Tuesday, 28 May 2024

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح عقیدہ اہلسنّت

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح عقیدہ اہلسنّت

محترم قارئینِ کرام : کتب عقائد اہلسنت میں اس بات کی دو ٹوک صراحت ہے کہ مشاجرات صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سکوت کیا جائے گا ۔ مولائے کائنات مولا مشکل کشا رضی اللہ تعالی عنہ حق پر تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خطا اجتہادی پر تھے کتب عقائد میں تو اسی بات کی صراحت کی گئی ہے ۔ یہ عقیدہ تو اہلسنت کی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا ۔ ائمہ متقدمین و متأخرین نے تو آپ کے فضائل میں کتابیں لکھی ہیں ۔


حافظ ابو بکر بن ابی الدنیا رحمہ اللہ تعالی متوفی ۲۸۱ھ نے حلم معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے کتاب لکھی ۔


امام محدث ابو عمر محمد بن عبد الواحد غلام ثعلب رحمہ اللہ تعالی متوفی ۳۴۵ ھ شیخ القراء ابو بکر النقاش البغدادی متوفی ۳۵۱ نے فضائل معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر کتابیں لکھیں ۔


ابو القاسم السقطی رحمہ اللہ تعالی متوفی ۴۰۶ ھ نے فضائل معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ایک جزء لکھا ۔


متاخرین میں اہل سنت کے متفقہ امام یعنی امام اہل سنت اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی نے پانچ کتب لکھیں : البشرى العاجلة من تحف أجله... الأحاديث الراوية لمدح الأمير معاوية .... عرش الإعزاز والإكرام لأول ملوك الإسلام. ذب الأهواء الواهية في باب الأمير معاوية .. رفع العروش الخاوية من أدب الأمير معاوية ۔


امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی نے فضائل الصحابہ میں اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے جامع ترمذی میں مناقب معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا باب باندھ کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں حدیثیں ذکر کیں ۔ اسی طرح دیگر محدثین نے اپنی کتب میں آپ کے مناقب پر باب باندھے تراجم یعنی حالات زندگی کی کتب میں آپ کے فضائل ذکر کیے گئے ۔


کتب عقائد میں تو یہ ہے کہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں سکوت کیا جائے گا ۔ یہ تو کسی عقیدے کی کتاب میں نہیں لکھا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل کو بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا ۔ چودہ سو سال کا عقیدہ جو اہلسنت کا ہے وہ تو اوپر کی کتب سے ہر ایک جان سکتا ہے ۔ یہ بالکل نیا عقیدہ بنایا گیا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا ۔


حافظ مہنا رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی سے عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ والی اس حدیث کے بارے میں سوال کیا جو معاویہ بن صالح کی سند سے مروی ہے، جس میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں مبارک ناشتے کی طرف بلایا اور میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اے اللہ اس کو یعنی معاویہ کو کتاب وحساب کا علم سکھا اور عذاب سے بچا ۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا ہاں یہ حدیث ہے اور یہ حدیث ہمیں عبد الرحمن بن مھدی نے معاویہ بن صالح کے طریق سے بیان کی ہے ، مہنا کہتے ہیں میں نے کہا :اہل کوفہ تو اس حصے : ان(معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ) کو کتاب اور حساب کا علم سکھا کو ذکر نہیں کرتے، کیا وہ یہ اس میں قطع وبرید کرتے ہیں ؟

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا : عبد الرحمن بن مہدی اس حصے کو(ان کے سامنے) بیان ہی نہیں کرتے تھے، وہ اس حصے کو صرف مجھے ہی بیان کیا کرتے تھے ۔ (یعنی یہ فضیلت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اہل کوفہ کے سامنے بیان کرنا ممکن ہی نہیں تھا، اگر ان کے سامنے کے بیان کرتے تو فتنہ برپا ہوجاتا اس لیے وہ میرے سامنے ہی بیان کرتے تھے ۔ (المنتخب من العلل للخلال للإمام ابن القدامة المقدسي صفحه ٢٣٤ رقم ١٤١ طبع دار الرأية،چشتی)


انہیں کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات ان کی


جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے لکھا ہے کہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی خطاء اجتہادی تھی اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہونے کے ناطے ان پر ملامت ،طعن یا تنقید کرناحرام ہے اور ان کے معاملے میں خاموشی سکوت واجب ہے ۔ (اسلامن دین امن و رحمت صفحہ 432)


مجتہد کی غلطی پر بھی اجر ہے ڈاکٹر محمد طاہر القادری


جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : یہ صرف مجتہد کی شان کہ اجتہاد صحیح تھا مگر نتیجہ غلط نکلا تو اس کےلیے بھی اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث واقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 92،چشتی)


مجتہد اگر غلطی کر بیٹھے تو اس کےلیے اجر ہے کیونکہ مومنِ مجتہد کا ہر فیصلہ ہر صورت باعث اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث و اقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 93)


ڈاکٹرطاہرالقادری صاحب نے " شہر اعتکاف " میں تقریر کرتے ہوئے ، سارا زور اس پر دیا ہے کہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قصیدے نہ پڑھے جائیں ، ان کا عرس نہ منایا جائے ، ان کے متعلق صرف کف لسان کیا جائے ۔


جناب من جب آپ خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو صحابی مانتے ہیں اور ذکر صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کرنے کے متعلق آپ نے خود ہی بیان کیا ہے کہ : ہر ایک کو حق حاصل ہے وہ یومِ صحابہ و اہلبیت منائے پاک سر زمین اس لیئے ہے کہ یہا ں عظمت صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے ترانے گونجیں صحابہ و اہلبیت کی گستاخی پر خاموش رہنے والے بے غیرت ہیں ۔ (فسلفہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ صفحہ 271 ،چشتی)


جب یہ حق ہر ایک کو حاصل ہے تو پھر امیر دعوت اسلامی یا دیگر علمائے اہلسنت کی طرف سے ذکر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کرنے پر شہر اعتکاف میں آپ آگ بگولہ کیوں تھے ؟


علمائے اہلسنت کو تحقیر آمیز انداز میں ملاّں ملاّں کہہ کر کیوں برستے ہیں ؟


اسی انداز میں اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ آئے موجودہ دور کے جدید ملاٗں جی آپ کل سچے تھے یا آج ؟


اگر آپ کل سچے تھے صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنا ہر ایک کا حق ہے اور پاک سرزمین اس لیے ہے کہ یہاں صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے ذکر کے ترانے گونجیں تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی نہیں ہیں ؟ جبکہ آپ خود انہیں صحابی لکھ چکے اور مانتے ہیں تو پھر آپ آگ بگولہ کیوں ؟


جناب من آپ نے شہر اعتکاف میں تقریر کرتے ہوئے ، سارا زور اس پر دیا ہے کہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قصیدے نہ پڑھے جائیں ، ان کا عرس نہ منایا جائے ، ان کے متعلق صرف کف لسان کیا جائے ۔


تو اس سلسے میں عرض ہے کہ : ⬇


(1) کف لسان کاحکم صرف مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہے نہ کہ فضائل بیان کرنے میں نہیں ! اگر فضائل بیان کرنے میں کف لسان کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام علیھم الرضوان سے لے کرآج تک کوئی بھی آپ کے فضائل بیان نہ کرتا ۔ جب کہ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، فقہا و متکلمین ، مجددین ، صوفیہ و صالحین اور علماے ربانیین نے آپ کے فضائل بیان کیے ۔ آپ کی شان میں مستقل کتابیں لکھیں گئیں ، اورکتب اسلامیہ میں ابواب باندھے گئے ۔


(2) جناب من آپ نے جوش خطابت میں بات بات پرتیرہ سو سال اور چودہ سو سال کےعلمی سرمائے کا حوالہ دیتے ہیں ، جواس کلپ میں بھی دیتےنظر آئے ؛ لیکن ..... اتنا نہیں سوچا کہ : مخلوط دھرنے ، کرسمس ڈے ، طاہری قصیدے اور جملہ اعراس و ایام ایک طرف ............. ، اگر کسی نے " شہر اعتکاف" کا ہی سوال کرلیا تو تیرہ سو سالہ علمی ذخیرے سے اس کی ایک بھی مثال پیش نہیں کرسکیں گے ۔


جناب من حیرت کی بات ہے جب آپ کے والدگرامی فرید ملت کا یوم منایا جاسکتا ہے تو صحابی رسول کا کیوں نہیں ؟


آپ کے والدِ گرامی کے نام پر ادارے قائم ہوسکتے ہیں تو آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے معزز و جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کے نام پر مسجدیں کیوں تعمیر نہیں ہوسکتیں ؟


اس سلسلہ میں آپ ہی کے ادارہ کے عظیم مفتی جناب مفتی عبد القیوم خان صاحب لکھتے : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے جلیل القدر صحابی،کاتبی وحی اور اس امت کے ماموں ہیں ان کی شان میں کوئی مسلمان گستاخی نہیں کر سکتا ناصبی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اور رافضی حضرت امیر معاویہ و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں دونوں غلط ہیں ۔ ( ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2013 ،چشتی) منہاج کے پردے میں چھپے بعض سنی نما رافضیوں کےلیئے مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ قابل غور ہے ۔


ان کے جلسے جلوسوں میں تصویریں اور جھنڈے بلند کیے جا سکتے ہیں تو صحابی رسول کی تعظیم کےلیے جھنڈا کیوں بلند نہیں کیا جا سکتا ؟


کیا ان کے جملہ اعمال و افعال قرون اولیٰ کی یاد گار ہیں ، اور صحابی رسول کے عرس ، جھنڈوں اور قصیدوں کا کہیں نام و نشان تک نہیں ؟


(3) وہ کون ساسُنی ہے جو سیدنا علی کریم کے مقام رفیع سے آگاہ نہ ہو ........... ، بات صرف اتنی ہے کہ ڈاکٹر صاحب سنیوں کو مولا علی پاک کے نام پر بلیک میل کرنا چاہتے ہیں ، جیسے دھرنے میں امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید ملعون کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرتے رہے ۔

ان کا مقصد صرف ذکر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روکنا اور صحاح کی اس حدیث : لاتذکروا معاویۃ الا بخیر " کی مخالفت کرنا ہے ؛ چاہے انہیں کفنوں کی نمائش کرنی پڑے ، یا گہرے گڑھے کھودنے پڑیں ۔


(4) بڑھاپے اور پے در پے ناکامیوں کی وجہ سے سٹھیا جانا کوئی بڑی بات نہیں ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر صاحب کے محبین و متوسلین سے گزارش ہے کہ انہیں امام نبھانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اسالیب البدیعہ پڑھنے کے لیے دیں ، تاکہ ان کا زاویہ نظر درست ہوسکے ، اور یہ جان سکیں کہ علماے امت نے صرف تکفیر وتفسیق سے ہی منع نہیں کیا ، کچھ اور بھی کہا ہے ۔


جناب من آپ مزید بیان فرماتے ہیں کہ : صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے ذکر پر جس کی پیشانی پر بَل پڑ جائیں تو یہ بھٹکے ہو ئے لوگوں کی پہچان ہے جو راہ اعتدال چھوڑ چکے ہیں ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 263،چشتی)


جناب من آپ مزید بیان فرماتے ہیں کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کفر منسوب کرنے والا ان کو گالی دینے والا اشارہ یا کنایہ سےتو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 270 ) ۔ (آج آپ کے خطاب کے بعد کتنے ہی آپ کے فلاورز ہیں جو یہ سب کچھ کر رہے بقول آپ کے یہ آپ کے فلاورز مسلمان رہے کہ نہیں ؟)


جناب من آپ مزید بیان فرماتے ہیں کہ : تفضیلیوں کے نام حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا پیغام : فرمان حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہوشیار میرے حق میں دو گروہ ہلاک ہونگے ایک محبت میں میرا مرتبہ بڑھانے والے دوسرے بغض رکھنے والے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 262) ۔ (کاش آپ کے فلاورز آپ ہی کے اس بیان کو سمجھتے اور عمل کرتے)


جناب من آپ مزید بیان فرماتے ہیں کہ : ہمارا مطالبہ ہے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور گستاخِ صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کو پھانسی دی جائے ایسے شیطان کو جینے کا حق نہیں ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 271 ، شیخ الاسلام منہاج القرآن )


جناب من آج آپ کے بیان کی روشنی میں ہمارا بھی یہی مطالبہ ہے صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کو پھانسیاں دی جائیں کیا فرماتے ہیں آپ جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اس سلسلہ میں ؟ یاد رہے آپ خود اور آپ کے ادارہ کے مفتی صاحب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جلیل القدر صحابی مانتے ہیں ؟


مشاجرات صحابہ وحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے متعلق کفِ لسان کا مفہوم : ⬇


محترم قارئینِ کرام : کف لسان کا حکم صرف مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہے ، فضائل بیان کرنے میں نہیں ! اگر فضائل بیان کرنے میں کف لسان کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام علیھم الرضوان سے لے کرآج تک کوئی بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل بیان نہ کرتا ۔ جب کہ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، فقہا و متکلمین ، مجددین ، صوفیہ و صالحین اور علماے ربانیین نے آپ کے فضائل بیان کیے ۔ آپ کی شان میں مستقل کتابیں لکھیں گئیں ، اورکتب اسلامیہ میں ابواب باندھے گئے ۔ یہ عقیدہ تو اہلسنت کی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا ۔ ائمہ متقدمین ومتأخرین نے تو آپ کے فضائل میں کتابیں لکھی ہیں ۔


حافظ ابو بکر بن ابی الدنیا رحمہ اللہ تعالی متوفی ۲۸۱ھ نے حلم معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے کتاب لکھی۔


امام محدث ابو عمر محمد بن عبد الواحد غلام ثعلب رحمہ اللہ تعالی متوفی ۳۴۵ ھ شیخ القراء ابو بکر النقاش البغدادی متوفی ۳۵۱ نے فضائل معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر کتابیں لکھیں ۔


ابو القاسم السقطی رحمہ اللہ تعالی متوفی ۴۰۶ ھ نے فضائل معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ایک جزء لکھا ۔


متاخرین میں اہل سنت کے متفقہ امام یعنی امام اہل سنت اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی نے پانچ کتب لکھیں


البشرى العاجلة من تحف أجله… الأحاديث الراوية لمدح الأمير معاوية …. عرش الإعزاز والإكرام لأول ملوك الإسلام. ذب الأهواء الواهية في باب الأمير معاوية .. رفع العروش الخاوية من أدب الأمير معاوية ۔


امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی نے فضائل الصحابہ میں اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے جامع ترمذی میں مناقب معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا باب باندھ کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں حدیثیں ذکر کیں ۔ اسی طرح دیگر محدثین نے اپنی کتب میں آپ کے مناقب پر باب باندھے تراجم یعنی حالات زندگی کی کتب میں آپ کے فضائل ذکر کیے گئے ۔


کتب عقائد میں تو یہ ہے کہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں سکوت کیا جائے گا ۔ یہ تو کسی عقیدے کی کتاب میں نہیں لکھا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل کو بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا ۔ چودہ سو سال کا عقیدہ جو اہلسنت کا ہے وہ تو اوپر کی کتب سے ہر ایک جان سکتا ہے ۔ یہ بالکل نیا عقیدہ بنایا گیا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا ۔


حافظ مہنا رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی سے عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ والی اس حدیث کے بارے میں سوال کیا جو معاویہ بن صالح کی سند سے مروی ہے، جس میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں مبارک ناشتے کی طرف بلایا اور میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اے اللہ اس کو یعنی معاویہ کو کتاب وحساب کا علم سکھا اور عذاب سے بچا ۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا ہاں یہ حدیث ہے اور یہ حدیث ہمیں عبد الرحمن بن مھدی نے معاویہ بن صالح کے طریق سے بیان کی ہے ، مہنا کہتے ہیں میں نے کہا :اہل کوفہ تو اس حصے : ان(معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ) کو کتاب اور حساب کا علم سکھا کو ذکر نہیں کرتے، کیا وہ یہ اس میں قطع وبرید کرتے ہیں ؟


امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا : عبد الرحمن بن مہدی اس حصے کو(ان کے سامنے) بیان ہی نہیں کرتے تھے، وہ اس حصے کو صرف مجھے ہی بیان کیا کرتے تھے ۔ (یعنی یہ فضیلت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اہل کوفہ کے سامنے بیان کرنا ممکن ہی نہیں تھا، اگر ان کے سامنے کے بیان کرتے تو فتنہ برپا ہوجاتا اس لیے وہ میرے سامنے ہی بیان کرتے تھے ۔ (المنتخب من العلل للخلال للإمام ابن القدامة المقدسي صفحه ٢٣٤ رقم ١٤١ طبع دار الرأية،چشتی)


دشمنان دین نے بھی سب سے پہلے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ان کے مقدس کردار کو داغدار کرنے کے لیئے ہر قسم کے حربے اختیار کیے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور امت کے درمیان کا یہ واسطہ کمزور پڑجائے اور یوں بغیر کسی محنت کے اسلام کا یہ دینی سرمایا خود بخود زمین بوس ہوجائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد کے اظہار اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بھی ان دشمنان دین نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی ہدف تنقید بنایا ۔

مدینہ طیبہ کے گورنر عبداللہ بن مصعب فرماتے ہیں کہ خلیفہ مہدی نے مجھ سے پوچھا کہ جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص کرتے ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا : وہ زندیق ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کرنے کی تو ان میں ہمت نہ تھی انہوں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص بیان کرنا شروع کردی ۔ گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم برے لوگوں کے ساتھ رہتے تھے ۔ (تعجیل المنفعۃ :ص271) ۔(خطیب بغدادی (م463ھ) نے یہی واقعہ کچھ تفصیل سے تاریخ بغداد (ج8ص220) میں بیان کیا ہے ۔

اس تفصیل سے بعض صحابہ کرام اور ان کے بارے میں لب کشائی کا پس منظر واضح ہوجاتا ہے مگر دشمنان اسلام اپنی تمام تدبیروں کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ کے مقرر کردہ اس طبقہ کی عدالت و صداقت کو داغدار نہ کرسکے اور محدثین عظام اور فقہاء کرام نے بیک زبان ”الصحابۃ کلہم عدول“ کی ایسی صدا بلند کی کہ اس کے مقابلے میں تمام کوششیں ہیچ ثابت ہوئیں ۔


اوائل میں اسلام دشمنی کے اس محاذ پر ابن سبا کی ذریت تھی ، رفتہ رفتہ اس میں بعض فرقوں نے بھی حصہ لیا ۔


آخری دور میں مستشرقین اور ان کی معنوی اولاد نے بھی اس میں بھرپور کردار ادا کیامگر علمائے حق نے ہر دور میں اس فتنہ کا تعاقب کیا اور دفاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حق ادا کیا ۔


مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ائمہ حضرات کی آراء

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (م150ھ) کا موقف : حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی من جملہ تصانیف میں ایک کتاب ”الفقہ الاکبر“بھی ہے ۔ اس کتاب میں آپ فرماتے ہیں : تولاہم جمیعا . ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں : ولا نذکر احدا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الابخیر . ہم سب صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے بغیر نہیں کرتے ۔


ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کے شرح میں رقم طراز ہیں : یعنی وان صدر علی بعضہم بعض ماہو فی الصورۃ شر فانہ اما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من احرار و عناد بل کان رجوعہم عنہ الی خیر میعاد بناء علی حسن ظن بہم.


(شرح الفقہ الاکبر ص153 اردو مکتبہ رحمانیہ لاہور)


یعنی گو بعض صحابہ کرام سے صورۃً شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بناء پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ان سے حسن ظن کا بھی یہی تقاضا ہے۔


الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابو المنتہی احمد بن محمد المگنیساوی لکھتے ہیں:


اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ والثناء علیہم کما اثنی اللہ ورسولہ علیہم وما جری بین علی و معاویۃ کان مبنیا علی الاجتہاد . (شرح الفقہ الاکبر مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعہ حیدر آباد دکن 1948،چشتی)


اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان لڑائی ہوئی وہ اجتہاد کی بناء پر تھی ۔


امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ (م181ھ) کا فرمان : مشہور محدث، فقیہ،مجاہد اور زاہد امام عبداللہ بن مبارک اس سلسلے میں کس قدر محتاط تھے، اس کا اندازہ ان کے حسب ذیل قول سے لگایا جاسکتا ہے، فرماتے ہیں : السیف الذی وقع بین الصحابۃ فتنۃ ولا اقول لاحد منہم مفتون . (السیر ج8ص405)


ترجمہ : صحابہ کے مابین چلنے والی تلوار فتنہ تھی مگر میں ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے تھے ۔


امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(اس پاک فرقہ اہل سنّت و جماعت نے اپنا عقیدہ اور ) اتنا یقین کرلیا کہ سب ( صحابہ کرام) اچھے اور عدل و ثقہ، تقی، نقی ابرار (خاصانِ پروردگار ) ہیں۔ اوران ( مشاجرات ونزاعات کی) تفاصیل پر نظر گمراہ کرنے والی ہے، نظیر اس کی عصمتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والثناء ہے کہ اہلِ حق ( اہلِ اسلام ، اہلسنت وجماعت) شاہراہِ عقیدت پر چل کر ( منزل) مقصود کو پہنچے ۔ اور ارباب ( غوایت واہل) باطل تفصیلوں میں خوض ( و ناحق غور) کرکے مغاک ( ضلالت اور) بددینی ( کی گمراہیوں) میں جا پڑے(فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص58،چشتی)


مشاجرات صحابہ کرام حضرت مرتضوی (امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیئے۔ ( اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے ، اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولٰی علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم)ہم اہلسنت ان میں حق، جانب جناب مولٰی علی( مانتے) اور ان سب کو مورد لغزش) بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلٰی جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ ( کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن وتشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کے لیے شرع میں ثابت ہوئے رکھتے ہیں، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں۔ تو ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنٰی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُمّ المومنین صدیقہ ( عائشہ طیبہ طاہرہ) رضی اللہ تعالٰی عنہا کی جناب رفیع اوربارگاہِ وقیع) میں طعن کریں، حاش ! یہ اللہ و رسول کی جناب میں گستاخی ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص61)


صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ ہم صحبتِ رسول صلیٰ‌ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں‌ کو حق اور ناحق کے پلڑوں‌ میں‌ رکھنے کی جرات نہیں‌ کرسکتے۔ رسول اللہ صلیٰ‌ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ‌ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے، صحابہ کرام کا نہیں۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔ امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی 676ھ) شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں : و مذهب أهل السنة و الحق إحسان الظن بهم و الإمساک عما شجر بينهم و تاويل قتالهم، و إنهم مجتهدون متأولون لم يقصد و امعصية ولا محض الدنيا، بل اعتقد و اکل فريق أنه المحق و مخلافه باغ فوجب قتاله لير جع الی أمر الله، وکان بعضهم مصيباً و بعضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ لأنه بإجتهاد و لمجتهد إذاأ خطألا إثم عليه وکان علی رضی الله عنه هو المحق المصيب في ذلک الحروب هذا مذهب أهل السنة و کانت القضايا مشتبة حتی أن جماعة من الصحابة تحيرو ا فيها فاعتزلو االطائفتين ولم يقاتلو اولو تيقنو االصواب لم يتأ خرواعن مساعدته ۔


ترجمہ : اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے ۔ (شرح صحيح مسلم، 2: 390، کتاب الفتن ،چشتی)


صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ ہم صحبتِ رسول صلیٰ‌ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں‌ کو حق اور ناحق کے پلڑوں‌ میں‌ رکھنے کی جرات نہیں‌ کرسکتے۔ رسول اللہ صلیٰ‌ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ‌ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے، صحابہ کرام کا نہیں۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔


حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں ، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے ۔ کیونکہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں، نہ کہ ہوا و ہوس پر ۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے ۔ (مکتوباتِ امام ربانی مکتوب نمبر 251، دفترِ اول)

مزید فرماتے ہیں : یہ اکابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی تاثیر سے ہوا و ہوس ، کینہ و حرص سے پاک صاف ہوگئے تھے ۔ ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے ۔ (مکتوباتِ امام ربانی مکتوب نمبر 67 دفتر دوم)


اس کے برخلاف بدگوئی و فضول گوئی پھوٹ پیدا کرتی ہے ، جو شیطان کا کام ہے ، وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ ، نفرت ، عداوت ، کینہ ، حسد ، نفاق کے بیج بوتا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
































































No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...