمداہ ! رات ہوئ تو خواب میں دیکھا رسول اللہ علیہ السلام فرما رہے ہیں تمھیں زندگی مبارک ہو . (البدایہ والنہایہ ابن کثیر جلد 7 ص 91)
حضرت اوس بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں قحط آیا . لوگوں نے امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے شکایت کی . آپ رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا . نبی اکرم علیہ السلام کے مزار مبارک کو دیکھو اور آسمان کی طرف اس کا روشن دان کھول دو تاکہ اس کے اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے . انہوں نے ایسا ہی کیا . اتنی بارش ہوئی کہ سبزہ اگا, اونٹ موٹے ہو گئے حتی کہ چربی سے انکے بدن پھٹنے لگے یعنی بہت فربہ ہو گئے. چنانچہ اس سال کا نام عام الفتق رکھ دیا گیا ۔ (سنن دارامی جلد اول ص 43،چشتی)
یا محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کہنا احادیث مبارکہ کی روشنی میں
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقُلْتُ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا لِرِجْلِکَ؟ قَالَ : اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. فَقُلْتُ : اُدْعُ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، فَانْبَسَطَتْ.رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَابْنُ السُّنِّيِّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھے کہ ان کا پاؤں سن ہوگیا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا : یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا : تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کا ذکر کریں، تو انہوں نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ بلند کیا (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اسی وقت ان کے اعصاب کھل گئے ۔ اِس حدیث کو امام بخاری نے الآدب المفرد میں اور ابن السنی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَمْشِي مَعْ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدَاه، فَقَامَ فَمَشٰی. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.
ترجمہ : ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ چل رہا تھا کہ اُن کی ٹانگ سن ہو گئی اور وہ بیٹھ گئے، پھر اُنہیں کسی نے کہا کہ لوگوں میں سے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کا ذکر کرو. تو انہوں نے کہا : یا محمداہ! (اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم!) اُن کا یہ کہنا تھا کہ وہ (ٹھیک ہو گئے اور) اُٹھ کر چلنے لگ گئے ۔ اِس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے ۔
وفي رواية : خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : مُحَّمَدٌ صلی الله عليه وآله وسلم، فَذَهَبَ خَدِرُهُ. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.
ترجمہ : ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے پاس بیٹھے کسی شخص کی ٹانگ سن ہو گئی تو اُنہوں نے اس شخص سے فرمایا : لوگوں میں سے جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کا ذکر کرو، تو اُس شخص نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ لگایا تو اُسی وقت اُس کے پاؤں کا سن ہونا جاتا رہا ۔ اِس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے ۔
وفي رواية : عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ صلی اﷲ عليک وسلم، فَقَالَ : فَقَامَ فَکَأَنَّمَا نُشِّطَ مِنْ عِقَالٍ. رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.
ترجمہ : اور ایک روایت میں حضرت ہیثم بن حنش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اُنہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے پاس تھے کہ ایک آدمی کی ٹانگ سن ہوگئی، تو اس سے کسی شخص نے کہا : لوگوں میں سے جو شخص تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اس کا ذکر کر، تو اس نے کہا : یا محمد صلی اﷲ علیک وسلم. راوی بیان کرتے ہیں : پس وہ شخص یوں اُٹھ کھڑا ہوا گویا باندھی ہوئی رسی سے آزاد ہو کر مستعد ہو گیا ہو.‘‘ اِس حدیث کو امام ابن السنی نے روایت کیا ہے ۔
(بخاري في الأدب المفرد / 335، الرقم : 964، وابن الجعد في المسند، 1 / 369، الرقم : 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4 / 154، وابن السني في عمل اليوم والليلة / 141.142، الرقم : 168.170،172،چشتی)
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا کَانَ يَخْتَلِفُ إِلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه فِي حَاجَةٍ لَهُ، فَکَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ، وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ، فَلَقِيَ ابْنَ حُنَيْفٍ، فَشَکٰی ذَالِکَ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ : اِئْتِ الْمِيْضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ، فَصَلِّ فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْ : اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ، نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِکَ إِلٰی رَبِّي، فَتَقْضِي لِي حَاجَتِي، وَتَذَکَّرْ حَاجَتَکَ، وَرُحْ حَتّٰی أَرُوْحَ مَعَکَ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ، ثُمَّ أَتٰی بَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ص، فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتّٰی أَخَذَ بِيَدِهِ، فَأَدْخَلَهُ عَلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ص، فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَی الطُّنْفُسَةِ، فَقَالَ : حَاجَتُکَ؟ فَذَکَرَ حَاجَتَهُ وَقَضَاهَا لَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ : مَا ذَکَرْتَ حَاجَتَکَ، حَتّٰی کَانَ السَّاعَةَ وَقَالَ : مَا کَانَتْ لَکَ مِنْ حَاجَةٍ فَاذْکُرْهَا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ، فَقَالَ لَهُ : جَزَاکَ اﷲُ خَيْرًا، مَا کَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي، وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتّٰی کَلَّمْتَهُ فِيَّ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ : وَاﷲِ مَا کَلَّمْتُهُ، وَلٰـکِنِّي شَهِدْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَأَتَاهُ ضَرِيْرٌ، فَشَکٰی إِلَيْهِ ذِهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَتَصْبِرُ. فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَيْسَ لِي قَاءِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اِئْتِ الْمِيْضَأَةَ، فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ اُدْعُ بِهٰذِهِ الدَّعَوَاتِ. قَالَ ابْنُ حُنَيْفٍ : فَوَاﷲِ، مَا تَفَرَّقْنَا، وَطَالَ بِنَا الْحَدِيْثُ، حَتّٰی دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ کَأَنَّهُ لَمْ يَکُنْ بِهِ ضَرٌّ قَطُّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ : وَالْحَدِيْثُ صَحِيْحٌ .
ترجمہ : حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اپنے چچا حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس کسی ضرورت سے آتا رہا لیکن حضرت عثمان صاُس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس کی حاجت پر غور نہ فرماتے تھے۔ وہ شخص (عثمان) بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اپنے مسئلہ کی بابت شکایت کی۔ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ اور وضو کرو، اس کے بعد مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر (یہ دعا) پڑھو : اے اﷲ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، یا محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے۔ اور پھر اپنی حاجت کو یاد کرو۔ (اور یہ دعا پڑھ کر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ) یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ آ جاؤں۔ پس وہ آدمی گیا اور اس نے وہی کیا جو اسے کہا گیا تھا۔ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان نے اس کا ہاتھ تھاما اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ حضرت عثمان صنے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور پوچھا : تیری کیا حاجت ہے؟ تو اس نے اپنی حاجت بیان کی اور انہوں نے اسے پورا کر دیا۔ پھر اُنہوں نے اُس سے کہا : تو نے اپنی اس حاجت کے بارے میں آج تک بتایا کیوں نہیں؟ آئندہ تمہاری جو بھی ضرورت ہو مجھے بیان کرو۔ پھر وہ آدمی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلا گیا اور حضرت عثمان بن حنیف سے ملا اور ان سے کہا : اﷲ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر عطا فرمائے، اگر آپ میرے مسئلہ کے بارے میں حضرت عثمان سے بات نہ کرتے تو وہ میری حاجت پر غور کرتے نہ میری طرف متوجہ ہوتے۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا میں نے ان سے تمہارے بارے میں بات نہیں کی۔ بلکہ میں نے اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ ایک نابینا آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بینائی ختم ہو جانے کا شکوہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تو صبر کر. اس نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرا کوئی خادم نہیں اور مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوٹا لے کر آؤ اور وضو کرو (اور اسے یہی عمل تلقین فرمایا)، حضرت ابن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : خدا کی قسم! ہم لوگ نہ تو ابھی مجلس سے دور ہوئے اور نہ ہی ہمارے درمیان لمبی گفتگو ہوئی، حتی کہ وہ آدمی ہمارے پاس (اس حالت میں) آیا کہ گویا اُسے کبھی اندھا پن تھا ہی نہیں ۔ اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے ۔ (طبراني في المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم : 8311، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 183، الرقم : 508، وأيضًا في الدعائ / 320، الرقم : 1050، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 167، والمنذري في الترغيب والترهيب،1 / 32، 274، الرقم : 1018، والسبکي في شفاء السقام / 125، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 201،چشتی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه … وَحَمَلَ خَالِدُ بْنُ وَلِيْدٍ رضی الله عنه حَتّٰی جَاوَزَهُمْ وَسَارَ لِجِبَالِ مُسَيْلَمَةَ وَجَعَلَ يَتَرَقَّبُ أَنْ يَصِلَ إِلَيْهِ فَيَقْتُلَهُ ثُمَّ رَجَعَ ثُمَّ وَقَفَ بَيْنَ الصَّفَّيْنِ وَدَعَا الْبِرَازَ. وَقاَلَ : أَنَا ابْنُ الْوَلِيْدِ الْعُوْدِ، أَنَا ابْنُ عَامِرٍ وَزَيْدٍ. ثُمَّ نَادٰی بِشِعَارِ الْمُسْلِمِيْنَ، وَکَانَ شِعَارُهُم يُوْمَءِذٍ ’’يَا مُحَمَّدَاه‘‘. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ . (طبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 281، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 324،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (طویل روایت میں) بیان کرتے ہیں کہ ’’(جنگ یمامہ کے موقع پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد) حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے (اسلامی لشکر کا) عَلم سنبھالا اور لشکر سے گزر کر مسیلمہ کذاب کے مستقر پہاڑ کی طرف چل دیئے اور وہ اِس انتظار میں تھے کہ مسیلمہ تک پہنچ کر اُسے قتل کر دیں. پھر وہ لوٹ آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان کھڑے ہو کر دعوتِ مبارزت دی اور بلند آواز سے پکارا : میں ولید کا بیٹا ہوں، میں عامر و زید کا بیٹا ہوں. پھر اُنہوں نے مسلمانوں کا مروجہ نعرہ بلند کیا اور اُن دنوں اُن کا جنگی نعرہ ’’یا محمداہ صلی اﷲ علیک وسلم‘‘ ( یا محمد! مدد فرمائیے) تھا ۔‘‘اِس حدیث کو امام طبری اور ابن کثیر نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ فوج کی تعداد ساٹھ ہزار تھی. جبکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی. مقابلہ بہت سخت تھا. ایک وقت نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان مجاہدین کے پاؤں اکھڑنے لگے. حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ سپہ سالار تھے. انہوں نے یہ حالت دیکھی تو انہوں نے مسلمانوں کی علامت کے ساتھ ندا کی. یا محمداہ اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا. (البدایہ والنہایہ جلد 6 صفحہ 324).
علامہ ابن کثیر حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کے کے زمانہ خلافت کے احوال لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اس زمانہ کا شعار یا محمداہ تھا ۔(البدایہ والنہایہ جلد 6 ص 324 مطبوعہ دارلفکر بیروت،چشتی)
جنگ یمامہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے پکارا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم یہ روایت وہابیہ کے امام ابن کثیر نے البدایہ میں لکھی ہے وھابیو امام ابن کثیر اس کی سند سے لا علم تھے جاہل تھے کہ تم جیسے عالم اعتراض کرنے آجاتے ہیں امام ابن کثیر سے پوچھو کیوں لکھی یہ روایت جو تمہارے جھوٹے عقیدے کی موت ہے ۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے حضرت کعب بن ضمرہ رضی اللّٰہ عنہما کو ایک ہزار کا لشکر دے کر حلب کی طرف روانہ کیا. جب وہ حلب پہنچے تو یوقنا پانچ ہزار افراد کے ساتھ حملہ آور ہوا. مسلمان جم کر لڑے اتنے میں پانچ ہزار اورں نےحملہ کر دیا. اس خطرناک صورتحال میں حضرت کعب بن جمرہ نے جھنڈا تھامے ہوئے بلند آواز سے نعرہ لگایا یا محمد! یا محمد یا نصراللہ انزل. یا محمد یا محمد اے اللہ کی مدد نزول فرما. مسلمان ان کے گرد جمع ہو گئے اور کمال ثابت قدمی سے لڑے اور فتح پائی. (فتوح الشام, جلد 1 ص 96). ایسے ہی فتح بہسنا میں ایک دن رات بھر لڑائ ہوتی رہی اور مسلمانوں کا شعار تھا یا محمد یا محمد جا نصر اللہ انزل پکارنا تھا. (فتوح الشام جلد 2 صفحہ 218،چشتی)
امام عبدالرحمن بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا. آپ رضی اللّٰہ عنہ کا پاؤں سن ہو گیا. میں نے عرض کی اسے پکاریئے جو آپ کو سب سے محبوب ہے. انہوں نے کہا یا محمد. وہ اسی وقت بھلے چنگے ہو گئے گویا قید سے آزاد کر دیے گئے ہوں. (کتاب الاذکار باب مایقول اذا اخدرت, امام نووی ). حضرت زینب بنت مولا علی رضی اللّٰہ عنہما نے کربلا کی اسیری میں پڑھا. "یا محمداہ یا محمداہ صل علیک و ملک السماہ ھذا حسین بالعراہ........... ان کی پرسوز آواز نے ہر اپنے بیگانے کا رلا دیا. (البدایہ والنہایہ جلد 8 ص 193). امام زین العابدین اپنے مشہور نعتیہ قصدہ میں فرماتے ہیں. یا رحمۃ للعالمین ادرک الذین العابدین. محبوس ایدی الظالمین فی موکب المذدہم ترجمہ : اے رحمۃ للعالمین زین العابدین کی مدد کو پہنچو. وہ اژدھام میں ظالموں کی قید میں ہے .
حصن حصین جو کہ امام جزری رحمہ اللہ کی مرتب کردہ ہے جس میں انہوں نے مسنوں دعائیں اور ازکار جمع کیے ہیں. ان کے فرمان کے مطابق اس کتاب میں انہوں نے اس میں کوئ ایک بھی ضعیف روایت نقل نہیں کی. روایت کرتے ہیں. "جب مدد لینا چاہے تو کہے اے اللہ کے بندو میری مدد کرو, اے اللہ کے بندو میری مدد کرو, اے اللہ کے بندو میری مدد کرو ". (حصن حصین ص 22). حصن حصین کی شرح میں ملا علی قاری اس روایت کے تحت فرماتے ہیں کہ "اللہ کے بندوں سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا مسلمان, یا جن یا رجال الغیب یعنی ابدال" مزید فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور مسافروں کو اس کی بڑی حاجت ہے. اگر جنگل میں جانور بھاگ جائے تو آواز دو کہ اے اللہ کے بندو اسے روکو. ". (الحرزالثمین شرح حصن حصین. ص 202 مطبوعہ مکۃ المکرمہ سعودیہ) یہ کتاب عموما حاجیوں کو تحفہ میں دی جانے والی کتابوں میں بھی شامل ہوتی ہے .
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا ، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا ؟ جس پر شرک کا الزام لگایا گیا یا الزام لگانے والا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220.) . اللہ پاک دورِ فتن میں ہمارے ایمان و عقیدہ کی حفاظت فرمائے. آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment