حدیث اے اللہ کے بندو میری مدد کرو نجدی منکر حدیث ہیں آدھی مانتے ہیں آدھی نہیں
یہ ایک مشہور حدیث ہے اور سند کے حساب سے متعدد طرق سے بیان ہوئی ہے اور حسن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حدیث کے بارے میں ابن وھاب نجدی کے پیروکار کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور یوں ان کی مذہبی دکانداری چل رہی ہے۔ یہاں پر اس کا مفصل رد پیش کیا جارہا ہے۔ یہ حدیث اور اس نوع کی دیگر احادیث مکمل طور پر صحیح ہیں۔
ترجمہ حدیث:۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : جب تم میں سے کسی کی سواری بے آباد زمین میں چھوٹ بھاگے تو اسے چاہیئے کہ نداء کرے (یعنی صدا لگائے): اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے حکم سے ہرزمین میں بندہ موجود ہے جو جلد ہی اسے تم پر روک دیگا۔
تخریجِ حدیث:۔اسے ابوالقاسم سلیمان بن احمد لخمی شامی طبری نے اپنی معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور امام ذھبی نے آپ کو سیر اعلام النبلاء میں امام حافظ ثقہ رحال جوال محدثِ اسلام صاحب المعاجم کے القابات سے یاد کیا ہے۔
ابوشجاع الدیلمی الھمذانی نے اسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (حوالہ مسند الفردوس بماثور الخطاب: ج ۱، ص ۳۳۰)۔
شھاب الدین احمد بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یوں نقل کیا ہے: باب ما یقول اذا الفلتت دابتہ: یعنی جب سواری بھاگے تو اسکا مالک کیا کہے؛ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایتِ ابویعلیٰ کو نقل فرمایا۔ (المطالب المنیفہ: ج ۱۴،نمبر ۴۴)۔
امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے یہی روایت ابن السنی اور طبرانی کے حوالے سے عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ نقل فرمائی ہے۔ (الفتح الکبیر: ۱،۸۴)۔
اسی حدیث کو علی بن ابی بکر الھیثمی رحمتہ اللہ علیہ نے عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابویعلیٰ اور طبرانی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ وفیہ معروف بن حسان وھو ضعیف: اس حدیث کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے)۔
امام محی الدین یحییٰ بن شرف نووی رحمتہ اللہ علیہ محدث فرماتے ہیں؛ کہ اس باب میں کہ جب سواری کا جانور چھوٹ جائے تو مالک کیا کہے: بہت سی مشہور احادیث ہیں، ان میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت ابن السنی کے حوالہ سے نقل فرمانے کے بعد فرماتے ہیں؛ ہمارے شیوخ میں سے بعض نے مجھ سے بیان کیا جن کا شمار کبار علماٗ میں ہوتا ہے کہ ان کی سواری بدک بھاگی شاید وہ خچر تھی اور وہ اس حدیث کو جانتے تھے تو انہوں نے اس حدیث کے مطابق (یاعباداللہ احبسوا) کہا تو اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو فوراً ان کے لیئے ٹھہرا دیا اور ایک مرتبہ میں بھی ایک جماعت کے ساتھ تھا کہ سواری کا جانور بدک بھاگا اور وہ لوگ اس کے پکڑنے سے عاجز ہوئے تو میں نے یہی یاعباداللہ احبسوا کہا تو وہ سواری کا جانور بغیر کسی اور سبب، صرف اس کلام کے کہنے سے فورا رک گیا۔ (کتاب الاذکار ج ۱، ص ۱۷۷)۔
یعنی یہ وہ حدیث ہے جس سے صاف صاف غیراللہ کی مدد ثابت ہورہی ہے اور یہ نامور صحابہ کی تعلیم ہے اور خود سلف کا عمل ہے لیکن موجودہ دور کا خارجی دیوبندی وہابی فتنہ اسکو ضعیف قرار دے کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر لوگوں کو مذہبی دکانداری سے گمراہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں توسل مدد استمداد حاصل کرنا وہ بھی غیراللہ سے اور اس پر اللہ کا عطا فرمانا اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اگر ہم نے اسکی دیگر طرق بیان کرنی شروع کردیں تو پوری کتاب لکھنی پڑ جائے گی۔ القصہ مختصر کسی محدث کسی صحابی کسی تابعی نے اسکو (کفر شرک بدعت یا غیراللہ سے مدد کا نام) نہیں دیا۔ بلکہ ان کے عمل کے مطابق یہ عین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پاسداری کرنا اور تجربہ کرکے اسکو صحیح ثابت ہونے پرلکھنا بنتا ہے۔ ایک مثال اور دے کر اسکو ختم کرتے ہیں کہ ایسی ہی حدیث جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہے اس حدیث کو امام ابوبکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق العتکی البزار نے یوں روایت کیا ہے:حدثنا موسیٰ بن اسحق قال نا منجاب بن الحارث قال نا حاتم بن اسماعیل عن اسامۃ بن زید عن ابان بن صالح عن مجاھد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان للہ ملائکۃ فی الارض سوی الحفظۃ یکتبون ما سقط من ورق الشجرۃ فاذا اصاب احدکم عرجۃ بارض فلاۃ فلیناد اعینوا عباد اللہ۔ڈاکٹر فیض احمد چشتی
ترجمہ؛۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک آقائے دوجہاں علیہ التحیہ والثناء نے فرمایا: اللہ کے کچھ ملائکہ زمین میں محافظوں کے علاوہ ہیں جن کا کام درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھنا ہے چنانچہ جب تم میں سے کسی کو دورانِ سفر بیابان میں کوئی مصیبت آپڑے تو اسے چاہیئے کہ ندا کرے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو
پھر امام بزارفرماتے ہیں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے الفاظ کے ساتھ نہیں جانا مگر اسی طریق اور اسی اسناد کے ساتھ۔ (مسند البزار ج ۱۱، ۱۸۱)۔
امام بیہقی نے اس حدیث کو موقوفا بھی روایت فرمایا ہے بحوالہ شعب الایمان ج ۱، ۱۸۳۔ ایسے ہی مصنف ابن ابی شیبہ کی ج ۶ ، ص ۱۰۳ پر اور التفسیر الکبیر امام رازی نے استناداً بیان فرمایا ج ۲، ص ۱۵۰ پر۔
اور اسناد کے اعتبار سے یہ حدیثِ حسن ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث جسے ابویعلیٰ نے اپنی مسند میں اور ابن السنی نے عمل الیوم واللیلۃ میں اور طبرانی نےا سے اپنی معجم الکبیر میں ذکر کیا ہے اسکی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے اور ابن سنی کی اسناد کے علاوہ میں انقطاع بھی ہے کیونکہ عبداللہ بن بریدہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان انقطاع ہے جو کہ ابن السنی کے اسناد میں اتصال کے ساتھ ہے ۔ یعنی عن ابن بریدۃ عن ابیہ (بریدۃ بن الحصیب) عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ؛ رہا معروف بن حسان کا ضعیف ہونا جیسا کہ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں کہا ہے اور راوی کے ضعیف ہونے سے حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم تب ہوگا جب کہ اسکے لیئے دیگر شواہد موجود نہ ہوں۔ لیکن اس حدیث کے لیئے دیگر شواھد روایات موجود ہیں جو کہ دیگر صحیح اور حسن اسناد کے ساتھ موجود ہیں۔ یعنی طبرانی کی وہ روایت جوکہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے ہے اگرچہ اس مین انقطاع ہے کیونکہ زید بن علی رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان کو نہیں پایا جیسا کہ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ذکر کیا لیکن یہ روایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے لیئے تقویت کا باعث ہےاور وہ روایت جو کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسے طبرانی نے روایت کیا اسکے رجال ثقہ ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment