Saturday, 4 May 2024

عظمت و شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن کی روشنی میں

عظمت و شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی کئی اقسام ہیں جیسے خلفائے اربعہ ، عشرۂ مبشرہ ، اصحابِ بدر ، اصحابِ اُحد ، اصحابِ بیعتِ رضوان ، اہلِ بیت رضی اللہ عنہم ۔ ان میں کئی اقسام ایک دوسرے میں داخل بھی ہیں ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کی افراد کی تعداد کے اعتبار سے ایک بڑی تقسیم تو مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہ ہے اور دوسری تقسیم وہ ہے جو اوپر ذکر کردہ آیت میں بیان کی گئی یعنی فتحِ مکّہ سے پہلے والے اور بعد والے ۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جنّتی ہیں اس آخری تقسیم کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِن صحابہ میں درجہ بندی فرما دی کہ فتحِ مکّہ سے پہلے والے ، بعد والوں سے افضل ہیں ۔ یہ معاملہ افضلیت کا ہے لیکن جہاں تک بارگاہِ خداوندی میں ان کے مقبول اور جنّتی ہونے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنّت) کا وعدہ فرمالیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ جنّتی اور اللہ عزوجل کے مقبول بندے ہیں ۔ ہر صحابی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابیت کی نسبت سے ہمارے لیے واجبِ تعظیم ہے اور کسی بھی صحابی کی گستاخی حرام اور گمراہی ہے ۔ قرآن و حدیث عظمتِ صحابہ کے بیان سے معمور ہیں اور کوئی صحابی بھی اس عظمت و شان سے خارج نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ معلوم ہو اکہ مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت اور ان کامقام دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بہت بلند ہے ۔ انہیں میں حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں  اوران کی عظمت کی گواہی خود اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں  دے رہا ہے ۔ اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو ان کی شان میں  زبانِ طعن دراز کرتے اور انہیں  برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں  ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درسگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کا مکلف ایک خاص حکم کے ذریعہ بنایا تھا کہ ہر وقت ایک متعدبہ جماعت اللہ کے رسول کی خدمت میں اسلام سیکھنے کےلیے حاضر رہے اس لیے کہ کب کوئی آسمانی حکم اور شریعت کا کوئی قانون عطا کیا جائے ، لہٰذا ایک جماعت کی آپ کی خدمت میں حاضری لازمی تھی اور ان کو بھی حکم تھا کہ جو حضرات بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود نہیں ہیں ان تک ان نئے احکام اور آیات کو پہنچائیں : وَمَا کَانَ الْمُوٴْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّةً فَلَولاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْہُم طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُم اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْہِمْ لَعَلََّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر ۱۲۲)
ترجمہ : اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت وعقیدت کے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرام کی پیروی کئے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا تصور محال ہے ۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جس انداز میں زندگی گزاری ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے اور ان کے ایمان کے کمال و جمال ، عقیدہ کی پختگی ، اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح و تقویٰ کی عمدگی کی سند خود رب العالمین نے ان کو عطا کی ہے اور معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں نثاروں کی تعریف و توصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی انسان تھے ان سے بھی بہت سے مواقع پر بشری تقاضوں کے تحت لغزشیں ہوئی ہیں لیکن لغزشوں ، خطاؤں ، گناہوں کو معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے اس نے صحابہ کرام کی اضطراری ، اجتہادی خطاؤں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معافی نامہ کو قرآن کریم کی آیات میں نازل فرما کر قیامت تک کےلیے ان نفوسِ قدسیہ پر تنقید و تبصرہ اور جرح و تعدیل کا دروازہ بند کر دیا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان کی صداقت اور اپنی پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی فرد یا جماعت صحابہ کرام پر نقد و تبصرہ کی مرتکب ہوتی ہے تواس کو علماء حق نے نفس پرست اور گمراہ قرار دیا ہے ایسے افراد اور جماعت سے قطع تعلق ہی میں خیر اورایمان کی حفاظت ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت (خواہ کبار صحابہ ہوں یا صغار صحابہ) عدول ہے اس پر ہمارے ائمہ سلف اور علماء خلف کا یقین و ایمان ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق آیات پر ایک نظر ڈالیے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی بلندیوں کا اندازہ لگائیے اس کے بعد بھی اگرکسی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کی جرأت کی ہے تواس کی بدبختی پر کفِ افسوس ملیے ۔

لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ ۔ اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ ۔ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ ۔ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠ ۔
ترجمہ :  تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔ (سورہ حدید آیت نمبر 10)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بر ابھلا نہ کہو کیونکہ (ان کی شان یہ ہے کہ) تم میں  سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کر دے تو وہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں  سے کسی کے ایک مُد بلکہ اس کے نصف (خیرات کرنے) تک نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب قول النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ الخ جلد ۲ صفحہ ۵۲۲ حدیث نمبر ۳۶۷۳)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان کے بارے میں  ایک انتہائی ایمان افروز واقعہ ملاحظہ فرمائیں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے اور ان کے پاس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی حاضر تھے اور آپ رضی اللہ عنہ نے ایک عباء (یعنی پاؤں  تک لمبا کوٹ) پہنے ہوئے تھے اور اسے آگے سے باندھا ہوا تھا ۔ اس وقت حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کیا اور عرض کی : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یہ کیا بات ہے کہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک ایسی عباء (یعنی پاؤں  تک لمبا کوٹ) پہنے ہوئے ہیں جسے سامنے سے کانٹوں کے ساتھ جوڑا ہوا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے جبریل ! عَلَیْہِ السَّلَام ، (ان کی یہ حالت اس لیے ہے کہ ) انہوں  نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر دیا تھا ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی : آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سلام پیش کیجیے اور ان سے فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے فرما رہا ہے کہ تم اپنے اس فقر پر مجھ سے راضی ہو یا ناراض ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا : اے ابو رضی اللہ عنہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام تمہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کر رہے ہیں  اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض ۔ (یہ سن کر) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں  سے آنسو جا ری ہو گئے اور عرض کرنے لگے : کیا میں اپنے رب تعالیٰ سے ناراض ہو سکتا ہوں ، میں  اپنے رب سے راضی ہوں ، میں اپنے رب سے راضی ہوں ۔ (حلیۃ الاولیاء سفیان الثوری جلد ۷ صفحہ ۱۱۵ حدیث نمبر ۹۸۴۵)

اسی پاک گروہ کی ایمانی قوّت، قلبی کیفیت اور عملی حالت قرآن میں یوں بیان فرمائی گئی : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘-سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِؕ ۔ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ۔ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۔ (سورہ فتح آیت نمبر 29)
ترجمہ : محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے ان کی علامت اُن کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں ۔

مفسرینِ کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : یہ اسلام کی ابتداء اور اس کی ترقی کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنہا اُٹھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے مخلص اَصحاب رضی اللہ عنہم سے تَقْوِیَت دی ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَصحاب کی مثال انجیل میں  یہ لکھی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیدا ہو گی ، اس کے لوگ نیکیوں کا حکم کریں گے اور بدیوں سے منع کریں گے ۔ ایک قول یہ ہے کہ کھیتی سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور اس کی شاخوں  سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور (ان کے علاوہ) دیگر مومنین ہیں ۔(تفسیرکبیر جلد ۱۰ صفحہ ۸۹،چشتی)(تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۱۶۲)(تفسیر مدارک جلد ۲۹ صفحہ ۱۱۴۸)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو کھیتی سے اس لیے تشبیہ دی کہ جیسے کھیتی پر زندگی کا دار و مدار ہے ایسے ہی ان پر مسلمانوں کی ایمانی زندگی کا مدار ہے اور جیسے کھیتی کی ہمیشہ نگرانی کی جاتی ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہمیشہ صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہ کی نگرانی فرماتا رہتا رہے گا ، نیز جیسے کھیتی اولاً کمزور ہوتی ہے پھر طاقت پکڑتی ہے ایسے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اولاً بہت کمزورمعلوم ہوتے تھے پھر طاقتور ہوئے ۔ (تفسیر نور العرفان سورہ الفتح تحت الآیۃ : ۲۹ صفحہ ۸۲۲)

یہی متّقین ، صالحین ، خاشعین ، صدیقین کے سردار ہیں جن کے دلوں کی تطہیر اور نفوس کا تزکیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے کیا اور بذاتِ خود کیا جیسا کہ قرآن میں ہے : لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ ۔ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ ۔
ترجمہ : بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 164)

اور یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا : فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ ۔ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ ۔ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ ۔ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔
ترجمہ : پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو وہ نری ضد میں ہیں تو اے محبوب عنقریب اللہ ان کی طرف سے تمہیں کفایت کرے گا اور وہی ہے سنتا جانتا ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر137)

اسی مبارک گروہ کی سب سے بڑی تعداد کا نام مہاجرین و انصار ضی اللہ عنہم ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بالکل صراحت سے جنّت و مغفرت و رزقِ کریم یعنی عزّت والی روزی کا مُژدہ سناتے ہوئے فرمایا : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ ۔
ترجمہ : اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔ (سورہ انفال آیت نمبر 74)

اِنَّ الذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْواتَہم عِندَ رَسُولِ اللّٰہِ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اِمْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوبَہُم لِلتَّقْویٰ لَہُم مَغْفِرةٌ وَاَجْرٌ عَظِیْمٌ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر ۳)
ترجمہ : بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسولُ اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔

وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ لَو یُطِیعُکم فِی کَثیرٍ مِنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُم الاِیْمَانَ وَزَیَّنَہ فِی قُلُوْبِکُمْ وکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالعِصْیَانَ اُوْلٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ ۔ (سورة الحجرات آیت نمبر ۷)
ترجمہ : اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول ہیں بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں تو تم ضرور مشقت میں پڑو لیکن اللہ نے تمہیں ایمان پیارا کردیا ہے اور اُسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا اور کفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار کر دی ایسے ہی لوگ راہ پر ہیں ۔

امام المفسرین علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لئے ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور ان سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کف لسان کریں اورہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے ۔ (تفسیر قرطبی جلد نمبر ۱۶ صفحہ ۳۲۲)

فقیر چشتی کے دورانِ مطالعہ ایک ایسی حدیث پاک نظر نواز ہوئی ، جس نے دماغ کی بتیاں روشن کر دیں اور آزمائش بھرے موجودہ حالات کی ایسی سو فیصدی عکاسی کہ یہ عکاسی صرف غیب داں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی حصہ ہو سکتی ہے ، دیدہ عبرت کے ساتھ پڑھیے : امیر المومنین مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے ابن عساکر کی روایت ہے  : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تکون لاصحابی زلّۃ یغفرھا اللہ لھم لسابقتھم معی ثم یأتی قوم بعد ھم یکبھم ﷲ علی مناخرھم فی النار ۔
ترجمہ : میرے اصحاب سے لغزش ہو گی جسے اللہ عزوجل اُس سابقہ کے سبب معاف فرما دے گا جو اُن کو میری بارگاہ میں ہے لیکن پھر اُن کے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے کہ انہیں اللہ تعالیٰ ان کے منہ کے بل جہنم میں اوندھا کرے گا ۔ یہ ہیں وہ کہ صحابہ کی لغزشوں پر گرفت کریں گے ۔  (المعجم الاوسط الجزء الثالث صفحہ نمبر 300 ، حدیث نمبر 3219 مطبوعہ دارالحرمین،چشتی)(مجمع الزّوائد و منبع الفوائد الجزء السّابع کتاب الفتن حدیث نمبر 12020 دارالکتب علمیہ بیروت)

فقیر چشتی نے جب سے یہ حدیث پڑھی ہے نہ صرف موجودہ مسئلہ کا فلسفہ سمجھ میں آ گیا ہے بلکہ مسئلہ تنقیصِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں پڑے لوگوں کا آخری انجام  بھی روشن روشن ہو گیا ہے ۔ سچ یہ ہے یہ حدیث اس مسئلے میں حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے جس کے بعد آزمائشوں کی گنجائش تو ہے ، بحثوں کی نہیں ۔ ہوش و حواس کی سلامتی اور فکر آخرت کے ساتھ جو بھی اس حدیث کا مطالعہ کرے گا ، اگر واقعی اپنی آخرت کے تئیں وہ سنجیدہ ہے تو اس مبحث سے اپنا دامن بچانے میں ہی عافیت جانے گا۔ ہاں! جس کا مقدر آزمائش ہے ، وہ بہر حال چہ می گوئیاں کرے گا اور جیسا کہ فی الوقت لوگ کر رہے ہیں ، کرتا رہے گا یہاں تک کہ بفرمان حدیث ۔ العیاذ باللہ تعالی ۔ جہنم میں اوندھا جا گرے گا ۔ ذرا ایک لمحے کےلیے سوچیں ! کیا دنیا کو یہ زمینی حقیقت باور نہیں کہ جس جذبے کے ساتھ یہ امت نسبت رسول کی بنیاد پر ایک ایک آل رسول پر جان فشانی کر تی رہی ہے ، اسی جذبے کے ساتھ صحبت رسول کی بنیاد پر ایک ایک صحابی رسول کی عظمتوں پر بھی تو پہرہ دیتی رہے گی ۔ اس حقیقت کے ادراک کے با وجود اس مسئلے میں دل خراش بحثوں کا کیا صاف مطلب خود فریبی نہیں ؟
خدارا ! اب بس کریں ، امت پہلے سے بڑی آزمائشوں میں گھری ہے ، مزید اس کا امتحان نہ لیں ، نمائش کی بجائے ، حقیقی طور پر آپ کا اپنا جو بھی علمی  موقف ہے ، اگر آپ کا دل اس پر مطمئن ہے ، آپ تمام تر مطلوبہ علمی صلاحیتوں سے لیس ہیں اور اس کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ کی نجات میں مخل نہیں ہوگا تو آپ کو مبارک ۔ ورنہ عقل مندی یہ ہے کہ اپنا مزید نقصان کرنے اور امت کو مزید آزمائش میں ڈالنے سے پہلے ہی اس مسئلے میں اعلی حضرت امام رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے درج ذیل محتاط ترین فتاوی کو اپنے لیے فیصلہ کن اور حکم بنا لیں ، جن میں ایک طرف  تعلیمات حدیث کا نچوڑ ہے تو دوسری طرف اکابر کے علمی اختلافات کا  فیصلہ کن انداز میں بہترین خلاصہ بھی ہے ۔ آج نہ سہی ، کل جب بھی ہم سنجیدگی کے ساتھ ان فتاوی کے مفاہیم و مطالب پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے ، ان کو  ایک توفیق یافتہ قلم کا فیضان گرادننے پر مجبور ہوں گے ۔ آپ لکھتے ہیں اور کیا خوب لکھتے ہیں : اہل سنت کے عقیدہ میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم فرض ہے اور ان میں سے کسی پر طعن حرام اور ان کے مشاجر ت میں خوض ممنوع، حدیث میں ارشاد : اذا ذکر اصحابی فامسکوا ۔ (المعجم الکبیر،حدیث نمبر ۱۴۲۷) جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے ، (بحث و خوض سے) رُک جاؤ ۔
اللہ عزوجل عالم الغیب والشہادہ ہے اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی دو قسمیں فرمائیں : مومنین قبل الفتح ، جنھوں نے فتح مکہ سے پہلے راہِ خدا میں خرچ و جہاد کیا اور مومنین بعد الفتح ، جنھوں نے بعد کو ۔  فریق اول کو دوم پر تفضیل عطا فرمائی کہ : لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولٰئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد  وقاتلوا ۔ (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) ۔
ترجمہ : تم میں برابر نہیں وہ جنھوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا ، وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنھوں نے فتح کے بعد  خرچ اور جہاد کیا ۔
اور ساتھ ہی فرما دیا :  وکلا وعد ﷲ الحسنی ۔ (القرآن الکریم ۵۷/۱۰)
ترجمہ : دونوں فریق سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ۔
اور ان کے افعال پر جاہلانہ نکتہ چینی کا دروازہ بھی بند فرما دیا کہ ساتھ ہی ارشاد ہوا : واللہ بما تعملون خبیر ۔ (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)
ترجمہ : اللہ کو تمہارے اعمال کی خوب خبر ہے ۔
یعنی جو کچھ تم کرنے والے ہو وہ سب جانتا ہے باایں ہمہ تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا خواہ سابقین ہوں یا لاحقین ۔ اور یہ بھی قرآن عظیم سے ہی پوچھ دیکھیے کہ اللہ عزوجل جس سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا ، اُس کےلیے کیا فرماتا ہے : ان الذین سبقت لھم منّا الحسنٰی اولئک عنہا مبعدون لایسمعون حسیسہا وھم فیما اشتھت انفسھم خٰلدون لایحزنہم الفزع الاکبرو تتلقٰھم الملئٰکِۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون ۔ (القرآن الکریم ۲۱/۱۰۱ و ۱۰۳)
ترجمہ : بے شک جن سے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا ، وہ جہنم سے دُور رکھے گئے ہیں اس کی بھِنک تک نہ سُنیں گے اور وہ اپنی من مانتی مرادوں میں ہمیشہ رہیں گے، اُنھیں غم میں نہ ڈالے گی بڑی گھبراہٹ ، فرشتے ان کی پیشوائی کوآئیں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا ۔
سچا اسلامی دل اپنے رب عزوجل کا یہ ارشاد عام سن کر کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ پر نہ سوءِ ظن کر سکتا ہے ،  نہ اس کے اعمال کی تفتیش ، بفرض غلط کچھ بھی کیا ، تم حاکم ہو یا اللہ ؟ تم زیادہ جانو یا ﷲ ؟  انتم اعلم ام ﷲ ۔ (القرآن الکریم ۲/۱۴۰)
ترجمہ : کیا تمہیں علم زیادہ ہے یا اللہ تعالے کو ؟
دلوں کی جاننے والا سچا حاکم یہ فیصلہ فرما چکا کہ مجھے تمہارے سب اعمال کی خبر ہے میں تم سے بھلائی کا وعدہ فرما چکا ۔ اس کے بعد مسلمان کو اس کے خلاف کی گنجائش کیا ہے ،  ضرور ہر صحابی کے ساتھ "حضرت''  کہا جائے گا ، ضرور "رضی اللہ عنہ''  کہا جائے گا ، ضرور اس کا اعزاز و احترام فرض ہے ۔ ولوکرہ المجرمون ۔ (القرآن الکریم    ۸/۸)
ترجمہ : اگرچہ مجرم بُرا مانیں ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29)

ایک جگہ درج بالا آیات کریمہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر صحابی کی یہ شان ﷲ عزوجل بتاتا ہے ، تو جو کسی صحابی پر طعن کرے ، ﷲ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے ، اور ان کے بعض معاملات ، جن میں اکثر حکایات کا ذبہ ہیں ، ارشاد الٰہی کے مقابل پیش کرنا ، اہل اسلام کا کام نہیں ، رب عزوجل نے اُسی آیت میں اس کا منہ بھی بند فرمادیا کہ دونوں فریق صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھلائی کا وعدہ کر کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا : واللہ بما تعملون خبیر ۔ (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) ،، اور اللہ تعالیٰ کو خوب خبر ہے جو کچھ تم کرو گے ۔ باایں ہمہ میں تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرما چکا ۔ اس کے بعد کوئی بکے ، اپنا سر کھائے ، خود جہنم جائے ۔ علامہ شہاب الدین خفا جی نسیم الریاض شرح شفا امام قاضی عیاض علیہما الرحمہ میں فرماتے ہیں : ومن یکون یطعن فی معاویۃ فذالک کلب من کلاب الھاویۃ  ۔ (نسیم الریاض الباب الثالث) ،، جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتّا ہے ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29)

اسی میں ہے :  اہل سنت کے نزدیک امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطا ، خطائے اجتہادی تھی ، اجتہاد پر طعن جائز نہیں ، خطائے اجتہادی دو قسم ہے : مقرر و منکر ۔  مقرروہ جس کے صاحب کو اُس پر برقرار رکھا جائے گا اور اُس سے تعرض نہ کیا جائے گا جیسے حنفیہ کے نزدیک شافعی المذہب مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ۔ اور منکر وہ جس پر انکار کیا جائے گا جب کہ اس کے سبب کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہو جیسے اجلہ اصحاب جمل رضی اللہ تعالیٰ عنہم کہ قطعی جتنی ہیں اور ان کی خطا یقیناً اجتہادی جس میں کسی نام سنیت لینے والے کو محل لب کشائی نہیں ، بایں ہمہ اس پر انکار لازم تھا جیسا امیر المومنین مولیٰ علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم نے کیا ، باقی مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں مداخلت حرام ہے ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29،چشتی)

 مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے کلامی گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : حضرت مرتضوی امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیے اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے  اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولیٰ علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم ہم اہل سنت ان میں حق ، جانب جناب مولیٰ علی مانتے اور ان سب کو مورد لغزش بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلیٰ جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ (کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن و تشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کےلیے شرع میں ثابت ہوئے،  رکھتے ہیں ، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے ۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں ۔ تو ہم اہل سنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29)

مجھے لگتا ہے جو بھی علم دوست ، اصلاح پسند ، سنجیدہ فکر ، مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی حقیقی محبتوں کا امین ، اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم سے مخلصانہ محبت رکھنے والا مسلمان درج بالا فتاوی کا بہ نگاہ انصاف مطالعہ کرے گا ، ضرور اپنی عاقبت کی فکر کرتے ہوئے اہل سنت کے معتدل مذہب کی طرف رجوع لائے گا اور اسی موقف کو راہ نجات سمجھے گا ۔ ہاں! بموجب حدیث جس کے مقدر میں آزمائش لکھ دی گئی ہے ، بہر حال گھر کر رہے گا ۔

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم  میرے صحابہ کو برا نہ کہو

محترم قارئینِ کرام : شرفِ صحابیت کا  لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھئے صحابیت کا عظیم  اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ  وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں  کیونکہ  کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔

صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں : یاد رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار  ہے  مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم کى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صحابی ہونا ہی کافی ہےکیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ  بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470)،(صحیح بخاری مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 613 ، 614 مطبوعہ پرگریسو بکس اردو بازار لاہور)(والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861،چشتی)(أبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو ، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540،چشتی)(النسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309)(ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا : لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔
ترجمہ : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي ، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔
ترجمہ : اللہ سے ڈرو ۔ اللہ سے ڈرو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملہ میں ، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا ، پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر ، اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر ، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی ، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر ۳۶۶۲)

شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا۔(اشعۃ اللمعات جلد 4 صفحہ641)

قرآن و حدیث اور تمام شرعی احکام ہم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی درس گاہ کے صادق و امین اور متقی و پرہیز گار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، اگر مَعَاذَاللہ ان ہی سے  امانت و دیانت اور شرافت و بزرگی  کی نفی کر دی جائے تو سارے کا سارا دین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے اس حدیثِ پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ ان کی برائی کرنے سے منع فرمایا اور ان کے صدقہ و خیرا ت کی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کو  بھی ذکر فرمایا  چنانچہ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي حدیثِ پاک کے اس حصّے کے تحت فقیہ و محدّث علّامہ ابن الملک رومی حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات:854ھ) فرماتے ہیں : اس میں صحابہ کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے ، جمہور (یعنی اکثر علما) فرماتے ہیں:جو کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بھی بُرا کہے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ (شرح مصابیح السنۃ جلد 6 صفحہ 395 تحت الحدیث : 4699،چشتی)

فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ “ شارحین نے اگرچہ اس کی  مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں لیکن  شارحِ بخاری امام احمد بن اسماعیل کورانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:893ھ) فرماتے ہیں : سیاقِ کلام سے پتا  چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو  یہ مقام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت  کے شرف کی وجہ سے ملا ہے ۔ (الکوثر الجاری جلد 6 صفحہ 442 تحت الحدیث : 3673)

شارحِ حديث حضر ت علامہ مُظہرالدین حسین زیدانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:727ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : صحابہ کی فضیلت محض ” رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت “اور” وحی کا زمانہ پانے “ کی وجہ سے تھی ، اگر ہم میں سے کوئی ہزار سال عُمر پائے اور تمام عُمر اللّٰہ پاک کے عطا کردہ احکام کی بَجا آوری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچے بلکہ اپنے وقت کا سب سے بڑا عابد  بن جائے تب بھی  اس کی عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت کے ایک لمحہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتی ۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح جلد 6 صفحہ 286 تحت الحدیث : 4699,چشتی)

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی میرا صحابی قریبًا سوا سیر جَو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قربِِ الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا ، یہ ہی حال روزہ ،نماز اور ساری عبادات کا ہے۔ جب مسجد ِنبوی کی نماز دوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُنا ہے تو جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قُرب اور دیدار پایا ان کا کیا پوچھنا اور ان کی عبادات کا کیا کہنا ! یہاں قربِِ الٰہی کا ذکر ہے ۔ مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضراتِ صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہئے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو ۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کےلیے چُنا ، مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رَبّ نے اپنے نبی کو بُروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا ؟ ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 335،چشتی)

تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت  کا انعام حضرت  عبدالرحمٰن بن زید رحمۃ اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں : میں  چالیس ایسے  تابعینِ عظام کو ملا  جو سب ہمیں  صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث  بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو میرے تمام صحابہ سے محبت کرے ، ان کی مدد کرے اور ان کے لئے اِسْتغفار کرے تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جنّت میں میرے صحابہ کی مَعِیَّت (یعنی ہمراہی) نصیب فرمائے گا ۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ جلد 2 صفحہ 1063 حدیث : 2337)

سارے صحابہ عادل ہیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت  کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر  اور انصار  جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی  اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (پ11،سورہ التوبۃ :100)

علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتےہیں :  وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے  مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیر البحر المحیط جلد 5 صفحہ 96 تحت الآیۃ المذکورۃ)

یاد رہے سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔ ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے بارے میں اللہ  سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (جامع ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 463 حدیث نمبر 3888)۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...