Tuesday, 5 June 2018

فضائلِ شبِ قدر

فضائلِ شبِ قدر

محترم قارئین : رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت عظیم الشان اور اہم ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کی فضیلت کے بیان میںپوری سورت نازل فرمائی۔ ارشاد ہوتا ہے : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِِo وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِِo لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍٍo تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍٍo سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ۔ (سورۃ القدر، 97 : 1. 5)
ترجمہ : بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہےo اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیںo یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے ۔

لیلۃ القدر کی فضیلت میں کتبِ حدیث بہت سی روایات مذکور ہیں۔ ذیل میں چند ایک احادیث کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ يْمَانًا وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
ترجمہ : جو شخص لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے، اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 : 709، رقم : 1910)

مندرجہ بالا ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر اور طاعت و عبادت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، دکھاوا اور ریا کاری نہ ہو پھر یہ کہ آئندہ برائی نہ کرنے کا عہد کرے۔ اس شان سے عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژدۂ مغفرت بن کر آتی ہے۔ لیکن وہ شخص محروم رہ جاتا ہے جو اس رات کو پائے مگر عبادت نہ کرسکے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ ماہ جو تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا۔ اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2 : 309، رقم : 1644،چشتی)

ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہو سکتا ہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتا ہے تو اَسّی (80) سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگنا کوئی زیادہ مشکل کام تو نہیں ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں۔ وہ ہر اُس شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو ۔ (بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 343، رقم : 3717،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان ایام میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو یوں بیان کرتی ہیں : كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، إذا دخل العشرُ ، أحيا الليلَ وأيقظ أهلَه وجدَّ وشدَّ المِئزَرَ .( صحيح البخاري: 2024 صحيح مسلم: 1174)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو عبادت وریاضت کے لیے اپنی کمر مضبوط کرلیتے، شب بیداری کرتے اور اپنے گھروالوں کو کو بیدار کیا کرتے تھے ۔

آخر کیوں ؟ اس لیے کہ اسی عشرے کے طاق راتوں کی ایک رات شب قدر ہوتی ہے جس کی عبادت وریاضت ہزار مہینے یعنی 83 سال چار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ اسی رات میں قرآن کریم کا نزول ہوا، اس رات میں فرشتے اور روح الأمین نازل ہوتے ہیں۔ اور اس رات میں پورے سال واقع ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
یہ رات فضائل کی ہے برکات کی شب ہے ، یہ رات فرشتوں کی ملاقات کی شب ہے ، یہ رات ریاضت کی مناجات کی شب ہے ، یہ رات فقط لطف و عنایات کی شب ہے ، اس رات کے لمحے میں تقدیس ہے شامل ، یہ رات اگر مل جائے تو ہے زیست کا حاصل ۔

اب سوال یہ ہے کہ اس رات کو شب قدر یا لیلتہ القدر کیوں کہتے ہیں؟ تو اس کی بابت مفسرین کرام کے درمیان اختلاف ہے کیوں کہ عربی زبان میں قدر کے بہت سارے معانی ہوتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے کہا کہ قدر کا معانی تعظیم کے ہیں اس لیے اس رات کو شب قدر کہتے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے : مَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ (سورہ الحج 74) ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے بعض لوگوں نے کہا: قدر کا معنی اندازہ وفیصلہ کرنے کے ہیں،اور چوں کہ اس رات سال بھر کے واقعات کے فیصلے کیے جاتے ہیں،اس لیے اس رات کو شب قدرکہتے ہیں۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ( سورہ الدخان 4) یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہوتا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قدر کے معنی تنگی کے ہیں اور چوں کہ اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اُترتے ہیں کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ ( سورہ طلاق 7) اور جس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہو۔

جبکہ دوسرے لوگوں کا کہنا ہےکہ قدر کے معنی قدرو منزلت کے ہیں، چونکہ اس رات میں جو عبدت کی جاتی ہے اللہ تعالی کے ہاں اس کی بڑی قدر ہے،اس پر بڑا ثواب ہے اس لیے اس کو شب قدر کہتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔

اللہ تعالی نے اس رات کی اہمیت پر مشتمل ایک پوری سورہ نازل کردی ہے جسے ہم سورۃ القدر کے نام سے جانتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿٢﴾ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿٣﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿٤﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿٥﴾
ترجمہ : ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے (1) اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ (2) شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے(3) فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں (4) وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔

اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے، إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (سورہ الدخان 2-4) کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے (3) یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہوتا ہے۔

اس رات کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا : ومَن قامَ ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتِسابًا غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ (صحیح البخاری: 2014 صحیح مسلم: 760،چشتی)

یعنی جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ تعالی سے اجروثواب کی نیت سے عبادت میں مشغول رہا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو گئے۔

بڑا بد قسمت ہے وہ شخص جو اس رات کے فیضان سے محروم رہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا:

إنَّ هذا الشَّهرَ قد حضركموفيه ليلةٌ خيرٌ من ألفِ شهرٍ من حُرِمها فقد حُرم الخيرَ كلَّه ولا يُحرمُ خيرَها إلَّا محرومٌ (صحيح ابن ماجه: 1341)

یعنی تمہارے اوپر ایک ایسا مہینہ آیا ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم ہوگیا وہ سارے خیر سے محروم ہوگیا اور اس کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہتا ہے جو واقعی محروم ہو۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاشیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

أن رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال:تَحَرَّوْا ليلة القدرِ في الوِتْرِ، منالعشرِ الأواخرِ من رمضانَ ) صحيح البخاری: 2017،چشتی)

اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

گویا کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہوتی ہے، البتہ اس رات کی تعین کے تعلق سے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ علیہ نے نیل الأوطار میں چالیس سے زائد اقوال نقل کیا ہے، ویسے اس سلسلے میں ٹھوس بات یہ کہی جا سکتی ہےکہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت بالغہ اور رحمت کاملہ سے اس رات کو آخری عشرہ کی کسی طاق رات میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ امت مسلمہ کے افراد اس کی تلاش و جستجو میں لگے رہیں۔

شیخ محمد بن العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شب قدر تمام سالوں میں کسی خاص رات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ منتقل ہوتی رہتی ہے، مثال کے طور پر کسی سال ستائس کی رات میں ہوتی ہے تو کبھی کسی دوسرے سال میں پچیسویں رات کو ہوتی ہے۔

اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ کسی رات کی تخصیص کیے بغیر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش وجستجو کا اہتمام کیا جائے تاکہ کثرت سے انعامات خداوندی کے مستحق بن سکیں، اور اخفاء وپوشیدگی کا مقصد بھی پورا ہو جائے ۔

البتہ بعض احادیث میں مبارکہ میں شب قدر کی کچھ علامتیں بیان کی گئی ہیں جن کو دیکھ کر ہم شب قدر کی پہچان کر سکتے ہیں ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے:

أن تطلعَ الشمسُ في صبيحةِ يومِها بيضاءَ لا شُعاعَ لها . (صحيح مسلم: 762)
یعنی شب قدر کے بعد کی صبح جب سورج طلوع ہوگا وہ سفید ہوگا اور اس میں روشنی نہیں ہوگی ۔

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ليلةُ القدْرِ ليلةٌ سمِحَةٌ ، طَلِقَةٌ ، لا حارَّةٌ ولا بارِدَةٌ ، تُصبِحُ الشمسُ صبيحتَها ضَعيفةً حمْراءَ(صحيح الجامع: 5475)
یعنی اس کی رات صاف پر سکون سردی وگرمی سے خالی ہوتی ہے، اور اس کی صبح سورج دھیمی روشنی والا سرخ رنگ کا نکلتا ہے ۔

بہر کیف ان عظیم راتوں میں بکثرت نماز، تلاوت قرآن، ذکرو فکر اور توبہ واستغفار کا اہتمام کرنا چاہئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی اس دعا کا کثرت سے ورد کرنا چاہئے، کیوں کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اے اللہ کے رسول جب ہم اس رات کو پائیں تو کیا پڑھیں؟ تو آپ نے یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی تھی : اللَّهمَّ إنَّكَ عفوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي
ترجمہ : اے میرے اللہ تو بڑا معاف کرنے والا ہے تو عفو درگزر کو پسند کرتا ہے اس لیے مجھے معاف فرمادے ۔ (سنن الترمذي: 3513،چشتی)

لیکن بائے افسوس : جب ہم اس تعلق سے مسلمان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے، کہ اکثر لوگ اس رات کی اہمیت سے باکل بے خبر ہیں، عام راتوں کی طرف ان راتوں کو بھی گزار دیتے ہیں، طرفہ تماشہ یہ کہ کچھ لوگ ان مبارک راتوں میں اللہ کی نافرمانی اور کفر وعصیان کے کاموں میں لگے رہتے ہیں ۔

کچھ لوگ ان راتوں میں جاگتے بھی ہیں تو ان کا جاگنا بطور فنکشن ہوتا ہے، مساجد میں روشنی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے لیکن دل کا چراغ بجھا ہوتا ہے، لوگوں کا ہجوم، گرم گرم چائے، مٹھائیوں کا دور، لاؤڈ اسپیکر پر قرآن خوانی اور نعتیہ کلام کے پروگرام ضرور ہوتے ہیں لیکن دل لذت آشنائی سے خالی ہوتا ہے۔

محترم دوستو : ضرورت ہے کہ ہم شب قدر کی عظمت ورفعت کو دل کی گہرائی سے جانیں، اس رات کی عبادت ہزار مہینے یعنی 83سال چارمہینے کی عبادت سے بہتر ہے، اس اہم نکتے کو اپنے ذہن ودماغ میں بٹھائیں اور آج ہی سے کمرکس لیں کہ عشرہ اواخراوربالخصوص اس کی طاق راتوں 21/23/25/27/29 میں سستی وکسلمندی کو بالکل قریب نہ ہونے دیں گے، اس تعلق سے اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ہم سب اس کی توفیق بخشے۔

ان ایام سے فائدہ اٹھانے اور اپنے اندر جمعیت باطنی پیدا کرنے کا سب سے آسان طریقہ اعتکاف ہے کیوں کہ اس میں انسان اپنی دنیاوی مشغولیات سے الگ ہوکر صرف اللہ تعالی کی رضا جوئی اور اس کے تقرب کے حصول میں لگ جاتا ہے، یہی وہ بنیادی مقصد تھا جس کی خاطر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عشرہ اواخر میں ہرسال دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے اور انتقال کے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔

اس سے پہلے شب قدر ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہم آپسی عداوت وچبقلش، بغض و حسد، جھگڑا لڑائی اور نزاع سے بالکل دوری اختیار کرلیں، کیوں کہ یہ چیزیں خیرو بھلائی کے روکنے کا باعث ہیں۔

صحیح بخاری میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں : خرج النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يُخبرنا بليلةِ القدرِ، فتلاحَى رجلانِ من المسلمينَ، فقال : ( خرجت لأخبركم بليلةِ القدرِ، فتلاحَى فُلانٌ وفُلانٌ فرفعت (صحيح البخاری: 2023،چشتی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تاکہ ہمیں شب قدر کے بارے میں بتائیں اس بیچ دو آدمی باہم جھگڑنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نکلا تھا تاکہ تمہیں شب قدر کی بابت بتاؤں لیکن فلاں فلاں باہم جھگڑ نے لگے اس لیے اس کی تعیین اُٹھا لی گئی ۔

عزیز قاری ! ذرا غور کریں کہ لعن طعن، گالم گلوچ اور عداوت ودشمنی کیسا ناسور ہے کہ اس کے باعث شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی اس لیے عشرہ اواخر ہمٰیں اپنے معاشرتی معاملات کی بھی سدھار کر لینی چاہئے ۔

الغرض شب قدر نہایت عظیم اور مہتم بالشان رات ہے اس میں کی جانے والی دعائیں اللہ تعالی رد نہیں فرماتے، اس لیے ہم عشرہ اواخر اور اس کی طاق راتوں کو عبادت وریاضت ، ذکر وفکر، تلاوت قرآن، اور شب بیداری سے آباد کریں اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عنایت کرے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...