حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہلسنت کا کیا عقیدہ ہے؟
محترم قارئین : اس سلسلہ میں گزشتہ چند دنوں سے منہاج القرآن کی صفوں میں گھسے رافضی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کے متعلق انتہائی گھٹیا و بیہودہ زبان استعمال کر رہے ہیں فقیر نے اس سے پہلے بانی منہاج القرآن کی کتب کے اسکینز بھی لگائے اور ابی مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ من و عن پیش خدمت ہے ساتھ میں ماہنامہ منہاج القرآن کا اسکن بھی جو کہ ہم پہلے بھی پوسٹ کر چکے ہیں ۔ یاد رہے ہمارامقصد صرف اتنا ہے کہ صحابی رسول کی توہین نہ کی جائے ان کا احترام کیا جائے سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کےلیئے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا موازنہ شروع کر دیتے ہیں یاد رہے فضائل و مناقب کے لحاظ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی گرد راہ کو بھی نہیں پہن سکتے تو اے موازانہ کرنے والے دھوکے بازو کچھ شرم کرو ہاں نسبت صحابیت کے لحاظ سے سارے صحابہ رضی اللہ عنہم قابل احترام ہیں آیئے مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ پڑھتے ہیں شاید کسی بد نصیب کو جلیل القدر صحابی کی شان میں گستاخی سے توبہ نصیب ہو جائے اللہ تعالیٰ ہمیں بے ادبی و گستاخی سے بچائے آمین ۔ ڈاکٹر فیضاحمد چشتی ۔
فتویٰ مفتی منہاج القرآن
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہلسنت کا کیا عقیدہ ہے ؟
موضوع: فضائل و مناقب
سوال پوچھنے والے کا نام: فیصل اقبال اعوان مقام: خوشاب
سوال نمبر 3990:
السلام علیکم مفتی صاحب! میرے چند سوالات ہیں: (1) حضرت امیر معاویہ کے بارے میں اہلسنت کا کیا عقیدہ ہے؟ (2) اہلنست کی کافی کتابوں میں لکھا ہے کہ اور تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ برسرِ منبر مولا علی کو امیر معاویہ اور ان کے لگائے ہوئے گورنر وغیرہ گالیاں دیتے تھے، اس کی کیا حقیقیت ہے؟ (3) کیا امیر معاویہ نے خود بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت بھی کی تھی؟
جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی، کاتب اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں۔ قرآنِ مجید صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گرد و غبار کی قسمیں کھاتا ہے:
وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًاo فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًاo فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاo فَاَثَرْنَ بِهِ نَقْعًاo
’’(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔‘‘
العاديت، 100: 4
جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گرد وغبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی شان کیا ہو گی۔ ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یقینا شامل ہیں۔ لہٰذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں:
وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْاج.
اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔‘‘
المومن، 40: 7
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جنگ صفین ہوئی جس کا سبب بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا، اس زمانہ میں ممکن نہ تھا، جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہو جانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں باہمی جنگیں ہوئیں جسمیں مسلمانوں کو ایک طرف تو ناقابلِ بیان جانی و مالی نقصان ہوا، دوسری طرف ان کی ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اور تیسری طرف وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے، یکدم رک گئے۔
یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے۔ کسی ایک کو موردِ الزام ٹھہرانا نہ تو درست ہے اور نہ ہی انصاف ہے۔ اس مسئلہ میں وہ لوگ بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور وہ بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اجتہادی خطاء پر ان کی شان و عظمت میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ہمارے نزدیک اﷲ تعالیٰ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین، آئمہ کرام، اولیائے عظام اور علماء و اہل اسلام کا ادب واحترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان ہونے والے باہمی نزاعات سے متعلق اہل سنت کے مؤقف کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: مشاجرات صحابہ میں اہلِ سنت کا کیا مؤقف ہے؟
آپ نے تاریخ کی کتب میں جو گالیاں وغیرہ دینے کے بارے میں پڑھا یا سنا ہے وہ عربی کتب میں ’سب وشتم‘ کے الفاظ سے مذکور ہے۔ سب وشتم کا مطلب ہے برا بھلا کہنا۔ عربی میں ان الفاظ کا مفہوم وسیع ہے، جس میں تنقید بھی شامل ہے۔ یہ تنقید سخت الفاظ میں بھی ممکن ہے اور نرم الفاظ میں بھی۔ اس میں گالی دینے کا مفہوم بھی شامل ہے اور نرم انداز میں ناقدانہ تبصرے کا بھی۔ لہٰذا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت اور جنگ صفین کے بعد بننے والے ماحول میں سخت اور نرم الفاظ سے تنقید بھی کی جاتی تھی اور منافقین گالی گلوچ بھی کیا کرتے تھے۔ دورِ یزید میں برسر منبر اہل بیت اطہار کو برا بھلا کہنا اور بیہودہ گالیاں دینا رواج بن گیا تھا۔
بنو امیہ کے اکثر حکمران اہل بیت سے بغض رکھتے تھے۔ اس کا آغاز یزید کے دورِ حکومت سے ہوا۔ یزید نے ایک نئی طرز پیدا کر دی۔ اُس بدبخت اور ملعون کے زمانہ میں ایک کلچر develop ہوگیا، سارے معاملہ نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا، معاملہ Politicize ہوگیا۔ حکومت کے چھوکرے، لونڈے، عمال، انتظامیہ، بیوروکریسی، وزیر، مشیر، سیاسی نمائندگان، جن کو چھوٹی چھوٹی سطح کا اقتدار ملتا ہے، علاقوں میں اُن کے ذمہ داران، یہ تمام اہل بیت اطہار کے خلاف ہر سطح پر ایک ماحول پیدا کرتے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔ سیدنا مولا علی المرتضی اور اہل بیت اطہارکو برا بھلا کہتے۔
حتی کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جو پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں، جب اُن کا دور آیا، تو انہیں یہ قانون نافذکرنا پڑا کہ جو یزید کو امیرالمومنین کہے گا، شرعی طور پہ اُس کو بیس کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اس حوالے سے مزید سخت اقدامات لینے پڑے۔ آپ نے منبروں پر حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنھما اور اہل بیت اطہار کو گالی دینے کا کلچر حکماً بند کردیا۔ لوگوں کے ذہن اتنے یکطرفہ اور اتنے زہر آلودہ ہو چکے تھے کہ باقاعدہ احکامات صادر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اطہار کو اور سیدنا مولاعلی المرتضی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر پابندی لگادی تو تاریخ کی کتب، اسماء الرجال کی کتب، محدثین کے ہاں یہ درج ہے کہ عامۃ الناس نے شور مچایا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے سنت بند کردی۔ حالانکہ وہاں سنت سے لغوی معنی مراد ہے کہ وہ ایک طریقہ اور شیوہ جو پرانا چلا آرہا تھا، اس کو ختم کردیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ سنت بند نہیں کی بلکہ جو بند کیا وہ بےہودگی تھی، دین کے خلاف ایک ماحول تھا، جو بعض لوگوں نے اپنے مفادات کے لئے بنا رکھا تھا تاکہ حکومت سے مراعات لیں‘ اُس کوبند کیا ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو اپنا ولی عہد بنایا دیا، جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اختلاف بھی کیا لیکن انہوں نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا جو بعد میں مسلمانوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا۔ یہ اُن کی اجتہادی خطاء تھی ۔ (پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment