قربانی کے فضائل اور شرعی احکام و مسائل مع اعتراضات کے جوابات
محترم قارئینِ کرام : اللہ عزوجل نے ذو الحجہ کے مکمل مہینے بالخصوص پہلے دس دنوں کو اپنے خصوصی انعام و اکرام سے نوازا ہے ۔ ذوالحجہ کا مہینہ چار برکت و حرمت والے مہینوں رجب ، ذوالقعدہ ، ذو الحجہ اور محرم میں سے ایک ہے ۔ اس مبارک مہینہ میں ذکر ، تسبیح ، تلاوت قرآن پاک ، نوافل روزے اور دیگر صدقات وغیرہ کا اجر بہت زیادہ ہے ۔ بالخصوص ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن کی تو اتنی فضیلت ہے کہ اللہ پاک نے اس عشرہ کی پہلی دس راتوں کی قسم اٹھائی ہے اور ارشاد فرمایا : وَ الْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرِ ۔ (سورۃ الفجر، آیت:۱،۲) ’’اور قسم ہے فجر اور دس راتوں کی‘‘ ۔
قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے ، اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے ۔ (المفردات للراغب صفحہ 408 طبع مصر)
قربانی کےلیے قرآن کریم میں عموماً تین لفظ استعمال ہوتے ہیں : ⬇
قربانی : اذقربا قربانا ۔ جب دونوں نے قربانی کی ۔
منسک : لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَؕ-اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ ۔ (سورہ الحج آیت نمبر 67)
ترجمہ : ہر امت کےلیے ہم نے ایک شریعت بنادی جس پر انہیں عمل کرنا ہے تو ہرگز وہ تم سے اس معاملہ میں جھگڑا نہ کریں اورتم اپنے رب کی طرف بلاؤ بیشک تم سیدھی راہ پر ہو ۔
نحر : فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ : تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔ (سورہ الکوثر آیت نمبر 2)
یعنی اے محبب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دونوں جہاں کی بے شمار بھلائیاں عطا کی ہیں اور آپ کو وہ خاص رتبہ عطا کیا ہے جو آپ کے علاوہ کسی اور کو عطا نہیں کیا، تو آپ اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کےلیے نماز پڑھتے رہیں جس نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ، کوثر عطا کر کے عزت و شرافت دی تاکہ بتوں کے پجاری ذلیل ہوں اور بتوں کے نام پر ذبح کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کےلیے اوراس کے نام پر قربانی کریں ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے نمازِ عید مراد ہے ۔ (تفسیر مدارک الکوثر الآیۃ: ۲، ص۱۳۷۸)(تفسیر خازن الکوثر الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۱۶-۴۱۷)
ان المراد هوالنحر البدن ۔
ترجمہ : مراد جانور کی قربانی ہے ۔ (تفسیر کبیر، 32 : 129)
اسلامی سال کے بارھویں مہینے کو ذی الحج کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مہینہ حج کےلیے مقرر ہے اسی لئے اس کا نام ذی الحج پڑ گیا اس کے پہلے عشرے کا نام قرآن پاک میں ایاما معلومات لکھا گیا ہے لہذا یہ مہینہ اللہ کو بہت ہی محبوب ہے اور اس کے پہلے دس دنوں کو بڑا متبرک قرار دیا گیا ہے جسے عشرہ ذی الحجہ کہا جاتا ہے اس کی پہلی تاریخ کو خاتون جنت علیہا السلام کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ہوا اس کی آٹھویں تاریخ کو یوم ترویہ کہتے ہیں کیونکہ اس دن حجاج کرام زم زم سے خوب سیراب ہوتے ہیں اور اپنی جسمانی و روحانی پیاس بجھاتے ہیں ۔ (چشتی)
آٹھویں ذی الحج کو ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کرو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے صبح کے وقت سوچا کہ آیا یہ آیات اللہ پاک کی طرف سے ہیں یا شیطان کی طرف سے اس لئے آٹھ ذی الحج کو یوم ترویہ (یعنی سوچ بچار کا دن ہے) کہتے ہیں۔ اس کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں کیونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے نویں تاریخ رات کو پھر وہی خواب دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اسی دن یعنی 9 ذی الحج کو عرفات میں حج کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے اور دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں۔ کیونکہ اسی روز سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی اور اسی یاد کو تازہ کرنے کے لئے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔
سورۃ الصفت کی آیات نمبر 100 سے لے کر 108 تک جو پارہ نمبر23 میں ہیں ان آیات میں سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے کچھ یوں دعا کی : اے میرے رب مجھے سعادت مند اولاد عطا فرما تو ہم نے ان کو ایک نرم دل خوبصورت لڑکے کی خوشخبری دی اور جب ان کے ساتھ جدوجہد اور تگ و دو یعنی جوانی کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا۔ اے میرے پیارے بیٹے میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ جیسے تم کو ذبح کررہا ہوں تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے تو پیارے بیٹے نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ ابا جان آپ کو جو حکم ہورہا ہے وہ کر گزریئے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے۔ جب دونوں نے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا تو ہم نے پکار کر کہا اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ بلا شبہ یہ صریحا آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ بنادیا تاکہ بعد میں آنے والوں کے لئے قیامت تک ابراہیم کا ذکر خیر باقی رہے ۔
سورۃ الحج کی آیت نمبر37 پارہ نمبر17 میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے : اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے تابع فرماں بنادیا ہے اس بات کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت بخشی ہے۔ اس کی بڑائی بیان کرو اور اے پیغمبر ! نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے ۔ (چشتی)
ان آیات میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ قربانی کا مقصد کیا ہونا چاہئے اور ایک مسلمان کو قربانی کس نیت سے کرنی چاہئے اور اس کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے تو رزق حلال، پھر نیت کا اخلاص، پھر قربانی کا جذبہ، ایثار کا جذبہ دوسروں کےلیے خدمت خلق کا جذبہ، اپنی جان مال، اولاد سب اللہ کا مال سمجھ کر خرچ کرنا، اپنا اختیار نہ رکھنا اور نہ سمجھنا۔ جو کچھ ہے اللہ کا ہے اور یہ نہ ہو کہ قربانی بھی کی اور اللہ کی رضا حاصل نہ ہوسکے یعنی مقصد پورا نہ ہو بلکہ الٹا ہم ایسا عمل کر گزریں جو اللہ کی نافرمانی کا سبب بن جائے ۔
قربانی کا وقت اور طریقہ
حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عیدالاضحٰی کے دن پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا اس کے بعد قربانی کا جانور ذبح کیا اور آپ نے فرمایا کہ جو شخص نماز سے پہلے جانور ذبح کرچکا ہے اسے چاہئے کہ اس کے بدلے میں ایک اور جانور ذبح کرے ۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز عید سے پہلے آپ قربانی نہیں کر سکتے بلکہ نماز کے بعد خطبہ کے بعد اطمینان سے جانور کو پانی وغیرہ پلاکر آپ قربانی کریں گے ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی روایت مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کردیا اس نے محض اپنے گوشت کھانے کے لئے جانور ذبح کیا اور جس نے نماز عید کے بعد جانور ذبح کیا اس کی قربانی ادا ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقہ پر عمل کیا یعنی سنت کے مطابق قربانی ادا کی ۔ (چشتی)
قربانی کا وقت عید کی نماز اور خطبہ کے بعد شروع ہوتا ہے اور امام ابوحنیفہ کے مطابق دس تاریخ سے شروع ہوکر تیرہ تاریخ تک رہتا ہے ۔
اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی ۔ ان دونوں کو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دست مبارک سے ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہا اور اپنا پاؤں جانور کی گردن پر رکھا ۔
ذبح کرتے وقت دیر نہ لگائیں
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ عجلت میں ذبح کرو اور ایسی چیز سے جو خون بہادے تاکہ جانور کو غیر ضروری اذیت نہ ہو۔ یعنی قربانی کرتے وقت آپ کی جو چھری یا جو آلہ ہے جس سے قربانی کرنی ہے وہ اتنی تیز ہو کہ فوراً ذبح ہوجائے تاکہ جانور کو کم سے کم اذیت ہو ۔
کتنی بڑی بات ہے کہ ہمارے دین نے ہمیں ہر طرح کی راہنمائی فرمائی یہاں تک کہ جانور کے بھی حقوق بتادیئے کہ ان کو تم سے کم تکلیف ہو کیونکہ آخر ایک جان کو۔ اللہ کی دی ہوئی جان کو ذبح کرنا ہے تو اس کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ یہی ہمارے دین کی خوبصورتی ہے کہ جانور کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جائے تو کیا انسان جو کہ پھر بھی اشرف ہوا اس کے ساتھ حسن سلوک کی کیا اہمیت ہوگی ۔ اس کا اجرو ثواب کیا ہوگا اس کا اندازہ حقوق العباد سے ہم بخوبی لگا سکتے ہیں کہ اس کی فضیلت کیا ہوگی اس کا اجر و ثواب کیا ہوگا ؟
قربانی کا گوشت ذخیرہ کرسکتے ہیں
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قربانی کے گوشت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ قربانی کا گوشت کھاؤ، مستحق لوگوں کو کھلاؤ ۔ ذخیرہ بھی کرو یعنی اس بات کی اجازت مرحمت فرمادی کہ کھاؤ بھی اور ذخیرہ بھی کرو ۔ امام نووی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ علماء کرام نے کہا ہے کہ ایک تہائی خود کھائے ایک تہائی صدقہ کردے اور ایک تہائی دوستوں اور رشتہ داروں کےلیے تقسیم کرے ۔ اب ہم خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس حد تک رکھنا ہے اور کس حد تک تقسیم کرنا ہے ۔ اس معاملے میں ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے ؟ ۔ (چشتی)
قربانی اس عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے ، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جو انہیں بڑھاپے میں عطا ہوئے ، اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر قربان کرنے کےلیے تیار ہو گئے اور دوسری طرف فرمانبردار صابر و شاکر بیٹا اپنے والد گرامی کی زبان سے یہ اشارہ سن کر کہ اس کے رب نے اس کی جان کی قربانی طلب کی ہے، اسی لمحہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہو گیا ۔ اللہ رب العزت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے کی یہ ادا بہت پسند آئی۔ قربانی قبول ہوئی مگر بیٹے کی جان بخش دی گئی اور اس کی جگہ ایک مینڈھا قربان کر دیا گیا ، چنانچہ آج تک آپ علیہ السلام کا ذکر اور قربانی کی صورت میں آپ علیہ السلام کی یادگار موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی ۔ قدرت نے اس یادگار کو فرضیت و لزوم کا درجہ دے کر ایسا مستحکم انتظام فرما دیا ہے کہ اسے کسی بھی سازش اور بے جا منفی تاویلوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔
عیدالاضحیٰ اور حج کے موقع پر کی جانے والی قربانی میں فرق یہ ہے کہ حج افراد ادا کرنے والے کے علاوہ حج کی قربانی غنی، فقیر سب پر واجب ہے، جبکہ عید الاضحیٰ کی قربانی فقط غنی پر واجب ہے فقیر پر نہیں ۔
حج افراد کرنے والے پر قربانی دینا مستحب ہے، اگرچہ غنی ہو ، جبکہ حج قرآن اور حج تمتع کرنے والوں پر قربانی دینا واجب ہے ، اگرچہ فقیر ہی ہو ۔ (چشتی)
اگر کوئی شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ قربانی کے بدلہ میں دس روزے رکھے ، تین حج کے مہینے میں احرام باندھ کر اور باقی سات روزے حج سے فارغ ہونے کے بعد جہاں چاہے رکھے، لیکن گھر پہنچ کر رکھنا بہتر ہے ۔ ان روزوں کو مسلسل یا الگ الگ رکھنا دونوں طرح جائز ہے ۔
جس پر قربانی واجب ہے ، خواہ شکرانے کی یا کسی جنایت و قصور کی، اس کےلیے اس کے عوض صدقہ و خیرات کرنا جائز نہیں ۔
یَدی کے جانور کو سرزمین حرم کے علاوہ کسی اور جگہ ذبح کرنا جائز نہیں ۔ اس کے وجوب کی صورت میں حاجی بغیر قربانی کیے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح وطن واپس آ کر ایک جانور کی جگہ ہزار جانور بھی قربان کرے تو واجب ادا نہیں ہوگا ، کیونکہ اس کےلیے حرم کی سرزمین شرط ہے ۔ (چشتی)
قربانی سے پہلے حلق کروانا (سر منڈانا) جائز نہیں ۔
قربانی دینے والے کا اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا افضل ہے ۔ اگر خود جانور ذبح نہ کر سکتا ہو تو کوئی دوسرا مسلمان اس کی جگہ جانور ذبح کر سکتا ہے، مگر اجازت ضروری ہے، اور سنت یہ ہے کہ اپنے سامنے قربانی کروائے۔ بھوکا، پیاسا جانور ذبح نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے سامنے چھری تیز کی جائے۔ جب تک ٹھنڈا نہ ہو جائے کھال نہ اتاریں، جانور کو قبلہ رُو پہلو پر لٹائیں اور داہنا پاؤں اس کے شانے پر رکھیں۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عید کے دن حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو مینڈھے ذبح فرمائے اور انہیں قبلہ رخ کر کے عرض کیا : إِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْن، اِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِی ﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن، لَا شَرِيْکَ لَهُ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب أضاحی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، 3 : 530، رقم : 3121)
ترجمہ : بے شک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں (جمیع مخلوقات میں) سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔
پھر
اَللّٰهُمَّ مِنْکَ بِسْمِ الله اَللهُ اَکْبَر
پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کرے۔ اگر اپنی قربانی کا جانور ذبح کرے تو ذبح کرنے کے بعد پڑھے : اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِيْلِکَ اِبْرَاهِيْم وَحَبِيْبِکَ مُحَمَّد صلی الله عليه وآله وسلم ۔
اگر دوسرے کی قربانی کا جانور ذبح کرے تو مِنّی کی جگہ مِنْ پڑھ کر اس کا نام لے ۔
اونٹ کےلیے پانچ سال، گائے کے لئے دو سال اور بکرے کے لئے ایک سال کا ہونا ضروری ہے، اگر عمر اس سے ایک دن بھی کم ہوئی تو قربانی جائز نہیں ہو گی، اگرچہ بھیڑ اور دنبہ کے لئے بھی ایک سال کا ہونا ضروری ہے، مگر اس میں یہ رعایت دی گئی ہے کہ اگر چھ ماہ یا اس سے زیادہ عمر ہے، مگر اتنے فربہ اور صحت مند ہیں کہ دیکھنے میں ایک سال کے محسوس ہوتے ہیں توان کی قربانی جائز ہے۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں درج ذیل چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں : ⬇
اندھا ، جس کا اندھا پن ظاہر ہے۔
بیمار، جس کی بیماری ظاہر ہو رہی ہو ۔ لنگڑا ، جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو ۔ لاغر ، جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب مايکره ان يضحی به، 3 : 542، رقم : 3144)
گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ (کے مقام) میں ہم لوگوں نے اونٹ اور گائے دونوں کو سات سات آدمیوں کی طرف سے قربانی کیا تھا۔(ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب عن کم تجزی البدنة والبقرة، 3 : 536، رقم : 3132)
چاہے سب قربانی کرنے والے ہوں اور چاہے بعض قربانی کرنے والے اور بعض عقیقہ کرنے والے لیکن کسی ایسے شخص کا حصہ نہیں ڈال سکتے جو محض گوشت کے حصول کےلیے شریک ہو رہا ہو کیونکہ اس طرح کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی ۔ (چشتی)
قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا افضل ہے۔ اس کی تقسیم کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک حصہ فقراء و مساکین کے لئے، دوسرا دوست و احباب اور اعزاء و اقارب کے لئے جبکہ تیسرا گھر والوں کے لئے مختص کیا جائے۔
قربانی کے جانور کی کھال اور گوشت وغیرہ قصاب کو بطور اجرت دینا جائز نہیں۔ اجرت علیحدہ دینی چاہیے۔
قربانی کی کھال اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مصرف میں لانا چاہے تو لا سکتا ہے، مثلاً جائے نماز بنا لے۔ تمام فقہاء کرام کے نزدیک ایسا جائز ہے۔ لیکن اگر فروخت کریں تو اس کی قیمت مناسب مصرف میں استعمال کی جائے اور ہرگز اپنے پاس نہ رکھی جائے۔
یہ کھالیں کسی بھی فلاحی و دینی کام میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ غربا و مساکین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے بااعتماد فلاحی ادارے کو دی جا سکتی ہیں۔ غریب و مستحق طلبا کی تعلیم پر خرچ کی جا سکتی ہیں۔ بیمار لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خرچ کی جا سکتی ہیں۔
ذبیحہ یعنی ذبح شدہ جانور کے سات اعضاء کو کھانے سے منع کیا گیا ہے جو درج ذیل ہیں :
مرارہ (پِتہ)
مثانہ
محیاۃ (شرم گاہ)
آلہ تناسل
خصیے
غدود
دم مسفوح (بہتا ہوا خون)
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَکْرَهُ مِنَ الشَّاةِ سَبْعًا : اَلْمَرَارَة، والْمَثَانَةَ، والْمَحْيَاة، والذَّکَرَ، وَالْاُنْثَيَيْنِ، وَالْغُدَّةَ، والدَّمَ، وَکَانَ أَحَبَّ الشَّاةِ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مُقَّدَّمُهَا ۔ (طبرانی، المعجم الاوسط، باب الياءِ من اسمهُ يعقوب، 10 : 217، رقم : 9476،چشتی)
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ذبیحہ کے سات اعضاء کو مکروہ شمار کرتے تھے ، جو یہ ہیں : مرارہ (پِتہ)، مثانہ ، محیاۃ (شرم گاہ) ، آلہ تناسل ، دو خصیے ، غدود اور خون ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بکری کا مقدم حصہ زیادہ پسند تھا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یوم النحر میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں، اور (قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کهروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ لہذا اس (قربانی) کو خوش دلی سے کرو ۔ (جامع الترمذی کتاب الاضاحی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ (قربانی) جہنم کی آگ سے حجاب (روک) ہوجائے گی”۔ ( معجم کبیر رقم الحدیث 2736 جلد 3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو پیسہ عید (عیدالاضحیٰ) کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی پیسہ پیارا نہیں”۔ (معجم کبیر رقم الحدیث 10894)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے “۔(سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : افضل قربانی وہ ہے جو با اعتبار قیمت اعلی ہو، اور خوب فربہ ہو “۔ (مسند امام احمد، جلد 5،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ مخدومہ کائنات بتول زهرا صلی اللہ تعالیٰ علی ابیہا وعلیہا وبارک وسلم سے ارشاد فرمایا “کهڑی ہوجاؤ اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو جاؤ کہ اس(قربانی کے جانور) کے خون کے پہلے ہی قطرہ میں جو گناہ ہیں سب کی مغفرت ہوجائے گی”۔ راویِ حدیث حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ (فضیلت) آپ کی آل کےلئے خاص ہے یا آپ کی آل کےلئے بهی ہے اور عامہ مسلمین کےلئے بهی، فرمایا کہ ” میری آل کےلئے خاص بهی ہے، اور تمام مسلمین کےلئے عام بهی ہے”۔( مجمع الزوائد للهیثمی، کتاب الاضاحی، باب فضل الاضحیہ و شهود ذبحها، جلد4 صفحہ 4)
قربانی واجب ہونے کی شرائط :(1)غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں (2) اقامت یعنی مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں (3) تونگری، یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے (4) حریت، یعنی آزاد ہونا، جو آزاد نہیں اس پر قربانی واجب نہیں۔
قربانی واجب ہونے کےلئے مرد ہونا شرط نہیں- عورتوں پر بهی واجب ہوتی ہے جس طرح مردوں پر واجب ہے۔ نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔ اور نہ ہی نابالغ کے باپ پر واجب کہ وہ نابالغ کی طرف سے قربانی کرے۔( درمختار ، کتاب الاضحیہ جلد 9)
قربانی کے مسائل
حنش روایت کرتے ہیں کہ میں نے شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو دیکها کہ وہ دو مینڈهوں کی قربانی کرتے ہیں، میں نے عرض کی یہ کیا؟ فرمایا “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجهے وصیت فرمائی کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے قربانی کروں، لہٰذا میں سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے (یہ دوسری) قربانی کرتا ہوں”۔(جامع الترمذی، کتاب الاضاحی،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قربانی میں گائے سات (7) کی طرف سے اور اونٹ سات (7افراد) کی طرف سے ہے “۔( معجم کبیر رقم الحدیث 10026 جلد10: مجمع الزوائد للهیثمی کتاب الاضاحی باب فی البقرہ والبدنہ جلد 4 صفحہ 9)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو جب تک قربانی نہ کرلے بال اور ناخنوں سے نہ لے، یعنی بال نہ کٹوائے اور ناخن نہ ترشوائے ۔ ( صحیح مسلم، کتاب الاضاحی)
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پاس اسی سے متعلق ایک سوال آیا کہ اگر کسی قربانی کرنے والے نے ذی الحجہ کا چاند دیکهنے کے بعد بال کٹوائے یا ناخن ترشوائے تو اس کی قربانی ہوجائے گی یا نہیں، اور ایسا کرنا حکم عدولی کہلائے گا؟ اس کے جواب میں فرمایا ” یہ حکم صرف استحبابی ہے، کرے تو بہتر نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں، نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے 31 دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن نہ تراشےہوں نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہوگیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکهتا ہو اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں (ذی الحجہ) تک رکهے گا (یعنی بال زیر ناف و تحت بغل اور ناخن) تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا، اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کےلئے گناہ نہیں کرسکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 353،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چار قسم کے جانور قربانی کےلئے درست نہیں۔ (1) کانا جس کا کانا پن ظاہر ہے۔ (2) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔ (3) لنگڑا جس کا لنگ ظاہر ہو۔ (4) اور ایسا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو”۔(سنن ابوداؤد کتاب الاضاحی، باب مایکرہ من الضحایا)
شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کان کٹے ہوئے، اور سینگ ٹوٹے ہوئے (جانور) کی کی قربانی سے منع فرمایا ۔ (ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب مایکرہ من الضحایا)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جانوروں کے کان اور آنکهیں غور سے دیکھ لیں اور اس کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا اگلا حصہ کٹا ہو اور نہ اس کی جس کے کان کا پچهلا حصہ کٹا ہو، نہ اس کی جس کا کان پهٹا ہو یا کان میں سوراخ ہو۔(جامع الترمذی،کتاب الاضاحی،باب مایکرہ من الاضاحی)
ام المؤمنین سیدہ صدیقہ بنت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنهما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ” سینگ والا مینڈها لایا جائے جو سیاہی میں چلتا ہو اور سیاہی بیٹهتا ہو اور سیاہی میں نظر کرتا ہو، یعنی اس کے پاؤں پیٹ اور انکهیں سیاہ ہوں”۔ وہ قربانی کےلئے حاضر کیا گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنها چهری لاؤ، پهر فرمایا اسے پتهر پر تیز کرلو پهر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چهری لی اور مینڈهے کو لٹایا اور اسے ذبح کرنے لگے اور فرمایا، بسم اللہ اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن امت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
ترجمہ : اے اللہ (عزوجل) تو اس کو محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے اور ان کی آل کی طرف سے اور امت کی طرف سے قبول فرما۔( صحیح مسلم، کتاب الاضاحی باب استحباب استحساالضحیہ)
ابوداؤد اور ابن ماجہ میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حدیث پاک میں یہ کلمات بهی ہیں؛ اللھم منک ولک عن محمد و امتہ بسم اللہ واللہ اکبر ۔
ترجمہ : اے اللہ (عزوجل) یہ تیرے لئے ہی ہے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور امت کی طرف سے ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الضحایا، باب مایستحب من الضحایا: سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی، باب اضاحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
نیز حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی سے مروی ایک حدیث پاک میں یہ کلمات ہیں ” بسم اللہ واللہ اکبر هذا عنی وعمن لم یضح عن امتی ۔
ترجمہ : اے اللہ (عزوجل ) یہ میری طرف سے ہےاور میری امت میں سے اس کی طرف سے ہے جو قربانی نہ کرسکے”۔ ( سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب فی الشاتہ یضحی بہا عن جماعتہ،چشتی)
خلیفہ اعلی حضرت صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں “یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بے شمار الطاف میں سے ایک خاص کرم ہے کہ اس موقع پر بهی امت کا خیال فرمایا اور جو لوگ قربانی نہ کر سکے ان کی طرف سے خود ہی قربانی ادا فرمائی”۔
یہ شبہ کہ ایک مینڈها ان سب کی طرف سے کیونکر ہوسکتا ہے یا جو لوگ ابهی پیدا ہی نہ ہوئے ان کی قربانی کیونکر ہوئی اس جواب یہ ہے کہ یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خصائص سے ہے- جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھ مہینے کے بکری کے بچہ کی قربانی حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کےلئے جائز فرمادی اوروں کےلئے اس کی ممانعت کردی ۔ (صحیح بخاری کتاب العیدین، باب کلام الامام والناس فی الخطبہ: صحیح مسلم کتاب الاضاحی، باب وقتها)
اسی طرح اس میں خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصیت ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 15)
سوال : صاحب نصاب کسے کہتے ہیں ؟
جواب : جس کے پاس حاجت اصلیہ سے زائد ساڑهے سات تولے سونا یا ساڑهے باون تولے چاندی یا اتنی چاندی کی قیمت کے برابر روپے پیسے یا مال تجارت ہو وہ صاحب نصاب ہوگا۔ ( بہارشریعت حصہ 15)
سوال : حاجت اصلیہ سے کیا مراد ہے ؟
جواب : حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان اور سواری کا جانور ( موجودہ دور میں کار، موٹر سائیکل وغیرہ) اور خادم اور پہننے کے کپڑے، طالب علم کےلئے کتابیں، پیشہ ور کے آلات ، مشینری، موبائل ، کاروبار یا تعلیم وغیرہ کےلئے کمپیوٹر، کسانوں کے زرعی آلات یہ سب حاجت اصلیہ میں داخل ہیں۔
سوال : اگر کسی کے پاس مکان سکونت یعنی جس میں وہ رہتا ہے اس کے علاوہ دوسرا مکان ہو تو کیا اس پر قربانی واجب ہوگی ؟
جواب : امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، ایسے شخص پر قربانی واجب ہے، اگرچہ وہ مکان کرایہ پر دیا ہو یا خالی پڑا ہو یا سادی زمین ہو بلکہ مکان سکونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصہ جاڑے گرمی کی سکونت کے لئیے کافی ہو، اور دوسرا حصہ حاجت سے زائد ہو، اور اس کی قیمت تنہا یا اسی قسم کے مال سے ملکر نصاب تک پہنچے جب بهی قربانی واجب ہے، اسی طرح صدقہ فطر بهی(واجب ہے)۔(فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 361،چشتی)
سوال : اگر صاحب نصاب کے پاس ایام قربانی میں نقد رقم نہ ہو تو کیا وہ قرض لیکر قربانی کرے یا اسے معاف ہے ؟
جواب : جس پر قربانی واجب ہے اور نقد رقم اس کے پاس نہیں تو وہ قرض لیکر قربانی کرے یا اپنا کچھ مال جیسے سونا، چاندی، وغیرہ بیچ کر حاصل شدہ رقم سے قربانی کرے، اسے قربانی معاف نہیں ۔ ( تفصیل کےلیے دیکهئے فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 370)
سوال : ایک شخص صاحب نصاب نہیں تها اور قربانی کےلیے جانور خرید لیا بعدمیں معلوم ہوا کہ مجھ پر قربانی واجب نہیں، تو کیا ایسا شخص خریدہ ہوا جانور بیچ کر رقم استعمال کرسکتا ہے، کیونکہ اس پر قربانی واجب نہیں ؟
جواب : جو صاحب نصاب نہ ہو اسے فقہی بولی میں فقیر کہتے ہیں اور صاحب نصاب کو غنی، فقیر پر شرعا قربانی واجب نہ تهی، مگر جب اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس نیت کی وجہ سے اسی جانور کی قربانی اس پر واجب ہوگئی ۔ (بہارشریعت حصہ 15)
اور اب یہ اس جانور کو فروخت کرکے رقم استعمال نہیں کرسکتا ، فروخت کرنا تو کجا اب یہ اس جانور کو دوسرے سے بدل بهی نہیں سکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 372،چشتی)
سوال : مسافر اگر قربانی کرے تو کیا اسے ثواب ملے گا ؟
جواب : مسافر پر اگرچہ قربانی واجب نہیں مگر نفل کے طور پر قربانی کرے تو کر سکتا ہے ثواب پائے گا ۔ (بہارشریعت حصہ 15)
سوال : اگر کوئی شخص قربانی کے پہلے دن صاحب نصاب نہیں تها، عیدالاضحیٰ کے دوسرے یا تیسرے دن غنی ہوگیا، اس پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں ؟
جواب : قربانی کے واجب ہونے کو پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں ، بلکہ قربانی کےلئے جو وقت (تین دن) مقرر ہے اس کے کسی حصہ میں شرائط کا پایا جانا قربانی واجب ہونے کےلئے کافی ہے، یہ شخص پہلے دن فقیر تها مگر دوسرے یا تیسرے دن وقت کے اندر مالدار ہوگیا، یا مسافر تها مقیم ہوگیا یا غلام تها اب آزاد ہوگیا حتی کہ کافر تها اب مسلمان ہوگیا ان تمام صورتوں میں قربانی واجب ہے ۔ ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ)
سوال : مالک نصاب نے قربانی کےلئے جانور خریدا ، وہ گم ہوگیا، یا چوری ہوگیا اب یہ مالک نصاب نہ رہا تو کیا وہ نیا جانور خریدےگا ؟
جواب : اس صورت میں اس پر دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں کہ وہ صاحب نصاب نہ رہا، بلکہ اگر قربانی کے دنوں میں گمشدہ یا چوری ہوا جانور مل گیا اور یہ اب بهی صاحب نصاب نہیں تو اس پر قربانی واجب نہیں۔( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ باب اول) ۔
قربانی کے جانور
قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں-اونٹ ، گائے، بکری، ہر قسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں، نر، مادہ، خصی اور غیر خصی سب کا ایک حکم ہے یعنی سب کی قربانی ہوسکتی ہے- بهینس گائے میں شمار ہے اس کی بهی قربانی ہوسکتی ہے-بهیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں انکی بهی قربانی ہو سکتی ہے ۔ (بہارِ شریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ، کتاب الاضحیہ باب خامس) وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن کی قربانی نہیں ہوسکتی ۔
قربانی کے جانور کی عمر
اونٹ پانچ سال کا، گائے دو سال کیبکرا ایک سال کا۔ اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں، اگر مقررہ عمر سے زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے، دنبہ یا بهیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑا (فربہ صحت مند) ہو کہ دور سے دیکهنے میں سال بهر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 443 : بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار کتاب الاضحیہ،چشتی)
قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہئیے، تهوڑا سا عیب ہو( مثلاً کان چرا ہوا ہو یا کان میں سوراخ ہو ) تو قربانی ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی، اگر عیب زیادہ ہو تو قربانی نہیں ہوگی جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اس کی قربانی جائز ہے،سینگ تهے مگر جڑ تک ٹوٹ گیا قربانی ناجائز ہے، اگر اس سے کم ٹوٹا تو قربانی جائز ہے،جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو، اسکی قربانی ناجائز ہے، جس جانور میں جنوں (پاگل) اس حد کا ہو کہ چرتا نہ ہو، اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا، اندها، یا ایسا کانا کہ اس کا کانا پن ظاہر ہے، ایسا بیمار جسکی بیماری ظاہر ہو، اتنا لنگڑا کہ خود اپنے پاؤں سے ذبح کرنے کی جگہ تک نہ جاسکے، ایسا جانور کہ جس کے کان، دم، یا دم چکی (دنبے کی گول چپٹی دم) ایک تہائی ( 1/3) سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، جانور کی ناک کٹی ہو، دانت نہ ہوں، تهن کٹے ہوئے ہوں یا خشک ہوگئے ہوں ، ( گائے یا بهینس میں دو تهن بکری میں ایک تهن کا خشک ہونا ناجائز ہونے کےلئے کافی ہے)جس جانور کا دودھ علاج کے ذریعے خشک کردیا گیا ہو، خنثی جانور یعنی جس میں نر اور مادہ دونوں علامتیں پائی جاتی ہوں، ( اس کا گوشت کسی طرح پکائے نہیں پکتا فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 255) اور جلالہ جو صرف غلیظ کهاتا ہو (حدیث پاک میں جلالہ کا گوشت کهانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا گیا، جامع الترمذی، کتاب الاطعمہ) یا جس جانور کا ایک پاؤں کاٹ دیا گیا ہو ان سب کی (جو ابهی بیان ہوئے) قربانی ناجائز ہے ۔ (تفصیل کےلئے دیکهئے،الہدایہ کتاب الاضحیہ ، درمختار کتاب الاضحیہ: فتاوی ہندیہ (اسے فتاوی عالمگیری بهی کہتے ہیں، کتاب الاضحیہ، فتاویٰ رضویہ جلد20 بہار شریعت حصہ 15،چشتی)
سوال : کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے ؟ کیونکہ اس میں رگیں کوٹ دی جاتی ہیں، یہ عیب کے زمرے میں نہیں آتا ؟
جواب : خصی جانور کی قربانی جائز اور سنت سے ثابت ہے ، حضرت جابر حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنهم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ذبح کے دن دو مینڈهے سینگ والے، چت کبرے، خصی کیے ہوئے ذبح کیے ۔ (مسندِ امام احمد، مسند انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ، جلد 4 صفحہ 5: سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب مایستحب من الضحایا : سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی باب اضاحی رسول اللہ : مشکوتہ باب فی الاضحیہ فصل ثانی،چشتی)
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اسی طرز کے سوال کہ خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟ کے جواب میں فرماتے ہیں، جائز ہے کہ اس کی کمی سے اس جانور میں عیب نہیں آتا بلکہ وصف بڑھ جاتا ہے کہ خصی جانور کا گوشت بہ نسبت فحل کے زیادہ اچها ہوتا ہے ۔ ہندیہ (فتاوی عالمگیری) میں خلاصہ سے منقول ہے کہ ذکر کٹا (جانور) جو جفتی کے قابل نہ رہا وہ قربانی میں جائز ہے ۔ ( فتاوی رضویہ جلد20 صفحہ 458)
سوال : کیا بهینس بهی قربانی کا جانور ہے ؟ اگر ہے تو اس کا کیا ثبوت ہے ؟
جواب : لغت عرب میں بهینس کو “جاموس” کہتے ہیں (المنجد) اس کا شمار گائے کی نوع یعنی قسم میں ہوتا ہے، الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز کتاب ” هادی الاضحیہ بالشاتہ الهندیہ” میں بهینس کی قربانی کے جواز میں کثیر کتب فقہ سے استدلال فرمایا۔ ان میں ہدایہ، خانیہ، رمز الحقائق، تکملہ طوری ، مسخلص الحقائق، شرح ملا مسکین، طحاوی علی الدر، شرح نقایہ برجندی، جامع الرموز، جامع المضمرات،مجمع الانہر عن المحیط، فتح اللہ المعین عن التبیین، بحرالرائق، ولوالجیہ، هندیہ عن البدائع؛ ردالمحتار شامل ہیں ان کتب کے نام گنوا کے فرماتے ہیں، ضرورت پر ساری کتابیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ الحمدللہ ساری کتابیں میری ذاتی ہیں۔ ( فقیر بارگاہ رضا راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے مذکورہ کتب میں سے اکثر اس حقیر کے پاس بهی ہیں)
ان میں سے چند عبارات پیش خدمت ہیں : ⬇
علامہ طوری لکهتے ہیں”الجاموس لانہ نوع من البقر”۔ یعنی بهینس گائے کی نوع سے ہے۔( تکملہ من البحرا لرائق، کتاب الاضحیہ جلد 8 صفحہ 177)
امام برہان الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” ویدخل فی البقر الجاموس۔(ہدایہ کتاب الاضحیہ جلد 4 صفحہ 449،چشتی)
فتاوی ہندیہ میں ہے، والجاموس نوع من البقر۔(فتاویٰ ہندیہ کتاب الاضحیہ باب خامس جلد5 صفحہ 297)
ان تمام عبارات کا خلاصہ یہی ہے کہ جاموس یعنی بهینس گائے کی قسم سے ہے اور قربانی کا جانور ہے، اسکی عمر بهی قربانی کے دو سال ہے ۔
سوال : گابهن (حاملہ) بکری یا گائے کی قربانی جائز ہے اور اگر اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلے اس کےلیے شریعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اما احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” دودھ کے جانور یا گابهن کی قربانی اگرچہ صحیح ہے مگر ناپسند ہے، حدیث میں اس سے ممانعت فرمائی۔ (یہ حدیث سنن ابن ماجہ ابواب الذبآئح میں ہے)۔ فتاوی رضویہ جلد20 صفحہ 370)
اس لیے گابهن جانور کی قربانی سے اجتناب کرنا بہتر ہے، اور اگر پیٹ سے زندہ بچہ نکل آئے تو اسے ذبح کیا جاسکتا ہے اور اس کا گوشت کهانا بهی جائز ہے، اگر مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پهینک دے مردار ہے ۔ ( بہارشریعت حصہ 15)
اجتماعی قربانی
گائے (بهینس) اور اونٹ میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں ، تمام شرکاء صحیح العقیدہ ہوں ، اور سب کی نیت “تقرب” یعنی اللہ تعالی کا حق ادا کرنا مقصود ہو، گائے کے شرکاء میں اگر ایک شخص کی نیت فقط گوشت حاصل کرنا ہو تو کسی کی بهی قربانی نہیں ہوگی ۔ ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار و رد المحتار کتاب الاضحیہ)
اگر کوئی شخص سات حصوں میں سے کچھ حصے عقیقے کےلئے مقرر کرلے تو جائز ہے کہ عقیقہ بهی تقرب کی ایک صورت ہے۔(ردالمحتار، کتاب الاضحیہ جلد 9 فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 595؛ بہارشریعت حصہ 15)
عام طور پر دیکهنے میں آتا ہے کہ تمام گهر والوں کی طرف سے ایک بکرا قربان کردیا جاتا ہے، جبکہ صاحب نصاب ہونے کے سبب اس گهر کے کئی افراد پر قربانی واجب ہوتی ہے اس صورت میں ایک بکرا بهیڑ وغیرہ سب کو کفایت نہیں کریگا، جو جو صاحب نصاب ہیں خواہ مرد ہو یا عورت سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کیجائے ۔ (تفصیل کےلیے دیکهئے فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 369،چشتی)
میت کی طرف سے ایصال ثواب کی نیت سےقربانی کرنا جائز ہے، اس میں چند باتیں ملحوظ خاطر رہیں۔ (1) اگر میت کی طرف سے قربانی کرنے والا خود صاحب نصاب ہے اور ایک ہی جانور کی استطاعت رکهتا ہے، تو اسے قربانی اپنی طرف سے کرنی چاہئے، کہ اس پر واجب ہے میت پر واجب نہیں، اور واجب کا ترک گناہ ہے۔ (2) میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے رشتہ داروں کو اور غربا میں تقسیم کرسکتا ہے (3) اگر مرنے والے کی وصیت و حکم پر قربانی کی تو اس صورت میں تمام گوشت صدقہ کردے خود نہیں کها سکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 456 ؛ بہارشریعت حصہ 15)
اجتماعی قربانی میں تمام شرکا کے درمیان گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں،اور ایک دوسرے کو کم یا زیادہ معاف کردینا بهی کافی نہیں، ہاں ایک ہی فیملی کے افراد کہ ایک ہی گهر میں رہتے اور مل جل کر کهاتے ہیں تو وزن کرنے کی حاجت نہیں ۔ (تفصیل کےلیے دیکهیے بہارشریعت حصہ 15)
بے احتیاطی سے بچنے کےلئے اس طرح حیلہ کیا جاسکتا ہے کہ شرکائے قربانی سارا گوشت ایسے بالغ مسلمان کو جو اس قربانی میں شریک نہ ہو ہبہ کردیں، یہ شخص سب میں اندازے سے گوشت تقسیم کرسکتا ہے ۔ (تفصیل، بہارشریعت حصہ 15 و ردالمحتار کتاب الاضحیہ جلد 9)
قربانی کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے، اور غنی و فقیر کو بهی کهلا سکتا ہے۔ گوشت کے تین حصے کرلینا مستحب ہے، ایک حصہ غرباء کےلئے ایک رشتہ دار وں اور دوست احباب کےلئے، اور ایک حصہ اپنے گهر والوں کےلئے، کل صدقہ کرنا بهی جائز اور کل (گوشت) گهر ہی رکھ لے یہ بهی جائز ہے، اگر کنبہ بڑا ہو اور صاحب وسعت نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں ہی کےلئے رکھ چهوڑے ۔ (بہارشریعت حصہ 15)(فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ باب خامس،چشتی)
حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں، ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے، رگوں کا خون، پِتّا، پهکنا، علامات نر و مادہ، بیضے، غدود، حرام مغز، گردن کے دو پٹهے کہ شانوں تک کهنچے ہوتے ہیں، جگر کا خون، تلی کا خون، گوشت کا خون کہ ذبح کے گوشت میں سے نکلتا ہے، دل کا خون، پت یعنی وہ زرد پانی کہ پتے میں ہوتا ہے، ناک کی رطوبت کہ بهیڑ میں اکثر ہوتی ہے، پاخانہ کا مقام، اوجهڑی، آنتیں، نطفہ، وہ نطفہ کہ خون ہوگیا، وہ کہ گوشت کا لوتهڑا ہوگیا، وہ کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا، یا بے ذبح مرگیا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 240)
بہتر یہ ہے کہ قربانی (ذبح) اپنے ہاتھ سے کرے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتا ہو، اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے ذبح کرائے، اور وقت قربانی وہاں موجود ہو، دوسرے سے ذبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بهی چهری پر رکھ دیا، کہ دونوں (قصاب اور مالک قربانی) نے ملکر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اللہ کہنا واجب ہے، ایک نے بهی جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام ترک کیا یا یہ خیال کرکے چهوڑ دیا کہ دوسرے نے کہہ لیا ہے مجهے کہنے کی ضرورت نہیں دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا ۔ (بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار کتاب الاضحیہ،چشتی)
عورت، سمجھ دار نابالغ، گونگا، ان سب کا ذبیحہ حلال ہے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتے ہوں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 242)
جانور کو بهوکا پیاسا ذبح نہ کریں، اور ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کیا جائے، چهری پہلے سے تیز کرلی جائے ایسا نہ ہو کہ اسے زمین پر گرا کر اس کے سامنے تیز کی جائے، گائے وغیرہ کو گرانے سے پہلے ہی قبلہ رخ کا تعین کرلیا جائے، جس جگہ جانور کو لٹانا یا گرانا ہے اسے صاف کرلیا جائے کہ وہاں کنکر روڑے وغیرہ نہ ہوں، الغرض جانور کو ہر طرح کی اذیت و تکلیف سے بچایا جائے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو، تم میں سے کسی شخص کو چاہئیے کہ وہ چهری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۔ (صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح)
اور مسند امام احمد میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجهے بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے ، فرمایا اگر اس پر رحم کرو گے اللہ تعالیٰ بهی تم پر رحم فرمائے گا، ذبح کرنے میں چار رگیں کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں، اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چهری گردن کے مہرہ تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے، جب تک جانور مکمل طور پر ٹهنڈا نہ ہوجائے نہ اس کے پاؤں کاٹیں نہ کهال اتاریں ۔
بعض قصاب اور گهروں میں جانے آرڈر بهگتانے اور مال کمانے کی غرض سے عجلت میں ہوتے ہیں، اور گائے کو ذبح کرتے ہی گردن سے چهری گهونپ کر دل کی رگیں کاٹتے ہیں، یا بکرے کی گردن بعد ذبح چٹخا دیتے ہیں؛ اس ظلم سے انہیں روکا جائے ۔ (مذکورہ مسائل کی تفصیل جاننے کےلیے فتاویٰ رضویہ جلد20،بہار شریعت حصہ 15 کا مطالعہ فرمائیں،چشتی)
قربانی کی کهال ہر اس کام میں صرف کرسکتے ہیں جو قربت و کار خیر و باعث ثواب ہو؛مساجد و مدارس اہل سنت کو دے سکتے ہیں، کهال بیچ کر اس رقم سے کتب دینیہ خرید کر مدارس وغیرہ کے طلبہ کو دے سکتے ہیں اگرچہ وہ طلبہ غنی ہوں کہ کتاب باقی رہ کر کام آتی ہے، حاجت مند بیواؤں، یتیموں، مسکینوں کو کهال یا اس سے حاصل شدہ رقم دے سکتے ہیں، قربانی کرنے والا کهال کو باقی رکهتے ہوئے اپنے کام میں لا سکتا ہے مثلاً اسکی جا نماز، چهلنی (آٹا چهاننے کا آلہ) تهیلی، مشکیزہ، دسترخوان، ڈول، یا کتابوں کی جلد بندی میں لگا سکتا ہے۔ اگر کسی نے کهال اپنے خرچ میں لانے کےلئے بیچی تو حاصل شدہ دام خبیث ہیں لہذا یہ رقم مسجد یا مسجد کے کسی کام میں نہ لگائی جائے بلکہ فقیر مسلمان پر صدقہ کردی جائے ۔ (مذکورہ مسائل فتاویٰ رضویہ کی جلد 20 سے اخذ کیے گئے ہیں)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ سے سوال پوچها گیا کہ زید پردیس میں ہے اس کی جانب سے اس کا کوئی عزیز قربانی کردے تو فرض زید پر سے اتر جائے گا ؟
آپ نے جواب عطا فرمایا کہ : قربانی و صدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلا اجازت ناممکن ہے ، ہاں اجازت کےلئے صراحتاً ہونا ضروری نہیں دلالت کافی ہے ، مثلاً زید اس کے عیال میں ہے ، اس کا کهانا پہننا سب اس کےپاس ہوتا یا یہ (زید کی طرف سے قربانی کرنے والا) اس کا وکیل مطلق ہے ، اس کا کار و بار یہ کیا کرتا ہے ، ان صورتوں میں ادا ہو جائے گی ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 453)
بیرون ملک رہنے والے لوگ اپنے کسی عزیز یا دوست کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دیں یعنی انہیں اپنا وکیل کر لیں تو انکی طرف سے قربانی ہو جائے گی ۔
عشرہ ذوالحجہ کی دس راتوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : دس دن ذوالحج کے ایسے ہیں ان کے مقابلے میں کسی دن کی عبادت زیادہ مقبول نہیں کیونکہ ان دنوں میں روزہ کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت کا ثواب شب قدر کی عبادت کے برابر ملتا ہے ۔ (سنن ترمذی کتاب الصوم)
یہ تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ذوالحجہ کے ابتدائی دنوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ اسی طرح ذو الحجہ قربانی کے عمل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : قربانی کے دن اللہ رب العزت کو ﴿ذبیحہ کا﴾ خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل محبوب نہیں ہے اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں کھروں اور بالوں سمیت آئے گا- خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک درجہ حاصل کر لیتا ہے - تمہیں اپنی قربانی سے مسرور ہونا چاہیے ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی)
ایک اور جگہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرض کیا کہ : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ قربانی کیا چیز ہے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کی کہ اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا ؟ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ہر بال کے عوض ایک نیکی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر اون ہو ؟ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی)
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا سید ہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ارشاد فرمایا : تم اپنی قربانی پر حاضر رہو کیونکہ جب تمہاری قربانی کا پہلا قطرہ ﴿خون﴾ نکلے گا تو تمہاری مغفرت کر دی جائے گی ۔ (مصنف عبد الرزاق، ۸۶۱۶)
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قربانی : ⏬
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے جو کالے ،سفید سینگ دار ہوتے ۔ میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پہلوٶں پر قدم رکھ کر ’’بسم اللہ‘‘ پڑھتے تکبیر کہتے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح فرماتے ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے سینگوں والے اور سیاہ رنگ کے ہوتے ایک اپنی امت کی جانب سے ذبح فرماتے جو بھی اللہ پاک کو ایک جانتا ہو اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا قائل ہو دوسرا محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آل محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جانب سے ذبح فرماتے ۔ (ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی،چشتی)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا میں عید الاضحی کے روز عید گاہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں موجود تھا جب آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ مکمل فرمایا تو منبر سے اترے اور ایک مینڈھا لایا گیا تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اپنے دست اقدس سے ذبح فرمایا اور ارشاد فرمایا : اللہ پاک کے نام سے شروع ، اللہ اکبر ﴿اللہ بڑا ہے﴾ یہ میری طرف سے ہے اور میرے اس امتی کی طرف سے جو قربانی نہ کرسکے ۔ (سنن ابن داؤد کتاب الضحایا)
سبحان اللہ ! جو فخر موجودات ہے ، جن کے نام کی قسمیں اللہ پاک اٹھاتا ہے وہ اپنی اُمّت کے کتنے غم خوار ہیں ۔ اِس پہ بعض فقہا نے باعتبارِ تقویٰ فرمایا ہے کہ اہلِ ثروت لوگ بھی اِس سُنّت کو اپنائیں کہ وہ لوگ جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے اُن کی دلجوئی کےلیے اُن کی مدد کریں اِس کا دوہرا اجر ملے گا ، ایک قربانی میں حصہ شامل کرنے کا اور دوسرا نادار کی مدد اور دلجوئی کرنے کا ۔
قربانی کا وجوب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس شخص میں طاقت ہو اور پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔ (مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۱۲۳)
قربانی واجب ہونے کی شرائط : ⏬
مسلمان ہونا ، یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں ۔
اقامت ، یعنی مقیم ہونا (مسافر پر قربانی واجب نہیں اگر مسافر کرے تو بہتر ہے) ۔
صاحبِ استطاعت ، مالکِ نصاب ہونا - یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ۔
حریت ، آزاد ہونا یعنی غلام پر قربانی واجب نہیں ۔
مرد ہونا اس کےلیے شرط نہیں ۔ عورتوں پر اسی طرح قربانی واجب ہے جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے ۔ (نعم الباری فی شرح البخاری کتا ب الاضاحی)
یہاں ایک دو ضروری باتوں کی وضاحت کرتا چلوں جو کہ عموماً عوام النّاس کے ذہن میں الجھی رہتی ہیں کہ ’’صاحبِ استطاعت‘‘ سے کیا مُراد ہے کہ کس قدر مال کا مالک ہو تو اُس پہ قربانی لازم ہو گی ؟
تو یہ بات نوٹ کر لیں کہ : جو شخص ۲۰۰ درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا بیس دینار یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو یا حاجت و ضرورت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت ۲۰۰ درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہو تو وہ غنی اور مالدار ہے اس پر قربانی واجب ہے ۔ ﴿حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کا سامان جو ضروریات زندگی میں شامل ہیں، سواری کا جانور اور پہننے کے کپڑے ۔ ان کے علاوہ جو چیزیں ہیں وہ حاجت سے زائد ہیں﴾ ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کافر کے مسلمان ہونے اور مسافرت کے یا غربت کے ختم ہو جانے پہ کیا حکم لاگو ہو گا ؟ یعنی ایک شخص کافر تھا مسلمان ہوگیا ، اسی طرح ایک آدمی سفر میں تھا اور وقتِ قربانی تک مقیم ہو گیا تو اُس پہ کیا حکم ہو گا ؟ یا ایک آدمی مفلوک الحال تھا اچانک انعام کی وجہ سے یا لاٹری وغیرہ نکل آنے کی وجہ سے وہ وقتِ قربانی پہ وہ حاجتمند سے نکل کر صاحبِ استطاعت ہو گیا تو اُس پہ کیا حکم ہے ؟ اس کے بارے میں در مختار کتاب الاضحیہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ : قربانی کا آخری وقت معتبر ہے یعنی ایک شخص اوّل وقت میں کافر تھا مسلمان ہوگیا یا مسافر تھا اب قربانی کے وقت کے دوران مقیم ہو گیا یا پھر غریب تھا اور وقت کے اندر مالدار ہو گیاان تمام پر قربانی واجب ہوگی ۔ (در مختار، کتاب الاضحیہ،چشتی)
قربانی کرنے کے ایّام : ⏬
قربانی تین دن ہے یعنی دسویں ، گیارہویں اور بارہویں تاریخ ذی لحج کی اورافضل دن قربانی کا پہلا دن ہے ۔ (در مختار کتاب الاضحیہ)
قربانی تین دن ہے : ⏬
قربانی تین دن متعین ہونے کی نسبت کنز العمال میں روایت موجود ہے : عن علی انہ کا ن یقول ایام النحرثلاثۃ وافضلھن اولھن ۔ ابن ابی الدنیا ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرمایا کرتے تھے : قربانی کے دن تین ہیں اور ان میں افضل پہلا دن ہے ۔ (کنز العمال کتاب الحج باب فی واجبات الحج ومندوباتہ حدیث نمبر 12676)
مذکورہ حدیث پاک کی بنا پر فقہاء احناف نے فرمایا ہے کہ : قربانی کے تین دن ہیں : 10 ، 11 ، 12 ذی الحجہ ، قربانی کاوقت 10 ذی الحجہ نماز عیدالاضحی کے بعد سے 12 ذی الحجہ کی غروب آفتاب تک ہے ۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : (ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ فی وقت مخصوص) ۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار جلد 5 صفحہ 219)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں عید کے دو دن بعد قربانی ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی منقول ہے ۔ (موَطا امام مالک مترجم اردو صفحہ 552 )
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم رازی جلد 6 صفحہ261)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:ایام معلومات ۔ چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ) اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں ۔
عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ ۔ (احکام القرآن امام طحاوی جلد 2 صفحہ 205)
ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ قربانی تین دن ہے ۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قربانی(دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔ (سنن کبریٰ بیہقی جلد 9 صفحہ 297 باب من قال الاضحی یوم النحر،چشتی)
قربانی کے تین دن کے متعلق غیر مقلدین سے ثبوت
حافظ زبیر علی زئی (غیر مقلد) لکھتے ہیں : قول راجح میں قربانی تین ہیں ۔ (مقالات علی زئی جلد 2 صفحہ 219 الحدیث 44 صفحہ 6 تا11)
نیز لکھتے ہیں : سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) اور جمہور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحی اور دو دن بعد میں تو ہماری تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔ (فتاوی زبیر علی زئی جلد 2 صفحہ 181)
علامہ عمر فاروق غیر مقلد لکھتے ہیں : تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے ۔ (قربانی اور عقیقہ کے مسائل صفحہ 137)
عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں : علامہ عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں : بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟بلکہ ایام قربانی تین دن (10،11،12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی نہیں ۔ ( قربانی اور عقیقہ کے مسائل صفحہ 141،چشتی)
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الأنْعَامِ ۔ (الحج: 28)
ترجمہ : اور الله کا نام لو معلوم دنوں میں چوپایوں پر جو اس نے تم کو دیے ہیں ۔
یوم عرفہ – یوم الحج الاکبر – ٩ ذو الحجہ
یوم نحر – یوم عید الاضحی – ١٠ ذو الحجہ
ایام التشریق منی میں حج کے بعد کے تین دن ہیں امام مالک موطا میں ایام تشریق کی وضاحت کرتے ہیں : أَيَّامِ التَّشْرِيقِ إِنَّهُ لَا يُجَمِّعُ فِي شَيْءٍ مِنْ تِلْكَ الْأَيَّامِ ۔
ترجمہ : ایام التشریق کیونکہ ان دنوں میں کوئی چیز جمع نہ کی جائے ۔
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری جلد ٤ صفحہ ٢٨٥ میں لکھتے ہیں : وقد اختلف في كونها يومين أو ثلاثة ، وسميت أيام التشريق؛ لأن لحوم الأضاحي تشرق فيها أي تنشر عند الشمس ۔
ترجمہ : اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو دن ہیں یا تین ہیں، اور ان کو ایام تشریق کہا جاتا ہے کیونکہ قربانی کا گوشت سورج نکلتے ہی پھیل جاتا (بٹ جاتا) ہے ۔
بعض کہتے ہیں یہ تین دن ہیں : اس میں اختلا ف ہے کہ یہ کون کون سے دن ہیں بعض کے نزدیک یہ ١٠، ١١ اور ١٢ ہیں اور بعض کے نزدیک ایام التشریق میں یوم عید کے بعد کے تین دن ہیں یعنی ١١ ، ١٢ اور ١٣ ذو الحجہ ۔
اس سلسلے میں ترمذی کی حسن حدیث پیش کی جاتی ہے کہ مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ اپنے باپ على بن رباح بن قصير اللخمى سے وہ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ وہ نبی صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام ، وهي أيام أكل وشرب ۔
ترجمہ : کھانے پینے کے دن ، اہل اسلام کے لئے ہیں یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق ۔
اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے ایام تشریق کا یوم نحر سے الگ ذکر کیا ہے لہذا یہ الگ ہیں ۔ اس روایت کو امام احمد بھی مسند میں بیان کرتے ہیں الطحاوی اس روایت کو خاص کرتے ہیں یعنی حاجیوں کےلیے کہتے ہیں : فلما ثبت بهذه الأحاديث عن رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم : النهي عن صيام أيام التشريق وكان نهيه عن ذلك بمنى والحجاج مقيمون بها ۔
إسحاق بن منصور بن بهرام نے امام احمد سے قربانی کے بارے میں سوال کیا کہ کتنے دن ہے ۔ کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق ۔ قلت: كم الأضحى؟ ثلاثة أيام ، قال: ثلاثة أيام، يوم النحر ، و يومان بعده ، احمد نے کہا تین دن ، يوم النحر اور اس کے بعد دو دن یعنی ١٠ ، ١١ اور ١٢ ذو الحجہ ہوئے ۔ عصر حاضر کے حنابلہ ابن تیمیہ کی تقلید میں ایام تشریق میں ١٣ کو بھی شامل کرتے ہیں ۔
ترمذی کی حسن روایت کو امام احمد مسند میں نقل کرتے ہیں لیکن فتوی اس کے بر خلاف دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان کے نزدیک صحیح نہیں ، قربانی کا گوشت تو یوم نحر میں ہی بٹنا شروع ہو جائے گا لہٰذا اس کو ایام تشریق سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔
کتاب شرح مختصر الطحاوي از أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370 هـ) کے مطابق امام طحاوی کہتے ہیں : وأيام النحر ثلاثة أيام، يوم النحر ويومان بعده، وأفضلها أولها ، اور ایام النحر تین ہیں یوم نحر اور اس کے بعد دو دن اور افضل شروع میں ہے ۔
اس کے بر خلاف امام الشافعی کا کتاب الام میں قول ہے کہ یہ تین دن سے زیادہ ہے ۔ قَالَ الشَّافِعِيُّ : وَالْأُضْحِيَّةُ جَائِزَةٌ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَيَّامَ مِنًى كُلَّهَا لِأَنَّهَا أَيَّامُ النُّسُكِ ، قربانی جائز ہے یوم النحر اور سارے ایام منی میں کیونکہ یہ قربانی کے دن ہیں ۔
امام الشافعی کی رائے میں منی کے تمام ایام میں کی جا سکتی ہے ۔
امام الشافعی کی رائے قیاس پر مبنی ہے لہٰذا قرآن کی آیت میں ہے : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۔ (البقرۃ : 203) ،، اور معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔
شوافع میں أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ کو أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ سے ملا کر بحث کی جاتی ہے کہ قربانی کے دن تمام ایام منی ہیں ۔ اس کے برعکس احناف ، مالکیہ اور حنابلہ کا موقف ہے کہ قربانی تین دن ہے یہاں سے فقہاء کا اختلاف شروع ہوتا ہے ۔
غیر مقلدین شوافع سے ایک ہاتھ آگے جا کر تشریق کے دنوں کی تعریف بدلنے کے بعد اس میں زبردستی ١٣ ذو الحج کو داخل کرتے ہیں اور کہتے ہیں ١٣ تاریخ میں سورج غروب ہونے سے پہلے قربانی جائز ہے ۔
امام محمّد علیہ الرحمہ کتاب الأَصْلُ میں کہتے ہیں : باب التكبير في أيام التشريق : قلت : أرأيت التكبير في أيام التشريق متى هو، وكيف هو، ومتى يبدأ ، ومتى يقطع؟ قال: كان عبد الله بن مسعود يبتدئ به من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر ، وكان علي بن أبي طالب يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق ، فأي ذلك ما فعلت فهو حسن ، وأما أبو حنيفة فإنه كان يأخذ بقول ابن مسعود، وكان يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر، ولا يكبر بعدها، وأما أبو يوسف ومحمد فإنهما يأخذان بقول علي بن أبي طالب ،، تشریق کے ایام میں تکبیر کہنا …. کہا تکبیر، عبد الله ابن مسعود صلاة الغداة (نماز فجر) یوم عرفہ کے دن سے یوم نحر میں عصر کی نماز تک کرتے اور علی بن ابی طالب صلاة الغداة (نماز فجر) میں تکبیر کہتے ایام تشریق نماز عصر کے آخر تک اور اسی طرح حسن کرتے اور جہاں تک ابو حنیفہ کا تعلق ہے تو وہ ابن مسعود کا عمل کرتے اور … اور امام ابو یوسف اور محمد علی بن ابی طالب کا قول لیتے ۔
قال الإمام محمد : أخبرنا سلام بن سليم الحنفي عن أبي إسحاق السبيعي عن الأسود بن يزيد قال كان عبد الله بن مسعود ۔ رضي الله عنه – يكبر من صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر : الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد. )انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 310؛ ورواه من وجه آخر. انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 308. وانظر: الآثار لأبي يوسف، 60؛ والمصنف لابن أبي شيبة، 1/ 488؛ ونصب الراية للزيلعي، 2/ 222،چشتی) ،، یعنی علی رضی الله عنہ ١٣ نمازوں میں تکبیر کہتے اور ابن مسعود ٨ نمازوں میں تکبیر کہتے ۔
کتاب النتف في الفتاوى از أبو الحسن علي بن الحسين بن محمد السُّغْدي، حنفي (المتوفى: 461هـ کے مطابق : قَالَ ابْن مَسْعُود يَنْتَهِي بهَا الى الْعَصْر من يَوْم النَّحْر وَهِي ثَمَانِي صلوَات ، وَبِه أَخذ أَبُو حنيفَة وَحده ، وَقَالَ عَليّ بل يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الْعَصْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ ثَلَاثَة وَعِشْرُونَ صَلَاة وَكَذَلِكَ قَول عمر فِي رِوَايَة وَعَلِيهِ الْعَامَّة وروى عَن عمر ايضا انه يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الظّهْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ اثْنَتَانِ وَعِشْرُونَ صَلَاة ۔
وَقَالَ ابْن عمر وَابْن عَبَّاس يَبْتَدِئ بِالتَّكْبِيرِ عَن صَلَاة الظّهْر من يَوْم النَّحْر ۔
وَقَالَ لَا تَجْتَمِع التَّلْبِيَة والتكبيرات مَعًا فاذا انْقَطَعت التَّلْبِيَة اخذ فِي التَّكْبِير ۔
وَقَالَ ابْن عَبَّاس يَنْتَهِي بهَا الى آخر أَيَّام التَّشْرِيق عِنْد صَلَاة الظّهْر فَهِيَ عشرَة صَلَاة ۔ وَقَالَ ابْن عمر يَنْتَهِي بهَا الى غداه آخر ايام التَّشْرِيق فَهِيَ خَمْسَة عشر صَلَاة ،، تکبیرات کی تعداد بتاتی ہے کہ تشریق کے ایام اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک ١٠، ١١، اور ١٢ ہی تھے ۔
غیر مقلدین ، امام الشافعی کی تقلید میں تین دن کی بجائے چار دن قربانی کرنے کے قائل ہیں لہٰذا وہ ١٣ ذو الحجہ کو بھی قربانی کرتے ہیں ۔
ابن قیم نے زاد المعاد میں روایت پیش کی ہے : ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں ۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے ۔ (کنز العمال : 4528)(زاد المعاد جلد 2 صفحہ 291،چشتی)
لیکن کنز العمال جیسی کتاب میں سند تک تو موجود نہیں ہے اور باوجود تلاش کے اس کی سند دریافت نہ ہوسکی ۔
بیہقی سنن الکبری میں روایت لکھتے ہیں : حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ … وَكُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ ۔ اس روایت میں ہے کہ ایام التشریق میں قربانی ہے ۔
کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں سليمان بن موسى الدمشقي کےلیے ہے ۔
قال البخاري هو مرسل لم يدرك سليمان أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ۔
بیہقی سنن الکبری میں یہی راوی سليمان بن موسى کہتے ہیں کہ قربانی تین دن ہے ۔
قَالَ : وَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَانِئٍ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: النَّحْرُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ , فَقَالَ مَكْحُولٌ: صَدَقَ ۔
غیر مقلدین امام الشافعی، امام النووی کے حوالے دیتے ہیں جو سب شافعی فقہ پر تھے لہذا یہ سب چار دن قربانی کی قائل ہیں ۔ ان کے مقابلے میں حنابلہ ، مالکیہ اور احناف تین دن قربانی کے قائل ہیں ۔
قربانی 3 دن ہے چوتھے دن کوئی قربانی نہیں بلکہ خلاف سنّت ہے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم رازی جلد 6 صفحہ 261،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : ایام معلومات۔چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ)اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں ۔
عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ (احکام القرآن امام طحاوی جلد 2 صفحہ 205)
ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ قربانی تین دن ہے ۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ ۔ (سنن کبریٰ بیہقی جلد 9 صفحہ 297 باب من قال الاضحی یوم النحر)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قربانی (دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔
قربانی کے تین دن کے متعلق غیر مقلدین کا فیصلہ : ⏬
حافظ زبیر علی زئی (غیر مقلد) لکھتے ہیں : قول راجح میں قربانی تین ہیں ۔ (مقالات علی زئی جلد 2 صفحہ 219 الحدیث44 صفحہ 6 تا 11)
نیز لکھتے ہیں : سیدنا علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ) اور جمہور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم ) کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحی اور دو دن بعد میں تو ہماری تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔ (فتاوی علی زئی جلد 2 صفحہ 181،چشتی)
مولوی عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں : تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے ۔ (قربانی اور عقیقہ کے مسائل صفحہ 137)
عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں : مولوی محمد فاروق ( غیر مقلد) لکھتے ہیں : بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟ بلکہ ایام قربانی تین دن (10،11،12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی نہیں ۔ ( قربانی اور عقیقہ کے مسائل صفحہ 141)
قربانی کا وقت : ⏬
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بقر عید کے دن کھڑے ہوئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو شخص ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھتا ہے ، ہماری قربانی کی طرح قربانی کرتا ہے تو جب تک وہ نمازِ عید نہ پڑھ لے قربانی نہ کرے ۔ یہ سن کر میرے ماموں ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں نے تو عجلت سے قربانی کرلی تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور پڑوسیوں کو کھلاٶں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’دوبارہ قربانی کرو ۔ میرے پاس بکری کا ایک دوسرا بچہ ہے جو ابھی ایک سال کا نہیں ہوا اور میرے نزدیک وہ بکریوں کے گوشت سے بہتر ہے ۔ تم اسے ذبح کرو یہ تمہاری دو قربانیوں سے بہتر ہے اور تمہارے سوا کسی کےلیے بکری کا بچہ ﴿جذعہ﴾ قربانی میں دینا جائز نہیں ۔ (سنن النسائی، کتاب الضحایا،چشتی)
علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں قربانی میں کسی اور شخص کےلیے بکری کا بچہ ﴿جزعہ﴾ دینا درست نہیں البتہ پہلے اوپر والی حدیث میں گزرا بھیڑ کا ﴿جزعہ﴾ درست ہے ۔
اب رہا یہ سوال کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسا کرنے کا حکم کیوں فرمایا تو یہ حکم صرف ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مخصوص ہے جیسے گواہی میں حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صرف ایک شہادت کو دو کے برابر قرار دیا گیا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے لئے اکثر ایسا حکم نہیں فرمایا گیا اس سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اختیارات ثابت ہوتے ہیں ۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شارع ہیں بلکہ شریعت گر ہیں ۔ شریعت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اداٶں کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے احکام رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپرد فرما دیے کہ جیسے چاہیں احکامِ شریعت سے خاص فرمائیں اور جو چاہیں جس کےلیے چاہیں حلال و حرام فرمائیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حلال بھی فرماتے ہیں اور حرام بھی فرماتے ہیں اور فرض بھی فرماتے ہیں ۔ (مواہب اللدنیہ للقسطلانی زرقانی جلد ۲صفحہ ۲۲۳،چشتی)
قربانی کے جانوروں کے عیوب : ⏬
اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ : چار قسم کے جانور وں کی قربانی درست نہیں ۔ ایک کانا جانور جس کا کانا پن صاف معلوم ہو ۔ دوسرا بیمار جانور جس کی بیماری عیاں ہو- تیسرا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن صاف معلوم ہو ۔ چوتھا ناتواں اور کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ۔ ﴿راوی فرماتے ہیں﴾ مَیں نے عرض کی قربانی کےلیے مجھے تو وہ جانور بھی اچھا معلوم نہیں ہوتا جس کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں یا دانت ٹوٹے ہوئے ہوں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تجھے وہ جانور جو برا معلوم ہو اسے چھوڑ دو مگر کسی دوسرے کو اس کی قربانی سے منع نہ کرو ۔ (سنن نسائی کتاب الضحایا)
حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ دیکھنے کا حکم فرمایا - (سنن نسائی کتاب الضحایا)
حضرت جری بن کلیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ : میں نے حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو -پھر اس نے اس کا تذکرہ حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا ہاں جب سینگ آدھا یا آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں اگر اس سے کم ہو تو درست اور جائز ہے ۔ (سنن نسائی کتاب الضحایا)
حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں مقابلہ ، مدابرہ ، شرقا ، خرقا ، اور جدعا کی قربانی دینے سے منع فرمایا ۔ (سنن نسائی کتاب الضحایا،چشتی)
درج بالا حدیث پاک کی مخصوص اصلاحات کی مختصر تشریح یہ ہے : مقابلہ وہ جانور ہے جس کا کان سامنے سے کٹ گیا ہو ۔ مدابرہ وہ جانور ہے جس کا کان پیچھے سے کٹا ہوا ہو ۔ شرقا جس کے کان چرے ہوئے ہوں ۔ خرقا جس جانور کے کان میں گول گول سوراخ ہوں ۔ جدعا جس جانور کے کان کٹے ہوئے ہوں ۔
ایک ضروری وضاحت یہ بھی نوٹ کر لی جائے کہ فقہائے کرام نے جانوروں کے عیوب کا احادیثِ رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روشنی میں جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جانور کا جو نقص اس کی قیمت میں کمی کا باعث ہو وہ عموماً عیب میں شمار ہوتی ہے ۔
قربانی کا طریقہ : ⏬
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو گندمی رنگ کے سینگ والے مینڈھے کی اپنے ہاتھ مبارک سے قربانی فرمائی ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور اپنا قدم مبارک ان کے پہلو پر رکھا ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الضحایا،چشتی)
چھری تیز کرنے کا حکم مبارک : ⏬
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :- اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چھری لاٶ پھر فرمایا اس کو پتھر سے تیز کرو ۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے اس کو تیز کیا ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چھری لی ، مینڈھے کو پکڑا ، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے ۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا اللہ کے نام سے شروع اے اللہ محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و آل محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور امت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے قبول فرما ۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی قربانی فرمائی ۔ (سنن ابی دائود ، کتاب الضحایا،چشتی)
اِسی طرح حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو ، تم میں سے کسی شخص کو چاہیے کہ وہ چھری کو ﴿اچھی طرح﴾ تیز کر لے اور ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الصید الذبائح)
قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں کو احکامات : ⏬
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہو وہ دس ذوالحجہ تک اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے اور پھر دسویں تاریخ کو قربانی کے بعد حجامت بنوائے ۔ (سنن نسائی ، کتاب الضحایا)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کو فرمایا کہ : مجھے ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کرنے کا حکم ہوا اللہ تعالیٰ نے اس دن کو میری امت کے لئے عید بنایا ۔ اس شخص نے عرض کی اگر میرے پاس کچھ نہ ہو اور صرف ایک ہی اونٹنی یا بکری ہو تو کیا میں اس کی قربانی کروں ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ تم اپنے بال کٹواٶ ، ناخن تراشو ، مونچھوں کے بال چھوٹے کرو اور زیرِ ناف بالوں کو صاف کرو پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری پوری قربانی یہی ہے ۔ (سنن نسائی ، کتاب الضحایا)
حضرت حنش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے : میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا کہ یہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے قربانی کروں ۔ چنانچہ ﴿ارشاد عالی کے تحت﴾ ایک قربانی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے پیش کر رہا ہوں ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الضحایا،چشتی)
علمائے کرام اس سے ثابت فرماتے ہیں کہ جن کے والدین یا عزیز و اقارب فوت ہو گئے ہوں ان کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔ یعنی ایک شخص دوسرے شخص کی جگہ قربانی کر سکتا ہے ۔
پوری جماعت کی طرف سے ایک قربانی : ⏬
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ میں عید الاضحی کے روز عید گاہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں موجود تھا ۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ مکمل فرمایا تو منبر سے نیچے تشریف لائے اور ایک مینڈھا لایا گیا ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا اور ارشاد فرمایا : بسم اللہ ، اللہ اکبر ، یہ میری طرف سے اور میرے ہر اس امتی کی طرف سے جو قربانی نہ کر سکے ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الضحایا)
اگر جانور میں خریدنے کے بعد عیب پیدا ہو جائے تو اس کے بارے میں بھی ارشادات نبوی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں تذکرہ موجود ہے : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ : ہم نے قربانی کےلیے ایک مینڈھا خریدا ۔ اتفاق سے بھیڑیا اس کی سرین کاٹ کر لے گیا ۔ ہم نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ﴿اس کے متعلق﴾ دریافت کیا ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں اسے قربان کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی)
علماۓ کرام ایک مسئلہ بیان کرتے ہیں کہ اگر جانور خریدنے کے بعد اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو مالدار کےلیے دوسرا جانور ذبح کرنا ضروری ہے اور فقیر کےلیے وہی جانور کافی ہوگا ہاں البتہ ذبح کے وقت اضطرار کی بنا پر اس میں کوئی عیب پیدا ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ۔
جانوروں کی عمریں : ⏬
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشار فرمایا : صرف مسنہ ﴿ایک سال کی بکری ، دو سال کی گائے اور پانچ سال اونٹ﴾ کی قربانی کرو ، ہاں اگر تم کودشوار ہو تو چھ سات ماہ کا مینڈھا ذبح کرو ﴿جو سال کا معلوم ہوتا ہو﴾ ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الاضاحی،چشتی)
دودھ والے جانور کا ذبح کرنا : ⏬
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک انصاری کے پاس تشریف لے گئے ۔ اس نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خاطر بکری ذبح کرنے کےلیے چھری اٹھائی ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا دودھ والی کو ذبح نہ کرنا ۔ (ابن ماجہ کتاب الذبائح)
کیا عورت جانور ذبح کر سکتی ہے ؟ : ⏬
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک عورت نے بکری کو تیر سے ذبح کیا ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اِس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ۔ (ابن ماجہ کتاب الذبائح)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی قربانیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں ۔ (نعم الباری فی شرح البخاری،چشتی)
جمہور فقہا کا قول ہے جو عورت اچھی طرح سے ذبح کر سکتی ہے ، اسی طرح جو بچہ اچھے طریقے سے ذبح کر سکتا ہو اس کا ذبح کرنا بھی جائز ہے ۔ (نعم الباری فی شرح صیح البخاری جلد ۱۱ صفحہ ۳۷۵)
جلالہ ﴿آوارہ جانوروں﴾ کے گوشت کی ممانعت : ⏬
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فتح خیبر کے دن بستی کے گدھوں کا گوشت اور جلالہ ﴿آ وارہ پھرنے والے جانوروں﴾ سے اور اس پر سوار ہونے اور ان کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ۔ (سنن نسائی کتاب البیوع)
جلالہ وہ جانور ہے جو صرف نجاست او ر غلاظت کھاتا ہو ۔ چاہے گائے، بکری، مرغی یا کوئی اور جانور ہو ۔ ایسے جانور کا گوشت بعض علما کے نزدیک درست نہیں اور بعض کے نزدیک جب اسے کئی دنوں تک باندھ کر پاکیزہ چارہ کھلایا جائے تو درست ہے ۔ (سنن نسائی کتاب البیوع)
قربانی کے گوشت اور کھال کا حکم : ⏬
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہلے تو قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کھاوٶ ، سفر کےلیے جمع کرو اور تم ذخیرہ بھی کر سکتے ہو (سنن نسائی کتاب االضحایا)
اسی طرح قربانی کی کھالوں کے بارے میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے قربانی کی ہر چیز تقسیم کرنے کا حکم فرمایا خواہ گوشت ہو یا جھول ۔ سب غریبوں میں تقسیم کر دی جائے ان مذکورہ احادیث مبارکہ سے فقہاۓ کرام نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں : ⬇
قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص کو غنی یا فقیر کو بھی دے سکتا ہے ﴿جس طرح حج کے دوران کرتے ہیں﴾ بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کےلیے مستحب ہے- بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کر لے ایک حصہ فقرا کےلیے ایک حصہ دوست احباب کےلیے اور ایک اپنے گھر والوں کےلیے ، ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے ۔ کل کاصدقہ کر دینا بھی جائز ہے اور کل کا گھر میں رکھ لینا بھی جائز ہے ۔ تین دن سے زائد اپنے اور گھر والوں کےلیے لینا بھی جائز ہے ۔ (در مختار ،کتاب الاضحیہ،چشتی)
قربانی کا چمڑا اور اس کی جھول اور رسی اور اس کے گلے کا ہار ان سب چیزوں کا صدقہ کردے ۔ قربانی کے چمڑے سے جائے نماز ، چھینی ، رتھیلی ، مشکیزہ ، دستر خوان ، ڈول وغیرہ بنائے جا سکتے ہیں ۔ (در مختار، کتاب الاضحیہ)
اگر قربانی کا چمڑا بیچا تو رقم صدقہ کرنا ضروری ہے ۔ (در مختار، کتاب الاضحیہ)
قربانی کاچمڑا یا گوشت یا اس کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو دیت میں نہیں دے سکتا ۔ (ہدایہ، کتاب الاضحیہ)
قربانی کا روحانی تصور : ⏬
مذکورہ بالا ظاہری مسائل شرعیہ ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھنا نہایت ضروری ہے اور ان پر عمل پیرا ہوئے بغیر انسان قربانی کی فریضہ سے صحیح معنوں میں عہدہ برا نہیں ہوسکتا لیکن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے والی یہ آیات جن میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قربانی کا بھی تذکرہ ہے کہ : قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ الْعٰ لَمِیْنَ ۔ لَا شَرِیْکَ لَہ ، وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ ﴿سورہ الانعام،۲۶۱،۳۶۱﴾ ’’ فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی ﴿سمیت سب بندگی﴾ اور میری زندگی اور میری موت ﷲ کےلیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ﴿جمیع مخلوقات میں﴾ سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔
اس کی صوفیانہ تفسیر لکھتے ہوئے الشیخ احمد بن عمر بن محمد نجم الدین الکبریٰ اپنی تفسیر ’’ التاویلات النجمیّہ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’ ﴿اِنَّ صَلَاتِیْ﴾ یعنی منہاج الصلوٰۃ کی طرف میری سیر ۔ اس سے معراج الی اللہ مراد ہے اور ﴿ نُسُکِیْ﴾ سے اپنے نفس کو ذبح کرنا مقصود ہے اور ﴿وَمَحْیَایَ﴾ قلب و روح کی حیاتی مراد ہے اور ﴿مَمَاتِیْ﴾ یعنی اپنے نفس کی موت مطلوب ہے اور ﴿ِﷲِ رَبِّ الْعٰ لَمِیْنَ﴾ یعنی یہ سب طلبِ حق اور اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچنے کےلیے ہے ، ﴿لَا شَرِیْکَ لَہ﴾ اس کی طلب میں کوئی شریک نہیں اس لئے کہ اس کے سوا ہمارا اور کوئی مطلوب نہیں‘‘ ۔
آج ہم ان احکامات شریعت پر عمل پیرا ہونے کے باوجود روحانی فیوض و برکات سے کیوں محروم ہیں ؟ اس کی فقط وجہ یہ ہے کہ ظاہر پرست معاشروں کی صحبت کی وجہ سے ہم نے بھی فقط اسلام کے ظاہر پر اکتفا کر لیا ہے اور اس کے باطن یعنی روحانیت کو ترک کر دیا ہے ۔ اسی چیز کو علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کلام میں یوں بیان فرمایا کہ : ⬇
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل ، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں ، تُو باقی نہیں ہے
ان تمام عبادات و ریاضات کا مطمع نظر اللہ پاک کی ذات تک رسائی ہے اگر نماز ،روزہ ،حج ، زکوٰۃ ، قربانی وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کی طلب و رضا نکال دی جائے تو اس کے کماحقہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے- اسی لیے جب ہم قربانی کی ابتدائ کی طرف دیکھتے ہیں کہ کس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام نہایت خلوص کے ساتھ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے مالک کی راہ میں ذبح کرنے کےلیے تیار ہو گئے ۔ اسی طرح آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنی جان و مال اولاد الغرض سب کچھ قربان کر دیا تو اس قربانی کے انعام میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۔ ﴿البقرہ: ۴۲۱﴾ ’’ اے ابراھیم﴿ں﴾ !ہم نے آ پ کو تمام انسانوں کا امام بنا دیا ۔ آج بھی ضرورت اسی ابراہیمی خلوص کی ہے جیسا کہ حضرت الشیخ ابو عبداللہ بن الفضل رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : مجھے تعجب ہے اس سالک سے جو بڑی پر خار وادیوں اور ویرانے جنگلوں اور سنگستان مقامات کو طے کرتا ہوا اَللہ تعالیٰ کے گھر یعنی کعبہ معظمہ میں پہنچتا ہے اس لئے کہ یہیں پر انبیائ کرام علیہم السلام کو زیارت کا موقعہ نصیب ہوتا ہے اس ﴿مشقت﴾ کے باوجود وہ اپنے نفس کو نہیں چھوڑتا اور خواہشات کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے پھر وہ کیسے اپنے مالک سے ملاقات کر سکتا ہے ۔ جبکہ ان خواہشات کو مٹانے کے بعد ہی مولاکریم ﴿قلب میں﴾ جاگزیں ہوگا کیونکہ وہ صرف پاک قلب والوں کو ہی ملتا ہے ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۳ صفحہ ۷۳۱،۸۳۱،چشتی)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت مبارکہ کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
بھینس کی قربانی کا شرعی حکم ۔ قرآنِ کریم نے قربانی کےلیے بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام کا انتخاب فرمایا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے : وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِۚ ۔ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ الْفَقِیْرَ ۔ (سورہ الحج 22 : 28)
ترجمہ : اور اللہ کا نام لیں جانے ہوئے دنوں میں اس پر کہ انہیں روزی دی بے زبان چوپائے تو ان میں سے خود کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ ۔
خود قرآنِ کریم نے الْـأَنْعَام کی توضیح کرتے ہوئے ضَاْن (بھیڑ) ، مَعْز(بکری) ، اِبِل(اونٹ) اور بَقَر(گائے) ، چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا۔اور ان کے مذکر و مؤنث کو ملا کر انہیں ثَمَانِیَۃ أَزْوَاج (جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ)کہا ۔ (سورہ الأنعام 6:144-142)
جانوروں کی نسل کا اعتبار ہو گا ، علاقائی ناموں کا نہیں انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت ِمسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے ۔ ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، اس کی قربانی جائز ہے۔مثلاً بھیڑ کی نسل میں سے دنبہ ہے۔اس کی شکل اور نام اگرچہ بھیڑسے کچھ مختلف بھی ہے،لیکن چونکہ وہ بھیڑ کی نسل اور قسم میں شامل ہے ، لہٰذا اس کی قربانی مشروع ہے ۔ اسی طرح مختلف ملکوں اور علاقوں میں بھیڑ کی اور بھی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیں جو دوسرے علاقوں والوں کےلیے اجنبی ہیں اور وہ انہیں مختلف نام بھی دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود ان سب کی قربانی بھیڑ کی نسل و قسم ہونے کی بنا پر جائز اور مشروع ہے۔اسی طرح اونٹوں وغیرہ کا معاملہ ہے ۔قربانی کے جانوروں میں سے ایک ''بقر'' (گائے) بھی ہے ۔ اس کی قربانی کےلیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السّلام کی زبانی ان کی قوم کو ''بقر'' ذبح کرنے کا حکم دیا،لیکن قومِ موسیٰ نے اس کی ہیئت و کیفیت کے بارے میں سوال پر سوال شروع کر دیے جس کی بنا پر انہیں سختی کا سامنا کرنا پڑا۔سورہ بقرہ کی کئی آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں ۔
انہی آیات کی تفسیر میں امام المفسرین،علامہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید بن غالب، طبری (310-224ھ)صحابہ و تابعین اور اہل علم کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : إِنَّھُمْ کَانُوا فِي مَسْأَلَتِھِمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُوسٰی ، ذٰلِکَ مُخْطِئِینَ، وَأَنَّھُمْ لَو کَانُوا اسْتَعْرَضُوا أَدْنٰی بَقَرَۃٍ مِّنَ الْبَقَرِ، إِذْ أُمِرُوا بِذَبْحِھَا، ۔۔۔۔۔، فَذَبَحُوھَا، کَانُوا لِلْوَاجِبِ عَلَیْھِمْ، مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فِي ذٰلِکَ، مُؤَدِّینَ، وَلِلْحَقِّ مُطِیعِینَ، إِذْ لَمْ یَکُنِ الْقَوْمُ حُصِرُوا عَلٰی نَوْعٍ مِّنَ الْبَقَرِ دُونَ نَوْعٍ، وَسِنٍّ دُونَ سِنٍّ، ۔۔۔۔۔، وَأَنَّ اللَّازِمَ کَانَ لَھُمْ، فِي الْحَالَۃِ الْـأُولٰی، اسْتِعْمَالُ ظَاھِرِ الْـأَمْرِ، وَذَبْحُ أَيِّ بَھِیمَۃٍ شَاءُ وا، مِمَّا وَقَعَ عَلَیْھَا اسْمُ بَقَرَۃٍ .''قومِ موسیٰ،گائے کے بارے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرنے میں غلطی پر تھی۔جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیاتھا،اس وقت وہ گائے کی کوئی ادنیٰ قسم بھی ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی اور ان کا فرض ادا ہو جاتا،کیونکہ ان کے لیے گائے کی کسی خاص قسم یا کسی خاص عمرکا تعین نہیں کیا گیا تھا ۔۔۔ ان کےلیے ضروری تھا کہ پہلی ہی دفعہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا جانور ذبح کر دیتے ،جس پر 'بقر' کا لفظ بولا جاتا تھا ۔ (جامع البیان عن تأویل آي القرآن)(تفسیر الطبری 100/2،چشتی)
معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ گائے ذبح کرنے کا حکم فرمائے تو گائے کی کوئی بھی قسم یا نسل ذبح کرنے سے حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے اور یہ بات لغت ِعرب میں اور اہل علم کے ہاں طَے ہے کہ جس طرح بختی،اِبِل (اونٹ) کی ایک نسل ہے، اسی طرح بھینس، بقر (گائے)کی ایک نسل و قسم ہے ۔
اس سلسلے میں ہم ہر دور کے چیدہ چیدہ علمائے لغتِ عرب کے اقوال پیش کرتے ہیں : ⏬
لیث بن ابوسلیم تابعی م : 138/148ھ)کا قول ہے :اَلْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ .''بھینس(گائے کی ایک قسم) اور بختی(اونٹ کی ایک قسم)ان آٹھ جوڑوں میں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔(تفسیر ابن أبي حاتم : 1403/5، وسندہ، حسنٌ)
لغت و ادب ِعربی کے امام ، ابومنصور ، محمدبن احمد ، ازہری ، ہروی (370-282ھ) فرماتے ہیں : وَأَجْنَاسُ الْبَقَرِ، مِنْھَا الْجَوَامِیسُ، وَاحِدُھَا جَامُوسٌ، وَھِيَ مِنْ أَنْبَلِھَا، وَأَکْرَمِھَا، وَأَکْثَرِھَا أَلْبَانًا، وَأَعْظَمِھَا أَجْسَامًا .''گائے کی نسلوں میں سے جوامیس(بھینسیں)ہیں ۔اس کی واحد جاموس ہے۔یہ گائے کی بہترین اورعمدہ ترین قسم ہے۔یہ گائے کی سب اقسام میں سے زیادہ دودھ دینے والی اور جسمانی اعتبار سے بڑی ہوتی ہے۔''(الزاھر في غریب ألفاظ الشافعي، صفحہ 101،چشتی)
امامِ لغت ،علامہ، ابوالحسن،علی بن اسماعیل ، المعروف بہ ابن سیدہ (458-398ھ) لکھتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ . ''بھینس ، گائے کی ایک نسل ہے ۔ (المحکم والمحیط الأعظم : 283/7)
عربی زبان کے ادیب اور لغوی ، ابوالفتح ، ناصربن عبد السید ، معتزلی ، مطرزی (610 - 538ھ) لکھتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔ بھینس ، گائے ہی کی نسل سے ہے ۔ (المغرب في ترتیب المعرب، صفحہ 89)
مشہور فقیہ و محدث ، علامہ عبد اللہ بن احمدبن محمد،المعروف بہ ابن قدامہ، مقدسی (620-541ھ) فرماتے ہیں : وَالْجَوَامِیسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ، وَالْبَخَاتِي نَوْعٌ مِّنَ الْإِبِلِ ۔ بھینسیں ، گائے کی نوع (نسل)سے ہیں اور بختی اونٹوں کی نوع (نسل) سے ۔ (الکافي في فقہ الإمام أحمد : 390/1،چشتی)
ابن تیمیہ کے جد امجد ، محدث و مفسر ، ابوالبرکات،عبد السلام بن عبد اللہ،حرانی (652-590ھ) فرماتے ہیں : وَالْجَوَامِسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔ بھینسیں،گائے کی ایک نوع (نسل) ہیں۔''(المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل : 215/1)
شارحِ صحیح مسلم،معروف لغوی، حافظ ابوزکریا،یحییٰ بن شرف،نووی (676-631ھ) ، ابواسحاق شیرازی (474-393ھ) کی کتاب التنبیہ في الفقہ الشافعي کی تشریح و تعلیق میں فرماتے ہیں :وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ۔۔۔۔۔، قَالَ الْـأَزْھَرِيُّ : أَنْوَاعُ الْبَقَر، مِنْھَا الجَوَامِیسُ، وَھِيَ أَنْبَلُ الْبَقَرِ .''مصنف کا [وَالْجَوَامِیسُ وَالْبَقَرُ] کہنا قابل اعتراض ہے، انہوں نے گائے اور بھینس کو گائے کی نسلیں قرار دیا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گائے ہی گائے کی دو نسلوں (بھینس اور گائے میں سے)ایک نسل ہو ؟ ۔۔۔ ازہری کہتے ہیں کہ بھینس،گائے کی ایک نوع ہے اور یہ گائے کی تمام نسلوں سے عمدہ ترین نسل ہے ۔ (تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106،چشتی)
لغتِ عرب میں امام وحجت کا درجہ رکھنے والے علامہ ، ابوالفضل ، محمدبن مکرم، انصاری،المعروف بہ ابن منظور افریقی( 711- 630ھ) فرماتے ہیں : وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔ بھینس ، گائے کی ایک نسل ہے ۔ (لسان العرب : 43/6)
معروف لغوی ، علامہ ابوالعباس ، احمدبن محمدبن علی،حموی(م:770ھ) لکھتے ہیں :وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے ۔ (المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر : 108/1)
لغتِ عرب کی معروف و مشہور کتاب ''تاج العروس'' میں مرقوم ہے : اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ ۔ بھینس ، گائے کی نسل سے ہے ۔ (تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي : 513/15)
لغت ِعرب کی معروف کتاب ''المعجم الوسیط'' میں ہے : اَلْجَامُوسُ حَیَوَانٌ أَھْلِيٌّ، مِنْ جِنْسِ الْبَقَرِ ۔ بھینس ، گائے کی نسل سے ایک گھریلوجانور ہے ۔ (المعجم الوسیط : 134/1)
نیز اسی کتاب میں لکھا ہے : اَلْبَقَرُ جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ ۔ بَقَر ، گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل (گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے ۔ (المعجم الوسیط : 65/1)
اس سے معلوم ہوا کہ چودھویں صدی کے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ' بھینس کا گائے کی نسل سے ہونا اہل علم سے واضح طور پر ثابت نہیں ، بلکہ بھینس بعض احکام میں گائے کی طرح تھی اور اس کےلیے لفظ کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ (گائے جیسی) مستعمل تھا ۔ اور کسی لغوی کو غلطی لگنے کی وجہ سے اس نے کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ (گائے جیسی) کے بجائے نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَر (گائے کی نسل) لکھ دیا ۔ قطعاً درست نہیں ، کیونکہ غلطی کسی ایک اہل علم یا لغوی کو لگنی تھی یا سارے اہل علم اور لغویوں کو ؟ بہت سے معروف لغویوں اور اہل علم نے اپنی مشہور زمانہ کتب میں بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی تصریح کی اور فقیر چشتی کے علم کے مطابق تیرہویں صدی ہجری تک کسی ایک بھی لغوی نے اس کی تردید یا انکار نہیں کیا ۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو ماہرین لغت ِعرب ضرور اس کی وضاحت کرتے ۔ کیا اہل لغت کا کوئی اعتبار ہے ؟ بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ کیا شریعت میں لغت ِعرب دلیل بن سکتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سارا ذخیرہ عربی زبان میں ہے ۔قرآن و سنت پر عمل تب ہی ہو گا،جب اس کا معنیٰ و مفہوم سمجھا جائے گا اور قرآن و سنت کا معنیٰ و مفہوم تب ہی سمجھا جا سکتا ہے ، جب لغت ِعرب کو سمجھا جائے گا ۔ کوئی شخص اگر قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کا ترجمہ کرتا ہے تو وہ لغتِ عرب کو پڑھ اور سمجھ کر ہی اپنی کاوش میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس کے ترجمے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کےلیے لغت ِعرب ہی راہنمائی کرے گی ۔ جو لوگ لغت ِعرب کا اعتبار نہیں کرتے ، ان سے سوال ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ ''بقر'' کا معنیٰ ''گائے'' کیوں ہے ؟ بھینس کا نام ہی گائے ہے بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے ۔ اگر بھینس ، گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا ، نہ کہ کچھ اور ۔ جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں ۔ ان کےلیے عرض ہے کہ بھینس کےلیے عربی میں لفظ ''جاموس'' استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیا ہے ۔ فارسی میں یہ نام ''گاؤمیش'' تھا ۔ عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ''جاموس'' ہو گیا ۔ اس بات کی صراحت لغت ِعرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ''جاموس'' کے تحت موجود ہے ۔ اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ''گاؤ'' (گائے) موجود ہے ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے ۔ چونکہ گائے کی یہ نسل (بھینس) عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی ، بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی ، عربوں کے ہاں معروف نہ تھی ، اسی لیے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا ۔ اس کی وضاحت کے لیے ہم معروف عرب عالم و مفتی ، شیخ محمدبن صالح عثیمین (1421-1347ھ) کا قول نقل کرتے ہیں ۔ ان سے بھینس کی قربانی کے بارے میں سوال ہوا اور پوچھا گیا کہ جب بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے (حالانکہ یہ ایک ہی نسل [غنم] سے ہیں) تو بھینس اور گائے دونوں کا ذکر کیوں نہیں کیا (اگر یہ بھی ایک ہی نسل ہیں) ؟ تو انہوں نے فرمایا : اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ، فِي الْقُرْآنِ، الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ .بھینس،گائے ہی کی نسل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے،جو عربوں کے ہاں معروف تھے۔(دور جاہلیت میں)عرب اپنے پسندیدہ جانوروں کو حلال اور اپنے ناپسندیدہ جانوروں کو حرام قرار دیتے تھے۔بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی(اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا،نہ کہ نسلیں)۔''(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25،چشتی)
تنبیہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھینس کی قربانی نہیں کی ، لہٰذا اس کی قربانی سے احتراز بہتر ہے اور یہ احوط واولیٰ ہے ۔ ہمارا ان اہل علم سے مؤدبانہ سوال ہے کہ ان کی یہ احتیاط صرف گائے کی ایک نسل ''بھینس'' ہی کے بارے میں کیوں ہے ؟ ان کو چاہیے کہ گائے کی جو جو نسلیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی میں ذبح کیں ، صرف انہی کی اجازت دیں ۔ کیا بھینس کے علاوہ موجودہ دور میں پائے جانے والی گائے کی تمام نسلیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی میں ذبح کی تھیں ؟ اس طرح تو دیسی ، ولائتی ، فارسی ، افریقی ، تمام قسم کی گائے کی قربانی سے احتراز کرنا ہو گا اور اسی طرح بھیڑ و بکری اور اونٹ کا بھی معاملہ ہو گا ۔ پھر ہر شخص قربانی کےلیے عربی گائے ، عربی اونٹ ، عربی بھیڑ اور عربی بکرا کہاں سے لائے گا ؟ اگر کوئی عربی نسل سے کوئی جانور تلاش بھی کر لے تو اسے تحقیق کرنا پڑے گی کہ یہ بعینہٖ اسی نسل سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی کی تھی یا بعد میں پیدا ہونے والی کوئی نسل ہے!!!پھر یہ احتیاط والی بات اس لیے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس ، گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے سے جائز ہی نہیں اور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے ۔ اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں ۔
الحاصل : بھینس ، گائے کی ایک نسل ہے ۔ اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ۔
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۔ (سورہ الأنعام آیت نمبر 162)
ترجمہ : آپ کہیے کہ بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ ہی کےلیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔
صلوۃ سے مراد یا تو تہجد کی نماز ہے یا نماز عید ہے اور نسک نسی کہ کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے ذبیحہ اور اس کا معنی ہے حج اور عمرہ میں مینڈھا ذبح کرنا اور نماز اور ذبیحہ کو اس آیت میں اس طرح جمع کیا ہے جیسے (آیت) ” فصل لربک وانحر “۔ (الکوثر : ٢) میں جمع کیا ہے۔ حسن بصری نے کہا نس کی سے مراد ہے میرا دین۔ زجاج نے کہا اس سے مراد ہے میری عبادت۔ ایک قوم نے کہا اس آیت میں نسک سے مراد تمام نیک کام اور عبادات ہیں ۔
منسک کے معنی کی تحقیق : ⏬
منسلک کے معنی میں کئی اقوال ہیں (١) حضرت ابن عباس نے کہا اس سے مراد عید کا دن ہے جس میں وہ جانور ذبح کرتے ہیں (٢) مجاہد نے کہا منسک کا لفظ قربانی کے جانوروں کےلیے مخصوص ہے۔ (٣) کسی عبادت کی ادائیگی کے لئے عرف میں ہیں جو جگہ یا جو وقت معین ہو اس کو منسلک کہتے ہیں ۔ (٤) قفال کا مختاریہ ہے کہ منسک کا معنی ہے شریعت اور عبادت کرنے کا مخصوص طریقہ ، اور یہ معنی اس آیت کے قریب ہے : لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جا ۔ (سورہ المائدۃ : ٤٨) ۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے عبادت کا ایک مخصوص منشور اور دستور مقرر کردیا ہے ۔
اور منسک کا لفظ نسک سے بنا ہے جس کا معنی عبادت ہے اور جب منسک کا لفظ ہر عبادت پر بولا جاتا ہے تو اس کو کسی ایک طریقہ عبادت کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ تم نے منسلک کے لفظ کو ذبح پر محمول کیوں نہیں کیا کیونکہ عرف میں نسک کے لفظ سے قربانی کا ہی معنی سمجھا جاتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درستن ہیں ہے کہ عرف میں نسک کے لفظ سے قربانی کا ہی معنی سمجھا جاتا ہے کیونکہ عرق میں تمام افعال حج کو مناسک کہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خذاواعنی منا سکم ۔ (سنن بیہقی ج ٥ ص ١٢٥) ۔ مجھ سے اپنے حج کے ارکان اور افعال کا علم حاصل کرو ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کی عبادت کرنے کےلیے جو طریقہ بھی مقرر کریں اس پر کسی کو اعتراض اور بحث نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہر نبی علیہ السّلام نے اپنے زمانہ کے مخصوص حالات ، رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار سیم خصوص عبادت کے طریقے مقرر کیے ہیں اور ہر زمانہ کے تقاضے الگ الگ ہوتے ہیں ۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کافروں نے یہ اعتراض کیا کہ جو جانور طبعی موت مرجائے تم اس کو نہیں کھاتے اور جس کو تم ذبح کرتے ہو اس کو کھا لیتے ہو ، گویا اللہ کا مارا ہوا نہیں کھاتے اور اپنا مارا ہوا کھا لیتے ہو ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی عبادت کرنے کا جو طریقہ چاہیں مقرر کریں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی عبادت کرنے کا جو طریقہ چاہیں مقرر کریں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے طریقہ پر قائم رہیں اور لوگوں کی عبادت کرنے کا جو طریقہ چاہیں مقرر کریں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے طریقہ پر قائم رہیں اور لوگوں کو اللہ کی توحید اس کے دین اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دیتے رہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدھی راہ پر ہیں اس میں کوئی کجی نہیں ہے ۔
قربانی پر اعتراضات کے جوابات : ⏬
اعتراض : قربانی فضول خرچی ہے ۔
جواب : فضول خرچی اس خرچ کو کہتے ہیں جو بغیر ضرورت ہو ۔ جب کہ یہاں سب سے اہم ضرورت ہے وہ ہے اللہ کا حکم اور اللہ کےلیے قربانی ۔ انسان اپنے لیے سب کچھ کرے اور انسان کی ہر ایک سانس جس خالق کی عطا کردہ ہے اس کےلیے ایک چھوٹی سی قربانی بھی پیش نہ کر سکے ۔ خود قرآن نے فضول خرچی سے منع کیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا ۔ (سورہ بنی اسرائیل 26)
ترجمہ : اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو اور فضول نہ اڑا ۔
اعتراض : قربانی سے جانور ہلاک اور رقم ضائع ہوتی ہے ۔ یہ رقم کسی قومی مقصد میں خرچ کی جائے یا ویسے ہی غریبوں کو دے دیں تو بہتر ہے ۔
جواب : یہ فائدہ و نقصان اللہ تعالیٰ ہم سے زیادہ جانتا ہے لیکن اس نے قربانی کا حکم ہی دیا ہے ، لہٰذا اس عالم الغیب والشھادۃ نے جو حکم دیا وہ سر آنکھوں پر ہے ۔ قربانی کر کے گوشت غریبوں کو دینا شریعت نے مستحب قرار دیا ہے ۔ اس طریقے میں ان کی خوراک کی بہت بنیادی حاجت بھی پوری ہوتی ہے اور حکمِ خداوندی پر عمل بھی ہو جائے گا ۔ قربانی واجب ہے تو حکمِ شریعت کے مطابق ہی کی جائے جبکہ نفلی قربانی کی جگہ چاہیں تو غریبوں کو رقم دے دیں ۔ آخر یہ کس نے کہا ہے کہ واجب قربانی کے علاوہ ایک روپیہ بھی کسی غریب کو نہ دیں ۔ لہٰذا واجب قربانی پر دانت تیز کرنے اور نظریں گاڑنے کی بجائے فلمیں ، ڈرامے بنانے اور دیکھنے کی رقمیں ، یونہی فضولیات و تعیشات پر خرچ ہونے والی کھربوں روپے کی رقم غریبوں پر خرچ کریں ۔ الغرض حقیقت یہ ہے کہ غریبوں کی مدد کی دیگر ہزاروں صورتیں ہیں لیکن دین سے بیزار لوگوں کو دیگر چیزیں نظر نہیں آتیں ، صرف قربانی کے معاملے میں غریبوں کا غم انہیں ہلکان کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ تو ہم ان انسانیت نوازوں اور رفاہی کام کے دلدادہ احباب کو اسلام کی دعوت دینا چاہیں گے اس لیے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو انسانیت کا ہر قسم کا ضروری خیال رکھتا ہے ۔ جان و مال ، عزت و آبرو ، عقل و نسل اور ایمان کی سلامتی کا ضامن ہے ۔ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے خرچ کرنے کےلیے اسلام نے زکواۃ ، صدقۃ الفطر ، عشر ، کفارات ، نذور ، میراث ، دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کانظام وضع کیا ہوا ہے ۔ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا اور یتیموں کی کفالت اور خیرخواہی کا قرآن نے بار بار تاکیدی حکم دیا ہے ۔ یہ اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ معاشرے میں موجود خرافات اور رسوم و رواج پر ایک نظر ڈالیں اور اصلاح فرمائیں ۔ نیو ائیر نائٹ پر جو اربوں کھربوں روپئے کے اخراجات ہوتے ہیں وہ دنیا کے کئی چھوٹے ممالک کے پورے سال کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے ۔ ملک کی کتنی بڑی تعداد ایسی ہے جو سگریٹ نوشی ، تمباکو خوری ، شراب نوشی ، ڈرگز ، جوا ، کرکٹ ، فلم بینی ، رقص و موسیقی ، فحش پروگرام ، انٹرنیٹ ، ویڈیو گیمز ، آتش بازی ، بیوٹی پارلر وغیرہ پر بے تحاشا خرچ کرتی ہے ۔ یہی پیسہ اگر قومی اور رفاہی مفادات پر خرچ کیا جائے تو بہت جلد ترقی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ہمارے ہاں شادی بیاہ ، تفریحِ طبع اور دیگر دعوتوں پر بے تحاشا رقوم خرچ کی جاتی ہیں ۔ محض نمود و نمائش کےلیے قیمتی لباس زیبِ تن کیا جاتا ہے ۔ روزانہ بہت سارا کھانا ضائع ہو جاتا ہے ۔ ان تمام کاموں پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے اور ایسا ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ ویلنٹائن ڈے ، بسنت اور مختلف قسم کے ڈے نائٹ سیلیبریشنز کی فضول خرچیوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے ۔ خود قربانی کے خلاف فیس بک پر لکھنے والوں کو اپنا لیپ ٹاپ اور آئی فون نہیں خریدنا چاہیے تھا اس لیے کہ اسی رقم میں کسی غریب فیملی کا کئی ماہ کا راشن ہو جاتا ۔ ہمارا صرف یہی کہنا ہے کہ جس اللہ عزوجل نے امتِ مسلمہ کےلیے قربانی کو لازم قرار دیا ہے اسی اللہ عزوجل نے صاحبِ نصاب آدمی پر زکواۃ بھی فرض کی ہے اور اس کے علاوہ دیگر صدقات اور اطعام و انفاق کی بھی ترغیب دلائی ہے ۔
اعتراض : قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے ۔
جواب : دنیا میں کسی بھی چیز کی ڈیمانڈ بڑھنے سے سپلائی بھی بڑھتی ہے اور اس طرف لوگوں کا دھیان بھی زیادہ رہتا ہے ۔ اور جس کی ڈیمانڈ ختم ہو جاتی ہے اس چیز کی سپلائی بھی دھیرے دھیرے آٹومیٹک ختم ہونے لگتی ہے ۔ یہی وجہ کہ جن جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے ان جانوروں کی نسل بھی بڑھ رہی ہے ۔ ہر عیدالاضحی پر کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں مگر اگلی عیدالاضحی پر دوبارہ کروڑوں جانور تیار رہتے ہیں ۔ قرآن پاک کی آیت : وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْیٍٔ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ۔ کی تفسیر کرتے ہوۓ مفسرینِ کرام لکھتے ہیں : اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانۂ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں ۔ کائناتِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے ، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں ، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں ، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے ، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے ، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے ۔ انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں ۔ بدن کی نقل و حرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں ، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں۔ غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز عطا فرما دیتا ہے ۔ کبھی سزا دینے کےلیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطۂ الٰہیہ کے منافی نہیں ۔ اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیا صرف انسان اور حیوانات کےلیے پیدا فرمائی ہیں ، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں ، ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں ۔ جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے ، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں ، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے ، کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں ، حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے ، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے ، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا ، مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بنسبت کتے بلی کے زیادہ ہے ۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے ، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے ، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں ۔ عرب نے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا ، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا ، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے ۔ (تفسیر تبیان القرآن و تبیان الفرقان ، تفسیر کبیر ، تفسیر خازن ، تفسیر مدارک التنزیل ، تفسیر معارف القرآن ، تفسیر نعیمی وغیرہ)
اعتراض : کروڑوں جانوروں کو قربان کرنے سے معیشت پر بوجھ پڑتا ہے اور کھربوں روپئے ضائع ہوتے ہیں ۔
جواب : یہ اعتراض بہت سطحی قسم کا ہے ۔ ادنیٰ سی معاشی بصیرت رکھنے والا بھی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ عیدالاضحی کی وجہ سے معیشت کا پہیہ حرکت میں آتا ہے ، فارمنگ انڈسٹری ، کیٹل انڈسٹری اور لیدر انڈسٹری سے لے کر کاسمیٹک انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ انڈسٹری تک نہ جانے کتنی انڈسٹریاں اس سے متحرک ہوتی ہیں ۔ قربانی کا سب سے زیادہ فائدہ غریب عوام کو ہوتا ہے ۔ قربانی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عارضی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ قربانی کو اگر خالصتاً معاشی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس پر اعتراض صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس نے علمِ معاشیات کبھی نہ پڑھا ہو ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام رقم ویسے ہی غریبوں کو دے دی جائے وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ غربت کا علاج پیسے بانٹنا نہیں بلکہ غریب طبقے کےلیے معاشی ایکٹیویٹی (activity) کا پہیہ چلانا ہوتا ہے۔ اور قربانی کا عمل اس کا بہترین ذریعہ ہے ، مزید یہ کہ ان جانوروں کا گوشت دنیا بھر کے غریبوں میں بانٹا جاتا ہے ۔
اعتراض : جانوروں کو قربانی کے نام پر قتل کرنا درندگی ہے ۔ یہ حد درجہ بے رحمی اور بے مروتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
جواب : یہ اعتراض اپنے آپ میں ایک حماقت ہے ۔ ذرا غور کریں کہ کیا اس جیوہتیا سے بچنا ممکن بھی ہے ؟ آپ جب پانی یا دودھ کا ایک گلاس اپنے حلق سے اْتارتے ہیں تو سینکڑوں جراثیم ہیں جو مر جاتے ہیں ، پھر آپ جن دواؤں کا استعمال کرتے ہیں ، وہ آپ کے جسم میں پہنچ کر کیا کام کرتی ہیں ؟ یہی کہ جو نقصان دہ جراثیم آپ کے جسم میں پیدا ہوگئے ہوں اور پنپ رہے ہوں ، ان کا خاتمہ کردیں۔ جانور کا قتل یا "جیو ہتیا" کے broad concept کے ساتھ تو آپ پانی تک نہیں پی سکتے اور نہ دواؤں کا استعمال آپ کےلیے روا ہو سکتا ہے ۔ پھر آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے ، اسی طرح پودوں میں بھی زندگی ہے اور نباتات بھی احساسات رکھتے ہیں ۔ خود ہندو فلسفہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے ۔ سوامی دیانندجی نے "آواگمن" میں روح کے منتقل ہونے کے تین قالب قرار دیے ہیں : انسان ، حیوان اور نباتات ۔ یہ نباتات میں زندگی کا کھلا اقرار ہے تو اگر ”جیوہتیا“ سے بچنا ہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچنا ہو گا ۔ گویا اس کائنات میں ایسے انسانوں کےلیے کوئی جگہ نہیں جو مکمل طور پر جیوہتیا سے بچ کر جینا چاہتے ہوں ۔
کیا اللہ عزوجل کی دنیا میں جانور ایک دوسرے کا شکار نہیں کرتے ؟ دنیا کی ساری چیزیں اللہ عزوجل نے انسان کے فائدے کےلیے بنائی ہیں کیا جانوروں پہ ہل جوتنا بوجھ ڈالنا بے رحمی نہیں ہے ؟ اگر کسی جان کو مارنا بے رحمی ہے تو ہم مکھی اور مچھر بھی نہیں مار سکتے ، جراثیم بھی نہیں مار سکتے ، ایلوپیتھک علاج بھی نہیں کر سکتے ۔
دھارمک پستکوں کو دیکھیں تو ویدوں میں 250 جانوروں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن میں 50 کو بَلی دینے اور کھانے کےلیے درست پایا گیا ۔ بازار میں الگ الگ طرح کا گوشت فروخت کرنے والوں کی دکانیں تھیں مثلاً گوگاتک (مویشی) ، اربیکا (بھیڑ) ، شوکاریکا (خنزیر) ، ناگریکا (ہرن) ، شاکنتیکا (پرندہ) ۔ گھڑیال اور کچھوے (گِدّابُدّکا) کے گوشت کی الگ دکانیں ہوتی تھیں ۔ رِگ وید میں گھوڑا ، بھینس ، بھیڑ اور بکرے کو بَلی دینے لائق جانوروں کے طور پر بتایا گیا ۔ رِگ وید کے 162ویں شلوک میں حکمرانوں کے ذریعہ دی جانے والی گھوڑے کی بَلی یعنی قربانی کی تفصیل دی گئی ہے ۔ ویدوں میں الگ الگ دیوتاؤں کی الگ الگ جانوروں کے گوشت میں دلچسپی تھی۔ اَگنی کو بیل اور بانجھ گائے اچھی لگتی تھی ، رودر کو لال گائے ، وِشنو کو ناٹے بیل، اندر کو ماتھے پر نشان اور لٹکتے سینگ والے بیل پسند تھے جب کہ پُشان کو کالی گائے پسند تھی ۔ بعد میں مرتب برہمن گرنتھ میں بتایا گیا کہ خاص مہمانوں کےلیے موٹے بیل یا بکروں کی بَلی دینا ضروری ہے ۔ تیتریہ اُپنیشد میں رِشی اگستیہ کے ذریعہ سینکڑوں بیلوں کی بَلی دینے کی تعریف کی گئی ہے ۔ اسی طرح یہودی اور عیسائی مذاہب میں قربانی اور جانوروں کے ذبح کا تصور ہے ۔
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ جس دلیل سے ہم گوشت نہیں کھا سکتے اس دلیل سے ہم سبزی بھی نہیں کھا سکتے ، کیونکہ زندگی ہر چیز میں ہوتی ہے ۔ رام جی کا خود ہرن شکار کرنا ، اس کا گوشت استعمال کرنا رامائن سے ثابت ہے ۔ اگر ہم گوشت اور سبزی کی حقیقت الگ الگ بھی مان لیں تو وہ ملک جہاں کھیتی نہیں ہو سکتی صرف گھاس ہوتی وہاں لوگ کیا کھائیں ؟ جو ملک سمندر کے کنارے ہیں جہاں کھانے کو صرف مچھلی ملتی ہے جیسے جاپان وہاں لوگ کیا کھائیں ؟
شمالی امریکہ میں بسنے والی قوم اسکیمو کے لوگ کیا کھائیں ؟
جہاں باغات نہ کھیت صرف سیل اور وہیل کھاتے ہیں ، یا بارہ سنگھے کا شکارپ کرتے ہیں ، دنیا بھر میں جتنا گوشت کھایا جاتا ہے اگر وہ نہ کھایا جائے اور جانوروں کو ہم بطور خواراک استعمال نہ کریں ہلاک نہ کریں تو دوسرے فوڈ آئٹمز کی کمی پڑ جائے گی ، قیمتیں بڑھ جائیں گی بے کار مویشی ملکوں کےلیے مصیبت بن جائیں گے ، کارڈ لیور آئل اور ریشم جیسی چیزیں ناپید ہو جائیں گی ۔
اعتراض : گوشت کھانے سے انسان میں درندگی آتی ہے ۔ اور انسان کے اندر حیوانیت پیدا ہوتی ہے ۔
جواب : ازل سے ہی گوشت خوری انسانی فطرت کا حصہ رہی ہے ۔ یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ گوتم بدھ اور حضرت عیسی مسیح علیہ السلام جن کو عدم تشدد اور رحم دِلی کا سب سے بڑا داعی تصور کیا جاتا ہے ، لیکن کیا یہ شخصیتیں گوشت نہیں کھاتی تھیں ؟ یہ سبھی گوشت خور تھے ۔ گوتم بدھ نہ صرف گوشت خور تھے بلکہ آخری وقت میں بھی گوشت کھا کر ہی ان کی موت ہوئی تھی اور ہٹلر سے بھی بڑھ کر کوئی تشدد ، ظلم و ستم اور بے رحمی کا نمائندہ ہوگا ؟ لیکن ہٹلر گوشت خور نہیں تھا ۔ اس کے بارے میں آتا ہے کہ وہ پیور نان ویج تھا ۔ کرشن ، رام اور شیو سے لے کر ساورکر تک سبھی نان ویج تھے ۔ ساورکر نے تو گاندھی جی کو نان ویج نہ کھانے پر کہا کہ آپ بنا گوشت کھائے آزادی کی لڑائی کیسے لڑیں گے ۔
ہندو دھرم کی کتاب ”منو سمرتی“ کے باب نمبر 5 کے شلوک نمبر 30 میں ہے : جو شخص (ان جانوروں کا) گوشت کھائے جن کا گوشت کھانا چاہیے تو وہ کوئی بُرا کام نہیں کرتا چاہے وہ ایسا روزانہ کرے کیونکہ خدا نے کچھ چیزیں کھائے جانے کےلیے پیدا کی ہیں اور کچھ کو ان چیزوں کو کھانے کےلیے پیدا کیا ہے ۔
منوسمرتی چیپٹر پانچ ، شلوک 35 میں ہے : شاستر کی ودھی سے جو مانس شدھ ہوتا ہے اس کو جو نہیں کھاتا پر لوک میں اکیس جنم تک جانور ہوتا ہے ۔
سائنسی طور پر یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ گوشت خوری کا اثر انسان میں شجاعت ، بہادری ، جوش و خروش ، بے باکی اور اسی قسم کی دوسری صفات کے رنگ میں ظاہر ہوتاہے ۔ دراصل گوشت نائٹروجن ، چربی ، نمکیات اور پانی کا مجموعہ ہوتا ہے ، ہمارے جسم کے رگ و ریشے زیادہ تر نائٹروجنی مرکبات سے بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ہمارا جسم مشقت ، ورزش اور مختلف حرکات سے جب تحلیل ہونا شروع ہو جاتا ہے تو اس کمی کو صرف نائٹروجنی غذا سے پورا کیا جا سکتا ہے ۔ نائٹروجنی غذا ہی سے ہمارے جسم کی نشو و نما ہوتی ہے ۔ ماہرین غذا کا کہنا ہے کہ پروٹین نباتاتی غذاؤں کی نسبت گوشت میں بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
خلاصہ کلام : قرآن اور حدیث سمیت دیگر مذاھب کی کتابوں میں بھی گوشت خوری کو ممنوع نہیں کہا گیا ہے بلکہ گوشت خوری کی ترغیب بھی پائی جاتی ہے ۔ اور یہی چیز سائنسی ، عقلی اور فطری طور پر صحیح بھی ہے ۔ اور انسانی جسم کا میکنزم بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے ۔ البتہ اسلام نے واضح طور پر درندوں اور خبیث جانوروں کے گوشت سے منع کیا ہے تاکہ مسلمانوں میں درندگی اور خباثت نہ ہو ۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment