Monday, 4 June 2018

فضائل و مسائل اعتکاف

فضائل و مسائل اعتکاف

اعتکاف ماہ رمضان کی خصوصی عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔ ہر طرف سے منقطع ہوکر، دل و دماغ کو دنیاوی کھیل تماشوں سے ہٹا کر اﷲ تعالیٰ کے در پر دھرنا مار کر بیٹھ جانا اور فقط اپنے مہربان پرودگار جل جلالہ سے لو لگائے بیٹھ جانے کا نام اعتکاف ہے، اس کا سب سے افضل وقت ماہ رمضان کا آخری عشرہ ہے۔
اعتکاف کا جو اجر و ثواب آخرت میں ملے گا وہ تو وہیں بندہ دیکھے گا مگر جس بندے کو اعتکاف کی اصل روح نصیب ہوجائے، مسجد میں قیام کی چاشنی نصیب ہوجائے اور اپنے رب کی محبت کا کوئی ذرہ نصیب ہوجائے جس کے سامنے ساری نعمتیں اور لذتیں ہیچ ہیں اس بندے کا کیا کہنا، یقینا وہ بندہ اﷲ تعالیٰ کا حقیقی مہمان ہے ۔
اگر معتکفین پر اعتکاف کی اصل لذت منکشف ہوجائے تو ہماری مسجدیں رمضان میں معتکفین سے بھری رہا کریں۔ اب آپ کے سامنے اعتکاف فضیلت احادیث کی روشنی میں پیش کرتا ہوں۔
حدیث شریف: حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے کہ جس نے رمضان المبارک میں (دس دن) کا اعتکاف کرلیا وہ ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کئے ۔ (شعب الایمان جلد 3ص 425)
حدیث شریف: حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سید عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کے لئے تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جیسے ان کے کرنے کے لئے ہوتی ہیں (ابن ماجہ جلد 2ص 265)
حدیث شریف: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ (جامع الصغیر ص 516،چشتی)
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جو اعتکاف کیا جاتا ہے وہ اعتکاف مسنون ہے۔ اس اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ ختم ہونے کے وقت غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند ہونے تک باقی رہتا ہے۔ چونکہ اس اعتکاف کاآغاز اکیسویں شب سے ہوتا ہے اور رات غروب آفتاب سے شروع ہوجاتی ہے، اس لئے اعتکاف کرنے والے کو چاہئے کہ بیسویں روز کو مغرب سے اتنے پہلے مسجد کی حدود میں پہنچ جائے کہ غروب آفتاب مسجد میں ہو۔ رمضان شریف کے عشرۂ اخیرہ کا یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی ایک بستی یا محلے میں کوئی ایک شخص اعتکاف کرلے تو تمام اہل محلہ کی طرف سے سنت ادا ہوجائے گی، لیکن اگر سارے محلہ میں سے کسی ایک نے بھی اعتکاف نہ کیا تو سارے محلے والوں پر ترک سنت کا گناہ ہوگا (شامی)
اس سے واضح ہوگیا کہ یہ ہر محلے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے سے یہ تحقیق کریں کہ ہماری مسجد میں کوئی شخص اعتکاف میں بیٹھ رہا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی آدمی نہ بیٹھ رہا ہو تو فکرکرکے کسی کو بٹھائیں۔ لیکن کسی شخص کو اجرت دے کر اعتکاف میں بٹھانا جائز نہیں۔ کیونکہ عبادت کے لئے اجرت دینا اور لینا دونوں ناجائز ہیں (شامی)
اگر محلے والوں میں سے کوئی بھی کسی مجبوری کی وجہ سے اعتکاف میںبیٹھنے کے لئے تیار نہ ہو تو کسی دوسرے محلے کے آدمی کو اپنی مسجد میں اعتکاف کرنے کے لئے تیار کرلیں۔ دوسرے محلہ کے آدمی کے بیٹھنے سے بھی اس محلے والوں کی سنت ان شاء اﷲ ادا ہوجائے گی۔ اعتکاف کا رکن اعظم یہ ہے کہ انسان اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود میں رہے اور حوائج ضروریہ کے سوا (جن کی تفصیل آگے آرہی ہے) ایک لمحہ کے لئے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلے کیونکہ اگر معتکف ایک لمحہ کے لئے بھی شرعی ضروریات کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
شرعی ضرورت کے لئے نکلنا
شرعی ضرورت سے ہماری مراد یہاں وہ ضروریات ہیں جن کی بناء پر مسجد سے نکلنا شریعت نے معتکف کے لئے جائز قرار دیا ہے۔ اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ یہ ضروریات مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔پیشاب پاخانے کی ضرورت
2۔ غسل جناب جبکہ مسجد میں غسل ممکن نہ ہو
3۔ وضو جبکہ مسجد میں رہتے ہوئے وضو کرنا ممکن نہ ہو
4۔ کھانے پینے کی اشیاء باہر سے لانا، جبکہ کوئی اور شخص لانے والا موجود نہ ہو
5۔ موذن کے لئے اذان دینے کے مقصد سے باہر جانا
6۔ جس مسجد میں اعتکاف کیا ہے اگر اس میں جمعہ کی نماز نہ ہوتی ہو تو جمعہ کی نماز کے لئے دوسری جگہ جانا
7۔ مسجد کے گرنے وغیرہ کی صورت میں دوسری مسجد میں منتقل ہونا۔ ان ضروریات کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے باہر جانا معتکف کے لئے جائز نہیں۔
معتکف قضائے حاجت کی ضرورت سے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے، جہاں تک پیشاب کا تعلق ہے اس کے لئے مسجد کے قریب ترین جس جگہ پیشاب کرنا ممکن ہو، وہاں جانا چاہئے، لیکن پاخانے کے لئے جانے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر مسجد کے ساتھ کوئی بیت الخلاء ہے اور وہاں قضائے حاجت کرنا ممکن ہے تو اسی میں قضائے حاجت کرنا چاہئے۔ کہیں اور جانا درست نہیں، لیکن اگر کسی شخص کے لئے اپنے گھر کے سوا کسی اور جگہ قضائے حاجت طبعاً ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ اس غرض کے لئے اپنے گھر چلا جائے۔ خواہ مسجد کے قریب بیت الخلاء موجود ہو۔ لیکن جس شخص کو یہ مجبوری نہ ہو، اسے مسجد کا بیت الخلاء ہی استعمال کرنا چاہئے اگر ایسا شخص مسجد کا بیت الخلاء چھوڑ کر اپنے گھر چلا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ (شامی)
2۔ لیکن اگر مسجد کا کوئی بیت الخلاء نہ ہو یا اس میں قضائے حاجت ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو قضائے حاجت کے لئے اپنے گھر جانا جائز ہے خواہ وہ گھر کتنی ہی دور ہو ۔ (شامی)
3۔ اگر مسجد کے قریب کسی دوست یا عزیز کا گھر موجود ہو تو قضائے حاجت کے لئے اس کے گھر جانا ضروری نہیں بلکہ اس کے باوجود اپنے گھر میں جانا جائز ہے۔ خواہ گھر اس دوست یا عزیز کے مکان کے مقابلے میں دور ہو ۔ (شامی)
4۔ اگر کسی شخص کے دو گھر ہوں تو اس کو چاہئے کہ قریب والے مکان میں چلا جائے۔ دور والے گھر میں جانے سے بعض علماء کے نزدیک اعتکاف ٹوٹ جائے گا (شامی و عالمگیری)
5۔ اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو خالی ہونے کے انتظار میں ٹھہرنا جائز ہے لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحہ کے لئے بھی ٹھہرنا جائز نہیں۔ اگر ٹھہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا (برجندی 223)
6۔ بیت الخلاء کو جاتے یا وہاں سے آتے وقت تیز چلنا ضروری نہیں، آہستہ آہستہ چلنا بھی جائز ہے (عالمگیریہ)
7۔ قضائے حاجت کے لئے جاتے وقت کسی شخص کے ٹھہرانے سے ٹھہرنا نہ چاہئے بلکہ چلتے چلتے اسے بتا دینا چاہئے کہ میں اعتکاف میں ہوں۔ اس لئے ٹھہر نہیں سکتا۔ اگر کسی کے ٹھہرانے سے کچھ دیر ٹھہر گیا تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر راستے میں کسی قرض خواہ نے روک لیاتو امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کے نزدیک اس سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اگر صاحبین کے نزدیک ایسی مجبوری سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا اور امام سرخسی رحمتہ اﷲ علیہ نے سہولت کی بناء پر صاحبین کے قول کی طرف رجحان ظاہر کیا ہے۔ (مبسوط سرخسی ص 122ج 3) لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ کسی بھی صورت میں راستہ میں نہ ٹھہرے۔
8۔ جب کوئی شخص قضائے حاجت کے لئے اپنے گھر گیا ہو تو قضائے حاجت کے بعد وہاں وضو کرنا جائز ہے (مجمع الانہر ص 256ج 1،چشتی)
9۔ قضائے حاجت میں استنجا بھی داخل ہے۔ لہذا جن لوگوں کو قطرے کا مرض ہوتا ہے۔ وہ اگر صرف استنجا کے لئے باہر جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں۔ اسی لئے فقہاء نے استنجا کو قضائے حاجت کے علاوہ خروج کا مستقل عذر قرار دیا ہے ( شامی ص 32 ج 2)
معتکف کا غسل
معتکف کو صرف احتلام ہوجانے کی صورت میں غسل جنابت کے لئے مسجد سے باہر جانا جائز ہے۔ اس میں بھی یہ تفصیل ہے کہ اگر مسجد کے اندر رہتے ہوئے غسل کرنا ممکن ہو مثلا کسی بڑے برتن میں بیٹھ کر اس طرح غسل کرسکتا ہو کہ پانی مسجد میں نہ گرے تو باہر جانا جائز نہیںلیکن اگر صورت یہ ہے کہ ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو غسل جنابت کے لئے باہر جاسکتا ہے (فتح القدیر ص 111ج 3) اور اس میں بھی یہی تفصیل ہے کہ اگر مسجد کا کوئی غسل خانہ موجود ہے تو اس میں جاکر غسل کرلیں لیکن اگر مسجد کا کوئی غسل خانہ نہیں ہے یا اس میں غسل کرنا کسی وجہ سے ممکن نہیں یا سخت دشوار ہے تو اپنے گھر جاکر بھی غسل کرسکتے ہیں۔ غسل جنابت کے سوا کسی اور غسل کے لئے مسجد سے نکلنا جائز نہیں۔ جمعہ کے غسل یا ٹھنڈک کی غرض سے مسجد سے باہر نکلے گا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ البتہ جمعہ کا غسل ہو یا ٹھنڈک کے لئے نہانا ہو تو اس کے لئے ایسی صورت اختیار کی جاسکتی ہے جس سے پانی مسجد میں نہ گرے مثلا کسی ٹب میں بیٹھ کر نہالیں یا مسجد کے کنارے پر اس طرح غسل کرنا ممکن ہو کہ پانی مسجد سے باہر گرے تو ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ معتکف کو اعتکاف میں جمعہ کے غسل یا ٹھنڈک کی خاطر غسل کے لئے باہر نہیںجانا چاہئے ہاں نفلی اعتکاف میں ایسا کرسکتے ہیں اس صورت میں جتنی دیر غسل کے لئے باہر رہیںگے اتنی دیر اعتکاف معتبر نہ ہوگا۔
معتکف کا وضو
1۔ اگر مسجد میں وضو کرنے کی ایسی جگہ موجود ہے کہ معتکف خود تو مسجد میں رہے لیکن وضو کا پانی مسجد سے باہر گرے تو وضو کے لئے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔ چنانچہ ایسی صورت میں معتکف کو وضو خانے تک جانا بھی جائز نہیں ہے۔ بعض مسجدوں میں معتکفین کے لئے الگ پانی کی ٹونٹیاں اس طرح لگائی جاتی ہیں کہ معتکف خود مسجد میں بیٹھتا ہے لیکن ٹونٹی کا پانی مسجد سے باہر گرتا ہے۔ اگر مسجد میں ایسا انتظام موجود ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اگر ایسا انتظام نہیں ہے تو نل سے وضو کرنے کی بجائے کسی غیر معتکف سے پانی منگوا کر مسجد کے کنارے پر اس طرح وضو کرلیں کہ پانی مسجد سے باہر گرے۔
2۔ لیکن اگر مسجد میں ایسی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو وضو کے لئے مسجد سے باہر وضو خانے یا وضو خانہ موجود نہ ہو تو کسی اور قریبی جگہ جانا جائز ہے (شامی) اور یہ حکم ہر قسم کے وضو کا ہے خواہ وہ فرض نماز کے لئے کیا جارہا ہو، یا نفلی عبادت کے لئے۔
3۔ جن صورتوں میں معتکف کے لئے وضو کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہے ان میں وضو کے ساتھ مسواک، منجن یا پیسٹ سے دانت مانجھنا صابن لگانا اور تولیہ سے اعضاء خشک کرنا بھی جائز ہے لیکن وضو کے لئے ایک لمحہ کے لئے ٹھہرنا جائز نہیں اور نہ ہی راستہ میں رکنا جائز ہے۔
کھانے کی ضرورت
اگر کسی شخص کو ایسا آدمی میسر ہو جو اس کے لئے مسجد میں کھانا، پانی لاسکے تو اس کے لئے کھانا لانے کی غرض سے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں، لیکن اگر کسی شخص کو ایسا آدمی میسر نہیں ہے تو وہ کھانا لانے کے لئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے۔ لیکن کھانا مسجد میں لاکر ہی کھانا چاہئے ،نیز ایسے شخص کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے وقت مسجد سے نکلے جب اسے کھانا تیار مل جائے تاہم اگر کچھ دیر کھانے کے انتظار میں ٹھہرنا پڑے تو مضائقہ نہیں۔
اعتکاف کاٹوٹ جانا
مندرجہ ذیل چیزوں سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
1۔ جن چیزوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے سوا کسی مقصد سے اگر کوئی معتکف حدود مسجد سے باہر نکل جائے خواہ یہ باہر ایک ہی لمحہ کے لئے کیوں نہ ہو تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے (ہدایہ) واضح رہے کہ مسجد سے نکلنا اس وقت کہا جائے گا، جب پائوں مسجد سے اس طرح باہر نکل جائیں کہ اسے عرفا مسجد سے نکلنا کہا جاسکے، لہذا اگر صرف سر مسجد سے باہر نکال دیا تو اس سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔
2۔ اسی طرح اگر کوئی معتکف شرعی ضرورت سے باہر نکلے لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی باہر ٹھہر جائے تو اس سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے (شامی)
3۔ بلا ضرورت مسجد سے باہر نکلنا خواہ جان بوجھ کر ہو یا بھول کر یا غلطی سے، بہر صورت اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ اگر بھول کر یاغلطی سے باہر نکلا ہے تو اس سے اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا (شامی)
4۔ کوئی شخص احاطہ مسجد کے کسی حصہ کو مسجد سمجھ کر اس میں چلا گیا حالانکہ درحقیقت وہ حصہ مسجد میں شامل نہیں تھا تو اس سے بھی اعتکاف ٹوٹ گیا۔ اسی لئے شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ اعتکاف میںبیٹھنے سے پہلے حدود مسجد اچھی طرح معلوم کرلینی چاہئیں۔
5۔ اعتکاف کے لئے چونکہ روزہ شرط ہے اس لئے روزہ توڑ دینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عذر جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے توڑا ہو، ہرصورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ غلطی سے روزہ ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ تو یاد تھا، لیکن بے اختیار کوئی عمل ایسا ہوگیا جو روزے کے منافی تھا مثلا صبح صادق طلوع ہونے کے بعد تک کھاتے رہے، یا غروب آفتاب سے پہلے یہ سمجھ کر روزہ افطار کرلیا کہ افطار کا وقت ہوچکا ہے یا روزہ یاد ہونے کے باوجود کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق میں چلاگیا تو ان تمام صورتوں میں روزہ بھی جاتا رہا اور اعتکاف بھی ٹوٹ گیا۔ لیکن اگر روزہ ہی یاد نہ رہا اور بھول کر کچھ کھا پی لیا تو اس سے روزہ بھی نہیں ٹوٹا اور اعتکاف بھی فاسد نہیں ہوا (در مختار و شامی ص 136ج 2،چشتی)
6۔ جماع کرنے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے خواہ یہ جماع جان بوجھ کر کرکے یا سہوا دن میں کرے یا رات میں، مسجد میں کرے یا مسجد سے باہر اس سے انزال ہو یا نہ ہو، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے (ہدایہ)
7۔ بوس و کنار اعتکاف کی حالت میں ناجائز ہے اور اگر اس سے انزال ہوجائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر انزال نہ ہو تو ناجائز ہونے کے باوجود اعتکاف نہیں ٹوٹتا
مندرجہ ذیل صورتوں میں اعتکاف توڑنا جائز ہے
1۔ اعتکاف کے دوران کوئی ایسی بیماری پیدا ہوگئی جس کا علاج مسجد سے باہر نکلے بغیر ممکن نہیں تو اعتکاف توڑنا جائز ہے (شامی)
2۔ کسی ڈوبتے یا جلتے ہوئے آدمی کو بچانے یا آگ بجھانے کے لئے بھی اعتکاف توڑ کر باہر نکل آنا جائز ہے (شامی)
3۔ ماں باپ یا بیوی بچوں میں سے کسی کی سخت بیماری کی وجہ سے بھی اعتکاف توڑنا جائز ہے۔
4۔ کوئی شخص زبردستی باہر نکال کر لے جائے مثلا حکومت کی طرف سے گرفتاری کا وارنٹ آجائے تو بھی اعتکاف توڑنا ناجائز ہے (شامی)
5۔ اگر کوئی جنازہ آجائے اور نمازی پڑھنے والا اور نہ ہو تب بھی اعتکاف توڑنا جائز ہے (فتح القدیر ص 111ج 2)
6۔ ان تمام صورتوں میں باہر نکلنے سے گناہ تو نہیں ہوگا لیکن اعتکاف ٹوٹ جائے گا (البحر الرائق ص 366 ج 2،چشتی)
اعتکاف ٹوٹنے کا حکم
1۔ مذکورہ بالا وجوہ میں سے جس وجہ سے بھی اعتکاف مسنون ٹوٹا ہو، اس کا یہ حکم ہے جس دن میں اعتکاف ٹوٹا ہے، صرف اس کی قضا واجب ہوگی پورے دس دن کی قضا واجب نہیں (شامی) اور اس ایک دن کی قضا کا طریقہ یہ ہے کہ اگر یہ اسی رمضان میںوقت باقی ہو تو اسی رمضان میں کسی غروب آفتاب سے اگلے دن غروب آفتاب تک قضا کی نیت سے اعتکاف کرلیں اور اس رمضان میںوقت باقی نہ ہو یا کسی وجہ سے اس میں اعتکاف ممکن نہ ہو تو رمضان کے علاوہ کسی بھی دن روزہ رکھ کر ایک دن کے لئے اعتکاف کیا جاسکتا ہے اور اگلے رمضان میں قضا کرے تو بھی قضا صحیح ہوجائے گی۔ لیکن زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اس لئے جلدازجلد قضا کرنی چاہئے۔
2۔ اعتکاف مسنون ٹوٹ جانے کے بعد مسجد سے باہر نکلنا ضروری نہیں بلکہ عشرہ اخیرہ کے باقی ماندہ میں نفل کی نیت سے اعتکاف جاری رکھا جاسکتا ہے، اس طرح سنت موکدہ تو ادا نہیں ہوگی لیکن نفلی اعتکاف کا ثواب ملے گا اور اگر اعتکاف کسی غیر اختیاری بھول چوک کی وجہ سے ٹوٹا ہے تو عجب نہیں کہ اﷲ تعالیٰ عشرہ اخیرہ کے مسنون اعتکاف کا ثواب بھی اپنے کرم سے عطا فرمادیں۔ اس لئے اعتکاف ٹوٹنے کی صورت میں بہتر یہی ہے کہ عشرہ اخیرہ ختم ہونے تک اعتکاف جاری رکھیں۔ اگر کوئی شخص اس کے عبد اعتکاف جاری نہ رکھے تو یہ بھی جائز ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ جس دن سے اعتکاف ٹوٹا ہے اس دن باہر چلا جائے اور اگلے دن بہ نیت پھر اعتکاف شروع کردے۔
مباحات اعتکاف
اعتکاف کی حالت میں مندرجہ ذیل کام بلا کراہت جائز ہیں۔
1۔ کھانا پینا، 2۔ سونا، 3۔ ضروری خریدوفروخت کرنا بشرطیکہ سودا مسجد میں نہ لایا جائے اور خریدوفروخت ضروریات زندگی کے لئے ہو لیکن مسجد کو باقاعدہ طور پر تجارت گاہ بنانا جائز نہیں، 4۔ حجامت کرنا، (لیکن بال مسجد میں نہ گریں) 5۔ بات چیت کرنا لیکن فضول گوئی سے پرہیز کرنا، 6۔ نکاح یا کوئی اور عقد کرنا، 7۔ کپڑے بدلنا، خوشبو لگانا، سر میں تیل لگانا، 8۔ مسجد میں مریض کا معائنہ کرنا اور نسخہ لکھنا یا دوا بتادینا، 9۔ قرآن کریم یا دینی علوم کی تعلیم دینا، 10۔ کپڑے دھونا اور کپڑے سینا وغیرہ، کپڑے دھوتے وقت پانی مسجد سے باہر گرے اور خود مسجد میں رہیں۔ یہی حکم برتن دھونے کا بھی ہے، 11۔ ضرورت کے وقت مسجد میں ریح خارج کرنا (شامی) نیز جتنے اعمال اعتکاف کے لئے مفسد یا مکروہ نہیں ہیں اور فی نفسہ بھی حلال ہیں وہ سب اعتکاف کی حالت میں جائز ہیں۔
مکروہات اعتکاف
اعتکاف کی حالت میں مندرجہ ذیل امور مکروہ ہیں۔
1۔ فضول اور بلا ضرورت باتیں کرنا بھی مکروہ ہے۔ ضرورت کے مطابق تھوڑی بہت گفتگو جائز ہے لیکن مسجد کو فضول گوئی کی جگہ بنانے سے احتراز لازمی ہے۔
2۔ سامان تجارت مسجد میں لاکر بیچنا بھی مکروہ ہے۔
3۔ اعتکاف کے لئے مسجد کی اتنی جگہ گھیر لینا جس سے دوسرے معتکفین یا نمازیوں کو تکلیف پہنچے۔
خواتین کا اعتکاف
1۔ اعتکاف کی فضیلت صرف مردوں کے لئے خاص نہیں بلکہ خواتین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں لیکن خواتین کا مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کا اعتکاف گھر ہی میں ہوسکتا ہے اور وہ اس طرح کہ گھر میں جو جگہ نماز پڑھنے اور عبادت کے لئے بنائی ہوئی ہو، اس جگہ اعتکاف میں بیٹھ جائیں اور اگر پہلے سے گھر میں ایسی کوئی جگہ مخصوص نہ ہو تو اعتکاف سے پہلے ایسی کوئی جگہ بنالیں اور اس میں اعتکاف کرلیں (شامی)
2۔ اگر گھر میں نماز کے لئے کوئی مستقل جگہ بنی ہوئی نہ ہو اور کسی وجہ سے ایسی جگہ مستقل طور سے بنانا بھی ممکن نہ ہو تو گھر کے کسی حصہ کو عارضی طور پر اعتکاف کے لئے مخصوص کرکے وہاں عورت اعتکاف کرسکتی ہے۔
3۔ اگر عورت شادی شدہ ہو تو اعتکاف کے لئے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کے لئے اعتکاف کرنا جائز نہیں ہے (شامی) لیکن شوہروں کو چاہئے کہ وہ بلاوجہ عورتوں کو اعتکاف سے محروم نہ کریں بلکہ اجازت دے دیا کریں۔
4۔ اگر عورت نے شوہر کی اجازت سے اعتکاف شروع کردیا۔ بعد میں شوہر منع کرنا چاہے تو اب منع نہیں کرسکتا اور اگر منع کرے گا تو بیوی کے ذمہ اس کی تعمیل واجب نہیں (عالمگیریہ ص 211ج 1،چشتی)
5۔ عورت کے اعتکاف کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حیض، ایام ماہواری اور نفاس سے پاک ہو۔
6۔ لہذا عورت کو اعتکاف مسنون شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ ان دنوں میں اس کی ماہواری کی تاریخیں آنے والی تو نہیں ہیں۔ اگر تاریخیں رمضان کے آخری عشرے میں آنے والی ہوں تو مسنون اعتکاف نہ کرے، ہاں تاریخیں شروع ہونے سے پہلے نفلی اعتکاف کرسکتی ہے۔
7۔ اگر کسی عورت نے اعتکاف شروع کردیا پھر اعتکاف کے دوران ماہواری شروع ہوگئی تو اس پر واجب ہے کہ ماہواری شروع ہوتے ہی فورا اعتکاف چھوڑ دے، اس صورت میں جس دن اعتکاف چھوڑا ہے صرف اس دن کی قضا اس کے ذمہ داجب ہوگی جس کا طریقہ یہ ہے کہ ماہواری سے پاک ہونے کے بعد اسی دن روزہ رکھ کر اعتکاف کرلے۔ اگر رمضان کے دن باقی ہوں تو رمضان میں قضا کرسکتی ہے۔ اس صورت میں رمضان کا روزہ ہی کافی ہوجائے گا۔ لیکن اگر پاک ہونے پر رمضان ختم ہوجائے تو رمضان کے بعد کسی دن خاص طور پر اعتکاف ہی کے لئے روزہ رکھ کر ایک دن اعتکاف کی قضا کرے۔
8 ۔ عورت نے گھر کی جس جگہ اعتکاف کیا ہو، وہ اس کے لئے اعتکاف کے دوران مسجد کے حکم میں ہے۔ وہاں سے شرعی ضرورت کے بغیر ہٹنا جائز نہیں، وہاں سے اٹھ کر گھر کے کسی اور حصہ میں بھی نہیں جاسکتی، اگر جائے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
9۔ عورت کے لئے بھی اعتکاف کی جگہ سے ہٹنے کے وہی احکام ہیں جو مردوں کے لئے ہیں، جن ضروریات کی وجہ سے مردوں کے لئے مسجد سے نکلنا جائز ہے، ان ضروریات کی وجہ سے عورتوں کے لئے اپنی جگہ سے نکلنا جائز ہے اور جن کاموں کے لئے مردوں کو مسجد سے نکلنا جائز نہیں، ان کے لئے عورتوں کو بھی اپنی جگہ سے ہٹنا جائز نہیں ہے اس لئے عورتوں کو چاہئے کہ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ان تمام مسائل کو اھی طرح سمجھ لیں جو ’’اعتکاف مسنون‘‘ کے عنوان کے تحت پیچھے بیان کئے گئے ہیں ۔ (10) ۔ عورتیں اعتکاف کے دوران اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے سینے پرونے کا کام کرسکتی ہیں، گھر کے کاموں کے لئے دوسروں کو ہدایت بھی دے سکتی ہیں مگر خود اٹھ کر نہ جائیں۔ نیز بہتر یہ ہے کہ اعتکاف کے دوران ساری توجہ تلاوت ذکر تسبیحات اور عبادت کی طرف رہے، دوسرے کاموں میں زیادہ وقت صرف نہ کریں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comment:

  1. یہ تحریر آپ کی نہیں ہے بلکہ کسی اور کی کاپی کی ہے

    ReplyDelete

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...