Friday, 24 May 2024

فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری

فضائلِ مدینہ منورہ اور بارگاہِ رسول ﷺ کی حاضری

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔

مدینہ منورہ کائنات ارض و سماوات کا وہ نگینہ ہے ، جہاں ہر لمحہ آسمان سے رحمت کی رم جھم برستی رہتی ہے ، ساکنانِ مدینہ سائبان کرم میں رہتے ہیں اہل مدینہ کو مدینہ کا شہری ہونے کے باعث بے پناہ فضیلت حاصل ہے ۔ یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں جن کے شب و روز کا ہر لمحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادرِ رحمت کے سائے میں گزرتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کا حصار انہیں اپنے دامنِ عطاء و بخشش میں چھپا لیتا ہے ۔ اہل مدینہ کو بتقاضائے بشریت اگر کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حرف شکوہ زبان پر نہیں آنے دیتے تو ایسے اہل مدینہ کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس شخص کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا ۔ (صحيح مسلم کتاب الحج باب الترغيب فی سکنی المدينة والصبر علی لاوائها جلد 2 صفحہ 1004 رقم : 1377)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالَم حیات ظاہری میں حضور (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا ، اب حضورِمزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور پُر نور کی طرف توجہ ، حضور سے تَوَسُّل ، فریاد ، اِستِغاثہ ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ امام علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں : رُوْحُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵/۶۵۴)

قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ نقل کرتے ہیں کہ : حضرت عمرو بن دینار رحمة ﷲ علیہ نے فرمایا : ان لم یکن فی البیت احد فقل : السلام علی النبی و رحمة ﷲ و برکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت و رحمة ﷲ وبرکاتہ "
ترجمہ : اگر کوئی گھر میں نہ ہو تو (داخل ہوتے وقت) یوں کہو : السلام علی النبی و رحمةﷲ وبرکاتہ السلام علینا وعلیٰ عبادﷲ الصالحین السلام علیٰ اھل البیت ورحمتہﷲ وبرکاتہ ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الجزء الثانی صفحہ ٣٠٧ القاضی ابی الفضل عیاض بن موسیٰ بن عیاض المالکی ٥٤٤ھ الیحصُبی الاندلسی ثم المراکشی مطبوعہ دارالحدیث القاھرہ مصر،چشتی)۔(کتاب الشفاء مترجم اردو جلد دوم صفحہ 64 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

شفاء شریف کی شرح کرتے ہوئے امام ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمتہ اس مقام پر آکر یوں فرماتے ہیں : لان روحہ علیہ السلام حاضر فی بیوت اھل الاسلام ۔
ترجمہ : (یعنی السلام علی النبی ورحمةﷲ وبرکاتہ کا حکم اس لیے کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح ہر مسلمان کے گھر میں حاضر ہوتی ہے ۔ (شرح الشفاء الجزء الثانی صفحہ ١١٨ الملا علی قاری الھروی الحنفی علیہ الرحمہ (متوفی ١٠١٤ھ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

الحمد للہ اہلسنت کے وہی عقائد ہیں جو اکابرین اہلسنت کے تھے : حیرت والی بات یہ ہے کہ اکابرین و سلف صالحین علیہم الرّحمہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر مسلمان کے گھر جلوہ فرما مانیں تو ان کے ایمان کی بنیاد مضبوط کی مضبوط ہی رہتی ہے اور اگر متاخرین بزرگانِ اہلسنت اسی عقیدے کو " حاضر و ناظر " کے عنوان سے بیان فرمائیں تو شرک کے فتوے صادر فرما دیئے جاتے ہیں ۔ مخالفین کا یہ دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے ۔

یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے، اپنی مغفرت ونجات کی اِلتِجاء کرنے اور اپنی مشکلات کی دوری چاہنے کا سلسلہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے چلتا آ رہا ہے ۔

حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا : جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا ، نہ پیوں گا ،نہ کوئی چیز چکھوں گا ، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا : اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کےلیے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا ، میں نہیں کھولوں گا ۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نہ کوئی چیز کھائی ، نہ پی ، نہ چکھی ، حتّٰی کہ ان پرغشی طاری ہو گئی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا کر اپنے دستِ اقدس سے مجھے نہیں کھولتے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا ۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ۔۔۔ الخ، ۴/۱۳-۱۴)(خازن، الانفال الآیۃ: ۲۷، ۲/۱۹۰،چشتی)

بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں توبہ و رُجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسا بستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے ، میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں ۔ ارشاد فرمایا : یہ گدا یہاں کیوں ہے ؟ عرض کی : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے خریدا تھا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دئیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو ۔ اور ارشاد فرمایا : جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲/۲۱، الحدیث: ۲۱۰۵،چشتی)

حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بھی تھے جمع ہوکر جَبر وقَدر میں بحث کرنے لگے تو روحُ الْاَمین حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کےلیے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبْنَا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں توبہ پیش کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کو واجب کرلیتے ، میرے پاس جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے ۔ (معجم الکبیر ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲/۵۹ الحدیث: ۱۴۲۳)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے ۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اپنی امت کےلیے بارش کی دعا فرما دیجیے وہ ہلاک ہو رہی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا : تم حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں ۔ حضرت بلال بن حارث رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یہ سن کر رونے لگے ، پھر فرمایا : یا رب عَزَّوَجَلَّ ، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۷/۴۸۲، الحدیث: ۳۵، وفاء الوفائ، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، الفصل الثالث، ۲/۱۳۷۴، الجزء الرابع،چشتی)

ایک مرتبہ مدینۂ منورہ میں شدید قحط پڑا ، اہلِ مدینہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور دیکھو اور چھت میں ایک روشندان بناؤ حتّٰی کہ روضۂ منور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے ، اہلِ مدینہ نے جیسے ہی روشندان بنایا تو اتنی کثیر بارش ہوئی کہ سبز گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہو گئے یہاں تک کہ گوشت سے بھر گئے ۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد موتہ، ۱/۵۶، الحدیث: ۹۲)

بادشاہ ابو جعفرمنصور نے حضرت امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے مسجدِ نبوی شریف میں مناظرہ کیا ، دورانِ مناظرہ ابو جعفر کی آواز کچھ بلند ہوئی تو امام مالک رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِ نے اسے (ڈانٹتے ہوئے) کہا : اے امیرُ المؤمنین! اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا کہ’’ تم اپنی آوازوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند مت کرو ۔‘‘اور دوسری جماعت کی تعریف فرمائی کہ’’ بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پَست کرتے ہیں ۔‘‘ اور ایک قوم کی مذمت بیان کی کہ’’ بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ۔‘‘ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و حرمت اب بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں تھی۔ یہ سن کر ابو جعفر خاموش ہو گیا، پھر دریافت کیا : اے ابو عبداللہ! میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر ؟ فرمایا : تم کیوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ پھیرتے ہو حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں بلکہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی طرف متوجہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت مانگو پھر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرمائے گا ۔ (شفا شریف، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل واعلم انّ حرمۃ النبی ص۴۱، الجزء الثانی،چشتی)

مروان نے اپنے زمانۂ تَسَلُّط میں ایک صاحب کو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا : جانتے ہو کیا کر رہے ہو ؟ اس پر ان صاحب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضر ہوا ہوں ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : دین پر نہ روؤ جب اس کا اہل اس پر والی ہو، ہاں اس وقت دین پر روؤ جبکہ نا اہل والی ہو ۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ تھے ۔ (مسند امام احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹/۱۴۸، الحدیث: ۲۳۶۴۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں فریاد ، کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء،چشتی)

معلوم ہوا استغاثہ اور وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جائز ہے ۔

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی ۔ (۔تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265،چشتی)

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال شریف کے بعد ایک اعرابی روضۂ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو آپ نے فرمایا ، ہم نے سنا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ، اس میں یہ آیت بھی ہے ’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا‘‘ میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے ۔ اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تجھے بخش دیا گیا ۔ (مدارک، النساء الآیۃ: ۶۴، صفحہ ۲۳۶)

یہ آیتِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم مدح و ثنا پر مشتمل ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے بہت سے اشعار فرمائے ہیں ۔ چنانچہ’’ حدائق بخشش‘‘ میں فرماتے ہیں : ⬇

مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوۡکَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

اور فرمایا : ⬇

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

اور فرمایا : ⬇
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا

اس آیتِ مبارکہ معلوم ہوا کہ : ⬇

(1) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت پیش کرنے کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے ۔
(2) قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی ’’ جَآئُ وْکَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے ۔
(3) بعد ِوفات مقبولانِ حق کو ’’یا‘‘ کے ساتھ نِدا کرنا جائز ہے ۔
(4) مقبولانِ بارگاہِ الٰہی مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے ۔

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تو اتقواللہ میں آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔ معلوم ہوا کہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے ۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ : اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔

معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصودِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ۔ (سورة البقرہ، 89)
مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب معلم و مقصودِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل کفار پر فتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیا بلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں نہیں لاتے ۔ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۔ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔

بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرنا تھا ۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں ۔

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ ۔ (سورة البقرہ، 144) ۔
ترجمہ : ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں ۔

معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لیے ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔ جب کعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ کامحتاج ہے تودوسروں کا کیا پوچھنا ہے ۔

مسندامام احمدبن حنبل میں حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چالیس (40) ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس (40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں سے عذاب دور ہوگا ۔ معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے وسیلہ سے بارش فتح ونصرت ملتی ہے اوربلادفع ہوتی ہے ۔ (مشکوٰة باب ذکریمن وشام)

دارمی شریف میں ہے کہ ایک بار مدینہ شریف میں بارش بند ہوگئی اور قحط پڑگیا لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا آپ نے فرمایاکہ روضۂِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھت کھولدو کہ مزارِ انور اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تو لوگوں نے ایساہی کیا تو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگااونٹ موٹے ہوگئے گویا چربی سے بھرگئے ۔ (مشکوٰة ،باب الکرامات،چشتی)

مشکوٰ شریف باب المعراج میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے توآپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا؟ فرمایا ہردن پچاس (50) نمازوں کافرمایا ۔ حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں اتنی طاقت نہیں میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں ۔ اپنی امت کےلیے رب سے رعایت مانگیے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اور رحمت ملی کہ پچاس (50) نمازوں کی صرف پانچ باقی رہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کا وسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے ۔

مسلم و بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''انما اناقاسم واللہ معطی'' ۔ (مشکوٰة ،کتاب العلم)
ترجمہ : ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔

معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے ہیں اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتا ہے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خالق کی ہر نعمت کا وسیلہ ہیں ۔

شرح سنہ میں ہےکہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے ایک اونٹ نے جوکھیت میں کام کر رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور منہ اپنا زانوئے مبارک پر رکھ کر فریاد ی ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے مالک کو بلاکر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتا ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم دیتے ہو ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرو ۔ معلوم ہوا کہ بے عقل جانور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کورفع حاجات کےلیے وسیلہ جانتے ہیں ۔ جو انسان ہوکر ان کے وسیلہ کا منکر ہووہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف کتاب الرضاع،چشتی)

معلوم ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس کا فائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کابندۂِ بے دام ہے ۔

مسلم شریف میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاجُبہّ شریف تھا۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں کہ مدینہ میں جو بیمار ہو جاتا ہے اسے دھو کر پلاتے ہیں اس سے شفا ہو جاتی ہے ۔ (مشکوٰة، کتاب اللباس)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن شریف سے مس کیے ہوئے کو شفا کا وسیلہ سمجھ کر اسے دھو کر پیتے تھے ۔ بخاری شریف کتاب المساجد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حج کو جاتے ہوئے ہر اس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حج کے موقع پر نماز پڑھی تھی ۔ یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں معلوم ہوا کہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے ۔

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بھولی بھالی امت کی خدمت میں عرض گذار ہے کہ : سوائے محمد ابن عبد الوہاب نجدی خارجی کے پیروکاروں کے تمام امت مسلمہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ کی حاضری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس کو اپنی مغفرت کا آخری اور و قوی سہارا سمجھتے ہیں آئیے مستند دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں گمراہوں کے شر و فتنہ سے بچائے آمین ۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار گہر بار میں حاضری بندۂ مومن کے حق میں نعمت عظمٰی ، امید افزا طاعت اوردرجات عالیہ کے حصول کابڑا وسیلہ ہے ، آپ کے دربار میں حاضر ہونا تقرب الہی کا قریب ترین ذریعہ ہے ، آپ کی بارگاہ کی حاضری گناہوں کی بخشش اور حصول رحمت و مغفرت کا قوی آسرا ہے ۔ زائرین روضۂ اقدس کےلیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شفاعت کا مژدۂ جاں فزا سنایا ، دراقدس کی حاضری کو اللہ تعالی نے معصیت شعار افراد کےلیے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ، توبہ کی قبولیت اور نزول رحمت کا خصوصی مرکز قرار دیا ہے ، سورۂ نساء کی آیت نمبر:64،میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا ۔
ترجمہ : اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ، اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بھی ان کےلیے سفارش کردیں تو وہ ضرور باالضرور اللہ تعالی کو خوب توبہ قبول کرنے والا‘نہایت رحم فرمانے والا پائیں گے ۔ (سورۃ النساء :64)

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالی نے تین امور کا ذکر فرمایا : (1) جب گناہ کر بیٹھے تو آپ کے دربار میں حاضر ہونا ۔ (2) استغفار کرنا ۔ (3) حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اس کے حق میں سفارش فرمانا ۔
جب یہ تین کام ہوتے ہیں تواللہ تعالی کی جانب سے اس بندہ کیلئے قبولیتِ توبہ کا مژدہ ملتا ہے اوروہ بے پناہ رحمتوں کا حقدار بنتا ہے ۔

تمام محدثین ومفسرین علیہم الرّحمہ کا اتفاق ہے کہ یہ حکم رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ تک ہی محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی یہی حکم ہے ۔

اس سلسلہ میں کم ازکم دو واقعات ملتے ہیں جس سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں وآشکار ہوجاتی ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ کا حکم بعد ازوصال باقی ہے ۔

وصالِ مبارک کے تین دن بعد اعرابی کی حاضری : حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت تفسیر البحرالمحیط اورسبل الہدی والرشاد میں منقول ہے : وروی الحافظ ابن النعمان فی (مصباح الظلام فی المستغيثين بخير الانام) من طريق الحافظ ابن السمعانی بسنده عن علی رضی الله تعالی عنه قال: قدم علينا اعرابی بعدما دفنا رسول الله صلی الله عليه وسلم بثلاثة ايام فرمی نفسه علی القبر الشريف، وحثا من ترابه علی راسه وقال: يا رسول الله، قلت فسمعنا قولک، ووعيت عن الله تعالی ووعينا عنک وکان فيما انزل عليک : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا) وقد ظلمت نفسی، وجئتک تستغفر لی فنودی من القبر: إنه قد غفر لک .
ترجمہ : محدث ابن نعمان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب"مصباح الظلام فی المستغیثین بخیر الانام"میں محدث ابن سمعانی کی وساطت سے روایت ذکر کی ہے ، جسے انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت نقل کی ہے : حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال مبارک کے تین دن بعد ایک اعرابی دراقدس پر حاضر ہوکر گریہ وزاری کرنے لگے اور وہاں کی خاک مبارک کو اپنے سر پر ڈالنے لگے اور عرض گزار ہوئے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! آپ نے ارشاد فرمایا ہم نے آپ کے ارشادِعالی کو سنا ، آپ نے اللہ تعالی سے کلام سنا اور بحفاظت ہم تک پہنچایا اور ہم نے آپ سے اس کلام کو سیکھا اور یادرکھا ، آپ پر نازل کردہ کلام میں یہ آیت کریمہ بھی ہے ۔ ترجمہ : اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ تعالی کو خوب توبہ قبول کرنے والا‘ نہایت رحم فرمانے والا پائیں گے ۔ (سورۃ النساء :64) (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم!) میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ کے دربار اقدس میں حاضر ہوا تاکہ آپ میرے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں!تو روضۂ اقدس سے آواز آئی:’’یقینا تمہاری بخشش کردی گئی ۔ (تفسیر البحرالمحیط سورۃ النساء۔64۔سبل الھدی والرشاد،جماع أبواب زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ وفضلھا،ج12،ص380،چشتی)

مذکورہ آیت کریمہ کے تحت علامہ ابن کثیر نے بیان کیاہے : وقوله : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.) يرشد تعالی العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان ان يأتوا إلی الرسول صلی الله عليه وسلم فيستغفروا الله عنده، ويسألوه ان يستغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذلک تاب الله عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال : (لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا)
ترجمہ : اللہ تعالی کا ارشاد ہے"اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ کو خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائینگے ۔ (اس آیت مبارکہ کے ذریعہ) اللہ تعالی گنہگاروں اور خطاکاروں کو رہنمائی فرما رہا ہے کہ جب ان سے کوئی غلطی اور گناہ سرزد ہوجائے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور وہاں حاضر ہوکر اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معروضہ کریں کہ آپ ان کے حق میں سفارش فرمائیں،کیونکہ جب وہ لوگ اس طرح کریں گے تو اللہ تعالی ان کی توبہ قبول فرمائے گا اور ان پرخصوصی رحمت نازل فرمائے گااور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا،اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:"ترجمہ:تو وہ ضرور بضرور اللہ تعالی کو خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائینگے ۔
وَقَدْ ذَکَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ:اَلشَّيْخُ اَبُوْ نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِیْ کِتَابِهِ "اَلشَّامِلْ" اَلْحِکَايَةَ الْمَشْهُوْرَةَ عَنِ الْعُتْبِیِّ، قَالَ کُنْتُ جالساً عند قَبْرِ النبیِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ اَعْرَابِیٌّ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَيْکَ ، يَا رَسُولَ اللَّهِ ، سَمِعْتُ اللَّهَ تعالی يَقُولُ : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.)، وقَدْ جِئْتُکَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِیْ مُسْتَشْفِعًا بِکَ إِلَی رَبِّیْ ثُمَّ اَنْشَأَ يَقُولُ ۔
ترجمہ : اور علماء ومفسرین کی ایک جماعت نے بیان کیاہے،ان میں شیخ ابو نصر بن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہیں ‘ اُنہوں نے اپنی کتاب "الشامل"میں حضرت عُتْبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے منقول مشہور حکایت ذکر کی،آپ نے فرمایا:میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضۂ اقدس کے قریب حاضر تھا،ایک اعرابی نے دراقدس پر حاضر ہوکر صلوۃ وسلام پیش کیا اور عرض گزار ہوئے :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !میں نے اللہ تعالی کو (قرآن کریم میں) فرماتے ہوئے سنا : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.... "اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ کو خوب توبہ قبول کرنے والانہایت رحم فرمانے والا پائیں گے۔(سورۃ النساء :64)

نیز اعرابی نے عرض کیا : یقینا میں اپنے گناہوں کی معافی کی خاطرآپ کی ذات ستودہ صفات کو اپنے پروردگار کے دربار میں وسیلہ بناکر آپ کے دربار عالی شان میں حاضر ہوا ہوں، اس کے بعد انہوں نے یہ اشعار کہے :

يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ اَعْظُمُهُ
فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ القَاعُ وَالاَکَمُ

نَفْسی الفِدَاءُ لِقَبْرٍ اَنْتَ سَاکِنُهُ
فِيهِ العَفَافُ ، وَفِيهِ الْجُودُ وَالکَرَمُ

ترجمہ : ائے کائنات کی سب سے بہترین ذات !جن کے وجود مقدس کو زمین نے چوما ہے ،آپ کے وجود مقدس کی خوشبوسے میدان اور ٹیلے پاکیزہ ومعطر ہوچکے ہیں ،میری جان قربان اس روضۂ اطہر پر جس میں آپ رونق افروز ہیں ،جس میں پاکیزگی ہے،سخاوت اور کرم نوازی ہے ۔

حضرت عُتبی فرماتے ہیں : ثُمَّ انْصَرَفَ الْاَعْرَابِیُّ فَغَلَبَتْنِیْ عَيْنِیْ، فَرَاَيْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ، فَقَالَ : يَا عُتْبِیُّ ! اِلْحَقِ الْاَعْرَابِیَّ ، فَبَشِّرْهُ اَنَّ اللَّهَ تَعَالی قَدْ غَفَرَ لَهُ ۔
ترجمہ : جب وہ اعرابی واپس ہوگئے تو مجھ پر نیند طاری ہوگئی،خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا،اورآپ نے ارشاد فرمایا:اے عُتْبی!اس اعرابی سے ملاقات کرو!اور انہیں بشارت دو کہ یقینااللہ تعالی نے ان کی بخشش فرمادی ہے ۔ حوالہ جات : (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ النساء ،64۔ج 2،ص384)(معجم ابن عساکر،حدیث نمبر738۔)(شعب الإیمان للبیھقی،فضل الحج والعمرۃ،حدیث نمبر4019۔)(الجواھر الحسان فی تفسیر القر ان للثعالبی،سورۃ النساء ،64۔)(الدر المنثور فی التأویل بالمأثور،سورۃ البقرۃ،203۔)(تفسیر البحر المحیط، سورۃ النساء ،64،چشتی)(الحاوی الکبیرللماوردی،مستوی کتاب الحج۔)(الشرح الکبیر لابن قدامۃ،ج3،ص494۔)(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ،التَّوَسُّل بِالنَّبِیِّ بَعْدَ وَفَاتِہِ۔)(المواھب اللدنیۃ، مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص199۔) (سبل الھدی والرشاد، جماع أبواب زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ وفضلھا،ج12، ص390۔)(مختصر تاریخ دمشق، باب من زار قبرہ بعد وفاتہ کمن زار حضرتہ قبل وفاتہ۔) (خلاصۃ الوفا بأخبار دار المصطفی،ج1،ص57۔)(الأذکار النوویۃ، کتاب أذکار الحج ،حدیث نمبر 574)

اللہ تعالی نے ان مذکورہ اشعار کو ایسی شان عطا کی ہے کہ جالی مبارک سے متصل ستونوں پر آج بھی نقش ہیں اور زائرین کے لئے نور بصارت وبصیرت کا سامان فراہم کررہے ہیں ۔

روضۂ اقدس کی حاضری عین سعادت

شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے "المواھب اللدنیہ" میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت نقل کی ہے : وعن الحسن البصری قال:وقف حاتم الاصم علی قبر صلی الله عليه واله وسلم فقال:يا رب! انَّا زرنا قبر نبيک فلا تردنا خائبين!فنودی :يا هذا ! ما اذنا لک فی زيارة قبر حبيبنا الا وقد قبلناک؛ فارجع انت ومن معک من الزوار مغفورا لکم .
ترجمہ : حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا:حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دراقدس پر حاضر ہوئے ،اور دربار الہی میں معروضہ کیا کہ ائے اللہ! ہم تیرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دراطہر پر حاضر ہوئے ہیں،ہمیں محروم نہ لوٹا!ہاتف غیبی سے آواز آئی :اگر ہمیں تم کو قبول کرنا منظور نہ ہوتا تو تمہیں حاضری کا موقع مرحمت ہی نہ فرماتے! تم اس حال میں واپس لوٹو کہ ہم نے تمہیں اور تمہارے ساتھ تمام زائرین کو بخشش ومغفرت سے مالامال فرمادیاہے ۔ (المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص200)

زائرین روضۂ اقدس کےلیے شفاعت کی ضمانت

کتب حدیث وفقہ میں جہاں حج کے مناسک اور اس کے آداب کا ذکر ہے وہیں روضۂ اطہر کی حاضری اور اس کے آداب کا بھی ذکر موجود ہے، اورزائرین روضۂ اقدس کے حق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شفاعت خاصہ کا وعدہ بھی فرمایا‘چنانچہ سنن دارقطنی،شعب الإیمان للبیھقی،جامع الأحادیث،جمع الجوامع،مجمع الزوائد اور کنز العمال وغیرہ میں حدیث مبارک ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِیْ .
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میرے روضۂ اطہر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوچکی ہے ۔ (سنن الدارقطنی: کتاب الحج، حدیث نمبر:2727۔)(صحیح ابن خزیمۃ کتاب الحج او المناسک باب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، حدیث نمبر۔3095۔)(شعب الإیمان للبیھقی، الخامس و العشرین من شعب الإیمان و ھو باب فی المناسک ، فضل الحج و العمرۃ،حدیث نمبر:4159۔)(جامع الأحادیث، حرف المیم، حدیث نمبر: 22304،چشتی)(جمع الجوامع، حرف المیم، حدیث نمبر: 5035۔)(مجمع الزوائد ،ج 4،ص 6،حدیث نمبر:5841۔)(کنز العمال ، زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر: 42583۔)(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص179)

حدیث زیارت صحیح ومستند د‘ محدثین کی صراحت : اس حدیث شریف کو کئی ایک محدثین نے روایت کیا ،اس کے قابل استدلال ہونے سے متعلق ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : رواه الدارقطنی وغيره وصححه جماعة من الائمة ۔
ترجمہ : اس حدیث پاک کو امام دارقطنی اور دیگر محدثین نے روایت کیا اور ائمہ ومحدثین کی ایک جماعت نے اُسے صحیح قرار دیاہے ۔ (شرح الشفا لعلی القاری بھامش نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ، جلد 3، صفحہ 511،چشتی)

مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ اور فضیلت : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں قیام فرمانے کے بعد سب سے پہلا کام جو فرمایا وہ اس مقدس مسجد نبوی کی تعمیر ہے ۔ زمین کا یہ قطعہ جہاں اب یہ مسجد موجود ہے دو یتیم بچوں حضرت سہل اور حضرت سہیل کی ملکیت تھا ۔ یہ دونوں بچے سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے زیر کفالت تھے ۔ اس جگہ کھجوریں خشک کی جاتی تھیں ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں سے فرمایا یہ زمین مسجد کی تعمیر کے لئے ہمیں فروخت کر دو۔ بچوں نے بصد ادب و نیاز عرض کی : آقا یہ اراضی ہماری طرف سے بطور نذرانہ قبول فرمائیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس پیش کش کو بلا معاوضہ قبول نہ فرمایا۔ بالآخر قیمت ادا کرکے یہ زمین خرید لی گئی جس کے لئے دس ہزار دینار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ادا کیے۔

ربیع الاول یکم ہجری بمطابق اکتوبر 622ء مسجد نبوی کا سنگ بنیاد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے رکھا۔ مسجدکی تعمیر شروع کر دی گئی تو اس تعمیر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر کام کیا خود انٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے اور اپنی زبان فیض ترجمان سے یہ بھی فرماتے : اَللَّهمَّ إِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَة، فَارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَالْمُهاجِرَةِ ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب هجرة النبی صلی الله عليه وآله وسلم واصحابه إلی المدينة، 3 : 1422-1423، رقم : 3694)
اے اللہ!  آخرت کا بدلہ ہی بہتر ہے تو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما ۔

یہ مسجد انتہائی سادگی سے تعمیر کی گئی۔ تعمیر میں کچی اینٹیں، کھجور کی شاخیں اور تنے استعمال کیے گئے۔ جب کبھی بارش ہوتی تو چھت ٹپکنے لگتی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم اسی گیلی زمین پر اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہو جاتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس سال تک اس مسجد میں نمازیں ادا فرمائیں۔ یہ مسجد اسلام کا مرکز قرار پائی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صَلَاةٌ فِی مَسْجِدِی هٰذَا خَيْرٌ مِنْ اَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب التطوع، باب فضل الصلاة فی مسجد مکة والمدينة، 1 : 398، رقم : 21133)(مسلم الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجد مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394،چشتی)
’’میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صَلَاتُهُ فِيْ مَسْجِدِی بِخَمْسِيْنَ أَلْفِ صَلَاةً ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی الصلاة فی المسجد الجامع، 2 : 191، رقم : 1413،چشتی)
’’جس نے میری مسجد (مسجد نبوی) میں ایک نماز پڑھی اسے پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فَإِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجدی مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394)
’’بیشک میں آخر الانبیاء ہوں اور میری مسجد آخر المساجد۔‘‘

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَنَا خَاتِمُ الْاَنْبِياءِ وَمَسْجِدِي خَاتِمُ مَسَاجِدِ الْاَنْبِيَاءِ ۔ (ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 45، رقم : 112)
’’میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کرام کی مساجد کی خاتم ہے۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ صَلَّی فِی مَسْجِدِی أَرْبَعِيْنَ صَلٰوةً، لَا يَفُوْتُهُ صَلٰوةٌ کُتِبَتْ لَه بَرَاءَ ةٌ مِنَ النَّارِ، وَنَجَاةٌ مِنَ الْعَذَابِ وَبَرِيئَ مِنَ الْنَفَاقِ ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 3 : 12590
سمهودی، وفاء الوفا، 1 : 77)
’’جس نے مسجد نبوی میں چالیس نمازیں متواتر ادا کیں اس کے لئے جہنم، عذاب اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔‘‘

مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر سن 7 ہجری کے بعد مسجد نبوی کی از سر نو تعمیر فرمائی اور اسے مزید کشادہ کیا۔ اس کے بعد مسجد نبوی کی توسیع کی تواریخ درج ذیل ہیں : ⬇

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے عہد میں، 17 ہجری۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے عہد میں، 29۔30 ہجری۔
ولید بن عبد الملک کے عہد میں، 88۔91 ہجری۔
مہدی العباسی کے عہد میں، 161۔165 ہجری۔
سلطان اشرف قائتبائی کے عہد میں، 888 ہجری۔
سلطان عبد المجید عثمانی کے عہد میں، 1265۔1277 ہجری۔
الملک سعود کے عہد میں، 1372 ہجری۔
اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودہ توسیع خادم الحرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیز کے عہد (1405۔1412ھ) میں مکمل ہوئی۔

مسجد کا موجودہ توسیع شدہ رقبہ 98 ہزار 500 مربع میٹر ہے۔ اس کے علاوہ چھت پر بھی نماز پڑھنے کے لئے 67 ہزار مربع میٹر کی جگہ موجود ہے۔

اس وقت مسجد میں عام دنوں میں 6 لاکھ 50 ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں البتہ حج کے زمانے میں اور رمضان المبارک کے دنوں میں یہ تعداد 10 لاکھ تک بھی ہو سکتی ہے۔

مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور دروازوں کے نام

جنوبی سمت چھوڑ کر مسجد نبوی کے تین اطراف میں پر شکوہ، دیدہ زیب دروازے موجود ہیں۔ چند تاریخی دروازے جن سے متعارف ہونا ضروری ہے وہ یہ ہیں۔ مشرقی جانب باب جبریل ں، باب النساء اور باب البقیع، باب جنازہ، مغربی جانب باب السلام، باب ابوبکر ص، باب الرحمۃ اور باب سعود، شمالی جانب باب عثمان ص، باب مجیدی اور باب عمر رضی اللہ عنہ ۔

مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہونے کی دعا کیا

مسجد نبوی میں داخل ہوتے وقت درود شریف کا ورد جاری رکھیں اور یہ دعا پڑھیں : اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ. اَللّٰهمَّ اغْفِرْلِيْ ذُنُوْبِيْ وَافْتَحْ لِيْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ. اَللّٰهمَّ اجْعَلْنِيْ اَلْيَوْمَ مِنْ اَوْجَهِ مَنْ تَوَجَّهَ اِلَيْکَ وَاَقْرَبِ مَنْ تَقَرَّبَ اِلَيْکَ وَاَنْجَحِ مَنْ دَعَاکَ وَابْتَغٰی مَرْضَاتِکَ ۔
’’اے اللہ! ہمارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر درود بھیج اور برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اے اللہ! آج کے دن مجھے اپنی طرف متوجہ ہونے والوں میں سب سے زیادہ قریب بنالے اور زیادہ نواز ان میں سے جنہوں نے تجھ سے دعا کی اور اپنی مرادیں مانگیں۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کی فضیلت

بیت اللہ شریف کی زیارت اور حج کے مقدس فریضہ کی بجاآوری کے بعد عشاق اپنے اگلے سفر یعنی مدینہ منورہ کی زیارت کےلیے روانہ ہو جاتے ہیں، اور اس دربار کی حاضری کےلیے مچلتے جذبات، دھڑکتے دلوں اور برستی آنکھوں کے ساتھ کشاں کشاں اپنے آقا و مولا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بصد ادب و احترام حاضر ہوتے ہیں ۔ یہی عشاق کے دلوں کا حج ہوتا ہے ۔

حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کی فضیلت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں درج ذیل ہے : ⬇

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ زَارَ قَبْرِی، وَجَبَتْ لَه شَفَاعَتِيْ ۔ (دار قطنی، السنن، 2 : 447، رقم : 2669،چشتی)
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے خلوصِ نیت سے مدینہ منورہ حاضر ہو کر میری زیارت کا شرف حاصل کیا میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا ۔‘‘ (بيهقی، شعب الايمان، 3 : 490، رقم : 4157)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس نے میری قبر (یا راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری زیارت کی میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا، اور کوئی دو حرموں میں سے کسی ایک میں فوت ہوا اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت ایمان والوں کے ساتھ اٹھائے گا ۔ (طیالسی، المسند، 12 : 13، رقم : 65،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے حج کیا پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ۔ (دارقطنی، السنن، 447، رقم : 2667)

اس حدیثِ پاک میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے روضَۂ اطہر کی زیارت کےلیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت عطا فرمائی ہے ۔

جلیلُ القدر  محدّث امام تقیُّ الدّین سُبْکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (وفات:756ھ) حدیثِ پاک کے لفظ  ”وَجَبَتْ“ کے تحت فرماتے ہیں: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جو حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبرِ انور کی زیارت کرے  اُس کیلئے شفاعت ثابت اور لازم ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حدیث شريف  کے لفظ ”لَهٗ“ کے فوائد ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں1) :)زائرینِ روضۂ انور کو ایسی شفاعت کے ساتھ خاص کیا جائےگا جو دوسروں کو نہ عمومی طور پر نصیب ہوگی  نہ ہی خصوصی طور پر۔ (2)زائر کو اس شفاعت کے ذریعےدوسروں کوحاصل ہونے والی شفاعت سے ممتاز کردیا جائےگا۔ (3)زیارتِ قبرِ انور کرنے والے شفاعتِ مصطفےٰ کےحقدار قرار پانے والوں میں لازمی طور پر شامل ہوں گے ۔(4)زائر کا خاتمہ ایمان پرہوگا۔

امام تقیُّ الدّین سبکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ”شَفَاعَتِي ۔ یعنی میری شفاعت“کے تحت فرماتے ہیں:شفاعت کی نسبت اپنی جانب فرمانے میں یہ شرف ہے کہ” فرشتے،انبیا اور مؤمنین “بھی شفاعت کریں گے مگر روضَۂ انور کی زیارت کرنے والے کی شفاعت میں خود کروں گا۔ شافع (شفاعت کرنے والے) کی عظمت کی وجہ سے اس کی شفاعت بھی ویسی ہی عظیم ہوتی ہے جیسے ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیائے کرام علیہمُ السَّلام سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی شفاعت بھی دوسروں سے افضل ہے۔(شفاء السقام،ص103)

حاشیہ ابنِ حجر ہیتمی میں ہے: یہ حدیث حیاتِ مبارک میں  نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اور بعد ِوصال قبرِانور کی زیارت کو شامل ہے نیزیہ حکم دور و نزدیک کے ہر مردو عورت کے لئے ہے۔ پس اس حدیثِ پاک سے روضَۂ انور کی طرف سامان باندھنے کی فضیلت اور زیارت کے لئے سفر کے مستحب ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔(حاشیۃ ابن حجر الہیتمی على شرح الایضاح صفحہ 481،چشتی)

پہلے حج یا زیارتِ مدینہ

صدرُالشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:حج اگر فرض ہے تو حج کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہو۔ ہاں اگر مدینہ طیبہ راستہ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوتِ قلبی ہے اور اس حاضری کو قبولِ حج و سعادتِ دینی و دنیوی کے لیے ذریعہ و وسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کے لیے وسیلہ کرے۔ غرض جو پہلے اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّانَویٰ(بخاری،ج،ص5،حدیث:1) اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر ایک کے لیے وہ ہے، جو اُس نے نیّت کی ۔ (بہارِ شریعت،ج1،ص1222) مزید فرماتے ہیں : زیارتِ اقدس قریب بواجب ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 1221،چشتی)

حدیث من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی کی تحقیق

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی ، جس نے میری زیارت میری وفات کے بعد کی اس نے میری زندگی میں زیارت کی ، زیارت روضہ اقدس کے منکر کو حدیث سے جواب ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 17 ، 18 حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی)

محترم قارئینِ کرام : بعض لوگوں کی طرف سے اس حدیث مبارکہ پر ضعیف ہونے کا اعراض کیا جاتا ہے آئیے اس کا جواب پڑھتے ہیں :

من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی

کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا تے ہیں : ان کا رد کرنا مناسب سمجھا اور اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے چکر میں یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے مزار مبارک کی حاضری سے روکنا چاہتے ہیں دوستوں اس حدیث کو کبار آئمہ نے متعدد طرق اور مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

امام ابوبکر احمد بن عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں فرمایا جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کےلیے میری شفاعت واجب ہوگئ ۔

حافظ ابو القاسم بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت یے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا, جو شخص میری زیارت کے ارادے میرے پاس آۓ اور اسکو میری زیارت کے سوا کوی حاجت نہیں ہو مجھ یہ حق یے .میں قیامت کے دن اس کا شفیع ہوگا ۔ (المعجم الکبیر جلد نمبر 12 صفحہ نمبر 235،چشتی)

امام علی بن عمر الدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا , جس نے حج کیا پس میرے وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیاتی میں میری زیارت کی ۔ (سنن بہیقی ج 5 ص 246)

حافظ ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری زیارت نہیں کی تحقیق اس نے مجھ سے جفا کی ۔ (الضعفاءالکامل لابن عدی ج 7 ص 2480،چشتی)

امام سلیمان بن داود الجارود رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں آل عمر سے وہ عمر رضی اللہ عنہ سے رویت کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو فرمارہے تھے جس نے میری قبر کی زیارت کی یا میری زیارت کی میں اس کا شفارشی یا گواہ ہوگا اور جو دو حرمین میں سے کسی ایک میں مرجاے اللہ تعالی اسکو قیامت والے دن امن والوں میں اٹھاے گا ۔ (مسند ابوداود الطیالسی جلد اول صفحہ نمبر 49)

امام ابو جعفر بن عمر العقیلی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ آل خطاب سے روایت کرتے ییں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس نے قصدا میرک زیارت کی وہ بروز قیامت اللہ کی پناہ میں ہوگا ۔ (الترغیب والترہیب جلد 2 صفحہ 182)

امام علی بن عمر دار القطنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا کے اس نے میری ظاہری حیات میں زیارت کی ۔ (سنن دارقطنی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 531،چشتی)

امام ابوبکر احمد بن حسین بہیقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جو دونوں حرمین میں سے کسی ایک میں انتقال کرجاے اللہ تعالی اسکو بروز قیامت امن والوں میں اٹھاے گا اور جس نے اخلاص کے ساتھ مدینہ میں میری زیارت کی وہ شخص بروز قیامت میری پناہ میں ہوگا ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 490،چشتی)

کڑوڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا سیدی امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنی پوری سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں سنت سے یہ ہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس قبلہ کی جانب سے آے اور اپنی پیٹھ کو قبلہ کی جانب کر اور اپنے چہرہ کے ساتھ قبر مبارک کی طرف رخ کر پھر تو کہہ السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ آپ پر سلام ہو یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے رحمت اور برکت ہو آپ پر ۔ (مسند امام اعظم صفحہ 126)

امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ اپنی پوری سند کے ساتھ عبداللہ بن دینار رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : فرمایا میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آپ درود پڑھ رہے تھے اور ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنھما کی قبر مبارک کے پاس ۔ (مسند امام مالک)

ان تمام دلائل اور احادیث کی روشنی میں زیارت قبر نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم والی حدیث کی صحت ثابت ہوگئ اور وہابی دیابنہ کے فاسد عقیدہ پاش پاش ہوگیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضری کے آداب : ⬇

جب شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخلہ کا وقت آئے تو زائر مدینہ غسل اور وضو کرے، اچھی سے اچھی پوشاک پہنے، نوافل ادا کرے، توبہ کی تجدید کرے اور پیدل چلتا ہوا اندر داخل ہو کر تصویر عجز بن جائے کہ وہ شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل کر رہا ہے ۔

علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنے شہرہ آفاق ’القصیدۃ النونیۃ‘ میں زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب بیان کیے ہیں، وہ کہتے ہیں : جب ہم مسجد نبوی میں حاضر ہوں تو سب سے پہلے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کریں۔

پھر باطناً و ظاہراً انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ حضوری کی تمام تر کیفیتوں میں ڈوب کر قبر انور کے پاس کھڑے ہوں۔

یہ احساس دل میں جاگزیں رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبرانور میں زندہ ہیں سماعت بھی فرماتے ہیں اور کلام بھی فرماتے ہیں، پس وہاں کھڑے ہونے والوں کا سر ادباً و تعظیماً جھکا رہے۔

بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں کھڑے ہوں کہ رعبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پاؤں تھر تھر کانپ رہے ہوں اورآنکھیں بارگاہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گریہ مسلسل کا نذرانہ پیش کرتی رہیں اور وہ طویل زمانوں کی مسافت طے کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کھو جائیں۔

پھر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وقار و ادب کے ساتھ ہدیہ سلام پیش کرتے ہوئے آئے جیسا کہ صاحبانِ ایمان و صاحبان علم کا شیوہ ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے قریب آواز بھی بلند نہ کرے، خبردار! اور نہ ہی سجدہ ریز ہو۔

یہی زیارت افضل اعمال میں سے ہے اور روزِ حشر اسے میزانِ حسنات میں رکھا جائے گا۔(ابن قيم، القصيدة النونيه : 181)

اس کے بعد زائر یہ دعا کرے : اَللّٰهُمَّ قَدْ سَمِعْنَا قَوْلَکَ وَأَطَعْنَا أَمْرَکَ وَقَصَدْنَا نَبِيَّکَ مُسْتَشْفِعِيْنَ به إِلَيْکَ مِنْ ذُنُوْبِنَا، اَللّٰهُمَّ! فَتُبْ عَلَيْنَا وَاسْعَدْنَا بِزِيَارِتِه وَادْخِلْنَا فِي شَفَاعَتِه، وَقَدْ جِئْنَاکَ يَا رَسُوْلَ الله ظَالِمِيْنَ أَنْفُسَنَا مُسْتَغْفِرِيْنَ لِذُنُوْبِنَا، وَقَدْ سَمَّاکَ اللهُ تَعَالٰی بِالرُّءُوْفِ الرَّحِيْمِ، فَاشْفَعْ لِمَنْ جَاءَکَ ظَالِمًا لِنَفْسِه مُعْتَرِفًا بِذَنْبه تَائِبًا إِلٰی رَبه ۔
’’اے اللہ ہم نے تیرا فرمان سنا اور تیرے احکام کی تعمیل میں تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہیں، جو تیری بارگاہ میں ہمارے گناہوں کی شفاعت کریں گے، اے اللہ ہم پر رحم و کرم فرما اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی برکت سے ہمیں خوش بخت بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ہمیں نصیب فرما۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وآلک وسلم! ہم آپ کی بارگاہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے حاضر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’روف و رحیم‘ بنایا ہے۔ پس وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنا گناہوں کا اقرار کرکے اس سے معافی مانگتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضر ہوا اس کی شفاعت فرمائیے ۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے لیے ، اپنے ماں باپ ، شیخ ، اساتذہ ، اولاد ، اعزا و اقرباء ، دوستوں اور سب مسلمانوں کےلیے شفاعت مانگیں ، اور بار بار عرض کریں : اَسْئَلُ الشَّفَاعَةَ يَا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليک و آلک وسلم ۔ پھر اگر کسی نے بارگاہ رسالت مآب میں سلام عرض کرنے کےلیے کہا ہو تو شرعاً اس کی طرف سے سلام پہنچانا لازم ہے اور یوں عرض کرے : السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن فلاں بن / بنت فلاں (نام و ولدیت) ۔


بعض لوگ حدیث من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی کو ضعیف ثابت کرنے کےلیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا تے ہیں فقیر چشتی نے ان کا رد کرنا مناسب سمجھا در اصل یہ لوگ حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے چکر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار مبارک کی حاضری سے روکنا چاہتے ہیں دوستوں اس حدیث کو کبار آئمہ علیہم الرحمہ نے متعدد طرق اور مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ امام ابوبکر احمد بن عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں فرمایا جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کےلیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری زیارت میری وفات کے بعد کی اس نے میری زندگی میں زیارت کی ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 17 ، 18 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)

حافظ ابو القاسم بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت یے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا, جو شخص میری زیارت کے ارادے میرے پاس آٸے اور اس کو میری زیارت کے سوا کوٸی حاجت نہیں ہو تو مجھ پہ حق ہے کہ میں قیامت کے دن اس کا شفیع ہونگا ۔ (المعجم الکبیر جلد 12 صفحہ 235)

امام علی بن عمر الدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا , جس نے حج کیا پس میرے وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیاتی میں میری زیارت کی ۔ (سنن بہیقی جلد 5 صفحہ 246)

حافظ ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری زیارت نہیں کی تحقیق اس نے مجھ سے جفا کی ۔ (الضعفاءالکامل لابن عدی جلد 7 صفحہ 2480)

امام سلیمان بن داود الجارود رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں آل عمر سے وہ عمر رضی اللہ عنہ سے رویت کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرمارہے تھے جس نے میری قبر کی زیارت کی یا میری زیارت کی میں اس کا شفارشی یا گواہ ہوگا اور جو دو حرمین میں سے کسی ایک میں مرجاٸے اللہ تعالی اس کو قیامت والے دن امن والوں میں اٹھاے گا ۔ (مسند ابوداود الطیالسی جلد اول صفحہ 49)

امام ابو جعفر بن عمر العقیلی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ آل خطاب سے روایت کرتے ییں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قصدا میرک زیارت کی وہ بروز قیامت اللہ کی پناہ میں ہوگا ۔ (الترغیب والترہیب جلد 2 صفحہ 182)

امام علی بن عمر دار القطنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا کے اس نے میری ظاہری حیات میں زیارت کی ۔ (سنن دارقطنی جلد 2 صفحہ 531،چشتی)

امام ابوبکر احمد بن حسین بہیقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو دونوں حرمین میں سے کسی ایک میں انتقال کرجاے اللہ تعالی اس کو بروز قیامت امن والوں میں اٹھاے گا اور جس نے اخلاص کے ساتھ مدینہ میں میری زیارت کی وہ شخص بروز قیامت میری پناہ میں ہوگا ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 490)

کڑوڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا سیدی امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنی پوری سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں سنت سے یہ ہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس قبلہ کی جانب سے آے اور اپنی پیٹھ کو قبلہ کی جانب کر اور اپنے چہرہ کے ساتھ قبر مبارک کی طرف رخ کر پھر تو کہہ السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ آپ پر سلام ہو یا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اللہ کے رحمت اور برکت ہو آپ پر ۔ (مسند امام اعظم صفحہ 126)

امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ اپنی پوری سند کے ساتھ عبداللہ بن دینار رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : فرمایا میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آپ درود پڑھ رہے تھے اور ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبر مبارک کے پاس ۔ مسند امام مالک)

ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث پاک " من زار قبری الیٰ آخر الحدیث" کا مصداق وہ شخص ہے جس نے خاص قبر انور کو دیکھا اس کا مصداق وہ نہیں ہے جس نے گنبد خضرا کو دیکھا یعنی جو عمارت سبز رنگ کی ہمیں دکھائی دیتی ہے ۔

جواب : مذکورہ حدیث کے بارے میں معترضین کا وجوب شفاعت یاحلت شفاعت کو خاص اصلی قبر انور کی زیارت  کےساتھ مخصوص سمجھنا محض بلادلیل ہے کیوں کہ احادیث میں :

1 : میری وفات کے بعد میری زیارت کیلئےآنا ۔

2 : مدینہ طیبہ میں میری زیارت کیلئے آنا ۔

3 : میری مسجد میں میری زیارت کےلیے آنا ۔

4 : میری قبرشریف کے قریب سلام کےلیے آنا ۔

وغیرہم بلا ذکر قبر شریف و ذکر قبر شریف ہر دونوں قسمی روایات میں بھی شفاعت جاٸز یا واجب ہونے کا ذکر ہے  اس لیے معترضین کی خود ساختہ تشریح اختراعی و ناقابل التفات ہے ۔ مزید تفصیل کےلیے فقیر چشتی اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف مآخذ سے باحوالہ پیش کر رہا ہے امید ہے اہلِ علم خود ہی اس اعتراض کے باطل ہونے کو سمجھ جائیں گے ۔

الحديث الأول : روى الدار قطني في سننه بسنده إلى ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من زار قبري وجبت له شفاعتي) ورواه البيهقي أيضاً في سننه ۔

الحديث الثاني : روى الطبراني في المعجم الكبير ، والغزالي في إحياء العلوم ، عن عبد الله بن عمر مرفوعاً عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم : (من جاءني زائراً لا تحمله حاجة إلا زيارتي كان حقاً عليّ أن أكون له شفيعاً يوم القيامة) ۔

الحديث الثالث : أخرج الدار قطني عن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ( من حج فزار قبري بعد وفاتي ، فكأنما زارني في حياتي ) ۔

الحديث الرابع : أخرج الدار قطني عن ابن عمر قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( من زارني بعد موتي ، فكأنما زارني في حياتي ، ومن مات بأحد الحرمين بعث من الآمنين يوم القيامة ۔

الحديث الخامس : أخرج البيهقي في سننه قال : روى ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( من زار قبري ( أومن زارني ) كنت له شفيعاً) ۔

الحديث السادس : أخرج الحافظ ابن عدي (م/ 365هـ ) في كتابه الكامل عن عبد الله بن عمر أنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( من حج البيت ولم يزرني فقد جفاني ) ۔

الحديث السابع : روي ‘ن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال : (من زارني بالمدينة محتسباً كنت له شفعاً وشهيداً) ۔

الحديث الثامن : روى أنس بن مالك أنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( من زارني ميتاً فكأنما زارني حياً ، ومن زار قبري وجبت له شفاعتي يوم القيامة ، وما من أحد من أمتي له سعة ثم لم يزرني ، فليس له عذره) ۔

الحديث التاسع : روى علقمة عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من حج حجة الإسلام وزار قبري وغزا عزوية وصلى عليّ في بيت المقدس لم يسأل الله عز وجل فيما افترض عليه) ۔

الحديث العاشر : أخرج الفردوس في مسنده عن ابن عباس أنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من حج إلى مكة ثم قصدني في مسجدي كتبت له حجتان مبرورتان) ۔

و يستحب زيارة قبر النبي صلى الله عليه وآله وسلم لما روى الدار قطني باسناده عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من حج فزار قبري بعد وفاتي فكأنما زارني في حياتي) ۔

وفي رواية : (من زار قبري وجبت له شفاعتي) رواه باللفظ الأول سعيد ، ثنا حفص بن سليمان ، عن ليث ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ۔

و قال رواية عبد الله بن يزيد بن قسيط عن أبي هريرة : إن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال : (ما من أحد يسلّم عليّ عند قبري إلا رد الله عليّ روحي حتى أرد عليه السلام) رواه داود بدون زيادة (عند قبري) ۔

عن ابن عمر قال : قال رسول صلى الله عليه وآله وسلم : (من زار قبري وجبت له شفاعتي) رواه ابن خزيمة في صحيحه ۔

و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من زارني في قبري حلّت له شفاعتي يوم القيامة) رواه ابن أبي الدّنيا ۔

و عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من زار قبري حلّت له شفاعتي يوم القيامة) رواه الدار قطني ۔

وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من زارني في مماتي كان كمن زارني في حياتي) رواه العقيلي ۔

وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من زارني بالمدينة بعد موتي كنت له شفيعاً يوم القيامة) ۔ رواه أبو داود الطيالسي ۔

و عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من زارني بعد موتي فكأنما زارني وأنا حيّ) رواه الحافظ سعيد بن محمد ۔

وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( من زارني حتى ينتهي إلى قبري كنت له يوم القيامة شهيداً أو شفيعاً ) رواه العقيلي ۔

و عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( من جاءني زائراً لا تعلم له حاجة إلاّ زيارتي كان حقّاً عليّ أن أكون له شفيعاً ) رواه الدار قطني ۔

وعن بكر بن عبد الله قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من أتى المدينة زائراً إليّ وجبت له شفاعتي يوم القيامة) رواه يحيى بن حسين ۔

و عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( من زارني كنت له شهيداً وشفيعاً يوم القيامة ) رواه ابن مردويه ۔

و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من زارني بالمدينة محتسباً كنت له شهيداً وشفيعاً يوم القيامة) رواه أبو عوانة ۔

و عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من زارني بعد وفاتي فكأنّما زارني في حياتي) رواه ابن عدي ۔

و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من زار قبري وجبت له شفاعتي) رواه ابن النجار ۔

و عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من جاءني زائراً لا تعمده حاجة إلى زيارتي كان حقاً عليّ أن أكون له شفيعاً أو شهيداً يوم القيامة) رواه الطبراني ۔

و عن ابن عباس عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من حجّ إلى مكة ثم قصدني في مسجدي كتبت له حجّتان مبرورتان) رواه الديلمي في مسند الفردوس ۔

و عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( من جاءني زائراً لا يهمّه إلاّ زيارتي كان حقاً على الله أكون له شفيعاً يوم القيامة ) رواه الطبراني وصححه ابن السكن ۔

و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( ما من أحد من أمتي له سعة ثم لم يزرني فليس له عذر ) رواه ابن النجار ۔

و عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من وجد سعة ولم يفد إلى فقد جفاني ) رواه ابن حبان ۔

و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : ( لا عذر لمن كان له سعة من أمتي أن لا يزورني ) رواه ابن عساكر ۔

و عن ابن عمر : (من حج وزار قبري بعد موتي كان كمن زارني في حياتي) رواه سعيد بن منصور ۔

و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من حج ولم يزر قبري فقد جفاني) رواه ابن عساكر ۔

و عن ابن عمر : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : (من حج هذا البيت ولم يزرني فقد جفاني) رواه ابن عدي ۔

بہت سے محدثین علیہم الرحمہ نے اس رویت کو مختلف اسناد سے نقل کیا ہے ۔ فقیر اس کی ایک سند پیش کر رہا جو کہ بالکل حسن درجے کی سند ہے اس کو روایت کیا ہے امام ابو طاہر  السلفی  الاصبھانی علیہ الرحمہ (المتوفی 576ھ)  وہ برقم 9 روایت نقل کرتے ہیں اپنی سند سے : حدثنا عبيد الله بن أحمد، نا أحمد بن محمد بن عبد الخالق، نا عبيد بن محمد الوراق، نا موسى بن هلال، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من زار قبري، وجبت له شفاعتي ۔ (الكتاب : الجزء الخامس من المشيخة البغدادية المؤلف : صدر الدين، أبو طاهر السِّلَفي أحمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن إبراهيم سِلَفَه الأصبهاني
المتوفى: 576هـ)

اس  روایت کے سارے راوی قوی ہیں اور یہ روایت حسن درجے کی ہے محدثین علیہم الرحمہ کی نظر میں ۔ غیر مقلدین اس روایت کے ایک راوی موسیٰ بن ھلال کومجہول  کہہ کر اس رویت کو ضعیف قرار دیتے ہیں
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ راوی حسن الحدیث درجے کا  راوی ہے ۔
غیر مقلدین  دو اماموں سے جرح پیش کر کے سادہ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار مبارک کی زیارت کرنے کا حکم کسی  صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں (معاذ اللہ) ۔ غیر مقلدین جو اعتراض پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک امام   ابو حاتم کا ہے اور دوسرا امام عقیلی کا ہے  جو کہ مندرجہ ذیل ہیں : ⬇

ابو حاتم موسیٰ بن  ھلال کے بارے کہتے ہیں : مجھول
اور امام عقیلی کہتے ہیں کہ : لَا يَصِحُّ حَدِيثُ مُوسَى وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ
کہ یہ حدیث صحیح نہیں اور موسیٰ  کا کوئی متابع نہیں۔
غیر مقلدین کے پاس موسیٰ بن ھلال پر ان دو اماموں سے جرح مبھم ہیں جبکہ تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ راوی حسن  الحدیث درجے کا ہے اور اس کی توثیق   ثابت ہے ۔ امام ابن عدیؒ انکے بر عکس کہتے ہیں ارجو انہ لا باس بہ ۔ یعنی ان سے  حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں اور امام ذھبی علیہ الرحمہ نے کہا کہ یہ صالح الحدیث ہیں ۔ (میزان الاعتدال برقم8937)
امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ  اپنی تصنیف  التلخيص الحبير میں امام عقیلی کی یہ جرح نقل کر کے اسکا رد  رد موسیٰ بن ھلال کی متابعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وَفِي قَوْلِهِ لَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ نَظَرٌ فَقَدْ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ مِنْ طَرِيقِ مَسْلَمَةَ بْنِ سَالِمِ الْجُهَنِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِلَفْظِ "مَنْ جَاءَنِي زَائِرًا لَا تُعْمِلُهُ حَاجَةٌ إلَّا زِيَارَتِي كَانَ حَقًّا عَلَيَّ أَنْ أَكُونَ لَهُ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔ (التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير جلد ۲ صفحہ ۵۶۹)
کہ امام عقیلی کا  یہ قول : لا یتابع علیہ : یہ محل تامل ہے ۔ جبکہ امام طبرانی نے مسلمہ بن سالم سے اسکی مثل روایت بیان کی ہے  ابن عمر سے  ان الفاظ سے کہ جو میری قبر کی زیارت کی نیت سے آیا تو میرا حق ہے اس پر کہ میں روز قیامت کے دن اس کی شفاعت کرو ۔
تو جب امام ابن حجر عسقلانی نے ان کی بات کو رد ثبوت سے کر دیا تو امام عقیلی کی جرح خود بخود ساقط ہو گئی ۔

اسی طرح امام  ذھبی نے میزان الاعتدال جلد ۴ صفحہ ۶۶۴ پر  موسیٰ بن ھلال کے ترجمے میں اما م ابو حاتم  اور عقیلی کی جرح نقل کر کے انکا رد فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ  قلت : میں کہتا ہوں  کہ موسی بن ھلال صالح الحدیث ہے ۔
اسی طرح امام ابن المقلن  سراج الدین  الشافعی المصری (المتوفی  804ھ) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد  بسند جید  کا حکم لگاتے ہیں
(البدر المنير في تخريج الأحاديث جلد ۶ صفحہ ۲۹۶)
عرب کے محقق علامہ شعیب الارنوط  جو کہ متفقہ محقق ہیں غیر مقلدین کے نزدیک بھی وہ مسند احمد کی ایک روایت جس کو امام احمد بن حنبلؒ اپنے شیخ یعنی مسیٰ بن ھلال سے روایت کرتے ہیں تو اس روایت پر حکم لگاتے ہوئے  علامہ  شعیب الارنووط لکھتے ہیں : حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، موسى بن هلال -وهو العبدي شيخ المصنف- حسن الحديث، فقد روى عنه جمع، وقال ابن عدي: أرجو أنه لا بأس به، وقال الذهبي: صالح الحديث ۔ (مسند احمد بن حنبل برقم : 12031)

تو امام ابو حاتم کا مجھول کہنا مردود ہوا اور اسی طرح امام عقیلی کی جرح بھی مبھم و مردود ثابت ہوئی کیونکہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ جب کوئی کسی کو مجھول کہے اور دوسرا امام اس کی توثیق کرے تو اس راوی کی جہالت خود بن خود ختم ہو جاتی ہے اور جب  کچھ محدثین ایک راوی کی توثیق کریں اور اس پر جرح  مبھم ہو تو اس پر تعدیل مقدم ہوتی ہے ۔ یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ۔ اور یہ سند  حسن ہے ۔  موسیٰ بن ھلال جو العبدی ہے اور وہ شیخ یعنی استاز ہیں مصنف (امام احمد بن حنبل) کے  یہ حسن الحدیث ہیں ۔ امام ابن عدی نے کہا ان سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور امام ذھبی نے کہا یہ صالح الحدیث ہیں ۔ ثابت ہوا کہ موسیٰ بن ھلال حسن الحدیث درجے کا راوی ہے اور اس پر کوئی جرح مفسر ثابت نہیں ہے ۔ اور  یہ روایت حسن ہے ۔

ان تمام دلائل اور احادیث کی روشنی میں زیارت قبر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم والی حدیث کی صحت ثابت ہوگئ اور وہابی و دیابنہ کا فاسد عقیدہ و اعتراض پاش پاش ہو گیا الحَمْدُ ِلله ۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (سورۃ النّساء، 4 : 64)
ترجمہ : اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔

یہاں رسولوں علیہم السلام کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ  تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معصوم بناتا ہے کیونکہ اگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود گناہوں کے مُرتَکِب ہوں گے تو دوسرے ان کی اطاعت و اِتّباع کیا کریں گے۔ رسول کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی اطاعت کا طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الٰہی کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر قرآن اٹھا کر پھرتا رہے ۔

اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے ۔ آیت کے اس حصے میں اگرچہ ایک خاص واقعے کے اعتبار سے کلام فرمایا گیا ، البتہ اس میں موجود حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شفاعت طلب کرنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ آپ کی بارگاہ میں آجائیں کہ یہ بارگاہ، رب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ ہے، یہاں کی رضا، رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہے اور یہاں کی حاضری، رب ِ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کی حاضری ہے، یہاں آئیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کے ساتھ حبیب ِ ربُّ العٰلَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھی شفاعت کےلیے عرض کریں اور نبی مُکَرَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ان کےلیے سفارش فرما دیں تو ان لوگوں پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت و مغفرت کی بارشیں برسنا شروع ہو جائیں گی اور اس پاک بارگاہ میں آکر یہ خود بھی گناہوں سے پاک ہوجائیں گے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بندوں کو حکم ہے کہ ان (یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع (یعنی سننا)، اس کا شُہود (یعنی دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔ قال تعالٰی : وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾ اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے عالَم حیات ظاہری میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ (یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہونا) ظاہر تھا ، اب حضورِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ مزار پُر انوار ہے اور جہاں یہ بھی مُیَسَّر نہ ہو تو دل سے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی طرف توجہ ، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے تَوَسُّل ، فریاد ، اِستِغاثہ ، طلبِ شفاعت (کی جائے) کہ حضورِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ مولانا علی قاری عَلَیْہِ الرَحْمہ شرح شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’ رُوْحُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ حَاضِرَۃٌ فِیْ بُیُوْتِ اَھْلِ الْاِسْلَامِ ‘‘ ترجمہ : نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵/۶۵۴)

یاد رہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے، اپنی مغفرت ونجات کی اِلتِجاء کرنے اور اپنی مشکلات کی دوری چاہنے کا سلسلہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے چلتا آ رہا ہے ۔ چنانچہ ذیل میں ا س سے متعلق چند واقعات ملاحظہ ہوں بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر گناہوں کی معافی چاہنے کے واقعات :

حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھاؤں گا، نہ پیوں گا ،نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے ۔ حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا: اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لئے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہتعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی ، حتّٰی کہ ان پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر اللہ  تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تشریف لا کر اپنے دستِ اقدس سے مجھے نہیں کھولتے۔ چنانچہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ  تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبیصلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظۃ۔۔۔ الخ، ۴/۱۳-۱۴، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲۷،  ،۲/۱۹۰ ، چشتی)

بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ میں توبہ و رُجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسا بستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے، میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ  اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں۔ ارشاد فرمایا: یہ گدا یہاں کیوں ہے؟ عرض کی: میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کےلیے خریدا تھا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں ۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو۔‘‘ اور ارشاد فرمایا : ’’جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔  (بخاری، کتاب البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲/۲۱، الحدیث: ۲۱۰۵)

حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مجن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بھی تھے جمع ہوکر جَبر وقَدر میں بحث کرنے لگے تو روحُ الْاَمین حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے ۔ چنانچہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ محضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبْنَا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے دربار میں توبہ پیش کی ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کوواجب کرلیتے، میرے پاس جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں ، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے ۔ (معجم الکبیر، ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲/۵۹، الحدیث: ۱۴۲۳ ، چشتی)

حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے ۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المزنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور پر حاضر ہو کر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرما دیجئے وہ ہلاک ہو رہی ہے ۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا: تم حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی اور یہ بھی کہہ دو کہ وہ نرمی اختیار کریں ۔ حضرت بلال بن حارث  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اور خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ سن کر رونے لگے ، پھر فرمایا: یا رب !عَزَّوَجَلَّ، میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اسی چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۷/۴۸۲، الحدیث: ۳۵، وفاء الوفائ، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲/۱۳۷۴، الجزء الرابع)

ایک مرتبہ مدینۂ منورہ میں شدید قحط پڑا، اہلِ مدینہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور دیکھو اور چھت میں ایک روشندان بناؤ حتّٰی کہ روضۂ منور اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے، اہلِ مدینہ نے جیسے ہی روشندان بنایا تو اتنی کثیر بارش ہوئی کہ سبز گھاس اُگ آئی اور اونٹ موٹے ہو گئے یہاں تک کہ گوشت سے بھر گئے۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ، ۱/۵۶، الحدیث: ۹۲ ، چشتی)

بادشاہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام مالک  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ سے مسجدِ نبوی شریف میں مناظرہ کیا، دورانِ مناظرہ ابو جعفر کی آواز کچھ بلند ہوئی تو امام مالک  رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے اسے ( ڈانٹتے ہوئے) کہا: اے امیرُ المؤمنین! اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا کہ’’ تم اپنی آوازوں کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی آواز سے بلند مت کرو ۔‘‘اور دوسری جماعت کی تعریف فرمائی کہ’’ بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پَست کرتے ہیں ۔‘‘ اور ایک قوم کی مذمت بیان کی کہ’’ بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔‘‘ بے شک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی عزت و حرمت اب بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات میں تھی۔ یہ سن کر ابو جعفر خاموش ہو گیا، پھر دریافت کیا: اے ابو عبداللہ! میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی طرف متوجہ ہو کر؟ فرمایا : تم کیوں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے منہ پھیرتے ہو حالانکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ تمہارے اور تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بروز قیامت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں بلکہ تم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ہی کی طرف متوجہ ہو کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے شفاعت مانگو پھر اللہ  تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرمائے گا ۔ (شفا شریف، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل واعلم انّ حرمۃ النبی۔۔۔ الخ، ص۴۱، الجزء الثانی،چشتی)

مروان نے اپنے زمانۂ تَسَلُّط میں ایک صاحب کو دیکھا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہیں ، مروان نے (ان کی گردن مبارک پکڑ کر) کہا : جانتے ہو کیا کر رہے ہو ؟ اس پر ان صاحب  نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ہاں ، میں کسی اینٹ پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں ، میں تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے حضور حاضر ہوا ہوں ،۔ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : دین پر نہ روؤ جب اس کا اہل اس پر والی ہو ، ہاں اس وقت دین پر روؤ جبکہ نا اہل والی ہو ۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے ۔ (مسند امام احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹/۱۴۸، الحدیث: ۲۳۶۴۶)

یہ آیت ِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم مدح و ثنا پر مشتمل ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے اشعار فرمائے ہیں چنانچہ’’ حدائق بخشش‘‘ میں فرماتے ہیں : ⬇

مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوۡکَ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
اور فرمایا :
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مَفَر مَقَر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
اور فرمایا :
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا

اس آیت سے معلوم ہوا کہ :

(1) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت پیش کرنے کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے ۔

(2) قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی ’’ جَآئُ وْکَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے ۔

(3) بعد ِوفات مقبولانِ حق کو ’’یا‘‘ کے ساتھ نِدا کرنا جائز ہے ۔

(4) مقبولانِ بارگاہِ الٰہی مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے ۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهٗ شَفَاعَتِي ، یعنی جس نے میری قبرکی زیارت کی اُس کےلیے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔ (سنن دارقطنی جلد 2 صفحہ 351 حدیث نمبر 2669)

اس حدیثِ پاک میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے روضَۂ اطہر کی زیارت کےلیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت عطا فرمائی ہے ۔

جلیلُ القدر  محدّث امام تقیُّ الدّین سُبْکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 756ھ) حدیثِ پاک کے لفظ  ”وَجَبَتْ“ کے تحت فرماتے ہیں : اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کرے  اُس کےلیے شفاعت ثابت اور لازم ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حدیث شريف  کے لفظ ”لَهٗ“ کے فوائد ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : زائرینِ روضۂ انور کو ایسی شفاعت کے ساتھ خاص کیا جائےگا جو دوسروں کو نہ عمومی طور پر نصیب ہوگی  نہ ہی خصوصی طور پر ۔ زائر کو اس شفاعت کے ذریعے دوسروں کوحاصل ہونے والی شفاعت سے ممتاز کردیا جائے گا ۔ زیارتِ قبرِ انور کرنے والے شفاعتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےحقدار قرار پانے والوں میں لازمی طور پر شامل ہوں گے ۔ زائر کا خاتمہ ایمان پر ہوگا ۔ شفاعت کی نسبت اپنی جانب فرمانے میں یہ شرف ہے کہ” فرشتے ، انبیا اور مؤمنین “بھی شفاعت کریں گے مگر روضَۂ انور کی زیارت کرنے والے کی شفاعت میں خود کروں گا ۔ شافع (شفاعت کرنے والے) کی عظمت کی وجہ سے اس کی شفاعت بھی ویسی ہی عظیم ہوتی ہے جیسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انبیائے کرام علیہمُ السَّلام سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی شفاعت بھی دوسروں سے افضل ہے ۔ (شفاء السقام صفحہ 103)

حاشیہ ابنِ حجر ہیتمی میں ہے : یہ حدیث حیاتِ مبارک میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اور بعد ِوصال قبرِانور کی زیارت کو شامل ہے نیزیہ حکم دور و نزدیک کے ہر مردو عورت کےلیے ہے۔ پس اس حدیثِ پاک سے روضَۂ انور کی طرف سامان باندھنے کی فضیلت اور زیارت کے لئے سفر کے مستحب ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ۔ (حاشیۃ ابن حجر الہیتمی على شرح الایضاح صفحہ481)

پہلے حج یا زیارتِ مدینہ  صدرُالشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حج اگر فرض ہے تو حج کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہو۔ ہاں اگر مدینہ طیبہ راستہ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوتِ قلبی ہے اور اس حاضری کو قبولِ حج و سعادتِ دینی و دنیوی کےلیے ذریعہ و وسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کےلیے وسیلہ کرے ۔ غرض جو پہلے اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّانَویٰ ۔ (بخاری،ج،ص5،حدیث:1) اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر ایک کےلیے وہ ہے ، جو اُس نے نیّت کی ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 1222،چشتی) ۔ مزید فرماتے ہیں : زیارتِ اقدس قریب بواجب ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 1221)

اہل مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا ارادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اس شہر والوں (یعنی اہل مدینہ) کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، الصحيح کتاب الحج باب من أراد أهل المدينة بسوء أذا به اللہ ، 2 : 1007، رقم : 1386)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر دلنواز مدینہ منورہ کے رہنے والوں کا ادب و احترام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا ۔

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبه میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3111،چشتی)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اللہ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3112)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ البَرَكَةِ اے اللہ!جتنی تونےمکہ میں برکت عطا فرمائی ہے ، مدینہ میں اُس سے دو گُنا برکت عطافرما ۔ (بخاری ، 1 / 620 ، حدیث : 1885،چشتی)

مذکورہ  حدیث ِ پاک میں اللہ کے   آخری  نبی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  برکت کی دعا فرمائی ہے ۔ بہت ساری خیر کا نام برکت ہے ۔ (عمدۃ القاری ، 7 / 594)

چونکہ مدینۂ منورہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےشر فِ قیام بخشا ، سرزمینِ مدینہ کو اپنے  قدموں کے بوسے لینےکی سعادت عطا فرمائی ان سعادتوں سے فیضیاب ہو کر شہرِمدینہ نے عظمت و رفعت پائی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے اِس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینے میں رہنا عافیت کی علامت اور مدینے میں مرنا شَفَاعتِ مصطفےٰ کی ضمانت قرارپایا ، یوں یہ شہربہت فضیلت اور دُگنی خیرو برکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنے کےلیے ہر عاشقِ رسول تڑپتا ہے ۔ بخاری  شریف کی اس حدیث  میں برکاتِ مدینہ سے متعلق دعائے مصطفٰےکا ذکر ہے ، اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اور اشیاء میں واضح طور پرنظر آتا ہے : ⬇

(1) جب کوئی مسلمان زیارت کی نیّت سےمدینۂ منورہ آتا ہےتو فِرِشتے رَحْمت کے تحفوں سے اُس کا استِقبال کرتے ہیں ۔ (جذب القلوب ، ص211)

ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں دعا فرمائی : اے اللہ ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت دے ، ہمارے مُد اور صاع میں برکت دے ۔ (ترمذی ، 5 / 282 ،  حدیث : 3465)

(2) مسجدِ نبوی میں ایک نمازپڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔ (ابن ماجہ ، 2 / 176 ، حدیث : 1413)

(3) ایمان کی پناہ گاہ مدینۂ منورہ ہے ۔ (بخاری ، 1 / 618 ، حدیث : 1876)

(4) مدینے کی حفاظت پر فرشتے معمور ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ (مسلم ، ص548 ، حدیث : 1374،چشتی)

امام نَوَوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں : اس روایت میں مدینۂ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی ، کثرت سے فِرِشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عِزَّت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے ۔ (شرح  مسلم للنووی ، 5 / 148)

(5) خاکِ مدینہ کو شفا قرار دیا ہے چنانچہ جب غزوۂ تَبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان   ملے انہوں نے گرد اُڑائی ، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی آپ نے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدرَت میں میری جان ہے!مدینے کی خاک میں ہربیماری سےشفاہے ۔ (جامع الاصول جلد 9 صفحہ 297 ، حدیث : 6962،چشتی)

(6) مدینے کے پھل بھی  بابرکت  ہیں کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے ۔ (ترمذی ، 5 / 282 ، حدیث : 3465)

(7) مدینہ میں جیناحصولِ برکت اورمَرنا شفاعت پانےکاذریعہ ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد  ہے : جو مدینے میں مَرسکے وہ وَ ہیں مَرے کیونکہ میں مدینے میں مَرنے والوں کی شَفاعت کروں گا ۔ (ترمذی ، 5 / 483 ، حدیث : 3943)

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرفاروق   رضی اللہ عنہ یوں دعا مانگا کرتے تھے : اےاللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت دے اور مجھے اپنے رسول کےشہرمیں موت عطا فرما ۔ (بخاری ، 1 / 622 ، حدیث : 1890)

قبرِ انور کی زیارت کی شرعی حیثیت پر اُمتِ مسلمہ کا اِجماع ہے۔ کئی ائمہِ احناف کے نزدیک واجب ہے جبکہ ائمہِ مالکیہ کے نزدیک قطعی طور پرواجب ہے۔ اُن کے علاوہ دیگر اہلِ سنت کے مکاتب و مذاہب بھی اُسے واجب قرار دیتے ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم یوں فرمایا ہے :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔
ترجمہ : اور (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ۔ (سورہ النساء ، 4 : 64)

اس آیتِ کریمہ کو فقط نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات پر محمول کرنا ، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، نصِ قرآنی کا غلط اِطلاق اور قرآن فہمی سے ناآشنائی کی دلیل ہے ۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے محدّثین و مفسرین نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کو مطلق قرار دیا ہے ۔ حافظ ابنِ کثیر  اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں : يُرشد تعالي العصاة والمُذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلي الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، فيستغفروا ﷲ عنده، ويسألوه أن يغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذٰلک تاب ﷲ عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال : ﴿لَوَجَدُوا ﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد ذکر جماعة منهم الشيخ أبومنصور الصبّاغ في کتابه الشامل ’الحکاية المشهورة، عن العتبي، قال : کنتُ جالساً عند قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فجاء أعرابي فقال : السلام عليک يارسول ﷲ! سمعتُ ﷲ يقول : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد جئتُکَ مستغفراً لذنبي مستشفعاً بکَ إلي ربي. ثم أنشأ يقول :
يا خير من دفنت بالقاع أعظمه
فطاب من طيبهن القاع و الأکم

نفسي الفداء لقبر أنت ساکنه
فيه العفاف وفيه الجود والکرم
ثُم انصرف الأعرابيّ، فغلبتني عيني، فرأيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم في النوم، فقال : يا عتبي! الحق الأعرابيّ، فبشره أن ﷲ قد غفر له ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے عاصیوں اور خطاکاروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ جب ان سے خطائیں اور گناہ سرزد ہوجائیں تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرنا چاہیے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیک وسلم ہمارے لئے دعا فرمائیں جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرمائے گا ، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ۔ اِسی لئے فرمایا گیا : لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا (تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے) ۔ یہ روایت بہت سوں نے بیان کی ہے جن میں سے ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب ’الحکایات المشہورۃ‘ میں لکھا ہے : عُتبی کا بیان ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا : ’’السّلام علیکَ یا رسول اﷲ! میں نے سنا ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اُن کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ‘‘ میں آپ صلی ﷲ علیک و سلم کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہوئے اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتے ہوئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے : اے مدفون لوگوں میں سب سے بہتر ہستی! جن کی وجہ سے میدان اور ٹیلے اچھے ہو گئے، میری جان قربان اس قبر پر جس میں آپ صلی ﷲ علیک وسلم رونق افروز ہیں ، جس میں بخشش اور جود و کرم جلوہ افروز ہے ۔
پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی ، میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے تھے : عُتبی ! اعرابی حق کہہ رہا ہے ، پس تو جا اور اُسے خوش خبری سنا دے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں ۔ (ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 519 - 520)(شعب الإبمان، 3 : 495، 496، رقم : 4178)(المغني، 3 : 298)(کتاب الأذکار : 92، 93)(شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 46. 47)(إمتاع الأسماع، 14 : 615)

اِمام قرطبی علیہ الرحمہ نے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن (5 : 265 ۔ 266)‘‘ میں عتبی کی روایت سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یوں بیان کیا ہے : روي أبو صادق عن علي، قال : قدِم علينا أعرابيّ بعد ما دفّنا رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثلاثة أيام، فرمي بنفسه علي قبر رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وحَثَا علي رأسه من ترابه، فقال : قلتَ يا رسول ﷲ ! فسمعنا قولک، و وَعَيْتَ عن ﷲ فوعينا عنک، وکان فيما أنزل ﷲ عليک : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ﴾ الآية، وقد ظلمتُ نفسي، وجئتُکَ تستغفر لي. فنودي من القبر أنه قد غفر لک ۔
ترجمہ : ابو صادق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین دن بعد مدینہ منورہ آیا ۔ اس نے فرطِ غم سے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گرا لیا ۔ قبر انور کی مٹی اپنے اوپر ڈالی اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیک و آلک وسلم آپ نے فرمایا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیک و آلک وسلم کا قول مبارک سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیک و آلک وسلم نے اللہ سے احکامات لیے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیک و آلک وسلم سے احکام لیے اور اُنہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ’’وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ۔ (اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے) ۔ میں نے بھی اپنے اوپر ظلم کیا ہے ، آپ صلی اللہ علیک و آلک وسلم میرے لیے اِستغفار فرما دیں ۔ اعرابی کی اِس (عاجزانہ اور محبت بھری) التجاء پر اُسے قبر سے ندا دی گئی : ’’بیشک تمہاری مغفرت ہو گئی ہے ۔ (الجامع لأحکام القرآن، 5 : 265)

عتبیٰ کی اس روایت پر اکابر محدّثینِ کرام نے اعتماد کیا ہے ۔ امام نووی نے اسے اپنی معروف کتاب ’’الایضاح‘‘ کے چھٹے باب (ص : 454، 455) میں، شیخ ابوالفرج بن قدامہ نے اپنی تصنیف ’’الشرح الکبير (3 : 495)‘‘ میں اور شیخ منصور بن یونس بہوتی نے اپنی کتاب ’’کشاف القناع (5 : 30)‘‘، جو مذہب حنبلی کی مشہور کتاب ہے، میں اسے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام مذاہب کے اجل ائمہ و علماء کا عُتبی کی روایت کے مطابق دیہاتی کا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر مغفرت طلب کرنا ان کی کتابوں میں زیارۃِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا مناسکِ حج کے ذیل میں بیان ہواہے ۔ جن میں امام ابنِ کثیر ، امام نووی ، امام قرطبی ، امام ابنِ قدامہ ، امام سبکی ، امام سیوطی ، امام زرقانی سمیت کئی ائمہ شامل ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اکابر محدّثین و مفسرینِ کرام نے کفر اور گمراہی کو نقل کیا ہے ؟ یا (معاذ اللہ) وہ بات نقل کی ہے جو بت پرستی یا قبر پرستی کی غماز ہے ؟ اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو پھر کس امام کو معتبر اور کس کتاب کو ثقہ و مستند مانا جائے گا ؟
لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بعد اَز وصال اُمت کےلیے اِستغفار فرمانا ممکن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمت کے حق میں انتہائی شفیق و رحیم ہونا نصوصِ قرآن و سنت سے ثابت اور متحقق ہے تو یہ امر قطعًا و حتماً معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال بھی روضۂ مبارک پر حاضرِ خدمت ہونے والوں کو محروم نہیں فرماتے ۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَنْ يَخْرُجْ مِنْم بَيْتِه مُهَاجِرًا إِلَي ﷲِ وَ رَسُوْلِه ثُمَّ يُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُه عَلَي ﷲِ ۔
ترجمہ : اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے ، پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا ۔ (النساء، 4 : 100)

آیتِ مقدسہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد جو شخص اپنے نہاں خانہ دل میں گنبد خضراء کے جلوؤں کو سمیٹنے کی نیت سے سفر اختیار کرتا ہے اس پر بھی اسی ہجرت الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِطلاق ہوتا ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے : مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِی كَانَ كَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي ۔
ترجمہ : جس نے میری وفات کے بعد حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی گویا کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 489 حدیث نمبر 4154)

روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت بہت بڑی سعادت ، عظیم عبادت ، قُربِِ ربُّ العزت پانے کا ذریعہ اور قریب بوا جب ہے جس کا حکم کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے ثابت ہے ۔ (فتح الباری جلد 4 صفحہ 59)(شواھد الحق صفحہ 59،چشتی)(مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری جلد 2 صفحہ 197)

صدرالشریعہ مفتی محمدامجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حج اگر فرض ہے تو حج کر کے مدینہ طیبہ حاضر ہو ۔ ہاں اگر مدینہ طیبہ راستہ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوتِ قلبی ہے اور اس حاضری کو قبولِ حج و سعادتِ دینی و دنیوی کےلیے ذریعہ و وسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کےلیے وسیلہ کرے ۔ غرض جو پہلے اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّانَویٰ ۔ اعمال کامدار نیت پر ہے اور ہر ایک کےلیے وہ ہے جو اُس نے نیت کی ۔(بخاری جلد 1 صفحہ 5 حدیث نمبر 1،چشتی)(بہارشریعت جلد 1 صفحہ 1222)

حدیثِ پاک کے الفاظ كَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي کی شرح میں حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : (وصالِ ظاہری کے بعد قبرِ مبارک کی زیارت کو حیاتِ ظاہری میں زیارت کی مثل اس لئے فرمایا کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی قبرِ انور میں حقیقی دنیوی حیات کے ساتھ زندہ ہیں کہ آپ سے مطلقاً ہر طرح کی مدد و نصرت حاصل کی جاتی ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 5 صفحہ 632 تحت الحدیث 2756)(لمعات التنقیح جلد 5 صفحہ 483 تحت الحدیث 2756)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین علیہم الرحمہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا کرتے تھے ۔

حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت  کعبُ  الاحبار رحمۃ اللہ علیہ کو قبولِ اسلام کے بعد زیارتِ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت دی اور انہیں اپنے ساتھ مدینۂ منورہ لائے ۔ (فتوح الشام جلد 1 صفحہ 235)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام حضرت سیّدنا نافع رحمۃ اللہ علیہ نے 100مرتبہ سے بھی زیادہ بار یہ دیکھا  کہ سفر پر آتے اور جاتے وقت حضرت عبداللہ  بن عمر رضی اللہ عنہما روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری  دیا کرتے ۔ (کتاب الشفا جلد 2 صفحہ 86،چشتی)(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 7 صفحہ 359 حدیث نمبر 11915)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضر ہوتے تو کھڑے ہوکر سلام عرض کرتے اور واپس لوٹ جاتے ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 491 حدیث نمبر 4164)

ایک مرتبہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبرِ انور کے قریب رو رہے تھے اور ساتھ ہی عرض کر رہے تھے : یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ میری قبر اور منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 491 حدیث نمبر 4163)

روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زِیارَت کرنے والے کےلیے فوائد و برکات بے شمار ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں : ⬇

(1) روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری دینے و الے کا سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بِلا واسطہ سنتے اور جواب دیتے ہیں ۔(مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری جلد 2 صفحہ 205)

(2) علما فرماتے ہیں : زیارت قبرِ مبارکہ کمالاتِ حج سے ہے ۔ (فیض القدیر جلد 6 صفحہ 182 تحت الحدیث 8716)

(3) ہلاکت و بَربادی سے محفوظ رہے گا ۔ (4) مشکلات آسان ہوں گی ۔ (5) حادِثات سے حِفاظت ہو گی (6) اُسے آخرت میں اچّھابَدلہ ملے گا ۔ (الروض الفائق صفحہ 307)

(7) خاتمہ بالخیر کی سعادت پائے گا ۔ (8) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شفاعت فرمائیں گے ۔ (شفاء السقام صفحہ 103)

مدینۂ منورہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حاضری کے آداب

رَوْضَۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری کی سعادت پانے والا اِس بارگاہ ِ عالی کےآداب کا خاص خیال رکھے ، کیونکہ ذَرا سی بے اِحتِیاطی سَخْت مَحرومی کا سبب بَن سکتی ہے : ⬇

(1) حاضِری میں خالصتاً قبرِ انور کی زِیارت کی نِیَّت کیجیے ۔ ریاکاری اور تجارت وغیرہ کی نیت قطعاً نہ ہو ۔(مرقاۃ المفاتیح،ج5،ص631،تحت الحدیث:2755)

(2) سفرِ مدینہ میں دُرود شریف کی کثرت کیجیے ۔ (3) جب حَرَمِ مدینہ آئے تو بہتر یہ ہے کہ روتے ہوئے سَر جُھکائے ، دُرود شریف کی کثرت کرتے چلیے ۔(4) نہایت خُشُوع و خُضُوع سے روضۂ اَقْدَس پر حاضری دیجیے ، سلام پیش کیجیے ، رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنالیجیے ۔ (5) اس دوران دل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش کیجیے ۔ موبائل چلانے ، سیلفیاں لینے سے بچیے اور سوچیے کہ کس ہستی کی بارگاہ میں حاضر ی ہیں ۔ (6) اگر آپ کو کسی نے روضۂ اطہر پر سلام عرض کرنے کا کہا ہے تو اس کی طرف سے بھی سلام عرض کردیجیے ۔(7) جب تک مدینۂ طَیِّبہ کی حاضری نصیب ہو ، کوشش کرکے اکثر وقت مسجد شریف میں باطَہارت حاضر رہیے ، نماز و تلاوت و دُرود میں وقت گزارئیے ، دُنیا کی بات کسی بھی مسجد میں نہ کرنی چاہیے یہاں تو اور بھی زیادہ احتیاط کیجیے ۔ (8) یہاں ہر نیکی ایک کی پچاس ہزار (50,000) لکھی جاتی ہے ، لہٰذا عبادت میں زیادہ کوشش (Effort) کیجیے ، بھوک سے کم کھانے میں امکان ہے کہ عبادت میں دل زیادہ لگے ۔(9) روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہر گز پیٹھ نہ کیجیے اور حتّی الاِمکان نماز میں بھی ایسی جگہ کھڑے نہ ہوں کہ پیٹھ کرنی پڑے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس سے ہو سکے مدینے میں مَرے ، تو مدینے ہی میں مرے کہ جو شخص مدینے میں مرے گا میں اُس کی شَفاعت کروں گا ۔ (جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 483 حدیث 3943)

اگر مدینے کی پاک سرزمین میں مَدفَن نصیب نہ ہوسکے تو (1) مدینہ منورہ سے واپسی پر روضۂ انور پر حاضر ہو کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں الوداعی سلام پیش کیجیے ۔ (2) دورکعت نماز ادا کیجیے ۔ (3) اللہ کریم سے دوبارہ حاضری کی دعا مانگیے ۔ (4) مدینہ شریف سے واپسی سے قبل قرآن پاک مکل کر لیجیے کہ اسلاف نے اسے پسند فرمایا ہے ۔(5) آسانی ہو تو اپنے احباب کےلیے کھجوروں کا تحفہ ساتھ لائیے ۔ (مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری جلد 2 صفحہ 229 تا 280،چشتی)(احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 345 تا 349)

حج و عمرہ سے قبل یا بعد مدینہ طیبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری عشق کی دنیا کا فرض اولیں ہے ، فقہاء نے اسے قریب ہواجب لکھا ہے ۔ اس حاضری میں نیت خالصتاً آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کےلیے ختمات قرآن ، درود و سلام ، نفلی طواف و عمرے ساتھ لے کر جائیں ۔ سفرِ مدینہ کے دوران مسلسل ذکر و درود میں مشغول رہیں ۔ جیسے جیسے مدینہ منورہ قریب آتا جاۓ ذوق و شوق میں خوب اضافہ ہوتا چلا جائے ۔

جب شہر پاک میں داخل ہوں تو اشک بار آنکھوں کے ساتھ سر جھکاۓ درود و سلام پڑھتے ہوئے داخل ہوں ۔ اس دوران اگر گنبد خضریٰ شریف پر نگاہ پڑے تو فوراً با ادب کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پیش کریں ۔ اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر ضروری امور سے فارغ ہوں ، دانت صاف کریں ، غسل یا وضو کریں ، نیا سفید لباس پہنیں ، سرمہ لگائیں ، خوشبو سے معطر ہوں ، اور پھر ہو سکے تو ننگے پاؤں حرم شریف کی طرف روانہ ہوں ۔

حرم شریف کے قریب پہنچ کر جیسے ہی گنبد خضریٰ شریف پر نظر پڑے تو فوراً وہیں رک جائیں ، با ادب ہاتھ باندھ کر صلوۃ و سلام عرض کریں اور تصور ہی تصور میں حاضری کی اجازت طلب کریں ۔ اس دوران اگر کوئی جان پہچان والانظر آۓ تو اس کی طرف بھی توجہ نہ دیں ، نیز حرم شریف کے نقش ونگار وغیرہ بھی نظر میں نہ لائیں ، دل و دماغ ہر طرح کے غیر متعلقہ خیالات سے پاک ہوں ، لوگوں کی چہل پہل کی طرف قطع متوجہ نہ ہوں ۔

پھر مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (قدیم) میں حاضر ہو کر نوافل ادا کریں ، اگر فرض نماز کا وقت ہو تو وہ بھی ادا کریں ، پھر سجدہ شکر ادا کریں کہ بارگاہِ حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضری کی توفیق ملی ۔ نیز اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ آپ کو با ادب اور مقبول حاضری نصیب ہو ۔ اب نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ ڈرتے جھجکتے ، لرزتے کانپتے ۔ روتے ہوۓ یا رونے کی صورت بنا کر ہاتھ باندھے سر جھکاۓ کل کائنات کی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں با ادب حاضری کےلیے اور اپنا بگڑا بخت سنوارنے کےلیے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوۓ باب السلام کی طرف چلنا شروع کریں ۔

جب باب السلام پر پہنچیں اور دیکھیں کہ عاشقان رسول سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضری کےلیے جا رہے ہیں تو آپ بھی ان میں شامل ہو جائیں ۔ اور اگر وہ راستہ کھلنے کے انتظار میں ہوں تو آپ بھی خاموشی سے ایک طرف ٹھہر جائیں ۔ مسجدِ اقدس اور اس کے آس پاس آپ کی آواز ہرگز ہرگز اونچی نہیں ہونی چاہیے ۔

اب باب السلام سے چلتے چلتے اللہ تعالی کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ کے قریب پہنچیں تو یہ عقیدہ رکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حقیقی دنیاوی جسمانی حیات کے ساتھ جلوہ فرما ہیں ، سب کچھ ملاحظہ فرما رہے ہیں اور آپ کی حاضری ، سلام و قیام اور جملہ حالات وخیالات سے باخبر ہیں ۔

اب کمال ادب کے ساتھ گناہوں کی ندامت سے پسینہ پسینہ مواجہہ شریف کی طرف منہ کر کے ہاتھ باندھ کر چار ہاتھ کے فاصلے پر بالکل اس طرح ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوں جیسے نماز میں ہاتھ باندھتے ہیں ۔ جالی مبارک کو ہاتھ لگانے یا اندر جھانکنے سے سخت سخت پرہیز کریں کہ خلافِ ادب
ہے ۔ یہ آپ کی عظیم ترین خوش نصیبی ہے کہ اس وقت آپ دو جہانوں کے سردار ، وجہ تخلیق کائنات ، فخر موجودات ، امام الانبیاء ، سیاح لامکاں ، سیدنا محمد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رو برو حاضر ہیں ۔ یہ آپ کےلیے زندگی بھر کا سرمایہ اور سب سے بڑھ کر قیمتی لحات ہیں ۔

اب نہایت ادب و وقار اور روتی ہوئی پست و معتدل آواز کے ساتھ یوں سلام عرض کریں : ⬇

السلام علیک ایها النبي و رحمة الله و بركاته.. السلام علیک یا رسول الله.. السلام علیک یا حبیب الله .. السلام علیک یا نبی الله .. السلام علیک یا نور الله.. السلام علیک یا خیر خلق الله.. السلام علیک یا شفیع المذنبين، وعلی آلک و اصحابک و امتک اجمعین ۔

پھر اس کے بعد زیادہ سے زیادہ جتنی دیر ممکن ہو بارگاہِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں با ادب کھڑے ہو کر صلوۃ وسلام پیش کریں ۔ اپنے والدین ، اساتذہ ، اولاد اور تمام متعلقین کےلیے شفاعت مانگیں ۔ بار بار عرض کریں “اسألک الشفاعة يا رسول الله” پھر جتنے حضرات نے سلام بھیجا ہو ان کے سلام شہنشاہ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مقدس بارگاہ میں عرض کریں ۔

اس کے بعد تھوڑا سا آگے کو پڑھیں اور وزیر رسول، امیر المؤمنين سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے چہرہ انور کے سامنے ٹھہر کر انہیں یوں سلام عرض کریں : ⬇

السلام علیک یا خليفة رسول الله.. السلام علیک یا وزیر رسول الله ـ پھر تھوڑا اور آگے بڑھیں اور مراد رسول خلیفۃ المسلمین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے روبرو کھڑے ہوں اور انہیں یوں سلام عرض کریں : ⬇

السلام علیک یا امیر المؤمنين .. السلام علیک یا خليفة المسلمين ۔

یہ تینوں بارگاہیں قبولیت دعا کی ہیں ، لہٰذا جو کچھ مانگنا چاہیں مانگیں ۔

حاضری کے بعد اس طرح ہا ادب باہر آئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کی طرف ہرگز ہرگز پیٹھ نہ ہو ۔ اگر کوئی شرطہ یا مطوع وغیرہ آپ کے ساتھ الجھنے کی کوشش کرے تو آپ پوری کوشش کریں کہ ان کے ساتھ کوئی بحث مباحثہ نہ ہو ، کیونکہ وہ ایسا کر کے آپ کی توجہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہٹانا اور آپ کا ذوق شوق خراب کرنا چاہتے ہیں ۔

اس کے بعد ریاض الجنۃ میں ہر ہر ستون اور منبر پاک کے پاس نوافل پڑھیں اور دعائیں مانگیں ۔ مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے کوئی ایک سانس بھی ہے کار نہ جانے دیں ، ضروریات کے علاوہ سارا وقت مسجد شریف میں باوضو گزاریں ۔ نوافل ، تلاوت قرآن اور درود پاک کی کثرت کریں ، روزے رکھیں ، صدقہ و خیرات کریں ۔ قرآن حکیم کا کم از کم ایک ختم کریں ۔

جیسے کعبہ شریف اور قرآن حکیم کی زیارت عبادت ہے اسی طرح روضہ پاک کی زیارت بھی عبادت ہے ۔ ہر فرض نماز کے بعد یا کم از کم صبح شام مواجہہ شریف پر حاضر ہو کر با ادب سلام پیش کریں ۔ اگر آپ باہر کہیں کام جا رہے ہوں اور گنبد خضریٰ شریف پر نظر پڑے تو فوراً رک جائیں اس کی طرف منہ کر کے ہاتھ باندھ کر سلام عرض کریں ، اگر ایسا نہ کیا تو یہ خلافِ ادب ہے ۔ جب گنبد خضریٰ شریف سامنے ہو تو آپس میں باتیں ہرگز نہ کریں ، اگر بات کرنا ضروری ہو تو گنبد شریف سے چھپ کر کریں ۔

تمام نمازیں مسجدِ نبوی شریف میں قرب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ادا کریں ، یہاں کی ایک نیکی پچاس ہزار نیکیوں کے برابر ہے ۔ کوشش کریں کہ چالیس نمازیں مسلسل بِلا ناغہ مسجد شریف میں ادا ہوں ۔ روضہ انور کی طرف کسی بھی صورت میں پیٹھ نہیں ہونی چاہیے ۔ نماز میں بھی ایسی جگہ نہ کھڑے ہوں کہ روضہ اقدس کو پیٹھ کرنی پڑے ۔

جب مدینہ منورہ سے رخصت ہونے کا وقت آئے تو شہنشاہ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں ، با ادب سلام عرض کریں ، اجازت کے طلب گار ہوں ، بار بار حاضری کی نعمت کی بھیک مانگیں ، مدینہ طیبہ میں ایمان پر موت اور جنت البقیع میں دفن ہونے کی دعا کریں اور نہایت غمگین کیفیت کے ساتھ واپس لوٹیں ۔

مر کے جیتے ہیں جو ان کے در پہ جاتے ہیں حسن
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر

بارگاہ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حاضری اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ

عاشقِ مصطفیٰ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وِصال مبارک کے بعد یہ خیال کرکے شہرِ دلبر مدینہ منورہ سے شام چلے گئے کہ جب یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی نہ رہے تو پھر اِس شہر میں کیا رہنا ۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو سرورِ کل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے خواب میں آئے اور فرمایا : ما هذه الجفوة يا بلال ؟ أما آن لک أن تزورني ؟ يا بلال ۔
ترجمہ : اے بلال ! یہ فرقت کیوں ہے ؟ اے بلال ! کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم ہم سے ملاقات کرو ؟
اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَشک بار ہو گئے ۔ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کو حکم سمجھا اور مدینے کی طرف رختِ سفر باندھا ، اُفتاں و خیزاں روضۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری دی اور بے چین ہوکر غمِ فراق میں رونے اور اپنے چہرے کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ملنے لگے ۔ (شفاء السقام في زيارة خير الأنام صفحہ 39،چشتی)(الجوهر المنظم صفحہ 27)(سير أعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 358)(تاريخ مدينة دمشق جلد 7 صفحہ 137)(نيل الأوطار شوکانی جلد 5 صفحہ 180)

شیخ سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری

امام جلا الدین سیوطہ علیہ لرحمہ فرماتے ہیں کہ : ولی کبیر و امام شہیر حضرت سید احمد ابن رفاعی رضی اللہ عنہ کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی قبر شریف سے دست مبارک کو باہر نکالنے کے بارے میں سوال ہوا ہے کہ آیا وہ واقعہ ممکن ہے یا نہیں ؟ اور کیا اس مشہور روایت کی سندیں عالی و صحیح ہیں یا نہیں؟ میں نے اسی سوال کے جواب میں یہ کتابچہ تحریر کیا ہے اور اس کا نام رکھا ہے ’’الشرف المحتم فیما من اللہ بہ علی ولیہ السید احمد الرفاعی رضی اللہ عنہ من تقبیل ید النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ۔ سب سے پہلے جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات اور تمام دوسرے انبیاء کی حیات قطعی و یقینی ہے اور اس یقین کےلیے ہمارے پاس یقینی دلائل و براہین ہیں ۔ صحیح روایتیں اور متواتر خبریں ہیں، خود میں نے حیات الانبیاء کے موضوع پر ایک خاص کتاب تصنیف کی ہے جس میں دلائل و اخبار کو تفصیل سے ذکر کیاہے ۔ یہاں میں ان دلائل میں سے چند ایک کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔ امام ابو نعیم نے ’’الحلیۃ‘‘ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم مر بقبر موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام وہو قائم یصلی فیہ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرے تو پایا کہ وہ قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ۔

امام ابو یعلی نے اپنی مسند میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ : الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون ۔
ترجمہ : انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں ۔

اور یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے مرتبۂ نبوت و شہادت دونوں اکھٹا کر دیا ہے ، یعنی دونوں مرتبے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات میں جمع ہو گئے ہیں اور اس کی دلیل امام بخاری اور امام بیہقی کی روایت کردہ وہ حدیث ہے جسے ان حضرات نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تخریج کیا ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے مرض وفات میں فرمایا کرتے تھے کہ : لم ازل اجد الم الطعام الذی اکلت بخیبر فہذا او ان انقطاع ابہری من ذالک السم ۔
ترجمہ : میں اب بھی خیبر میں کھائے گئے (زہریلے) کھانے کی تکلیف محسوس کرتا ہوں ، اس زہر کے اثر سے ’’ابہری‘‘ رگ کے منقطع ہونے کا وقت آگیا ہے ۔

لہٰذا نص قرآنی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات ثابت شدہ ہے ، کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ : لاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربہم یرزقون ۔
ترجمہ : اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں ۔

انبیائے کرام علیہم السلام شہداء سے اس بات کے زیادہ حقدار ہیں اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انبیاء کرام صلوٰۃ اللہ و سلامہ علیہم اجمعین سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ احقیت ان فضائل و خصائص کے سبب ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عطا کیے ہیں ، نہایت ثقہ محدثین نے انبیاء کی حیات کو مستقلاً موضوع بنایا ہے ، بعض انبیاء علیہم السلام کو خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باحیات دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہی ہمیں خبر دی ہے اور بلاشبہ ان کی خبر سچی ہے کہ ہمارے درود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پیش کیے جاتے ہیں اور ہمارے سلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچائے جاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کا جواب دیتے ہیں جو سلام پیش کرتا ہے ۔

البارزی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باحیات ہیں ، ایام حرہ میں حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ قبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک گونج سن کر ہی نماز کے اوقات کو جانتے تھے ۔

’’احبار مدینہ‘‘ میں زبیر بن بکار نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : میں ایام حرۃ میں مزار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اذان و اقامت کی آواز سنتا رہتا تھا، یہاں تک کہ لوگ واپس آگئے ۔

عفیف الدین یافعی فرماتے ہیں کہ : یہ طے شدہ ہے کہ جو چیز انبیائے کرام کیلئے بطور معجزہ جائز ہے وہ سب اولیاء کے لئے بطور کرامت بلا شرط چیلنج جائز ہے ۔ اور فرماتے ہیں کہ  اور یہ ایسی بات ہے کہ اس بات کا انکار صرف جاہل شخص ہی کرے گا، حیات انبیاء کے سلسلے میں علماء کے بے شمار اقوال ہیں لیکن میں اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں ، چونکہ حیات انبیاء ثابت ہے اور اولیاء کا انبیائے کرام کے کلام کو سننا اور ان کی زیارت کرنا بھی صحیح ہے ، لہٰذا سیدی سید احمد ابن رفاعی رضی اللہ عنہ کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست مبارک کا قبر شریف سے باہر آنا بھی ممکن ہے اور اس میں یا تو کجی و گمراہی والا شبہ کرے گا یا ایسا منافق جس کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے ، اس صفت و خوبی یا س کے مثل کا انکار سوئے خاتمہ کا سبب ہوتا ہے ۔ اللہ عزوجل ہماری حفاظت فرمائے آمین ، کیونکہ اس میں دائمی معجزہ اور کھلی کرامت کا انکار ہے ۔

ہم سے ہمارے شیخ ، شیخ الاسلام کمال الدین امام کاملیہ نے روایت کی ہے ، انہوں نے ہمارے مشائخ کے شیخ امام علامہ شیخ شمس الدین جزری سے ، انہوں نے اپنے شیخ امام زین الدین مراعی سے، انہوں نے شیخ الشیوخ شجاع و محدث و واعظ و فقیہ و مقرر و مفسر، امام و مقتدا و حجت شیخ عزالدین احمد فاروقی سے، انہوں نے اپنے والد استاد اصیل علامہ جلیل شیخ ابو اسحاق فقرائے ابراہیم فاروقی سے، اور انہوں نے اپنے والد امام فقہاء و محدثین شیخ فقرائے اکابر و علمائے عاملین شیخ عز الدین عمر ابوالفرج قدس اللہ سرہم اجمعین سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ 555ھ کے حج میں، میں اپنے شیخ و ملجا اور اپنے سردار ابو العباس قطب و غوث شیخ سید احمد رفاعی حسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ تھا۔ اس سال آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حج کی سعادت حاصل ہوئی تھی، جب حضرت رفاعی مدینہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حجرے کے سامنے کھڑے ہوکر لوگوں کی موجودگی میں بلند آواز سے عرض کیا۔ السلام علیک یا جدی یعنی اے میرے جد آپ پر سلام ہو تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا وعلیک السلام یا ولدی اے میرے بیٹے تم پر بھی سلامتی ہو اور اس (جواب) کو مسجد نبوی میں موجود ہر شخص نے سنا اور یہ سن کر سیدنا احمد رفاعی پر جذب طاری ہو گیا ۔ آپ تھرا اٹھے ، آپ کا رنگ زرد پڑ گیا ، گریہ و زاری کرتے ہوئے گھٹنے کے بل کھڑے ہو گئے اور دیر تک سسکیاں لیتے رہے پھر عرض کیا اے جد کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ⬇

فی حالۃ البعد روحی کنت ارسلہا
تقبل الارض عنی وہی نائبتی
وہذہ دولۃ الاشباح قد حضرت
فامدد یمینک کی تحظی بہا شفتی

ترجمہ : اے جد کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوری کی حالت میں اپنی روح و خیال کو بھیجا کرتا ہے جو میری نیابت میں آستاں بوسی کرتے تھے اور آج یہ دور افتادہ خود در دولت پر حاضر ہے لہٰذا آپ اپنے دست کرم کو دراز فرمائیں تاکہ میرے لب دست بوسی کی سعادت حاصل کرسکیں ۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے معطر دست مبارک کو قبر انور شریف سے باہر نکالا، جسے نوے ہزار زائرین کے ہجوم میں امام رفاعی نے چوما، یہ سارے لوگ دست مبارک کو دیکھ رہے تھے، اس وقت مسجد میں حجاج کرام کے درمیان شیخ حیات بن قیس حرانی، شیخ عبدالقادر جیلی (حضرت غوث اعظم مقیم) بغداد، شیخ خمیس اور شیخ عدی بن مسافر شامی وغیرہ بھی موجود تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو ان حضرات کے علوم و اسرار سے نفع بخشے، ہم نے بھی ان حضرات کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاکیزہ دست مبارک کی زیارت کی اور اسی دن شیخ حیات بن قیس حرانی نے سید احمد کبیر رفاعی سے خرقہ خلافت حاصل کیا اور آپ کے مریدین و مسترشدین میں شامل ہو گئے ۔

ایک دوسرے طریقے سے مجھ سے روایت کیا ہے ۔ شیخ محمد علی نے ان سے شیخ ابی الرجال یونینی بعلبکی نے ، ان سے شیخ عبد اللہ بطائحی قادری نے، ان سے شیخ علی بن ادریس یعقوبی نے اور ان سے ان کے شیخ قطب یگانہ و غوث زمانہ شیخ عبدالقادر جیلی بغدادی نے روایت کیا ہے۔ فرمایا کہ اس محفل کرامت میں، میں بھی موجود تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دست بوسی کے ذریعہ شیخ احمد کبیر رفاعی کی کرامت و بزرگی کا اظہار کیا۔ یعقوبی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ حضرت جیلانی سے عرض کیا: حضور حاضرین کو اس کرامت و بزرگی سے حسد نہیں ہوا تو یہ سوال سن کر حضرت غوث صمدانی رونے لگے اور جواب دیا۔ اے ابن ادریس اس پر تو ملاء اعلیٰ (فرشتوں) نے بھی رشک کیا ہے۔ ایک اور طریقے سے، مجھ سے امام قوصی نے بیان کیاہے۔ ان سے شیخ قطب الدین خزانچی نے، ان سے شیخ رکن الدین سنجاری نے، ان سے ان کے شیخ عدی بن مسافر نے اور ان کے خادم شیخ علی بن موہوب نے بیان کیا ہے، دونون فرماتے ہیں کہ : حج والے سال ہم مسجد نبوی میں تھے تو دیکھا کہ شیخ احمد بن رفاعی رضی اللہ عنہ حجرہ طیبہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہیں اور کچھ عرض کررہے ہیں جسے بہت سے حضرات نے یاد رکھا اور نقل کیا ہے اور جیسے ہی آپ کی گفتگو ختم ہوئی، فورا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دستِ مبارک قبر شریف سے باہر نکلا اور شیخ رفاعی نے اس کا بوسہ دیا۔ ہم جملہ حاضرین کے ساتھ اس (روح پرور اور ایمان افروز) منظر کو دیکھ رہے تھے (شیخ عدی کے خادم) ابن موہوب کہتے ہیں کہ : خدا کی قسم! گویا اب بھی وہ نظارہ میرے سامنے ہے، جب سفید گورا معتدل ہاتھ قبر مبارک سے باہر نکلا جس کی انگلیاں خوب لمبی لمبی تھیں، گویا بجلی چمک رہی ہو، حرم و اہل حرم گویا سبھی رقص کناں ہوں ۔ لوگ سلطان محمدی اور جلال احمدی سے اس قدر مرعوب و لرزاں و ترساں تھے اور (اس معجزۂ گرامی) سے اس طرح حیرت زدہ تھے گویا قیامت آنے والی ہو۔ لوگ حیرت و دہشت میں بے قرار و بے اختیار اٹھ بیٹھ رہے تھے۔ کبھی اللہ کی تکبیر وبڑھائی بولتے تو کبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام بھیجتے ۔
یہ بات معروف ہے کہ حضرت رفاعی کی یہ منقبت مسلمانوں کے درمیان درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہے ۔ اس کی سندیں عالی اور بلند مرتبہ ہیں اور اس کی روایتیں صحیح ہیں۔ تمام راویوں کا اس کی صحت و صداقت پر اتفاق ہے، اور اس کا انکار منافقت کی نشانیوں میں سے ہے ۔

فائدہ : اگر یہ کہا جائے کہ کیا اس فضل و منقبت کے سبب سید احمد (رفاعی) رضی اﷲ عنہ اور دوسرے زائرین صحابہ کے زمرے میں داخل ہوگئے؟ کیونکہ ان حضرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رویت حاصل ہوئی ہے ۔

جواب : ہمارے اساتذہ کے موقف کے مطابق زمرۂ صحابیت میں ان کا دخول محل نظر ہے اور صحیح تر یہ ہے کہ یہ لوگ داخل نہیں ہیں۔ یہی رائے سنجاوی وغیرہ کی ہے کیونکہ صحابیت کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری دنیوی حیات سے متعلق ہے اور یہ حیات اخروی ہے، دنیوی نہیں ہے اور دنیا کے احکام بھی اس سے متعلق نہیں ہیں ۔ یہ واقعہ بھی ثابت شدہ ہے کہ جب سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے دوبارہ حج فرمایا اور اسی سال میں ان کا وصال بھی ہوا تھا تو انہوںنے روضہ مبارک علی ساکنہا افضل الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کھڑے ہوکر انتہائی عاجزی و خاکساری سے عرض کیا یعنی اگر کہا گیا کہ تم نے زیارت کی تو کیا لے کر لوٹے ؟ تو اے بزرگ ترین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم کیا جواب دیں گے؟ تو قبر انور سے ایک آواز آئی جسے مسجد میں موجود ہر شخص نے سنا ۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر ایک کو اس کی زبان میں مخاطب کرتے تھے، جب حمیری نے پوچھا ’’ہل من امبر صیام فی امسفر‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی حمیری لہجے میں جواب دیا اور لام تعریف کی جگہ میم استعمال فرمایا تھا اور یہ مشہور و معروف بات ہے، سید احمد رفاعی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جواب اسی قبیل سے تھا ۔
میں (امام سیوطی) اللہ تعالیٰ کےلیے جس بات کو مانتا ہوں اور جس پر عقیدہ رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ سید احمد ابن رفاعی فاطمی حسینی رضی اللہ عنہ معرفت الٰہی میں پائیدار پہاڑ کی مانند تھے، عظیم ترین سردار تھے، بہت بڑے ولی تھے اور سنت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحر بے کنار تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ اولیاء اللہ اور گروہ صوفیا کے ایسے مستند سردار تھے جن کی ذات پر طریقت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ، جن کی عظمت پر علماء والیاء کا اجماع واقع ہے۔ ان کے تمام معاصر اولیاء نے ان کی سربراہی میں اور ان کے تقدم کا اعتراف کیا ہے ۔ آپ کے زمانے کے اکابر مشائخ نے آپ کے پرچم رشد وہدایت کے نیچے راہ سلوک طے کیا ہے ۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر پختگی کے ساتھ کاربند اور ان کی اتباع میں خوب راسخ قدم تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر تواضع اور حسن اخلاق کا خاتمہ ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ حضرت سید احمد ابن رفاعی رضی اللہ عنہ کے علومِ روحانی امداد سے اور حال و قال سے مستفیض فرمائے اور ہمیں ان کے اور ان کے ولی دوستوں کے زمرے میں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لواء کے سائے میں رکھے آمین ۔


واقعہ اعرابی اور وسیلہ کا شرعی مفہوم و جواز قرآن و حدیث کی روشنی میں : ⏬

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں فریاد ،کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء)

معلوم ہوا استغاثہ اور وسیلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جائز ہے ۔

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ ( تفسیر بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی ۔ (۔تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265 )

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے آستانہ پر آجائیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کا وسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اور نام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہو جائے وہ وسیلہ ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ، اجماعِ امت اور دلائل عقلیہ سے ہے ۔ اوپر دی گئی آیہ کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر مجرم کےلیے ہر وقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اور اجازت عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورة المائدہ ، 35)
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کا وسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اور اس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔ معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے ۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۔ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ : اے محبوب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔

معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات اعمال صالحہ طہارت کا کافی وسیلہ نہیں ۔ بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ۔ (سورة البقرہ، 89)

مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہلِ کتاب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیا بلکہ تائید کی اور فرمایا کہ '' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگا کرتے تھے اب ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے ۔ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۔ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔

بہت سے مفسرین کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرنا تھا ۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انبیائے کرام علیہم السلام کابھی وسیلہ ہیں ۔

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۔ (سورة البقرہ، 144) ۔
ترجمہ : ہم آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں ۔

معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لیے ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔ جب کعبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ کا محتاج ہے تو دوسروں کا کیا پوچھنا ہے ۔

مسندامام احمدبن حنبل میں حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چالیس (40) ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس (40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں سے عذاب دور ہو گا ۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے وسیلہ سے بارش فتح و نصرت ملتی ہے اور بلا دفع ہوتی ہے ۔ (مشکوٰة باب ذکرِ یمن و شام)

دارمی شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں بارش بند ہوگئی اور قحط پڑ گیا لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیاآپ نے فرمایا کہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چھت کھول دو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تولوگوں نے ایسا ہی کیا تو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگا اونٹ موٹے ہو گئے گویا چربی سے بھر گئے ۔ (مشکوٰة ،باب الکرامات)

مشکوٰ شریف باب المعراج میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے تو آپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا ؟ فرمایا ہر دن پچاس (50) نمازوں کافرمایا ۔ حضور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں اتنی طاقت نہیں میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں ۔ اپنی امت کےلیے رب سے رعایت مانگیے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اور رحمت ملی کہ پچاس (50) نمازوں کی صرف پانچ باقی رہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کاوسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے ۔

مسلم و بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا '' انما اناقاسم واللہ معطی'' (مشکوٰة ،کتاب العلم) ۔ ترجمہ : ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔

معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تقسیم فرمانے والے ہیں اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتا ہے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خالق کی ہر نعمت کاوسیلہ ہیں ۔

شرح السنہ میں ہےکہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے ایک اونٹ نے جو کھیت میں کام کر رہا تھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا اور منھ اپنا زانوئے مبارک پر رکھ کر فریادی ہوا کُل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے مالک کو بلا کر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتا ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم دیتے ہو ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرو ۔ معلوم ہواکہ بے عقل جانور بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رفع حاجات کےلیے وسیلہ جانتے ہیں ۔ جو انسان ہو کر ان کے وسیلہ کا منکر ہو وہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔ کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کودودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع)

معلوم ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس کا فائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان تو ان کابندۂ بے دام ہے ۔

اشیاء کا وسیلہ

مسلم شریف میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاجُبہّ شریف تھا ۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کونبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں کہ مدینہ میں جو بیمار ہو جاتا ہے اسے دھو کر پلاتے ہیں اس سے شفا ہو جاتی ہے ۔ (مشکوٰة، کتاب اللباس)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بدن شریف سے مس کیے ہوئے کو شفا کا وسیلہ سمجھ کر اسے دھو کر پیتے تھے ۔

بخاری شریف کتاب المساجد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کوحج کو جاتے ہوئے ہراس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے حج کے موقع پر نمازپڑھی تھی ۔ یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں معلوم ہوا کہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما کو دے کر کہا تھا کی یہ چادر میرے بعد اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لے دعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا ۔

یہ اولیاء اللہ سے وسیلہ کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔

بزرگانِ دین علیہم الرّحمہ کے اقوال

صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک کے تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مخلوق کیلئے وسیلہ ٔ عظمیٰ ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ سے اولیاء اللہ اور علماء بھی وسیلہ ہیں ۔

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ قصیدہ نعمان میں فرماتے ہیں : ⬇

اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک

ترجمہ : یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عطا کا امیدوار ہوں اور مخلوق میں ابوحنیفہ کےلیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا کوئی نہیں ۔ معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا وسیلہ مانتے ہیں ۔

غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ اپنے قصیدہ ٔ غوثیہ میں اپنے خداد اد اختیارات بیان فرما کر ارشاد فرماتے ہیں : ⬇

وکل ولی لہُ قدم وانی
علیٰ قدم النبی بدرالکمال

ترجمہ : میں جو دنیا پر راج کر رہا ہوں اور میرے قبضہ میں زمین و زمان ، مکین و مکان ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ولی کسی نہ کسی نبی کے نقش قدم پر ہوتا ہے میں نبیوں کے چاند اور رسولوں کے سورج حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدموں پر ہوں ۔

معلوم ہوا کہ حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسی اہم خلقت ہیں کہ انہیں سارے مراتب عالیہ اسی سرکار سے میسر ہوئے ۔

امام بوصیری رضی اللہ عنہ قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں اور یہ مقبول بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہو چکا ہے : ⬇

ومن تکن برسول اللہ نصرتہ
ان تلقہ الاسدفی احامھابجم

ترجمہ : جس کی مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمادیں وہ شیروں سے بھی بچ جاتا ہے ۔

معلوم ہوا کہ ہربزرگ بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوہرمصیبت کے دفع کا وسیلہ مانتے ہیں ۔

مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ اپنی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں : ⬇

اے بسادرگوخفتہ خاک دار
بہ ز صداحیاء بنفع وابتشار

سایہ اوبورخاکش سایہ مند
صدہزاراں زندہ درسایہ دے اند

ترجمہ : بہت سے قبروں میں سونے والے بندے ہزاروں زندوں سے زیادہ نفع پہونچاتے ہیں ان کی قبر کی خاک بھی لوگوں پر سایہ فگن ہے لاکھوں زندے ان قبروالوں کے سایہ میں ہیں ۔ معلوم ہواکہ مولانا علیہ الرحمہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کو بعد وفات زندوں کا وسیلہ مانتے ہیں ۔

عقلی دلائل اور وسیلہ

عقل کابھی تقاضہ یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے حسب ذیل دلائل سے ۔

رب تعالیٰ غنی اور ہم سب فقیر ہیں '' جیسا کہ ارشاد تبارک و تعالیٰ ہے ''اللہ غنی وّ انتم الفقراء ُ '' اور وہ غنی ہمیں بغیر وسیلہ کے کوئی نعمت نہیں دیتا ۔ ماں باپ کے وسیلہ سے جسم دیتا ہے ۔ استاد کے ذریعہ علم ، پیر کے ذریعہ شکل ، ملک الموت کے ذریعہ موت ، غرضیکہ کوئی نعمت بغیر وسیلہ نہیں دیتا تو ہم فقیر و محتاج ہو کر بغیر وسیلہ اس سے کیسے لے سکتے ہیں ۔ اگر اس کو سب کچھ خود کرنا ہوتا تو وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیوں بھیجتا ۔ بلکہ خود ہی سب کو ہدایت دے دیتا ۔

دنیا ادنیٰ اور تھوڑی ہے آخرت اعلیٰ اورزیادہ ہے ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''قل متاع الدنیا قلیل ''اورفرماتاہے ''والاٰ خرة خیروّ ابقیٰ '' جب دنیا جیسی حقیر بغیر وسیلہ نہیں ملتی تو آخرت جو دنیا سے اعلیٰ ہے بغیر وسیلہ کیوں کر مل سکتی ہے ۔ اس لیے قرآن و ایمان دینے کےلیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔ ہمارے اعمال کی مقبولیت مشکوک ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و اولیاء اللہ علیہم الرحمہ کی مقبولیت یقینی ہے ۔ جب مشکوک اعمال وسیلہ بن سکتے ہیں تو یقینی مقبول بندے بدرجۂ اولیٰ وسیلہ ہیں ۔

اعمال صالحہ وسیلہ ہیں رب سے ملنے کا اور اعمال کا وسیلہ انبیاء ، اولیاء ، علما ء تو یہ حضرات وسیلہ کے وسیلہ ہوئے اور وسیلہ کا بھی وسیلہ ہے لہٰذا یہ حضرات بھی وسیلہ ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے تین سوسال تک خانۂ کعبہ میں بت رکھےگے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دستِ اقدس سے کعبہ پاک صاف کیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ کعبہ معظمہ جو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے وہ بھی بغیر وسیلہ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پاک نہ ہوسکا تو تمہارے دل بغیر اس ذاتِ کریم کے وسیلہ سے ہرگز پاک نہیں ہو سکتے ۔ اللہ عزوجل فرماتاہے : ''وکونوامع الصادقین'' سچوں کے ساتھ رہو ۔ اور سارے سچے اولیاء علماء وسیلہ کے قائل رہے ۔ لہٰذا وسیلہ کا ماننا ہی سچا راستہ ہے ۔ شیطان نے ہزاروں برس بغیر وسیلہ والی عبادت کیں مگروہ وسیلہ والا ایک سجدہ نہ کیا تو مردود ہو گیا ملائکہ نے وسیلہ والا سجدہ کر کے محبوبیت پائی ۔ معلوم ہوا کہ وسیلہ والی عبادت تھوڑی بھی ہو تو مقبول بارگاہِ الٰہی ہے ۔

قبرمیں مردہ سے تین سوال ہوتے ہیں پہلا سوال توحید کا اور دوسرا دین کا ۔ مگر ان دونوں سوالوں کے جواب درست دینے پربھی بندہ کامیاب نہیں ہوتا اور جنت کی کھڑکی نہیں کھلتی ۔ سوال تیسرا یہ ہوتا ہے'' ماکنت تقول فی حق ہذاالرجل '' تو اس محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیا کہتا تھا ۔ دیکھ یہ تیرے سامنے جلوہ گرہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرماں بردار بندہ جواب دیتا ہے یہ میرے رسول میرے نبی ہیں اور میں ان کا امتی ہوں ۔

مسجد نبوی شریف میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار ہے ۔ کیوں ؟ کیا دوسری مسجدیں اللہ کا گھر نہیں ہیں ؟ صرف اسی لیے یہ ثواب بڑھا کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آرام فرمارہے ہیں اسی طرح بیت المقدس میں کئی ہزار پیغمبر علیہم السلام جلوہ گرہیں ۔ کعبہ وہاں بھی ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ اس لئے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام پیدائش ہے اور وہاں بیت اللہ چاہ ِ زم زم اورمقام ِ ابراہیم ہے ۔ ان کے وسیلہ سے ثواب زیادہ ہوگا ۔ وسیلہ والی عبادت کادرجہ زیادہ ہے۔ معلوم ہواکہ وسیلۂ انبیاء واولیاء اعلیٰ چیزہے ۔

منکرین وسیلہ کی سوچ کا جواب : وسیلہ کے معانی جو کہ لغت میں بیان کیے گۓ ہیں وہ یہ ہیں ۔ " ذریعہ ، واسطہ ، شفاعت ، دستگیری ، حمایت"

یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کی قران میں وسیلہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔ حالنکہ پورے قران میں نیک اعمال کیا ہیں تفسیل سے بیان کیے گۓ ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ نیک اعمال ہی وسیلہ ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر تلاش کیا کرنا ہے۔ اسی ایت میں جہاد بھی کرنے کو کہا گیا ہے ۔ اگر صرف وسیلہ کو نیک عمل ہی سمجھا جاۓ تو جہاد بھی تو نیک عمل ہے تو ایک ہی ایت میں یہ علیہدہ سے کیوں بیان کیا گیا ۔ علیحدہ آیت میں بھی تو جہاد کا ذکر ہو سکتا تھا ۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وسیلہ نیک عمل کرنے میں جو چیز مدد فراہم کرے وہ وسیلہ ہے اور جب نیک عمل ہو جاۓ گا تو اللہ کا قرب ملے گا ۔

یہ ایسا ہی ہے کہ آپ لاہور سے ملتان میلاد شریف کی محفل کےلیے جا رہے ہوں تو اس میں سواری وسیلہ ہے اور آب کا ارادہ اور سفر نیک عمل ۔ اس میں سواری اور پیٹرول نیک عمل نہیں ہیں بلکہ ذریعہ یا وسیلہ ہیں ۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام اور صالحین علیہم الرحمہ جو کہ نیک عمل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ۔ یہ سب وسیلہ ہیں - نیچے دی گی مثال میں نسبت بھی ایک بہت بڑا وسیلہ ہے کا ثبوت بخاری شریف سے پیش ہے : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔ کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع)

معلوم ہوا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان تو ان کابندۂ بے دام ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا ۔

یہ اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔

اب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک کے زمانہ کو سوچ پڑھیں :

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں فرماتے ہیں : ⬇ ( 80ھ تا 150ھ تابعین)

اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک

ترجمہ : یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حضور کی عطا کا امیدوار ہوں اور مخلوق میں ابوحنیفہ کےلیے آپ کے سوا کوئی نہیں ۔ معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپناوسیلہ مانتے ہیں ۔

پہلی مثال سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے اور مثال نمبر دو سے نیک لوگوں کو وسیلہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے ۔

استغاثہ مافوق الاسباب کے فریب کا جواب

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔ اس کاثبوت قرآنی آیات ‘ احادیث نبویہ’ اقوال بزرگاں ، اجماع امت اور دلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہرمجرم کےلیے ہر وقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔

اِستغاثہ کی بحث کے دوران اَسباب کے ضمن میں عام طور پر اُمور کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں : ⬇

(1) اُمورِ عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما تحت الاسباب ۔
(2) اُمورِ غیر عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما فوق الاسباب ۔

اِس تقسیم کے تحت ما تحت الاسباب ہونے کے ناطے اُمورِ عادیہ میں اِستغاثہ کو جائز سمجھا جاتا ہے ، جبکہ اُمورِ غیر عادیہ جو ما فوق الاسباب ہوتے ہیں، میں اِستغاثہ کو شِرک قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کام جو بالعموم اَسباب کے ذریعے سراِنجام پاتے ہیں ان عادی اَسباب کو ترک کر کے مدد چاہنا اِستغاثہ مافوق الاسباب کہلاتا ہے اور اَسبابِ عادیہ کو اِختیار کرتے ہوئے مدد چاہنا ماتحت الاسباب ہے، یعنی اس میں کسی سے مدد چاہتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرلیا جاتا ہے جو بالعموم اس امر سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس تقسیم کے بعد یہ امر پیشِنظر رہنا چاہیئے کہ اُن کے نزدیک دُنیوی حوائج میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہمی اُمور میں تعاون کرنا اِستغاثہ ماتحت الاسباب ہے اور یہ جائز ہے، جیسے اِرشادِ ربانی ہے :وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰي.ترجمہ : اور نیکی اور تقویٰ (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو ۔ (سورہ المائده، 5 : 2)

ما تحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ کو رَوا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک وہ اِستغاثہ جو ما فوق الاسباب اُمور میں سے ہو وہ حرام و ناجائز ہے ۔

اس اِعتراض کا علمی محاکمہ : پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و اِستخراج کا نتیجہ ہے ۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم پرشاہد نہیں ۔

یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا نام دیتے ہیں ۔

دُوسرا نکتہ : سورۂ فاتحہ کی جس آیتِ کریمہ کو مسئلہ کی بنیادی کڑی اور اصل سمجھا جاتا ہے خود اُس میں اَسباب کے تحت کی جانے والی کسی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں کیا گیا اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کہہ کر مدد طلب کرنے کو مطلق رکھا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ ألْمُطْلَقُ يَجْرِيْ عَلَي إِطْلَاقِه (مطلق اپنے اِطلاق پر جاری رہتا ہے) اِس لئے ہم کسی خود ساختہ تقسیم کے تحت یہ معنی متعین نہیں کر سکتے کہ اَے باری تعالی! ہم تُجھ سے صرف مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہتے ہیں کیونکہ وہ تیرے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا، رہی بات ماتحت الاسباب اُمور کی تو اُن میں چونکہ تیرے علاوہ حصولِ مدد کے اور بھی کثیر ذرائع موجود ہیں اِس لئے اُن معاملات میں تُجھ سے مدد مانگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ اِس طرح کی تقسیم کم علمی اور نادانی کے سِوا کچھ نہیں اور یہی صحیح معنوں میں شِرک میں مبتلا کرنے والی ہے ۔

تیسرا نکتہ : تفہیمِ مسائل، رفعِ اِلتباس اور بعض اشیاء کو بعض سے ممیز کرنے کےلیے تقسیمات کی جاتی ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں مذکورہ تقسیم کی عدم ضرورت کے باوجود تقسیم کرنے اور پھر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز سمجھنے کا کیا جواز ہے ؟ جبکہ مافوق الاسباب میں شِرک کے فتاویٰ جائز اور درُست قرار دیئے جا رہے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں اِستغاثہ حقیقی اور اِستغاثہ مجازی کی تقسیم کی جائے تو پھر اُس کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ؟ فی الواقع ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں تقسیم تو ہے مگر ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بجائے حقیقت اور مجاز کی ہے ۔

صحیح اِسلامی عقیدہ

’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کے کلمات میں بندہ باری تعالیٰ سے عرض کناں ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنی ضروریات کی کفالت کے لئے ظاہراً کسی سے بھی مدد کے طلبگار ہوں اُس کو مُستغاثِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ مُستغاثِ حقیقی فقط تجھی کو سمجھتے ہیں کیونکہ تیری عدم رضا کی صورت میں کوئی ہمارا مددگار اور پُرسانِ حال نہیں ہو سکتا۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ خواہ ہم ڈاکٹر کے علاج معالجہ سے شفایاب ہو رہے ہوں یا کسی بزرگ کے دُعا سے، کسی کو بھی مستعانِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ حقیقی مددگار تو اللہ ربّ العزّت ہے ۔ ہم دوا اور دُعا دونوں کو سبب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اصل مُستغاث اور کارساز تو ہی ہے ۔

چوتھا نکتہ : اب غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں تقسیموں، ’’مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب‘‘ اور ’’حقیقت و مجاز‘‘ میں تطبیق کیونکر ممکن ہے؟ بلا شبہ بعض اُمورِ حیات میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی تقسیم رَوا ہے۔ یہ امرِِ واقعہ ہے اور فہم و شعور میں سمانے والی چیز ہے جس کا ثبوت لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ کچھ اُمور ماتحت الاسباب حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور کا حل مافوق الاسباب تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اَسباب دراصل دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اَسباب بدیہی ہوتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب اُمور میں اَسباب عام آدمی کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں ۔ ماتحت الاسباب کو ظاہری اور مافوق الاسباب کو رُوحانی اور باطنی اَسباب کہنا زیادہ موزوں ہو گا ۔ مافوق الاسباب اُمور میں اگرچہ اسبابِ عادیہ کا ترک ہوتا ہے مگر اسبابِ غیر عادیہ کا وُجود تو بہرطور یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ گویا حقیقی معنوں میں کوئی بھی اُمور مطلقاً مافوق الاسباب نہیں ہوتے ۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں اسباب ظاہری ہوتے ہیں جو عام بندے کو دِکھائی دے جاتے ہیں ۔ جبکہ مافوق الاسباب میں اسباب غیر عادیہ ہونے کی وجہ سے فردِ بشر کی عام نظر سے دکھائی نہیں دے پاتے ۔

جب انبیاء، علیہم السّلام اولیاء، صلحاء علیہم الرّحمہ یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی ۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجازاً اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی معنی حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کےلیے خاص ہے ۔

حقیقت و مجاز کی تقسیم لابدّی ہے

نفسِ اِستغاثہ کا اِنکار کرنے والے ایک طبقے کا مؤقف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ جائز ہے، جبکہ اِس سلسلے میں حقیقت و مجاز کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ اب اس مؤقف کے قائل لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز اور درست مانا جائے اور اِستغاثہ حقیقی و مجازی کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ماتحت الاسباب اُمور میں مُستغاثِ حقیقی کون ہوگا ؟۔۔۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جائے تو مُستعانِ حقیقی کون ہوا؟۔۔۔ کیا مُستعانِ حقیقی وہ ڈاکٹر جو مریض کے معالجے کی تدبیر کر رہا ہے یا کہ اللہ تعالی؟۔۔۔ اگر اِس کا جواب یہ ہو کہ دُنیوی اُمور میں بھی مُستعانِ حقیقی اللہ ہی ہے تو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں باہم فرق کیا رہا ؟ ۔۔۔ مافوق میں اسی اِستغاثہ کا نام شِرک اور ماتحت الاسباب میں اجازت! یہ کہاں کا اصول ہے کہ حقیقت و مجاز کا فرق ملحوظ رکھے بغیر مُستعانِ مطلق بھی اللہ کو قرار دیا جائے اور اُس کے غیر سے مدد بھی طلب کرتے پھریں ؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَo ۔ ترجمہ : اور ہمارا ربّ بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہو ۔ (سورہ الانبياء، 21 : 112)

دُوسری صورت میں اگر اِس کا جواب یہ دِیا جائے کہ اُمورِ ماتحت الاسباب میں مستغاثِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ نہیں اِنسان ہی ہے تو اس سے تعدّد لازِم آئے گا ۔۔۔ جو یقیناً شِرک ہے ۔۔۔ کہ دُنیوی کاموں میں مستعان بندہ ہو اور مافوق الاسباب کاموں میں اللہ تعالی ۔ اِس دُوئی کی بنا پر جب بندے کو مستغاث و مستعان تسلیم کیا جائے تو یہ بالکل اُسی طرح کا شِرک قرار پائے گا جو کفار و مشرکینِ مکہ کا تھا کہ وہ دُنیوی اُمور میں بندوں کو مددگار تسلیم کرتے اور دیگر اُمور میں اللہ تعالی کو مددگار مانتے تھے ۔ اور اگر یہ بات کی جائے کہ دنیاوی اُمور میں بھی مستعان اللہ ہی ہے تو پھر اس کے غیر سے مدد مانگنا کیونکر درست ہوگیا ؟

فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جب معترضین کے نزدیک اُمورِ ماتحت الاسباب میں مُستغاثِ حقیقی اللہ تعالی ہے اور مخلوق سے اِستعانت فقط ظاہری اور مجازی معنی میں ہے، حقیقی معنی میں نہیں ، ۔۔۔ تو اِس صورت میں ایک سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں غیر سے مدد چاہنا اِستغاثہ مجازی ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو مافوق الاسباب میں مجاز ہونے کے باوجود کیسے حرام ہوگیا ؟ جبکہ وہاں بھی اِستغاثہ حقیقی کی بجائے اِستغاثہ مجازی ہی تھا ۔

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا جواز

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے ، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔

جبرئیل علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟

حضرت جبرئیل علیہ السلام جب ﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا : اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo
ترجمہ : (جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔ (سورہ مريم، 19 : 19)

مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ’’میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں‘‘ مافوق الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر بھی محال ہے ۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے ﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی غیرخدا ۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ کہے کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اور ﷲ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہوگا؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے ۔ بندے کا غیرﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے غیرِخدا کا قول یہ کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ کہہ کر بھی (معاذ ﷲ) مشرک نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہوگی ؟
جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ’’میں‘‘ اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں ۔ پس مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے ۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور ﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے ۔ قرآنِ مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے : أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔
ترجمہ : بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 49)

اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے : ⬇

1۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا
2۔ مادر زاد اَندھے کا علاج
3۔ سفید داغ (برص) کا علاج
4۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا)
5۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا

یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے ، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے ۔ یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ’’أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم‘‘ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا ہوں ’’أَجْعَلُ‘‘ کی بجائے ’’أَخْلُقُ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے ۔

حقیقی کارساز اللہ ربّ العزت ہی ہے

مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے ۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے ۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے ۔ کلمات میں حقیقت و مجاز کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے ۔

کیا یہ معجزہ نہیں ؟

اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا‘‘۔ اصل بات یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت ﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’میں شفا دیتا ہوں‘‘؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی۔
چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ ﷲِ ’’ اور میں مُردوں کو ﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا ہوں‘‘۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا ، اللہ میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ’’میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ ﷲ کے اَلفاظ کے ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا ۔

پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ’’اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو‘‘۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں ۔ اِن الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ ﷲ ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیرﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ فکر سے تو اَنبیائے کرام علیہم السّلام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ سکتے ۔

ﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ ؟

سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ، مگر مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي ۔
ترجمہ : اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے ۔ (سورہ المائده، 5 : 110)
اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا، مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۔
ترجمہ : پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی ۔ (المائده، 5 : 110) ۔

رُوح پھونکنا دَرحقیقت فعلِ اِلٰہی ہے : یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے۔ مگر اُس نے خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ’’پھر تو اُس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی‘‘ وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ’’اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے‘‘ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ’’اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے‘‘۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کا غیرﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری نہ تھی ۔ ﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے ۔ اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کےلیے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو گردانا جاۓ گا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...