Wednesday, 1 May 2024

جنگِ احد کے دن صحابہ رضی اللہ عنہم بھاگ گئے تھے کا جواب

جنگِ احد کے دن صحابہ رضی اللہ عنہم بھاگ گئے تھے کا جواب
محترم قارئینِ کرام اللہ عزوجل کا ارشادِ مبارک ہے : اِنَّ الَّذِيۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡكُمۡ يَوۡمَ الۡتَقَى الۡجَمۡعٰنِۙ ۔ اِنَّمَااسۡتَزَلَّهُمُ الشَّيۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَاكَسَبُوۡا ‌ۚ وَلَقَدۡ عَفَا اللّٰهُ عَنۡهُمۡ‌ؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ حَلِيۡمٌ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 155)
ترجمہ : بیشک وہ جو تم میں سے پھرگئے جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں انہیں شیطان ہی نے لغزش دی ان کے بعض اعمال کے باعث اور بیشک اللہ نے انہیں معاف فرمادیا بیشک اللہ بخشنے والا حلم والا ہے ۔
 
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب جنگِ احد کے دن مشرکین کے مقابلہ سے بھاگ گئے ‘ اس لغزش کی وجہ سے شیطان کا بہکانا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس لغزش کو معاف کر دیا ۔ اب اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اس آیت سے کون لوگ مراد ہیں ‘ بعض نے کہا اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اس دن مشرکین کے مقابلہ سے بھاگ گیا تھا ۔ جنگِ احد میں چودہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سوا جن میں حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے قدم اکھڑ گئے تھے اور خصوصاً وہ حضرات جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑی مورچے پر مقرر کیا تھا اور ہر حال میں وہیں ڈٹے رہنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ ثابت قدم نہ رہ سکے بلکہ جب پہلے حملے ہی میں کفار کے قدم اکھڑ گئے اور مسلمان غالب آئے ، تب ان دَرّے والوں نے کہا کہ چلو ہم بھی مالِ غنیمت جمع کریں ۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے منع فرمایا مگر یہ لوگ سمجھے کہ فتح ہو چکی ، اب ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ دَرَّہ چھوڑ دیا ، بھاگتے ہوئے کفار نے درہ کو خالی دیکھا تو پلٹ کر درہ کی راہ سے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا جس سے جنگ کا نقشہ بدل گیا ، یہاں اسی کا ذکر ہے ۔ ان حضرات رضی اللہ عنہم سے یہ لغزش ضرور سرزد ہوئی لیکن چونکہ ان کے ایمان کامل تھے اور وہ مخلص مومن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے غلام تھے اور آگے پیچھے کئی مواقع پر یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جانیں قربان کرنے والے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کی معافی کا اعلان فرما دیا تاکہ اگر ان کی لغزش سامنے آئے تو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ان کی عظمت بھی سامنے رہے ۔

اُحد پہاڑ کی ایک طرف دَرَّہ ہے جو جبلِ رماۃ کے نام سے معروف ہے ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ پچاس تیر اندازوں کو مقرر فرمایا اور تاکید کی کہ جب تک میرا حکم نہ ہو آپ لوگوں نے یہاں سے ہٹنا نہیں ، چاہے فتح ہو یا شکست ۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی جانثاری اور جوانمردی کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے اور مشرکین بھاگنے پر مجبور ہو گئے کچھ مسلمان ان کو بھگا رہے تھے اور کچھ مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے ۔ دَرَّہ پر مقرر تیر انداز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر نیچے اتر کر اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر غنیمت اکٹھی کرنے لگے ۔ دوسری طرف خالد بن ولید جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے درہ خالی دیکھا اور اچانک حملہ کردیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم تھا کہ جب تک میں نہ کہوں آپ نے یہاں سے نہیں ہلنا چاہے ، فتح ہو یا شکست ۔ اس کے باوجود وہ نیچے کیوں اترے ؟ پہلی بات یہ ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجتہاد تھا اور اس میں خطاۓ اجتہادی سرزد ہو گئی ۔ اللہ رب العزت نے ان کی اس اجتہادی خطا کو معاف فرما دیا ہے ۔ لہٰذا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ان پر اعتراض کریں ۔ قرآن کریم میں ہے : اِنَّ الَّذِيۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡكُمۡ يَوۡمَ الۡتَقَى الۡجَمۡعٰنِۙ ۔ اِنَّمَااسۡتَزَلَّهُمُ الشَّيۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَاكَسَبُوۡا ‌ۚ وَلَقَدۡ عَفَا اللّٰهُ عَنۡهُمۡ‌ؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ حَلِيۡمٌ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 155)
ترجمہ : بیشک وہ جو تم میں سے پھرگئے جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں انہیں شیطان ہی نے لغزش دی ان کے بعض اعمال کے باعث اور بیشک اللہ نے انہیں معاف فرمادیا بیشک اللہ بخشنے والا حلم والا ہے ۔

اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین محفوظ عنِ الخطا ہیں ۔ محفوظ ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے بشری تقاضوں کے مطابق کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ عزوجل ان کے ذمے میں وہ گناہ باقی نہیں رہنے دیتا یعنی دنیا میں اس گناہ سے معافی اور اس گناہ کی وجہ سے ملنے والے اُخروی عذاب سے ان کو محفوظ فرما لیتا ہے ۔ اللہ عزوجل کے معاف فرما دینے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر الزام درست نہیں ۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگ کی ابتداء سے مورچے پر مامور تھے ، انہیں میدان میں اتر کر لڑائی کا موقع ہی نہ ملا ، اگرچہ مورچہ سنبھالنے کا اور پہرے کا ثواب ملا ہے لیکن انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں میدان میں اتر کر بہادری کے ساتھ لڑنے اور کفار کو بھگانے والی شجاعت کا ثواب نہیں مل رہا ۔ اب جب انہیں دشمن کے بھاگ جانے کا اور لشکرِ اسلام کے فتح یاب ہونے کا یقین ہو ا تو وہ نیچے اتر آئے تاکہ دونوں اجر حاصل کر سکیں ۔ مورچہ پر پہرے دینے والا بھی اور میدان میں جہاد و قتال کرنے والا بھی ۔ جب کفار میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس مبارک جذبے کے تحت درے سے نیچے اترے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا ، اس بابرکت کام میں ان کی مدد کرنے لگے ۔ اس وجہ سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید درست نہیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قُربِ خدا اور قُربِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام پر فائز تھے کہ جہاں ان کی صورتاً لغزش پر بھی محبوبانہ عتاب نازل ہوا۔ لیکن جہاں یہ محبوبانہ عتاب نازل ہوا اسی کے متصل بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کا اعلان بھی کر دیا اور محبت کی شدت اور انتہاء کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ تسلی پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ فوراً ساتھ دوسری مرتبہ بھی ازراہ شفقت مزید فرمایا کہ بخش دیا ہے۔ اور یہ وہاں ہوتا ہے جہاں محبت بہت زیادہ ہو تاکہ کمال محبت کا اظہار ہو جائے ۔ یہ واقعہ تکوینی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کرایا گیا تاکہ اللہ عزوجل کی ان سے محبت سب کے سامنے آشکار ہو سکے ، ان سے محبت خداوندی کا اظہار ان کے لیے اعزاز ہے ، ان پر الزام نہیں ۔

امام محمد ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : قتادہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد جنگ احد کے دن قتال سے بھاگنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اصحاب ہیں ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور یہ عمل شیطان کے بہکانے اور اس کے ڈرانے کی وجہ سے ہوا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے درگذر فرمایا اور ان کو معاف کر دیا ۔ 
دوسرا قول یہ ہے اس آیت سے خاص لوگ مراد ہیں جو جنگِ احد میں پیٹھ موڑ کر بھاگ گئے تھے ‘ امام ابن جریر روایت کرتے ہیں : عکرمہ بیان کرتے ہیں یہ آیت رافع بن معلی ‘ دیگر انصار ‘ ابوحذیفہ بن عتبہ اور ایک اور شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ 
ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان ‘ حضرت عقبہ بن عثمان ‘ حضرت سعد بن عثمان رضی اللہ عنہم اور دو انصاری جنگِ احد کے دن بھاگ گئے حتی کہ وہ مدینہ کی ایک جانب جلعب نامی پہاڑ کے پاس پہنچ گئے ‘ پھر تین دن کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے آپ نے ان سے فرمایا تم بہت دور چلے گئے تھے ۔ ابن جریج نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کر دیا کیونکہ ان کو کوئی سزا نہیں دی ۔ (جامع البیان جلد ٤ صفحہ ٩٦ مطبوعہ بیروت,چشتی)

امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت موسیٰ بن عقبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر واپس چلا گیا تو مسلمانوں کی دو جماعتوں کے دل بیٹھ گئے اور یہ دو جماعتیں بنو حارثہ اور بنو سلمہ تھیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بچا لیا ‘ اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے ۔ (دلائل النبوۃ جلد ٣ صفحہ ٢٠٩ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤٠١ ھ)

امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں : مشرکین نے مسلمانوں پر تین بار حملے کیے اور ہر بار پسپا ہوئے جن پچاس تیر اندازوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احد پہاڑ پر کھڑا کیا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ کفار مغلوب اور پسپا ہو گئے ہیں تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے ہمارے بھائیوں کو فتح عطا کردی ہے ‘ بہ خدا اب ہم یہاں بالکل نہیں بیٹھیں گے اور جس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا تھا وہ وہاں سے ہٹ گئے اور یہی حکم عدولی ان کی شکست کا سبب بن گئی ۔ جب مشرکین کے لشکر نے دیکھا کہ مسلمان متفرق ہو گئے اور بکھر گئے تو انہوں نے احد پہاڑ کی پشت سے ان پر حملہ کردیا ‘ مسلمان مال غنیمت لوٹنے میں مشغول تھے کہ وہ اچانک تیروں اور تلواروں کی زد میں آگئے ‘ اور کسی پکارنے والے نے بلند آواز سے پکار کر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیے گئے ‘ یہ خبر سن کر مسلمانوں کی رہی سہی کمر ٹوٹ گئی ‘ بہت سے مسلمان شہید کردیے گئے ۔ جب بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاؤں اکھڑ گئے تھے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ثابت قدم رکھا ۔ آپ مسلمانوں کو آوازیں دے کر بلاتے رہے آپ اس وقت احد کی گھاٹیوں میں مہراس نام کی ایک گھاٹی کے قریب تھے ۔ کئی صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے پاس وہاں پہنچ گئے تھے ادھر دوسری طرف جب مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں ملے تو وہ ہمت ہار بیٹھے ‘ بعض نے کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہیں رہے تو اب لڑنے سے کیا فائدہ ! بعض نے کہا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو کیا تم اپنے دین کی حمایت میں نہیں لڑو گے ! تم اپنے دین کی حمایت میں لڑتے رہو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ سے شہید ہونے کی حالت میں ملاقات کرو ‘ یہ حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا اور بنو قشیر میں سے کسی نے کہا اگر ہمارے دین میں کچھ بھلائی ہوتی تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کو ڈھونڈ رہے تھے اور ان کو بلا رہے تھے ‘ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت ثابت قدمی سے آپ کے ساتھ تھی ‘ ان میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم بھی تھے ‘ ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے تا دمِ مرگ آپ کا ساتھ دینے پر بیعت کی تھی ‘ انہوں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ڈھال بنایا ہوا تھا ۔ ان میں سے چھ یا سات صحابہ رضی اللہ عنہم آپ پر سپر بنے ہوئے شہید ہو گئے وہ آپ کے ساتھ مہراس نامی گھاٹی میں چل رہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پتہ چلنے کے بعد سب سے پہلے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا ‘ آپ کا چہرہ مغفر (خود) میں چھپا ہوا تھا صرف آپ کی آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ انہوں نے آنکھوں سے آپ کو پہچان لیا اور بلند آواز سے چلائے اللہ اکبر ! یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت آپ کا چہرہ زخمی تھا اور ایک دانت (سامنے کے چار دانتوں میں سے دائیں جانب کے نچلے دانت کا ایک جز) شہید ہو چکا تھا ۔ (دلائل النبوت جلد ٣ صفحہ ٢١١ ۔ ٢١٠ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٠١ ھ,چشتی)

جنگِ احد میں بھاگنے کی وجہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر طعن کا جواب : ⏬

امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا ، بیررومہ کا وقف ِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر عسر ت و تنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبو ت سے دادِ تحسین حاصل کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس موقع پر ان کی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا '' ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم '' (آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگر ے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ، بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ، دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرما کر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق و انتشار سے محفوظ فرمانا ،یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کےلیے صرف حضر ت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔ ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جن کا ان کی ذات کومورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کیے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیے ، چاہے تو یہ تھا کہ سلسلہ اعتراضات ختم ہو جاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک نسلِ ابنِ سبا یہودی کی طرف سے زور و شور سے جاری ہے ۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کیے ۔

پہلا یہ تھا کہ کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ دوسراسوال یہ کہ کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے اعتراف کیا ہے ، خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ان تینوں سوالوں کا جواب بھی لیتا جا ، پھر آپ نے اس کے سوالوں کا ترتیب وار جواب دیا ۔ فرمایا : جہاں تک جنگِ احد میں فرار کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں ان کی معافی کااعلان کر چکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان فرما دیا تو اعتراض کیسا ؟ ۔ دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اس لیے حاضر نہیں ہو سکے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی او ر اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔ انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرما کر ان کےلیے اجر و ثواب کا اعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا ۔ اور تیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بنا کر ان کا زبردست اعزاز و اکرام فرمایا ان کے مکہ جانے کے بعد بیعتِ رضوان کا معاملہ پیش آیا پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ، اپنا دایاں ہاتھ بلند کر کے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیعت لی ۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے جوابات سے فارغ ہو کر اس معترض سے فرمایا ''اذھب بھاالآن'' ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتا جا ، یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچا دکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیا کہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔ (مشکوۃ المصابیح مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ،چشتی)

امام ابو اللیث نصر بن محمد سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٧٠ ھ روایت کرتے ہیں : غیلان بن جریر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کے درمیان بحث ہوئی ‘ حضرت عبدالرحمان نے کہا تم مجھے برا کہتے ہو ‘ حالانکہ میں جنگ بدر میں حاضر ہوا اور تم حاضر نہیں ہوئے اور میں نے درخت کے نیچے بیعت (رضوان) کی اور تم نے نہیں کی اور تم جنگ احد کے دن لوگوں کے ساتھ بھاگ گئے تھے حضرت عثمان نے فرمایا جنگ بدر میں حاضر نہ ہونے کا جواب یہ ہے کہ میں کسی غزوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غائب نہیں رہا ‘ البتہ غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی بیمار تھیں ‘ اور میں ان کی تیمارداری میں مشغول تھا ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مال غنیمت سے مجھے بھی اتنا ہی حصہ دیا تھا جتنا آپ نے دوسرے مسلمانوں کو حصہ دیا تھا اور رہا درخت کے نیچے بیعت کا معاملہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مکہ میں مشرکین سے بات کرنے کےلیے بھیجا تھا ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے اپنے دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے بہتر ہے اور رہا جنگ احد میں بھاگنے کا سوال تو اس کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا اور یہ آیت نازل فرمائی : بیشک جس دن دو فوجیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہوئی تھیں اس دن جو لوگ تم میں سے پھرگئے تھے ان کے بعض کاموں کی وجہ سے شیطان ہی نے ان کو لغزش دی تھی ‘ بیشک اللہ نے ان کو معاف کر دیا ۔ (تفسیر سمرقندی جلد ١ صفحہ ٣١٠ مطبوعہ دار الباز مکہ مکرمہ ١٤١٣ ھ,چشتی) 

امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : عثمان بن موھب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حج بیت اللہ کرنے کے لیے آیا۔ اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا اس نے پوچھا یہ کون لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ؟ لوگوں نے کہا یہ قریش ہیں ‘ پوچھا یہ بوڑھا آدمی کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں ‘ اس نے کہا میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیا آپ مجھے اس کا جواب دیں گے ؟ میں آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان بن عفان جنگ احد کے دن بھاگ گئے تھے ؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں ! اس سے کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ غزوہ بدر میں بھی حاضر نہیں ہوئے تھے ؟ حضرت ابن عمر نے کہا ہاں ! اس نے نعرہ لگایا اللہ اکبر ‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا تم نے جن چیزوں کے متعلق سوال کیا تھا اب میں تم کو ان کی وجوہات بیان کرتا ہوں رہا جنگ احد میں بھاگنے کا معاملہ تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے اس کو معاف کردیا ‘ اور رہا غزوہ بدر میں غیرحاضر رہنا ‘ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ان کے نکاح میں تھیں ‘ (وہ ان کی تیمارداری کر رہے تھے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا تم کو بدر میں حاضر ہونے والے مسلمانوں اجر اور مال غنیمت ملے گا اور رہا بیعت رضوان سے غائب ہونے کا معاملہ تو یہ بیعت اس وقت ہوئی تھی جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ جا چکے تھے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے ‘ پھر اس کو اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا ‘ اور فرمایا یہ عثمان کی بیعت ہے ۔ پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے فرمایا تم نے یہ جوابات سن لیے اب جہاں جانا چاہو چلے جاؤ ۔ (صحیح بخاری جلد ٢ صفحہ ٥٨٢ ۔ ٥٨١ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی ١٣٨١ ھ,چشتی)

اس آیت میں مذکور ہے : ان کے بعض کاموں کی وجہ سے شیطان ہی نے ان کے قدموں کو لغزش دی تھی ۔ ان کے وہ کون سے کام تھے جن کی وجہ سے شیطان نے ان کو لغزش دی تھی ؟ اس کی کئی تفسیریں ہیں : ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے مرکز کو ترک کرنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکم عدولی کی ‘ اور مال غنیمت لوٹنے کےلیے دوڑ پڑے ‘ حسن نے کہا انہوں نے شیطان کے وسوسوں کو قبول کر لیا دوسرا قول یہ ہے کہ دشمن سے شکست کھا جانا معصیت نہیں تھا ‘ لیکن جب انہوں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید کردیے گئے تو وہ مدینہ کی حفاظت کےلیے شہر میں چلے گئے تاکہ دشمن اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو ‘ ایک قول یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پکار رہے تھے تو انہوں نے خوف اور ہراس کے غلبہ کی وجہ سے آپ کی پکار کو نہیں سنا ‘ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دشمن کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ تھی کیونکہ وہ سات سو تھے اور دشمن تین ہزار تھا اور ان حالات میں شکست کھا جانا بعید نہیں ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ بھاگ جانا ایسی خطاء ہے جو جائز نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ سوچا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی احد پہاڑ کی کسی جانب نکل گئے ہیں ۔ 

معلوم یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے اچانک پلٹ کر آنے اور اس کے زبردست دباؤ کی وجہ سے ان کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بےسوچے سمجھے بھاگ پڑے ۔ بہرحال یہ خطاۓ اجتہادی کسی وجہ سے بھی ہوئی ہو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص اپنے گناہ سے تائب ہو جائے وہ اس کی مثل ہے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کا اعلان کر دیا تو اب کسی شخص کےلیے ان پر اعتراض کرنا جائز نہیں ہے ‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جو باہمی اختلافات تھے اور اس کی وجہ سے جو ان میں جنگیں ہوئیں ۔ ہو سب اجتہادی امور پر مبنی تھیں ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کا گروہ اپنے اجتہاد میں حق پر تھا ان کو دو اجر ملیں گے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کو اجتہاد میں خطاء لاحق ہوئی ‘ ان کو ایک اجر ملے گا ‘ ان میں سے کسی فریق پر بھی طعن کرنا جائز نہیں ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ رضی اللہ عنہ سے عاقبتِ حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے ۔

اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے درگزر فرمایا اور ان کے بارے میں‌ معافی کا اعلان بھی فرمایا بلکہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو معافی دینے کا حکم فرمایا ، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ ۔ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا  غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪ ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ  لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ ۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ ۔ (سورة آل عمران آیت 159)
ترجمہ : تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کےلیے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں ۔

یہ آیت کریمہ غزوہ احد کے پسِ منظر میں ‌نازل ہوئی تھی ، آپ کا ارادہ تھا کہ مدینہ طیبہ کے اندر رہ کر مشرکینِ مکہ کے لشکر کا مقابلہ کیا جائے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورہ کے بعد آپ باہر میدان میں‌ مقابلے کےلیے تیار ہوئے ، میدان میں‌ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو ایک چھوٹی پہاڑی پر کھڑا کیا اور حکم دیا کہ تم نے بہر نوع یہاں‌ کھڑے رہنا ہے ، ادھر جب سخت حملہ ہوا تو کچھ صحابہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے ، جس کے نتیجہ میں ‌فتح شکست میں‌ تبدیل ہونے لگی ، ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہو گئے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہوئے اور اور آپ کا دانت مبارک زخمی ہوا ، ان تمام باتوں‌کا آپ کو سخت صدمہ ہوا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں‌ میں‌ مشورہ دینے پر ندامت پائی گئی کہ ہمارے مشورے کے نتیجہ میں ‌بات یہاں‌تک پہنچی ہے مگر اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کی دلجوئی فرماتے ہوئے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ ان سے جو خطا ہوئی اسے آپ معاف کر دیں‌ بلکہ ان کی کمال خیر خواہی میں ‌ان کےلیے بخشش کی دعا بھی کریں‌ بلکہ آئندہ کےلیے بھی ان سے مشورہ لیتے رہیں ‌تاکہ ان کی پوری تشفی و تسلی ہو جائے اور آپ کی نگاہوں ‌میں ‌انہیں‌ اپنی کوتاہی کا احساس نہ رہے ۔ 

اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ کا بیان کیا جارہا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ : اے حبیب ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نرم دل، شفیق اور رحیم و کریم بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزاج میں اِس درجہ لُطف و کرم اور شفقت و رحمت پیدا فرمائی کہ غزوہ اُحد جیسے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غضب کا اظہار نہ فرمایا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دن کس قدر اَذِیَّت و تکلیف پہنچی تھی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت مزاج ہوتے اور میل برتاؤ میں سختی سے کام لیتے تو یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہو جاتے ۔ تو اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ان کی غلطیوں کو معاف کر دیں اور ان کےلیے دعائے مغفرت فرمادیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش پر اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف فرمادے ۔

یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ اس آیت سے قبل آیت میں‌ میدان احد میں‌ پہاڑی پر کھڑے کیے گئے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی غلطی سے جو پانسا پلٹا اس پر سر زنش کے طور پر فرمایا گیا : مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۔ (سورۃ آل عمران نمبر 152)
ترجمہ : تم میں کوئی دنیا چاہتا تھا اور تم میں کوئی آخرت چاہتا تھا ۔

یہاں مالِ غنیمت جمع کرنے کے اقدام کو دنیا طلبی سے تعبیر کیا گیا ہے ، حالانکہ ان کا یہ اقدام خالص دنیا طلبی نہ تھا کیونکہ وہ مالِ غنیمت جمع کرنے کےلیے پہاڑی پر سے نیچے اترتے یا نہ اترتے ، دونوں صورتوں میں مالِ غنیمت میں سے انہیں وہی حصہ ملنا تھا جو انہیں دوسرے مجاہدین کے ساتھ ملنا تھا ۔ ظاہر ہے اس صورت میں ان کے اقدام کو خالص دنیا طلبی نہیں کہا جا سکتا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی میں مال غنیمت کا خیال آنے کو بھی دنیا طلبی سے تعبیر کیا گیا مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 152)
ترجمہ : اور بیشک اس نے تمہیں معاف کر دیا  ۔

اسی طرح جو حضرات میدان سے بھاگ نکلے تھے اس کے بعد ان کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ ۔ (سورہ آل عمران : 155)
ترجمہ : اور بیشک اللہ نے انہیں معاف فرمادیا ۔

پہلے گویا اللہ تعالیٰ نے خود انہیں معافی نامہ دیا ، پھر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ آپ بھی انہیں معاف کر دیں بلکہ ان کےلیے بخشش کی دعا کریں ، رہے مشورہ دینے والے تو ان کی دلجوئی کےلیے مزید حکم دیا کہ آئندہ انہیں حسب ِ سابق مشورہ میں شریک رکھیں تاکہ انہیں کسی قسم کی ناقدری کا احساس نہ ہو ۔ اندازہ کیجیے کہ اللہ عزوجل کی طرف سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کمال دلجوئی اور معانی نامہ کے باوصف روافض اور ان کی معنوی ذریت کی طرف سے آج بھی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اس حوالے سے طعن و تشنیع کے نشتر چلائے جاتے ہیں اور ” مِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۔ (سورۃ آل عمران: 152) ۔ سے اپنے بدباطن اور بغض کا اظہار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ان میں دنیا طلب بھی تھے ۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا ۔

غور کیجیے اللہ تعالیٰ نے غزوہ احد میں بھاگنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معاف کر دیا ۔ اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر درگزر کرنے اور ان کےلیے بخشش کی دعا کا حکم فرمایا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اسے معافی سمجھا مگر دشمنانِ صحابہ کو یہ معافی ایک نگاہ نہیں بھاتی ، جس کا اظہار عہدِ صحابہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تاہنوز کیا جاتا ہے ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے تحفہ اثنا عشریہ میں روافض کی طرف سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر مطاعن میں اسے سرِ فہرست ذکر کیا ہے ۔ اور ان کا جواب دیا ہے بلکہ معروف رافضی ابن المطہر الحلی نے بھی منہاج الکرامۃ میں ان مطاعن کا ذکر کیا ہے ۔

اس طرح غزوہ بدر کے موقع پر کفار مکہ کے جو ستر افراد قیدی ہوئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رحم دلی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر ان سے فدیہ لےکر انہیں چھوڑ دیا مگر اللہ عزوجل کو یہ فیصلہ پسند نہ آیا تو اس پر عتاب نازل ہوا کہ ” تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّهُ يُرِيدُ الآخِرَةَ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔ (سورہ الأنفال : 67) , تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ سب پر غالب کمال حکمت والا ہے ۔ یہاں ”دنیا چاہنے“ سے مراد کفار سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑنا ہے اور ”آخرت“ سے مراد انجام کار اور مصلحت کے اعتبار سے ہے کہ کفار مغلوب ہو جائیں ، ان کی کمر ٹوٹ جائے اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھ جائے۔ اس کے بعد فرمایا: ” لَّوْلاَ كِتَابٌ مِّنَ اللّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔ (سورہ الأنفال : 68) , اگر اللہ کی طرف سے لکھی ہوئی بات نہ ہوتی ، جو پہلے طے تھی تو تمہیں اس کی وجہ سے جو تم نے لیا بہت بڑا عذاب پہنچتا ۔ لکھی ہوئی بات سے اصحاب بدر کی معافی اور مسلمانوں کےلیے مال غنیمت کی حِلّت کا فیصلہ مراد ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کے کھانے کا حکم دیا ۔ (جو پہلی امتوں کےلیے ناجائز تھا) اور ” إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ “ کہہ کر معافی کا اظہار بھی کر دیا ۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا فیصلہ تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے بھی ” تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا ۔ (الأنفال : 67) “ فرمایا ہے ۔ اور سورۂ آل عمران 152 میں غزوہ احد کے مال غنیمت کے تناظر میں بھی یہی بات فرمائی : ” مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا ۔ (آل عمران : 152) “ تم میں سے کچھ دنیا چاہنے والے تھے ۔ اس آیت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دنیا طلبی کا طعنہ دینے والے فیصلہ کریں کہ سورہ الانفال میں اسی نوعیت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مصداق کون ہیں ؟ جب اللہ عزوجل ہی نے دونوں مقامات پر معاملہ رفع فرما دیا ہے تو اس کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دنیا طلبی کا طعنہ دینا بد باطنی کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے ۔

اسی طرح حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے معاملے میں حضرت مسطح کی سنگین غلطی پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو درگزر کرنے اور معاف کرنے کا حکم اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ النور آیت 22 میں دیا ، جنہوں نے حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کا روزینہ بند کر دیا تھا ۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی سنگین غلطی سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درگزر فرمایا کہ وہ اہل بدر اور اہل شجرہ میں سے ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت بن الحارث الانصاری کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے کہ انصار کا ایک آدمی منافق ہو گیا ، اس کا بھتیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی شکایت کی کہ میرا چچا منافق ہوگیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرمایا : إنّه قد شهد بدرا وعسى أن يكفّر عنه ۔ (الاصابۃ فی تمیزالصحابہ جلد 1 صفحہ 19) , وہ بدر میں شریک ہوا ہے ، امید ہے کہ اسے معاف کردیا جائے گا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اسے رجوع کی توفیق عطا فرمائے گا اور اس کی معافی کی سبیل پیدا فرما دے گا ۔ حضرت نعمان بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں اور بعض نے کہا ہے ان کا نام عبداللہ بن النعمان رضی اللہ عنہ تھا ، وہ بدر و اُحُد اور تمام غزوات میں شریک ہوئے ، انہوں نے شراب پی بلکہ بعض روایات میں ہے کہ چار بار شراب پی اور اسے حد لگائی گئی ، ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی اس پر لعنت ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لاَ تَلْعَنُوهُ ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۔ (صحیح بخاری حدیث نبر 6780)(الاصابۃ جلد 6 صفحہ 240,چشتی)

شرب خمر کے بعد حد نافذ کی گئی اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ایمان کی گواہی دی ۔ بعض وہ بھی ہیں جن سے زنا کا جرم عظیم سرزد ہوا ، ان پر حد نافذ کی گئی اور یہی ان کے گناہ کا کفارہ بن گئی ، حتی کہ حضرت ماعزبن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں‌ تو فرمایا : لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1695) ,, کہ ماعز کےلیے استغفارہ کرو ، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ امت کے درمیان تقسیم کی جائے تو وہ کفایت کرے گی ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ان زلّات اور جرائم کے باوجود ان کا احترام واجب ہے ۔ غور فرمائیں حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کی توبہ کی تعریف کرنے کے باوجود آپ نے فرمایا : اس کےلیے استغفارہ کرو ، اللہ سے اس کےلیے بخشش مانگو ۔ یہ اس لیے کہ ہمیں‌ بہرِ نوع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے استغفارہ ہی کا حکم ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاری زندگی میں‌خطا کا صدور ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد اس کا ارتکاب نا ممکن نہیں ، ہم انہیں‌ معصوم نہیں‌ سمجھتے ہیں‌ ہم انہیں محفوظ سمجھتے ہیں جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں ۔ مگر یہ بھی یقین رکھتے ہیں‌ کہ اللہ تعالی نے ان سب کے بارے میں‌جنت کا وعدہ اور جہنم سے آزادی کا یقین دلایا ہے ، اس لیے قیامت سے پہلے اللہ تعالی اسبابِ مغفرت میں‌سے کوئی نہ کوئی سبب پیدا فرما دے گا اور ان سے کیا وعدہ عفا ہو گا ۔

ظیم مفسرِ قرآن امام سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر کسی صحابی سے امورِ فسق میں سے کوئی عمل ثابت ہوتا ہے تو اس کے یہ معنیٰ قطعاً نہیں کہ وہ اسی فسق پر فوت ہوئے ہیں ، ہم توبہ سے پہلے تو اسے فاسق کہین گے لیکن یہ نہیں کہ وہ اس فسق پر قائم رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی برکت اور ان اوصاف کے سبب جو اللہ تعالیٰ نے ان کے بیان فرمائے ہیں وہ اس پر قائم نہیں رہتے اور اللہ تعالیٰ انہیں توبہ کی توفیق عطا فرمادیتے ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی جلد 26 صفحہ 133)

لہٰذا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ عزوجل کا فیصلہ ان کی بخشش کا اور ان سے درگزر کرنے کا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر کرنے کا حکم اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا ہے تو امت کے کسی فرد کیا حق ہے کہ وہ ان کے بارے میں لب کشائی کرے ، ان کی حسنات کی بجائے ان کی زلّات کی تلاش میں رہے اور برسرِ منبر و محراب یا بذریعہ قلم و قرطاس انہیں رسوا کرنے کی ناپاک جسارت کرے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی میں ان کی خطاؤں کے باوجود خود ان سے درگزر کیا بلکہ اپنے امتیوں کو یہ حکم فرمایا : دَعُوا لِي أَصْحَابِي لا تَسُبُّوا أَصْحَابِي ۔ (مسند البزار جلد 3 صفحہ 294 رقم : 2779,چشتی)
ترجمہ : میری خاطر میرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے درگزر کرو، میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا مت کہو ۔ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رجاله رجال الصحيح اس حدیث کے سب راوی بخاری کے ہیں ۔ (مجمع الزوائد : 21/10)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي ۔ (سنن ابن ماجہ، ص: 172، رقم: 2363، مسند احمد: 26/1، ابو یعلیٰ: 102/1، المختارۃ: 96،97، الصحیحۃ: 1116، 431)
ترجمہ : لوگو ! میری وجہ سے میرے صحابہ کا خیال رکھو، ان کی رعایت کرو ۔ اور بعض روایات میں ”أحسنوا إلى أصحابي“ کے الفاظ ہیں کہ ”میرے صحابہ کے ساتھ اچھے طریقےسے پیش آؤ ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا ذُكِرَ أَصْحَابِي فَأَمْسِكُوا، وَإِذَا ذُكِرَتِ النُّجُومُ فَأَمْسِكُوا، وَإِذَا ذُكِرَ الْقَدَرُ فَأَمْسِكُوا ۔ (طبرانی وغیرہ ، الصحیحۃ: 34)
ترجمہ : جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو ، جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو ۔

تقدیر پر ہرمسلمان کا ایمان ہے مگر اس میں بحث وتکرار کی ممانعت ہے ، ستاروں سے متعلقہ امور اور ان کی تاثیر کے بارے میں بحث و تمحیص منع ہے، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے بارے میں لب کشائی ، ان پر طعن وتشنیع اور ان کے معاملات میں بحث و تکرار سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روک دیا ہے ۔ بلکہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا : فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ ، وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ ۔ (صحیح البخاری: 3799)
ترجمہ : ان کے صالحین کی نیکیوں اور خوبیوں کا اعتراف کرو اور ان کے خطاکاروں کی خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر کرو ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس روایت کے الفاظ اس طرح ہیں : أَكْرِمُوا أَكْرَمَهُمْ، وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ ,, ان کے محترم حضرات کی تکریم کرو اور ان کے خطا کاروں سے درگزر کرو ۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے ۔ ان کے خطاکاروں سے درگزر کرنے کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اگر ان سے کسی کے حقوق کی ادائیگی اور حدود کے معاملات میں کوتاہی ہو جائے تب بھی ان سے درگزر کرو بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی عملی کوتاہیوں اور کمزوریوں سے درگزرو کرو ، ان پر طعن وملامت نہ کرو اور ان کی غلطیوں کا مواخذہ نہ کرو ۔ انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ حکم ایک خاص پس منظر میں مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہوا تھا کیونکہ آئندہ خلافت و سیادت انہی کے حصہ میں آنے والی تھی مگر انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ حکم پوری امت کو ہے بلکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے کہ ان سے درگزر کرو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...