حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو تکنا عبادت ہے اور مسئلہ افضلیت
محترم قارئینِ کرام : ہماری ایک پوسٹ کو لے کر خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی افضلیت کا انکار کرتے ہوئے دلیل کے طور پر ایک تفضیلی صاحب اپنے بھر پور علم کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یہ ہیں جناب فیض احمد چشتی صاحب انہی کی پوسٹ سے انہی کو مدلل جواب : بات یہ کے اللّٰہ تعالی کی بہترین مخلوق کے دو افراد ہیں ان میں سے ایک کی عبادت ہوتی ہے دوسرے کا چہرہ دیکھنے سے لیکن اس کی عبادت تب ہوگی کہ وہ اس چہرے کو عقیدت اور احترام سے دیکھے لیکن یہ بات عیاں ہے کہ جس چہرہ دیکھنا عبادت ہے اس کے چہرے پہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس کو یہ فضیلت بخشی گی ہے کہ اللہ نے اس کے چہرے کے دیدار کو عبادت بنایا ہے ۔ دیکھنے والا اس کا مختاج ہے نا کہ وہ چہرے والا اس کا مختاج ہے اب آپ یہ غور کریں کے ان دو ہستیوں کا کوئی موازنہ بنتا ہے ؟ پوسٹ بھی چشتی صاحب کی اور آپ کی افضلیت بھی آپ نے خود لکھ دی اب مان بھی لیجیے یہی حق ہے ۔ اب ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب کی پوسٹ ملاحظہ کریں ذکر علی کرنا و چہرہ علی رضی اللہ عنہ دیکھنا عبادت ہے : ⬇
محترم قارئینِ کرام : ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں : میں نے اپنے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھا کرتے ۔ پس میں نے آپ سے پوچھا ، اے ابا جان ! کیا وجہ ہے کہ آپ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی طرف تکتے رہتے ہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے میری بیٹی ! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو تکنا بھی عبادت ہے ۔ (ابن عساکر في تاريخه، 42 / 355)(الزمخشري في مختصر کتاب الموافقة : 14)
دوسری جگہ ہماری ٹائم لائن پر آکر مذکورہ تفضیلی صاحب کمنٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : محترم جناب استاد صاحب جب کسی کا چہرہ دیکھنا ہی عبادت ہو اس شخص سے پھر کوئی کیسے افضل ہو سکتا ہے ۔ نہایت ادب سے گزارش ہے کہ جب کوئی پوسٹ لگائیں تو پھر اس کا نتیجہ بھی مان لپا کریں ۔
ایک اور کمنٹ فرماتے ہیں : جب کسی کا چہر ہ دیکھ کے کسی کی عبادت ہو تو پھر وہ ہستی عبادت والی ہستی سے کیسے افضل ہو گئی ؟
جواب : جناب تفضیلی صاحب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَلنَّظَرُ إلَی الْبَيْتِ الْحَرَامِ عِبَادَةٌ ۔
ترجمہ : اس عزت والے گھر کو دیکھنا بھی عبادت ہے ۔ (تالی تلخيص جلد 2 صفحہ 365 رقم : 221)
اب دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیں : عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ ﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا . (ابن ماجه، السنن ، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وما له، 2 : 1297، رقم : 3932)(طبراني، مسند الشاميين، 2 : 396، رقم : 1568,چشتی)(منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 201، رقم : 3679)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے ، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! مومن کے جان و مال کی حرمت ﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے ۔
اب بتائیے جب کعبہ کو دیکھنا عبادت ہے تو دیکھنے والے افضل کیسے ہو گئے ؟
جنابِ من ایک ہے فضیلت اور دوسری ہے افضلیت آپ سے سوال کیا تھا کہ افضلیت اور فضیلت میں کیا فرق ہے جس کا اب تک آپ نے جواب نہیں دیا ؟
اب پڑھیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کا یہ فرمان ، آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان اور اپنا عقیدہ بتا رہے ہیں پڑھیے : حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہوں گا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الرّیاض النضرہ مترجم اردو جلد اوّل صفحہ نمبر 267 ، 268 مطبوعہ مکتبہ نورِ حسینیہ لاہور،چشتی)
افضلیت اور فضیلت میں فرق ہے
افضلیت اور فضیلت میں فرق ہے : افضلیت قرآن ، احادیث ، اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماعِ اہلسنت سے ثابت ہوتی ہے ۔
اس کی شرائط کڑی ہیں اب ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا جائے افضلیتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا انکار نہیں ہو سکتا کہ قرآن وہی ، احادیث وہی اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی وہی نئے آنے سے تو رہے ۔
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فضیلت و افضلیت میں زمین آسمان کا فرق ہے وہ اسی باب سے ہے جس میں ضعاف بالاتفاق قابلِ قبول اور یہاں بالاجماع مردود ونامقبول ۔
پھر فرمایا : بلکہ انصافاً اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے قطعاً واجب التاویل ہے اور اگر بفرضِ باطل صالح تاویل نہ ہو واجب الرد کہ تفضیل شیخین متواتر واجماعی ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ 580 ۔581)
یہی وجہ ہے جب اس قطعی اجماعی عقیدے کے خلاف کسی سنداً صحیح روایت کو بھی لایا جائے خبر واحد ہونے کی بنا پر رد کر دی جاتی ہے . چہ جائیکہ روایات ضعیفہ ۔
فضیلت خوبی کو کہا جاتا ہے اور اس کے لیے سند صحیح تو کیا ضعیف بلکہ ضعیف جداً عند الامام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ بھی کفایت کر جاتی ہے ۔
حضرت مولا علی اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان کو بیان کرنا سنیوں کو سکون دیتا ہے ۔
خدا غارت کرے تفضیلیوں کو جو فضیلت والی روایات کو ہوائے نفس کی بنا پر اجماعی عقیدہ افضلیت کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں ۔
پھر معنیٰ کا تعین ، محتمل کا احتمال اور ضعیف کا ضعف بیان کرنا ضروری ہوجاتا ہے . اور یہ سب تفضیلیت کی حماقتوں کا ثمرہ ہے ۔
اہلِ سنت و جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد تمام عالَم سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے بعد حضرت عمر ، ان کے بعدحضرت عثمان ، ان کے بعد حضرت علی ، ان کے بعد تمام عشرہ مبشرہ ، ان کے بعد باقی اہل بدر ، ان کے بعد باقی اہل احد ، ان کے بعد باقی اہل بیعت ، پھر تمام صحاب رضی اللہ عنہم ۔ یہ اجماع ابو منصور بغدادی نے نقل کیاہے ۔ ابن عسا کر نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی فرمایا کہ ہم ابو بکر و عمر و عثمان و علی کو فضیلت دیتے تھے بحالیکہ سرور اکرم علیہ الصلوٰۃ و السلام ہم میں تشریف فرما ہیں ۔ امام احمد وغیرہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا کہ اس امت میں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے بہتر ابوبکر و عمر ہیں ۔ رضی اللہ عنہما ۔ ذہبی نے کہا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بتواتر منقول ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ فصل فی انہ افضل الصحابۃ و خیرہم صفحہ ۳۴)
ابن عساکر نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر سے افضل کہے گا تو میں اس کو مُفْتَرِی کی سزادوں گا ۔ (تاریخ الخلفاء ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ فصل فی انہ افضل الصحابۃ و خیرہم صفحہ ۳۵)
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں بہت آیتیں اور بکثرت حدیثیں واردہوئیں جن سے آپ کے فضائل جلیلہ معلوم ہوتے ہیں ۔ چند احادیثِ مبارکہ یہاں ذکر کی جاتی ہیں : ترمذی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے فرما یا : تم میرے صاحب ہو حوض کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں ۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب الحدیث : ۳۶۹۰ جلد ۵ صفحہ ۳۷۸,چشتی)
ابن عساکرنے ایک حدیث نقل کی کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : نیکی کی تین سو ساٹھ خصلتیں ہیں ۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور ان میں سے کوئی مجھ میں بھی ہے ۔ فرمایا : تم میں وہ سب ہیں تمہیں مبارک ہو ۔ انہیں ابن عساکرنے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ابوبکر کی محبت اور ان کا شکر میری تمام امت پر واجب ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ فصل فی الاحادیث الواردۃ فی فضلہ ۔ الخ صفحہ ۴۴)
بخاری نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابوبکر ہمارے سیّد و سردار ہیں ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب مناقب بلال بن رباح ۔ الخ الحدیث : ۳۷۵۴ جلد ۲ صفحہ ۵۴۷)
طبرانی نے اوسط میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، آپ نے فرمایا : بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے بہتر ابوبکر و عمر ہیں ، میری محبت اور ابوبکر و عمر کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہ ہوگا ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی الحدیث : ۳۹۲۰ جلد ۳ صفحہ ۷۹)
حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبد بن حمید حدیث 212 صفحہ 101,چشتی)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔ (معجم کبیر طبرانی حدیث 178 جلد 1 صفحہ 107،چشتی)
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 73)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی حدیث 3671 جلد 2 صفحہ 522،چشتی)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔ (ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920 جلد 3 صفحہ 79)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 290-289)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے۔بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین فضائل الصدیق لملا علی قاری ۔ ابن عساکر ، تاریخ دمشق ، جلد 5 صفحہ 189،چشتی)
حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول صفحہ 405)
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہوجائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال کتاب الفضائل حدیث 36097 جلد 13 صفحہ 6/7)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 382)
حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی نظر میں
سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی)
ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت بر سر ممبر بیان فرمائی
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد 1 صفحہ 107)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)
جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)
حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل حدیث 36151)
افضلیت ابوبکر صدیق پر مولا علی رضی ﷲ عنہما کے اقوال کتبِ شیعہ سے
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول صفحہ 332)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔
ترجمہ : اس امت میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم صفحہ 428)
حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اﷲ ومن اقتدی بہما عصم ۔
ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی جلد 2 صفحہ 428)
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔
ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی ص 110، تفسیر حسن عسکری،چشتی)
حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔
ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی صفحہ 153)
مولا علی رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دینے والوں کو تنبیہ شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کےلیے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے ۔ فرمان مولا علی رضی ﷲ عنہ : جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کےلیے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان)(رجال کشی صفحہ 338 سطر 4 تا 6 مطبوعہ کربلا)
اے محبتِ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا دعویٰ کرنے والو اب جواب دو تم لوگ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی بات مانو گے یا سڑک چھاپ جاہل ذاکروں ، جاہل پیروں اور جاہل خطیبوں کی ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment