Saturday 9 June 2018

ہرچیزاپنی اصلیت کا پتہ دیتی ہے سوشل میڈیا پر ایک نظر

0 comments
ہرچیزاپنی اصلیت کا پتہ دیتی ہے سوشل میڈیا پر ایک نظر

محترم قارئین : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی عرصہ پانچ سال سے سوشل میڈیا پر کام کر رہا ہے اس دوران مختلف لوگوں سے واسطہ پڑا اور مختلف لوگوں کے کمنٹس پڑھے دیکھے جن کے متعلق وقتا فوقتا لکھتا رہا اور کچھ دیگر احباب کی آراء بھی نظر سے گزریں کچھ ان سے جمع کرتا رہا سو آج ان میں سے کچھ پیشِ خدمت ہیں احباب سے گزارش ہے ایک مرتبہ ضرور پڑھیں اور اپنی قیمتی رائے سے نوازیں :

شوشل میڈ یا میں عدم برداشت ، خاص کر گالی گلوج کرنے والے‘‘ کل شئی یرجع الی اصلہ’’ (ہرچیزاپنی اصلیت کا پتہ دیتی ہے) کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں ، اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں :

(1) علم کی کمی: زیادہ تر کم علم علمااورطلبہ ہی سوشل میڈیا پر ہیں، ذی علم اولاً تو اس میں بہت ہی کم ہیں ،جو ہیں بهی تو بہت کم دوسرے کے منہ لگتے ہیں ۔

(2) اختلافی مسائل پربحث: شوشل میڈیا میں اختلافات پر گفتگو کبهی نہ نتیجے تک پہنچی ہے اور نہ پہنچنا ممکن ہے، جیسا کہ ٹی وی چینلوں کے مباحث سے اندازہ ہے ۔

(3) دوسروں کے جذبات سے کهیلواڑ: کسی مقبول شخصیت کی بشری کمزوریوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنے کی مذموم کوشش بهی ایک بڑا سبب ہے،کمی کس میں نہیں،ہمیں اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ خوبیاں کس میں زیادہ ہیں ۔

(4) فطری کمزوری: کچھ لوگوں کی عادت ہی بد زبانی ہے،وہ کہیں بھی ہوں اپنا رنگ دکھانا نہیں بھولتے،ایسے لوگوں کو بلاک کرنے میں ہی بهلائی ہے ۔

عدم برداشت اور بد زبانی کا گراف سوشل میڈیا سےبڑھا ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اندھی عقیدت میں اس قدرگم ہوگئے ہیں کہ ہمیں جس سے عقیدت ہی بس اسی کی بات بہترلگتی ہے،یہ بیماری اہل سنت کے ایک طبقے میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے ۔

عدم برداشت اور بد زبانی کا گراف واقعی بڑھ گیا ہے ۔ اس کے اسباب یہ ہیں : (1) حقائق سے عدم واقفیت جو جہالت اور ہٹ دھرمی تک پہنچانے والی ہے ۔ (2) بے جا عقیدت جو عقیدے کی حد تک پہنچ چکی ہے ۔ (4) اللہ سے بے خوفی جو تحریف، افتریٰ اور لعن طعن تک لے جارہی ہے، وغیرہ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت کے ساتھ رکھے اور ایمان پر خاتمہ نصیب ہو ۔

جس بے باکی کے ساتھ سوشل میڈیا پر بڑے بڑے علما و مشائخ کے بارے میں بدزبانی و کردارکشی کی جاتی ہے ، زبردستی اپنی فکر دوسروں پر تھوپنےکی کوشش ہوتی ہے اور ان کے خلاف موقف رکھنے والوں کو طعن وتشنیع کا نشانا بنایا جاتا ہے ، ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ واقعی سوشل میڈیا کے ذریعے بدزبانی اورعدم قبول و برداشت کا گراف بڑھا ، اس کی کئی وجوہات ہوسکتے ہیں ، مگر چند جو میری ناقص علم میں ہیں وہ یہ ہیں :

شخصیت پرستی : کسی ایک شخصیت یا اس کے ہم فکرعلماکی ہی کتابوں کو پڑھنا و سننا ہے،ان کے علاوہ کسی کی بات کو قابل قراءت و سماعت نہیں سمجھنا ۔

عدم تحقیق ومطالعہ : بغیرتحقیق و دلائل کے بات کرنا ، کیوں کہ بدزبانی جب ہی شروع ہوتی ہے جب کسی کے پاس دلائل نہ ہوں اور وہ اپنے آپ کوبے بس محسوس کرتا ہوں۔

فتوی بازی کا کلچر : دین ومسلک کا سب سے بڑا نقصان بھی فتوی بازی سے ہی ہوا ہے،اسی فتویٰ کلچر کی وجہ سے بدزبانی اور عدم قبول وبرداشت کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔ ہمارے یہاں اکثر بڑی شخصیتوں کے خلاف فتویٰ موجود ہے ، اسی کو دلیل بنا کر گالی گلوج ، کردارکشی اور تذلیل وتفسیق کا بازار گرم کیاجاتا ہے ، جو کسی بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہے ۔


سوشل میڈیا پہ جس تیزی سے بد زبانی اور عدم قبول کی فضا بنی ہے وہ نہایت افسوس ناک اور شرم ناک ہے ۔ آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ عامیانہ گندی زبانیں جنہیں ایک عامی جاہل بھی دوسروں کے سامنے زبان پر لانا اپنے لیئے باعث ننگ و عار سمجھتا ہے ، انہیں یہ صاحبان جبہ و دستار بڑی بے شرمی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں ۔ اس کے پیچھے جو نفسیات کام کر رہی ہیں میرے ناقص فہم کے مطابق مندرجہ ذیل ہیں :

احساس کمتری کا ہونا : جب بندہ اگلے کے بڑھتے اثر و رسوخ اور مقبولیت کو اپنے گمان کے مطابق معدوم یا کم از کم محدود نہیں کر پاتا تو خود کو احساس کمتری کا شکار بنا لیتا ہے اور یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو اگلے کو ویسا دیکھنے میں حائل ہو جاتی ہے جیسا وہ ہوتا ہے ۔ نتیجتاً اگلے کے اثر و رسوخ اور مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے بندہ بد زبانی کا سہارا لینے لگتا ہے جب کہ یہ خود اس کے حق میں پھانسی کا پھندہ بن کر لٹک جاتی ہے ، چشتی ۔

اپنے معتقد علیہ کو نقد و نظر سے ماورا مان لینا : یہ بھی ایک اہم سبب ہے کہ اگر کسی کو ایسا مقام و مرتبہ دے دیا جائے کہ اسے نقد و نظر کے حصار سے ماورا مان لیا جائے اور اسے اس حد تک دلوں میں راسخ کر لیا جائے کہ یہ حسن عقیدت دو قدم آگے بڑھ کر عقیدے کی جگہ لے لے تو ایسی صورت میں معتقد علیہ پہ کی جانے والی ہر نقد و نظر تذلیل و تنقیص نظر آنے لگتی ہے ، پھر اس تنقیص و تذلیل کا انتقام اس طور پر لیا جانے لگتا ہے ، جسے آج کل ہم سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں ۔

عدم برداشت کی ایک وجہ اپنے ممدوح کو عصر ممدوح کے جملہ ارباب علم و عرفان سے فائق گردانتے ہوئے دوسروں کو بھی فائق منوانے کی مذموم روش ہے ۔ یہ طرز عمل کہ تمام مشائخ کی تعظیم اور اپنے ممدوح و شیخ کی تحکیم واجب ہے ، لائق عمل اور قابل قبول ہے ، مگر اپنے ممدوح کے حکم و آراء کا بطور تحکیم دوسروں کو پابند بنانا حد درجہ مذموم ہے ۔ آج کی اس بد زبانی کی بڑھتی فضا کے پیچھے اپنے اپنے ممدوح کو ساری دنیا کے لیئے مقام تحکیم پہ بٹھانا ہے ۔ جب کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی ہے ۔ ان مذکورہ وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں نے لا شعوری طور پر ‘‘ فوق کل ذی علم علیم ’’ کو منسوخ اور غیر تحت قدرت مان لیا ہے ، ورنہ صحابہ کا صحابہ سے، تابعین کا تابعین سے، اکابرین کا اکابرین سے بل کہ اصاغرین کا اکابرین سے علمی اور نظری اختلاف ہر دور میں رہا ، جسے ارباب علم و دانش نے رحمت واسعہ سمجھ کر قبول کیا ،مگر اب چوں کہ ہمارے ممدوح سے بڑھ کر کوئی علم والا ہو جائے یا ہمارے ممدوح سے بہتر کسی کے ذہن میں کوئی نقطہ آ جائے یہ تحت قدرت رہا ہی نہیں تو اب کسی کو حق اختلاف کجا ؟ لہٰذا اب جو شخص بھی اختلاف علمی و نظری کی روش اختیار کرے گا وہ لائق تعزیر ہوگا ، جسے کچھ نہیں تو سب و شتم کا سامنا تو کرنا ہی ہوگا ۔

بد زبانی اور عدمِ قبول و برداشت کا گراف نہیں بڑھا بلکہ اس کے مظاہرے کا گراف بڑھا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے دو کام کیئے ہیں ، ایک مختلف ذوق و سطح کے لوگوں کو شریکِ بحث کیا ہے اور دوسرے ہر طرح کے لوگوں کی فطرتوں کو جوں کا توں پیش کیا ہے تو یہ اصل فطرتیں ہیں ، منافقتوں اور ملمع سازیوں سے پاک ، سوشل میڈیا ذرائع ابلاغ کی دنیا کا انفجار ہے ، جو بے حد تیز ، انتہائی براہِ راست اور بلا امتیاز ہر عالم و جاہل کے زیرِ دست رس ہے اور لائق ہے ، اس کی تحسین کی جانی چاہیئے ۔ بے شک سوشل میڈیا پر شدت و نفرت بھی حدوں سے متجاوز ہے ، لیکن خیر سے مظلوم حق پرست بھی اپنی بات کہہ پا رہا ہے ، ایسے میں ذمہ داری سنجیدہ اور حق طلب طبقے پر ہے کہ وہ پروپیگنڈوں کے بیچ اپنے آپ کو کتنا ثابت قدم رکھ پا رہا ہے اور مقصودِ خالص کو پیشِ نظر رکھ کر کس قدر جستجوے راست اور فہمِ حق کر پا رہا ہے ، تو یہ گویا اس کی سنجیدگی اور حق پسندی کا امتحان ہے ۔ مخصوص حلقہ جاتی بحث و مباحثہ کے تناظر میں بات کی جائے تو سوشل میڈیا نے مظلوم حق کو بلا کم و کاست اپنی بات رکھنے یا فُل آواز سے سے نوحہ و ماتم کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، جس سے جابر طبقہ برہم ہے۔ایک زمانہ تھا کہ جب مقدس کتابیں صرف خواص کے پاس ہوتی تھیں اور ایک زمانہ سوشل میڈیا کی تخلیق سے عین قبل تک کا رہا ہے، جب تشریح و پیش کش صرف خواص کرتے رہے ہیں ، تاہم ایک عام قاری پر دونوں جگہ حجاب تھا ، سوشل میڈیا نے آ کر اس حجاب کو ہٹایا اور ہر چیز کو راست دستیاب کیا ہے ، جس پر تصادم ہونا ہی تھا جو ہوا ، لیکن جلد ہی حالات میں بہتری آئے گی بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہتری آرہی ہے اور بحث و نظر کے خیرِ ثمرات نکل رہے ہیں ، شدت و بد کلامی کا دورِ عروج دھیرے دھیرے زوال پذیر ہے اور قبول و اعتراف کا گراف بہرحال بڑھ رہا ہے ۔

سوشل میڈیا پر بدزبانی اور عدم قبول وبرداشت کا گراف بڑھا ہے، بڑھ رہا ہے اور بڑھتے رہنے کا ہی اندیشہ ہے ، جوں جوں سوشل نیٹ ورکنگ کی سروسز سستی اور ہر کس و ناکس کے دست رس میں آتی جائے گی ، اس طوفان میں اضافہ ہوتا جائے گا ، اس کا مطلب ہے کہ بدزبانی اور عدم قبول وبرداشت کا رجحان وسرشت لوگوں میں پہلے بھی کم نہیں تھی، البتہ نیٹ ہر آدمی کے دست رس میں نہیں تھا ، تو گراف بڑھنے کی ایک بڑی وجہ نیٹ کا عام ہونا ہے ۔ دوسری خاص وجہ ہے تعلیم، کیوں کہ جاہل تو لکھ نہیں سکتا ، چناں چہ تعلیم خواہ مدرسیائی ہو یا اسکولی، باریکی سے تجزیہ کرنے پر اندازہ ہو تا ہے کہ مدرسے کی تعلیم، جب سے انفسی وآفاقی افکار سے انحطاط پذیر ہوئی اور نفس اسلام واخلاق کے افق سے بال وپر سمیٹ کر ، مدرسیائی تعلیم مسلک و مشرب کے دربے میں اور اسکولی تعلیم مسخ شدہ نصاب کےحصار میں قید ہوئی ، تب سے پڑھا لکھا انسان بھی ان پڑھ کے برابر ہی جارح اور شدت پسند نظر آتا ہے اور جب تک اس بڑھتی ہوئی جارحیت اور شدت پسندی کا علاج نہ ہو ، کسی مٹھاس یا نرمی کی امید کرنا بے کار ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں ، مگر افسوس اور المیہ یہ ہے کہ اس میدان میں نوجوان علما یا وہ نوجوان طبقہ جو بزعم خویش دین دار اور مسلک پرست ہے ، اس نے قیادت کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ علم ایک نہایت قیمتی اور پاکیزہ جوہر ہے،جس کی حفاظت کے لیے بھی عمدہ ، نفیس اور پاکیزہ ظرف کی ضرورت ہوتی ہے ، مگر موجودہ دور میں علم کی دولت کثرت سے نااہلوں ، کم ظرفوں اور ناپاک دل رکھنے والوں کو مل گئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج امت میں افتراق وانتشار ، فتنہ وفساد ، بد زبانی ودشنام طرازی کا ایک طوفان برپا ہے اور امت کی بدحالی کا ایک بڑا سبب بھی ۔‘‘جیسی روح ویسے فرشتے’’ کا محاورہ شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے وجود میں آیا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر اہل علم علم کی حفاظت کرتےاور اس کو اس کے اہل ہی کے پاس رکھتے تو وہ اپنے زمانے والوں کے سردار ہوتے، لیکن ان لوگوں نے دنیا طلبی کے لیئے اہل دنیا پر علم کو نچھاور کیا، تو ان کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اپنی تمام تر سوچوں کو ایک سوچ یعنی آخرت کی سوچ بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی غموں کے لیے کافی ہو گا اور جس کی تمام تر سوچیں دنیاوی احوال میں پریشان رہیں، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہو جائے ۔ (ابن ماجہ،کتاب الزہد:۲۵۶،چشتی) علمائے سوء نے ہرزمانے میں ملت اسلامیہ کے سینے میں طرح طرح سے زہریلے خنجر اتارے ہیں ۔ آج چوں کہ سائنس وٹکنالوجی اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، ارسال وترسیل اور ایک دوسرے کو سمجھنا سمجھانا آسان ہوگیا ہے ، اس لیئے آج ہم آسانی سے ایسے مکروہ چہروں کو پہچان پارہے ہیں ، جنھوں نے اپنی بدگوئی وبدزبانی سے اس بہترین آلۂ تبلیغ کو پراگندہ کررکھا ہے ـ شریعت ومسلک ہی کے نام پر قرآن وسنت اور تعلیمات اسلامیہ کا کھلم کھلا مذاق بنایا جارہا ہے اور انھیں کوئی لگام دینے والا نہیں ۔ اس سے قبل کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے سنجیدہ، باوقار اور ذمہ دار علمائے حق کو اس کے روک تھام کے لیئے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ۔

ایک دوسرے کو گالی دینا تو عام بات ہے،گفتگو اگر دلائل کے ساتھ ہو تو بھی نا اہل لوگ عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ایک محاورہ ہے‘‘گنوار کی گالی ہنس کے ٹالی’’ جس کامطلب ہے کہ گالیاں گنوار لوگ ہی دیا کرتے تھے ، جن کی صحیح تربیت نہیں ہوسکی ہے ، اس لیئے اہل دانش ان پر توجہ نہیں دیا کرتے ، مگر اب تو گالی نےترقی کر لی ہے،کیوں کہ اب صاحبان علم و فضل بھی اس میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں ۔اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں، جو جاہل اور گنوار لوگوں کا زیور ہوتی تھیں ،لیکن اب اہل علم بھی ان سے آراستہ و پیراستہ ہیں،بہر حال ان کے لیے خوش خبری ہے کہ بس کچھ ہی دنوں کی زحمت ہے، ابدی سکون اگلے موڑ پر کھڑا ہے اور ان کی طرف آیا ہی چاہتا ہے ۔

یقیناً سوشل میڈیاکے ذریعے بدزبانی اورعدم قبول وبرداشت کا گراف بڑھ گیا ہے ، اس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیاکی بے مہارآزادی ہے ، جنھیں اپنے گھرمیں دووقت کی روٹی میسرنہیں تھی،انھیں سوشل میڈیاپرکنٹرول مل گیا ہے،اس لیے یہ تو ہوناہی تھا ۔

عدم برداشت یقینا بڑھ گیا ہے،اس کی وجہ کم علمی یا پھر علم پر عمل نہ کرنا یا پھر اپنی ناکام برتری ثابت کرناہے ۔

عدم برداشت اور بد زبانی کا گراف سوشل میڈیاسےبڑھاہے،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اندھی عقیدت میں اس قدرگم ہوگئے ہیں کہ ہمیں جس سے عقیدت ہی بس اسی کی بات بہترلگتی ہے،یہ بیماری اہل سنت کے ایک طبقے میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔

یہ بات بالکل درست ہے،سوشل میڈیا ایک ایسا غیر منظم بازار ہے، جس میں جاہلوں کی کثرت ہے، اگر کوئی اچھی اور سنجیدہ گفتگو ادب کے دائرےمیں بھی کرتا ہے توبہت سے عالم نما جاہل ،بازاروحرکتوں پراترآتے ہیں، جن کی باتیں بے سروپا ،دلیل سے خالی اور مغلظات سے بھر پور ہوتی ہے۔ بسا اوقات تویہ لوگ اس حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتاہےکہ کفر و فسق اور گمراہی کی مشین گن لیے بیٹھے ہوں۔ قسم خدا کی ایسے لوگ اپنے موافق و مخالف دونوں گروپس میں صرف نفرت پھیلاتے ہیں ۔سچ کہا ہے کسی نے کہ کسی کے سامنے اپنے محبوب کی اتنی تعریف نہ کرو کہ مخاطب کے دل میں نفرت پیدا ہو جائے ۔ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ عقل کا لبادہ اوڑھیں، پہلے سوچیں پھر بولیں، نہ کہ بول کر سوچیں اور اللہ کا خوف کریں۔ اللہ پاک ہم سب کو عقل سلیم عطافرمائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر یہ چیزیں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں، اس کی بہت سی وجوہات ہیں، اس میں سے ایک یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والا شخص جب اپنے موقف کے بر خلاف کوئی بات دیکھتا ہے تو وہ اپنے موقف کے دفاع کے چکر میں جلد بازی کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ کچھ لکھ بیٹھتا ہے جو مناسب نہیں ہوتا ۔

عدم برداشت اور بد زبانی کا گراف واقعی بڑھ چکا ہے ، جن کے اسباب میری نظر میں یہ ہیں : (1) احقاق حق اور ابطال باطل سے عدم واقفیت ۔ (2) اتنی شخصیت پرستی کہ خدا پرستی پر لا کھڑا کردے ۔ (3) اور سب سے بڑی وجہ کم علمی ۔

اللہ کا فرمان ہے‘‘کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر’’ ،اس امت کو فضلیت اس وجہ سے دی گئی ہے کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی صفت سے متصف ہو،اگرامت اپنی اس عظیم ذمہ داری سے دست بردارہوجائے تو پھرسماج میں بدزبانی اور عدم برداشت کاگراف بڑھ جانالازمی ہے ۔

کچھ لوگ صرف نفرت پھیلانے کی نیت سے نقلی آئی ڈی بناتے ہیں اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں جو رفتہ رفتہ بھیانک آگ کی شکل اختیار کر جاتی ہے ۔
چند سیاسی پارٹیاں بھی اس طرح کا کام کررہی ہیں، حد تو یہ ہے کہ باقاعدہ لوگوں کو تنخواہوں پر رکھا گیا ہے کہ وہ اس طرح کے پیغامات کو عام کریں جس سے لوگ بھڑک اٹھیں ، مثلاً : نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی ، کسی مندر یامسجد پر نازیبہ بیان ، کسی مذہب و مشرب پر انگشت نمائی وغیرہ ۔
کچھ لوگ شہرت پانے کی خواہش میں بھی کسی مشہور شخصیت پر کیچڑ اچھالتے ہیں تاکہ وہ مشہور ہوسکیں ،چشتی)

شوشل میڈیا کے ذریعے عدم قبول وبرداشت کے گراف بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ اخلاقیات سے عاری وخالی ہونا اورسوشل میڈیاپر قبضہ واختیار ہونا ہے۔آپ کویاد ہوگاکہ کسی متنازع مضمون کے ردّعمل میں کیسے کیسے خطوط آتے تھے، یاتو آپ انہیں چھاپتے نہیں تھے اوراگرچھاپتے بھی تھے تو اپنے ادارتی نوٹ کے ذریعے انہیں آئینہ دیکھا دیتے تھے ،اس طرح آئندہ کسی کوایسی اوچھی حرکت کی ہمت نہیں ہوپاتی تھی،مگر یہاں تو سب آزاد ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ہمارا پروردگار سب جانتاہے اور ہم معلم اخلاق کے امتی ہیں ۔

ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگا رہتا ہے اور یہ معاملہ کبھی کبھی گلی گلوج اور طعن و تشنیع تک پہنچ جاتا ہے،اس میں کچھ ایسے مسائل بھی ہوتے ہیں جس میں غیروں کو اور زیادہ موقع مل جاتا ہے۔یہ روش امت کے لیے خوش آئند نہیں۔

کچھ لوگ سوشل میڈیا پر محقق بننے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، شہرت کی پگڑی پہننے کے لیے سعی و کوشش میں لگے رہتے ہیں، کبھی کبھارتو ایسی بات لکھ دیتے ہیں کہ دوسرے کی عقیدت کو کافی ٹھیس پہنچتی ہے،اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔

میں اسے لسانی دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہوں، اس کے اسباب میں بنیادی سبب یہ ہے کہ جو کسی طبقے کے مفروضہ دینی و مسلکی مسلمات سے اختلاف رائے کرتا ہے توایساطبقہ اختلاف رائے کرنے والے کو واجب القتل سمجھتا ہے، لیکن قتل پر قادر نہ ہونے کے سبب اس کی عصمت و آبرو پر اپنی گندی زبان کے ذریعے مسلسل حملے کرتاہے تاکہ ان لسانی زخموں کی تاب نہ لاکر اس کی بے باکی اور اظہار رائے کی آزادی دم توڑ دے۔ یہ اس زمانے کا جدید طرز قتل ہے، جس میں انسان تو سانس لیتا ہے مگر اس میں فکر و عمل کی حرارت نہیں ہوتی ۔

جی ہاں! سوشل میڈیا کے ذریعے بد زبانی اور عدم قبول و برداشت کا گراف نہ صرف بڑھا ہے بلکہ بد تمیزی کی شکل اختیار کرکے اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا حصول معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اس کے توسط سے بہت سارے مثبت اور اچھے کام بھی ہورہے ہیں ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر انسانیت اوراخلاق و اخلاص کا جنازہ اٹھتا ہوا نظر آتاہے۔ میر ی نظر میں اس کے کئی وجوہا ت ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ عام طور پرسوشل میڈیا میں جو معلومات شئیر کی جاتی ہیں ان کا اگر مکمل توجہ سے مطالعہ و معائنہ نہ کیا جائے توان کے کئی پہلونظر آتے ہیں اور مطلب کچھ کا کچھ نکلنے لگتا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے پوسٹ میں کاپی پیسٹ اور ایڈیٹنگ کا اچھا خاصا دخل ہوتا ہے، مگر عدم شعور وفہم کے حاملین شئیر شدہ معلومات کی اصل حقیقت کو جانے بغیر پوسٹ کے مطابق مذہبی، مسلکی ، سیاسی، سماجی یا شخصی طور پر جذباتی ہوجاتے ہیں، اور پھر جو سمجھ میں آتاہے پوسٹ کر ڈ التے ہیں، اس طرح جانبین کے مابین جو جنگ چھڑتی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ اس سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں جہالت کا بول بالا ہے۔آج کوئی کسی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔یہ سچ ہے کہ آپ کا ایک ایک لفظ آپ کی علمیت اور شخصیت کا عکاس ہوتا ہے، آپ کی پسند اور ناپسند سے آپ کی سوچ وفکر اور آپ کے ذوق کا پتہ چلتاہے، اگر کسی کو بڑے سے بڑا باذوق عالم و دانشور اور بڑے سے بڑابے ذوق اور پڑھا لکھا جاہل دیکھناہو تو سوشل میڈیا میں بآسانی دیکھ سکتے ہیں، مجھے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب معتبر و ذمہ دار علما و دانشوران محض تعصب وانانیت کےسبب مسلمہ حقائق سے منہ موڑ لیتے ہیں اور متعلقہ معلومات کے مثبت پہلو پر نظر کرنے کے بجائے منفی پہلو کو لے کر لڑ پڑتے ہیں اور حد تو یہ ہے بد تمیزی پر اتر آتے ہیں بالآخر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ یہی اسباب ہیں کہ سوشل میڈیا پر بد زبانی اور عدم قبول و برداشت کا گراف اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔

مشاہدہ وتجربہ کی روشنی میں یقیناً سوشل میڈیا کے ذریعے بدزبانی وعدم قبول وبرداشت کاگراف شباب کو پہنچ چکاہے، جن کے اسباب وعلل میرے علم میں یہ ہیں : وتوا صوا بالحق وتوا صوا بالصبر’’پرصرف قولاعمل ، فعلا یکسر عاری ۔ انانیت وخودپسندی کے قعرعمیق میں اس قدرڈوب جانا کہ حقائق سے بالکل نابلد ہو ۔ مشربی اختلاف میں اس قدر دلچسپی لینا گویا کامیابی و کامرانی کا واحد ذریعہ یہی ہے ۔

ہوائے نفس، انانیت، دینی تعلیم و تربیت کا فقدان، چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تعظیم کا نہ ہونا ، اکابر کا گروہ در گروہ میں بٹ جانا،دینی قائد کا فقدان ، تنقید کا برائے تخریب ہونا ، اوردینی کام کو تجارتی نقطۂ نظر سے دیکھنا ۔ یہ وہ تمام اسباب ہیں جن کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بدزبانی عام ہو رہی ہے ۔

یہ شدت ہم سب میں پہلے سے موجودتھی ، بس سوشل میڈیا کی یہ کرامت ہےکہ ہمارے باطن کو ظاہر کر دیا ہے ، وگرنہ اسی سوشل میڈیا پہ مہذب قومیں اور احباب بھی موجود ہیں ، جواس نعمت کا صحیح استعمال کررہے ہیں ۔

اس کی اصل وجہ اپنےنظریات کو دوسروں پر جبراً تھوپنا ہے ، چہ جائے کہ وہ درست ہوں یا نہ ہوں ، اپنے آپ کو علامہ اور دوسرے کو ابوجہل سمجھنے کے باعث ایسا ہو رہا ہے ، اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی وجہ سے معاشرے میں عدم قبول و برداشت کا گراف بڑھاہے ۔
یہ سب کسی کامل بندے کی صحبت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ، اللہ ہمیں کسی کامل بندے کی صحبت میسر کرائے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔