درس قرآن موضوع آیت : وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ
وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے عالَم حیات ظاہری میں حضور (یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا ، اب حضورِمزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُر نور کی طرف توجہ ، حضور سے تَوَسُّل ، فریاد ، اِستِغاثہ ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ امام علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں : رُوْحُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ‘‘ ترجمہ : نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵/۶۵۴)
قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ نقل کرتے ہیں کہ : حضرت عمرو بن دینار رحمتہﷲعلیہ نے فرمایا : ان لم یکن فی البیت احد فقل : السلام علی النبی ورحمتہﷲ وبرکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت ورحمتہﷲ وبرکاتہ "
ترجمہ : اگر کوئی گھر میں نہ ہو تو (داخل ہوتے وقت) یوں کہو : السلام علی النبی ورحمتہﷲ وبرکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت ورحمتہﷲ وبرکاتہ ۔
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم الجزء الثانی صفحہ ٣٠٧ القاضی ابی الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض المالکی (٥٤٤ھ) الیحصُبی الاندلسی ثم المراکشی مطبوعہ دارالحدیث القاھرہ (مصر)۔(کتاب الشفاء (اردو) جلد دوم صفحہ 64 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
شفاء شریف کی شرح کرتے ہوئے امام ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمتہ اس مقام پر آکر یوں فرماتے ہیں : لان روحہ علیہ السلام حاضر فی بیوت اھل الاسلام ۔
ترجمہ : (یعنی السلام علی النبی ورحمتہﷲ وبرکاتہ کا حکم اس لئے کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی روح ہر مسلمان کے گھر میں حاضر ہوتی ہے ۔ (شرح الشفاء الجزء الثانی صفحہ ١١٨ الملا علی قاری الھروی الحنفی علیہ الرحمتہ
(متوفی ١٠١٤ھ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
الحمد للہ اہلسنت کے وہی عقائد ہیں جو اکابرین اہلسنت کے تھے : حیرت والی بات یہ ہے کہ اکابرین و سلف صالحین علیہم الرّحمہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو ہر مسلمان کے گھر جلوہ فرما مانیں تو ان کے ایمان کی بنیاد مضبوط کی مضبوط ہی رہتی ہے اور اگر متاخرین بزرگانِ اہلسنت اسی عقیدے کو " حاضر و ناظر " کے عنوان سے بیان فرمائیں تو شرک کے فتوے صادر فرما دیئے جاتے ہیں ۔ مخالفین کا یہ دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے ۔
یاد رہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے، اپنی مغفرت ونجات کی اِلتِجاء کرنے اور اپنی مشکلات کی دوری چاہنے کا سلسلہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے چلتا آ رہا ہے ۔
حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا ،نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا : اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لئے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہتعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی ، حتّٰی کہ ان پرغشی طاری ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تشریف لا کر اپنے دستِ اقدس سے مجھے نہیں کھولتے ۔ چنانچہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا ۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبیصلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ۔۔۔ الخ، ۴/۱۳-۱۴، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲/۱۹۰)
بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ میں توبہ و رُجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسا بستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے، میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں ۔ ارشاد فرمایا : یہ گدا یہاں کیوں ہے ؟ عرض کی : میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے لئے خریدا تھا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دئیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو ۔‘‘ اور ارشاد فرمایا : ’’جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲/۲۱، الحدیث: ۲۱۰۵،چشتی)
حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بھی تھے جمع ہوکر جَبر وقَدر میں بحث کرنے لگے تو روحُ الْاَمین حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے ۔ چنانچہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبْنَا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے دربار میں توبہ پیش کی ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کو واجب کرلیتے ، میرے پاس جبرائیل امینعَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے ۔ (معجم الکبیر، ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲/۵۹، الحدیث: ۱۴۲۳،چشتی)
حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے ۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرما دیجئے وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا: تم حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں ۔ حضرت بلال بن حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ سن کر رونے لگے ، پھر فرمایا : یا رب !عَزَّوَجَلَّ ، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۷/۴۸۲، الحدیث: ۳۵، وفاء الوفائ، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲/۱۳۷۴، الجزء الرابع،چشتی)
ایک مرتبہ مدینۂ منورہ میں شدید قحط پڑا، اہلِ مدینہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور دیکھو اور چھت میں ایک روشندان بناؤ حتّٰی کہ روضۂ منور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے، اہلِ مدینہ نے جیسے ہی روشندان بنایا تو اتنی کثیر بارش ہوئی کہ سبز گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہو گئے یہاں تک کہ گوشت سے بھر گئے ۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ، ۱/۵۶، الحدیث: ۹۲)
بادشاہ ابو جعفرمنصور نے حضرت امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مسجدِ نبوی شریف میں مناظرہ کیا ، دورانِ مناظرہ ابو جعفر کی آواز کچھ بلند ہوئی تو امام مالک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اسے ( ڈانٹتے ہوئے) کہا: اے امیرُ المؤمنین! اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا کہ’’ تم اپنی آوازوں کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی آواز سے بلند مت کرو ۔‘‘اور دوسری جماعت کی تعریف فرمائی کہ’’ بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پَست کرتے ہیں۔‘‘ اور ایک قوم کی مذمت بیان کی کہ’’ بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔‘‘ بے شک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی عزت و حرمت اب بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات میں تھی۔ یہ سن کر ابو جعفر خاموش ہو گیا، پھر دریافت کیا : اے ابو عبداللہ! میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی طرف متوجہ ہو کر ؟ فرمایا : تم کیوں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے منہ پھیرتے ہو حالانکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں بلکہ تم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہی کی طرف متوجہ ہو کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے شفاعت مانگو پھر اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرمائے گا ۔ (شفا شریف، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل واعلم انّ حرمۃ النبی۔۔۔ الخ، ص۴۱، الجزء الثانی،چشتی)
مروان نے اپنے زمانۂ تَسَلُّط میں ایک صاحب کو دیکھا کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا: جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ اس پر ان صاحب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، میں تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے حضور حاضر ہوا ہوں ،۔ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : دین پر نہ روؤ جب اس کا اہل اس پر والی ہو، ہاں اس وقت دین پر روؤ جبکہ نا اہل والی ہو۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے ۔ (مسند امام احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹/۱۴۸، الحدیث: ۲۳۶۴۶)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد ،کی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء،چشتی)
معلوم ہوا استغاثہ اور وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جائز ہے ۔
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ ( تفسیر بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی ۔ (۔تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265،چشتی)
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)
حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، جو آپ نے فرمایا، ہم نے سنا اور جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ پر نازل ہوا ،اس میں یہ آیت بھی ہے’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا‘‘ میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے ۔اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تجھے بخش دیا گیا ۔ (مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۳۶)
یہ آیت ِ مبارکہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی عظیم مدح و ثنا پر مشتمل ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بہت سے اشعار فرمائے ہیں ۔ چنانچہ’’ حدائق بخشش‘‘ میں فرماتے ہیں :
مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوۡکَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
اور فرمایا :
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
اور فرمایا:
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا
آیت’’ وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ ‘‘سے معلوم ہونے والے احکام
(1) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت پیش کرنے کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے ۔
(2) قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی ’’ جَآئُ وْکَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے ۔
(3) بعد ِوفات مقبولانِ حق کو ’’یا‘‘ کے ساتھ نِدا کرنا جائز ہے ۔
(4) مقبولانِ بارگاہِ الٰہی مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے ۔
اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔
اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ: اے محبوب ! ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔
معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے۔
وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89)
مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں نہیں لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے۔
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔
بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں۔
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ (سورة البقرہ، 144) ۔
ترجمہ : ہم آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیردیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں ۔
معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لئے ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ معلم و مقصود کائنات کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔جب کعبہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلہ کامحتاج ہے تودوسروں کاکیاپوچھنا ہے ۔
مسندامام احمدبن حنبل میں حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے چالیس (40)ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس(40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں سے عذاب دورہوگا۔ معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے وسیلہ سے بارش فتح ونصرت ملتی ہے اوربلادفع ہوتی ہے۔(مشکوٰة باب ذکریمن وشام،چشتی)
دارمی شریف میں ہے کہ ایک دفعہ مدینہ شریف میں بارش بندہوگئی اور قحط پڑگیا لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیاآپ نے فرمایاکہ روضۂ رسول پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی چھت کھولدوکہ قبرانور اورآسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تولوگوں نے ایساہی کیاتو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگااونٹ موٹے ہوگئے گویا چربی سے بھرگئے ۔(مشکوٰة ،باب الکرامات،چشتی)
مشکوٰ شریف باب المعراج میں ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں کہ ہم واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے توآپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا؟ فرمایا ہردن پچاس (50) نمازوں کافرمایا۔حضور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی امت میں اتنی طاقت نہیں میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں ۔ اپنی امت کیلئے رب سے رعایت مانگئے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہواکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اوررحمت ملی کہ پچاس(50) نمازوں کی صرف پانچ باقی رہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کاوسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے۔
مسلم وبخاری میں ہے کہ حضور نے فرمایا ''انما اناقاسم واللہ معطی'' (مشکوٰة ،کتاب العلم) ۔ ترجمہ : ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں حضورپرنور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم تقسیم فرمانے والے ہیں اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتاہے لہٰذا نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خالق کی ہرنعمت کاوسیلہ ہیں ۔
شرح سنہ میں ہےکہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے ایک اونٹ نے جوکھیت میں کام کررہا تھا حضور علیہ الصلاة والسلام کودیکھا اور منھ اپنازانوئے مبارک پررکھ کرفریاد ی ہواسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس کے مالک کوبلاکر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتاہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہواورچارہ کم دیتے ہو۔اس کے ساتھ بھلائی کرو۔ معلوم ہواکہ بے عقل جانور بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کورفع حاجات کیلئے وسیلہ جانتے ہیں ۔جو انسان ہوکرانکے وسیلہ کامنکر ہووہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کودودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع،چشتی)
معلوم ہوانبی کاوسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کابندۂ بے دام ہے ۔
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کاجُبہّ شریف تھا۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کونبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں کہ مدینہ میں جوبیمار ہوجاتا ہے اسے دھوکر پلاتے ہیں اس سے شفا ہوجاتی ہے ۔ (مشکوٰة، کتاب اللباس) ۔ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بدن شریف سے مس کئے ہوئے کوشفاکاوسیلہ سمجھ کر اسے دھوکر پیتے تھے ۔ بخاری شریف کتاب المساجد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کوحج کوجاتے ہوئے ہراس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے حج کے موقع پر نمازپڑھی تھی ۔ یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں معلوم ہواکہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment