Thursday 2 May 2024

افضلیت و فضیلت میں فرق تفضیلیوں کے فریب کا جواب

0 comments
افضلیت و فضیلت میں فرق تفضیلیوں کے فریب کا جواب
محترم قارئینِ کرام : فضیلت باب فضائل سے ہے ۔ اس کے واسطے ضعیف احادیث بھی کافی ہیں،لیکن افضلیت باب عقائد سے ہے ۔ اس کے ثبوت کے لیے ضعیف احادیث نا کافی ہیں ۔ عہدِ حاضر میں نیم روافض تفضیلیوں نے ادھم مچا رکھا ہے ۔ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضیلت قطعی دلیل سے ثابت ہے ۔ اس کے بالمقابل ضعیف احادیث پیش کر کے شیر خداحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی افضلیت ثابت کرتے ہیں ، حالانکہ احادیثِ ضعیفہ سے افضلیت ثابت نہیں ہو سکتی ۔ افضلیت باب عقائد سے ہے ، خالص باب فضائل سے نہیں ۔ باب فضائل میں بھی احادیثِ ضعیفہ اسی وقت قابل قبول ہیں ، جب کسی قوی دلیل کے مخالف نہ ہوں ۔اگر قوی دلیل کی مخالفت ہوتو حدیث ضعیف فضائل میں بھی مقبول نہیں ۔
 
اہل سنت و جماعت کا متفقہ اور  اجماعی عقیدہ ہے کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ انبیاء و مرسلین (رسل بشر اور رسل ملائکہ) کے  بعد علی الاطلاق تمام انس و جن اور فرشتوں سے "افضل" ہیں ۔

اس معنیٰ "افضلیت" کی تفہیم و تعیین میں معاون چند ضروری امور ہدیہ قارئین ہیں ۔

افضل : افعل کے وزن پر اسم تفضیل کا صیغہ ہے ، جس میں معنی حقیقی کے اعتبار سے  دوسرے کی بہ نسبت زیادتی ہوتی ہے ۔ اور معنیٰ یہ ہوتے ہیں کہ "افضل و مفضول"  دونوں میں ایک ہی قسم کی فضیلت ہے مگر افضل میں وہ فضیلت زیادہ ہے اور مفضول میں کم ۔

کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ افضل میں "صفت فضیلت" ہوتی ہے اور مفضول میں نہیں ہوتی ۔ جیسے زید عالم ہو اور حامد جاہل تو کہا جاتا ہے کہ زید حامد سے افضل ہے ۔ 

شرعی اعتبار سےافضلیت کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے : (1) ظاہری افضلیت یعنی نیک اعمال جیسے نماز ، روزہ وغیرہ کی زیادتی ۔ (2) باطنی افضلیت یعنی خلوص دل ، پرہیزگاری اور اجرو ثواب کی زیادتی ۔ 

یہ بھی مد نظر رہے کہ کثرت اجر و ثواب کا مفہوم اللہ تعالی کے نزدیک زیادتِ کرامت اور کثرتِ قرب و وجاہت ہے ۔ (حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت اسی معنیٰ کے لحاظ سے ہے) ۔ نہ کہ جنت کے مطاعم و ملابس و ازواج و خدم و حور و قصور میں زیادتی ۔

شرح مقاصد میں ہے : الكلام في الأفضليت بمعنى الكرامة عند الله تعالى ، و كثرة الثواب ۔ (شرح مقاصد جلد 3 صفحہ 523 الفصل الرابع في الامامة)

الصواعق المحرقہ میں ہے : ثم يجب الايمان والمعرفة بأن خير الخلق و أفضلهم و أعظمهم منزلة عند الله بعد النبيين والمرسلين وأحقهم بخلافة  رسول الله أبو بكر الصديق ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ 706 خاتمہ فی امور مہمۃ)

باطنی افضلیت کا مفہوم "زیادت کرامت اور کثرت قرب و وجاہت ہے" ، اس پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے ایک عقلی دلیل بھی پیش فرمائی ، تاکہ ہر عام و خاص کے ذہن میں افضلیت کا معنیٰ واضح ہو جائے ۔ فرماتے ہیں: دو درباریوں نے بادشاہ کو اپنی عمدہ کار گزاریوں سے راضی کیا بادشاہ نے ایک کو ہزار اشرفی دے کر پائے تخت کے نیچے جگہ دی ۔ دوسرے کو انعام تو ایک لاکھ اشرفی ملا، لیکن مقام اس پہلے کی کرسی منصب سے نیچے ۔ پھر فرماتے ہیں : اے انصاف والی نگاہ : اہل دربار میں افضل کسے کہا جائے گا ؟
اس مثال سے واضح ہوا کہ بلاشبہ جس کو بادشاہ سے زیادہ قرب ہے ، وہی سب سے زیادہ فضیلت والا ہے ۔
اس کے بعد اس معنی کو کثیر دلائل سے ثابت فرمایا اور  اخیر میں تحریر فرمایا : بالجملہ سنیوں کا حاصلِ مذہب یہ ہے کہ بعد انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم جو قرب و وجاہت ، و عزت و کرامت ، و علو شان ، و رفعت مکان ، و غزارتِ فخر ، و جلالتِ قدر  بارگاہ حق تبارک و تعالیٰ میں ، حضرا ت خلفائےاربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو حاصل ، ا ن کا غیر اگر چہ کسی درجہ علم و عبادت و معرفت و ولایت کو پہنچے ، اولیٰ ہو  آخری ، اہل بیت ہو یا صحابی ، ہر گز ہر گز اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ مگر شیخین رضی اللہ عنہما کو امورِ مذکورہ میں ختنین رضی اللہ عنہما پر تفوق ظاہر و رجحان باہر ، بغیر اس کے کہ عیاذا باللہ فضل و کمال ختنین میں کوئی قصور و فتور راہ پائے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفح 120 رسالہ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین)
  
یہاں پر یہ بھی پیش نظر رہے کہ افضلیت کی تین صورتیں ہوتی ہیں :

افضلیت جزئیہ : یعنی افضل فضیلت کے کسی خاص باب میں بڑھا ہوا ہو ۔
جیسے زید عمر سے علم نحو میں افضل ہے ۔

افضلیت کلیہ افرادیہ : یعنی افضل فضیلت کے ہر باب میں مفضول سے بڑھا ہوا ہو ۔

افضلیت کلیہ مجموعیہ : یعنی افضل مجموعی طور پر مفضول سے بڑھا ہوا ہو ۔ جیسے مرد مجموعی طور پر عورت سے افضل ہے ۔

اس افضلیت کو افضلیت مطلقہ بھی کہتے ہیں ۔ جیسے زید کو جتنے مسائل یاد ہوں ، بکر کو بھی اتنے ہی مسائل یاد ہوں ، مگر زید کو ان کی معرفت دلائل کے ساتھ ہو اور بکر کو دلائل کے بغیر تو علی الاطلاق کہیں گے کہ زید بکر سے افضل ہے ۔

افضلیت جزئیہ اور افضلیت مطلقہ میں منافات نہیں ۔ یعنی ہو سکتا ہے کہ زید کو عمرو پر "افضلیت مطلقہ" حاصل ہو اور عمرو کو زید پر افضلیت جزئیہ ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعد باطنی افضلیت کلیہ افرادیہ تو درکنار ظاہری افضلیت کلیہ افرادیہ بھی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی ،
کیوں کہ دنیا میں بہت سے لوگ کوئی نہ کوئی ایسا نیک کام کر لیتے ہیں جو دوسرے کیے ہوئے نہیں ہوتے ۔ رہی افضلیت جزئیہ تو وہ  حدیث اور قرآن کے مطابق بہت سے صحابہ کو ایک دوسرے پر حاصل ہے ، بلکہ اجمالاً بعض غیر صحابہ کو بھی حاصل ہے ۔

افضلیت کا اثبات دو طریقے سے  ہوتا ہے :

 پہلا طریقہ : یہ ہے کہ افضلیت نصوص شرعیہ سے ثابت ہو جائے ، کہ فلاں ، فلاں سے افضل ہے ۔ یہ احسن و اسلم طریقہ ہے ۔

دوسرا طریقہ : استدلال و استنباط اور ترتیب مقدمات کا ہے ۔ اور یہ طریقہ تنقیح طلب ۔

 اس کی توضیح یہ ہے کہ بنائے تفضیل دو چیزیں ہیں : اول : ما فیہ التفاضل ۔ اس میں افضل و مفضول دونوں مشترک ہوتے ہیں ۔ مگر بالتشکیک کہ افضل میں زیادہ اور مفضول میں کم ۔ دوم : ما بہ الافضلیت ، یعنی جو مافیہ التفاضل میں افضل کی زیادت کرے ۔ اور یہ صرف  ذات افضل کے ساتھ قائم  ہوتا ہے ۔ اور مفضول کا اس میں افضل کے  کم و کیف کے ساتھ اشتراک نہیں ہوتا ۔ جیسے شمشیرِ تیز براں کو تیغِ کند ناکارہ پر تفضیل ہے ۔

اس مثال میں ما فیہ التفاضل "قطع و جرح" ہے کہ "شمشیرِ براں" خوب کاٹتی ہے اور "تیغ کند" قطع میں قصور کرتی ہے ۔ اور ما بہ الافضلیت "خوش آبی و پاکیزہ جوہری" ہے ، جو "شمشیرِ براں" کے ساتھ مختص ہے ۔

"باب افضلیت" میں مافیہ التفاضل تو واضح ہے  اور ما بہ الافضلیت کا ادراک نہایت غامض اور مزلت اقدام ہے ۔ اہل سنت و جماعت کا مرجع ہر بات میں قرآن کریم، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ اور مقام شرح و تفسیر میں پیشوا و مقتدا اکابر کے اقوال ۔ اس باب میں غور کریں تو تفسیر ، شرح حدیث اور اقوال سلف پر مابہ الافضلیت ۔ زیادت تقوی ، سبقت الی الخیرات ،  زمانہ غربت اسلام میں دین کی اعانت ، فضل صحبت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، کثرت نفعِ اسلام وغیرہ امور کثیرہ وغیرہ اوصاف ہیں ۔ 

ان امور کی وضاحت کے بعد افضلیت حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ کا مفہوم یہ ہوا کہ : عند اللہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو  زیادت کرامت اور کثرت قرب و وجاہت حاصل ہے ۔ اور بعد انبیا و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اس مقام رفیع میں آپ کا کوئی سہیم نہیں ۔ نیز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت ، افضلیت مطلقہ ہے ۔ یونہی مابہ الافضلیت والے اوصاف میں اس  کم و کیف کے ساتھ جو آپ کےلیے ہے ، آپ کا کوئی سہیم و شریک نہیں ۔

فضیلت و افضلیت میں فرق : فضیلت و افضلیت میں زمین آسمان کا فرق ہے وہ (فضیلت) اسی باب سے ہے جس میں ضعاف بالاتفاق قابل قبول اور یہاں (افضلیت میں) بالاجماع مردود و نامقبول ۔ قبول ضعاف صرف محل نفع بے ضرر میں ہے جہاں ان کے ماننے سے کسی تحلیل یا تحریم یا اضاعت حق غیر غرض مخالفت شرع کا بوجہ من الاجوہ اندیشہ نہ ہو ۔ فضائل رجال مثل فضائل اعمال ایسے ہی ہیں ، جن بندگان خدا کا فضل تفصیلی خواہ صرف اجمالی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے ان کی کوئی منقبت خاصہ جسے صحاح و ثوابت سے معارضت نہ ہو اگر حدیث ضعیف میں آئے اس کا قبول تو آپ ہی ظاہر کہ ان کا فضل تو خود صحاح سے ثابت ، یہ ضعیف اسے مانے ہی ہوئے مسئلہ میں تو فائدہ زائدہ عطا کرے گی اور اگر تنہا ضعیف ہی فضل میں آئے اور کسی صحیح کی مخالفت نہ ہو وہ بھی مقبول ہوگی کہ صحاح میں تائید نہ سہی خلاف بھی تو نہیں ۔ بخلاف افضلیت کے کہ اس کے معنی ایک کو دوسرے سے عنداللہ بہتر و افضل ماننا ہے یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا ورسول جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے خوب ثابت و محقق ہو جائے ، ورنہ بے ثبوت حکم لگادینے میں محتمل کہ عنداللہ امر بالعکس ہو تو افضل کو مفضول بنایا ، یہ تصریح تنقیص شان ہے اور وہ حرام تو مفسدہ تحلیل حرام وتضیع حق غیر دونوں درپیش کہ افضل کہنا حق اس کا تھا اور کہہ دیا اس کو ۔ یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو ۔ پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے ، جہاں عقائد حقہ میں ایک جانب کی تفصیلی محقق ہو ۔ اور اس کے خلاف احادیث مقام وضعاف سے استناد کیا جائے ، جس طرح آج کل کے جہال حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر تفضیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم میں کرتے ہیں ۔ یہ تصریح مضادت شریعت و معاندت سنت ہے ۔ ولہٰذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا ۔ کمابیناہ فی کتابنا المبارک "مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین"(۱۳۹۷ھ) ۔ بلکہ انصافاً اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے قطعاً واجب التاویل ہے اور اگر بفرض باطل صالح تاویل نہ ہو واجب الرد کہ تفضیل شیخین متواتر و اجماعی ہے کما اثبتنا علیہ عرش التحقیق فی کتابنا المذکور اور متواتر و اجماع کے مقابل احاد ہرگز نہ سنے جائیں گے ۔ ولہٰذا امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں زیر حدیث عرض علی عمر بن الخطاب وعلیہ قمیص یجرہ قالوا فما اولت ذلك یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال الدین (مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا اور وہ اپنی قمیص گھسیٹ کر چل رہے ہیں ، صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے ؟ فرمایا دین ۔ ت) فرماتے ہیں : لئن سلمنا التخصیص بہ (ای بالفاروق رضی اللہ تعالی عنہ) فھو معارض بالاحادیث الکثیرۃ البالغۃ درجۃ التواتر المعنوی الدالۃ علی افضلیۃ الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ فلا تعارضھا الاحاد، ولئن سلمنا التساوی بین الدلیلین لکن اجماع اھل السنۃ والجماعۃ علی افضلیتہ وھو قطعی فلا یعارضہ ظنی ۔ (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری باب تفاضل اہل ایمان فی الاعمال مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت جلد ۱ صفحہ ۱۰۶)
اگر ہم یہ تخصیص ان (یعنی فاروق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ مان لیں تو یہ ان اکثر احادیث کے منافی ہے جو تواتر معنوی کے درجہ پر ہیں اور افضلیت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر دال ہیں اور احاد کا ان کے ساتھ تعارض ممکن ہی نہیں اور اگر ہم ان دونوں دلیلوں کے درمیان مساوات مان لیں لیکن اجماع اہلسنت وجماعت افضلیت صدیق اکبر پر دال ہے اور وہ قطعی ہے، تو ظن اس کا معارض کیسے ہوسکتا ہے ۔ (ت)

الجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف سن سکیں ۔ بلکہ موافقت وشرح مواقف میں تو تصریح کی کہ باب عقائد سے ہے اور اس میں احاد صحاح بھی نامسموع ، حیث قال لیست ھذہ المسألۃ یتعلق بھا عمل فیلتفی فیھا بالظن الذی ھوکاف فی الاحکام العلمیۃ بل ھی مسألۃ علمیۃ یطلب فیھا الیقین ۔ (شرح مواقف المرصد الرابع ازموقف سادس فی السمعیات مطبوعہ منشورات الشریف الرضی قم ایران جلد ۸ صفحہ ۳۷۲)
ان دونوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہوجائے جو احکام میں کافی ہوتی ہے بلکہ یہ معاملہ تو عقائد میں سے ہے اس کےلیے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے ۔ (ت)

امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے فضیلت وافضلیت سے متعلق رقم فرمایا :

فائدہ : ۱ : نفیسہ جلیلہ ۔ (فضیلت وافضلیت میں فرق ہے ۔ دربارۂ تفضیل حدیث ضعیف ہرگز مقبول نہیں) 

فضیلت و افضلیت میں زمین آسمان کافرق ہے۔ وہ اسی باب سے جس میں ضعاف بالاتفاق قابل قبول ، اوریہاں بالاجماع مردود و نامقبول ۔

اقول : جس نے قبول ضعاف فی الفضائل کا منشا کہ افاداتِ سابقہ میں روشن بیانوں سے گزرا،ذہن نشین کرلیا ہے ، وہ اس فرق کو بنگاہِ اولیں سمجھ سکتا ہے ۔ قبول ضعاف صرف محل نفع بے ضرر میں ہے ، جہاں اُن کے ماننے سے کسی تحلیل یا تحریم یا اضاعتِ حق غیر ، غرض مخالفت شرع کا بوجہ من الوجوہ اندیشہ نہ ہو ۔

 فضائل رجال مثل فضائل اعمال ایسے ہی ہیں ۔ جن بندگانِ خدا کا فضل تفصیلی ، خواہ صرف اجمالی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے ، اُن کی کوئی منقبت خاصہ جسے صحاح و ثوابت سے معارضت نہ ہو ، اگر حدیث ضعیف میں آئے ، اُس کا قبول تو آپ ہی ظاہر کہ اُن کا فضل تو خود صحاح سے ثابت، یہ ضعیف اُسے مانے ہی ہوئے مسئلہ میں تو فائدہ زائدہ عطا کرے گی ۔ اور اگر تنہا ضعیف ہی فضل میں آئے،اور کسی صحیح کی مخالفت نہ ہو، وہ بھی مقبول ہوگی کہ صحاح میں تائید نہ سہی ، خلاف بھی تو نہیں ۔ بخلاف افضلیت کے کہ اس کے معنی ایک کو دوسرے سے عنداللہ بہتر وافضل ماننا ہے ،  یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا ورسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے خوب ثابت و محقق ہو جائے ، ورنہ بے ثبوت حکم لگادینے میں محتمل کہ عنداللہ امر بالعکس ہو تو افضل کو مفضول بنایا ، یہ تصریح تنقیص شان ہے اور وہ حرام تو مفسدہ تحلیل حرام وتضیع حق غیر دونوں درپیش کہ افضل کہنا حق اُس کا تھا ، اور کہہ دیا اِس کو ۔ یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو،پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے،جہاں عقائدِ حقہ میں ایک جانب کی تفضیل محقق ہو،اور اس کے خلاف احادیث سقام وضعاف سے استناد کیا جائے، جس طرح آج کل کے جہال حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہماپر تفضیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم میں کرتے ہیں ۔ یہ تصریح مضادتِ شریعت ومعاندتِ سنّت ہے ، ولہٰذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا:کمابیناہ فی کتابنا المبارک:مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین (۷۹۲۱؁ھ,چشتی)(جیسا کہ ہم نے اسے اپنی مبارک کتاب“ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین“ میں بیان کیا ہے ۔ ت) 

بلکہ انصافًا اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے ، قطعاً واجب التاویل ہے ، اور اگر بفرضِ باطل صالح تاویل نہ ہو ، واجب الرد کہ تفضیل شیخین متواتر واجماعی ہے : کما اثبتنا علیہ عرش التحقیق فی کتابنا المذکور (جیسا کہ ہم نے اپنی اس مذکورہ کتاب میں اس مسئلہ کی خوب تحقیق کی ہے ۔ ت) اور متواتر واجماع کے مقابل آحاد ہرگز نہ سنے جائیں گے۔

ولہٰذا امام احمد قسطلانی ”ارشاد الساری شرح صحیح بخاری“ میں زیر حدیث : (عرض عَلَیَّ عمر بن الخطاب وعلیہ قمیص یجرّہ-قالوا:فما اولت ذلک یا رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) ؟ قال الدین) ۔ (مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا اور وہ اپنی قمیص گھسیٹ کر چل رہے ہیں ، صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے ؟ فرمایا : دین ۔ ت) 

فرماتے ہیں : (لئن سلّمنا التخصیص بہ(ای بالفاروق رضی اللّٰہ  تعالٰی عنہ) فھو معارض بالاحادیث الکثیرۃ البالغۃ درجۃ التواتر المعنوی الدالۃ علٰی افضلیۃ الصدیق رضی اللّٰہ  تعالٰی عنہ فلا تعارضھا الاحاد-ولئن سلمنا التساوی بین الدلیلین،لکن اجماع اھل السنۃ والجماعۃ علی افضلیتہ وھو قطعی فلا یعارضہ ظنی) ۔ (اگر ہم یہ تخصیص ان (یعنی فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ مان لیں تو یہ ان اکثر احادیث کے منافی ہے جو تواتر معنوی کے درجہ پر ہیں اور افضلیت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر دال ہیں اور آحاد کا ان کے ساتھ تعارض ممکن ہی نہیں،اور اگر ہم ان دونوں دلیلوں کے درمیان مساوات مان لیں ، لیکن اجماعِ اہل سنت وجماعت افضلیت صدیق اکبر پر دال ہے،اور وہ قطعی ہے ، تو ظن اس کا معارض کیسے ہوسکتا ہے۔ ت)

بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف سن سکیں،بلکہ مواقف وشرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے، اور اس میں آحاد صحاح بھی نامسموع:(حیث قالا:لیست ھذہ المسألۃ یتعلق بھا عمل فیکتفی فیھا بالظن الذی ھوکاف فی الاحکام العلمیۃ بل ھی مسألۃ علمیۃ یطلب فیھا الیقین) ۔ (ان دونوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہوجائے جو احکام میں کافی ہوتی ہے، بلکہ یہ معاملہ تو عقائد میں سے ہے، اس کے لیے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے ۔ ت)

فائدہ ۲ : مہمہ عظیمہ ۔ (مشاجرات صحابہ میں تواریخ وسیر کی موحش حکایتیں قطعاً مردود ہیں) 

افادہ : 23 : پر نظر تازہ کیجیے ۔ وہاں واضح ہوچکا ہے کہ کتبِ سیر میں کیسے کیسے مجروحوں، مطعونوں، شدید الضعفوں کی روایات بھری ہیں ۔وہیں کلبی رافضی متہم بالکذب کی نسبت سیرت عیون الاثر کا قول گزرا کہ اُس کی غالب روایات سیر وتواریخ ہیں جنہیں علما ایسوں سے روایت کرلیتے ہیں ، وہیں سیرت انسان العیون کا ارشاد گزرا کہ سیر موضوع کے سوا ہر قسم ضعیف وسقیم وبے سند حکایات کو جمع کرتی ہے، پھر انصافًا یہ بھی انہوں نے سیر کا منصب بتایا جو اُسے لائق ہے کہ موضوعات تو اصلًا کسی کام کے نہیں ، اُنہیں وہ بھی نہیں لے سکتے،ورنہ بنظر واقع سیر میں بہت اکاذیب واباطیل بھرے ہیں : کما لایخفی ۔

بہرحال فرق مراتب نہ کرنا اگر جنوں نہیں تو بدمذہبی ہے ۔ بد مذہبی نہیں تو جنون ہے ۔ سیر جن بالائی باتوں کےلیے ہے ، اُس میں حد سے تجاوز نہیں کر سکتے ۔ اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض ونفاس کے مسئلہ میں بھی سننے کی نہیں ، نہ کہ معاذاللہ اُن واہیات و معضلات وبے سروپا حکایات سے صحابہ کرام حضور سیدالانام علیہ وعلیٰ آلہٖ وعلیہم افضل الصّلاۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا ، اعتراض نکالنا ، اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا ، مگر گمراہ بددین مخالف و مضاد حق مبین ۔
 آج کل کے بدمذہب مریض القلب منافق شعار ان جزافات سیر و خرافات تواریخ و امثالہا سے حضرات عالیہ خلفائے راشدین و ام المومنین و طلحہ و زبیر و معاویہ و عمرو بن العاص ومغیرہ بن شعبہ وغیرہم ، اہل بیت و صحابہ رضی اللہ عنہم کے مطاعن مردودہ ، اور ان کے باہمی مشاجرات میں موحش و مہل حکایات بیہودہ جن میں اکثر تو سرے سے کذب و واحض اور بہت الحاقات ملعونہ روافض چھانٹ لاتے ، اور اُن سے قرآنِ عظیم و ارشاداتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واجماعِ اُمّت واساطین ملّت کا مقاببلہ چاہتے ہیں ۔ بے علم لوگ اُنہیں سُن کر پریشان ہوتے یا فکر جواب میں پڑتے ہیں۔اُن کا پہلا جواب یہی ہے کہ ایسے مہملات کسی ادنیٰ مسلمان کو گنہگار ٹھہرانے کے لیے مسموع نہیں ہو سکتے، نہ کہ اُن محبوبانِ خدا پر طعن جن کے مدائح تفصیلی خواہ اجمالی سے کلام اللہ وکلام رسول اللہ مالامال ہیں: جل جلالہ، وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔

امام حجۃ الاسلام مرشد الانام محمدمحمد محمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں : (لا تجوز نسبۃ مسلم الٰی کبیرۃ من غیر تحقیق ۔ نعم یجوز ان یقال ان ابن ملجم قتل علیا فان ذلک ثبت متواترا) ۔ (کسی مسلمان کو کسی کبیرہ کی طرف بے تحقیق نسبت کرنا حرام ہے۔ ہاں، یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم شقی خارجی اشقی الآخرین نے امیرالمومنین مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو شہید کیا کہ یہ بتواتر ثابت ہے ۔ ت)

حاش للہ ، اگر مؤرخین و امثالہم کی ایسی حکایات ادنیٰ قابلِ التفات ہوں تو اہل بیت و صحابہ درکنار خود حضرات عالیہ انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین صلوات اللہ تعالیٰ و سلامہ علیہم اجمعین سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے کہ ان مہملات مخذولہ نے حضرات سعاداتنا و مولٰینا آدم صفی اللہ و داؤد خلیفۃ اللہ و سلیمان نبی اللہ و یوسف رسول اللہ سے سیدالمرسلین محمد حبیب اللہ صلی اللہ علیہ و علیہم وسلم تک سب کے بارہ میں وہ وہ ناپاک بیہودہ حکایات موحشہ نقل کی ہیں کہ اگر اپنے ظاہر پر تسلیم کی جائیں تو معاذاللہ اصل ایمان کو رد بیٹھنا ہے ۔

ان ہولناک اباطیل کی بعض تفصیل مع رد جلیل کتاب مستطاب شفا شریف امام قاضی عیاض اور اس کی شروح وغیرہا سے ظاہر ۔ لاجرم ائمہ ملّت وناصحانِ اُمت نے تصریحیں فرمادیں کہ ان جہال وضلال کے مہملات اور سیر و تواریخ کی حکایت پر ہرگز کان نہ رکھا جائے ۔ شفا و شروح شفا و مواہب و شرح مواہب و مدارج شیخ محقق وغیرہا میں بالاتفاق فرمایا ، جسے میں صرف مدارج النبوت سے نقل کروں کہ عبارت فارسی ترجمہ سے غنی اور کلمات ائمہ مذکورین کا خود ترجمہ ہے ۔ فرماتے ہیں : رحمہ اللہ تعالیٰ : ازجملہ توقیر وبرآں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم توقیر اصحاب وبرایشاں است وحسن ثنا ورعایت ادب بایشاں ودُعا واستغفار مرایشاں را،وحق است مرکسے راکہ ثنا کردہ حق تعالیٰ بروے،وراضی ست ازوے کہ ثنا کردہ شودبروے ۔ و سب و طعن ایشاں اگر مخالف ادلہ قطعیہ است ، چناں کہ قذف عائشہ کفر است والا بدعت و فسق است ، کذا قال فی المواہب اللدنیہ ۔ وہم چنیں امساک وکف نفس از ذکر اختلاف و منازعات و وقائع کہ میان ایشاں شدہ و گذشتہ است ۔ و اعراض واضراب از اخبار مورخین وجہلہ رواۃ وضلال شیعہ وغلاۃ ایشاں ومبتدعین کہ ذکرمثالب ومعائب وقوادح وزلات ایشاں کنند کہ اکثر آں کذب وافترا است ۔ و طلب کردن والتماس نمودن در آں چہ نقل کردہ شدہ است از ایشاں از مشاجرات ومحاربات باحسن تاویلات واصوب خارج از جہت بودن ایشاں اہل آں وعدم ذکر ہیچ یکے ازیشاں بہ بدی وعیب بلکہ ذکر حسنات وفضائل وعمائد صفات ایشاں از جہت آں کہ صحبت ایشاں بآں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقینی است وماورائے آں ظنی است ۔ و کافیست دریں باب کہ حق تعالیٰ برگزید ایشاں رابرائے صحبت حبیبہ خود صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔طریقہ اہل سنّت وجماعت دریں باب این است، درعقائد نوشتہ اند:(لا تذکر احدا منھم الا بخیر) وآیات واحادیث کہ درفضائل صحابہ عموماً وخصوصاً واقع شدہ است، دریں باب کافی است - اھ مختصرا ۔
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واحترام درحقیقت آپ کے صحابہ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی ہے،ان کی اچھی تعریف اور رعایت کرنی چاہے،اور ان کے لیے دعا وطلبِ مغفرت کرنی چاہئے، بالخصوص جس جس کی اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے ،اور اس سے راضی ہوا ہے، اس سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے، پس اگر ان پر طعن وسب کرنے والا دلائل قطعیہ کا منکر ہے تو کافر ، ورنہ مبتدع و فاسق ۔ 
اسی طرح ان کے درمیان جو اختلافات یا جھگڑے یا واقعات ہُوئے ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے ، اور ان اخبار واقعات سے اعراض کیا جائے جو مورخین، جاہل راویوں اور گمراہ وغلو کرنے والے شیعوں نے بیان کیے ہیں ، اور بدعتی لوگوں کے ان عیوب اور برائیوں سے جو خود ایجاد کرکے ان کی طرف منسوب کردیے ، اور ان کے ڈگمگا جانے سے ، کیوں کہ وہ کذب بیانی اور افترا ہے ، اور ان کے درمیان جو محاربات ومشاجرات منقول ہیں، ان کی بہتر توجیہ وتاویل کی جائے ، اور ان میں سے کسی پر عیب یا برائی کا طعن نہ کیا جائے ، بلکہ ان کے فضائل ، کمالات اور عمدہ صفات کا ذکر کیا جائے، کیوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ ان کی صحبت یقینی ہے ، اور اس کے علاوہ باقی معاملات ظنی ہیں ۔ اور ہمارے ل یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃوالسلام کی محبت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ اہل سنت وجماعت کا صحابہ کے بارے میں یہی عقیدہ ہے، اس لیے عقائد میں تحریر ہے کہ صحابہ میں سے ہر کسی کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کیا جائے ، اور صحابہ کے فضائل میں جو آیات و احادیث عموماً یا خصوصاً وارد ہیں،وہ اس سلسلہ میں کافی ہیں ۔ اھ مختصرا۔ت)

امام محقق سنوسی وعلامہ تلمسانی ، پھر علّامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں : (مانقلہ المؤرخون قلۃ حیاء وادب)(مؤرخین کی نقلیں قلت حیا وادب سے ہیں) 

امام اجل ثقہ مثبت حافظ متقن قدوہ یحییٰ بن سعید قطان نے کہ اجلّہ ائمہ تابعین سے ہیں،عبداللہ قوایری سے پُوچھا:کہاں جاتے ہو؟ کہا: وہب بن جریر کے پاس سیر لکھنے کو ۔ فرمایا : (تکتب کذبا کثیرا)(بہت سا جھوٹ لکھوگے) ۔ (ذکرہ فی المیزان) (اس کا ذکر میزان میں ہے ۔ ت)

تفصیل اس مبحث کی اُن رسائل فقیر سے لی جائے کہ مسئلہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں تصنیف کیے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 585 - 580 جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)

انبیاء و مرسلین کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل ہستی حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت ، فضیلتِ مطلقہ ہے  اور اس اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سے جو قرب و وجاہت ، عزت و کرامت ، علوِ شان و رفعتِ مکان حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے ، کسی اور کو حاصل نہیں ، حسب نسب یا خلافت کے اعتبار سے یہ فضیلت نہیں ہے ، لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ کو یہ فضیلت سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے والدین کریمین پر بھی حاصل ہے ، البتہ بعض جزوی فضیلتیں دیگر ہستیوں کو حاصل ہیں ،جیسے سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے والدین ہونے کا شرف یقینا والدین کریمین رضی اللہ عنہما ہی کو حاصل ہے۔ اسی طرح دیگر کئی جزوی فضیلتیں ایسی ہیں ، جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل نہیں ، لیکن دیگر اصحاب کو حاصل ہیں اور اس سے آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلتِ مطلقہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔

امام ابو احمد ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ( سالِ وفات 365 ھ ) حدیثِ پاک نقل کرتے ہیں : قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أبو بكر وعمر خير الأولين وخير الآخرين وخير أهل السماوات وخير أهل الأرضين إلا النبيين والمرسلين ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پہلے والوں اور بعد والوں ، زمین والوں اور آسمان والوں میں سے انبیاء و مرسلین کے علاوہ باقی تمام سے بہترین ہیں ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال جلد 2 صفحہ 443 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

افضلیت سے مراد کیا ہے ؟

اس سے متعلق علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : هما أعلى المؤمنين صفة وأعظمهم بعد الأنبياء قدرا ۔
ترجمہ : حضرت ابوبکر صدیق و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما مومنین میں سے سب سے زیادہ صفت کے اعتبار سے اعلیٰ ہیں اور (بارگاہ الٰہی میں) انبیاء کے بعد مومنین میں سے سب سے بڑی قدر و منزلت والے ہیں ۔ (التیسیر شرح جامع الصغیر جلد 2 صفحہ 172 مطبوعہ بیروت)

شرح مواقف میں ہے : و مرجعھا ای مرجع الافضلیۃ التی نحن بصددھا الی کثرۃ الثواب و الکرامۃ عند اللہ ۔
ترجمہ : جس افضلیت سے متعلق ہم بحث کر رہے ہیں  ، اس کا مرجع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثواب کی کثرت اور عزت و کرامت ( ان حضرات کی ) ہے ۔ (شرح المواقف المرصد الرابع المقصد الخامس الافضل بعد الرسول جلد 3 صفحہ 638 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

نسب کے اعتبار سے یہ فضیلت نہیں ، جیسا کہ شرح عقائد کی شرح نبراس میں ہے : ’’ ذکر المحققون ان فضیلۃ المبحوث عنھا فی الکلام ھی کثرۃ الثواب ای عظم الجزاء علی اعمال الخیر لاشرف النسب  ‘‘ ترجمہ : محققین نے ذکر کیا ہے کہ جس فضیلت سے متعلق ہم بات کر رہے ہیں ، اس سے مراد یہ ہے کہ ثواب کا زیادہ ہونا اور اعمالِ صالحہ پر جزاء کا عظیم ہونا ، نہ کہ نسب کے اعتبار سے شرف حاصل ہونا ۔ (النبراس افضل البشر بعد الانبیاء الخ صفحہ 299 مطبوعہ ملتان)

نوٹ : علماء کے کلام میں افضلیت کی شرح میں جو کثرتِ ثواب کہا گیا ہے ، اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ کثرتِ ثواب سے زیادتِ قرب مراد لیتے ہیں ، کہ بنی نوع انسان میں قرب بذریعۂ اعمال حاصل ہوتا ہے ، اسی طرح کثرتِ نفع فی الاسلام قوت کیفیتِ ایمانیہ کا اثر و ثمرہ اور یہی کیفیت وجہِ تفاضلِ انبیاء و ملائکہ ہے ۔ (حاشیہ مطلع القمرین (جدید تخریج شدہ) صفحہ 124 مطبوعہ مکتبہ بہارِ شریعت لاہور )

افضلیت کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : سنیوں کا حاصلِ مذہب یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام کے بعد جو قرب و وجاہت و عزت و کرامت و علوِ شان و رفعتِ مکان و غزارتِ (وفور و کثرت) فخر و جلالتِ قدر بارگاہِ حق تبارک و تعالیٰ میں حضراتِ خلفاء اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو حاصل ، ان کا غیر اگرچہ کسی درجۂ علم و عبادت و معرفت و ولایت کو پہنچے ، اولیٰ ہو یا آخری ، اہل بیت ہو یا صحابی ، ہر گز ہرگز اس تک نہیں پہنچ سکتا ، مگر شیخین کو امورِ مذکورہ میں ختنین پر تفوق ظاہر و رجحان باہر ، بغیر اس کے کہ عیاذ باللہ فضل و کمالِ ختنین میں کوئی قصور و فتور راہ پائے اور تفضیلیہ دربارہ جناب مولیٰ اس کا عکس مانتے ہیں ۔ یہ ہی تحریر مادۂ نزاع ، بحمد اللہ اس نہجِ قویم و اسلوبِ حکیم کے ساتھ جس میں ان شاء اللہ تعالیٰ شک مشکک و وہمِ واہم کو اصلاً محلِ طمع نہیں ۔ ( مطلع القمرین (جدید تخریج شدہ) صفحہ 114 مطبوعہ مکتبہ بھارِ شریعت لاہور)

امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو نسب کی بناء پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینے والے شخص سے متعلق سوال ہوا ، تو جواباً آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر وہ یہ کہتا کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما بوجہ جزئیت کریمہ ایک فضل جزئی حضرات عالیہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم پر رکھتے ہیں اور مرتبہ حضرات خلفاء رضی اللہ عنہم کا اعظم و اعلیٰ ہے ، تو حق تھا ، مگر اس نے اپنی جہالت سے فضل کلی سبطین کو دیا اور افضل البشر بعد الانبیاء ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو عام مخصوص منہ البعض ٹھہرایا اور انہیں امیر ا لمومنین مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے افضل کہا ، یہ سب باطل اور خلاف اہلسنت ہے ، اس عقیدہ باطلہ سے توبہ فرض ہے ، ورنہ وہ سنی نہیں اور اس کی دلیل محض مردود و ذلیل ۔ اگرجزئیت موجبِ افضلیت مرتبہ عنداللہ ہو ، تو لازم کہ آج کل کے بھی سارے میر صاحب اگرچہ کیسے ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوں اللہ عزوجل کے نزدیک امیر المومنین مولیٰ علی سے افضل واعلیٰ ہوں اور یہ نہ کہے گا مگر جاہل اجہل مجنون یا ضال مضل مفتون ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 274 تا 276 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

انبیاء و مرسلین علیہم  السلام کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔اس پر تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع ہے اور اس عقیدے پر بہت ساری احادیثِ نبویہ ، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین علیہم الرحمہ کے اقوال موجود ہیں ، کسی بھی صحابی کا اس کے خلاف عقیدہ نہیں تھا ، بلکہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو شیخین رضی اللہ عنہما پر فضیلت دینے والے سے متعلق آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ہی سزا کی روایت منقول ہے اور یہی مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت حسب نسب  یا خلافت  کے اعتبار سے نہیں ، بلکہ مطلقہ ہے ، یعنی بغیر کسی خاص وصف کا لحاظ کیے یوں ہے کہ قربِ الٰہی  و کثرتِ ثواب میں آپ بقیہ سب سے فائق ہیں ، جیسا کہ پہلے جواب میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رآني النبي (صلى اللہ عليه وسلم) وأنا أمشي أمام أبي بكر الصديق فقال يا أبا الدرداء أتمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة ما طلعت الشمس ولا غربت على أحد بعد النبيين والمرسلين أفضل من أبي بكر ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ، تو ارشاد فرمایا : اے ابودرداء ! کیا تم ایسے شخص کے آگے چل رہے تھے ، جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے ۔ انبیاء و مرسلین کے علاوہ کسی بھی ایسے شخص پر سورج طلوع و غروب نہیں ہوا ، جو ابوبکر سے افضل ہو ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 30 صفحہ 209 مطبوعہ دار الفکر بیروت،چشتی)

امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 509 ھ) حدیثِ پاک نقل کرتے ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أتاني جبريل قلت يا جبريل من يهاجر معي قال أبو بكر وهو يلي أمر أمتك من بعدك وهو أفضل أمتك ۔
ترجمہ : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے ، تو میں نے کہا : اے جبریل ! میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی امت کے والی ہوں گے اور آپ کی امت میں سے سب سے افضل ہیں ۔(الفردوس بماثور الخطاب جلد 1 صفحہ 404 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

صحابی ابن صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کنا نقول ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعد نبیھا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر و عمر و عثمان و یسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاینکرہ ۔
ترجمہ : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہم افضل ہیں ، پس یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے اور آپ انکار نہ فرماتے ۔ (المعجم الکبیر جلد 12 صفحہ285 مکتبۃ العلوم و الحکم الموصل)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمدبن حنفیہ تابعی ہیں ، آپ فرماتے ہیں : قلت لابی ای الناس خیر بعد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ؟ قال ابوبکر قلت ثم من ؟ قال عمر ۔
ترجمہ : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ توحضرت علی رضی اللہ عنہ  نے جواب دیاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔ میں نے کہا پھر کون افضل ہیں ؟ توآپ نے جواب دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔ (صحیح بخاری باب فضل ابی بکر جلد 1 صفحہ 518 مطبوعہ کراچی،چشتی)

امام اعظم امام ابو حنیفہ (تابعی) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : افضل النا س بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان  ثم علی  بن ابی طالب رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، پھر عمربن خطاب ، پھر عثمان بن عفان ، پھر علی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین افضل ہیں ۔ (فقہ اکبر مع شرح صفحہ61 مطبوعہ کراچی)

حضرت میمون بن مہران رضی اللہ عنہ تابعی ہیں ، آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت علی افضل ہیں یا حضرت ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہم) ؟ تو یہ سنتے ہی آپ کا جسم لرز اٹھا اور آپ کے ہاتھ سے عصا گِر گیا اور فرمایا : ما كنت أظن أن أبقى إلى زمان يعدل بهما ۔
ترجمہ : مجھے گمان نہ تھا کہ میں ایسے زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ حضرت ابوبکر و عمر کے برابر کسی دوسرے کو ٹھہرائیں گے ۔ (تاریخ الخلفاء ، الخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیق صفحہ 31،چشتی)

صحابہ و تابعین کا افضلیتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ پر اجماع تھا ، جیسا کہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 923 ھ) فرماتے ہیں : الافضل بعدالانبیاء علیھم الصلوة والسلام ابوبکر رضی اللہ عنہ وقداطبق السلف علی انہ افضل الامة ۔ حکی الشافعی وغیرہ اجماع الصحابة والتابعین علی ذلک ۔
ترجمہ : انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پر اتفاق کیا ۔ امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پر صحابہ اور تابعین کا اجماع نقل کیا ۔(ارشاد الساری باب فضل ابی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد 8 صفحہ 147 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 676 ھ) فرماتے ہیں : وأجمع أهل السُنة على أن أفضلهم على الإطلاق أبو بكر، ثم عمر ۔
ترجمہ : اہلسنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ میں علی الاطلاق سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (تھذیب الاسماء و اللغات جلد 1 صفحہ 15 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شیخین پر فضیلت دینے والے سے متعلق حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : من فضلني على أبي بكر وعمر جلدتهم حد المفتري ۔
ترجمہ : جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے گا ، میں اسے الزام لگانے والے کی سزا دوں گا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 30 صفحہ 383 مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)

یہ افضلیت خلافت کے اعتبار سے ہے یا ولایت کے اعتبار سے ؟

اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سلسلہ تفضیل عقیدہ اہلسنت میں یوں منتظم ہوا کہ افضل العٰلمین و اکرم المخلوقین محمد رسول رب العٰلمین ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، پھر انبیاء سابقین ، پھر ملائکہ مقربین ، پھر شیخین ، پھر ختنین ، پھر بقیہ صحابہ کرام صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین اور پُر ظاہر کہ سلسلہ واحدہ میں مافیہ التفاضل یعنی وہ امر جس میں کمی بیشی کے اعتبار سے سلسلہ مرتب ہوا ، ایک ہی ہوگا ۔ پس بالضرورۃ وہ امر یہاں بھی ایک ہی ہوگا اور جس بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء اور انبیاء کو تمام ملائکہ اور ملائکہ مقربین کو شیخین پر زیادتی مانی گئی ہے ، بعینہ اسی امر میں شیخین کو جنابِ عثمان و حضرت مرتضوی پر پیشی ۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہم و سلم اجمعین ۔ اب ہم پوچھتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور انبیاء سے افضل کہا جاتا ہے ، تو آیا اس کے سوا کچھ اور معنیٰ و مفہوم ہوتے ہیں کہ حضور کا رتبۂ عالی اور قرب و وجاہت و عزت و کرامت ان سے زیادہ ، اسی طرح جب انبیاء کو ملائکہ اور ملائکہ کو صحابہ سے افضل کہتے ہیں ،  اس معنیٰ کا غیر ذہن میں نہیں آتا ، تو شیخین کو جو مولیٰ علی سے افضل کہا ، وہاں بھی قطعاً یہی معنیٰ لیے جائیں گے ، ورنہ سلسلہ بکھر جائے گا اور ترتیب غلط ہوجائے گی اور جو یہاں زیادتِ اجر وغیرہا معانی مخترع مراد لیتے ہو ، تو بحکمِ مقدمۂ مذکورہ اوپر بھی یہی لینا پڑے گا ، حالانکہ فرشتے بایں معنیٰ اہل ثواب نہیں ، نہ بعض ملائکہ مقربین مثل حملۂ عرشِ عظیم میں باعتبار نفع فی الاسلام کلام جاری ہو اور خلافت تو خلفاء اربعہ سے اوپر کسی میں نہیں ، پھر یہ معانی تراشیدہ کیوں کر درست ہوسکتے ہیں ؟ لطف یہ ہے کہ جیسے اوپر کی ترتیبوں میں تفضیل بمعنیٰ علوِ شان و رفعتِ مکان لیتے آئے ، یوں جب نیچے آکر مولیٰ علی کو بقیہ صحابہ سے افضل کہتے ہیں ، وہاں بھی اسی معنیٰ پر ایمان لاتے ہیں ، بیچ میں شیخین کی نوبت آتی ہے ، تو اگلا پچھلا یاد نہیں رہتا ، نئے نئے معنیٰ گڑھے جاتے ہیں اور اس معنیٰ کے رد پر بڑے بڑے اہتمام ہوتے ہیں ۔ اب بھی دعویٰ انصاف باقی ہے ۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔ (مطلع القمرین (جدید تخریج شدہ) صفحہ 123 تا 124 مکتبہ بہارِ شریعت لاہور ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔