Wednesday 8 May 2024

مسٸلہ نورانیت و بشریت قرآن و حدیث کی روشنی میں

0 comments

مسٸلہ نورانیت و بشریت قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جہاں بے مثال بشر ہونے کا شرف عطا فرمایا وہیں حِسّی و معنوی نورانیت  سے بھی نوازا ۔ حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں ۔ ظاہِری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے ۔ (رِسالہ نورمع رسائل نعیمیہ صفحہ نمبر 39) 


قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ ۔ (سورۃ المائدہ ۔ 15)

ترجمہ : بے شک آیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور ”یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید) ۔


اس آیت میں نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور روشن کتاب سے مراد قرآن ِ مجید ہے ۔ (تنویر المقیاس من تفسیر ابنِ عباس صفحہ نمبر 72) (تفسیر کبیر جلد3 صفحہ 566،چشتی)(تفسیر خازن جلد اول صفحہ 441)(تفسیر جلالین صفحہ 97)(تفسیر روح البیان جلد 2 صفحہ 32)(تفسیر روح المعانی پارہ نمبر 6 صفحہ 87 )(تفسیر حقانی جلد 2 صفحہ21)


گرائمر کی رُو سے مندرجہ بالا آیت میں واٶ عطفِ تفسیری ہے جو نور اور روشن کتا ب کو علیحدہ علیحدہ کرتی ہے ، اور لفظ نور مصدر ہے ، مصدر نکلے کی جگہ کو کہتے ہیں اس لحاظ سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری کائنات کے انوار کا منبع ہیں یعنی ساری کائنات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے تخلیق ہوئی ہے ۔ جن لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ نور او رروشن کتاب دونوں سے مراد قرآن مجید ہے ان کے رد میں اما م فخر الدین رازی علیہ الرحمہ تفسیرِ کبیر جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 566 میں فرماتے ہیں : یہ قول کہ نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن ہے ھذا ضعیف ، یہ ضعیف ہے ۔


امام صاوی علیہ الرحمہ تفسیرِ صاوی جلد اول میں لکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا ہے اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عقلوں کو روشن کرتے ہیں اور ان کو رشد کے لیے ہدائتیں دیتے ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر حسی اور معنوی نور کی اصل ہیں ۔


علامہ فاسی رحمۃ اللہ علیہ مطالع المسرات صفحہ نمبر 220 پر لکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور حسی اور معنوی ظاہر ہے ، آنکھوں اور عقلوں کےلیے چمکنے والا ، بے شک اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اس آیت میں نور رکھا ہے ۔


امام مُلا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ شرح شفاشریف جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 114 میں لکھتے ہیں اور کون سی رکاوٹ ہے کہ اس آیت میں کہ دونوں نعتیں یعنی نور اور کتاب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہوں ۔ بےشک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نورِ عظیم ہیں بوجہ اپنے کمالِ ظہور کے انوارمیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتابِ مبین ہیں اس حیثیت سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمیع اسرارکے جامع ہیں اور احکام واخبار کے مظہر ہیں ۔


نورانیتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ، وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا ۔ (سورۃ االاحزاب آیت 45,46)

ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے شک ہم نے تجھے بھیجا حاضر و ناظر بنا کر اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والااور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااور نور بانٹنے والا آفتاب بنا کر ۔


عربی لغت میں سراج سے مراد سورج ہے اور منیر ا سے مراد نور بانٹنے والا،یا نور تقسیم کرنے والا ، جو لوگ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کا ترجمہ کرتے ہیں روشن آفتاب وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عربی میں روشن کےلیے لفظ منور استعمال ہو تا ہے جبکہ منیرسے مراد نور تقسیم کرنے والا کے ہیں ۔


اگر ہم قرآن پاک کے الفاظ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کی گہرائی میںجاکر دیکھیں ، تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورج کےلیے لفظ استعمال کیا ہے وجعل فیھا سراج اور چاند کے لیے لفظ استعمال کیا ہے وقمرًا منیرًا ۔چونکہ سراج یعنی سور ج کی حکمرانی دن کو ہوتی ہے یعنی وہ دن کو روشنی بکھیرتا ہے اور قمر یعنی چاند کی حکمرانی رات کو ہوتی ہےاوروہ رات کو روشنی تقسیم کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے یہ دونوں الفاظ یکجا کر دئیےاور سِرَاجًا مُّنِیْرًا ارشاد فرما کر یہ عیاں کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی ضیا پاشیاں دن کو بھی ہوتی ہیں اور رات کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور روشنی بکھیرتا ہے ۔


يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ (سورۃ توبہ آیت 33)

ترجمہ : کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مونہوں سے (پھونکیں مار کر) بجھا دیں مگر اللہ انہیں ایسا نہیں کر نے دے گا وہ اپنے نور کو پورا کرکے چھوڑے گا اگرچہ کا فروں کو برا ہی لگے ۔ اس آیت میں بھی نور سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں حوالہ کےلیے کتابیں درج ہیں ۔ (تفسیر دُرِّ منشورجلد3صفحہ 231)(نسیم الریاض جلد 2 صفحہ 396چشتی)(مطالع المسرات،استناداً صفحہ 104)(موضوعاتِ ملاعلی قاری صفحہ99)(زرقانی علی المواہب جلد 3 صفحہ 149)


اللہ جل شانہُ ایک اور مقام پر یہ ارشاد فرماتا ہے : يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ۭ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ (سورۃ الصف، آیت 8)

ترجمہ : چاہتے ہیں کافر لوگ کہ اللہ کے نور (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھا دیں اور اللہ کو تو اپنا نور پورا کرنا ہے اگرچہ کافر برا ہی منائیں ۔


یہاں بھی نور سے مراد نورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا نور ہیں ۔کافریہ چاہتے تھے کہ نعوز با للہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دیں تا کہ اسلام کی شمع گل ہو جائےمگر اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محافظ و نگہبان ہے ۔


حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر نور العرفان کے صفحہ نمبر 305 میں امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف موضوعاتِ کبیر کے حوالے سےبیان کیا ہے کہ کہ ملا علی قاری نے موضوعات ِکبیر کے آخر میں فرمایاکہ قرآن مجید میں ہر جگہ نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ۔ (نور العرفان ازمفتی احمد یار خاں نعیمی صفحہ 305 , 882)


اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ (سورہ النور آیت 35)

ترجمہ : اس کے نور (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کے اندر ایک چراغ ہے جس کے اور ایک فانوس ہےوہ فانوس گویا ایک ستارے کی مانند ہے جو موتی کی طرح چمکتا ہوا روشن ہے جو جلتا ہے ایک برکت والے زیتون کےدرخت مبارک کے تیل سے،جو نہ مشرق کا نہ مغرب کا ، قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئے ، نور کے اوپر ایک اور نور ہے ، اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے ۔


اس آیت میں مثل نورہ اس کے نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ (تفسیر کبیرجلد7صفحہ 403)(تفسیرمظہری جلد 6 صفحہ 522)( تفسیر دُرِ منشور جلد 5صفحہ 48)(شرح شمائل القار ی جلد 1صفحہ 47،چشتی)(اشعۃُاللمعات جلد1صفحہ 725)(جواہر البحار جلد 1 صفحہ 6)(تفسیر خازن جلد 3 صفحہ332)(زرقانی علی المواہب جلد 6 صفحہ 238)(تفسیر حقانی جلد 5 صفحہ 244)(موضوعاتِ قاری صفحہ 99)(شواہد النبوت صفحہ 3)(تفسیر روح البیان جلد 4 صفحہ141)


امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌنُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔

ترجمہ : اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے حضرت کعب اور حضرت ابنِ جبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اس کے نور کی مثال نورِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ حضرت سہل تستری نے فرمایا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ آسمان اور زمین والوں کا ہادی ہے اس کا نور ، نورِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل جب کہ وہ پیٹھوں میںتھا طاق کی طرح ہے یعنی اس کے نور کی صفت اس طرح تھی اور مصباح سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب مبارک ہے ، زجاجہ [فانوس] حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینا ہے یعنی وہ چمکتا ہوا موتی روشن ستارہ ہےاس لیے کہ اس میں ایمان اور حکمت ہے ۔ برکت والے درخت یعنی نورِ ابراہیم علیہ السّلام سے منور ہےنورِ ابراہیم علیہ السّلام کی مثال شجرہ مبارکہ سے بیان کی گئی ہے اور قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کلام سے قبل اس تیل کی طرح خودبخود لوگوں کے لیے ظاہر ہو جائے ۔ (شفا شریف جلد 1صفحہ 13)(شرح شفا القاری جلد 1 صفحہ108،چشتی)(زرقانی مواہب الدنیہ جلد 6 صفحہ 238)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس نور ہے اللہ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت کو کبھی براہ ِراست اور کبھی تشبیہ و استعارہ کے روپ میں قرآن مجید میں بیان کیا ہے ۔ درج ذیل آیت میں نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور مقدس کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے : وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۔

ترجمہ : اس چمکتے ہوئے تارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم جب یہ معراج سے اترے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے النجم کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ نجم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ہوا کے معنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انوار سے بھرا اورغیر اللہ سے منقطع کشادہ سینہ مبارک ہے ۔ (شفا شریف جلد 1صفحہ 28)(تفسیر روح البیان جلد 6 صفحہ 4)(تفسیر مظہری ،جلد9 صفحہ 103)(شرح زرقانی جلد 6 صفحہ 216)


اس آیت مقدسہ میں نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، ستارہ آسمان کا نور اور اس کی زینت ہوتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین کا نور اور اس کی زینت ہیں ۔ جن مفسرین کرام نے نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کو لیا ہے ، ان کا حوالہ پیش خدمت ہے ۔ (تفسیر خازن جلد 4 صفحہ 190،چشتی)(تفسیر صاوی جلد 4 صفحہ 114)(تفسیر خزائن العرفان صفحہ625)


وَالْفَجْرِ ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ ۔ ) پارہ 30 سورہ فجر)

ترجمہ : قسم ہے صبح کی اور قسم ہےدس راتوں کی ۔


حضرت ابن عطا ء رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول والفجر ۔ و لیال عشر۔ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ فجر سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کا مطلع ہیں ، ایمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ظاہر ہوا ۔ آپ ہی کا وجود تاریکیوں میں فجر کی علامت ہے ۔ (شفا شریف جلد 1 صفحہ 82)


وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ ، وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ ، النَّجْمُ الثَّاقِبُ ۔ (سورۃ طارق)

ترجمہ : آسمان کی قسم اور رات کو آنے والے کی قسم ،اور کچھ تم نے جانا رات کو آنے والا کیا ہے ،خوب چمکتا ہوا تارا ہے ۔


مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ان انجم ھنا ایضاً محمد ۔ یعنی نجم سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ (شفا شریف ،جلد 1صفحہ 30)(نسیم الریاض جلد 1 صفحہ 215)


وَالشَّمْسِ وَضُحٰهَا ، وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰهَا ۔ (سورۃ الشمس)

ترجمہ : سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی قسم اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے ۔


اس آیت میں شمس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل انور ہے اور ضحی سے مراد نور نبوت کی روشنی ہے ، اور قمر سے مراد مرشد کامل ہے ۔ بعض تفا سیر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کو وضحی کہا گیا ہے اور لیل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں ، ضحی وہ وقت ہوتا ہے جب سورج اپنی پوری آب و تاب سےآسمان پر جلوہ گر ہوتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ منبع انوار ہیں اس لیے ضحی کا وقت وہ ہو تا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کی روشنی سے پورا عالم منور ہوتا ہے ، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : شمس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل مبارک ہے ، ضحی سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور نبوت کی روشنی ہے اور قمر سے مراد مرشد کامل ہو تا ہے ، جو پیغمبر کے نقش قدم پر ہوتا ہے جس طرح چاند سورج کی پیروی کرتا ہے یعنی سورج کے بعد طلوع ہوتا ہے اس طرح مرشد کامل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد چاند کی مانند حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشنی لے کر تقسیم کرتا ہے ۔ (تفسیر عزیزی پارہ نمبر 30 صفحہ نمبر 188،چشتی)


حضرت سیّدہ آمنہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت ایسا نور ظاہر ہوا جس نے جملہ عالم مشرق و مغرب کو منور کر دیا۔ بصریٰ و روم و شام کے محلات نظر آگئے ۔ فاطمہ بنت عبداللہ بھی اس وقت موجود تھیں انہوں نے دیکھا کہ ہمارا گھر آپ کے نور سے معمور ہو گیا ۔ (مواہب الدنیا مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 14)


ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ بوقت سحر میں کپڑا سی رہی تھی کہ اچانک چراغ بجھ گیا اور سوئی ہاتھ سے گر گئی پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے چہرہ مبارک کے نور میں میں نے سوئی تلاش کر لی اور اسی روشنی سے دھاگا سوئی میں ڈال لیا ۔ (جواہر البحار صفحہ 814 نسیم الریاض جلد 1 صفحہ 328،چشتی)(مطالع المسرات صفحہ 239)


حدیث قدسی : حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) سے روایت ہے" اللہ تعالٰی نے (اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس پر) فرمایا کہ جس نے میرے ولی سے عداوت کی میرا اس سے اعلان جنگ ہے اور جن چیزوں کے ذریعے بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب چیز میرے نزدیک فرائض ہیں اور بندہ نوافل کے ذریعہ میری طرف ہمیشہ نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا جس وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اگر وہ مجھ سے پناہ مانگ کر کسی بری چیز سے بچنا چاہے تو میں اسے ضرور بچاتا ہوں ۔ (بخاری شریف مطبوعہ مجتبائی جلد 2 صفحہ 963)(مشکٰوۃ مطبوعہ کانپور کتاب الداعوات جلد 1)


امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث قدسی کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اور اسی طرح جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی اختیار کر لیتا ہے تو اس مقام پر پہنچ جا تا ہے جس کے متعلق اللہ تعالٰی نے " کنت لہ سمعاً و بصراً" فرمایا ہے ، جب اللہ کے جلال کا نور اس کی سمع ہو جاتا ہے تو وہ دورونزدیک کی بات کو سن لیتا ہے اور جب یہی نور اس کا بصر ہو گیا تو وہ دورونزدیک کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہی نور جلال اس کا ہاتھ ہو جائے تو یہ بندہ مشکل اور آسان دور اور قریب کی چیزوں میں تصرف کرنے پر قادر ہو جاتا ہے ۔ (امام فخرالدین رازی تفصیر کبیر سورہ کہف(آیت ام حسبت ان اصحٰب الکھف)جلد 21 صفحہ 91)


اس حدیث قدسی کی شرح میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے مقرب بندہ کی شان میں جو کچھ لکھا ہے وہ عبد اور بشر سمجھتے ہوئے لکھا ہے ، جس ظاہر ہے کہ اس طرح ان صفاتِ عالیہ کا اس بندے کے لئے ماننا اس کی عبدیت اور بشریت کے منا فی نہیں ۔


اللہ تعالٰی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہیں بھی اپنے طور پر بشر نہیں کہا، بلکہ اگر ضرورت پیش آگئی تو نبی ہی سے کہلوایا کہ وہ بشر ہیں اگر اللہ اپنے طور پر اعلان فرما دیتا کہ نبی بشر ہیں تو سارا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالٰی نے یٰسین ۔ طٰہ ۔ نور ۔ سراجاً منیرا اور بہت سے صفاتی ناموں سے پکارا ہے ۔


انوار محمدیہ من مواہب اللدنیا صفحہ 9 میں ہے" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میں آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پیدا ہونے سے چودہ ہزار سال پہلے اپنے رب کے حضور میں ایک نور تھا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے فرمایا اے جبریل آپ کی عمر کتنے سال ہے ؟ جبریل علیہ السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سوا میں نہیں جانتا کہ ایک ستارہ ستر ہزار سال بعد طلوع ہوتا تھا میں نے اسے بہتر ہزار مرتبہ دیکھا طلوع ہوتے دیکھا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے جبریل مجھے اپنے رب جل جلالہ کی قسم وہ ستارہ (نور) میں ہوں ۔ (جواہر البحار صفحہ 248 ۔ تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 974،چشتی)


حدیث نور اور نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⏬


يا جابر إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره ، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله تعالى ، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ولا سماء ولا أرض ولا شمس ولا قمر ولا جني ولا إنسي ، فلما أراد الله تعالى أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول القلم ، ومن الثاني اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول حملة العرش ومن الثاني الكرسي ومن الثالث باقي الملائكة ، ثم قسم الجزء الرابع إلى أربعة أجزاء فخلق من الأول نور أبصار المؤمنين ومن الثاني نور قلوبهم وهي المعرفة بالله ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله ثم نظر إليه فترشح النور عرقاً  فتقطرت منه مائة ألف قطرة ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا اور یہ الله کی قدرت سے جہاں الله چاہتا جاتا اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم نہ جنت نہ جہنم نہ فرشتے نہ آسمان نہ زمین نہ سورج نہ چاند نہ جن و انس- پس جب الله نے ارادہ کیا خلق  کرنے کا تو اس نور کے چار ٹکرے کیے- ایک جز سے قلم بنا دوسرے سے لوح ،  تیسرے سے عرش،  پھر چوتھے کے بھی چار جز اور کیے ان میں سے ایک سے عرش کو اٹھانے والے، دوسرے سے کرسی ، تیسرے سے باقی فرشتے –  پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے  مومنوں کی آنکھوں کا نور بنا،  دوسرے سے دلوں کا نور جو الله کی   معرفت ہے ،  تیسرے سے ان کے نفسوں کا نور جو توحید ہے لا إله إلا الله محمد رسول الله –  پھر اس (کلمہ) پر نظر کی تو اس  نور سے پسینہ  نکلا  جس سے ایک لاکھ قطرے اور نکلے ۔


حضرت سیّدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا : اے جابر! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا ۔ (الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص 63، حدیث:18، مواھب لدنیہ،ج1،ص36) حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں نور تھا ۔ (مواھب لدنیہ،ج1،ص39) ۔ (الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف (مصنَّف عبدالرزاق)(الحافظ شھاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی(متوفی ٩٢٣ ھجری)(علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی(متوفی ١٠٣٨ ھجری) النور السّافر عن اخبار القرن العاشر)(العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون)(امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری ( متوفی ١١٢٢ ھجری ) شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی،چشتی)(المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس)(حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)(قصص الانبیاء صفحہ نمبر 23 عبد الرشید قاسمی دیوبندی)(مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ)


حضرت سیّدنا جابر   رضی اللہ  تعالٰی عنہ  نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو  حضور پُرنور صلَّی اللہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوداپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا:اے جابر! اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔( الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص 63، حدیث:18، مواھب لدنیہ،ج1،ص36) حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام  کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ  عَزَّوَجَلَّ  کے ہاں نور تھا۔ (مواھب لدنیہ،ج1،ص39) حضورنبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب   اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت  آدم علیہ السَّلام کو پیدا فرمایا  تو ان کے بیٹوں کو باہم فضیلت دی۔ آپ علیہ السَّلام نے ان کی ایک دوسرے پر فضیلت ملاحظہ فرمائی ۔ پھر حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : آدم علیہ السَّلام نے سب سے آخر میں مجھے ایک بلند نورکی صورت میں دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب یہ کون ہے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارا  بیٹا احمد ہے،یہ اوّل بھی ہے، آخر بھی ہے  اور یہی  سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے۔(دلائل النبوۃ للبیہقی، ج5،ص483)


صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے نبیِ پاک   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی نورانیت کےجلووں کو دیکھا تو سب نے اپنے اپنے انداز میں اظہار کیا :


حضرت سیّدناعبد اللہ بن عباس   رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا:حضورانور   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےسامنےکے مبارک دانتوں میں کُشادَگی تھی، جب آپ گفتگو فرماتے تو اُن میں سے نور دکھائی دیتا تھا۔(جامع صغیر، ص403، حدیث:6482)


شیخ الاسلام علّامہ عبدالرءوف مُناویعلیہ رحمۃ اللہ الکافی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :یہ نور محسوس ہوتا تھا اور آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی کُل ذاتِ شریفہ ظاہری و باطنی طور پر نور تھی  حتّٰی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحاب  میں سے جس کو چاہتے اُسے نور عطا فرماتے جیسا کہ حضرت سیّدنا طفیل بن عَمرودَوسی   رضی اللہ تعالٰی عنہ کوعطافرمایا۔(فیض القدیر، ج5،ص93)


حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: بَوَقتِ سحر کھو جانے والی سوئی حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ انور کی روشنی کی کرن  سے مل گئی۔(القول البدیع، ص302)


حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: جب نبیٔ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تو درو دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے۔(مصنف عبدالرزاق،ج 10،ص242، حدیث: 20657)


حدیث نور کے حوالہ جات


(1) الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری ) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف ( مصنَّف عبدالرزاق )


(2) الحافظ شھاب الدین ابوالعباس  احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی( متوفی ٩٢٣ ھجری )المواھب اللدنیّہ بالمنح المحمدیّہ


الجزء الاول


(3) علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی( متوفی ١٠٣٨ ھجری )النور السّافر عن اخبار القرن العاشر


(4) العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون


(5) امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری


( متوفی ١١٢٢ ھجری) شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی


(6) المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی


( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس


(7) حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ


(8) مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ


توثیق امام عبدالرازاق رحمۃ اللہ علیہ


امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ۔ قال احمد بن صالح مصری قلت لا حمد بن ھنبل ۔ارائیت احدا احسن حدیث من عبدالرازاق قال لا ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211)


اس کے علاوہ امام یحیٰبن معین یعقوب بن شیبہ نے امام کو ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211)


قال امام الجرح والتعدیل  : لو ارتد عبدالرازاق ما ترکنا حدیثا ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211 و میزان اعتدال ج2 ص 612)


امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کو ثقہ لکھا ۔ (تقریب التہذیب 211)


امام زہبی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ثقہ لکھا ۔ (میزان اعتدال)


صیح بخاری میں آپ سے تقریبا 120 کم وبیش احادیث مروی ہے اسی طرح مسلم میں 289 احادیث مروی ہیں ۔


مندرجہ زیل کتب میں آپ کا تزکرہ ہے


العبر


المغنی


لسان المیزان


الطبقات الکبری


الجر ح و تعدیل


البدایہ و النہایا


اس کے علاوہ متعدد کتب میں آپ کا تزکرہ ہے ۔


نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت آدم علیہ السَّلام کو پیدا فرمایا تو ان کے بیٹوں کو باہم فضیلت دی ۔ آپ علیہ السَّلام نے ان کی ایک دوسرے پر فضیلت ملاحظہ فرمائی ۔ (پھر نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا آدم علیہ السَّلام نے سب سے آخر میں مجھے ایک بلند نورکی صورت میں دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب یہ کون ہے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارا بیٹا احمد ہے ، یہ اوّل بھی ہے، آخر بھی ہے اور یہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ، جلد نمبر 5 ، صفحہ نمبر 483)


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبیِ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نورانیت کےجلووں کو دیکھا تو سب نے اپنےاپنےاندازمیں اظہار کیا :


حضرت سیّدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنےکے مبارک دانتوں میں کُشادَگی تھی ، جب آپ گفتگو فرماتے تو اُن میں سے نور دکھائی دیتا تھا ۔ (جامع صغیر، ص403، حدیث:6482)


شیخ الاسلام علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : یہ نور محسوس ہوتا تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کُل ذاتِ شریفہ ظاہری و باطنی طور پر نور تھی حتّٰی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحاب میں سے جس کو چاہتے اُسے نور عطا فرماتے جیسا کہ حضرت سیّدنا طفیل بن عَمرو دَوسی رضی اللہ تعالٰی عنہ کوعطافرمایا ۔ (فیض القدیر، ج5،ص93 ،چشتی)


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں : بَوَقتِ سحر کھو جانے والی سوئی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ انور کی روشنی کی کرن سے مل گئی ۔ (القول البدیع، ص302 )


حضرت سیّدنا ابوہریرہرضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : جب نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تو درو دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے ۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد 10،صفحہ 242، حدیث: 20657)


یاد رہے نور اور بشر ایک دوسرے کی ضد نہیں کہ ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں کیونکہ حضرت جبریل علیہ السَّلام نوری مخلوق ہونے کے باوجود حضرت سیّدتنا بی بی مریم رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سامنے انسانی شکل میں جلوہ گَر ہوئے تھے ۔ جیسا کہ قراٰنِ حکیم میں ہے : (فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا(۱۷)) ۔ (پ16، مریم:17) ترجمہ : تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔“نیزحضرت مَلَکُ الموت علیہ السَّلام بشری صورت میں حضرت سیّدنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ( بخاری،ج1،ص450،حدیث:1339،چشتی)


جلیل القدر مُفَسِّرین ، مُحَدِّثِیْن ، علمائے ربّانِیِّین اور اولیائے کاملین علیہم الرّحمہ نے بھی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور ہونے کو بیان فرمایا ۔ جیسا کہ قراٰنِ مجید کی آیت : (قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ ، (پ6،المآئدۃ:15) (ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب) کے تحت امام ابو جعفر محمد بن جَرير طَبَری (سالِ وفات 310ہجری) ، امام ابومحمد حسین بغوی (سالِ وفات 510ہجری) ، امام فخرالدین رازی (سالِ وفات 606ہجری) ، امام ناصرالدین عبداللہبن عمربَیضاوی(سالِ وفات685 ہجری) ، علّامہ ابوالبرکات عبداللہنَسَفی (سالِ وفات 710ہجری ،چشتی) علّامہ ابوالحسن علی بن محمد خازِن(سالِ وفات 741ہجری)، امام جلال الدین سُیُوطی شافعی (سالِ وفات 911ہجری) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سمیت کثیر مُفَسِّرین نے فرمایا کہ اس آیتِ طیبہ میں موجود لفظ”نور“ سے مراد نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرَکات ہے ۔


حضرت علامہ قاضی عِیاض مالکی (سالِ وفات 544ہجری) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ سورج چاند کی روشنی میں زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نور ہیں ۔ (الشفا ، جلد نمبر 1 ، صفحہ نمبر 368)


شارحِ بخاری امام احمدبن محمد قَسطلانی (سالِ وفات 923ہجری) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جب ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور کو پیدا فرمایا تو اُسے حکم فرمایا کہ تمام انبیاء علیہم السّلام کے نور کو دیکھے چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام انبیاء علیہم السّلام کے نور کو ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور سے ڈھانپ دیا ۔ انہوں نے عرض کی : مولیٰ یہ کس کے نور نے ہمیں ڈھانپ لیا ؟ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا : ہٰذَا نُورُ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبدِ اللہِ یعنی یہ عبد اللہ کے بیٹے محمد (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا نور ہے ۔ (المواھب اللدنیۃ،ج1،ص33)


محترم قارئینِ کرام : نورانیتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےمتعلّق تفصیل جاننے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کارسالہ صِلَاتُ الصَّفَاءِ فِیْ نُوْرِ الْمُصْطَفٰے ۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 30،ص657) پڑھیں ۔


نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمائے دیوبند و اہلحدیث کی نظر میں


مسلمانوں کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور ﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ،


ضابطہ اور اصول یہ ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کو دلیل و تلبیہ سے ثابت کرے اور سائل مد مقابل مخالف مدعی کے پیش کردہ دلائل کا رد و ابطال کرے ۔ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور ﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ، اہل سنت و جماعت جب اس دعویٰ پر بطور دلیل متعدد آیات قرآنیہ ، احادیث صحیحہ ، جلیل القدر مفسرین و محدثین کرام ، ائمہ دین متین علیہم الرّحمہ کی تصریحات اور گرانقدر ارشادات و فرمودات پیش کرتے ہیں تو منکرین نورانیت مصطفی علیہ التحیتہ والثناء وہابیہ بہر نوع بہرصورت ان دلائل و شواہد کے رد و ابطال کی کوشش کرتے ہیں اور خدا داد شانِ نورانیت کو مٹانے کی مذموم سعی کرتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود اکابر وہابیہ دیابنہ کا اپنی متعدد کتب و رسائل میں ہمارے دلائل و شواہد ضبط تحریر میں لاکر سرکار اقدس صلى الله عليه وسلم کے لئے نورانیت مقدسہ ثابت کرنا اہلسنت و جماعت کی حقانیت و صداقت اور عقیدہ و دعویٰ کے مضبوط و مستحکم ہونے اور منکرین کے ساکت و عاجز ہونے اور اصول و ضوابط سے عاری ہونے کی بیّن دلیل ہے ۔ علمائے دیوبند و علمائے اہلحدیث کی مستند و معتبر کتب سے چند حوالہ جات ہدیہ قارئین ہیں ۔


علامہ رشید احمد گنگوہی قدجاء کم من ﷲ نور و کتاب مبین کا ترجمہ لکھتے ہیں : تحقیق آئے ہیں تمہارے پاس ﷲ کی جانب سے نور اور کتاب مبین‘‘ نور سے مراد حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات پاک ہے ۔ حق تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو نور فرمایا اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم سایہ نہیں رکھتے تھے اور یہ واضح ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں ۔ (امداد السلوک ص 156)


نیز لکھتے ہیں ’’حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور مومنوں کو میرے نور سے‘‘ ۔ (امداد السلوک ص 157)


نیز لکھتے ہیں ’’آپ کی ذات اگرچہ اولاد آدم میں سے ہے لیکن آپ نے اپنی ذات کو اس طرح مطہر فرمایا کہ اب آپ سراپا نور ہوگئے‘‘ ۔ (امداد السلوک ص 85)


علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : (آیت مقدسہ میں) نور سے مراد حضور صلى الله عليه وسلم ہیں ۔ اس تفسیر کی ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ مراد اوپر بھی قد جاء کم رسولنا فرمایا ہے تو یہ قرینہ ہے کہ اس پر کہ دونوں جگہ جاء کم کا فاعل ایک ہو‘‘ ۔ (رسالۃ النور ص 31)


علامہ عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں : نور سے اشارہ ہے رسالت محمدی کی جانب اور کتاب مبین سے قرآن کی جانب‘‘ ۔ (تفسیر ماجدی جلد اول ص244)


علامہ ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی لکھتے ہیں : بے شک ﷲ کی طرف سے تمہارے پاس نور آچکا (یعنی نبی آخرالزمان) اور کتاب روشن (یعنی قرآن پاک) ۔ (تفسیر فیوض القرآن ،صفحہ 239،چشتی)


علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : شیخ عبدالحق (محدث دہلوی) رحمۃ ﷲ علیہ نے اول ما خلق اﷲ نوری کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص 373)


علامہ حسین احمد مدنی نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے ۔ (الشہاب الثاقب ص 47)


شاہ اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں : جیسے کہ روایت ’’اول ماخلق اﷲ نوری‘‘ اس پر دلالت کرتی ہے‘‘ ۔ (یک روزہ ص 11)


علامہ اشرف علی تھانوی نے حضرت جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت بحوالہ امام عبدالرزاق رحمۃ ﷲ علیہ نقل کی اور اس پر اعتماد کیا ۔ (نشر الطیب ص 6)


نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلکہ اپنے علماء و مشائخ کے لئے بھی نورانیت ثابت کرنا علمائے دیوبند کی کتب و رسائل سے ثابت ہے :


علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ ﷲ علیہ کو نوری اس لئے کہتے ہیں کہ آپ سے کئی بار نور دیکھا گیا ’’ ۔ (امداد السلوک ص 157)


علامہ محمود الحسن علامہ رشید احمد گنگوہی کو نور مجسم اور قبر کو تربت انور قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :


چھپائے جامۂ فانوس کیونکر شمع روش کو


تھی اس نور مجسم کے کفن میں وہ ہی عریانی


تمہاری تربت انور کو دے کر طور سے تشبیہ


کہو ہوں بار بار ’’ارنی‘‘ میری دیکھی بھی نادانی


(مرثیہ گنگوہی صفحہ 12)


علامہ عاشق الٰہی بلند شہری لکھتے ہیں : پس بے نظیر شیخ وقت اور بے عدیل قطب زماں کی سوانح کوئی لکھے تو کیا لکھے بھلا جس مجسم نور اور سرتاپا کمال کا عضو عضو اور رواں رواں ایسا حسین ہو کہ عمر بھر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے بھی سیری نہ ہوسکے۔ اس کے کوئی محاسن بیان کرے تو کیا کرے‘‘ ۔ (تذکرۃ الرشید پہلا حصہ ص 3)


علامہ سرفراز گکھڑوی دیوبندی حضرت شیر ربانی رحمۃ ﷲ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : دیوبند میں چار نوری وجود ہیں ۔ ان میں سے ایک (انور) شاہ صاحب ہیں ۔ (عبارات اکابر ص 37)


مکبہ فکر دیوبند معروف رسالہ میں لکھا ہے ’’مولانا احمد علی صاحب اللہ تعالیٰ کے انوار میں سے ایک نور تھے ۔ (رسالہ خدام الدین لاہور 24 مئی1992ء)


نیز اسی میں لکھا ہے : علامہ (شمس الحق) افغانی نے دریافت فرمایا حضرت (مخاطب مولوی احمد علی ہیں) کیا وجہ ہے کہ سید (احمد) صاحب کی قبر پرانوار مولانا (اسماعیل) کی بہ نسبت کم معلوم ہوتے ہیں ۔ (رسالہ خدام الدین 22 فروری 1963)


علامہ حسین احمد مدنی کے بارے میں مکتبہ فکر دیوبند کے معروف اخبار میں لکھا ہے : اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (یعنی ٹانڈوی صاحب) عالم نور میں رہتے ہیں ، ان کی آنکھوں میں بھی نور ہے۔ ان کے دائیں بھی نور ہے،ان کے بائیں بھی نور ہے ، ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہے وہ خود نور ہوگئے ہیں ۔ (روزنامہ الجمعیت دہلی شیخ الاسلام نمبر ص 12، 1958،چشتی)


علامہ رفیع الدین لکھتے ہیں : وہ شخص (یعنی قاسم نانوتوی) ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیاگیا ۔ (حکایات اولیاء یعنی ارواح ثلاثہ ص 259، سوانح قاسمی جلد اول ص 130)


اس عبارت میں بھی بانی دیوبند علامہ قاسم نانوتوی صاحب کو نور کہا گیا ہے کیونکہ روایت ہے خلقت الملائکۃ من نور یعنی فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے ۔ (مسلم شریف جلد دوم ص 413)


اہلحدیث عالم علامہ ثناء ﷲ امرتسری نے قد جاء کم ۔۔۔ الخ آیت مقدسہ کا ترجمہ یوں کیا ’’تمہارے پاس اﷲ کا نور محمد صلى الله عليه وسلم اور روشن کتاب قرآن شریف آئی‘‘ ۔ (تفسیر ثنائی جلد اول ص 362)


نیز لکھتے ہیں ’’ہمارے عقیدے کی تشریح یہ ہے کہ رسول خدا ، خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے نورہیں‘‘ ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد دوم ص 93،چشتی)


مشہور اہلحدیث عالم علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : ﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا، پھر پانی ، پھر پانی کے اوپر عرش کو پیدا کیا ، پھر ہوا ، پھر قلم اور دوات اور لوح پھر عقل کو پیدا کیا، پس نور محمدی آسمانوں اور زمین اور ان میں پائی جانے والی مخلوق کے لئے مادہ اولیہ ہے‘‘ نیز حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ قلم اور عقل کی اولیت اضافی ہے ۔ (ہدیۃ المہدی ص 56)


مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی لکھتے ہیں : نور النبی تجلی رحمۃ‘‘ یعنی نور نبی تجلی رحمت ہے ۔ (نفح الطیب ص 60)


مشہور اہلحدیث عالم حافظ محمد لکھوی لکھتے ہیں : نور نبی دا آپے دیندا لوکاں نوں روشنائی ۔ (تفسیر محمدی 4 ص 201)


مشہور اہلحدیث عالم علامہ پروفیسر ابوبکر غزنوی تقریظ میں لکھتے ہیں : قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ بشر بھی تھے اور نور بھی تھے ۔۔۔ اور صحیح مسلک یہی ہے کہ وہ بشر ہوتے ہوئے از فرق تا بقدم نور کا سراپا تھے ۔ (تحریر 14 دسمبر 1971، تقریظ رسالہ بشریت و رسالت ص 17)


محترم قارئینِ کرام : ان حوالہ جات کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے جب تمام مکاتب فکر کے علماء اس مسلہ پر متفق ہیں تو پھر نفرتیں کیوں آیئے سب مل کر ان نفرتوں کو مٹائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شانیں محبت و عقیدت سے بیان کریں اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔


کچھ لوگوں نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے کتابیں لکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کو کم کرنے کی نا پاک جسارت کی ہے ان کی کتابوں کو پڑھ کر اپنے ایمان کو ضائع نہ کریں ۔ ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے لکھی ہوئی کتابوں کو بھی دیکھیں اور ان کے مقابل ، مواھب الدنیہ ، سیرت حلبیہ ، الوفا ، مدارج النبوۃ ، انوار محمدیہ اور ’’ضیاء النبی‘‘ کو بھی پڑھیں خود بخود نمایاں فرق نظر آئے گا کہ کن حضرات نے عشقِ رسول ، محبت رسول میں ڈوب کر علم و عرفان کے سمندر سے موتی نکال کر پیش کیے اور کن لوگوں نے زہر پر مٹھائی چڑھا کر لوگوں کے ایمان کو قتل کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے ۔ بات صرف قسمت کی ہے کسی کی قسمتیں رب تعالیٰ نے یہ عظمت عطا فرمائی ہے کہ وہ دن رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کو تلاش کرتا رہتا ہے اسی میں اس کی عمر بیت جاتی ہے ۔ اور کچھ کم بختوں کی عمر اس میں گزر جاتی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقص تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ فضائل پر مشتمل احادیث اور اقوال علماء و صلحاء ان کی عقلوں میں انہیں ضعیف نظر آتے ہیں اور بتوں کے حق میں نازل شدہ آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات جو عجز و انکساری پر مشتمل ہیں وہ انہیں حقیقت نظر آتے ہیں ۔ سیدھے سادے لوگوں کو اس طرح گمراہ کرتے ہیں کہ : ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ۔ واقعہ درست نہیں ‘‘ اس طرح کے گمراہ کن ہتھکنڈے ان کا وطیرہ ہے ۔ الامان والحفیظ ۔


تخلیق اول نورِ محمدی : وروی عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللہ قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیء خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالیٰ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذالک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ ولم یکن فی ذالک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا منٰک ولا سماء ولا ارض ولا شمس ولا قمر ولا جنی ولا انس‘‘ (زرقانی ج ۱ ص ۴۹، الانوار المحمدیۃ ص ۱۳، موھب) عبد الرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سند سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے یہ خبر دیجیے کہ تمام چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسے پیدا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جابر بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا پھر وہ نور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے جہاں بھی اسے منظور تھا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم اور نہ جنت اور نہ دوزخ اور نہ فرشتے اور نہ آسمان اور نہ زمین اور نہ سورج اور نہ چاند اور نہ جن اور نہ انسان تھے۔ خیال رہے کہ یہ حدیث مولوی اشرف علی تھانوی صاحب دیوبندی نے اپنی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں بھی نقل کی ہے۔ ’’عن العرباض بن ساریۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ قال انی عند اللہ مکتوب خاتم النبین وان آدم لمنجدل فی طینتہ‘‘ (شرح السنۃ ، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین صفحہ ۵۱۳ مواھب مع زرقانی صفحہ ۳۹،چشتی) حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی تک اپنے خمیر میں تھے۔ مولوی اشرف تھانوی صاحب دیوبندی اپنی کتاب نشر الطیب میں بیان کرتے ہیں کہ اسے احمد، بیہقی اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور مشکوۃ میں یہ حدیث شرح السنہ سے مذکور ہے ۔ اس حدیث پاک کی وضاحت میں حضرت علامہ ابوالحسنات محمد اشرف سیالوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اس حدیث پاک سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحقیقاً آدم علیہ السلام سے قبل نبی ہونا بھی ثابت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہونا بھی ثابت موجود ہونا بھی ثابت اور آپ کی حقیقت کا نور ہونا بھی ثابت کیونکہ بشروں کا باپ بعد میں پیدا کیا جارہا ہے اور آپ کی حقیقت پہلے ہی موجود متحقق تھی اور ان صفات کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی‘‘۔ اس مقام پر مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کے بیان کردہ نکتہ اور ایک تو ہم کا ازالہ بھی ملاحظہ فرماتے جائیں: ’’اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ شائد مراد یہ ہے کہ میرا خاتم النبیین ہونا مقدر ہوچکا تھا۔ سو اس لیے آپ کے وجود کا تقدم آدم علیہ السلام پر ثابت نہ ہوا۔ جواب یہ ہے اگر یہ مراد ہوتی تو آپ کی کیا تخصیص تقدیر تمام اشیاء مخلوقہ کی ان کے وجود سے مقدم ہے پس یہ تخصیص خود دلیل ہے اس کی کہ مقدر ہونا مراد نہیں بلکہ اس صفت کا ثبوت مراد ہے اور ظاہر ہے کہ کسی صفت کا ثبوت فرع ہے مثبت لہ کے ثبوت کی پس اس سے آپ کے وجود کا تقدم ثابت ہوگیا اور چونکہ مرتبہ بدن متحقق نہیں ہوتا اس لیے نور اور روح کا مرتبہ متعین ہو گیا‘‘۔ اس سوال و جواب نے واضح کردیا کہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محض علم الٰہی کے لحاظ سے نہیں تھی بلکہ خارج اور واقع میں آپ کا نور انور اور روح اقدس اور حقیقت محمدیہ اس کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی اور یہی ہمارا نظریہ و عقیدہ ہے کہ بشریت کے لحاظ سے اولاد آدم بھی ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے اصل موجودات ہیں اور آدم علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اس لحاظ سے آپ بنیاد ہیں۔ یہی تھانوی صاحب ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں سوال یہ ہے جب انبیاء موجود ہوتے تو ان کے خاتم کا موجود ہونا بھی متصور ہوسکتا تھا جب ان کا بلکہ ان کے والد اور معدن واصل کا وجود نہیں تھا تو آپ خاتم النبیین کس طرح ہوگئے تھانوی صاحب کی زبانی سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں۔ ’’اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنی کیونکہ نبوت آپ کو چالیس برس کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپ سب نبیوں کے بعد مبعوث ہوئے اس لیے ختم نبوت کا حکم کیا گیا یہ وصف تو خود تاخیر کو مقتضی ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ تاخیر مرتبہ ظہور میں ہے مرتبہ نبوت میں نہیں جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ مل جائے تو تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھی بھیجے کے بعد‘‘۔ یعنی جس طرح اس تحصیلدار کے منصب کا لوگوں کو علم اس وقت ہوگا جب وہ تحصیل میں جاکر چارج سنبھالے گا اس وقت معلوم کریں گے کہ یہ ہمارے تحصیلدار صاحب ہیں حالانکہ سرکار کے نزدیک وہ اس وقت سے تحصیلدار ہے جب سے اسے نامزد کیا گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین کے مرتبہ پر اس وقت فائز ہوچکے تھے جب آدم علیہ السلام ہنوز عالم آب وگل میں تھے اگرچہ لوگوں کو اس وقت پتہ چلا جب آپ کا ظہور ہوا، الغرض ظہور اگرچہ بعد میں ہوا لیکن وجود پہلے تھا اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ حقیقت نوریہ کے لحاظ سے آپ اصل موجودات اور بنیاد آدم علیہ السلام ہیں اگرچہ ظہور اور نشاۃ دینویہ کے لحاظ سے اولاد آدم ہیں۔ (تنویر الابصار صفحہ ۱۹،چشتی) عن ابی ھریرہ قال قالوا یا رسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ قال و آدم بین الروح والجسد (مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین صفحہ ۵۱۳)(زرقانی جلد ۱ صفحہ ۳۴)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی آپ نے فرمایا جس وقت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی ان کے جسم میں جب جان بھی نہیں آئی تھی میں اس وقت سے نبی ہوں۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ایسے ہی الفاظ سے میسرہ ضبی کی روایت ہے امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تاریخ اور ابو نعیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حلیہ میں اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو تصریح کی ہے۔ صحابہ کرام کے پوچھنے اور سوال کرنے سے کہ آپ کب سے نبی بنے ہیں۔ پتہ چل گیا کہ جن کے گھر آپ پیدا ہوئے اور عمر شریف کے چالیس سال گزارے تھے اور اس قدر طویل عرصہ گزار نے کے بعد نبوت کا اعلان فرمایا جب وہ اس طرح کا سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کب سے نبی ہیں؟ معلوم ہوا ان کے ایمان نے گواہی دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ نبوت کا اعلان اور اظہار چالیس سال کے بعد کیا لیکن آپ نبی بنے ہوئے پہلے کے تھے انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے اعلان نبوت و رسالت کب فرمایا؟ بلکہ پوچھا ہے ..... ’’متی وجبت لک النبوۃ یا رسول اللہ‘‘ آپ کے لیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کس وقت سے ثابت ہے؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب کہ میں اس وقت سے نبی ہوں جب تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی روح ابھی ان کے جسم میں پھونکی نہیں گئی تھی صحابہ کرام کے اس نظریہ و عقیدہ پر مہر تصدیق ہے کہ تم نے درست سمجھا واقعی میں عمر شریف کے چالیس سال گزار کر نبی نہیں بنا بلکہ اس وقت سے یہ منصب اور اعزاز مجھے حاصل ہے جب کہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے تن بدن میں جان نہیں آئی تھی۔ اس روایت کو ترمذی شریف میں نقل کیا گیا ہے اور ترمذی شریف حدیث کی وہ کتاب ہے کہ جس کے متعلق محدثین نے فرمایا جس کے گھر میں یہ کتاب موجود ہو وہ یوں سمجھے کہ رب تعالیٰ کا رسول میرے گھر میں موجود اور تشریف فرما ہے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو موضوع اور من گھڑت بھی نہیں کہا اور ضعیف بھی نہیں کہا بلکہ انہوں نے اس کو حسن کہا ہے اصول حدیث میں یہ واضح ہے کہ حسن حدیث حجت و دلیل اور سند ہوسکتی ہے۔ اور پھر اشرف علی تھانوی صاحب نے تصریح کردی ہے کہ میسرہ ضبی کی روایت میں بھی اسی طرح کے الفاظ آتے ہیں گویا یہ روایت دو صحابیوں سے مروی ہوئی اس طرح کل چار صحابیوں (حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری، حضرت عرباض بن ساریہ، حضرت ابوھریرہ اور حضرت میسرہ ضبی رضی اللہ عنہم) کی شہادت اور گواہی اب تک آچکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و ایجاد سے پہلے نبوت و رسالت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہوچکے تھے۔ علاوہ ازیں اس کو امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے جو اہل سنت کے چوتھے امام ہیں اور امام ابو حنیفہ، امام ابو مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا درجہ ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی تاریخ میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے استاد ابو نعیم نے اس کو حلیہ میں نقل کیا ہے اور حاکم جیسے محدث نے اس کی تصحیح کی ہے۔ حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ وہ محدث ہیں جس نے بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ و مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ سے رہ جانے والی صحیح احادیث کو جمع کیا ہے اور اس کتاب کا نام مستدرک رکھا ہے۔ (تنویر الابصار صفحہ ۲۲،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور و بشر ہونا: قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالیٰ اسی مسئلہ پر دلیل قائم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر بشری ہے اور باطن نوری ہے۔ ’’کما قال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنام عینی ولا ینام قلبی یعنی فیما یدل علی ان باطنہ ملکی وظاھرہ بشری‘‘ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی اس پر دلالت کر رہا ہے کہ آپ کا باطن ملکی (فرشتوں کی طرح نورانی) ہے اور آپ کا ظاہر بشری ہے قاضی شہاب خفاجی فرماتے ہیں: ’’وکذالک سائر الانبیاء تنام اعینھم دون قلوبھم کما ورد مصر حابہ فی حدیث البخاری‘‘ اسی طرح دوسرے تمام انبیائے کرام کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتے ہیں۔ جس طرح بخاری کی حدیث میں صراحتاً ذکر ہے۔ یعنی تمام انبیائے کرام کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کا ظاہر بشر اور باطن نور ہے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور نور من نور اللہ ہے اور تمام کائنات کے لیے اصل و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے یعنی آپ کا نور تمام انبیائے کرام کی نورانیت کا بھی اصل ہے۔ ’’وھذا دلیل علی ان ظاھرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشری وباطنہ ملکی ولذا قالوا ان نومہ لا ینقض الوضوء کما صرحوا بہ ولا یقاس علیہ غیرہ من الامۃ کما توھم ونوضأ بعد نومہ استحبابا او تعلیما لغیرہ اولعروض ما یقتضیہ ۔ (نسیم الریاض ج ۳ ص ۵۴۵،چشتی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی: کہ میری آنکھیں سوتی ہیں دل بیدار ہوتا ہے یہ دلیل ہے اس پر کہ آپ کا ظاہر بشری ہے اور باطن ملکی نورانی ہے اسی وجہ سے محدثین کرام فقہاء عظام نے اتفاقی طور پر ارشاد فرمایا کہ بے شک آپ کی نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیند پر آپ کے کسی امتی کی نیند کو قیاس نہیں کیا جاسکتا یعنی صحابہ کرام اولیائے کرام اور امت کے کسی فرد کو بھی یہ مقام حاصل نہیں اگر کسی صحابی یا ولی کے متعلق کوئی یہ کہے کہ اس کی نیند سے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا یہ اس کا وہم ہوگا غلط سوچ ہو گی اس شخص کی بات کو تسلیم نہ کیا جائے۔ خیال رہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت کی ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی نیند سے ان کے وضو نہیں ٹوٹتے تھے میں نور الایضاح کے عربی حاشیہ ذیعۃ النجاح میں بفضلہ تعالیٰ اسے ذکر کیا ہے جبکہ ہدایہ تک تمام فقہی کتب کے محشی حضرات اسے ذکر نہ کرسکے یا دیدہ دانستہ ذکر نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگنے کے بعد وضو کرتے تھے آپ کا یہ وضو کرنا وجوبی طور پر نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ مستحب سمجھ کر آپ وضو کرتے یا تعلیم امت کے لیے یا آپ کو چونکہ معلوم ہوتا تھا کہ سوتے ہوئے کوئی چیز وضو کے خلاف سرزد ہوئی ہے اس لیے آپ کبھی کبھی اپنے علم کے مطابق وضو ٹوٹنے کی وجہ سے وضو کرتے ہوں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت کا ثبوت قرآن پاک سے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌo (پ ۶ سورۃ المائدۃ آیت ۱۵) بے شک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تین قول ملتے ہیں ایک عام مفسرین کا جنہوں نے نور سے مراد نبی کریم اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا ہے دوسرا قول معتزلہ کا ہے جنہوں نے نور اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا تیسرا قول محققین کا ہے جیسے علامہ آلوسی اورملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ انہوں نے نور اور کتاب مبین دونوں سے ہی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیے ہیں ۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : قد جاء کم من اللہ نور عظیم وھو نور الانوار والنبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ نور سے مراد نور عظیم ہے جو سب نوروں کا نور ہے۔ یعنی تمام نوروں کا اصل ہے اور وہ نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ’’والی ھذا ذھب قتادہ و اختارہ الزجاج‘‘ یہی قول قتادہ کا ہے اور ز جاج نے بھی اسی قول کو مختار قرار دیا ہے۔ ’’وقال ابو علی الجبائی عنی بالنور القرآن لکشفہ واظھارہ طرق الھدی والیقین واقتصر علی ذالک زمحشری وعلیہ فالعطف فی قولہ تعالیٰ وکتاب مبین لتنزیل المغایرۃ بالعنوان منزلۃ المغایرۃ بالذات‘‘ ابو علی جبائی نے کہا ہے نور سے مراد بھی قرآن ہے کیونکہ قرآن ہدایت و یقین کے راستوں کو ظاہر کرنے والا ہے اور منکشف کرنے والا ہے اس لیے اسے نور کہا گیا ہے زمحشری نے بھی اسی قول پر اقتصار کیا ہے اس قول پر بظاہر ایک اعتراض تھا کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے جب معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد قرآن پاک ہے لیکن دو نام علیحدہ علیحدہ ذکر کیے گئے ہیں علیحدہ علیحدہ عنوان کی وجہ سے جو مغائرت پائی گئی ہے وہ مغائرت ذاتی کے درجے میں ہے۔ ’’واما علی الاول فھو ظاھر‘‘ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے جس میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مرد قرآن پاک ہے۔ ’’وقال الطیبی انہ اوفق لتکریر قولہ سبحانہ قد جاء کم بغیر عطف فعلق بہ اولا وصف الرسول والثانی وصف الکتاب‘‘ علامہ طیّبی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ پہلے ’’قَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلُنَا‘‘ ذکر کیا گیا ہے اور پھر بغیر حرف عطف کے’’ قَدْ جَاءَ کُمْ مِنَ اللہِ نُوْرٌ‘‘ ذکر کیا گیا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں سے مراد ایک ہی ذات ہے اس لیے حرف عطف ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ مغائرت پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ولا یبعد عندی ان یراد بالنور والکتاب المبین النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والعطف علیہ کالعطف علی ماقالہ الجبائی ولا شک فی صحۃ اطلاق کل علیہ علیہ الصلوۃ والسلام‘‘ میرے نزدیک یہ کوئی بعید بات نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اگر کوئی اعتراض کرے کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد ایک ذات کیسے؟ تو اس کا ہم بھی وہی جواب دیں گے جو جبائی نے دیا ہے کہ عنوان کی مغائرت کو مغائرت کے درجے میں رکھ کر عطف کو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں کا اطلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔(از روح المعانی پ ۶) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں کا اطلاق کیسے صحیح ہے؟ اس کا جواب ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے واضح ہوجاتا ہے آپ فرماتے ہیں: ’’ای مانع من ان یجعل النعتان للرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فانہ نور عظیم لکمال ظھورہ بین الانوار وکتاب مبین حیث انہ جامع لجمیع الاسرار ومظھر للاحکام والا حوال والا خبار ۔ (شرح شفا ج ۱ ص ۴۲) نور اور کتاب مبین دونوں صفتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنانے میں کون سا مانع موجود ہے؟ یعنی کوئی مانع نہیں؛ کیونکہ آپ نور عظیم ہیں اس لیے کہ سب نوروں سے آپ کا نور زیادہ ظاہر ہے۔ اور آپ کتاب مبین (روشن کتاب) ہیں کیونکہ آپ تمام اسرار کے جامع ہونے کی وجہ سے کتاب ہیں اور تمام احکام احوال اور اخبار کے ظاہر کرنے کی وجہ سے ’’مبین‘‘ ہیں۔ تنبیہ: مذکورہ بحث سے واضح ہوا کہ آیت کریمہ میں نور سے مراد قرآن پاک جبائی اور زمحشری نے لیا ہے اور اہل علم سے مخفی نہیں کہ یہ معتزلہ کے رئیس ہیں عام اہل علم کا قول یہ ہے کہ نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک اور محققین حضرات نے دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیا ہے ۔


ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ : سب سے پہلے تخلیق قلم کی ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کی کیونکہ قلم کے اول المخلوقات ہونے والی حدیث صحیح ہے ۔ ’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی تخلیق سب سے پہلے ہونے کی روایت ضعیف ہے صحیح کے مقابل ضعیف کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟


جواب : سب سے پہلے تو ہم یہ ضابطہ ہی تسلیم نہیں کرتے کہ ضعیف کو مطلقاً چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ قانون یہ ہے کہ دلیل قطعی اور ظنی کا جب تعارض آجائے تو ان میں تطبیق دینے کی کوشش کی جائے اگر ان میں تطبیق ثابت ہوجائے تو بہتر ورنہ ظنی کو چھوڑ دیا جائے قرآن پاک میں : فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُo (پ ۲۹ سورۃ المزمل آیت ۲۰) قرآن پاک جہاں سے بھی آسان ہو پڑھو۔ اس آیت سے نماز میں قرآن پاک کا مطلقاً (کسی سورت سے بھی ہو جہاں سے بھی انسان پڑھنا چاہے پڑھ لے) پڑھنا فرض ثابت ہو رہا ہے لیکن حدیث پاک میں ہے: ’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ جس کا ظاہری معنی ہے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔ قرآن پاک کی آیت قطعی الدلالۃ ہے اور حدیث پاک جو خبر واحد ہے ظنی الدلالۃ ہے لیکن حدیث پاک کو مطلقاً چھوڑ دینے کا قول باطل ہوگا بلکہ اہل علم نے ان میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ قرآن پاک کی آیت کریمہ سے نماز میں قرات کی فرضیت ثابت ہو رہی ہے اور حدیث پاک سے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ثابت ہو رہا ہے اب حدیث پاک ’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ کا صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز کامل نہیں نفی کمال کی ہوگی مطلقاً وجود کی نہیں جیسے ’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ‘‘ کا ترجمہ بھی یہی ہوگا کہ جو شخص امانت کا پاس نہیں کرتا اس کا ایمان کامل نہیں۔ اس تمہید کے بعد جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قلم کی تخلیق کی اولیت اضافی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی تخلیق میں اولیت حقیقی ہے۔ یہی قول اہل علم، محققین، متقین اور کامل ایمان والوں کا ہے ہاں البتہ جن کا ایمان ضعیف ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر دلالت کرنے والی احادیث کو ضعیف کر کے رد کرتے ہی رہتے ہیں۔ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗo (پ ۹ سورۃ الاعراف آیت ۱۸۶) جن کے دلوں پر مہر لگا کر گمراہی کا طوق ان کے گلے میں رب تعالیٰ ڈال دے پھر انہیں ہدایت دینے کی کسے مجال ہوسکتی ہے آئیے اہل علم کے ارشادات دیکھیے۔ ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارض بخمسین الف سنۃ قال وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر) سر ور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی مقادیر لکھوادی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔


اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ عرش پہلے موجود تھا علاوہ ازیں قلم کو پیدا کر کے یہ حکم دیا گیا تھا ’’اکتب‘‘ لکھ اس نے عرض کیا کیا لکھوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اکتب القدر‘‘ تقدیر خدا وندی کو لکھ۔ ’’فکتب ماکان وماھو کالن الی الابد‘‘ تو اس نے جو کچھ ہوچکا تھا وہ بھی لکھ دیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا، وہ بھی لکھ دیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ قلم سے پہلے مخلوقات تھی، جس کو ماکان سے تعبیر کیا گیا، جب یہاں اولیت ہی اضافی ہے تو اس حدیث کی آڑ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور اقدس کی اوَلیت سے انکار کرنے کا کیا معنی؟ علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد اول ص ۱۶۶ پر فرماتے ہیں: ’’فی الازھار اول ما خلق اللہ القلم یعنی بعد العرش والماء والماء والریح لقولہ علیہ السلام کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارضین بخمسین الف سنۃ وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم) ’’وعن ابن عباس رضی اللہ عنھما عن قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء علی ای شیء کان الماء قال علی متن الریح‘‘ (رواہ البیہقی و ذکرہ الابھری) از ہار میں ہے کہ قلم کے اول المخلوقات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرش پانی اور ہوا کے بعد یہ پہلی مخلوق ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مقادیر خلائق کو لکھوادیا تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے دریافت کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا عرش پانی پر تھا تو یہ فرمائیے کہ پانی کس پر تھا ؟ انہوں نے فرمایا ہوا کی پشت پر۔ ’’فالا ولیۃ اضافیۃ‘‘ اس سے واضح ہوا کہ ’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ میں اولیت حقیقی نہیں بلکہ اضافہ ہے تو اس صورت میں حدیث نور میں اولیت حقیقی ہونے سے یہ حدیث کیونکر مانع ہوسکتی ہے اور یہی تحقیق علماء اعلام اور مقتدایان نے ذکر کی ہے۔ علامہ علی قاری نے فرمایا: ’’فالاولیۃ اضافیۃ والاول الحقیقی فھو النور المحمدی علی ما بینتہ فی المورد للمولد‘‘ نور محمدی اول تخلیق حقیقی ہے جس طرح کہ میں نے رسالہ المورد للمولد میں اس کی تحقیق بیان کی ہے اور قلم میں اولیت اضافی ہے۔ نیز علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ میں علامہ ابن حجر ھیتمی مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’قال ابن حجر اختلفت الروایات فی اول المخلوقات وحاصلھا کما بینتھا فی شرح شمائل الترمذی ان اول النور الذی خلق منہ علیہ الصلوۃ والسلام ثم الماء ثم العرش اول المخلوقات‘‘ (مرقاۃ جلد اول ص ۱۴۶) ۔ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اول المخلوقات کون سی شے ہے؟ اس میں روایات مختلف ہیں مگر ان میں تطبیق کی صورت وہ ہے جو میں نے شمائل ترمذی میں ذکر کی ہے کہ سب سے اول نور وہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا گیا اس کے بعد پانی اور اس کے بعد عرش۔ علامہ قسطلانی نے اس مسئلہ یعنی قلم کے اول مخلوق ہونے کی بحث کرتے ہوئے فرمایا: ’’اولیۃ القلم بالنسبۃ الی ماعدا النور المحمدی والماء والعرش وقیل الاولیۃ فی کل بالاضافۃ الی جنسہ ای اول ما خلق اللہ من الانوار نوری وکذا فی باقیھا‘‘ ۔ (مواھب لدنیہ مع زرقانی ج ۱ ص ۴۷ ۔ ۴۸) اولیت کے بیان میں روایات مختلف ہیں ان تمام میں تطبیق اور موافقت اس طرح ہے کہ قلم کا اول الخلق ہونا نور محمدی پانی اور عرش کے ماسوا کے اعتبار سے ہے اور یہ توجیہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ہر شے کی اولیت اپنی اپنی جنس کے لحاظ سے ہے یعنی انوار میں سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا گیا اور اقلام میں سے اس قلم کو جس نے تقدیریں لکھیں اور جن اشیاء پر عرش کا لفظ بولا جاتا ہے ان میں سے عرش اعظم کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔ تنبیہ: نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت کے بیان والی حدیث کو صرف ضعیف ایمان والوں نے ضعیف کھا ہے ورنہ امام قسطلانی علامہ ابن حجر ہیتمی ملا علی قاری، علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کسی نے بھی ضعیف نہیں کہا ۔ (ماخوذ از تنویر الابصار صفحہ نمبر ۹۸)


عوام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صرف بشر نہ کہیں: جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ظاہری طور پر بشر ہیں اور باطنی طور پر نور ہیں لیکن عوام جو بشر کے معنی کمال سے بے خبر ہیں وہ لفظ بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ملائیں جو تعظیم پر دلالت کریں اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے سید الاولیاء حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس میں شک نہیں کہ اہل ایمان کے لیے ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بطریق تکریم و تعظیم واجب اور ضروری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ لفظ بشر کے معنی میں بحسب لغت عربیہ عظمت و کمال پایا جاتا ہے یا حقارت میری ناقص رائے میں لفظ بشر مفہوماً و مصداقاً متضمن بہ کمال ہے مگر چونکہ اس کمال تک ہر کس و ناکس سوائے اہل تحقیق و عرفان کے رسائی نہیں رکھتا لہذا اطلاق لفظ بشر میں خواص بلکہ اخص الخواص کا حکم عوام سے علیحدہ ہے، خواص کے لیے جائز اور عوام کے لیے بغیر زیادت لفظ دال بر تعظیم نا جائز‘‘۔ توضیح: آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو بشر کس واسطے کہا گیا؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو شرف مباشرت بالیدین عطا فرمایا گیا ہے۔ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّo (پ ۲۳ سورۃ ص آیت ۷۵) کس چیز نے تجھے اس (آدم) کو سجدہ کرنے سے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ چونکہ ملائکہ کمال آدم علیہ السلام سے بے خبر تھے ایسا ہی ابلیس ’’فقالوا ما قالوا‘‘ (انہوں نے وہ کہا جو کہا) فرق اتنا ہے کہ ملائکہ جتلانے کے بعد سمجھ گئے اور معترفِ بالتصور ہوئے۔ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاo (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۳۲) فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے عطا کیا ہے۔ اور ابلیس کو علاوہ قصور جہل کے غرور بھی تھا لہذا وہ ’’اَبیٰ وَاسْتَکْبَرَ‘‘ شیطان نے انکار کیا اور تکبر کیا ..... کا مصداق بنا۔ بشر ہی کو کمال استجلاء کے لیے مظہر بنایا گیا ہے اور ملائکہ بوجہ نقص مظہریت اس کمال سے محروم ٹھہرے اور مظاہر اور مرایا کمالات استجلائیہ سے از گروہ انبیاء علیہم السلام سیدنا ابو القاسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصالۃ و ازجماعت اولیائے کرام وارث مصرع ’’وانی علی قدم النبی بدر الکمال‘‘ اور میں نبی بدر کمال کے نقش قدم پر ہوں۔ (قصیدہ غوثیہ) سیدنا عبدالقادر وامثالہ رضی اللہ عنہم وراثتاً مظہر اکمل وا اتم لاسمہ الا عظم ٹھہرے، بشر ہی کے لیے تنزل اخیر ہونے کے باعث اس قدر اہتمام ہوا کہ ہئیت اجتماعیہ و ترکیبات اسمائیہ واتصالات و اوضاع ’’انی خمرت طینۃ آدم‘‘ سے لے کر تا ظہور جسد عنصری صلی اللہ علیہ وسلم واتباعہ من الاکمل کو متوجہ کیا گیا ہے اور خدام بنائے گئے تاکہ: ’’من رأنی فقد رأی الحق‘‘ جس نے میرا دیدار کیا اس نے خدائے تعالیٰ کا دیدار کیا (الحدیث) کا آئینہ و چہرہ علی وجہ الکمال اور پورا حق نما ہو۔ قصہ مختصر بشر ہی ہے کہ جس کو ..... گر خواھی خدا بینی در چھرہ من بنگر من آئینہ اویم او نیست جدا از من (گر تو خدا کو دیکھنا چاہتا ہے تو میرے چہرہ کو دیکھ میں اس کا آئینہ ہوں وہ مجھ سے جدا نہیں ہے۔) ..... ہونے اور کہنے کا استحاق حاصل ہے۔ اس تقریر سے ثابت ہوا کہ عارف کو بشر کہنا از قبیل ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بالا سماء المعظمہ ہوا بخلاف غیر عارف کے اس کے لیے بغیر انضمام کلمات تعظیم صرف لفظ بشر ذکر کرنا جائز نہیں چنانچہ آیت کریمہ میں بشر کے بعد ’’یُوْحٰی اِلَّی‘‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اور تشہد میں عہدہ کے بعد و رسولہ کا ذکر ہے اور کلام اہل عرفان میں ہے۔ فمبلغ العلم فیہ انہ بشر وانہ خیر خلق اللہ کلھم (قصیدہ بردہ) ہمارا نہایت علم یہ ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بہتر ہیں۔ (فتاوٰی مہریہ صفحہ نمبر ۴،چشتی)


خلاصہ کلام : حضرت کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اہل علم جو بشر کا معنی اور اس میں جو کمالات پائے جاتے ہیں انہیں جانتے ہیں وہ تو بشر کہہ سکتے ہیں لیکن عام لوگوں کو بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ذکر کرنے چاہئیں تاکہ انہیں بھی آپ کی عظمت کا پتہ ہو مثلا سید الکائنات افضل الانبیاء حبیب خدا وغیرہ الفاظ ساتھ ملائے جائیں۔ حقیقت میں بشر میں وہ کمال ہے جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہوا کیونکہ رب تعالیٰ نے اپنی ذات صفات اور اسماء کا مظہر صرف بشر کو ہی بنایا ہے اس کمال سے فرشتے محروم ہیں پھر یہ وصف کمال تمام انبیائے کرام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی واسطہ کے عطا ہوا لیکن اولیائے کرام کو آپ کے واسطہ سے یہ کمال عطا کیا گیا پھر اولیائے کرام میں جلیل القدر ہستیوں یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی اور اس قسم کے اولیائے کرام علیہم الرحمہ کو بالواسطہ یہ کمال اعلیٰ درجہ کا حاصل ہوا دوسرے حضرات کو کچھ کم انبیائے کرام علیہ السلام کو بعض بعض صفات اور بعض بعض اسماء گرامی کا مظہر بنایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رب تعالیٰ کی آٹھ صفات مختصہ کے بغیر تمام صفات کے مظہر ہیں۔ جب یہ بات کسی کی سمجھ میں آجائے کہ بشر اس شان والے عظیم شخص کو کہا جاتا ہے اور اس کمال میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں وہ تو سمجھ سکتا ہے کہ بشر آپ کا عظیم وصف ہے لیکن عام انسان تو بشر کا معنی یہی سمجھے گا کہ معاذ اللہ آپ بھی ہماری طرح تھے ایسا سمجھنا ہی دین سے دور ہونے کا نام ہے اور ایسے شخص کو صرف لفظ بشر کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔


امتناعِ نظیر : امتناع نظیر کا یہ مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مثل پیدا کرنا رب تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہے ۔ جو چیزیں محال بالذات ممتنع بالذات ہیں وہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہوں تو رب تعالیٰ کی شان اور قدرت میں کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ وہ اشیاء اس قابل نہیں کہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں۔ اس مسئلہ کو سید الاولیاء حضرت علامہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ مقدمات: ۱۔ ممتنعات ذاتیہ کا احاطہ قدرت سبحانہ سے خروج کمال ذاتی باری پر دھبہ نہیں لگاتا بلکہ یہ قصور راجع بجانب قابل ہے کہ ممتنع ذاتی قبولیت کا صالح نہیں۔ ۲۔ انقلاب حقائق واقعہ کا خواہ معدودات سے ہوں مثل انسان، فرس، بقر، غنم، کے یا مراتب عددیہ سے ہوں مثل ایک دو تین چار یا مختلط یعنی معدود بحیثیت عروض مرتبہ عددی مثلاً زید جو اول مولود ہے بہ نسبت باقی اولاد عمر و کے ممتنع بالذات ہیں۔ ۳۔ کسی چیز کی نظیر اس چیز کو کہا جاتا ہے کہ علاوہ مشارکت نوعی کے اوصاف ممّیزہ کاملہ میں اس چیز کی ہم پلہ ہو۔ ۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحسب الحقیقۃ الروحانیۃ النوریۃ اول مخلوق ہیں: ’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ اور ’’اول ما خلق اللہ العفل‘‘ تصریحات محققین ازاہل کشف و شمود اس پر شاہد ہیں: ’’کما قال الشیخ الاکبر قدس اللہ سرہ الاطھر قلم یکن اقرب الیہ قبولا فی ذالک الھباء الا حقیقۃ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم المسماۃ بالعقل فکان مبدأ العالم باسرہ و اول ظاھر فی الوجود فکان وجود ہ من ذالک النور الالھی‘‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا ہے یا یہ ارشاد کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا ہے ان دونوں کا مطلب ہے شیخ اکبر قدس سرہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ وہی نور جس کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا اور حقیقت محمدیہ کہلایا اسی کا نام عقل بھی ہے جو تمام عالم کا مبدا ہے تمام جہان سے پہلے اسی نور کا وجود ہے اور وہ نور نور الٰہی سے معروض وجود میں آیا ہے۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اولیت کی صفت سے متصف ہیں اسی طرح آخریت کی صفت سے بھی متصف ہیں کہ آپ آخر الانبیاء ہیں: ارشاد خدا وندی: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَo (پ ۲۲ سورۃ الاحزاب آیت ۴۰) لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ اہل بصیرت کو ان مقدمات مذکورہ پر گہری نظر ڈالنے سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود ممتنع بالذات بایں معنی ہے کہ خالق سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو ایسا بنایا ہے کہ اور ایسے کاملہ ممیّزہ مختصہ صفات کے ساتھ سنوارا ہے کہ جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ در صورت وجود نظریر انقلاب حقیقت لازم آتا ہے کیونکہ فرض نظیر کا وجود آپ کے بعد ہی ہوگا تو لامحالہ ایسا معدوم ہوگا جس کو مرتبہ ثانیہ عددی عارض ہو اور نظیر کہلانے کا مستحق جب ہی ہوسکتا ہے کہ وصف ممیّز کامل یعنی اول مخلوقیت و ختم نبوت میں مشارک ہو تو معروض مرتبہ ثانیہ کا معروض مرتبہ اولیٰ کا ہو۔ (یہ ممتنع بالذات ہے، ایسا ہو نہیں سکتا)۔ ایسا ہی بلحاظ ختمیت فرض کیا کہ آپ مثلاً چھٹے مرتبہ میں تو نظیر آپ کی معروض ساتویں مرتبہ کی مثل ہوکر معروض مرتبہ سادسہ کی ہوگی ’’وھو خلف‘‘ (یہی حقیقت کے خلاف ہے)۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ ممتنعات ذاتیہ میں سے دو قسم اولین اور قسم ثالث میں فرق ظاہر ہے کیونکہ قسم ثالث کا امتناع اوصاف عارضہ کے لحاظ سے ہے اس لیے کہ محل بحث امتناع یا امکان نظیر ہے نہ امتناع یا امکان مثل خلاصہ یہ کہ آئینہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم میں خالق عز مجدہ نے جداگانہ کمال دکھایا یعنی ایسا بنایا کہ نظیرش امکان ندا رد (جس کی نظیر ممکن نہیں) ۔ فھذا الکمال راجع الیہ سبحانہ کما ان الجمال مختص بہ من منع اللہ فسبحان من خلقہ واحسنہ واجملہ واکملہ ۔ (فتاوی مہریہ صفحہ نمبر ۹،چشتی)

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس شان سے پیدا کرنا در حقیقت رب تعالیٰ کا ہی کمال ہے جس طرح یہ شان اور جمال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مختص ہے وہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہی وہ ذات پاک ہے جس نے آپ کو اس جداگانہ شان سے بنایا اور آپ کو سب زیادہ حسین اور سب سے زیادہ جمیل اور سب سے زیادہ با کمال بنایا ۔


خلاصہ کلام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رب تعالیٰ سب کائنات سے اول معرض وجود میں لایا اور آپ کو خاتم الانبیاء بنایا اگر آپ کی نظیر کوئی اور بھی بن سکے تو اسے بھی یہ دونوں وصف حاصل ہوں گے حالانکہ اول تو ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد آنے والے تو دوسرے درجہ میں ہوجاتے ہیں اور اسی طرح خاتم بھی ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد اس کی نظیر کو اگر خاتم کہا جائے گا تو پہلی ذات کا خاتم ہونا باطل ہوگا یہ دونوں صورتیں ممتنع بالذات ہیں ممتنع بالذات قدرت باری سے خارج ہیں ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ یہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں رب تعالیٰ کی قدرت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ حقیقت محمدیہ موجودات عالم میں جاری و ساری ہے: مولنا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ شرح و قایہ کی شرح سعایہ میں فرماتے ہیں ’’السر فی خطاب التشھد ان الحقیقۃ المحمدیۃ کانھا ساریۃ فی کل وجود وحاضرۃ فی باطن کل عبد وانکشاف ھذہ الحالۃ علی الوجہ الاتم فی حالۃ الصلوۃ فحصل محل الخطاب وقال بعض اھل المعروفۃ ان العبد لماتشرف بشاء اللہ فکانہ فی حریم الحرام الالھی ونور البصیرہ و وجد الحبیب حاضرا فی حرم الحبیب فاقبل علیہ وقال السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘۔ تشہد میں خطاب یعنی ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ ۔ میں راز یہ ہے کہ حقیقت محمد یہ ہر وجود میں جاری و ساری ہے اور ہر بندے کے باطن میں موجود ہے نماز کی حالت میں اس حالت کا کامل انکشاف ہوتا ہے پس محل خطاب حاصل ہوجاتا ہے بعض اہل معرفت نے کہا ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی ثناء سے مشرف ہوتا ہے تو گویا اس کو حرم حریم الٰہی میں جگہ مل گئی اور نور بصیرت اس کو حاصل ہوا۔ حبیب (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دربار حبیب (اللہ تعالیٰ) میں موجود پایا تو فورا آپ کی طرف متوجہ ہوکر صیغہ خطاب سے کہا: السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکات ہوں۔ اشعۃ اللمعات میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’نیز آنحضرت ھمیشہ نصب العین مومناں وقرۃ العین عابداں است در جمیع احوال و اوقات خصوصا در حالت عبادت و آخر آں کہ وجود نورانیت و انکشاف دریں احوال بیشتر و قوی تراست و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجھت سریان حقیقت محمدیہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات پس آنحضرت درذات مصلیان موجود و حاضر است پس مصلی راباید کہ ازیں بآگاہ باشد وازیں شھود غافل نہ بو دتا بانوار قرب و اسرار معرفت منتورو فائز گرد‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مومنوں کا نصب العین اور عبادت گزاروں کی آنکھوں کی ٹھندک ہیں جمیع احول اوقات میں خصوصاً حالت عبادت میں اور اس کے آخر میں نورانیت کا وجود اور انکشاف ان احوال میں زیادہ اور بہت قوی ہوتا ہے بعض عرفاء نے کہا ہے تشہد میں خطاب اسی وجہ سے ہے کہ حقیقت محمدیہ موجودات کے تمام ذرات اور ممکنات کے تمام افراد میں جاری و ساری ہے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں موجود ہوتے ہیں لہذا نمازی کو چاہیے کہ اس معنی سے آگاہ رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موجودگی سے غافل نہ رہے تاکہ انوار قرب اور اسرار معرفت سے منور اور فیضیاب ہو ۔


علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ویحتمل ان یقال علی طریق اھل العرفان ان المصلین لما استفتحوا باب الملکوت بالتحیات اذن لھم بالد خول فی حریم الخی الذی لا یموت فقرت اعینھم بالمناجات فنبھوا علی نوالک بواسطۃ نبی الرحمۃ و برکۃ متابعۃ فالتفتوا فاذا الحبیب فی حرم الحبیب حاضر فاقبلوا علیہ قائلین السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ ۔(فتح الباری شرح بخاری ج ۲ ص ۲۵۰ (مطبوعہ مصر ) ۔ اہل معرفت کے طریقہ پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ بیشک نمازی جب التحیات کے ذریعے ملکوت کا دروازہ کھلوا لیتے ہیں ان کو حی لا یموت کی بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے مناجات سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ان کو اس پر متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہیں نبی رحمت اور ان کی تابعداری کی برکت کے وسیلہ سے حاصل ہے وہ فوراً توجہ کرتے ہیں تو حبیب کو حرم حبیب میں موجود پاتے ہیں یعنی بارگاہ ذوالجلال میں حبیب پاک کو جلوہ گر پاتے ہیں تو خطاب کے صیغے سے ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہتے ہیں۔ حقیقت محمدیہ کیا ہے؟ جب یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ حقیقت محمدیہ جمیع موجودات عالم میں جاری و ساری ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ حقیقت محمدیہ کیا ہے؟ اس پر علامہ جلال الدین محقق دوانی رحمہ اللہ کا قول ان کی مشہور کتاب اخلاق جلالی کے صفحہ ۲۵۶ میں ملاحظہ فرمائیں، آپ فرماتے ہیں: ’’تحقیق کلام دریں مقام آں است کہ با طباق اصحاب نظر و برھان و اتفاق ارباب شھود و عیاں تخستیں گوھر یکہ بامر کن فیکون بوسیلہ قدرت و ارادہ ہے چوں از دریائے غیب مکنون بساحل شھادت آمد جوھر بسیط نورانی بود کہ بعرف حکماء آنرا عقل اول خوانند و در بعضے اخبار تعبیر ازاں بقلم اعلی رفتہ واکابر ائمہ وکشف و تحقیق آں را حقیقت محمدیہ خوالند‘‘ اس مقام میں کلام کی تحقیق یہ ہے کہ اصحاب نظر و برھان اور ارباب شہود و عیاں کا اس پر اتفاق ہے کہ بے مثل ذات (اللہ تعالیٰ) کی قدرت اور اس کے ارادہ کے وسیلہ سے سب سے پہلے جوہر بسیط کن فیکون کے امر سے دریائے غیب مکنون سے ظہور کے ساحل پر آیا (معرض و جود میں آیا وہ جوہر بسیط نورانی تھا) جس کو حکماء کے عرف میں عقل اول کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں اس کو قلم اعلی سے تعبیر کیا گیا ہے اس کو اکابرائمہ کرام اور اصحاب کشف و تحقیق نے حقیقت محمدیہ کہا ہے۔ جناب سید اولالیاء پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ مسئلہ حاضر و ناظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے خیال میں ظہور و سریان حقیقت احمد یہ عالم و ہر مرتبہ اور ہر ذرہ ذرہ میں عندالمحققین من الصوفیہ ثابت ہے اس کو حقیقۃ الحائق کہتے ہیں اور لکھتے ہیں: ’’فھو نور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‘‘ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور ہے ۔ اولا جو بصورت تقی نقی اور جسد شریف عنصری کے ظاہر ہوا ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بصورت مثالیہ شریفہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام ہر مکان و زمان میں احادیث صحیحہ سے ثابت ہے جس کا اقرار واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار اور اس کا انکار آپ کا انکار مانا گیا ہے: ’’کما فی حدیث البخاری فی کتاب الایمان‘‘ اس سے مراد وہ حدیث ہے جونکیرین کے سوال سے متعلق وارد ہوئی ہرمیت سے سوال کرتے ہیں۔ ’’ماکنت تقول فی حق ھذا الرجال لمحمد‘‘ تم اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتے تھے۔ چونکہ اس حدیث میں لفظ ’’ھذا‘‘ استعمال ہوا ہے جو محسوس مبصر پر دلالت کرتا ہے جبکہ ایک وقت میں کئی حضرات کو دفن کیا جاتا ہے تو اس طرح آپ کو بصورت مثالیہ کئی جگہ پر تشریف فرما ہونا یقینی ہے اسی کو ماننا ایمان ہے اور اسی کا انکار کفر ہے۔ اہل تجربہ کو ظہور کذائی مثالی کا کراتا مراتاً (بار بار) اتفاق ہوتا رہتا ہے البتہ ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بجسدہ العنصری العینی کا پتہ بعض اہل مشاہد کے ہاں سے ملتا ہے اور بلحاظ واقعہ معراج شریف و خصائص والوازم مختصہ جسد شریف علی صاحبھا الصلوۃ والسلام سے مستبعد (بعید) نہیں۔ ’’ھذا ما عندی والعلم ما عند اللہ‘‘۔ (فتاوی مھریہ ص ۵) ’’انہ لما تعلقت ارادۃ الحق بایجاد خلقہ و تقدیر رزقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ ۔ (مواھب الدنیۃ) اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو موجود کرنے اور اس کے رزق کی تقدیر کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے حقیقت محمدیہ کو ظاہر فرمایا۔ زرقانی میں اس عبارت کی جو شرح بیان کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ: صاحب مواھب کے قول ’’ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذات کو بمع صفت اول کے سب سے پہلے ظاہر فرمایا جیسے تو قیف میں ذکر کیا گیا ہے اور لطائف کاشی میں اس طرح مذکور ہے کہ محقیقن حضرات حقیقت محمدیہ سے مراد وہ حقیقت لیتے ہیں کہ جس کو حقیقت الحقائق کہتے ہیں یہ حقیقت تمام حقائق میں اسی طرح جاری و ساری جیسے کلی اپنی جزئیات میں جاری و ساری ہوتی ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت محمدیہ یہ حقیقۃ الحقائق کی صورت ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان بر زخ و واسطہ کی حیثیت رکھتی ہے اس وقت اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم و وصف غالب نہیں تھا یہی وہ واسطہ یعنی حقیقت محمدیہ ہی نور احمدی ہے جس کی طرف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی اشارہ کررہا ہے وہ یہ کہ: ’’اول ما خلق اللہ نوری ای قدر علی اصل الوضع اللغوی وبھذا الا عتبار سمی المصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنور الا نوار وبابی الا رواح‘‘ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا اسی وجہ سے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام نور الانوار اور ابوالا رواح رکھا گیا ہے ۔ (زرقانی صفحہ نمبر ۲۷)


مختصر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے تمام مخلوق کو آپ کے نور سے پیدا کیا کیا تمام انبیائے کرام اپنی اپنی نبوتوں میں اصل نبی ہونے کے باوجود آپ کے تابع ہیں حقیقت محمدیہ تمام کائنات میں جاری و ساری ہے حقیقت محمدیہ کو عقل اول قلم اعلی جوہر بسیط نورانی نور الا نوار ابو الارواح یعنی روح الارواح کہا گیا ہے زیادہ وضاحت کے لیے میرے رسالہ عقیدہ حاضر و ناظر کا مطالعہ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاک نسلوں سے تشریف لائے: علامہ امام ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے روایت کو نقل کیا ہے کہ : ’’لما اراد اللہ عزوجل ان یخلق محمدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امر جبرائیل علیہ السلام فاتاہ بالقبضۃ البیضاء التی ھی موضع قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فعجنت بماء التسنیم فغمست فی انھار الجنۃ وطیفھا فی السموات فعرفت الملائکۃ محمدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبل ان یعرف آدم ثم کان نور محمد یری فی غرۃ جبھۃ آدم و قیل لہ یادم ھذا سید ولدک من المرسلین فلما حملت حواء بشیث انتقل النور من آدم الی حواء و کانت تلد فی کان بطن ولدین ولدین الاشیئا فانہ ولدتہ وجدہ کرامۃ لمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ثم لم یزل ینتقل من طاھر الی طاھر الی ان ولدتہ آمنۃ من عبد اللہ ابن عبد المطلب‘‘ ۔ (مرقاۃ ج ۱۱ ص ۴۴ باب فضائل سید المرسلین) ۔ جب اللہ تعالیٰ نے محمد (رسول اللہ) صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو جبرائیل کو حکم دیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر شریف کی جگہ سے سفید مٹی کی ایک مٹھی لی پھر اسے ماء تسنیم (جنت کی نہر تسنیم کے پانی) سے گوندھا گیا پھر اسے جنت کی نہروں میں ڈبویا گیا اور آسمانوں میں اسے پھرایا گیا پس فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو پہچاننے سے پہلے ہی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہچان لیا پھر نور محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آدم علیہ السلام کی پیشانی میں رکھا گیا جس کی وجہ سے آپ کی پیشانی جگماتی تھی اور آپ کو بتایا گیا اے آدم یہ تمہاری اولاد سے ہوں گے اور تمام رسولوں کے سردار ہوں گے پس جب حضرت حوا کے پیٹ میں شیث آئے تو وہ نور آدم علیہ السلام کی پیشانی سے منتقل ہوکر حوا کے پاس آگیا حالانکہ حضرت حوا کے بطن مبارک سے دو دو بچے ہر حمل سے پیدا ہو رہے تھے لیکن (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کو منقسم ہونے سے بچانے کے لیے) صرف شیث علیہ السلام ہی اکیلے پیدا ہوئے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت کو مد نظر رکھا گیا پھر آپ کا نور ہمیشہ سے پاک ہستی سے پاک ہستی کی طرف منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ آپ کی والدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو عبد اللہ بن عبد المطلب سے جنا۔ خیال رہے کہ پاک نسلوں سے منتقل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد بدکاری اور کفر سے پاک تھے طہارت کو صرف بدکاری کی نجاست سے پاک ہونے کے ساتھ خاص کرنا باطل ہے بلکہ زیادہ مقصود ہی کفر سے پاک ہونا ہے یہ تفصیل حضرت ابراہیم کے حالات میں دیکھی جائے وہاں میں نے وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری: ’’والا کثرون انہ ولد عام الفیل وانہ بعد الفیل بخمسین یوما وانہ فی شھرربیع الاول یوم الاثنین لثنتی عشرۃ خلت من عند طلوع الفجر‘‘ ۔ (مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷) اکثر اہل علم کا قول یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس سال دنیا میں تشریف لائے جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں پر سوار ہوکر کعبہ شریف کو شہید کرنے کی مذموم (حرکت) کی اور وہ تباہ و برباد ہوا اس سال کو عام الفیل کہتے ہیں یعنی آپ اس واقعہ کے پچاس دن بعد تشریف لائے یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور اس کی بارہ تاریخ تھی پیر کا دن تھا صبح صادق کا وقت تھا ۔ پیر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعلق : آپ کی پیدائش پیر کے دن آپ کی نبوت عطا ہوئی پیر کے دن مکہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت پیر کے دن کی مدینہ طیبہ میں پہنچے پیر کے دن قریش کے نزاع کو مٹانے کے لیے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک میں رکھ کر سب قبائل کے سرداروں کو اٹھانے کے متعلق ارشاد فرمایا اور خود حجر اسود کو اٹھاکر کعبہ شریف کی دیوار میں نصب کردیا یہ بھی پیر کا دن تھا مکہ شریف فتح فرمایا پیر کے دن سورہ مائدہ کا آپ پر نزول پیر کے دن ہوا تھا۔(مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور منتقل ہونے کے بعد بھی اثر انداز رہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے پچاس دن پہلے ابرہہ کا واقعہ درپیش آیا اس وقت وہ نور حضرت عبد المطلب سے منتقل ہوکر حضرت عبد اللہ کی والدہ کے پاس اور ان سے حضرت عبد اللہ کے پاس اور ان سے حضرت آمنہ کے پاس آچکا تھا لیکن پھر بھی اس کے اثرات حضرت عبد المطلب کی پیشانی میں موجود تھے ’’فرکب عبد المطلب فی قریش حتی طلع جبل ثبیر فاستدار ت دارۃ غرۃ رسول اللہ علی جبھتہ کالھلال واشتد شعاعھا علی البیت الحرام مثل السراج فلما نظر عبد المطلب الی ذالک قال یا معشر قریش ارجعوا فقد کفیتم ھذا الامر فو اللہ ما استدار ھذا النور منی الا ان یکون الظفر لنا۔ (مواھب لدنیہ ج ۱ ص ۸۵) حضرت عبد المطلب سوار ہوکر قریش کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر (ابرھہ کے لشکر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے) شبیر پہاڑ پر چڑھے تو آپ کی پیشانی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور گول چاند کی طرح ظاہر ہوا اور اس کی شعاعیں چراغ کی طرح کعبہ شریف پر پڑیں۔ جب عبد المطلب نے یہ حال دیکھا تو آپ نے کہا: اے قریش کی جماعت واپس لوٹ چلو یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی یہ نور میری پیشانی میں جو چمکا ہے یہ ہماری کامیابی کی دلیل ہے۔ آپ کے نور سے شام کے محلات روشن ہوگئے: حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’انی عند اللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ و ساخبر کم باول امری دعوۃ ابراھیم و بشارۃ عیسی و رویا امی التی رات حین وضعتنی وقد خرج لھا نور اضاء لھا منہ قصور الشام‘‘ ۔ (شرح السنۃ، مسند احمد از ساخبر کم تا اخیر، مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین صفحہ نمبر ۵۱۳،چشتی) ۔ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا ہوا تھا کہ جب آدم علیہ السلام کیچڑ میں تھے یعنی آپ کا خمیر تیار کیا جا رہا تھا تمہیں اپنے اول امور کی خبر دے رہا ہوں کہ میں ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کی رویا ہوں جو آپ نے اس وقت دیکھا جب مجھے جنا کہ آپ سے ایک نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔ دعوۃ ابراھیم سے اشارہ اس طرف تھا جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے بعد دعا کی: ’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ‘‘ (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۱۲۹) کہ اے ہمارے رب تعالیٰ ان میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان میں سے ہی ہو ۔ ’’بشارۃ عیسیٰ‘‘ سے مراد جو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ‘‘ (پ ۲۸ سورۃ الصف آیت ۶) آپ نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول تشریف لائیں گے جن کا نام احمد ہوگا ۔ رؤیا : کیا رویا سے مراد خواب ہے یا ظاہر طور پر دیکھنا مراد ہے اس پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں: ’’ظاھر ھذا الکلام ان رویۃ نور اضاء بہ قصور الشام کانت فی المنام وقد جاءت الاخبار انھا کانت فی الیقظۃ واما الذی فی المنام فھو انھا رأت انہ اتاھا آت فقال لھا شعرت انک قد حملت بسید ھذہ الامۃ ونبیھا فینبغی ان یحمل الرؤیا علی الرؤیۃ بالعین واللہ اعلم‘‘ (لمعات) اگرچہ ظاہر طور پر تو یہ سمجھ آتا ہے کہ آپ کا نور دیکھنا جس سے شام کے محلات روشن ہوئے خواب کا واقعہ ہو لیکن احادیث میں یہی واقعہ جاگتے ہوئے بھی درپیش آنے کا ذکر ہے خواب کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی والدہ نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر مجھے کہہ رہا ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم اس امت کے سردار اور نبی سے حاملہ ہوچکی ہو ، مناسب یہی ہے کہ اس حدیث میں رویا سے آنکھ سے جاگتے ہوئے دیکھنا مراد لیا جائے ۔ راقم کے نزدیک اس حدیث میں خواب کا معنی لینا ہی حقیقت سے دوری کی علامت ہے اس لیے کہ ’’حین وضعتنی‘‘ ظرف ہے ’’رات‘‘ کی (جس وقت میری والدہ نے مجھے جنا اس وقت دیکھا) ۔ پیدائش کے وقت خواب کا دیکھنا ناممکن ہے اس حدیث میں ظاہری طور پر دیکھنا مراد لیا جائے تو یہ معنی ظاہری ترکیب کے بالکل مطابق ہے خواب والا معنی لینا تکلفات اور تاویلات سے خالی نہیں ۔


مسئلہ نو ر بشر میں ا صل اختلاف کیا ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشر ہونے میں سب کا اتفاق ہے ۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نور ہیں یا نہیں ۔ اس لیے جو نور مانتے ہیں ان پر لازم ہو تا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور ہونے پر دلیل دیں اور جو اس کا انکار کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور نہ ہو نے پر دلیل قائم کریں ۔ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ نور نہیں مانتے ، وہ اپنی بات کو ثابت کر نے کے لئے ’ بشر ‘ والی آیات پڑھتے ہیں ۔ یہ ایک قسم کی جہالت ہے کیو نکہ بشر ہونے میں تو اختلاف ہے ہی نہیں ۔ اختلاف تو نور ہونے یا نہ ہونے میں ہے ۔ اس لیے کو ئی ایسی آیت یا حدیث پیش کر نا چا ہیے جس میں یہ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نور نہیں ہیں ۔ کیونکہ نور و بشر میں تضاد نہیں ہے کہ جو نور ہوگا وہ بشر نہیں ہو سکتا اور جو بشر ہے وہ نور نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ حضرت جبر ئیل علیہ السلام نوری مخلوق میں سے ہیں مگر قرآن حکیم میں انہیں بشر کہا گیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے ۔ فتمثل لھا بشرا سویا ۔ (سورہ مریم آیت نمبر ۱۷) ،، پس ظاہر ہو ان کے سامنے ایک تندرست بشر کے روپ میں ۔ اس آیت کر یمہ میں حضرت جبرئیل علیہ السّلام کو بشر کہا گیا ۔ معلوم ہو ا بشریت اور نورانیت ایک دوسرے کی ضد نہیں ۔ کہ یہ دونوں ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں ۔ بلکہ جمع ہو سکتے ہیں ۔ حاصل یہ کہ اصل اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور ہو نے یا نہ ہونے میں ہے ۔ بشر ہو نے میں کسی کا کو ئی اختلاف ہے ہی نہیں ۔ اس لیے جواب میں بشر والی آیات کا پیش کر نا درست نہیں ۔

فتویٰ علمائے دیوبند : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیک وقت نور بھی ہیں اور بشر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور اور بشر ہونے میں کوئی منافات نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیّد البشر افضل البشر ہیں ۔ (فتاویٰ بیّنات جلد نمبر 1 صفحہ نمبر81) ۔ یہی ہم اہلسنّت کہتے ہیں جناب من ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور ہیں وہابی علماء کی گواہی : ⏬

اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور خدا ہیں ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا اللہ کے پیدا کیے ہوئے نور ہیں ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 صفحہ 793 علامہ ثناء اللہ امر تسری غیر مقلد وہابی)

غیر مقلد عالم عبد اللہ روپڑی لکھتے ھیں : سورج چاند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے چمکتے ہیں ۔ (مظالم روپڑی صفحہ 47)

غیر مقلد وہابی عالم نواب وحید الزمان لکھتا ھے : اللہ سبحانہ نے تخلیق کرنے کا آغاز نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا ۔ (ہدیہ المھدی جلد 1 صفحہ 56)

غیر مقلد وہابی مذہب کے مجدد نواب صدیق حسن خان بھوپالی کہتے ھیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا نور اور اس کے ذات کی تجلی ہیں ۔ (نفخ الطیب صفحہ 60)

کیا کہتے ہیں نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر وہابی حضرات ان کے بڑے بڑے علماء لکھ رہے ہیں ہمارا عقیدہ ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیدا کیئے ہوئے نور ہیں اور اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیدا کیے ہوئے نور ہیں اب ان پر لگایئے مشرک بدعتی اور گمراہ کے فتوے ۔ الحمد للہ اہلسنت و جماعت کے عقائد و نظریات حق ہیں ۔

انبیاء کرام علیہم السّلام کو اپنے جیسا بشر کہنا : ⏬

اگر کوئی شخص اپنی ماں کو باپ کی بیوی یا باپ کو ماں کا شوہر کہے تو اگر چہ یہ بات سچی ہے مگر بے ادب و گستاخ کہا جائے گا ۔ اسی طرح آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت والے القاب کے ہوتے ہوئے محض بشر یا بھائی کہنے والوں کو یقینا بے ادب و گستاخ کہا جائے گا اور نبی کو بشر کہنا مومنین کا طریقہ ہر گز نہیں رہا ہے بلکہ کفار کا طریقہ رہا ہے ۔سب سے پہلے شیطان نے نبی کو بشر کہا تھا شیطان کے بعد اور کفار نے اپنے نبی کو بشر کہا ۔ قرآن کریم پڑھیے : ⏬

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا ۔ مَا نَرَاکَ اِلَّا بَشَرًا مِّث لَنَا ۔”نہیں دیکھتے ہم تم کو مگر اپنی مثل ایک بشر ۔

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا : مَا اَن تَ اِلَّا بَشَر مِّثلُنَا ۔”اور تو یہی ایک بشر ہے ہماری مثل ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا : وَمَا اَن تَ اِلَّا بَشَر مِّثلُنَا ۔

اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم نے آپ کے بارے میں کہا : ھَل ھٰذَا اِلَّا بَشَر مِّث لُکُم ۔” یہ محض تم جیسے ایک معمولی آدمی ہیں ۔

مذکورہ آیات سے یہ حقیقت خوب آشکارا ہو جاتی ہے کہ انبیاء علیہم السّلام کو محض اپنے جیسا بشر کہنا کفار کا طریقہ رہا ہے ۔ تو یہ کتنی بڑی عاقبت نا اندیشی ہو گی کہ کفار کا طریقہ اپنایا جائے اور سرکارِ کل کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلیٰ القاب کے ہوتے ہوئے بشر یا بھائی کہا جائے اور قرآن کریم کے ارشاد : اِنَّمَاالمُومِنُونَ اِخوَة ۔ سے دلیل پکڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھائی کہنا اعلیٰ درجہ کی حماقت ہے ۔ اس لیئے کہ آیت کریمہ حضور سرور کل کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے حق میں ہے نہ کہ ہر قسم کے مومن کے بارے میں ۔ کیونکہ اگر ہر مومن بھائی ہو تو خدا بھی مسلمانوں کا بھائی ہو جائے گا ،کہ وہ بھی مومن ہے تو جب ہر مومن بھائی نہیں ، تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں ؟جبکہ ہم میں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف لفظ مومن میں اشتراک ہے ،حقیقت مومن میں نہیں ۔ کہ ہم مومن ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عین ایمان ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایمان دیکھی ہوئی چیزوں پر ہے ، اور ہمارا ایمان ایسا نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ ہے ”اَنَا رَسُولُ اللّٰہ “ اگر ہم کہیں تو کافر ہو جائیں ، ہمارے لیے ارکان اسلام پانچ ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے چار ، کہ آپ پر زکوٰة فرض نہیں ۔ معلوم ہوا کہ ہم میں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حقیقت مومن میں اشتراک نہیں تو آپ ”اِنَّمَا المُومِنُو نَ اِخوَة“ میں شامل نہیں ہو سکتے ، تو پھر آپ ہمارے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اور جب آپ ہمارے بھائی نہیں تو پھر آپ کو بھائی کہنے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے ؟ کہ جب کوئی اپنے باپ کو بھائی نہیں کہتا کہ اس میں ان کی بے ادبی اور گستاخی ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھائی کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟

قرآن کریم نے کفار کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو بشر کہتے تھے : ⏬

سورہ یسین آیت 15 : قَالُوا۟ مَآ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا وَمَآ أَنزَلَ ٱلرَّحْمَنُ مِن شَىْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ۔
ترجمہ : بولے تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور رحمٰن نے کچھ نہیں اتارا تم نِرے جھوٹے ہو ۔

سورہ مومنون آیت 34 : ولئن اطعتم بشرا مثلكم انكم اذا لخاسرون ۔
ترجمہ : اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کرو جب تو تم ضرور گھاٹے میں ہو ۔

اس قسم کی بہت سی آیات ہیں۔ اسی طرح مساوات بتانا انبیاء کرام علیہم السلام کی شان گھٹانا طریقہ ابلیس ہے کہ اس نے کہا : ⏬

سورہ اعراف آیت 12 : قال مامنعك الا تسجد اذ امرتك قال انا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين ۔
ترجمہ : فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا ۔ بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا ۔

شیطان کا مطلب تھا کہ میں ان سے افضل ہوں ۔ اسی طرح یہ کہنا کہ ہم میں اور پیغمبروں میں کیا فرق ہے ۔ ہم بھی بشر وہ بھی بشر بلکہ ہم زندہ وہ مردے ، یہ سب ابلیسی کام ہے ۔ اللہ کریم جل شانہ ایسے گمراہ خیالات سے ہم سب مسلمانوں کو اپنی پناہ عطا فرمائے آمین ۔

قرآن پاک میں فرمان ہے ۔ سورہ کہف آیت 110 : قل انما انا بشر مثلكم يوحى الي انما الهاكم اله واحدا فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا ولايشرك بعبادة ربه احدا ۔
ترجمہ : تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں (222) مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے (223) تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے (224) ۔

تفسیر : (222 ) کہ مجھ پر بشری اعراض و امراض طاری ہوتے ہیں اور صورتِ خاصّہ میں کوئی بھی آپ کا مثل نہیں کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو حسن و صورت میں بھی سب سے اعلٰی و بالا کیا اور حقیقت و روح و باطن کے اعتبار سے تو تمام انبیاء اوصافِ بشر سے اعلٰی ہیں جیسا کہ شفاءِ قاضی عیاض میں ہے اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام و ظواہر تو حدِّ بشریت پر چھوڑے گئے اور ان کے ارواح و بواطن بشریت سے بالا اور ملاءِ اعلٰی سے متعلق ہیں ۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سورۂ والضحٰی کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی بشریت کا وجود اصلاً نہ رہے اور غلبۂ انوارِحق آپ پر علی الدوام حاصل ہو بہرحال آپ کی ذات و کمالات میں آ پ کا کوئی بھی مثل نہیں ۔ اس آیتِ کریمہ میں آپ کو اپنی ظاہری صورتِ بشریّہ کے بیان کا اظہار تواضع کے لئے حکم فرمایا گیا ، یہی فرمایا ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ۔ (خازن) مسئلہ : کسی کو جائز نہیں کہ حضور کو اپنے مثل بشر کہے کیونکہ جو کلمات اصحابِ عزّت و عظمت بہ طریقِ تواضع فرماتے ہیں ان کا کہنا دوسروں کے لئے روا نہیں ہوتا ، دوئم یہ کہ جس کو اللہ تعالٰی نے فضائلِ جلیلہ و مراتبِ رفیعہ عطا فرمائے ہوں اس کے ان فضائل و مراتب کا ذکر چھوڑ کر ایسے وصفِ عام سے ذکر کرنا جو ہر کہ و مِہ میں پایا جائے ان کمالات کے نہ ماننے کا مُشعِر ہے ، سویم یہ کہ قرآنِ کریم میں جا بجا کُفّار کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ انبیاء کو اپنے مثل بشر کہتے تھے اور اسی سے گمراہی میں مبتلا ہوئے پھر اس کے بعد آیت یُوْحٰۤی اِلَیَّ میں حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص بالعلم اور مکرّم عنداللہ ہونے کا بیان ہے ۔ (223 )اس کا کوئی شریک نہیں ۔ (224 ) شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریاء سے بھی جس کو شرکِ اصغر کہتے ہیں ۔ مسلم شریف میں ہے کہ جو شخص سورۂ کہف کی پہلی دس آیتیں حفظ کرے اللہ تعالٰی اس کو فتنۂ دجال سے محفوظ رکھے گا ۔ یہ بھی حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص سورۂ کہف کو پڑھے وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا ۔

ہمارا عقیدہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ جل شانہ کے بندے ہیں ، اللہ جل شانہ کا نور ہیں لیکن اللہ جل شانہ کے نور کا حصہ نہیں ہیں ۔ اللہ جل شانہ وہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ جل شانہ کے کرم سے اللہ جل شانہ کی تمام مخلوقات میں سب سے بلند مقام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور کوئی ان جیسا نہیں ہے ، ان کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ ان سے کوئی نہ ہوا نہ ہو گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام بشر یا اپنے بشر یا بھائی وغیرہ کہنا حرام ہے : ⏬

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں اور بشر بھی قرآن کریم سے ثابت ہے ۔ (فتاویٰ دیوبند پاکستان المعروف فتاویٰ فریدیہ جلد اوّل صفحہ 456،چشتی) ۔ یہی اہلسنت کا مؤقف ہے بشریت مصظفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کا انکار کفر ہے اور اپنے جیسا بشر کہنا کفار کا طریقہ اور حرام و ناجائز ہے ۔

نبی جنس بشر میں آتے ہیں اور انسان ہی ہوتے ہیں ۔ جن یا بشر یا فرشتہ نہیں ہوتے یہ دنیاوی احکام ہیں ۔ ورنہ بشریت کی ابتداء آدم علیہ السلام سے ہوئی ۔ کیونکہ وہ ہی ابو البشر ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت نبی ہیں جبکہ آدم علیہ السلام آب و کل میں ہیں خود فرماتے ہیں کنت نبیا وادم بین الماء والطین اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں بشر نہیں سب کچھ صحیح لیکن ان کو بشر یا انسان کہہ کر پکارنا یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یامحمد یا کہ اے ابراہیم کے باپ یا اے بھائی باوا وغیرہ برابری کے الفاظ سے یاد کرنا حرام ہے ۔ اور اگر اہانت کی نیت سے پکارا تو کافر ہے ۔ عالمگیری وغیرہ کتب فقہ میں ہے کہ جو شخص حضور علیہ السلام کو ھذا الرجل یہ مرد اہانیت کی نیت سے کہے تو کافر ہے بلکہ یارسول اللہ یاحبیب اللہ یا شفیع المذنبین وغیرہ عظمت کے کلمات سے یاد کرنا لازم ہے۔ شعراء جو اشعار میں یامحمد لکھ دیتے ہیں وہ تنگی موقعہ کی وجہ سے ہے پڑھنے والے کو لازم ہے کہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ لے ۔ اسی طرح جو کہتے ہیں کہ: ⏬

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحہ تیرا

یہ تیرا انتہائی ناز کا کلمہ ہے جیسے اے آقا میں تیرے قربان ۔ اے ماں تو کہاں ہے ؟ اے اللہ تو ہم پر رحم فرما! اس تو اور تیرے کی حیثیت اور ہے ۔

قرآن فرماتا ہے ۔ لا تجعلوا دعآء الرسول بینکم کدعآء بعضکم بعضا ۔ (پارہ 18 سورہ 24 آیت 63)

ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون ۔ (پارہ 26 سورہ 49 آیت 2)

ترجمہ : رسول کے پکارنے کو ایسا نہ ٹھہرالو جیسا کہ تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جاویں اور تم کو خبر نہ ہو ۔

ضبطی اعمال کفر کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ مدارج النبوت جلد اول وصل از جملہ رعایت حقوق اولیت میں ہے “ مخوانید اور ابنام مبارک اوچنانمکہ می خوایند بعضے از شما بعض را بلکہ بگوئیہ یارسول اللہ یانبی اللہ با توقیر و توضیح ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا نام پاک لے کر نہ بلاؤ جیسے بعض بعض کو بلاتے ہیں ۔ بلکہ یوں کہو یارسول اللہ یانبی اللہ توقیر و عزت کے ساتھ ۔

تفسیر روح البیان زیر آیت لاتجعلوا ہے ۔ والمعنی لاتجعلوا نداءکم ایاہ و تسمیتکم لہ کندآء بعضکم بعضا لاسمہ مثل یامحمد و یا ابن عبداللہ ولکن بلقبہ المعظم مثل یانبی اللہ و یارسول اللہ کما قال اللہ تعالٰی یایھا النبی و یایھا الرسول “ معنٰی یہ ہیں کہ حضور علیہ السلام کو پکارنا یا نام لینا ایسا نہ بناؤ جیسا کہ بعض لوگ بعض کو نام سے پکارتے ہیں جیسے یامحمد اور یا ابن عبداللہ وغیرہ لیکن ان کے عظمت والے القاب سے پکارو جیسے یانبی اللہ یارسول اللہ جیسا کہ خود رب تعالٰی فرماتا ہے یا ایہاالنبی یا ایہاالرسول ۔

ان آیات قرآنیہ اور اقوال مفسرین و محدثین سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب ہر حال میں ملحوظ رکھا جاوے نداء میں ، کلام میں ، ہر ادا میں ۔

دنیاوی عظمت والوں کو بھی ان کا نام لے کر نہیں پکارا جاتا ۔ ماں کو والدہ صاحبہ، باپ کو والد ماجد، بھائی کو بھائی صاحب جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اگر کوئی اپنی ماں کو باپ کی بیوی یا باپ کو ماں کا شوہر کہے یا اس کا نام لے کر پکارے یا اس کو بھیا وغیرہ کہے۔ تو اگرچہ بات تو سچی ہے مگر بے ادب گستاخ کہا جائیگا کہ برابری کے کلمات سے کیوں یاد کیا۔ حضور علیہ السلام تو خلیفۃ اللہ الاعظم ہیں ان کو نام سے پکارنا یا بھائی وغیرہ کہنا یقیناً حرام ہے۔ گھر میں بہن ماں بیوی بیٹی سب ہی عورتیں ہیں مگر ان کے نام و کام و احکام جداگانہ جو ماں کو بیوی یا بیوی کو ماں کہہ کر پکارے وہ بے ایمان ہی ہے اور جو ان سب کو ایک نگاہ سے دیکھے وہ مردود ہے ایسے ہی جو نبی کو امتی یا امتی کو نبی کی طرح سمجھے وہ ملعون ہے دیوبندیوں نے نبی کو امتی کا درجہ دیا ان کے پیشوا مولوی اسمعٰیل نے سید احمد بریلوی کو نبی کے برابر کرسی دی دیکھو صراط المستقیم کا خاتمہ ۔ معاذاللہ ۔

رب تعالٰی جس کو کوئی خاص درجہ عطا فرمائے ۔ اس کو عام القاب سے پکارنا اس کے ان مراتب عالیہ کا انکار کرنا ہے اگر دنیاوی سلطنت کی طرف سے کسی کو نواب یا خان بہادر کا خطاب ملے تو اس کو آدمی کا بچہ یا بھائی وغیرہ کہنا اور ان القاب کو یاد کرنا جرم ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم حکومت کے عطا کئے ہوئے ان خطابات سے ناراض ہو تو جس ذات عالی کو رب کی طرف سے نبی رسول کا خطاب ملے اس کو ان القاب کے علاوہ بھائی وغیرہ کہنا جرم ہے ۔

خود پروردگار نے قرآن کریم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یامحمد یا اخامومنین کہہ کر نہ پکارا بلکہ یا ایھاالنبی یا ایھاالرسول یاایھاالمزمل یاایھاالمدثر وغیرہ وغیرہ پیارے القاب سے پکارا حالانکہ وہ رب ہے تو ہم غلاموں کو کیا حق ہے کہ ان کو بشر یا بھائی کہہ کر پکاریں۔

قرآن کریم نے کفار مکہ کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ وہ انبیاء کو بشر کہتے تھے : ⏬

قالوا ماانتم الا بشر مثلنا ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذالخسرون ۔ (پارہ 18 سورہ 36 آیت 15)
ترجمہ : کافر بولے نہیں ہو تم مگر ہم جیسے بشر اگر تم نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کی تو تم نقصان والے ہو وغیرہ وغیرہ ۔

اس قسم کی بہت سی آیات ہیں اسی طرح مساوات بتانا یا انبیاء کرام کی شان گھٹانا طریقہ ابلیس ہے کہ اس نے کہا ۔ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین “ خدایا تو نے مجھے آگ سے اور ان کو مٹی سے پیدا فرمایا ۔

مطلب یہ کہ میں ان سے افضل ہوں اسی طرح اب یہ کہنا کہ ہم میں اور پیغمبروں میں کیا فرق ہے۔ ہم بھی بشر وہ بھی بشر بلکہ ہم زندہ وہ مردے یہ سب ابلیسی کلام ہے ۔

اعتراض نمبر 1 : قرآن فرماتا ہے۔ قل انما انا بشر مثلکم ۔ (پارہ 24 سورہ 41 آیت 6)
ترجمہ : اے محبوب فرما دو کہ میں تم جیسا بشر ہوں۔“ اس آیت قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ حضور بھی ہماری طرح بشر ہیں اگر نہیں تو آیت معاذاللہ جھوٹی ہو جاوے گی ۔

جواب : اس آیت میں چند طرح غور کرنا لازم ہے ایک یہ کہ فرمایا گیا ہے قل اے محبوب آپ فرما دو۔ تو یہ کلمہ فرمانے کی صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت ہے کہ آپ بطور انکسار تواضع فرماویں یہ نہیں کہ قولوا انما ھو بشر مثلنا اے لوگو تم کہا کرو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جیسے بشر ہیں۔ بلکہ قل میں اس جانب اشارہ ہے کہ بشر وغیرہ کلمات تم کہہ دو ہم تو نہ کہیں گے ۔ ہم فرمائیں گے ۔

شاھدا و مبشرا و نذیرا وداعیا الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا ہم تو فرمائیں گے یایھا المزمل یاایھا المدثر وغیرہ ہم تو آپ کی شان بڑھائیں گے آپ انکساراً یہ فرما سکتے ہیں۔ نیز اس آیت میں کفار سے خطاب ہے، چونکہ ہر چیز اپنی غیر جنس سے نفرت کرتی ہے لٰہذا فرمایا گیا کہ اے کفار تم مجھ سے گھبراؤ نہیں میں تمہاری جنس سے ہوں یعنی بشر ہوں۔ شکاری جانوروں کی سی آوازیں نکال کر شکار کرتا ہے۔ اس سے کفار کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہے اگر دیوبندی بھی کفار میں سے ہی ہیں تو ان سے بھی یہ خطاب ہو سکتا ہم مسلمانوں سے فرمایا گیا ایکم مثلی طوطے کے سامنے آئینہ رکھ کر اور خود آئینہ کے پیچھے کھڑے ہو کر بولتے ہیں تاکہ طوطا اپنا عکس آئینہ میں دیکھ یہ سمجھے کہ یہ میرے جنس کی آواز ہے انبیائے کرام رب کا آئینہ ہیں آواز و زبان ان کی ہوتی ہے اور کلام رب کا۔ گفت من آئینہ مشقول دوست۔ یہ عکس کا لحاظ ہے دوسرے اس طرح کہ مثلکم پر آیت ختم نہ ہوئی بلکہ آگے آ رہا ہے۔ یُوحٰی اِلَیَّ + یُوحٰی اِلٰی کی قید ایسی ہے جیسے ہم کہیں کہ زید دیگر حیوانات کی طرح حیوان ہے مگر ناطق ہے تو ناطق کی قید نے زید اور دیگر حیوانات میں ذاتی فرق پیدا کر دیا کہ اس قید سے زید تو اشرف المخلوقات انسان ہوا۔ اور دوسرے حیوانات اور شئے اسی طرح وحی کی صفت نے نبی اور امتی میں بہت بڑا فرق بتا دیا۔ حیوان اور انسان میں صرف ایک درجہ کا فرق ہے مگر بشریت اور شان مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں 27 درجہ کا فرق ہے اولاً بشر پھر شہید پھر متقی پھر ولی پھر ابدال پھر اوتار پھر قطب پھر غوث پھر غوث الاعظم پھر تابعی پھر صحابی پھر مہاجر پھر صدیق پھر نبی پھر رحمۃ للعالمین وغیرہ یہ 27 مراتب کا اجمالی ذکر ہے۔ تفصیل دیکھنا ہو تو ہماری کتاب شان حبیب الرحمان میں ملاحظہ کرو ۔ تو عام بشر اور مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرکت کیسی ؟ یہ شرکت تو ایسی بھی نہیں جیسی کہ جنس عالی یا کسی عرض عام کے افراد کو انسان سے ہے یہ تو ایسا ہوا کہ کوئی کہے اللہ ہماری طرح موجود ہے ۔ اللہ ہماری طرح سمیع و بصیر ہے کیونکہ کلمہ موجود و علیم ہر جگہ بولا جاتا ہے ۔ جس طرح ہماری موجودیت اور رب کی موجودیت میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ ایسے ہی ہماری بشریت اور محبوب علیہ السلام کی بشریت میں کوئی نسبت نہیں ۔

مولانا مثنوی میں فرماتے ہیں : ⏬

اے ہزاراں جبرئیل اندر بشر
بہر حق سوئے غریباں یک نظر

ترجمہ : حضور علیہ السلام کی بشریت ہزارہا جبریلی حیثیت سے اعلٰی ہے ۔

تیسرے اس طرح کہ قرآن کریم میں ہے ۔ مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح رب کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں ایک چراغ ہے۔ اس آیت میں بھی کلمہ مثل ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ نور خدا چراغ کی طرح روشنی ہے ۔

اسی طرح قرآن میں ہے : وما من دآبۃ الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا امثالکم ۔ (پارہ 7 سورہ 6 آیت38)
ترجمہ : نہیں ہے کوئی جانور زمین میں نہ کوئی پرندہ جو اپنے بازوؤں سے اڑتا ہو مگر وہ تمہاری طرح امتیں ہیں ۔

یہاں بھی کلمہ امثال موجود ہے تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر درست ہوگا کہ ہر انسان گدھے اُلو جیسا ہے ہرگز نہیں نیز انما کا حصر اضافی ہے نہ کہ حقیقی یعنی میں نہ خدا ہوں نہ خدا کا بیٹا بلکہ تمہاری طرح خالص بندہ ہوں جیسے ہاروت ماروت کا کہنا انما نحن فتنۃ ۔

چوتھے اس طرح کہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان عبادات، معاملات غرضیکہ کسی شے میں ہم جیسے نہیں ہر بات میں فرق عظیم ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ ہے انا رسول اللہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اگر ہم یہ کہیں تو کافر ہو جاویں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایمان دیکھی ہوئی چیزوں پر کہ رب کو جنت و دوزخ کو ملاحظہ فرما لیا ۔ ہمارا ایمان سنا ہوا ہے ہمارے لیے ارکان اسلام پانچ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے چار یعنی آپ پر زکوٰۃ فرض نہیں ۔ دیکھو شامی شروع کتاب الزکوٰۃ ۔ ہم پر پانچ نمازیں فرض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چھ یعنی تہجد بھی فرض ومن اللیل فتھجد بہ نافلتہ لک ہم کو چار بیویوں کی اجازت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کوئی پابندی نہیں جس قدر چاہیں ۔ ہماری بیویاں ہمارے مرنے کے بعد دوسرے نکاح کر سکتی ہیں ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج پاک سب مسلمانوں کی مائیں وازواجہ امھاتھم کسی کے نکاح میں نہیں آ سکتی ولا تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ہمارے بعد ہماری میراث تقسیم ہو حضور کی میراث نہ بٹے ہمارا پیشاب پائخانہ ناپاک ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضلات شریفہ امت کےلیے پاک (دیکھو شامی باب الانجاس) مرقات باب احکام المیاہ فصل اول میں ہے ومن ثم اختار کثیر من اصحابنا طھارۃ فضلاتہ اسی مرقاۃ باب الستر کے شروع میں ہے۔ ولذا حجمہ ابؤ طیبتہ فشرب دمہ اسی طرح مدارج النبوۃ میں جلد اول وصل عرق شریف صفحہ 25 میں بھی ہے۔ یہ تو شرعی احکام میں فرق بتائے گئے ورنہ لاکھوں امور میں فرق عظیم ہے۔ ہم کو اس ذات کریم سے کوئی نسبت ہی نہیں یوں سمجھو کہ بے مثل خالق کے بے مثل بندے ہیں ۔

بے مثلی حق کے مظہر ہو پھر مثل تمہارا کیونکر ہو
نہیں کوئی تمہارا ہم رتبہ نہ کوئی تمہارا ہم پایا

اس قدر فرق عظیم کے ہوتے ہوئے مثلیت کے کیا معنٰی ؟

پانچویں اس طرح کہ اس آیت میں ہے بشر مثلکم یہ نہیں ہے کہ انسان مثلکم بشر کے معنے ہیں ذوبشرہ۔ یعنی ظاہری چہرے مہرہ والا۔ بشرہ کہتے ہیں ظاہر کھول کو۔ تو معنٰی یہ ہوئے کہ میں ظاہر رنگ و روپ میں تم جیسا معلوم ہوتا ہوں کہ اعضائے بدن دیکھنے میں یکساں معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے یوحی الی ہم صاحب وحی ہیں۔ یہ گفتگو بھی فقط ظاہری طور پر ہے۔ ورنہ ہمارے ظاہری اعضاء کو حضور علیہ السلام کے اعضاء مبارکہ سے کوئی نسبت نہیں۔ قدرت الٰہی تو دیکھو کہ منہ کا لعاب شریف کھاری کنویں میں پڑے پانی کو میٹھا کردے۔ حدیبیہ کے خشک کنویں میں پڑ جاوے تو پانی پیدا کر دے حضرت جابر کی ہانڈی میں پڑ کر شوربا اور بوٹیاں بڑھا دے۔ آٹے میں پڑے تو آٹے میں برکت دے صدیق کے پاؤں میں پہنچ کر سانپ کے زہر کو دفع کرے۔ عبداللہ ابن عتیک کے ٹوٹے ہوئے پاؤں میں پہنچ کر ہڈی جوڑ دے۔ حضرت علی کی دکھتی ہوئی آنکھ سے لگے تو کحل الجواہر کا کام دے۔ آج ہزار روپیہ کی دوا بھی اس قدر اثر نہیں رکھتی۔ اگر سر پاک سے قدم پاک تک ہر عضو شریف کی برکات دیکھنا ہیں تو ہماری کتاب شان حبیب الرحمان کا مطالعہ کرو۔ ہمارے ہر عضو کا سایہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے کسی عضو کا سایہ نہیں پسینہ پاک میں مشک و عنبر سے بہتر خوشبو۔

چھٹے اس طرح کہ شیخ عبدالحق مدارج النبوۃ جلد اول باب سوم وصل ازالہ شبہات میں فرماتے ہیں در حقیقت متشابہات اندر علماء آں را معافی لائقہ تاویلات رائقہ کردہ راجع بحق ساختہ اند۔“ یہ آیات حقیقت میں متشابہات ہیں کہ علماء نے ان کے مناسب معافی اور بہتر تاویلیں کرکے حق کی طرف پھیرا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح یداللہ فوق ایدیھم یا مثل نورہ کمشکوۃ وغیرہ آیات جو بظاہر شان خداوندی کے خلاف معلوم ہوتی ہے وہ متشابہات ہیں۔ اسی طرح انما بشر وغیرہ وہ آیات جو بظاہر شان مصطفٰی کے خلاف ہیں متشابہات ہیں لٰہذا ان کے ظاہر سے دلیل پکڑنا غلط ہے۔

ساتویں اس طرح کہ روزہ وصال کے بارے میں حضور نے فرمایا ایکم مثلی تم میں ہم جیسا کون ہے ؟ بیٹھ کر نفل پڑھنے کے بارے میں فرمایا لکنی لست کاحد منکم لیکن ہم تمہاری طرح نہیں۔ صحابہ کرام نے بہت موقعوں پر فرمایا اینا مثلہ ہم میں حضور علیہ السلام کی طرح کون ہے ؟ احادیث تو فرما رہی ہیں کہ حضور علیہ السلام ہم جیسے نہیں اور اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم جیسے ہی ہیں ان میں مطابقت کرنا ضروری ہ وہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آیت میں تاویل کی جاوے۔

آٹھویں اس طرح کہ تفسیر سورہ مریم میں کھیعص کے ماتحت ہے کہ حضور علیہ السلام کی تین صورتیں ہیں۔ صورت بشری، صورت حقی، صورت ملکی۔ بشریت کا ذکر انما انا بشر حقی کا ذکر ہوا۔ من رانی فقدر الحق جس نے ہم کو دیکھا حق کو دیکھا صورت ملکی کا ذکر فرمایا لی مع اللہ وقت لا یسعنی فیہ ملک مقرب ولا نبی مرسل بعض وقت ہم کو اللہ سے وہ قرب ہوتا ہے کہ نہ اس میں مقرب فرشتہ کی گنجائش ہے نہ مرسل نبی کی۔ معراج میں سدرہ پہنچ کر طاقت جبریلی ختم ہو گئی۔ مگر حضور علیہ السلام کی بشری طاقت کی ابھی ابتداء نہ تھی اس آیت میں محض ایک صورت کا ذکر ہے۔

نویں اس طرح کہ بشر مثلکم میں یہ تو فرمایا کہ ہم تم جیسے بشر ہیں یہ نہ فرمایا کہ کس وصف میں تم جیسے ہیں یعنی جس طرح تم محض بندے ہو۔ نہ خدا نہ خدا کے بیٹے نہ خدا کی صفات سے موصوف اسی طرح عبداللہ ہوں نہ اللہ ہوں نہ ابن اللہ ہوں عیسائیوں نے چند معجزات دیکھ کر عیسٰی علیہ السلام کو ابن اللہ کہہ دیا۔ تم ہمارے صدہا معجزات دیکھ کر یہ نہ کہہ دینا بلکہ عبداللہ و رسولہ۔

تفسیر کبیر شروع پارہ 12 زیر آیت فقال الملاء الذین کفروا قصہ نوح میں ہے کہ نبی بشر اس لئے ہوتے ہیں کہ اگر فرشتہ ہوتے تو لوگ ان کے معجزات کو ان کی ملکی طاقت پر محمول کر لیتے۔ آپ جب بشر ہو کر یہ معجزات دکھاتے ہیں تو ان کا کمال معلوم ہوتا ہے غرضیکہ انبیاء کی بشریت ان کا کمال ہے لٰہذا آیت کا مقصود یہ ہوا کہ ہم تم جیسے بشر ہو کر ایسے کمالات دکھاتے ہیں۔ تم تو دکھادو۔

دسویں اس طرح کہ بہت سے الفاظ وہ ہیں جو پیغمبر اپنے لئے استعمال فرما سکتے ہیں اور وہ ان کا کمال ہے مگر دوسرا کوئی اب کی شان میں یہ کہے تو گستاخی ہے دیکھو آدم علیہ السلام نے عرض کیا ربنا ظلمنا انفسنا یونس علیہ السلام نے رب سے عرض کیا انی کنت من الظلمین موسٰی علیہ السلام نے فرعون سے فرمایا فعلتھا اذا وانا من الضالین لیکن کوئی دوسرا اگر ان حضرات کو ظالم یا ضال کہے تو ایمان سے خارج ہوگا۔ اسی طرح بشر کا لفظ بھی ہے۔

اعتراض (2) حضور علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا واکرموا اخاکم تم اپنے بھائی کا (ہمارا) احترام کرو جس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام ہمارے بھائی ہیں۔ مگر بڑے بھائی ہیں نہ کہ چھوٹے۔ (3) :۔ قرآن فرماتا ہے۔ والی مدین اخاھم شعیبا والی ثمود اخاھم ضلعا والی عاد اخاھم ھودا۔ (پارہ8 سورہ 7 آیت؟) ان آیات میں رب نے انبیائے کرام کو مدین ثمود اور عاد کا بھائی فرمایا معلوم ہوا کہ انبیاء امتیوں کے بھائی ہوتے ہیں۔

جواب :۔ حضور علیہ السلام نے اپنے کرم کریمانہ سے بطور تواضع و انکسار فرمایا اخاکم اس فرمانے سے ہم کو بھائی کہنے کی اجازت کیسے ملی۔ ایک بادشاہ اپنی رعایا سے کہتا ہے کہ میں آپ لوگوں کا خادم ہوں تو رعایا کو حق نہیں کہ بادشاہ کو خادم کہہ کر پکارے۔ اسی طرح رب نے ارشاد فرمایا کہ حضرت شعیب و صالح و ہود علیہم السلام مدین اور ثمود اور عاد قوموں میں سے تھے۔ کسی اور قوم کے نہ تھے۔ یہ بتانے کے لئے اخاھم فرمایا یہ کہاں فرمایا کہ ان کی قوم والوں کو بھائی کہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اور ہم پہلے باب میں ثابت کر چکے ہیں کہ انبیائے کرام کو برابری کے القاب سے پکارنا حرام ہے اور لفظ بھائی برابری کا لفظ ہے۔ باپ بھی گوارہ نہیں کرتا کہ اس کا بیٹا اس کو بھائی کہے۔

اعتراض (4) :۔ قرآن کہتا ہے انما المؤمنون اخوۃ مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور حضور علیہ السلام بھی مومن ہیں لٰہذا آپ بھی ہم مسلمانوں کے بھائی ہوئے تو حضور علیہ السلام کو کیوں نہ بھائی کہا جاوے۔

جواب :۔ پھر تو خدا کو بھی اپنا بھائی کہو کیونکہ وہ بھی مومن ہے قرآن میں ہے الملک القدوس السلام المؤمن اور ہر مومن آپس میں بھائی۔ لٰہذا خدا بھی مسلمانوں کا بھائی معاذاللہ۔ نیز بھائی کی بیوی بھابھی ہوتی ہے اور اس سے نکاح حلال اور نبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ان سے نکاح حرام ہے۔ (قرآن کریم) لٰہذا نبی ہمارے لئے مثل والد ہوئے والد کی بیوی ماں ہے نہ کہ بھائی کی۔ جناب ہم تو مومن ہیں۔ اور حضور علیہ السلام عین ایمان۔ قصیدہ بردہ شریف میں ہے۔ فالصدق فی الغار والصدیق لم یریا

یعنی غار ثور میں صدق بھی تھا صدیق بھی تھے

حضور علیہ السلام اور عام مومنین میں صرف لفظ مومن کا اشتراک ہے جیسے رب اور عام مومنین میں نہ کہ حقیقت مومن میں ہم اور طرح کے مومن ہیں اس کی تفصیل ہم جواب نمبر1 میں بیان کر چکے ہیں۔

اعتراض (5) :۔ حضور علیہ السلام اولاد آدم ہیں ہماری طرح کھاتے پیتے سوتے جاگتے اور زندگی گزارتے ہیں بیمار ہوتے ہیں، موت آتی ہے اتنی باتوں میں شرکت ہوتے ہوئے ان کو بشر یا اپنا بھائی کیوں نہ کہا جاوے۔

جواب :۔ اس کا فیصلہ مثنوے میں خوب فرما دیا ہے۔

گفت اینک مابشر ایشاں بشر

ما و ایشاں بستہ خوابیم و خور !

ایں نہ دانستند ایشاں از عمٰی

ہست فرقے درمیاں بے انتہا

ہر دو یک گل خورد و زنبور و نحل

زاں یکے شد نیش شد و زاں مشکناب

ایں خورد گرد و پلیدی زیں جدا

واں خورد گرد وہمہ نور خدا

کفار نے کہا کہ ہم اور پیغمبر بشر ہیں کیونکہ ہم اور وہ دونوں کھانے سونے میں وابستہ ہیں اندھوں نے یہ نہ جانا کہ انجام میں بہت بڑا فرق ہے۔ بھڑ اور شہد کی مکھی ایک ہی پھول چوستی ہے مگر اس سے زہر اور اس سے شہد بنتا ہے۔ دونوں ہرن ایک ہی دانہ پانی کھاتے ہیں۔ مگر ایک سے پاخانہ اور دوسرے سے مشک بنتا ہے۔ یہ جو کھاتا ہے اس سے پلیدی بنتی ہے نبی کے کھانے سے نور خدا ہوتا ہے۔

یہ سوال تو ایسا ہے جیسے کوئی کہے کہ میری کتاب اور قرآن یکساں ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں ایک ہی روشنائی سے ایک کاغذ پر ایک ہی قلم سے لکھی گئیں۔ ایک ہی قسم کے حروف تہجی سی دونوں بنیں ایک ہی پریس میں چھپیں۔ ایک ہی جلد ساز نے جلد باندھی۔ ایک ہی الماری میں رکھی گئیں پھر ان میں فرق ہی کیا ہے۔ مگر کوئی بیوقوف بھی نہیں کہے گا کہ ان ظاہری باتوں سے ہماری کتاب قرآن کی طرح ہو گئی۔ تو ہم صاحب قرآن کی مثل کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ یہ نہ دیکھا کہ حضور کا کلمہ پڑھا جاتا ہے ان کو معراج ہوئی ان کو نماز میں سلام کرتے ہیں ان پر درود بھیجتے ہیں۔ تمام انبیاء و اولیاء ان کے خدام بارگاہ ہیں۔ یہ اوصاف ماوشما تو کیا ملائکہ کو بھی نہ ملے۔

محمد بشر کا کالبشر

یاقوت حجر لا کالحجر

حضور علیہ السلام بشر ہیں عام بشر نہیں

یاقوت پتھر ہے مگر عام پتھر نہیں

بعض دیوبندی کہتے ہیں کہ اگر حضور کو بشر کہنا حرام ہے تو چاہئیے کہ انسان یا عبد کہنا بھی حرام ہو کہ ان سب کے معنٰی قریب قریب ہیں پھر تم کلمہ میں عبدہ ورسولہ کیوں کہتے ہو ؟

جواب :۔ یہ ہے کہ لفظ بشر کفار بہ نیت اہانیت کہتے تھے اور نبی کو رب نے انسان یا عبد بطور تعظیم فرمایا خلق الانسان علمہ البیان اور اسری بعبدہ لیلا لٰہذا یہ الفاظ تعظیماً کہنا جائز ہے اور بشر کہنا حرام ہے جیسے راعنا اور انظرنا ہم معنٰی ہیں۔ مگر راعنا کہنا حرام ہے کہ طریقہ کفار ہے۔

ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب فرمایا۔

عبد دیگر عبدہ چیزے دگر

او سراپا انتظار او منتظر

حضور کی عبدیت سے رب کی شان ظاہر ہوتی ہے اور رب کی عظمت سے ہماری عبدیت چمکی وزیر بھی شاہی خادم ہے اور سپاہی بھی مگر وزیر سے بادشاہ کی شان کا ظہور اور شاہی نوکری سے سپاہی کی عزت۔

اعتراض (6) :۔ شمائل ترمذی میں حضرت صدیقہ کی روایت ہے کہ فرماتی ہیں کان بشر من البشر حضور علیہ السلام بشروں میں سے ایک بشر تھے۔ اسی طرح جب حضور علیہ السلام نے عائشہ صدیقہ کو اپنی زوجیت سے مشرف فرمانا چاہا۔ تو صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں آپ کا بھائی ہوں کیا میری دختر آپ کو حلال ہے۔ دیکھو حضرت عائشہ نے حضور علیہ السلام کو بشر اور صدیق نے اپنے کو حضور کا بھائی بتایا۔

جواب :۔ بشر یا بھائی کہہ کر پکارنا یا محاورہ میں نبی علیہ السلام کو یہ کہنا حرام ہے عقیدہ کے بیان یا دریافت مسائل کے اور احکام ہیں۔ حضرت صدیقہ یا صدیق رضی اللہ عنہما عام گفتگو میں حضور علیہ السلام کو بھائی یا بشر نہ کہتے تھے یہاں ضرورتاً اس کلمہ کو استعمال فرمایا ہے صدیقۃ الکبرٰی تو یہ فرما رہی ہیں کہ حضور علیہ السلام کی زندگی پاک نہایت بے تکلفی اور سادگی سے عام مسلمانوں کی طرح گزری کہ اپنا ہر کام اپنے ہاتھ ہی سے انجام دیتے تھے۔ اسی طرح حضرت صدیق اکبر نے مسئلہ دریافت کیا کہ حضور نے مجھے خطاب اخوت سے نوازا ہے کیا اس خطاب پر حقیقی بھائی کے احکام جاری ہونگے یا نہیں ؟ اور میری اولاد حضور کو حلال ہوگی یا نہیں ؟ ہم بھی عقیدے کے ذکر میں کہتے ہیں کہ نبی بشر ہوتے ہیں۔ حضرت خلیل نے ایک ضرورت پر حضرت سارہ کو فرما دیا ھذا اختی یہ میری بہن ہیں حالانکہ وہ آپ کی بیوی تھیں۔ اس سے لازم نہیں آتا کہ حضرت سارہ اب آپ کو بھائی کہہ کر پکارتیں۔

ہم ان حضرات کا عام محاورہ دکھاتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ حضور علیہ السلام رشتہ میں صدیقہ کے زوج اور سیدنا علی کے بھائی حضرت عباس کے بھائی کی اولاد ہیں۔ مگر یہ حضرات جب بھی روایت حدیث کرتے ہیں تو صدیقہ یہ نہیں فرماتیں کہ میرے زوج نے فرمایا، یا حضرت عباس یا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما یہ نہیں کہتے کہ ہمارے بھتیجے یا ہمارے بھائی نے یہ فرمایا۔ سب یہ ہی فرماتے ہیں قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جو حضرات رشتہ کے لحاظ سے بھائی ہیں وہ بھی بھائی نہیں کہتے تو ہم کمینوں غلاموں کو کیا حق ہے کہ بھائی کہیں۔

نسبت خود بگست کردم و بس منفعلم
زانکہ نسبت بسگت کوئے تو شد بے ادبی است

ہزار بار بشویم دہن بمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است

جناب شروع السلام میں تو یہ حکم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ عرض کرنا چاہے ۔ وہ پہلے کچھ صدقہ دے بعد میں عرض کرے ۔ قرآن فرماتا ہے : یایھا الذین امنوا اذانا جیم الرسول فقد موابین یدی نجوکم صدقۃ ۔ (پارہ 28 سورہ 58 آیت 12)
ترجمہ : اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو ۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس پر عمل بھی کیا کہ ایک دینار خیرات کر کے دس مسائل دریافت کیے ۔ (تفسیر خازن یہی آیت) پھر یہ حکم اگرچہ منسوخ ہو گیا۔ مگر محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت شان کا پتہ لگ گیا کہ نماز میں رب سے ہم کلام ہو تو صرف وضو کرو ۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض معروض کرنا ہو تو صدقہ کرو پھر بھائی کہنا کہاں رہا ؟


جمہور علمائے اہلسنت و جماعت کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نوری بشر ہیں ۔ ہم پر یہ الزام لگانا کہ ہم نعوذبااللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بشر نہیں سمجھتے یہ بہتان ہے کہ خود ہمارے اکابرین کا یہ فتوٰی ہے کہ انبیا کی بشریت کا انکار کفر ہے ۔

فَٱتَّخَذَتْ مِن دُونِهِم حِجَاباً فَأَرْسَلْنَآ إِلَيْهَآ رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَراً سَوِيّاً ۔
ترجمہ : تو ان سے ادھر (یعنی اپنے اور گھر والوں کے درمیان) ایک پردہ کرلیا تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا (جبریل علیہ السلام) وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔ (سورۃ المریم آیت 17)

جبرائیل علیہ سلام نوری مخلوق ہیں ۔ جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے سامنے ظاہر ہوئے تو بشری صورت میں آئے ۔ تو اس وقت ان کی نورانیت ذائل نہ ہو گئی بلکہ اس وقت بھی حقیقی لحاظ سے نور ہی رہے، لیکن ان کا ظہور بشری لباس میں ہوا ۔ اگر نور و بشر ایک دوسرے کی ضد ہوتے تو حضرت جبرائیل علیہ سلام بشری صورت میں تشریف نہ لاتے ۔ اور ایسا بھی نہیں کہ اللہ عزوجل کا اختیار محدود ہے کہ کسی اور صورت اپنی منشا پوری نہ کر پاتا ۔ اللہ عزوجل علیم و خبیر ہے ، اسے معلوم تھا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب بدعقیدہ ایسے مغالطے بھی دیں گے ۔

روح المعانی میں علّامہ سیّد محمود الوسی فرماتے ہیں ، بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دو حیثیتیں ہیں ۔ ایک جہتِ ملکیت، جس کی بنا پر آپ فیض حاصل کرتے ہیں ۔ اور دوسری جہتِ بشریت جس کی بنا پر آپ فیض دیتے ہیں ۔ اس لیے قرآنِ کریم آپ کی روح پر نازل کیا گیا، کیونکہ آپ کی روح ملکی صفات کے ساتھ متصف ہے جن کی بنا پر آپ روح الامین سے استفادہ کرتے ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی جلد 19 صفحہ 121)

بات ثابت نہ ہوسکے تو پچاس آیات پیش کردینے سے بھی کچھ نہ ہو گا اور ثابت ہوتی ہو تو ایک ہی آیت کافی ہے ۔ اس لیے ہم صرف ایک آیتِ مبارکہ پیش کرتے ہیں : قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ۔ (سورۃ المائدہ آیت 15)
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب ۔

اسلام کے بیشتر مفّسرین نے اس آیت میں نور سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذاتِ مبارکہ مراد لی ہے ۔ حتٰی کہ نور اور کتاب کی درمیان آیت میں و بھی اسی بات کی دلالت کرتا ہے کہ دو علیحدہ چیزوں کا بیان کیا جارہا ہے ۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت میں نور کی تفسیر رسول سے کرنے بعد فرمایا : قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ ۔ رسول يعني محمداً ۔ (تفسیر تنویرالمقباس)

امام محمد بن جریر طبری نے فرمایا؛باِلنُّورِ مُحَمَّدَا ۔ (تفسیرِ کبیر) ۔ قد جاءكم يا أهل التوراة والإنـجيـل من الله نور ، يعنـي بـالنور مـحمداً صلى الله عليه وسلم، ۔ (جامع البیان فی تفسیرالقرآن)

امام جلال الدین سیوطی نے بھی اس آیت میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذات بیان کی ہے ۔

{قَدْ جَاءكُمْ مّنَ ٱللَّهِ نُورٌ } هو النبي صلى الله عليه وسلم { وَكِتَٰبٌ } قرآن { مُّبِينٌ } بَيِّنٌ ظاهر ۔ (تفسیرِ جلالین)

امام رازی نے نور کی تفسیر میں متعدد قول نقل کئے ہیں۔ پہلا قول ہے؛{قَدْ جَاءكُمْ مّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَـٰبٌ مُّبِينٌ } وفيه أقوال : الأول : أن المراد بالنور محمد ، وبالكتاب القرآن ۔ (تفسیرِ کبیر)

علامہ سیّد محمود آلوسی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ : عظيم وهو نور الأنوار والنبـي المختار صلى الله عليه وسلم ۔ (روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم)

اب یا تو ان تمام مفّسرین کو بدعقیدہ قرار دے ان کر پر بھی کفر کا فتوٰی صادر فرمائیے یا پھر اپنے عقائد کی تصحیح کرکے اللہ عزوجل کے عذاب سے بچئیے۔ اس ٹاپک میں کچھ حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں قرآن جیسی مستند چیز پیش کریں تو یہ وطیرہ منکرِ احادیث کا ہے ۔ حدیث بےشک قرآن سے برتر نہیں لیکن معاذاللہ غیرمستند بھی نہیں ۔

یہ تو تفاسیر تھیں ، مزید اس ضمن میں کئی احادیث موجود ہیں، جس میں سب سے مشہور حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ ہے جسے روایت کرنے والے امام بخاری کے استاذالاستاذ امام عبدالرزاق ہیں ۔

رُوِيَ عن جابر بن عبد الله قال : قلت : يا رسول الله ، بأبي أنت وأمي ، أخبرني عن أول شيء خلقه الله قبل الأشياء ؟
قال : يا جابر، إن الله - تعالى - خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله، ولم يكن في ذلك الوقت لوح، ولا قلم، ولا جنة، ولا نار، ولا ملك، ولا سماء، ولا أرض، ولا شمس، ولا قمر، ولا جني، ولا إنسي، فلما أراد الله أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء: فخلق من الجزء الأول: القلم، ومن الثاني: اللوح، ومن الثالث: العرش، ثم قسم الجزء الرابع: أربعة أجزاء، فخلق من الجزء الأول حملة العرش، ومن الثاني: الكرسي، ومن الثالث: باقي الملائكة، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء: فخلق من الأول: السماوات، ومن الثاني: الأرضين، ومن الثالث: الجنة والنار، ثم قسم الرابع أربعة أجزاء. فخلق من الأول : نور أبصار المؤمنين ، ومن الثاني : نور قلوبهم وهي المعرفة بالله، ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله، ومن الرابع باقي الخلق ... الحديث ۔

اس حدیث کو نقل کرنے والے کچھ محدثین و علما ۔

امام ابوبکر احمد ابن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ

امام احمد قسطلانی، مواہب الّدنیہ

امام زرقانی، شرح مواہب الدنیہ

امام محمد المہدی الفاسی، مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات

علامہ دیاربکری ، تاریخ الخمیس

امام ابن الحجر ، فتاوٰی حدیثیہ

امام عبدالغنی النابلسی ، الحدیقہ الندیہ شرح طریقہ محمدیہ

امام حاکم نیشاپوری ، المستدرک للحاکم

عارف باللہ شیخ عبدالکریم جیلی ، الناموس الاعظم والقاموس الاقدام فی معرفۃ قدر النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

امام علی بن برہان الدین حلبی شافعی، سیرتِ حلیبیہ

ابوالحسن بن عبداللہ بکری، الانوار فی مولد النبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

علامہ احمد عبد الجواد دمشقی، السراج المنیر و بسیرتہ استنیر

مولانا عبدالحئی لکھنوی فرنگی محلی، الاثار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعۃ

حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی، مکتوباتِ امامِ ربّانی فارسی

شیخ عبدالحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ

شاہ ولی اللہ دہلوی، التفہیمات الہیہ

لیکن بغض و عناد میں اندھے حضرات اس حدیث کو ضعیف قرار دے کر ردّ کرتے ہیں۔ اوّل تو اصول و ضوابط کے مطابق فضائل میں ضعیف احادیث لائقِ استناد ہوتی ہیں۔ یہ اصول ہمارا نہیں محدثین کا بیان کردہ ہے۔ فرض کیجیئے یہ تمام جلیل القدر علماومحدثین کسی محفل میں تشریف فرما ہوں اور اس حدیث کی توثیق وتصدیق کررہے ہوں تو آجکل کے کسی جعلی ملّے میں یہ جرات ہوگی کہ ان سب کو جھوٹا کہے؟ اس حدیث سے شیخ محقق دہلوی نے بھی استناد فرمایا ہے اور یہ وہی ہیں جن کی سنّدِ حدیث برِصغیر میں سب سے مضبوط مانی جاتی ہے ۔ اشرف علی تھانوی نے بھی نشرالطیب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ رشید احمد گنگوہی نے فتاوٰی رشیدیہ میں اس حدیث کے بارے میں شیخ عبدالحق کا اسے نقل کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کے اصل ہونا کا اعتراف کیا ہے ۔ اور قربان جائیے میرے غوث سرکارِ بغدار حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ پر جن کا نام ابنِ تیمیہ جیسے بھی احترام سے لیتے ہیں ، اس حدیث کو سرالاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار میں نقل کیا ہے ۔

علامہ حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ جب جبرئیل علیہ السلام نے حضورِ پُرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سینہ مبارک چاک کرنے کے بعد قلبِ اطہر کو زم زم کے پانی سے دھویا تو فرمایا؛قَلب سَدِید فِیہِ عَینَانِ تُبصِرَانِ وَاُذنَانِ تَسمَعَانِ ۔ (فتح الباری شرح بخاری جلد 13 صفحہ 410،چشتی)

قلبِ مبارک ہر قسم کی کجی سے پاک ہے، اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں ۔

سیّدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کےلیے سایہ نہ تھا اور نہ کھڑے ہوئے آفتاب کے سامنے مگر یہ کہ ان کا نور عالم افروزخورشید کی روشنی پر غالب آگیا اور نہ قیام فرمایا چراغ کی ضیا میں مگر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تابشِ نور نے اس چمک کو دبا لیا ۔ (امام عبدالرحمن ابن جوزی کتاب الوفا جلد 2 صفحہ 402)

حضرت امام ربانی شیخ مجدد الف ثانی مکتوبات میں فرماتے ہیں؛ناچاراوراسایہ نبود۔ در عالم شہادت سایہ ہر شخص از شخص لطیف ترست۔ وچوں لطیف تر ازوے در عالم نہ باشداوراسایہ چہ صورت دارد۔

بیشک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سایہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہر چیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے لطیف کائنات میں کوئی چیز نہیں تو پھر آپ کا سایہ کس صورت سے ہوسکتا ہے۔

مزید فرماتے ہیں؛ہر گاہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ازلطافت ظل نہ بود خدائے محمد چگونہ ظل باشد۔

جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے لطیف ہونے کے سبب سایہ نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خدا کےلیے کیسے سایہ ہوسکتا ہے۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدراجِ نبوۃ میں فرماتے ہیں؛نبود مرآں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم راسایہ نہ در آفتاب و نہ در قمر۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سایہ نہ سورج میں پڑتا تھا نہ چاند کی چاندنی میں۔

مزید لکھتے ہیں؛چوں آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین نور باشد نور راسایہ نباشد۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین نور ہیں اور نور کےلیے سایہ نہیں ہوتا۔

حضورِ پُرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سایہ نہ ہونے کی گواہی امام نفسی نے تفسیرِ مدارک میں دی، امام جلال الدین سیوطی نے خصائص الکبریٰ میں دی، قاضی عیاض مالکی نے الشفا میں دی، علامہ شہاب الدین خفاجی نے شرح شفا نسیم الریاض میں دی، علامہ قسطلانی نے مواہب الدنیہ میں دی، محمد بن یوسف شامی نے سبل الہدٰی والرشاد میں دی، علامہ سلیمان بن جمل نے فتوحاتِ احمدیہ شرح ہمزیہ میں دی، امامِ ربّانی مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات میں دی، شیخ عبد الحق دہلوی نے مدارج النبوۃ میں دی، شاہ عبدالعزیز دہلوی نے تفسیرِعزیز میں دی۔

ربِ کائنات نے وہ آنکھ ہی تخلیق نہ کی جو سرورِکونین تاجدارِ دوعالم کے حسن وجمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کرسکے۔ انوارِ محمدی کو اسلئے پردوں میں رکھا گیا کہ انسانی آنکھ جمالِ مصطفٰے کی تاب ہی نہیں لاسکتی۔

امام زرقانی شرح مواہب الدنیہ میں امام قرطبی کا قول نقل کرتے ہیں کہ؛

لم یظھر لنا تمام حسنہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، لانہ لو ظھر لنا تمام حسنہ لما اطاقت اعیننا رویۃ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔

اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرما گئے کہ؛حیرت درجمالِ باکمال وی خیرہ میشد مثل ماہ و آفتاب تاباں و روشن بود، و اگرنہ نقاب بشریت پوشیدہ بودی ھیچ کس را مجال نظر و ادراک حسنِ او ممکن نبودی۔(مدارجِ نبوت، 137/1،چشتی)

حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سرِ انور سے لے کر قدمِ پاک تک نور ہی نور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حسن وجمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جسمِ اطہر چاند اور سورج کی طرح منور وتاباں تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوہ ہائے حسن لباسِ بشری میں مستور نہ ہوتے تو روئے منّور کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہوجاتا۔

اسی لیے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرما گئے : ⏬

وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني
وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ

خلقتَ مبرءاً منْ كلّ عيبٍ
كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے حسین تر میری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں اور آپ سے جمیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیئے گئے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آپ کے رب نے آپ کی خواہش کے مطابق بنایا ۔

اور اس کا اعتراف بانئ دیوبند قاسم نانوتوی قصائدِ قاسمی میں اس طرح کرتے ہیں : ⏬

رہا جمال پہ تیرے حجابِ بشریت
نہ جانا کون ہے کچھ کسی نے جز ستار

اور یاد رکھیے گا کہ انبیا علیہم السلام کو فقط بشر مان کر گستاخی کرنے والا ابلیس تھا! امام فخرالدین رازی بیان کرتے ہیں کہ "أن الملائكة أمروا بالسجود لآدم لأجل أن نور محمد عليه السلام في جبهة آدم." فرشتوں کو آدم علیہ سلام کو سجدہ کرنے کا حکم اسی لئے تھا کہ ان کی پیشانی میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جلوہ گر تھا یہی وجہ تھی کہ ملائکہ سجدے میں گر گئے لیکن یہ نور نہ دیکھا تو صرف ابلیس نے۔ پھر یہی وطیرہ آگے مشرکین نے اپنایا جو انبیا کو اپنی مانند بشر قرار دے کر نبوت کا انکار کرتے تھے ۔

عوام کو یہ تاثر دینا کہ اہلسنت و جماعت انبیا علیہم السلام کی بشریت کے منکر ہیں یہ صرف اہلِ باطل کا جھوٹا پراپیگنڈا ہے۔ ہمیں بشریت کا اقرار ہے لیکن انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کو اپنے جیسا بشر کہنے کو گستاخی قرار دیتے ہیں۔ قرآنِ کریم اس بات کا گواہ ہے کہ کفّار نے انبیا کو اپنی مثل بشر قرار دیا۔

سب سے پہلے ابلیس نے آدم علیہ سلام کے متعلق فرمایا : قَالَ لَمْ أَكُن لأَسْجُدَ لِبَشَرٍ ۔ (سورۃ الحجر آیت 33)
ترجمہ : بولا مجھے زیبا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں ۔

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے کہا : فَقَالَ ٱلْمَلأُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قِوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلاَّ بَشَراً مِّثْلَنَا ۔ (سورۃ ھود آیت 27)
ترجمہ : تو اس قوم کے سردار جو کافر ہوئے تھے بولے، ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی (اپنی مثل بشر) دیکھتے ہیں ۔

حضرت صالح علیہ السلام کو آلِ ثمود نے کہا : كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِٱلنُّذُرِ فَقَالُوۤاْ أَبَشَراً مِّنَّا وَاحِداً نَّتَّبِعُهُ إِنَّآ إِذاً لَّفِي ضَلاَلٍ وَسُعُرٍ ۔ (سورۃ القمر آیت 23)
ترجمہ : ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا تو بولا کیا ہم اپنے میں کے ایک آدمی (بشر) کی تابعداری کریں جب تو ہم ضرور گمراہ اور دیوانے ہیں ۔

اسی کے ردّ میں اللہ عزوجل فرماتا ہے : لاَّ تَجْعَلُواْ دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضاً ۔ (سورۃ النور آیت 63)
ترجمہ : رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھرا لو جیسا تم میں ایک، دوسرے کو پکارتا ہے ۔

انبیاۓ کرام علیہم السلام کو بشر یا تو اللہ عزوجل نے فرمایا ، یا خود انبیا علیہم السلام نے یا پھر کفّار نے ! اب بھی کوئی نہ مانے تو چاند پہ تھوکا منہ پر ہی آتا ہے ۔ ہم اسی پر بس کرتے ہیں ۔

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے جیسے بشر ہیں ؟ ۔ ⏬

سب سے اول بات تو یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام بشر ہیں اور یہ قرآن سے ثابت ہے اور اس کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے ، اہل سنت کا مشہور فقہی انسائیکلوپیڈیا بہار شریعت جلد اول حصہ اول عقائد متعلقہ نبوت میں پہلا عقیدہ ہی یہ لکھا ہے کہ نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ عزوجل نے ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو ۔ اور اسی عبارت کے نیچے دوسرا عقیدہ یہ لکھا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام سب بشر تھے اور مرد ، نہ کوئی جن نبی ہوا اور نہ عورت ۔

انبیائے کرام علیہم السلام بشر ہیں اس سے کون انکار کرتا ہے جب کہ یہ تو قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے ، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ حضور کو اپنے جیسا بشر سمجھتے ہیں یا خود کو حضور جیسا بشر ، اگر تو اپنے جیسا بشر سمجھتے ہیں تو جو خصوصیات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوئیں وہ کسی دوسرے نبی کو نہ حاصل ہو سکیں تو ان کو کیسے حاصل ہو جائیں گی اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں تو سوائے رب تعالیٰ کی نعمتوں سے حسد کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا کیونکہ رب تعالیٰ تو ہر لمحہ ہر آن اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کو بلندی عطا فرماتا ہے جس کا ثبوت قرآن پاک کی بیشتر آیات میں ہے جیسے و رفعنا لک ذکرک اے محبوب ہم نے آپ کے ذکر کو آپ کےلیے بلند فرما دیا ۔

اہلسنت کا نظریہ کہ انبیا کرام علیہم السلام بشر ہیں لیکن ہم جیسے نہیں وہ بے مثل ہیں، مخلوق میں سے کوئی بھی ان کے ہم پلہ نہیں ۔ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 32 کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں : یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ ۔
ترجمہ : اے نبی کی بیبیوں تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو ۔

قارئین کرام غور فرمائیں کہ وہ عورتیں جن کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت زوجیت حاصل ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرما دیا کہ تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو ،جب رب تعالیٰ نے ان عورتوں کو نسبت رسول کی وجہ سے دیگر عورتوں سے ممتاز فرما دیا تو اور کسی کی کیا جرات کہ وہ خود کو حضور کی مثل کہے یا حضور کو اپنی مثل کہے ۔ العیاذ باللہ تعالیٰ

مزید اس ضمن میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں : ⏬

انی لست کاحدکم انی ابیت عند ربی فیطعمنی و یسقینی ۔
ترجمہ : بے شک میں تم میں سے کسی کی مثل نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات گزارتا ہوں پس وہی مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ۔

امام بخاری نے اپنی صحیح جلد 4 صفحہ 118،123،134 میں ان الفاط کے ساتھ روایت کیا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صوم وصال رکھنے سے منع فرمایا تو ایک مسلمان نے عرض کی بلاشبہ آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقینی ۔
ترجمہ : تم میں سے کون ہے میری مثل میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ۔ حوالہ کےلیے دیکھیں ۔ (مسند الامام احمد جلد 2 صفحہ 21، 102، 231 اور الجامع الصغیر جلد 1 صفحہ 115)(الموطا للامام مالک جلد 1 صفحہ 130)(سنن الدارمی جلد 1 صفحہ 304،چشتی)(جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 163)(سنن ابی داود جلد 2 صفحہ 279)(صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 134)

اور ایک روایت صحاح ستہ میں سے تین کتابوں میں پائی جاتی ہے : ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقین ۔
ترجمہ : تم میں میرا مثل کون ہے میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے ۔ (بخاری شریف کے علاوہ مسلم شریف کے صفحہ 351 اور سنن ابوداؤد صفحہ 335 پر بھی موجود ہے)

بخاری شریف کی ایک روایت یوں ہے : حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیتے تو ایسے اعمال و افعال بتاتے جو وہ بآسانی کر سکتے تھے یہاں پر صحابہ کرام عرض کرتے : انا لسنا کھیئتک یا رسول اللہ ، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ کی مثل تو نہیں ہیں ۔

یہ بات انتہائی باعثِ عار اور گستاخی و بے ادبی کی علت ہے کہ ایک امتی اپنی ذات سے بڑھ کر اپنے بے مثال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل ہونے کا دعویٰ کرے ۔

ان ارشاداتِ عالیہ سے یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بشریت کے متعلق تمام اشکالات ختم فرما دیے اور یہ بھی یاد رہے کہ ایکم مثلی کے مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جب اتنی برگزیدہ ہستیاں آپ کی مثل نہیں تو کسی اور کو اس دعوی کی کیا مجال ہو سکتی ہے ۔ اللہ تعالی حق بات کو سمجھنے اور اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔

ان شاء اللہ سطور ذیل میں فی الوقت نورانیت مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے مسئلہ کو الگ رکھتے ہوئے صرف حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے متعلق بالخصوص اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی بالعموم بے مثل بشریت پر قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل دیئے جائیں گے ۔

سب سے اول اہلسنت کا عقیدہ بیان کرنا مناسب ہو گا جو یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام بشر ہیں لیکن عام انسانوں کی طرح نہیں ، حق تعالیٰ نے ان کو بے مثل شان ، درجات رفیعہ، کمالات لازوال ، وجاہت ، عزت ، شوکت، رفعت، علو مرتبت اور عقول کو محو حیرت کر دینے والے معجزات سے ممتاز کیا ۔ اور یہ ساری شانیں ذات و صفات دونوں میں ودیعت فرمائیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ صفات اپنا کوئی علحدہ وجود نہیں رکھتیں بلکہ ذات ہی میں ودیعت ہوتی ہیں ، کیسی نامعقول بات ہے کہ کوئی شخص انبیا ئے کرام علیہم السلام کی صفات کو بے مثل مانتا ہے لیکن ان کی ذات کو بے مثل ماننے میں اس کو تأمل ہے ۔

مزید یہ کہ قرآن مجید کی کئی آیات اس بات پر ناطق ہیں اور ہر دور میں یہ تمام ائمہ کا متفق نظریہ رہا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کو اپنے جیسا بشر کہنا یا صرف بشر کہنا یہ شیطان اور منافقین و کفا ر کا طریقہ رہا ہے اور فرق اتنا ہے کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کےادوار میں اور عہد رسالت میں بھی کفار و منافقین انبیاء کو بشر کہہ کر ان کی نبوت و رسالت کا انکار کرتے رہے اور دور حاضر کے منافقین انبیا ء علیہم السلام اور بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہہ کر انبیا ئے کرام کے فضائل و کمالات ، رب تعالیٰ کے حضور ان کی قدر ومنزلت و وجاہت کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن سوائے رب تعالیٰ کی نعمتوں سے حسد اور انبیائے کرام سے بغض و عناد کے ان منافقین کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور بلاشبہ یہ دونوں جہان میں ذلت و رسوائی کا موجب ہے ۔ اور انبیاء کی بشریت پرنظر وہی لوگ کرتے ہیں جو بارگاہ لم یزل کے نافرمان ہوتے ہیں ۔

مختصر تمہید کے بعد فقیر مختصر دلائل پیش کرتا ہے : سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو بشر شیطان نے کہا چنانچہ پارہ ۱۴ الحجر آیت نمبر ۳۲ : قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ۔
ترجمہ : بولا مجھے زیبا نہیں کہ بَشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بَجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ بودار گارے سے تھی ۔

یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی بشریت ابلیس کےلیے حجاب بن گئی اور وہ رب تعالیٰ کے حکم کو نہ دیکھ سکا اور بارگاہ خداوندی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مردود قرار پایا ، چنانچہ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہوا : قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۙ ۔
ترجمہ : فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو مردود ہے ۔

اسی طرح سابقہ امتوں کے لوگ انبیائے کرام علیہم السلام کو بشر کہہ کر کافر ہوئے ، چنانچہ پارہ ۲۸ التغابن آیت نمبر ۵ اور ۶ : اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١٘ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْۤا اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا١٘ فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا وَّ اسْتَغْنَى اللّٰهُؕ ۔
ترجمہ : کیا تمہیں ان کی خبر نہ آئی جنہوں نے تم سے پہلے کفر کیا اور اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لاتے تو بولے کیا آدمی ہمیں راہ بتائیں گے تو کافر ہوئے اور پھر گئے اور اللہ نے بے نیازی کو کام فرمایا ۔

آیتِ مبارکہ نہایت واضح و صریح ہے کہ ان لوگوں کے کفر کی علت ان کا یہ قول اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا١٘ یعنی انہوں نے کہا کہ کیا بشر ہمیں راہ بتائیں گے تو رب تعالیٰ نے فرمایا فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا یعنی وہ کافر ہو گئے اور پھر گئے ۔

جب کفار نے انبیاء علیہم السلام کو بشر کہا تو انبیائے کرام علیہم السلام نے ان کو کیا جواب دیا ، چنانچ پارہ ۱۳ ابراہیم آیت نمبر ۱۱ میں ہے : قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ ۔
ترجمہ : ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم ہیں تو تمہاری طرح انسان مگر اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہے احسان فرماتا ہے ۔

اس آیت کریمہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انبیائے کرام نے ان کو فرما دیا کہ تم ہمارے ظاہر کو دیکھ کر ہم کو اپنے جیسا سمجھتے ہو تو سمجھتے رہو ، ہمارا ظاہر تو تمھاری طرح ہے لیکن وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِه ۔
ترجمہ : اللہ جس بندے کو چاہتا ہے اپنے احسان سے ممتاز کر دیتا ہے ۔

اب اس کے بعد میں اس آیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی آڑ میں زمانہ حاضر کے منافقین اپنے مذموم نظریات کا واویلا کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ قرآن مجید میں دو مقامات پر ہے سورہ کہف آیت نمبر ۱۱۰ اور سورہ حم السجدہ کی آیت نمبر ۶ ہے ، آئیے اب ان آیات کا بغور جائزہ لیتے ہیں ۔

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠ ۔ (پارہ ۱۶ الکہف آیت نمبر ۱۱۰)
ترجمہ : تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے ۔

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ وَ اسْتَغْفِرُوْهُ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِیْنَۙ ۔ (پارہ ۲۴ حم السجدہ آیت نمبر ۶)
ترجمہ : تم فرماؤ آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اس کے حضور سیدھے رہو اور اس سے معافی مانگو اور خرابی ہے شرک والوں کو ۔

ان دونوں آیات کا مکمل متن و ترجمہ پڑھنے کے بعد آپ کو اس ارشاد کی حکمت ، سبب نزول اور مخاطب کا بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے، چنانچہ پہلی بات کہ رب تعالیٰ نے یایھا البشر نہیں کہا بلکہ فرمایا قل یعنی آپ فرما دیجیے ۔

دوسری بات یہ کہ پہلے حصہ میں بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ فرمایا اور ساتھ ہی یہ امتیاز بھی بیان کردیا یُوْحٰۤى اِلَیَّ یعنی مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ یعنی میرا ظاہر دیکھ کر مجھے اپنا مثل سمجھنے والو میری بشریت بھی تمھارے جیسی نہیں کیونکہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے، یہاں ضمنی طور پر ایک اور آیت پیش کرتا ہوں چنانچہ پارہ ۲۸ الحشر آیت نمبر ۲۱ میں ارشاد ہوتا ہے : لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ ۔
ترجمہ : اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تو اسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لئے ہم بیان فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں ۔

قارئین کرام غور کریں وہ قرآن جو کہ پہاڑوں پر نازل ہوتا تو پاش پاش ہو جاتے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قرآن کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کیا تو اندازہ کریں جس قلب پر رب کا قرآن نازل ہوا وہ کیسے ہماری مثل ہو سکتا ہے، فاعتبروا یا اولی الابصار ۔ پس یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثل بشریت کا اعجاز ہے اور آپ کی اعلیٰ و ارفع بے مثل بشریت پر شاہد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی ۔

تیسری بات ان دونوں آیت کریمہ میں توحید کے حوالے سے بیان ہوا اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۔ یعنی تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اور پھر ان آیات کریمہ کے آخری حصہ پر غور کریں تو ان کے نزول کی حکمت واضح ہو جاتی ہے چنانچہ پہلی آیت کے آخر میں یوں ارشاد ہوا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا ۔ اور ثانی الذکر آیت کریمہ میں یہ الفاظ ہیں : فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ وَ اسْتَغْفِرُوْهُ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِیْنَۙ ۔

ان آیات کی حکمت یہ تھی کہ میں الہ نہیں بلکہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے ، تم اسی کی عبادت کرو اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اوراس کے حضور توبہ کرو اور ہلاکت مشرکین کےلیے ہے ۔

لہٰذا یہ آیات بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع بشریت پر حجت تامہ ہیں اور منافقین کے لئے اس میں تاویلات فاسدہ کی کوئی راہ نہیں ۔

اختصار کے پیش نظر فی الوقت اتنا ہی ورنہ ابھی دیگر آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع و بے مثل بشریت پر ناطق ہیں۔

الحمد للہ علی احسانہ مجھے اس عنوان پر یہ تیسرا کالم پیش کرنے کی توفیق رب تعالٰی کی بارگاہ لم یزل سے عطا ہوئی اس کالم میں پہلے دو مضامین سے ہٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند امتیازات کا ذکر کیا جائے گا جو کہ شریعت کے احکامات میں اللہ تعالٰی نے آپ کو عنایت فرمائے ۔

اول فرق

تمام امت مسلمہ کا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ لا الہ الا اللہ انی رسول اللہ ہے مزید یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کی برکت یہ ہے کہ کفار و مشرکین جن کو قرآن عظیم نے نجس بتایا جب وہ یہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیتا ہے تو اس کی تمام نجاست دور ہو جاتی ہے اور وہ رب تعالٰی کے انعامات کا دنیا و آخرت میں مستحق ہو جاتا ہے بشرط یہ کہ اس کا خاتمہ بھی اسی کلمہ پر ہو حالانکہ توحید کے ماننے والے اور بھی لوگ موجود ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلمان نہیں اور ان انعامات کے مستحق نہیں کیونکہ انہوں نے زبان رسالت مآب سے تعلیم کردہ توحید کا اقرار نہیں کیا ۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ ہمارے لیے ارکان اسلام پانچ ہیں کلمہ توحید و رسالت نماز روزہ زکوۃ اور حج جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زکوۃ فرض نہیں ۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی شافعی الخصائص الکبری جلد ۲ صفحہ نمبر ۵۱۶ پر فرماتے ہیں کہ زکوۃ ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ زکوۃ ادا کر کے طہارت مال حاصل کر کے ان لوگوں میں سے ہو جائیں جنہوں نے طہارت و پاکیزگی حاصل کر لی ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام اپنی عصمت کی وجہ سے ناپاکی سے پاک اور منزہ ہیں ۔

تیسرا فرق یہ ہے کہ امتیوں پر پانچ نمازیں فرض تھیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک نماز زائد تہجد یعنی کل چھ نمازیں فرض تھیں۔ امام جلال الدین سیوطی اپنی تصنیف الخصائص الکبری کی دوسری جلد اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوۃ کی پہلی جلد میں حدیث مبارکہ نقل فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو مجھ پر فرض ہیں اور تمہارے لیے سنت ہیں ایک وتر دوم مسواک سوم نماز تہجد ۔

چوتھا فرق نماز کی امامت میں قیام کے متعلق ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی حالانکہ فرض نماز میں قیام کرنا فرض ہے چنانچہ بخاری اور مسلم شریف کے علاوہ دارقطنی سنن بیہقی ۔

اور خصائص کبری میں یہ حدیث مبارکہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میرے بعد کوئی بیٹھ کر امامت نہ کرے ۔

پانچواں فرق یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عصر کے بعد دو رکعت نفل پڑھا کرتے تھے لیکن امت کو اس سے منع فرمایا اور خود ان دو رکعتوں کو سفر و حضر میں کبھی ترک نہ فرمایا اور ان پر مداومت اختیار فرمائی ۔ (مدارج النبوۃ جلد اول صفحہ ۷۱۲)

چھٹا فرق یہ ہے کہ ہمارا وضو سونے سے ٹوٹ جاتا ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وضو سونے سے نہیں ٹوٹتا چنانچہ امام بخاری و مسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات کو وضو فرمایا اور نماز پڑھ کو سو گئے یہاں تک کہ میں نے خرخراہٹ کی آواز سنی اس کے بعد مؤذن آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر نماز کے لئے تشریف لے گئے اور وضو نہیں فرمایا۔

ساتواں فرق یہ کہ امتیوں کو بیک وقت چار عورتوں سے نکاح جائز جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے اس سے زائد بھی مباح تھا اور اس پر تمام امت کا اجماع ہےاور تفسیر خزائن العرفان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے ازواج کا نصاب بیک وقت نو تحریر فرمایا گیا ہے ۔

آٹھواں فرق امتی کی بیوہ عورت کا نکاح ثانی ہو سکتا ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج پر نکاح ثانی حرام ہے اور مزید یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج پر عدت بھی نہیں ، اس حرمت کی ایک علت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج امہات المؤمنین ہیں اور ماں کے ساتھ اولاد کا نکاح جائز نہیں

نواں فرق یہ ہے کہ امتی کی وراثت تقسیم ہوتی ہےجبکہ انبیائے کرام کی نہیں ہوتی چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیا وہ ہیں جو نہ کسی کی میراث لیتے ہیں اور نہ ہماری میراث کوئی لیتا ہےجو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے ۔ (مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۷۵۶،چشتی)

دسواں فرق یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بول و براز یعنی پیشاب و پاخانہ اور خون پاک اور طاہر ہے چنانچہ فتاوی شامی باب الانجاس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضلات شریف امتی کے حق میں پاک بلکہ باعث برکت ہیں کیونکہ آپ کے جسم اقدس سے جو کچھ خارج ہوتا تھا وہ پاک تھا۔

امام بیہقی و دارقطنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے آپ کو بیت الخلاء جاتے دیکھا پھر آپ کے بعد میں گئی تو میں نے خارج ہونے والی چیز کا کوئی نشان نہ دیکھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ تم نہیں جانتی اللہ عزوجل نے زمین کو حکم دیا ہے کہ انبیائے کرام سے جو فضلہ خارج ہو وہ اسے کھا جائے

مدارج النبوۃ میں ہے کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک پیالہ میں پیشاب فرمایا اور حضرت ام ایمن سے فرمایا کہ اس کو زمین کے سپرد کردیں تو حضرت ام ایمن نے اس کو پی لیا جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ماجرا عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم فرمایا اور نہ ان کو منہ دھونے کا حکم دیا نہ ہی دوبارہ ایسا کرنے سے منع فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ اب تمہیں کبھی پیٹ کا درد لاحق نہ ہو گا۔ سبحان اللہ

الخصائص الکبری میں ہے کہ جنگ احد میں صحابی رسول حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخموں کا خون چوس کر نگل گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے خون میں میرا خون شامل ہوجائے اسے آتش دوزخ نہیں چھو سکتی اور جو خواہش رکھتا ہے کہ کسی جنتی شخص کو دیکھے تو وہ انہیں مالک بن سنان کو دیکھ لے۔

بطور نمونہ چند خصائص پیش کیے ہیں اور وہ بھی نہایت اختصار کے ساتھ ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص تو لا متناہی ہیں ۔


حضرت سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوداپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا : اے جابر! اللہ عزوجل نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا ۔ (الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص 63 حدیث نمبر 18)(مواھب الدنیہ جلد 1 صفحہ 36)

حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عزوجل کے ہاں نور تھا ۔ (مواھب الدنیہ جلد 1 صفحہ 39)(الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانی متوفی ٢١١ ھجری الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف مصنَّف عبدالرزاق)(الحافظ شھاب الدین ابوالعباس  احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی متوفی ٩٢٣ ھجری)(علامہ عبدالقادر بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی متوفی ١٠٣٨ ھجری النور السّافر عن اخبار القرن العاشر)(العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعی القاھری المصری انسان العیون فی سیرہ الامین المامون،چشتی)(امام محمد بن عبدالباقی المالکی الزرقانی المصری متوفی ١١٢٢ ھجری شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی)(المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی متوفی ١١٦٢ ھجری کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس)(حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)(قصص الانبیاء صفحہ نمبر 23 عبد الرشید قاسمی دیوبندی)(مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ)

نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب اللہ عزوجل نے حضرت  آدم علیہ السَّلام کو پیدا فرمایا  تو ان کے بیٹوں کو باہم فضیلت دی ۔ آپ علیہ السَّلام نے ان کی ایک دوسرے پر فضیلت ملاحظہ فرمائی ۔ (پھر نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : آدم علیہ السَّلام نے سب سے آخر میں مجھے ایک بلند نورکی صورت میں دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب یہ کون ہے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارا  بیٹا احمد ہے ، یہ اوّل بھی ہے، آخر بھی ہے  اور یہی  سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی جلد نمبر  5 صفحہ نمبر 483)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبیِ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نورانیت کےجلووں کو دیکھا تو سب نے اپنےاپنےاندازمیں اظہار کیا :
(1) حضرت سیّدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےسامنےکے مبارک دانتوں میں کُشادَگی تھ ی، جب آپ گفتگو فرماتے تو اُن میں سے نور دکھائی دیتا تھا ۔ (جامع صغیر صفحہ 403 حدیث : 6482)

شیخ الاسلام علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : یہ نور محسوس ہوتا تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کُل ذاتِ شریفہ ظاہری و باطنی طور پر نور تھی  حتّٰی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحاب  میں سے جس کو چاہتے اُسے نور عطا فرماتے جیسا کہ حضرت سیّدنا طفیل بن عَمرو دَوسی رضی اللہ تعالٰی عنہ کوعطافرمایا ۔ (فیض القدیر جلد 5 صفحہ 93 ،چشتی)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں : بَوَقتِ سحر کھو جانے والی سوئی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ انور کی روشنی کی کرن  سے مل گئی ۔ (القول البدیع صفحہ 302)

حضرت سیّدنا ابوہریرہرضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : جب نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تو درو دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے ۔ (مصنف عبدالرزاق جلد 10 صفحہ 242 حدیث : 20657)

یاد رہے نور اور بشر ایک دوسرے کی ضد نہیں کہ ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں کیونکہ حضرت  جبریل علیہ السَّلام نوری مخلوق ہونے کے باوجود حضرت سیّدتنا بی بی مریم رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سامنے انسانی شکل میں جلوہ گَر ہوئے تھے ۔ جیسا کہ قراٰنِ حکیم میں ہے : فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا ۔ (پ16، مریم:17) ۔
ترجمہ : تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔

نیزحضرت مَلَکُ الموت علیہ السَّلام بشری صورت میں حضرت سیّدناموسیٰ کلیم اللہ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 450 حدیث : 1339،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری مثل ہرگز نہیں ہوں : ⏬

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اللہ عنهما قَالَ : نَهَی رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه واله وسلم عَنِ الْوِصَالِ، قَالُوا: إِنَّکَ تُوَاصِلُ، قَالَ: إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَی.مُتَّفَقٌٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيُِّ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صومِ وِصال (سحری و اِفطاری کے بغیر مسلسل روزے رکھنے) سے منع فرمایا ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں ہرگز تمہاری مثل نہیں ہوں، مجھے تو (اپنے رب کے ہاں) کھلایا اور پلایا جاتا ہے ۔ أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الصوم، باب: الوصال ومن قال: ليس فی اللّيلِ صيامٌ، 2/ 693، الرقم: 1861، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الصيام، باب: النهی عن الوصال فی الصوم، 2/ 774، الرقم: 1102،چشتی،أبوداود فی السنن، کتاب: الصوم، باب: فی الوصال، 2/ 306، الرقم: 2360، والنسائی فی السنن الکبری، 2/ 241، الرقم: 3263، ومالک فی الموطأ، 1/ 300، الرقم: 667، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 102، الرقم: 5795، وابن حبان فی الصحيح، 8/ 341، الرقم: 3575، وابن أبی شيبة فی المصنف، 2/ 330، الرقم: 9587، وعبد الرزاق فی المصنف، 4/ 268، الرقم: 7755، والبيهقی فی السنن الکبری، 4/ 282، الرقم: 8157)

جلیل القدر مُفَسِّرین ، مُحَدِّثِیْن ، علمائے ربّانِیِّین اور اولیائے کاملین نے بھی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور ہونے کو بیان فرمایا ۔ جیسا کہ قراٰنِ مجید کی آیت : (قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ ۔ (پ 6 ، المآئدۃ : 15)
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب) کے تحت امام ابو جعفر محمد بن جَرير طَبَری (سالِ وفات 310ہجری) ، امام ابومحمد حسین بغوی (سالِ وفات  510ہجری) ، امام فخرالدین رازی (سالِ وفات 606ہجری) ، امام ناصرالدین عبداللہبن عمربَیضاوی(سالِ وفات685 ہجری) ، علّامہ ابوالبرکات عبداللہنَسَفی (سالِ وفات 710ہجری )علّامہ ابوالحسن علی بن محمد خازِن(سالِ وفات 741ہجری)، امام جلال الدین سُیُوطی شافعی (سالِ وفات 911ہجری) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سمیت کثیر مُفَسِّرین نے فرمایا کہ اس آیتِ طیبہ میں موجود لفظ”نور“ سے مراد نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرَکات ہے ۔

حضرت علامہ قاضی عِیاض مالکی (سالِ وفات 544ہجری) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ سورج چاند کی روشنی میں زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نور ہیں ۔ (الشفا جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 368)

نورِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم غالب آ گیا : شارحِ بخاری امام احمدبن محمد قَسطلانی (سالِ وفات 923ہجری) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جب ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور کو پیدا فرمایا تو اُسے حکم فرمایا کہ تمام انبیاء علیہم السّلام کے نور کو دیکھے چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ  نے تمام انبیاء علیہم السّلام کے نور کو ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور سے ڈھانپ دیا ۔ انہوں نے عرض کی : مولیٰ یہ کس کے نور نے ہمیں ڈھانپ لیا ؟ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا : ہٰذَا نُورُ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبدِاللہِ یعنی یہ عبداللہ کے بیٹے محمد (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا نور ہے ۔ (المواھب اللدنیۃ جلد 1 صفحہ 33)

نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمائے دیوبند و اہلحدیث کی نظر میں : ⏬

مسلمانوں کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور اللہ ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ۔

ضابطہ اور اصول یہ ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کو دلیل و تلبیہ سے ثابت کرے اور سائل مدمقابل مخالف مدعی کے پیش کردہ دلائل کا ردوابطال کرے ۔ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور اللہ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے، اہل سنت و جماعت جب اس دعویٰ پر بطور دلیل متعدد آیات قرآنیہ، احادیث صحیحہ، جلیل القدر مفسرین و محدثین کرام، ائمہ دین متین کی تصریحات اور گرانقدر ارشادات و فرمودات پیش کرتے ہیں تو منکرین نورانیت مصطفی علیہ التحیتہ والثناء وہابیہ بہر نوع بہرصورت ان دلائل و شواہد کے ردوابطال کی کوشش کرتے ہیں اور خداداد شان نورانیت کو مٹانے کی مذموم سعی کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اکابر وہابیہ دیابنہ کا اپنی متعدد کتب و رسائل میں ہمارے دلائل و شواہد ضبط تحریر میں لاکر سرکار اقدس صلى الله عليه وسلم کے لئے نورانیت مقدسہ ثابت کرنا اہلسنت و جماعت کی حقانیت و صداقت اور عقیدہ و دعویٰ کے مضبوط و مستحکم ہونے اور منکرین کے ساکت و عاجز ہونے اور اصول و ضوابط سے عاری ہونے کی بیّن دلیل ہے ۔ علمائے دیوبند و علمائے اہلحدیث کی مستند و معتبر کتب سے چند حوالہ جات ہدیہ قارئین ہیں ۔
علامہ رشید احمد گنگوہی قدجاء کم من اللہ نور و کتاب مبین کا ترجمہ لکھتے ہیں : تحقیق آئے ہیں تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور کتاب مبین‘‘ نور سے مراد حضور نبی کریم صلى اللہ عليه وسلم کی ذات پاک ہے ۔ حق تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو نور فرمایا اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلى اللہ عليه وسلم سایہ نہیں رکھتے تھے اور یہ واضح ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں ۔ (امداد السلوک صفحہ 156)
نیز لکھتے ہیں ’’حضور صلى اللہ عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور مومنوں کو میرے نور سے ۔ (امداد السلوک صفحہ 157)
نیز لکھتے ہیں : آپ کی ذات اگرچہ اولاد آدم میں سے ہے لیکن آپ نے اپنی ذات کو اس طرح مطہر فرمایا کہ اب آپ سراپا نور ہو گئے ۔ (امداد السلوک صفحہ 85)

علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : (آیت مقدسہ میں) نور سے مراد حضور صلى الله عليه وسلم ہیں۔ اس تفسیر کی ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ مراد اوپر بھی قد جاء کم رسولنا فرمایا ہے تو یہ قرینہ ہے کہ اس پر کہ دونوں جگہ جاء کم کا فاعل ایک ہو‘‘ (رسالۃ النور صفحہ 31)

علامہ عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں : نور سے اشارہ ہے رسالت محمدی کی جانب اور کتاب مبین سے قرآن کی جانب ۔ (تفسیر ماجدی جلد اول صفحہ 244)

علامہ ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی لکھتے ہیں : بے شک اﷲ کی طرف سے تمہارے پاس نور آچکا (یعنی نبی آخرالزمان) اور کتاب روشن (یعنی قرآن پاک ۔ (تفسیر فیوض القرآن صفحہ 239،چشتی)

علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : شیخ عبدالحق (محدث دہلوی) رحمتہ اﷲ نے اول ما خلق اﷲ نوری کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ 373)

علامہ حسین احمد مدنی نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے ۔ (الشہاب الثاقب صفحہ 47)

اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں : جیسے کہ روایت ’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ اس پر دلالت کرتی ہے ۔ (یک روزہ صفحہ 11)

علامہ اشرف علی تھانوی نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بحوالہ امام عبدالرزاق رحمة اللہ تعالیٰ نقل کی اور اس پر اعتماد کیا ۔ (نشر الطیب صفک 6)

نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلکہ اپنے علماء و مشائخ کے لئے بھی نورانیت ثابت کرنا علمائے دیوبند کی کتب و رسائل سے ثابت ہے :
علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : حضرت ابوالحسن نوری رحمة اللہ علیہ کو نوری اس لئے کہتے ہیں کہ آپ سے کئی بار نور دیکھا گیا ۔ (امداد السلوک صفحک 157)

علامہ محمود الحسن علامہ رشید احمد گنگوہی کو نور مجسم اور قبر کو تربت انور قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ⏬

چھپائے جامۂ فانوس کیونکر شمع روش کو
تھی اس نور مجسم کے کفن میں وہ ہی عریانی
تمہاری تربت انور کو دے کر طور سے تشبیہ
کہو ہوں بار بار ’’ارنی‘‘ میری دیکھی بھی نادانی
(مرثیہ گنگوہی صفحہ 12)

علامہ عاشق الٰہی بلند شہری لکھتے ہیں : پس بے نظیر شیخ وقت اور بے عدیل قطب زماں کی سوانح کوئی لکھے تو کیا لکھے بھلا جس مجسم نور اور سرتاپا کمال کا عضو عضو اور رواں رواں ایسا حسین ہو کہ عمر بھر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے بھی سیری نہ ہوسکے۔ اس کے کوئی محاسن بیان کرے تو کیا کرے‘‘ (تذکرۃ الرشید پہلا حصہ صفحہ 3)

علامہ سرفراز گکھڑوی حضرت شیر ربانی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : دیوبند میں چار نوری وجود ہیں۔ ان میں سے ایک (انور) شاہ صاحب ہیں ۔ (عبارات اکابر صفحہ 37)

مکبہ فکر دیوبند معروف رسالہ میں لکھا ہے ’’مولانا احمد علی صاحب اللہ تعالیٰ کے انوار میں سے ایک نور تھے ۔ (رسالہ خدام الدین لاہور 24 مئی1992ء)
نیز اسی میں لکھا ہے : علامہ (شمس الحق) افغانی نے دریافت فرمایا حضرت (مخاطب مولوی احمد علی ہیں) کیا وجہ ہے کہ سید (احمد) صاحب کی قبر پرانوار مولانا (اسماعیل) کی بہ نسبت کم معلوم ہوتے ہیں ۔ (رسالہ خدام الدین 22 فروری 1963)

علامہ حسین احمد مدنی کے بارے میں مکتبہ فکر دیوبند کے معروف اخبار میں لکھا ہے : اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (یعنی ٹانڈوی صاحب) عالم نور میں رہتے ہیں، ان کی آنکھوں میں بھی نور ہے۔ ان کے دائیں بھی نور ہے،ان کے بائیں بھی نور ہے، ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہے وہ خود نور ہوگئے ہیں ۔ (روزنامہ الجمعیت دہلی شیخ الاسلام نمبر صفحہ 12 ، 1958،چشتی)

علامہ رفیع الدین لکھتے ہیں : وہ شخص (یعنی قاسم نانوتوی) ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیاگیا ۔ (حکایات اولیاء یعنی ارواح ثلاثہ ص 259، سوانح قاسمی جلد اول صفحہ 130)
اس عبارت میں بھی بانی دیوبند علامہ قاسم نانوتوی صاحب کو نور کہا گیا ہے کیونکہ روایت ہے خلقت الملائکۃ من نور یعنی فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے ۔ (مسلم شریف جلد دوم صفحہ 413)

اہلحدیث عالم علامہ ثناء اللہ امرتسری نے قد جاء کم ۔۔۔ الخ آیت مقدسہ کا ترجمہ یوں کیا ’’تمہارے پاس اللہ کا نور محمد صلى الله عليه وسلم اور روشن کتاب قرآن شریف آئی ۔ (تفسیر ثنائی جلد اول ص 362)
نیز لکھتے ہیں : ہمارے عقیدے کی تشریح یہ ہے کہ رسول خدا، خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے نورہیں‘‘ ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد دوم صفحہ 93،چشتی)

مشہور اہلحدیث عالم علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا، پھر پانی، پھر پانی کے اوپر عرش کو پیدا کیا، پھر ہوا، پھر قلم اور دوات اور لوح پھر عقل کو پیدا کیا، پس نور محمدی آسمانوں اور زمین اور ان میں پائی جانے والی مخلوق کے لئے مادہ اولیہ ہے‘‘ نیز حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ قلم اور عقل کی اولیت اضافی ہے ۔ (ہدیۃ المہدی صفحہ 56)

مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی لکھتے ہیں : نور النبی تجلی رحمۃ‘‘ یعنی نور نبی تجلی رحمت ہے ۔ (نفح الطیب ص 60)
مشہور اہلحدیث عالم حافظ محمد لکھوی لکھتے ہیں : نور نبی دا آپے دیندا لوکاں نوں روشنائی ۔ (تفسیر محمدی جلد 4 صفحہ 201)

مشہور اہلحدیث عالم علامہ پروفیسر ابوبکر غزنوی تقریظ میں لکھتے ہیں : قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ بشر بھی تھے اور نور بھی تھے۔۔۔ اور صحیح مسلک یہی ہے کہ وہ بشر ہوتے ہوئے از فرق تا بقدم نور کا سراپا تھے ۔ (تحریر 14 دسمبر 1971، تقریظ رسالہ بشریت و رسالت صفحہ 17)

اس معاملے سے ہم سبھی بخوبی واقف ہیں کہ یہ دین کا ایک ایسا نقطہ ہے جس نے ہمارے معاشرے کے لوگوں میں اچھا خاصا انتشار پھیلایا ہوا ہے ۔ بات ہے انسانیت کی جان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر ہیں یا نور یہ فیصلہ کرنے والے ہیں ہم گناہگار ۔ اس لیے اس معاملے پر بغیر تحقیق کیے بحث کرنے والوں پر افسوس کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ موضوع کو خاطر میں لاتے ہوئے کچھ عام باتوں کا جاننا بے حد ضروری ہے ورنہ ہم کسی ٹھوس نتیجے پر کبھی نہیں پہنچ سکتے اور یہ طریقہ بغیر تحقیق و علم ، نتیجہ نکالنے سے بے حد بہتر اور موزوں ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر ہیں یا نور ، یہ جاننے کےلیے ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ہو گا کہ بشر اور نور ہیں کیا ، ان کی ساخت کیا ہے اور ان کا اللہ کی بنائی ہوئی اشیاء پر کیا ردِعمل ہے ؟

بشر : (سائنس اور حکمت کی رو سے)

بشر کو انسان بھی کہا جاتا ہے اور یہ اللہ کی تخلیق کی گئی ایسی مخلوق ہے جو دنیا میں رہتی ہے اور آسمان پر نہیں رہ سکتی- اس مخلوق کے زندہ رہنے کے لیے آکسیجن، کھانا، پانی اور نیند کا ہونا لازم ہے- یہ مخلوق خلاء میں بغیر خلائی مصنوعات کسی صورت ٹھہر نہیں سکتی کیونکہ خلاء میں بےشمار عجیب و غریب گیسوں کی موجودگی ہوتی ہے اور ان گیسوں کا دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ بغیر احتیاطی مصنوعات انسان خلاء میں داخل ہوتے ہی موقع پہ دم توڑ دیتا ہے- اس سے ثابت ہوا کہ مخلوقِ بشریت ایسی صفات پر مشتمل ہے جن کا تعلق محض دنیا میں قیام کرنے سے ہے ۔

نور : (سائنس اور حکمت کی رُو سے)

اللہ کی ایسی مخلوق جو زمین پر بھی گشت کر سکتی ہے اور خلا میں بھی باآسانی اُڑ سکتی ہے- خلا میں ہواؤں کا دباؤ اور ان کا کیمیائی ردِ عمل، اس مخلوق کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا- یہ مخلوق اللہ پاک کے حکم ہی سے اپنے آپ کو ظاہر کیا کرتی ہے ورنہ نظر نہیں آتی، جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نور تھے اور وہ جب بھی وحی لے کر حاضر ہوا کرتے تھے تو صرف محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہی نظر آیا کرتے تھے خواہ آس پاس دیگر صحابہ بھی موجود ہوتے- اللہ کی یہ مخلوق کسی خوراک، پانی، نیند یا دنیاوی ہوس کی محتاج نہیں- اور خلاء کو چِیر کر باآسانی آگے بڑھ سکتی ہے- نورانی صفات عموماً فرشتوں میں ہی پائی جاتی ہیں انسان میں نہیں-

معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسلامی تاریخ کا وہ خوبصورت واقعہ ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم براق(بجلی کی رفتار والا گھوڑا) پر سوار ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے گئے تھے، اسی رات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خلا میں کئی انبیاء علیہم السلام سے بھی ملاقاتیں کیں، اسی رات امتِ محمدی پر نماز فرض ہوئی تھی، اسی رات سے کلمہ طیبہ میں "محمد الرّسُول اللہ" شامل کیا گیا- اور اس واقعہ کی تصدیق خود قرآنِ مجید نے کی سورہ النجم پارہ ۲۸ کی پہلی اٹھارہ آیات اور اسی طرح واضح طور پر سورہ بنی اسرائیل پارہ ۱۵ آیت ا میں کچھ اس طرح کی کہ " سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ لنریہ من اٰیتنا انہ ہو السمیع البصیر ۔
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جن کے اردگرد ہم نے برکت رکھی اور ہم نے انہیں اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں- بے شک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے ۔

سرکار اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سفر معراج کا ذکر قرآن مجید کی متعدد آیات میں مفصلاً، مجملاً،کنایتاً اور اشارتاً ملتا ہے اور اس واقعہ کو مرزئیوں کے علاوہ مسلمانوں کے ہر فرقہ نے جائز اور مستند مانا ہے-

اس واقعے میں انسانیت کی جان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت جبرائیل کے ساتھ دنیا کی حدود سے باہر نکلے، خلا میں پہنچے اور وہاں بہت سے انبیاء سے باری باری ملاقات کی- اس کے بعد مزید آگے گئے اور ایک مقام پر پہنچے "سدرہ المنتہیٰ"... یہاں پہنچ کر جبرائیل علیہ سلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے درخواست کی کہ میں فرشتہ ہوں اور یہ مقام میری حد ہے، میں نور کا بنا ہوں اسلیے اگر اس مقام سے آگے بڑھا تو میرے پَر جل جائیں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اقرار کیا اور اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے آگے بڑھنے لگے-

یہ واقعہ تفصیلی طور پر قرانِ پاک میں نہیں مگر اس واقعے کا عمل پانا قرانِ مجید سے مکمل طور پر تصدیق شدہ ہے اسلیے اسے پوری دنیا کے مسلم ممالک میں بچوں کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے- آپ احباب نے بھی پرائمری اسکول میں اسلامیات کے نصاب میں پڑھا ہی ہو گا-

اب ہم اس تحریر کے عنوان کی تہہ پر آتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر ہیں یا نور ؟ بشریت کیا ہے ، نورانیت کیا ہے یہ تو ہم نے اس تحریر میں حکمت اور سائنس کے واضح شواہد سے معلوم کر لیا-

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صرف بشر یعنی انسان ہوتے تو کیا وہ جبرائیل علیہ سلام کے ساتھ خلاء میں اتر سکتے تھے، جہاں ہوا میں اتنے خطرناک کیمیکلز اور دباؤ ہوتا ہے وہاں کھڑے ہو کر اتنے انبیاء کرام سے ملاقات کیسے کر سکتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی قسم کی آکسیجن آویز مصنوعات بھی نہیں لگائی تھیں- یا تو یہاں حکمت فیل ہو گئی یا پھر سائنس- کیونکہ خلا میں صرف وہی قیام کر سکتا ہے جس کے اندر نورانیت بھی ہو- بشر تو وہاں فنا ہو جائے گا - یہ میں نہیں سائنس نے تحقیقات کے بعد ثابت کیا ہے- اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج پر گئے تھے تو یہ بات بھی واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم محض بشر نہیں نور بھی تھے اسی لیے خلا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کوئی نقصان نہ پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنی ۔

جب سدرہ المنتہیٰ کا مقام آیا تو روح الامین حضرت جبرائیل جو کہ اللہ کے بنائے ہوئے سب سے معزز فرشتے تھے وہاں رک گئے کیونکہ فرشتے نور سے بنے ہیں، نور کی بھی حد مقرر ہے...اور ان کی حد آ چکی تھی مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس مقام سے بھی آگے بڑھے اور اللہ پاک سے جا کر ملے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عروج کی کوئی حد مقرر نہیں تھی اور یہ باتیں میری من گھڑت کہانیاں نہیں قرآن سے ثابت ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا میں سانس لیتے ، کھاتے پیتے اور آرام کرتے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج پر گئے تو پہلے خلاء میں باآسانی گھومتے رہے اور انبیاء سے بھی ملاقات کیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نور بھی تھے ۔ اب نور کی بھی اللہ پاک نے ایک حد مقرر کی ہے اس لیے جبرائیل علیہ السلام سدرہ کے مقام سے آگے نہ بڑھ سکے ، اب اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بغیر کسی رکاوٹ کے، اس مقام سے بھی آگے گئے تھے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کا مقام ہماری عقل کے پیمانوں سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔ صرف بشریت حتہ کہ نورانیت تک بھی محدود نہیں- یعنی اللہ کی ذات کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقام سب سے افضل ہے اور ان کی صفاتِ اقدس ہم قرانِ کریم کی ہدایت کے بغیر کسی صورت جان ہی نہیں سکتے- بلکہ کچھ صفات تو محض اللہ ہی جانتا ہے کیونکہ اسی نے تو عطا کی ہیں اپنے محبوبِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو- "یہ کم ہے کہ رحمت اللعالمین یعنی تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر بھیجا ۔

سمجھدار لوگوں سے گزارش ہے کہ خدارا ان لوگوں سے بحث نہ ہی کیجئے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقام سمجھنے سے قاصِر ہیں- وہ قرانِ مجید کی حکمت پر غور نہیں کرتے- جب تک قران کی آیات کی گہرائی میں نہیں جائیں گے ، غوروفکر نہیں کریں گے اسلام کی حقیقتوں سے متعلق نشانیاں نہیں ملیں گی ۔ جیسا کہ اللہ پاک نے خود فرمایا : إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ۔ (سورہ الروم ایت نمبر ۲۱)
ان آیات میں غور و فکر کرنے والوں کےلیے نشانیاں ہیں ۔

سایہ مُصطفٰی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم

امام نیشا پوری رحمة اللّٰه علیہ نے لِکھا ہے کہ : آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے لِکھنا اس لیے اِختیار نہیں فرمایا کہ جس وقت آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم لِکھتے تو قلم اور ہاتھ کا سایہ اللّٰه تعالٰی کے اِسمِ مُبارک پر پڑتا،آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اللّٰه تعالٰی کے اِسمِ مُبارک کی بے ادبی کے باعث لِکھنا اِختیار ہی نہ فرمایا تو اللّٰه تعالٰی نے فرمایا! اے میرے محبوب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! اگر آپ اپنے ہاتھ اور قلم کے سایہ کو میرے اِسم پر پڑنے کو گوارا نہیں فرماتے تو میں بھی آپ کے لیے آپ کے غلاموں کو حُکم فرماتا ہوں کہ وہ آپ کے سامنے اونچا نہ بولیں اور آپ کا سایہ بھی زمین پر پڑنے نہیں دیتا تاکہ آپ کے سایہ پر کسی کے قدم نہ پڑیں تاکہ آپ کی بے ادبی نہ ہو ۔ (تفسِیر رُوح البیان جِلد ۸،صفحہ ۲۰،چشتی)

‏ربابِ نظر کو کوئی ایسا نہ مِلے گا
بندے تو ملیں گے پر مولا نہ مِلے گا

تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانیء محمد
ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ مِلے گا

"تمام مخلوق کا وجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وجہ سے ہے"

حضرت آدم  علیہ السلام اور تمام مخلوق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وجہ سے ہیں ۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو وحی بھیجی کہ ہماے محبوب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لاٶ اور اپنی امت کو بھی ہدایت کرو کہ وہ بھی ایمان لائیں اگر میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو پیدا نہ کرتا تو آدم، جنت ونار کو بھی وجود نہ بخشتا اور میں نے عرش پانی پر پیدا کیا تھا وہ حرکت کرنے لگا تو میں نے لاالہ الااللّٰہ محمدٌ رسول اللّٰہ اس پر لکھ دیا تو وہ ٹہھرگیا ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہ ہوتے تو میں جنت اور نار پیدا نہ کرتا ، نیز اسی مضمون کی روایت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا کہ اللہ پاک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہیں کہ اگر میں نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حبیب بنایا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے زائد باعزت اپنے نزدیک اور کوئی نہیں بنایا ہے اور میں نے دنیا اور دنیا والوں کو اس لیے پیدا کیا تاکہ تمہاری عزت و بزرگی کا اُن کو تعارف کراٶں اور اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا ، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اے محمد میری عزت وجلال کی قسم اللہ تم کو پیدا نہ کرتا تو ارض وسموات کو پیدا نہ کرتا اور نہ آسمان اٹھاتا اور نہ زمین بچھاتا ، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے فرمایا کہ تمہاری وجہ سے میں نے ارض بطحاء کو بچھایا ہے اور پانی میں موجیں پیدا کی ہیں ، آسمان بلند کیا ہے ، ثواب وعقاب جنت ونار پیدا کیے ہیں ، عارف باللہ سید علی بن ابی الوفاءؒ جو مشہور صالحین، عابدین میں شمار ہوتے ہیں فرماتے ہیں : قلب کو قرار ہوا ہے لہٰذا اے بدن تو اب آرام سے وقت گذار ۔ ان شاء اللہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں، تمام اشیاء کے وجود کی روح وہ فردِ فرید ہے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو کسی صاحبِ وُجود کو وُجود نہ ملتا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام۔ اور تمام بڑے انسان اگر آنکھ کے درجہ میں ہیں تو وہ اُن آنکھوں کا نور وجمال ہے اگر شیطان بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نور کی نورانیت دیکھ لیتا آدم علیہ السلام کے چہرہ میں تو سب سے پہلے سجدہ کرتا اور اگر نمرود ملعون بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جمال جہاں آرا کو دیکھ لیتا تو جلیلِ تعالیٰ کی خلیل اللہ کے ساتھ عبادت کرتا اور عنادنہ کرتا مگر اللہ کا جمال ونور ہر ایک کو دکھایا بھی نہیں جاتا وہی دیکھ سکتا ہے جس کو اللہ پاک کی توفیق میسر ہو ، سبحان اللہ شیخ علی بن ابی الوفا علیہ الرحمہ نے کس قدر عمدہ مضامین ان اشعار میں جمع فرمادیے ہیں جو اہلِ محبت کےلیے شرابِ طہور ہیں ۔ (سبل الھدی والرشاد, صفحہ ۷۶ جلد ۱)

بشر سے "ب" نکال دیں تو "شر" رہ جاتا ہے , اور "شر" اشرف المخلوقات کے مقام سے گِرنا ہے. "شر" کو بسم اللہ والے نے بسم اللہ کی "ب" عطا کر کے اِس کو "شر" سے بشر بنایا, بشر کو یہاں سے آگے کی طرف سفر کرنا ھے, نہ کہ پیچھے کی طرف ۔ یہاں سے "اشرف" کا "الف" ہٹا لیا جائے گا اور "شرف" کی طرف اِس کا سفر شروع ہوگا. اب اِسے مزید "شرف" حاصل کرنے ہونگے اور "شرف" کے لیے یہ "میم" کا محتاج ہے. "میم" کی مدد سے ہی یہ "شرف"سے "مُشرف" ہو گا ۔ "احد" میں "میم" مِلا تو "احمد" ہوا ۔ اب اِس بشر کا سفر "احمد" کی "دال" سے شروع ہوگا جو کے دنیا ہے. "د" سے یہ "میم" تک پہنچے گا جو کے "محمد" ہے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) "محمد" اِسے "ح" سے متعارف کرائیں گے جو کے "حق" ہے. اور "حق" کے بعد اِسے "الف" پھر سے واضح دِکھائی دے گا جو کہ "اللہ" ہے ۔ ا-ح-م-د 👉 احمد ۔ "شر" کو "ب" کی طاقت دے کے "بشر" بنایا, اور "الف" سے "شرف" دے کے "اشرف" کا مقام بخشا ۔ "ا ل م" آپ "میم" کے اِس طرف کھڑے ہیں, نہ کہ "الف" کے اُس طرف. آپ "میم" (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) سے جب تک فیضیاب نہیں ہونگے "لام" (لا الہ الا اللہ) تک نہیں پہنچ سکتے, "لام" کی روشنی کے بعد ہی آپ کو "الف" ( اللہ ) کا مقام دِکھے گا ۔ یہی آپ کا سفرِ امتحان ہے جو عشق کے بنا ممکن نہیں ۔ اور اگر اس سفر میں کوئی عشق والا راہبر مل جائے کہ جسے "م" سے آشنائی ہو تو پھر "ا"  تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کا سایہ نہیں تھا ظل اور فئی کی تحقیق : ⏬

آج اس پرفتن اور پر آشوب دور میں نہ جانے لوگوں نے کیسے کیسے مسئلے اور عقیدے گڑھنے شروع کر دیے ہیں ، جس کا تعلق در حقیقت کسی دور سے نہیں ہوتا ہے ۔ چنانچہ جسم پاک مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق عہد صحابہ کرام سے لیکر آخر تک مضبوط ، مربوط اور مسلسل شہادتیں موجود ہیں جس سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے اسلاف کرام کے عقائد اس سلسلے میں کیا تھے ۔ لہٰذا ہم سب کو بھی چاہیے کہ ذہن و فکر کی اس جدید پیداوار کی طرف نہ جائیں اور اپنے اسلاف کی اصابتِ روائے پر ہی عمل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی میں بھلائی اور ہماری ، آپ سب کی کامیابی ہے ۔ ہم نمونے کے طور پر چند احادیث اس دعوے کے ثبوت کےلیے کہ سرکار کے جسم پاک کا سایہ نہ ہونے کا عقیدہ محض بے بنیاد نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں روایات و احادیث کی تہہ میں موجود ہیں ، جن پر شروع سے صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین رضی اللہ عنہم کا عمل رہا ہے ۔

تُو ہے سایہ نور کا ہر عُضْو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا

الفاظ و معانی : سایہ : عکس ، روشنی کے سامنے کسی شے کے حائل ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی تاریکی ۔ عُضْو : بدن کا کوئی حصّہ یا جُز ۔ ٹکڑا :حصّہ ۔

شرح : شعر کے پہلےمِصرعے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  نے اللہ  کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس کی دوجہتوں (Dimensions)  کا ذکر فرمایا ہے کہ یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جانب تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری مخلوق پر نورِالٰہی و رحمتِ خُداوندی کا سایہ ہیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےجسمِ اَقدس کا ہر ہر عُضْو نور کا ٹکڑا ہے ۔ پھر دوسرے مِصرعے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی شاندار منطقی (Logical) انداز میں دوعقلی دلیلوں کے ذریعےاس بات کو ثابت فرمایا ہے کہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےجسمِ منوَّر کا سایہ نہ تھا ۔

جب کوئی مجسَّم (Solid) شے روشنی کے سامنے آتی ہے تو روشنی کے مقابِل اُس شے کا سایہ و عکس بنتا ہے لیکن اُس سائے کا مزید آگے سایہ نہیں بنتا۔بِلاتشبیہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کے نُور  کا سایہ ہیں تو پھر اِس  سایۂ نورِ خُدا (یعنی بدنِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سایہ کیسے بن سکتا ہے ۔

نور (Light) کی وجہ سے اِس کے سامنے آنے والی مُجسَّم (Solid) شے کا سایہ تو بنتا ہے مگر نُور اور روشنی کی اپنی ذات کا سایہ نہیں ہوتا کیونکہ روشنی اور سایہ (تاریکی) ایک دوسرے کی ضد (یعنی اُلٹ) ہونے کی وجہ سے باہم جمع نہیں ہوسکتے۔ بِلاتمثیل حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نورِ الٰہی کا ایسا چمکتا دَمکتا سورج ہیں کہ جس کی روشنی سے تمام جہاں ہے لیکن اس نورِ الٰہی کے سورج کا اپنا سایہ نہیں ہے ۔

چنانچہ امام جلالُ الدّین سُیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیِّدُنا ذَکْوان رضی اللہ عنہ کی روایت نَقْل فرماتے ہیں کہ : اَنَّ رَسُوْلَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمْ یَکُنْ یُریٰ لَہٗ ظِلٌّ فِیْ شَمْسٍ وَ لَا قَمَرٍ ۔
ترجمہ : سُورج اور چاند کی روشنی میں سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نظر نہیں آتا تھا ۔ (الخصائص الکبریٰ جلد 1 صفحہ 116)

نیز سایہ نہ ہونے کے متعلّق نقل فرماتے ہیں کہ قَالَ ابنُ سبع : مِنْ خَصَائِصِہٖ اَنَّ ظِلَّہُ کَانَ لَا یَقَعُ عَلَی الْاَرْضِ وَاَنَّہُ کَانَ نُوْراً  فَکَانَ اِذَا مَشیٰ فِی الشَمْسِ اَوِ الْقَمَرِ لَا یُنْظَرُ لَہُ ظِلٌّ ۔
ترجمہ : ابنِ سبع  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا : رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نُور ہیں ، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو سایہ دِکھائی نہ دیتا  تھا ۔ (الخصائص الکبری جلد 1 صفحہ 116،چشتی)

اسی طرح   امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ : مِنْ اَنَّہُ کَانَ لَاظِلَّ لِشَخْصِہٖ فِیْ شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ لِاَنَّہُ کَانَ نُوْراً یعنی حضور پُرنُور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس  کا سایہ نہ دُھوپ میں ہوتا اور نہ چاندنی میں،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نُور ہیں ۔ (الشفاء جلد 1 صفحہ 368)

وہی نورِحق وہی ظِلِّ ربّ ،  ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی مِلک میں آسماں ، کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں

حضرت سیدنا عبداللہ ابن مبارک اور حافظ جوزی رحمۃ اللہ علیہما حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں : لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظل ولم لقم مع شمس الا غلب ضوءہ ضوءھا ولا مع السراج الا غلب ضوءہ ضوءہ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم پاک کا سایہ نہیں تھا نہ سورج کی دھوپ میں نہ چراغ کی روشنی میں ، سرکار کا نور سورج اور چراغ کے نور پر غالب رہتا تھا ۔ (الخصائص الکبرٰی جلد 1 صفحہ68)(زرقانی علی المواہب جلد 4 صفحہ 220،چشتی)(جمع الوسائل للقاری جلد 1 صفحہ 176)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب نوادر الاصول میں حضرت ذکوان رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں : عن ذکوان ان رسول اللہ علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل فی شمس ولا قمر ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاندنی میں ۔ (المواہب اللدنیہ علی الشمائل المحمدیہ صفحہ 30 مطبع مصر)

امام نسفی علیہ الرمہ تفسیر مدارک التنزیل میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل فرماتے ہیں : قال عثمان رضی اللہ عنہ ان اللہ ما اوقطع ظلک علی الارض لئلا یضع انسان قدمہ علی ذالک الظل ۔
ترجمہ : حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا کہ اللہ عزوجل نے آپ کا سایہ زمین پر پڑنے نہیں دیا تاکہ اس پر کسی انسان کا قدم نہ پڑ جائے ۔ (مدارک التنزیل جلد 2 صفحہ 103،چشتی)

حضرت امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے خصائص کبرٰی میں ابن سبع سے یہ روایت نقل فرمائی:قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ظلہ کان لا یقع علی الارض لانہ کان نورا اذا مشی فی الشمس اولقمر لا ینظرلہ ظل قال بعضھم ویشھدلہ حدیث قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ودعائہ فاجعلنی نورا ۔
ترجمہ : ابن سبع نے کہا کہ یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے کہ سرکار کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ نور تھے ، آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں جب چلتے تھے تو سایہ نظر نہیں آتا تھا۔ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ اس واقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث شاہد ہے جس میں حضور کی یہ دعاء منقول ہے کہ پروردگار مجھے نور بنا دے ۔ ( خصائص کبرٰی جل 1 صفحہ 68)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : لم یقع ظلہ علی الارض ولا یری لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نورا قال زرین فغلبہ انوارہ۔“حضور کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور نہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں سایہ نظر آتا تھا، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، زریں نے کہا کہ حضور کا نور سب پر غالب تھا ۔  (النموذج اللبیب)

وقت کے جلیل القدر امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : وما ذکر من انہ لاظل لشخصہ فی شمس ولا فی قمر لانہ کان نورا وان الذباب کان لا یقع علی جسدہ ولا ثیابہ ۔
ترجمہ : یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے حضور نور تھے ۔ (شفا شریف جلد 1 صفحہ 342 ۔ 343)

امام علامہ احمد قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : قال لم یکن لہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظل فی شمس ولا قمر رواہ الترمذی عن ابن ذکوان وقال ابن سبع کان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نورا فکان اذا مشی فی الشمس او القمر لہ ظل۔“ سرکار کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندی میں ، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور تھے ، اسی لیے چاندنی اور دھوپ میں چلتے تھے تو جسم پاک کا سایہ نہیں پڑتا تھا ۔ (موالب اللدنیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 180،چشتی)(زرقانی جلد 4 صفحہ 220)

امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ومما یوید انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم صار نورا انہ اذا مشی فی الشمس اوالقمر لا یظھر لہ ظل لانہ لا یظھر الا لکشیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم قد خلصہ اللہ تعالٰی من سائر الکشافات الجسمانیہ وصیرہ نورا صرفا لا یظھر لہ ظل اصلا ۔
ترجمہ : اس بات کی تائید میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے اسی واقعہ کا اظہار کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک کا سایہ نہ دھوپ میں پڑتا تھا ، نہ چاندنی میں ، اس لیے کہ سایہ کثیف چیز کا ہوتا ہے ، اور اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جسمانی کثافتوں سے پاک کرکے انہیں “نور محض“ بنا دیا تھا اس لئے ان کا سایہ نہیں پڑتا تھا ۔ (افضل القرٰی صفحہ 72)

محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : نبود مرآں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم را سایہ نہ در آفتاب و نہ در قمر ۔
حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندنی میں ۔ (مدراج النبوۃ جلد 1 صفحہ21)

امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سایہ نبود در عالم شہادت سایہ ہر شخص از شخص لطیف تراست چوں لطیف ترازدے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم در عالم نباشد اور اسایہ چہ صورت دارد ۔
ترجمہ : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہر چیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے، اور سرکار کی شان یہ ہے کہ کائنات میں ان سے زیادہ کوئی لطیف چیز ہے ہی نہیں، پھر حضور کا سایہ کیونکر پڑتا ۔ (مکتوبات امام ربانی جلد 3 صفحہ 147 مطبوعہ نو لکشور لکھنئو،چشتی)

امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ (متوفی 450) ارشاد فرماتے ہیں : روی ان النبی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان اذا مشی لم یکن لہ ظل ۔
ترجمہ : مروی ہے کہ جب نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا تھا ۔ (المعروف الراغب)

امام العارفین مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ⏬

چوں فناش از فقر پیرایہ شود
او محمد وار بے سایہ شود

ترجمہ : جب فقر کی منزل میں درویش فنا کا لباس پہن لیتا ہے ، تو محمد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح اس کا بھی سایہ زائل ہو جاتا ہے ۔ (مثنوی معنوی دفتر پنجم)

حضرت شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں : از خصوصیاتے کہ آن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رادر بدن مبارکش دادہ بودن کہ سایئہ ایشاں برز میں نہ می افتاد ۔
ترجمہ : جو خصوصیتیں نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک میں عطا کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا ۔

مذکورہ بالا تمام دلائل کی روشنی میں آپ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے فیصلہ کیجیے کہ جسم کے سایہ کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہونا چاہیے ؟ مزید اگر اس سے تفصیل میں جانا چاہتے ہیں تو امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر مبسوط بحث فرمائی ہے ۔ جو قمر التمام فی نفی الفی والظل عن سیدالانام “ اور “نفی انفی عمن بتورہ اناء کل شئی“ کے نام سے رسالے کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں ۔ اس کا مطالعہ کیجیے جس میں انہوں نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ نہ ہونے کا عقیدہ عوام کا اختراع نہیں ہے بلکہ حدیث اور سلف صالحین سے ثابت ہے ۔

قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِيْنٌ ۔
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب ۔(سورہ المائده ایت نمبر 15)

يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا آرْسَلْنٰکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّراً وَّنَذِيْراً وَّ دَاعِيًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِه وَسِرَاجًا مُّنِيْراً ۔
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب ۔ (سورہ الاحزاب ایت نمبر 46)

ان دو آیتوں میں اللہ عزوجل نے واضح طور پر اپنے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور اور چمکا دینے والا آفتاب قرار دیا ہے ۔

نور و ظلمت : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور و آفتا ب ہوئے ۔ روشن کرنے والے ہوئے تو لا محالہ ظلمت و اندھیرے کا آپ سے تعلق نہ رہا کہ وہ روشنی کی ضد ہے۔ فرمان باری تعاليٰ ہے ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ ۔
ترجمہ : سب تعریفیں اللہ تعاليٰ کے لئے جس نے

السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ۔ ثُمَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ.
ترجمہ : آسمان اور زمین پیدا فرمائے اور اندھیرے اور نور پیدا فرمائے۔ پھر کافر لوگ (دوسروں کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں ۔ (سورہ الانعام ایت نمبر 1)

کیا نور و ظلمت برابر ہیں ؟

قُلْ هَلْ يَسْتَوِيْ الْاَعْمٰی وَالْبَصِيْرُ اَمْ هَلْ تَسْتَوِيْ الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ! کیا اندھا اور انکھیارا برابر ہیں؟ یا کیا برابر ہیں اندھیریاں اور نور ۔ (الرعد،13 : 16)

اللہ کا حکم، انبیاء کا منصب : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰيٰتِنَا آنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۔
ترجمہ : اور بے شک ہم نے موسيٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لا۔(ابراهیم، 14 : 15)

الٰر ۔ کِتَابٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۔
ترجمہ : یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری کہ تم لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکال لائو۔ ان کے رب کے حکم سے۔(ابراهيم، 14 : 1)

اللہ کا کام اور شیطان کا کام : اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا! يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا اُوْلِيٰئُهُمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خَلِدُوْنَ ۔
ترجمہ : اللہ والی ہے مسلمانوں کا ، انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں ۔ یہی لوگ دوزخ والے ہیں۔ وہی اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(البقرة ، 2 : 57)

هُوَالَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِه اٰيٰتٍ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۔
ترجمہ : وہی ہے کہ اپنے بندہ پر روشن آیتیں اتارتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے ۔ (الحديد ، 57 : 9)

ان آیات مبارکہ سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ نور و ظلمت آپس میں متضاد ہیں۔ جہاں ایک ہو دوسرا نہیں ہو سکتا ۔ نہ دونوں جمع ہوں ، نہ اٹھ سکیں۔ اللہ پاک رسول پاک قرآن ایمان اسلام نور ہیں اندھیرے نہیں ۔ نیکی نور ہے اندھیرا نہیں ۔ اللہ تعاليٰ اپنے مسلمان بندوں کے لئے نور پسند فرماتا ہے ۔ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے ۔ شیطان کے دوست کافر اور کافروں کا دوست شیطان شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے کھینچ کھینچ کر اندھیروں میں جھونکتا ہے۔ ان کا فکر و عقیدہ اندھیرا ۔ ان کا عمل و کردار اندھیرا۔ جبکہ مسلمان کا عقیدہ بھی نور اس کا عمل بھی نور ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سِرَاج مُنِيْر ، روشن آفتاب ہیں ۔ نور ہیں ۔ آپ کا سایہ نہیں ہوسکتا ۔

حدیث پاک کی روشنی میں : حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔انی عندالله مکتوب خاتم النبيين وان ادم لمنجدل فی طينته وساخبرکم باول امری، دعوة ابراهيم وبشارة عيسٰی ورؤيا امی التی رأت حين وضعتنی وقد خرج لها نور اضاء لها منه قصور الشام ۔
ترجمہ : میں اللہ کے ہاں آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام کا خمیر مٹی سے بن رہا تھا ۔ اب میں تم کو اپنی پہلی بات بتاٶں گا ۔ کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، عیسی علیہ السلام کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کا وہ منظر ہوں جو میری پیدائش کے وقت انہوں نے دیکھا ۔ کہ ان کے جسم اقدس سے عظیم نور نکلا جس سے شام کے محلات ان پر روشن ہو گئے ۔ (مشکوة صفحہ 513،چشتی)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا ۔ وجهه مثل السيف ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ روشن تلوار کی طرح چمکتا تھا ؟ انہوں نے کہا لا نہیں ۔ بل کان مثل الشمس والقمر بلکہ سورج اور چاند کی طرح۔ مسلم ۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ۔ لم ارقبله ولا بعده مثله صلی الله عليه وسلم ، میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا ۔

ترمذی شریف میں آیا ہے کہ محمد عمار بن یاسر کے بیٹے ابو عبیدہ کہتے ہیں میں نے ربیع بنت معاذ بن عفراء سے عرض کی صفی لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان کریں ۔ بولیں ، بیٹا ! اگر تم سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ۔

رَاَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً ۔ دیکھتے کہ سورج طلوع ہورہا ہے ۔ سنن دارمی ۔

جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی دیکھتا اور چاند کو بھی ۔ آپ کے جسم اقدس پر سرخ رنگ کا حلہ تھا ، فاذا هو احسن عندی من القمر ، تو آپ میری نظر میں چاند سے زیادہ حسین تھے ۔ ترمذی ، دارمی ۔

ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : مارأيت شيئا احسن من رسول الله صلی الله عليه وسلم ۔میں نے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھی ۔
کأنّ الشمس تجری فی وجهه ۔ گویا سورج آپ کے چہرہ اقدس میں پیر رہا ہے ۔ ترمذی ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کرتے تھے ۔ کالنور يخرج من بين ثناياه ۔ گویا سامنے کے دو دانتوں سے نور نکل رہا ہے ۔ دارمی ۔

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ اقدس یوں چمک اٹھتا جیسے قطعۃ قمر چاند کا ٹکڑا ۔ متفق علیہ ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائے نور

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں دعا مانگتے : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِيْ قَلْبِيْ نُوْرًا وَّ فِيْ بَصْرِيْ نُوْراً وَّفِی سَمِعْی نُوْراً وَّعَنْ يَمِيْنِيْ نُوْراً وَّعَنْ يَسَارِيْ نُوْراً فَوْقِيْ نُوْراً وَّ تَحْتِيْ نُوْراً وَّاَمَا مِيْ نُوْراً ۔
ترجمہ : اے اللہ ! میرے دل میں نور پیدا فرما ۔ اور میری آنکھ (نظر) میں نور پیدا فرما ۔ میرے کان (شنوائی) میں نور پیدا فرما ۔ میرے دائیں نور ۔ اور میرے بائیں نور، میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور اور 10 میرے لیے نور وَّخَلْفِيْ نُوْراً وَّاجْعَلْ لِيْ نُوْراً ۔ عصبی ، لحمی ۔ دمی ، شعری ، بشری کردے۔ دوسری روایت میں ہے میرا پٹھہ ، گوشت ، خون ، میرے بال ، میرا چمڑا ۔ (صحيح بخاری صفحہ 935 جلد 2 طبع کراچی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر دعاء مقبول بارگاہ ہے ۔ لازم ہے کہ یہ دعائے نور بھی مقبول ہو ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں نور ثابت ہو گئے تو اس دعاء کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی دعاء اس لیے ہوتی ہے کہ جو بندے کے پاس نہیں وہ مل جائے اور کبھی اس لیے کہ جو ہے اس میں برکت ہو ۔ اضافہ ہو ۔ دوام ہو ۔ ہم فاتحہ میں ہمیشہ ہدایت کی اور سیدھی راہ چلنے کی دعاء مانگتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ مانگتے تھے اور ہر مسلمان ہمیشہ یہ دعاء مانگ رہا ہے اور مانگتا رہے گا ۔

اس کا یہی مفہوم ہے : ⏬

تو ہے سایہ نور کاہر عضو ٹکڑا نور
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے، نہ سایہ نور کا

اہل لعنت : النور ههنا هو سيدنا محمد رسول الله صلی الله عليه وسلم ای جاء کم نبی وکتاب ۔
ترجمہ : اس جگہ نور ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ یعنی تمھارے پاس نبی تشریف لائے اور کتاب آئی ۔ (لسان العرب لابن منظور افريقی صفحہ 322 جلد 14 طبع بيروت،چشتی)

ابن الاثیر نے کہا نور وہ ہے جس کی روشنی سے اندھا دیکھنے لگتا ہے اور گمراہ راہ پر آجاتا ہے ۔

الظاهر فی نفسه المظهر لغيره ۔
ترجمہ : جو خود ظاہر اور دوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو ۔ (لسان العرب لابن منظور افريقی صفحہ 322 جلد 14 طبع بيروت)

فی صفته صلی الله عليه وسلم انور المتجرد ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم پاک خالص نور تھا ۔ (النهاية لابن الاثير الخدری صفحہ 125 جلد 5 طبع ايران)

امام قاضی ایاض مالکی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : انه کان لا ظل لشخصه فی شمس ولا قمر لانه کان نورا. وان الذباب کان لا يقع علی جسده ولا ثيابه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دھوپ یا چاندنی میں سایہ نہیں تھا ، کیونکہ آپ نور تھے اور مکھی آپ کے جسم اقدس اور کپڑوں پر نہیں بیٹھتی تھی ۔ (الشفاء بتعريف حقوق المصطفی صفحہ 243 جلد 1 طبع مصر)

ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان اذا مثی لم يکن له ظل ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا ۔ (مفردات راغب صفحہ 315 طبع کراچی)

ظل اور فئی کی تحقیق : ⏬

ظلالهم اشخاصهم ، ان کے ظلال یعنی ذاتیں ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے : کافر غیراللہ کے آگے سجدہ کرتا ہے اور اس کا ظل یعنی جسم جس کا ظل ہے ، اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے ۔ ظل الشئی ۔ کنہ کسی چیز کا حفاظتی پردہ ۔ ظل کل شئی شخصہ ۔ ہر چیز کا ظل ، اس کی ذات ۔ (لسان العرب لابن منظور صفحہ 261 جلد 8 طبع بيروت،چشتی)(النهاية لابن الاثير صفحہ 161 جلد 3 طبع ايران)

تیرے اور سورج کے درمیان جب کوئی شے حائل ہوجائے تو اس سے پیدا ہونے والا سایہ ظل اور فئی ہے ۔ سورج ڈھلتے وقت تک ظل اور س کے بعد فئی کہلاتا ہے ۔ (نهاية صفحہ 159 جلد 3)

کبھی ظل بول کر عزت ، طاقت اور خوشحالی مراد ہوتی ہے ۔ اظلنی فلان ۔ حرسنی ۔ فلاں نے میری حفاظت کی ۔ (مفردات راغب صفحہ 314)

ذات کو ظل کہا جاتا ہے جیسے شاعر کہتا ہے ۔ لما نزلنا رفعنا ظل اخبية ۔ جب ہم اترے تو خیموں کو نصب کیا۔ یہاں ظل سے مراد خیمے ہیں۔ کہ انہی کو نصب کیا جاتا ہے نہ کہ سائے کو ۔ (مفردات راغب صفحہ 315 طبع کراچی)

الظل من کل شئی شخصه ۔ ہر چیز کا ظل اس کی ذات ۔ (تاج العروس سيد مرتضيٰ الزبيدی صفحہ 426 جلد 7 طبع بيروت)

جسم کثیف پر جب روشنی پڑتی ہے تو اس کا جسم کا سایہ پیدا ہوتا ہے جو دیوار، درخت یا زمین وغیرہ پر نظر آتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم میں نور اور سراج منیر (روشنی دینے والا چراغ) فرمایا گیا ہے لہٰذا آپ کی نورانیت کی وجہ سے آپ کے جسم اقدس کا سایہ نہ تھا ۔ علمائے امت میں سے کسی قابل ذکر عالم نے آپ کی نورانیت کا انکار نہیں کیا ۔ وجہ یہ ہے کہ نور کا انکار کرنے سے اس کی ضد کا اثبات لازم آئے گا ۔ اور نور کی ضد ظلمت و اندھیرا ہے ۔ کس مسلمان کی ہمت ہے کہ اپنے نبی کی نورانیت کا انکار کرکے اس کی ضد یعنی آپ کو اندھیرا و ظلمت و تاریکی کا نام دے ؟ یاد رہے کہ نور کے مقابلہ میں بشر نہیں ، اندھیرا ہے ۔ نور و بشر میں کوئی تضاد نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں ۔ بشر بھی ۔ ہاں نور و ظلمت میں تضاد ہے ۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر گز ہر گز ظلمت و اندھیرا نہیں مانتے ۔ نور مانتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن وحدیث و عربی لغت کے حوالوں سے یہ حقیقت ہم واضح کر چکے ہیں ۔ یونہی ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بشر مانتے ہیں ۔ جو بشریت کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں ۔ کہ قرآن و حدیث و حقائق کا منکر ہے ۔

سایہ کی روایات اور ان کی حقیقت و مفہوم : ⏬

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عہنا فرماتی ہیں کہ دوران سفر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہو گیا ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فالتو اونٹ تھا ۔ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، صفیہ کا اونٹ بیمار ہو گیا ہے اگر تم اسے اپنا اونٹ دے دو تو بہتر ہو ، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بولیں ، میں اس یہودیہ کو دوں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ذوالحجہ اور محرم دو مہینے ، یا تین مہینے صفر بھی چھوڑے رکھا ۔ ان کے پاس تشریف نہ لاتے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، یہاں تک میں آپ سے مایوس ہو گئی ۔ (نہ جانے ملیں نہ ملیں) اور میں نے اپنی چارپائی بستر اٹھا لیا ۔ فبينما انا يوما بنصف النهار اذا انا بظل رسول الله صلی الله عليه وسلم مقبل ، اسی اثناء میں ایک دن دوپہر کے وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو سامنے سے آتے دیکھا ۔ (مسند احمد صفحہ 132 جلد 6 طبع بيروت،چشتی)

جن حضرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت سے کد ہے اور بہر صورت آپ کی ذات ستودہ صفات کےلیے تاریک سایہ ثابت کرنے کے درپے ہیں پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے اپنا مدعا ثابت کر دیا ۔ حدیث پیش کر دی ۔ حالانکہ ظل کا مطلب ہم نے لغت عرب کی معتبر و مستند کتب سے باحوالہ نقل کر دیا ہے کہ جس طرح اس کا مطلب تاریک سایہ ہے اسی طرح ذات بھی ہے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن و حدیث میں نور فرمایا گیا تو آپ کا تاریک سایہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ ۔ نور کی تو نورانی شعاعیں ہوتی ہیں ۔ کرنیں ہوتی ہیں ۔ اس حدیث پاک میں بھی ظلِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔

اللہ کا ظل : ہم نے ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا ، کہ ظل کا مطلب جیسے مادی کثیف چیزوں کا تاریک سایہ ہے اسی طرح اس کا مفہوم ذات اور شخص ہے ۔ لہٰذا دلائلِ شرعیہ کو پیش نظر رکھ کر ہی اس کا مفہوم متعین کیا جائے گا مگر بعض کم عقل و بدفہم لوگ اسی بات پر اڑے رہتے ہیں کہ ظل کا مطلب تاریک و کثیف سایہ ہے جیسے ہمارا ، تمہارا اور ہر مادی چیز کا ۔ وہ اس حدیث پاک پر بار بار غور کریں شاید اللہ پاک شفاء دیدے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ پاک قیامت کے دن فرمائے گا۔ میری عزت و جلال کی بنا پر آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں ؟ ۔ اَلْيَوْمَ اُظِلُّهُمْ فِيْ ظِلِّيْ يَوْمَ لاَ ظِلَّ اِلاَّ ظِلِّيْ ، آج میں ان کو اپنے سایہ میں ، زیر سایہ رکھوں گا ۔ جس دن میرے سائے کے بغیر کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (مشکوة صفحہ 425،چشتی)

ظل کا لفظ دیکھتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے تاریک کثیف سایہ ثابت کرنے والے ایمان و عقل کو سامنے رکھ کر بتائیں اللہ عزوجل کا سایہ اسی طرح ثابت کرو گے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثابت کرتے ہو ؟

اس تمام تحقیق و گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و حدیث کے مطابق نور بھی ہیں ۔ بشر بھی ، نورانیت کی وجہ سے آپ کا تاریک سایہ نہیں تھا ۔ آیت و روایت میں جہاں کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے ظل کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تاریک سایہ نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور شخصیت مراد ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق سلف و خلف ، تمام علماء ، محدثین ، مفسرین ، اہل سیر علیہم الرحمہمتفق ہیں ۔ مثلاً چند اسماء گرامی ملاحظہ فرمائیں ۔ (حکيم ترمذی عن ذکوان. نور دراالاصول فی معرفة الرسول) (امام عبدالباقی زرقانی. زرقانی شرح مواهب اللدنيه صفحہ 220 جلد 4 طبع مصر) (امام راغب اصفهانی مفردات صفحہ 317 طبع مصر)(امام قاضی عياض کتاب الشفاء صفحہ 244 جلد 1 طبع مصر) (شهاب الدين خفاجی نسيم الرياض صفحہ 391 جلد 3 مصری)(سيرة حليه صفحہ 422 جلد 3 طبع مصر)(تفسيه مدارک صفحہ 102 جلد 2 طبع مصر)(تفسير عزيزی شاه عبدالعزيز دهلوی جلد3 صفحہ 219) (شيخ عبدالحق محدث دهلوی مدارج النبوت صفحہ 161 جلد 2)(امام ابن حجر مکی افضل القريٰ)(مجدد الف ثانی مکتوبات ربانی صفحہ 187 ، 337 جلد 3 طبع نور کشور لکهنو)(مولوی رشيد احمد گنگوهی ديوبندی امداد السلوک)(خصائص کبريٰ سيوطی) (عزيز الفتاويٰ مفتی عزيز الرحمن ديو بندی) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)