Saturday 9 June 2018

فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو

0 comments
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو

حضرت صحابۂ کرام رضي اللہ تعالی عنہم کی زندگی اور ان کا کردار ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ ہے، اللہ تعالی نے صحابۂ کرام کے ایمان کو معیار اور کسوٹی قرار دیا ،راہ ھدایت پر وہی شخص ہے جس کا ایمان وعقیدہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان وعقیدہ کے موافق رہے ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار دیا ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم ۔
ترجمہ : میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں ،تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پالوگے ۔ (مشکوۃ المصابیح ص 554، زجاجۃ المصابیح ج5 ص334)

حدیث أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ کے تمام راوی ثقہ ہیں

حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ” . (الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض » الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه … » الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره …، رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن،چشتی)
ترجمہ حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤگے۔
تخریج حدیث قاضی عیاض
اس حدیث کے رجال تمام کے تمام ثقہ ہیں
الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ الحسين بن محمد الصدفي
ان کے بارے میں امام ذہبی کا کہنا ہے کہ لإمام العلامة الحافظ، برع في الحديث متنا وإسنادا مع حسن امام علامہ الحافظ جن کی حدیث متن و سند کے لحاظ سے حسن ہوتی ہے
أَبُو الْحُسَيْنِ المبارك بن عبد الجبار الطيوري
ان کے بارے میں ابن حجر اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ہیں
وَأَبُو الْفَضْلِ أحمد بن الحسن البغدادي
ان کے بارے میں یحی بن معین السمعانی اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ ثقہ حافظ تھے
أَبُو يَعْلَى أحمد بن عبد الواحد البغدادى
خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں حسن تھے
أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ الحسن بن محمد السنجي
خطیب بغدادی کہتے ہیں یہ بڑے شیخ تھے اور ثقہ تھے
مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ محمد بن أحمد المحبوبی
یہ امام ترمذی کے شاگرد ہیں ان کے بارے میں امام حاکم صاحب مستدرک اور امام ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ ثقہ حافظ تھے
لتِّرْمِذِيُّ محمد بن عيسى الترمذی
یہ امام ترمذی ہیں صاحب السنن الترمزی جن کے حفظ ع ثقات میں کوئی شک نہین ہے
الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الواسطی
ان کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں سنت کے پیرو ہیں اور ابو حاتم و ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہیں
سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ
یہ ثقہ و امام ہیں
زائدة بن قدامة الثقفي
ابو حاتم ، امام نسائی ، ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں
عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ
امام ذہبی ، ابو حاتم ، ابن حجر نے اس کی توثیق کی ہے
رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ابن سعد ، ذہبی ، ابن حجر نے اسے ثقہ کہا ہے
حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ
یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی عدالت پر شق کرنا ہی نقص ایمان کی نشانی ہے۔

صحابہ کی اذیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت کا باعث

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم- « اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِى فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِى وَمَنْ آذَانِى فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بناؤ ، پس جس کسی نے ان سے محبت کی تو بالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کی بناء پر ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقینا اس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے ۔ (جامع ترمذی شریف ج 2 ص 225، ابواب المناقب، باب فيمن سب أصحاب النبى - صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر:4236،چشتی)

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ - رضى الله عنه - قَالَ قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - « لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِى ، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ ۔
ترجمہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کو گالی نہ دو تم میں سے اگر کوئي احد پہاڑکے برار سونا خیرات کرے تب بھی وہ صحابہ کے پاؤ سیر جو خیرات کرنے کی برابری نہیں کرسکتا ہے - (صحیح بخاری،کتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر:3673،چشتی)

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظيم وتوقیر کا اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے، صحابۂ کرام نے آپ کے ادب وتعظیم کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ جنکی نظیر نہیں ملتی، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقۂ تکریم وتعظيم کو دیکھ کر اغیار بھی کہنے لگے : جو قوم اپنے نبی کا اتنا ادب اور تعظیم کرتی ہو اس قوم سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا -

حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ادب وتعظيم کو دیکھا تو اپنی قوم سے کہنے لگے: میں نے دنیا کے بادشاہوں کے دربار دیکھے لیکن کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اسقدر تعظیم کرتے نہيں دیکھا جس طرح صحابۂ کرام اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہيں ، قسم بخدا آپ جب ناک شریف صاف فرماتے تو وہ مبارک پانی زمین پر پہونچنے سے پہلے صحابہ اپنے ہاتوں میں لے لیتے اور اپنے چہروں اور جسموں پر مل لیتے،جب آپ کلام فرماتے تو وہ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے ۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقۂ تکریم کو دیکھ کر دشمن بھی صلح پر آمدہ ہوگئے ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں ہر وقت پیکر ادب بنکر حاضرہوتے اور حددرجہ آپ کی تعظیم کرتے ۔
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِىِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَهَبَ إِلَى بَنِى عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَانَتِ الصَّلاَةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِى بَكْرٍ فَقَالَ أَتُصَلِّى لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ قَالَ نَعَمْ . فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلموَالنَّاسُ فِى الصَّلاَةِ ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِى الصَّفِّ ، فَصَفَّقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لاَ يَلْتَفِتُ فِى صَلاَتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ الْتَفَتَ فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه يَدَيْهِ ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ ذَلِكَ ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِى الصَّفِّ ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَصَلَّى ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ . فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ لاِبْنِ أَبِى قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّىَ بَيْنَ يَدَىْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ۔ (صحیح بخاری شریف،کتاب الأذان، باب من دخل ليؤم الناس فجاء الإمام الأول فتأخر الأول أو لم يتأخر جازت صلاته . حدیث نمبر:684) ۔ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ امامت فرما رہے تھے ، پتا چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاچکے ہیں ،فورا پیچھے آگئے ،نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کی اتو عرض گزار ہوئے : ابو قحافہ کے بیٹے کی یہ مجال نہيں کہ آپ کے سامنے نماز بھی پڑھ سکے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔