Tuesday, 14 May 2024

مسئلہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں

مسئلہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتداء عالم سے لے کر جنتیوں کے جنت میں جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں جانے تک کا تفصیلی علم عطا فرمایا لیکن یہ علم تفصیلی ایک بار نہیں بلکہ آہستہ آہستہ عطا فرمایا ۔ یہ علم شریف اس وقت مکمل ہوا جب قرآن عظیم مکمل طور پر نازل ہو گیا ۔ تکمیل نزول قرآن پر سرکار کے علومِ مذکورہ کی تکمیل ہو گئی اور آپ کا علم شریف صرف قیام قیامت تک محدود نہیں بلکہ ابد الآباد کے بے حد و بے شمار علوم سے آپ کو نوازا گیا ہے لہٰذا اگر تکمیل نزولِ قرآن سے قبل آپ کو کسی بات کا علم نہ ہو تو یہ اہل سنت کے نظریہ کے مخالف نہیں ۔

غیب کی تعریف : ⏬

غیب کے (لفظی) معنی ہیں : غائب یعنی چُھپی ہوئی چیز ۔ غیب وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اور ہم اپنے حَوّاسِ خَمسہ یعنی دیکھنے ، سُننے ، سونگھنے ، چکھنے اور چُھونے سے نہ جان سکیں اور غور و فکر سے عَقل اُسے معلوم نہ کرسکے ۔ (تفسیرِ بیضاوی جلد 1 صفحہ 114)

استاذی المکرّم حضور غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جیسے جنَّت اور دوزخ وغیرہ ہمارے لیے اِس وقت غَیب ہیں کیونکہ اِنہیں ہم حوّاس (یعنی آنکھ ، ناک ، کان وغیرہ) سے معلوم نہیں کر سکتے ۔ عقیدہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روزِ اوّل سے روزِ آخِر تک کا علم عطا فرمایا ہے ۔ لوحِ محفوظ میں درج تمام عُلُوم نیز اپنی ذات و صفات کی معرفت سے متعلّق بہت اور بے شُمار عُلوم عطا فرمائے ۔ عُلُومِ خمسہ پر مطلع فرمایا جس میں خاص وقتِ قِیامت کا علم بھی شامل ہے ۔ ساری مخلوقات کے احوال اور تمام مَاکَانَ (جو ہو چکا) اور مَایَکُوْنُ (جو ہو گا) کا علم عطا فرمایا ۔ لیکن اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم ’’عطائی (اللہ کریم کا عطا کیا ہوا) ‘‘ہونے کی وجہ سے’’حادِث‘‘ ہے اور اللہ پاک کا علم’’ ذاتی و قدیم‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کا علم ہرگز ہرگز اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر نہیں ۔ (مقالاتِ کاظمی جلد 2 صفحہ 111)

علمِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکمیل : ⏬

یاد رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارَک علم میں نزولِ قراٰن کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا تھا آخِرکار قراٰنِ پاک کی تکمیل کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم بھی مکمل ہو گیا جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فقیر نے قرآنِ عظیم کی آیاتِ قطعیہ سے ثابت کیا کہ قرآنِ عظیم نے 23 برس میں بتدریج نزولِ اِجلال فرما کر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جَمِیْع مَاکَانَ وَ مَا یَکُوْن یعنی روزِ اوّل سے روزِ آخِر تک کی ہر شَے ، ہر بات کا علم عطا فرمایا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 512،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کے متعلق چند ضَروری باتیں ذِہْن نشین فرما لیجیے ، ان شاء اللہ عزوجل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب سے متعلق شیطانی وسوسوں کا علاج ہو جائے گا ۔

امامِ اہلِ سنّت شاہ امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ⏬

(1) بےشک غیرِ خدا کےلئے ایک ذَرّہ کا علم’’ ذاتی‘‘ نہیں اتنی بات’’ضَروریاتِ دین‘‘سے ہے اور اس کا مُنْکِر (یعنی انکار کرنے والا) کافر ہے ۔ (یعنی جو کوئی اللہ پاک کے بتائے بغیر غیرِ خدا کے لئے ایک ذرّے کا بھی علم مانے وہ مسلمان نہیں) ۔

(2) بے شک غیرِ خدا کا عِلم اللہ تعالیٰ کی معلومات کا اِحاطہ نہیں کرسکتا ، برابر ہونا تو دُور کی بات ۔ تمام اَوّلِین و آخِرین ، اَنبیاء و مُرسَلین ، ملائکہ و مُقرّبین سب کے عُلوم مل کر عُلومِ الہِٰیّہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصّے کو ہے کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصّہ دونوں ’’مُتَناہی (Limited) ‘‘ہیں (یعنی ان کی ایک انتہا ہے) اور  ”متناہی“  کو ’’متناہی ‘‘سے نسبت ضَرور ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ کے عُلوم ’’غیرمُتَناہی دَر غیرمتناہی دَر غیرمتناہی (Unlimited) ‘‘ہیں (یعنی ان کی کوئی انتہا ہے ہی نہیں) اور مخلوق کے عُلوم اگرچہ عرش و فرش ، مشرق و مغرب ، روزِ اوّل تا روزِ آخِر جملہ کائنات کو محیط ہوجائیں پھر بھی ’’مُتَناہی (Limited) ‘‘ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں (boundaries) ہیں ، روزِ اوّل اور روزِ آخِر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب’’ مُتَناہی (Limited) ‘‘ہے ۔

(3) بِالفعل غیرِمُتَناہی کا علمِ تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا تو جُملہ عُلومِ خَلق کو علمِ الٰہی سے اصلاً نسبت ہونی محالِ قطعی ہے نہ کہ مَعَاذَ اللہ تَوَہُّمِ مساوات ۔ (یعنی جس بارِی تعالیٰ کے علم کی حقیقی طور پر کوئی حَد اور کِنارہ نہیں ہے اس کا سارے کا سارا علم مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا ، لہٰذا جب ساری مخلوق کے سارے عُلوم مل کر بھی اللہ پاک کے علم سے کسی طرح بھی نسبت نہیں رکھتے تو معاذاللہ انہیں اللہ پاک کے علم کے برابر ہونے کا وہم و گمان بھی کیسے ہو سکتا ہے)

(4) اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیے سے انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو کثیر و وافِر غیبوں کا عِلم ہے یہ بھی ضَروریاتِ دین سے ہے جو اِس کا منکر ہو کافر ہے کہ سِرے سے نَبُوّت ہی کا منکر ہے ۔

(5)اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضلِ جلیل میں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصّہ تمام انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور تمام جہان سے اَتَمّ (کامل ترین) اور اعظم (سب سے بڑا) ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شُمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 450 ، 451)

حضرت سیّدنا انس بِن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سورج ڈھلنے پر رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے ، نمازِ ظہر ادا فرمائی ، پھر منبر پر کھڑے ہوکر قِیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں بڑے بڑے اُمور ہیں ۔ پھر ارشاد فرمایا : جو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو تو پوچھ لے اور تم مجھ سے جس کسی شے کے بارے میں سوال کرو گے میں تمہیں اسی جگہ بتا دوں گا ۔ تو لوگ زار و قِطار رونے لگے ۔ بہت زیادہ روئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عبدُاللہ بن حُذافَہ سَہْمی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر عرض گزار ہوئے : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : تمہارا باپ حُذافہ ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے گُھٹنوں کے بل کھڑے ہوکر عرض کی : ہم اللہ پاک کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمدِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے ، پھر فرمایا: ابھی مجھ پر جنّت اور جہنّم اس دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں ، میں نے ایسی اچّھی اور بُری چیز نہیں دیکھی ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 200 حدیث : 540)

غیب کی لغوی تعریف : ⏬

غیب کا معنی چھپنا ، پوشیدہ ہونا وغیرہ ۔ (المنجد صفحہ 892)

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : غیب مصدر ہے ۔ سورج آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو کہتے ہیں غابت الشمس سورج غائب ہو گیا ۔ کل غائب عن الحاسه وعما یغیب عن علم الانسان بمعنی الغائب یقال للشئ غیب وغائب باعتباره بالناس لا باﷲ تعالی فانه لا یغیب عنه الشئ قوله عالم الغیب والشهادة أی ما یغیب عنکم وما تشهدونه والغیب في قوله ’’یومنون بالغیب‘‘ ما لا یقع تحت الحواس ولا تقتضیه بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیاء علیهم السلام وبدفعه یقع علی الانسان اسم الالحاد ۔
ترجمہ : جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔ کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ اللہ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے ﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یومنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جا سکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں ۔ (مفردات راغب صفحہ نمبر 367،چشتی)

نبی کا معنی : ⏬

عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے ۔ غیب کی خبریں دینے والا اور ظاہر ہے کہ غیب کی خبر وہی دے گا جسے غیب کا علم ہو گا بغیر علم کے خبر جھوٹی ہوتی ہے جبکہ نبی کی خبر قطعی سچی ہوتی ہے ۔

لفظ ’’نبی‘‘ منقول عرفی ہے یعنی اسے لغت سے عرف شرع میں نقل کیا گیا ہے۔ پہلے ہم لفظ نبی کے لغوی معنی بیان کرتے ہیں جس کے ضمن میں اس کے ماخذ (نبوّۃ) کے معنی پر بھی روشنی پڑ جائے گی ۔ کیوں کہ مشتق میں اس کے ماخذ کے معنی کا پایا جانا ضروری ہے ۔

لفظ ’’نبی‘‘ کے معنی : نبی کے معنی (1) مُخْبِر یعنی خبر دینے والا (2) مُخْبَر یعنی خبر دیا ہوا  (3) طریق واضح (4) ایک جگہ سے دوسری جگہ نکلنے والا (5) ایک جگہ سے دوسری جگہ نکالا ہوا (6) پوشیدہ اور ہلکی آواز سننے والا (7) ظاہر (8) رفعت اور بلندی والا ۔

لفظ نبی کے منقولہ بالا آٹھ معنی لغوی ہیں اور عرف شرع میں نبی اس مقدس انسان کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ایسا مصطفیٰ، مخلص اور برگزیدہ ہو جسے اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ میں نے تجھے فلاں قوم یا تمام لوگوں کی طرف اپنا مبلغ ، پیغامبر اور نبی بنایا ہے ، یا میری طرف سے میرے بندوں کو میرے احکام پہنچا دے یا اس قسم کے اور الفاظ جو ان معنی کا فائدہ دیتے ہیں۔ جیسے بعثتک ونبئھم اللہ تعالیٰ اسے فرمائے اور ’’نبوۃ‘‘ عرف شرع میں ’’اخبار عن اللّٰہ‘‘ کو کہتے ہیں۔ بعض علماء نے ’’اطلاع علی الغیب‘‘ سے بھی نبوت کی تفسیر کی ہے۔ جیسا کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں اور علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب الدنیہ میں ارقام فرمایا ہے ۔

عربی کی لغت کی معتبر کتاب المنجد میں ہے : والنبوه الاخبار عن الغیب أو المستقبل بالهام من ﷲ الاخبار عن ﷲ وما یتعلق به تعالی ۔
ترجمہ : نبوت کا مطلب ہے ﷲ کی طرف سے الہام پا کر غیب یا مستقبل کی خبر دینا ۔ نبی کا مطلب ﷲ اور اس کے متعلقات کی خبر دینے والا ۔ (المنجد صفحہ 784)

النبی المخبر عن ﷲ لانه انباء عن ﷲ عزوجل فعیل بمعنی فاعل ۔
ترجمہ : نبی کا معنی ﷲ کی خبر دینے والا کیونکہ نبی نے ﷲ کی خبر دی۔ فعیل فاعل کے معنی میں ۔ (لسان العرب لابن منظور افریقی  14 : 9)

النباء (محرکه الخبر) وهما مترادفان وفرق بینهما بعض وقال الراغب النباء خبر ذو فائده عظیمة یحصل به علم او غلبة الظن ولا یقال للخبر فی الاصل نباحتی یتضمن هذه الاشیاء الثلاثة ویکون صادقا و حقه ان یعتری عن الکذب کالمتواتر و خبر ﷲ وخبر الرسول صلی الله علیه وآله وسلم و نتضمنه معنی الخبر یقال انباته بکذا او لتضمنه معنی العلم یقال انباته کذا والنبی المخبر عن ﷲ فان اﷲ تعالی اخبره عن توحیده واطلعه علی غیبه واعلمه انه نبیه ۔ (تاج العروس شرح القاموس للزبیدی جلد 1 صفحہ 121)
ترجمہ : نبا (حرکت کے ساتھ) اور خبر مترادف ہیں ۔ بعض نے ان میں فرق کیا ہے ۔ امام راغب کہتے ہیں نبا بڑے فائدے والی خبر ہے ۔ جس سے علم قطعی یا ظن غالب ہے جس سے علم قطعی یا ظن غالب حاصل ہو جب تک ا ن تین شرائط کو متضمن نہ ہو خبر کو نبا نہیں کہا جاتا اور یہ خبر سچی ہوتی ہے ۔ اس کا حق ہے کہ جھوٹ سے پاک ہو جیسے متواتر اور ﷲ عزوجل و رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر چونکہ نبا خبرچونکہ نبا خبر کے معنی کو مضمن ہوتی ہے ۔ اس لیے کہا جاتا ہے میں نے اسے خبر بتائی اور چونکہ معنی علم کو متضمن ہوتی ہے اس لئے کہاجاتا ہے کہ میں نے اسے یوں خبر بتائی ۔ نبی ﷲ کی طرف سے خبر دینے والا ، بے شک ﷲ نے آپ کو اپنی توحید کی خبر دی اور آپ کو اپنے غیب پر اطلاع دی اور آپ کو آپ کا نبی ہونا بتایا ۔

لفظ نبی کے یہ آٹھ لغوی معنی جو بیان کئے گئے ہیں وہ سب عرفی نبی میں پائے جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے خبر دار کیا جاتا ہے اس لئے مُخْبَر ہے اور ارشاداتِ خداوندی کی خبر اپنی امت کو دیتا ہے لہٰذا مُخْبِر ہے اور اس کی ذات نجات اخروی کا روشن راستہ اور معرفت خداوندی کا وسیلہ ہے اس لئے وہ طریق واضح ہے۔ اللہ کا نبی دشمنوں کی انتہائی ایذا رسانی کے بعد بحکم ایزدی ایک جگہ سے نکل کر دوسری جگہ جاتا ہے، یا کفار کی طرف سے شدید عداوت کی بناء پر بظاہر اس کا اخراج عمل میں آتا ہے اس لئے وہ خارج اور مُخْرَج بھی ہے ۔ نبی وحی الٰہی کی صوت خفی اور ہلکی آواز سنتا ہے لہٰذا اس میں صوت خفی سننے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ نبی علامات نبوت معجزات و آیات کا حامل ہونے کی وجہ سے کمال ظہور کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے ، اس لئے وہ ظاہر بھی ہے ۔ جسمانی اور روحانی اعتبار سے اللہ کے نبی کا مقام سب سے بلند ہوتا ہے اس لئے اس میں رفعت اور بلندی کے معنی بھی موجود ہے ۔ نبوت اور نبی کے معنی کی یہ تفصیلات ہم نے حسب ذیل کتب سے اخذ کی ہیں ۔ مسامرہ ، نبراس ، شرح مواقف ، مفردات امام راغب اصفہانی ، اقرب الموارد ، شفاء قاضی عیاض اور مواہب لدنیہ ۔

مسامرہ میں ہے : واما اصلہ لغۃ فلفظہ بالہمز وبہٖ قرأ نافع من النباء وہو الخبر فعیل بمعنی اسم الفاعل ای منبِّئٌ عن اللّٰہ او بمعنی اسم المفعول ای مُنَبَّأً لان الملک ینبئہم عن اللّٰہ بالوحی وبلا ہمزوبہ قرأ الجمہور وہو اما مخفف المہموز بقلب الہمزۃ واواً ثم ادغم الیأفیہا واما من الـنبـوۃ او النبـــاوۃ بفتح النون فیہا ای الارتفاع فہو ایضأفعیل بمعنی اسم الفاعل او بمعنی اسم المفعول لان النبی ا مرتفع الرتبۃ علی غیرہٖ او مرفوعہا ۔ (مسامرہ جلد دوم طبع مصر صفحہ ۸۳،چشتی)
ترجمہ : ازروئے لغت لفظ نبی کی اصل ہمزہ سے ہے ۔ یہی نافع کی قرأت ہے کہ انہوں نے اسے نباء سے مشتق مانا ہے جس کے معنی ’’خبر‘‘ ہیں ۔ (اس تقدیر پر) لفظ نبی فعیل کے وزن پر اسم فاعل ہے ، جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دینے والا یا اسم مفعول ہے جس کے معنی ہیں منجانب اللہ خبر دیا ہوا ۔ اس لئے کہ فرشتہ نبی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ساتھ خبر دیتا ہے اور بلا ہمزہ کے بھی اس کی اصل ہو سکتی ہے ۔ جمہور کی قرأت یہی ہے اور اس قول پر لفظ نبی کو مہموز کا مخفف مانا جائے گا بایں طور کہ اس کا ہمزہ واؤ سے بدلا گیا ہے پھر اس میں یأ کو مدغم کر دیا گیا ہے ۔ یا یہ کہا جائے کہ وہ ’’نبوۃ‘‘ یا ’’نبـأۃ‘‘ سے ماخوذ ہے ۔ ان دونوں میں نون مفتوح ہے ۔ ان دونوں لفظوں کے معنی ہیں ’’ارتفاع‘‘ اس تقدیر پر بھی لفظ نبی فعیل کے وزن پر اسم فاعل یا اسم مفعول ہے ۔ کیوں کہ نبی اپنے غیر پر بلند مرتبہ رکھنے والا ہوتا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ رتبہ کے اعتبار سے بلند کیا ہوا ہوتا ہے ۔

نبراس میں ہے : فالنبی مشتق من النبأۃ بفتح الباء وہو بمعنی الاخبار او الظہور او من النبأۃ بسکون الباء وہو الصوت الخفی وکل من المعانی الثلا ثۃ صحیح فی النبی لانہ مخبر وظاہر الحقیقۃ وسامع الوحی۔(نبراسی صفحہ ۸)
ترجمہ : پس لفظ نبی ’’نباء بفتح الباء‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’اخبار یا ظہور‘‘ یا ’’نبأۃ بسکون الباء‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’پوشیدہ آواز‘‘ اور یہ تینوں معنی نبی میں پائے جاتے ہیں کیوں کہ وہ خبر دینے والا بھی ہے اور علاماتِ نبوت کے ساتھ بحیثیت نبی ہونے کے ظاہر الحقیقت ہے اور وحی الٰہی وصوت خفی کو سننے والا ہے ۔

شرح مواقف میں ہے : المقصد الاول فی معنی النبی، وہو لفظ منقول فی العرف عن مسماہ اللغوی الی معنی عرفی اما المعنی اللغوی (فقیل ہو المنبیٔ) واشتقاقہ (من النباء) فہو حینئذٍ مہموز لکنّہ یخفف ویدغم وہذا المعنی حاصل لمن اشتہر بہذا الاسم (لانبائہ عن اللہ تعالیٰ وقیل) النبی مشتق (من النبوۃ وہو الارتفاع) یقال تنبأ فلان اذا ارتفع وعلا والرسول عن اللّٰہ تعالیٰ موصوف بذالک (لعلو شانہ) وسطوع برہانہ (وقیل من النبی وہو الطریق لانہ وسیلۃ الی اللّٰہ تعالیٰ ۔ (شرح مواقف جلد ۸ صفحہ ۲۱۷ ۔ ۲۱۸،چشتی)
ترجمہ : پہلا مقصد نبی کے معنی میں لفظ نبی اپنے لغوی مسمیٰ سے عرف شرع میں معنی عرفی کی طرف منقول ہے اس کے لغوی معنی کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ نبی کے معنی ہیں خبر دینے والا اور اس کا اشتقاق النبأ سے ہے ۔ ایسی صورت میں وہ مہموز ہے لیکن اسے مخفف یا مدغم کر دیا جاتا ہے اور یہ معنی یعنی ’’خبر دینے والا‘‘ ہر اس مقدس شخص میں پائے جاتے ہیں جو نبی کے نام سے مشہور ہے کیوں کہ وہ منجانب اللہ خبر دیتا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ نبوۃ سے مشتق ہے جن کے معنی ہیں ’’ارتفاع‘‘ عرب کے محاورہ میں تنبأ فلان اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی شخص رفیع المرتبت اور بلند رتبہ ہو جائے اور اللہ کا نبی اپنی شان کی بلندی اور برہانِ نبوت کی روشنی کی وجہ سے اس کمال کے ساتھ موصوف ہوتا ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ اس لفظ نبی سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ’’الطریق‘‘ یعنی راستہ کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ ہوتا ہے ۔

مفردات میں ہے : والنبأ الصوت الخفی ۔ (مفردات صفحہ ۵۰۰)
ترجمہ : نباء (بسکون الباء) صوت خفی کو کہتے ہیں ۔

اسی مفردات امام راغب میں ہے : النبی بغیر ہمزہ …… وَقَالَ بَعْضُ الْعُلمَائِ ھُوَ مِنَ النُّبُوَّۃِ اَیِ الرِّفْعَۃِ وَسُمِّیَ نَبِیًّا لِرِفْعَۃِ مَحَلِّہٖ عَنْ سَائِرِ النَّاسِ اَلْمَدْلُوْلِ عَلَیْہِ ’’وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا‘‘ ۔ والنبوۃ والنباوۃ الارتفاع ۔ (مفردات صفحہ ۵۰۰)
ترجمہ : بعض علماء نے کہا ہے کہ ’’نبی‘‘ ’’نبوۃ‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں رفعت و بلندی اور نبی کا نام نبی اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس کا مقام تمام لوگوں سے اونچا ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا قول ’’وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا‘‘ دلالت کرتا ہے اور (لغت میں) ’’نبوۃ‘‘ اور ’’نباوۃ‘‘ کے معنی ارتفاع ہیں ۔

اقرب الموارد میں ہے : (النبوۃ) اسم من النبیٔ وہی الاخبار عن اللّٰہ تعالیٰ ویقال النبوۃ بالقلب والادغام ۔ (اقرب الموارد جلد ۲ صفحہ ۱۲۵۹،چشتی)
ترجمہ : ’’النبوۃ‘‘ اسم ہے ’’النبیٔ‘‘ سے اور وہ نبوۃ اخبـار عن اللّٰہ تعالیٰ کے معنی میں ہے اور اس لفظ النبوۃ کو قلب و ادغام کے ساتھ النبوۃ بھی کہا جاتا ہے ۔

اسی اقرب الموارد میں ہے : النبی ایضاً الخارج من مکان الیٰ مکان فعیل بمعنی فاعل وقیل المخرج فیکون فعیلا بمعنی مفعول ۔ (اقرب الموارد جلد ۲ صفحہ ۱۰۹ طبع مصر)
ترجمہ : ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نکلنے والے کو بھی ’’نبی‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ فعیل کے وزن پر اسم فاعل ہے اور ’’ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نکالے ہوئے‘‘ کو بھی ’’نبی‘‘ کہا گیا ہے ۔ اس تقدیر پر فعیل بمعنی مفعول ہو گا ۔

لفظ ’’نبی‘‘ کے عرفی معنی : ⏬

شرح مواقف میں ہے : (واما) مسماہ (فی العرف فہو عند اہل الحق) من الاشاعرۃ و غیرہم الملیین (من قال لہ اللّٰہ) تعالیٰ ممن اصطفاہ من عبادہ ارسلنٰک الی قوم کذا اوٰلی الناس جمیع او بلغہم عنی ونحوہ من الالفاظ المفیدۃ لہذا المعنی کبعثتک ونبئہم ۔ (شرح مواقف جلد ۸ صفحہ ۲۱۸)
ترجمہ : حق پرست علماء اشاعرہ وغیرہم اہل ملت کے نزدیک عرف شرع میں لفظ نبی کا مسمیٰ وہ مقدس شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایسا برگزیدہ ہو جسے اللہ تعالیٰ فرمائے کہ میں نے تجھے اپنا پیغامبر بنا کر فلاں قوم یا تمام لوگوں کی طرف بھیجا یا میری طرف سے تو انہیں میرے احکام پہنچا دے اور اس طرح کے الفاظ جن کا مفاد یہی معنی ہوں جیسے بعثتک (میں نے تجھے مبعوث کیا) نبئہم (میری طرف سے میرے بندوں کو خبر پہنچا دے) ۔

شفاء قاضی عیاض میں نبوۃ شرعیہ کی تفسیر ان الفاظ میں فرمائی : ’’النبوۃ التی ہی الاطلاع علی الغیب‘‘ (شفاء شریف صفحہ ۷۳)
ترجمہ : وہ نبوت جو اطلاع علی الغیب ہے ۔

بعینہٖ یہی عبارت مواہب لدنیہ میں علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارقام فرمائی ہے ۔ (مواہب لدنیہ جلد ۱ صفحہ ۲۸۱)

کلمہ طیبہ لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ نماز ، زکوٰۃ ، حج ، حج کے مہنے دن جگہ ، زکوٰۃ کی شرح و شرائط، اور نماز (صلوٰۃ) کی شکل و صورت سب غیب تھا صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے ہمیں ان کی تفسیر و تشریح معلوم ہوئی ۔ جو شخص نبی کے علم غیب کا انکار کرے وہ ان شرعی احکام کو قرآن یا لغت کی مدد سے ثابت کر کے دکھائے۔ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہنے سے پہلے کہ نبی کو ﷲ نے غیب کا علم نہیں دیا ۔ اس کے نتائج اور اپنی عاقبت پر نگاہ رکھے ۔ امت کو گمراہ نہ کرے ۔ رہی یہ حقیقت کہ علم ﷲ کی عطا سے ہے تو ہم ہزار بار اعلان کرتے ہیں کہ کسی مخلوق کی نہ ذات مستقل ہے نہ کوئی صفت ، سب ﷲ کی عطا و کرم سے ہے مگر جو ہے اسے تسلیم تو کرنا فرض ہے ۔ یہی ایمان ہے ، یہی دیانت ہے ۔

قرآنِ پاک کی کئی  آیاتِ مبارَکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارَک علمِ غیب کا بیان موجود ہے : وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۚ-وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ۔ (پ 4،اٰل عمرٰن:179)
ترجَمہ : اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے ۔

شانِ نُزُول : امام شہابُ الدّین احمد بن علی المعروف ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : میری اُمّت مجھ پر ایسے پیش کی گئی جیسے حضرتِ آدم علیہ السَّلام پر پیش کی گئی تھی تو میں نے جان لیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا ۔ یہ بات جب منافقین تک پہنچی تو انہوں نے کہا : مَعَاذَ اللہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گمان کرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کون ان پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا حالانکہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں نہیں جانتے ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (العجاب فی بیان الاسباب ،2/798)

امام بَغَوی (سالِ وفات:510ھ)،امام سراجُ الدّین عمر حنبلی (سالِ وفات:775ھ)، امام محمد بن احمد شِربِینی (سالِ وفات: 977ھ) اور امام علاءُ الدّین علی بن محمد خازن رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین (سالِ وفات: 741ھ) نے کچھ الفاظ کے اختلاف کے ساتھ مزید یوں بیان فرمایا ہے کہ : منافقوں کا اعتراض سُن کر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم منبر پر کھڑے ہوئے ، اللہ کریم کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم پر اعتراض کرتے ہیں : لَا تَسْألُونِي عَن شَيءٍ فِيما بَينَكُم وَبَينَ السَّاعَةِ اِلّا نَبَّاْ تُكُم بِهٖ ، یعنی تمہارے اور قیامت کے درمیان جو کچھ بھی ہے تم مجھ سے ان میں سے جس کسی چیز کے بارے میں سوال کرو گے میں تمہیں اس کی خبر دوں گا ۔ حضرت عبد اللہ بن حُذَافہ سَہمی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھڑے ہو کر کہا : مَنْ اَبِيْ يَا رَسُولَ اللّٰه ؟ ، يارسولَ اللّٰه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا والد کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : حُذافہ ، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کی : يا رسولَ اللّٰه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم  اللہ پاک کے ربّ ہونے ، اسلام کے دین ہونے ، قراٰن کے امام و پیشوا ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ، اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے ہمیں معاف فرما دیجئے ۔ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا : فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ، تو کیا تم باز آئے ، پھر منبر سے نیچے تشریف لے آئے اس پر اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (تفسیر خازن ، پ 4 ، اٰل عمرٰن ،  179،1 /328)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کا بیان قراٰنِ پاک کے پارہ پانچ میں یوں ہے : وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا ۔ (پ5، النساء:113)
ترجَمہ : اورتمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ  کا تم پر بڑا فضل ہے ۔

یہ آیتِ مبارَکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم مدح اور تعریف پر مشتمل ہے ۔ اللہ کریم نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور آپ کو دین کے اُمور ، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ تمام عُلوم عطا فرما دیے جو آپ نہ جانتے تھے چنانچہ اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں امام ابوجعفر محمد بن جریر طَبَری علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مِنْ خَبَرِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِيْنَ ، وَمَا كَانَ وَمَا هُوَ كَائِنٌ ، فَكُلُّ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِِ اللّٰه عَلَيْك یعنی اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اوّلین و آخِرین کی خبریں دیں اور جو کچھ ہو چکا اور جو ہو گا اس سب کا علم عطا فرمادیا اور یہ سب کچھ آپ پر آپ کے ربّ کا فضل ہے ۔ (تفسیر طبری،4/275)

یاد رہے ’’ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ   ‘‘ میں وہ سب کچھ داخل ہے جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے نہ جانتے تھے ۔ اسی آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر البحرالمحیط ، ج 3 ، ص362  ، زاد المسیر فی علم التفسیر ، جزثانی،ج 1،ص118، اور روح المعانی،ج3 ،ص 187 میں اس کی تصریح اور وضاحت ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔

اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے : عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ (۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ یَسْلُكُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًاۙ (۲۷) ۔ (پ 29، الجن:26-27)
ترجَمہ : غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا ۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کہ ان کے آگے پیچھے پہرا مقرّر کر دیتا ہے ۔

اللہ  پاک فرماتا ہے : وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ ۔
ترجَمہ : اوریہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں ۔ (پ 30، التکویر:24)

جو ہوچکا جو ہوگا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی عطاء سے جانتے ہیں : ⏬

بعض لوگ اس عقیدے کو جو کہ قران و حدیث سے ماخوذ ہے مشرکانہ عقیدہ بتاتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا ازلی شقاوت کے اظہار کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے علم ماکان و مایکون کا عقیدہ دراصل اکابرین و سلف صالحین علیہم الرّحمہ کا عقیدہ ہے ۔

اللہ ربّ العزّت ارشاد فرماتا ہے : (اَلرَّحْمٰنُۙ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ (۲) خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ (۳) عَلَّمَهُ الْبَیَانَ (۴) ۔ (پ 27، الرحمٰن:1تا4)
ترجمہ : رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا ۔ انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا ۔ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْن کا بیان اُنہیں سکھایا ۔

اس آیت میں ’’انسان‘‘ اور’’بیان‘‘ کے مِصداق کے بارے میں مفسّرین کے مختلف قول ہیں ، تفسیرِ خازن میں ایک قول اس طرح ہے: اَرَادَ بِالإنسانِ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں انسان سے مراد محمدِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں عَلَّمَهُ الْبَيَان يَعني بَيَان مَا يَكُونُ وَمَا كَان لِأَنّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يُنبِئُ عَن خَبْرِ الأوَّلِينَ وَالآخِرِينَ وَعَن يَومِ الدِّين ۔
ترجمہ : ”بیان“سے’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا ، کا بیان مراد ہے کیونکہ نبِی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَوّلین و آخِرین اور قیامت کے دن کی خبریں دیتے تھے ۔ (تفسیر خازن، الرحمٰن،:3-4،4/208)

امام حسین بن مسعود بَغَوی (سالِ وفات: 510ھ) نے تفسیر معالمُ التنزیل ، 4 / 243 پر، امام عبدالرّحمٰن ابنِ جوزی (سالِ وفات:597ھ) نے تفسیر ِزاد المسیر،جز اوّل، 4/304 پر ،علامہ ثناء اللہ نقشبندی (سالِ وفات: 1225ھ) نے تفسیرِ مَظہری، 9/123 پر ، علامہ احمد صاوی(سالِ وفات: 1241ھ ، چشتی) نے تفسیرِ صاوی،6/2074 پر اسی آیت کے تحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے علمِ ما کان و ما یکون کا قول ذکر فرمایا ہے ۔

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا !"خلق الانسان علمہ البیان" اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ۔ (ترجمہ جونا گڑھی غیر مقلد)

ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے ان میں سے چند اکابرین مفسرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر پیش خدمت ہیں : مشہور مفسّر امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خلق الانسان یعنی محمداً صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (تفسیر البغوی معالم التنزیل صفحہ ١٢٥٧ ابی محمد حسین بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥١٦ھ)

اسی طرح قدیم مفسّر امام قرطبی رحمتہ ﷲ علیہ یوں فرماتے ہیں : الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والبیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان الجزءالعشرون صفحہ١١٣ ، ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٧١ھ)

ایک اور مفسّر امام ابن عادل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد بالانسان ھنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (اللباب فی علوم الکتاب المشہور تفسیر ابن عادل الجزء الثامن عشر صفحہ ٢٩٣ - ٢٩٤ ، ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٨٠ھ،چشتی)

اسی طرح امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر میں موجود ہے : خلق الانسان یعنی محمداً صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ ( الکشف والبیان فی تفسیر القران المشہور تفسیر الثعلبی الجزء السادس صفحہ٤٨، للعلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٢٧ھ)

الحمد للہ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ علم غیب متقدمین مفسرین اکابرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر اور عقائد و نظریات کے مطابق ہے ۔

لفظ نبی کا ترجمہ : ⏬

چھٹی صدی ہجری کی مشہور اور علمی شخصیّت قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ لفظ نبی کا معنی و مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں : والمعنیٰ ان ﷲ تعالیٰ اطلعہ علیٰ غیبہ ۔ ترجمہ : اس کا معنی یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اسے غیب پر مطلع فرمایا ہے ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم الجزء الاول صفحہ ١٥٧ القاضی ابی الفضل عیاض مالکی الیحصُبی اندلسی ثم مراکشی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥٤٤ھ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان ، النسختہ الثانیہ صفحہ ١٦٩ مطبوعہ دارالحدیث القاہرہ مصر،چشتی)(کتاب الشفاء اردو جلد اول صفحہ 388 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور پاکستان)۔(دوسرا نسخہ حصہ اول صفحہ 178 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

شفاء شریف کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (والمعنیٰ) ای معنیٰ النبی المفھوم من الکلام علیٰ ھذا القول (ان ﷲ اطلعہ علیٰ غیبہ) ای اعلمہ واخبرہ بمغیباتہ ۔
ترجمہ : علامہ خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ نبی کا جو معنی بتایا ہے کہ : ﷲ نے اسے غیب پر مطلع کیا ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الجزء الثالث صفحہ ٣٤١ شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر الخفاجی المصری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٠٦٩  مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو لفظ نبی کا ترجمہ : غیب کی خبریں بتانے والا ۔ کیا ہے یہ ترجمہ اکابرین و سلف صالحین کی تعلیمات اور ان کے عقائد کے عین مطابق ہے ۔

عقیدۂ علم غیب اور امام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ : ⏬

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : " عَالِمُ الغَیبِ فَلَا یُظہِرُ عَلیٰ غَیبِہ اَحَداً اِلَّا مَنِ الرتَضیٰ مِن الرَسُول " ۔ (سورہ جنّ آیت ٢٦ ٢٧)
ترجمہ : وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے ۔ (مولوی محمد جوناگڑھی غیتر مقلد)

اس آیت کی تفسیر میں معروف مفسّر "امام قُرطبی" رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کان فیہ دلیل علیٰ انّہ لا یعلم الغیب احد سواہ , ثم استثنیٰ من ارتضاہ من الرسل ۔
ترجمہ : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا پھر ان رسولوں (علیہم السّلام) کو اس سے مستثنیٰ کردیا جن پر وہ راضی ہے ۔ (الجامع الاحکام القران صفحہ ٣٠٨الجزء الحادی والعشرون مؤلف ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٧١ مطبوعہ بیروت لبنان،چشتی)۔(تفسیر قرطبی مترجم اردو جلد دہم صفحہ ٣٩ مطبوعہ ضیاء القران لاہور)

معلوم ہوا کہ ﷲ پاک اپنے پسندیدہ رسولوں کو "علمِ غیب" عطا فرماتا ہے اور بحمد ﷲ قرآن پاک کی مذکورہ آیت اور اس کی تفسیر اسی بات پر دلالت کرتی ہے ! یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ "اہلسنت و جماعت" نے قران کو اسی طرح سمجھا ہے جیسے اکابرین و سلف صالحین رحمھم ﷲ علیہم اجمعین نے سمجھا تھا ۔

صحیح بخاری شریف میں ہے : أن النبيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خرج حين زاغت الشمس فصلَّى الظهر ، فلما سلم قام على المنبر ، فذكر الساعة ، وذكر أن بين يديها أمورا عظاما ، ثم قال : ( من أحب أن يسأل عن شيء فليسأل عنه ، فوالله لا تسألوني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا ) . قال أنس : فأكثر الناس البكاء ، وأكثر رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يقول : ( سلوني ) . فقال أنس : فقام إليه رجلٌ فقال : أين مدخلي يا رسولَ اللهِ ؟ قال : ( النار ) . فقام عبد الله بن حذافة فقال : من أبي يا رسولَ اللهِ ؟ قال : ( أبوك حذافة ) . قال : ثم أكثر أن يقول : ( سلوني ، سلوني ) . فبرك عمر على ركبتيه فقال : رضينا بالله ربا ، وبالإسلام دينا ، وبمحمد صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ورسولا . قال : فسكت رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حين قال عمر ذلك ، ثم قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( أولى ، والذي نفسي بيده ، لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا في عرض هذا الحائط ، وأنا أصلي ، فلم أر كاليومَ في الخير والشر) . (الراوي : أنس بن مالك  المحدث : البخاري  المصدر : صحيح البخاري الصفحة أو الرقم: 7294  خلاصة حكم المحدث : صحيح،چشتی)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا : جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : دوزخ میں۔ پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا باپ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو ، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے ۔ ہم ﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا) ۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا ۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ ، فَقَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ ، فَذَكَرَ أَنَّ فِيهَا أُمُورًا عِظَامًا ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ ، فَلَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا ، فَأَكْثَرَ النَّاسُ فِي الْبُكَاءِ ، وَأَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ : سَلُونِي ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ السَّهْمِيُّ ، فَقَالَ : مَنْ أَبِي ؟ قَالَ : أَبُوكَ حُذَافَةُ ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ : سَلُونِي ، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ، فَقَالَ : رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، فَسَكَتَ ثُمَّ قَالَ : عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ ، فَلَمْ أَرَ كَالْخَيْرِ وَالشَّرّ۔
ترجمہ : سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور انہیں نمازِ ظہر پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا تو منبر پر کھڑے ہو کر قیامت کا ذکر فرمایا ۔ یہ بتلایا کہ اس سے قبل بڑے بڑے امور ظاہر ہوں گے پھر فرمایا : من اجب ان یسالنی عن شیءِِ فلیسئالنی عنہ فواللہ لا تسئالوننی عن شیی ءِِ اِلا اَخبرتکم بہٖ مادمت فی مقامی ھٰذا ۔ جو شخص ان کے متعلق مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو وہ سوال کرے ۔ اللہ کی قسم ! میں جب تک اس جگہ کھڑا ہوں تم جس چیز کے متعلق بھی پوچھو گے میں تم کو اس کی خبر دوں گا ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے یہ سنا تو انہوں نے بہت رونا شروع کردیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار یہ فرماتے تھے ۔ سَلُونِی ۔ مجھ سے پوچھو ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا ۔ مَن ابی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے والد کون ہیں ؟ فرمایا : ابوک حذافۃ ، تمہارا باپ حذافہ ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے : ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے ، پھر فرمایا ابھی مجھ پر جنت اور جہنم ا س دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں ، میں نے ایسی بھلی اور بری چیز نہیں دیکھی ۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰،چشتی)،(صحیح مسلم شریف جلد ۷ صفحہ ۹۳ باب کراھۃ اکثار السوال۔ طباعت نسخہ معتمدہ قدیمہ از مخطوطہ ترکی)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:‏‏‏‏ “سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ حُذَافَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسے سوالات کئے گئے جو ناپسند تھے جب زیادہ کئے گئے تو آپ ناراض ہو گئے ، پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ۔ ایک شخص عرض گزار ہوا : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا تمہارا باپ حُذافہ ہے ۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا سالم مولی شیبہ ہے ۔ جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی حالت دیکھی تو عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف توبہ کرتے ہیں ۔ (بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم ۔ ۱/۵۱، الحدیث: ۹۲)

بے  عشق  نبی   جو  پڑھتے  ہیں  بخاری
آتا  ہے  بخار  اُن   کو   بخاری   نہیں  آتی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : میری امت کی پیدائش سے پہلے جب میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا۔ یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے اِستِہزاء کے طور پر کہا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا اورکون کفر کرے گا ، جبکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتے نہیں ۔ اس پر حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن (اعتراض) کرتے ہیں ، آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : حذافہ ، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کھڑے ہوکر عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ربوبیت پر راضی ہوئے ، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے، قرآن کے امام و پیشواہونے پر راضی ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معافی چاہتے ہیں ۔ تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم باز آؤ گے؟ کیا تم باز آؤ گے ؟ پھر منبر سے اتر آئے اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (تفسیر خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۱/۳۲۸،چشتی)

معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بار بار ارشاد فرمانا کہ سلونی مجھ سے سوال کرو ۔ مجھ سے جو پوچھنا چاہو پوچھو ۔ اس سے عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہرچیز کا علم عطا فرمایا ہے پھر حضرت حذافہ رضی اللہ عنہ کو لوگ کسی اور آدمی کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ تو آپ نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرکے اس الزام کی بھی وضاحت کرالوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ حذافہ ہے اس سے پہلے بھی وہ اسی کی طرف منسوب تھا ۔ جو لوگ کہتے تھے وہ ایک الزام اور بہتان تھا ۔ اور ساتھ میں امام مسلم کی تفصیل میں بھی لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مغیبات (یعنی غیب سے) آگاہ فرما رکھا ہے ۔

جو ہو چکا جو ہو گا حضور جانتے ہیں
تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چند چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا جن کو آپ نے ناپسند کیا جب آپ سے زیادہ سوالات کیے گئے تو آپ غضبناک ہوئے اور آپ نے لوگوں سے فرمایا تم جو چاہو مجھ سے سوال کرو ‘ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا باپ حذافہ ہے ‘ دوسرے شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تمہارا باپ شیبہ کا آزادہ کردہ غلام سالم ہے ‘ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے میں غضب کے آثار دیکھے تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم اللہ عزوجل سے توبہ کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢٠۔ ١٩‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ،چشتی)

اس حدیث سے یہ وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ کا یہ فرمانا مجھ سے جو چاہو سوال کرو یہ اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر سوال کے جواب کا علم عطا فرمایا ہو خواہ احکام شرعیہ سے متعلق سوال کیا جائے یا ماضی اور مستقبل کی خبروں کے متعلق سوال کیا جائے یا اسرار تکوینیہ کے متعلق سوال کیا جائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کو عموم پر ہی محمول کیا تھا اس لیے دو اصحاب نے آپ سے اپنے نسب کے متعلق سوال کیا ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان ایک مجلس میں کھڑے ہوئے پھر آپ نے ابتداء خلق سے خبریں بیان کرنا شروع کیں حتی کہ جنتیوں کے اپنے ٹھکانوں تک جانے اور جہنمیوں کے اپنے ٹھکانوں تک جانے کی خبریں بیان کیں جس شخص نے ان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے ان کو بھلا دیا اس نے ان کو بھلا دیا ۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٤٥٣ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم میں ایک تقریر فرمائی اور اس میں قیامت تک ہونے والے تمام امور بیان فرمادیے جس شخص نے اسے جان لیا اس نے جان لیا اور جس نے نہ جانا اس نے نہ جانا ۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٩٧٧ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ ظہر کا وقت آگیا پھر منبر سے اترے اور ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ عصر کا وقت آگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے اور عصر کی نماز پڑھائی پھر آپ نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا حتی کہ سورج غروب ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں تمام ماکان وما یکون کی خبریں دی سو جو ہم میں زیادہ حافظہ والا تھا اس کو ان کا زیادہ علم تھا ۔ (صحیح مسلم ج ٤ ص ‘ ٢٢١٧‘ رقم الحدیث ٢٨٩٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی نماز کے لیے آنے میں دیر کی حتی کہ عنقریب ہم سورج کو دیکھ لیتے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی سے آئے اور نماز کی اقامت کہی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختصر نماز پڑھائی ‘ پھر آپ نے سلام پھیر کر ہم سے بہ آواز بلند فرمایا جس طرح اپنی صفوں میں بیٹھے ہو بیٹھے رہو ‘ پھر ہماری طرف مڑے اور فرمایا میں اب تم سے یہ بیان کروں گا کہ مجھے صبح کی نماز کے لیے آنے میں کیوں دیر ہوگئی ‘ میں رات کو اٹھا اور وضو کر کے میں اتنی نماز پڑھی جتنی میرے لیے مقدر کی گئی تھی پھر مجھے نماز میں اونگھ آگئی پھر مجھے گہری نیند آئی اچانک میں نے اچھی صورت میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا رب تعالیٰ نے فرمایا : اے محمد ! میں نے کہا اے میرے رب میں حاضر ہوں ‘ فرمایا ملاء اعلی کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا ‘ آپ نے کہا میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا اور اس کے پوروں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی پھر ہر چیز مجھ پر منکشف ہوگئی اور میں نے اس کو جان لیا ۔ الحدیث الی قولہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ میں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا یہ حدیث صحیح ہے ۔ (الجامع الصحیح ج ٥ ص ٣٦٩۔ ٣٦٨‘ رقم الحدیث ٣٢٣٥‘ مطبوعہ بیروت ‘ ج ٢ ص ١٥٥‘ فاروقی کتب خانہ ملتان ‘ ومطبع مجتبائی پاکستان وکتب خانہ رحیمیہ دیوبند انڈیا ‘ مسند احمد ج ١ ص ٣٦٨‘ ج ٤ ص ٦٦‘ العلل المتناصیہ ج ١ ص ٢١۔ ٢٠)

سنن ترمذی میں ہی حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے مروی روایت میں ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں نے (خواب میں) اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا ‘ میرے رب نے فرمایا : اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! میں نے کہا حاضر ہوں یارب ! فرمایا ملاء اعلی کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا اے رب میں نہیں جانتا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی ‘ پھر میں نے جان لیا جو کچھ مشرق اور مغرب کے درمیان ہے ۔ (الجامع الصحیح ج ٥ ص ٣٦٧‘ رقم الحدیث ٣٢٣٤‘ مطبوعہ بیروت ‘ ج ٢ ص ١٥٦‘ فاروقی کتب خانہ ملتان ‘ ومطبع مجتبائی پاکستان وکتب خانہ رحیمیہ دیوبند انڈیا ‘ تحفۃ الاحوذی ج ٢ ص ١٧٥۔ ١٧٣‘ نشرالسنۃ ملتان)

یہ حدیث حضرت عبدالرحمن بن عائش رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے دیکھئے سنن دارمی ج ٢ ص ٥١‘ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص ٣٧٨‘ جامع البیان للطبری ج ٧ ص ١٦٢‘ الدرالمنثور ج ٣ ص ٢٤‘ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کو امام ابن خزیمہ اور امام ابو نعیم کے حوالے سے بھی ذکر کیا ہے۔ الاصابہ ج ٢ ص ٣٩٩۔ ٣٩٧‘ الطبقات الکبری ج ٧ ص ١٥٠‘ زاد المسیر ج ١ ص ١٥٥‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ١ ص ٢٢٥ میں بھی یہ حدیث مذکور ہے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴،چشتی)

حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا ، اس نے اپنا دستِ قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا ، میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی ، اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا ۔ (سنن ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص ، ۵/۱۶۰، الحدیث : ۳۲۴۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ عزوجل نے میرے لیے دُنیا کو اٹھا کر اسطرح میرے سامنے پیش فرما دیا کہ میں  تمام دنیا کو اور اس میں  قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ان سب کو اس طرح دیکھ رہا ہوں  جس طرح میں  اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب، المقصد الثامن، الفصل الثالث، ج۱۰، ص۱۲۳،چشتی)(حلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب، الحدیث۷۹۷۹، ج۶،ص۱۰۷)(زرقانی علی المواہب جلد ۷ صفحہ ۲۳۴)

جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ’’اَفضل الْخَلق ‘‘ہیں  اسی طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ’’اَعلم ُالْخَلق ‘‘ بھی ہیں  کہ تمام جن و انس اور ملائکہ کے علوم سے بڑھ کر آپکا علم ہے یہاں تک کہ حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  نے اپنے قصیدۂ بُردَہ میں  فرمایا کہ :

فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا    وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ
ترجمہ :  یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دنیا اور اس کی سوکن (یعنی آخرت) یہ دونوں آپ کی سخاوت کے ثمرات میں  سے ہیں  اور ’’لوح و قلم کا علم ‘‘آپ کے علوم کا ایک جزو ہے ۔ (القصیدۃ البردۃ الفصل العاشر فی المناجات و عرض الحال)


سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ علمِ غیب کے سلسلے میں اہلسنت و جماعت کا عقیدہ کیا ہے ۔ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ بے شک اللہ عزوجل کا غیب جاننے والا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے برگزیدہ اور پسندیدہ بندوں جتنا چاہا علم عطا فرمایا۔ اسی طرح علمِ غیب کی بھی دو اشکال ہیں ۔ ایک تو علمِ ذاتی ہے اور دوسرا علمِ عطائی ۔ علمِ ذاتی صرف اللہ عزوجل کا ہی خاصہ ہے اللہ عزوجل کا علم ذاتی نہ کہ کسی کا عطا کیا ہوا ۔ اور علمِ عطائی سے مراد وہ علم جو اللہ عزوجل نے اپنے فضل وکرم سے مخلوق کو عطا کیا ۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ اللہ عزوجل بھی دیکھتا ہے ، سنتا ہے ۔ اور مخلوق بھی دیکھ سکتی ہے ، سن سکتی ہے ۔ لیکن اللہ عزوجل کی یہ صفات ذاتی ہیں نہ کہ عطائی ۔ اور ہم مخلوق کی صفات سب اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کردہ ہیں ، از خود ہم کسی قابل نہیں ۔ اسی طرح اہلسنت و جماعت کا عقیدہ یہی ہے کہ انبیاۓ کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا غیب کا علم اللہ عزوجل کی طرف سے عطا ہوا نہ کہ یہ ان صفتِ ذاتی ہے ۔ از خود علمِ غیب کا حاصل ہونا محال ہے ۔ جو کوئی اللہ عزوجل کے علاوہ کسی پر بھی ذاتی صفات کا اطلاق کرے اس کے خلاف اہلسنت و جماعت کے فتاوٰی موجود ہیں ۔ جو آیات علمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نفی کے طور پر پیش کی گئی ان کی توجیہات مفّسرین نے یہ بیان کی ہیں کہ : ⏬

اول تو یہ کہ یہ علم غیب ذاتی کی نفی ہے ۔

دوم یہ کلام تواضع وانکساری اور عاجزی کے طور پر بیان ہوا ۔

سوم یہ کہ میں دعوےٰ نہیں کرتا کہ میں علمِ غیب جانتا ہوں یعنی دعوٰی علمِ غیب کی نفی ہے نہ کہ علم کی ۔

اور ہمارا یہ موقف آپ کی پیشکردہ آیات کی تفاسیر پڑھنے سے بخوبی واضح ہوجائے گا ۔ جیسے آپ ہی کی پیش کردہ سورۃ الانعام آیت 50 کی تفسیر دیکھیں ۔

تفسیرِ نیشاپوری میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ : ويحتمل أن يكون عطفاً على { لا أقول } أي قل لا أعلم الغيب فيكون فيه دلالة على أن الغيب بالاستقلال لا يعلمه ۔

اس آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ لااعلم کا عطف لا اقول پر ہو یعنی اے محبوب فرمادو کہ میں غیب نہیں جانتا تو اس میں دلالت اس پر ہو گی کہ غیب بالاستقلال یعنی ذاتی سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ۔

تفسیرِ خازن میں ہے کہ : وانما نفی عن نفسہ الشریفۃ ھذہ الاشیاء تواصنعا تعالٰی و اعترافا للعبودیۃ فلست اقوال شیئا من ذالک ولا ادعیہ ۔

ان چیزون کی اپنی ذات کریمہ سے نفی فرمائی ، رب کےلیے عاجزی کرتے ہوئے اور اپنی بندگی کا اقرار فرماتے ہوئے یعنی میں اسمیں سے کچھ نہیں جانتا اور کسی چیز کا دعوٰی نہیں کرتا ۔

اسی طرح روح المعانی میں اس آیت کے ماتحت لکھا ہے کہ؛عطف علی عندی خزائن اللہ ولا مذکرۃ للنفی ای ولا ادعی انی ولکن لا اقول لکم فمن قال ان نبی اللہ لا یعلم الغیب فقد اخطافیما اصاب ۔

اس کا عطف عندی خزائن اللہ پر ہے اور لا زائدۃ ہے نفی کا یاد دلانے والا یعنی میں یہ دعوٰی نہیں کرتا کہ خدا کے افعال میں غیب جانتا ہوں اس بناء پر کہ خزائن اللہ میرے پاس تو ہیں مگر میں یہ کہتا نہیں۔ تو جو شخص یہ کہے کہ نبی اللہ غیب نہیں جانتے تھے اس نے غلطی کی اس آیت میں جس میں یہ مصیب تھا ۔

سورۃ الاعراف کی آیت 188 کے بارے میں بھی علما ومحققین کا یہی قول ہے جیسا کے نسیم الریاض شرح الشفا میں ہے کہ؛قولہ ولوکنت اعلم فان المنقی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ علیہ السلام باعلام اللہ تعالٰی ۔

علم غیب کا ماننا اس آیت کے منافی نہیں کہ "ولو کنت اعلم الغیب الخ" کیونکہ نفی علم بغیر واسطہ کی ہے لیکن حضور علیہ السلام کا غٰب پر مطلع ہونا اللہ کے بتانے سے واقع ہے ۔

تفسیر روح البیان میں اس آیت کے ماتحت ہے کہ؛وقد ذهب بعض المشايخ الى ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يعرف وقت الساعة باعلام الله تعالى وهو لا ينافى الحصر فى الآية كما لا يخفى ۔

بعض مشائخ اس طرف گئے ہیں کہ نبی علیہ السلام قیامت کا وقت بھی جانتے ہیں اللہ کے بتانے سے اور ان کا یہ کلام اس آیت کے حق کے خلاف نہیں ۔ جیسا کہ مخفی نہیں ۔

کچھ آیات علمِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں : ⏬

وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء۔(سورۃ آل عمران آیت 179)۔
ترجمہ  اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ اسے عام لوگو تم کو علم غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے ۔

تفسیرِ کبیر میں امام رازی علیہ الرحمہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : فاما معرفۃ ذلک علی سبیل الاعلام من الغیب فھو من خواص الانبیاء (جمل) المعنی لکن اللہ یحتبی ان یصطفے من رسلہ من یشاء فیطلعہ علی الغیب (جلالین) وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب فتعرفوا المنافق قبل التمیز ولکن اللہ یحتبی و یختار من یشاء فیطلع علی غیبہ کما اطلع النبی علیہ السلام علی حال المنافقین ۔
ترجمہ  لیکن ان باتوں کا بطریق غیب پر مطلع ہونیکے جان لینا یہ انبیاء کرام کی خصوصیت ہے ۔ (مجمل) معنٰی یہ ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے پس ان کو غیب پر مطلع کرتا ہے۔ خداتعالٰی تم کو غیب پر مطلع نہیں کرنے کا تاکہ فرق کرنے سے پہلے منافقوں کو جان لو۔ لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے چھانٹ لیتا ہے تو اس کو اپنے غیب پر مطلع فرماتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منافقین کے حال پر مطلع فرمایا ۔

تفسیر بیضاوی میں اسی آیت کے ما تحت ہے : وما کان اللہ لیوتی احدکم علم الغیب فیطلع علی ما فی القلوب من کفر و ایمان ولکن اللہ یجتبی لرسالتہ من یشاء فیوحی اللہ و یخبرہ ببعض المغیبات او ینصب لہ ما یدل علیہ ۔
ترجمہ : خدا تعالٰی تم میں سے کسی کو علم غیب دینے کا کہ مطلع کرے اس کفر و ایمان پر جو دلوں میں ہوتا ہے لیکن اللہ اپنی پیغمبری کیلئے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے پس اسکی طرف وحی فرماتا ہے اور بعض غیوب کی ان کو خبر دیتا ہے یا ان کے لئے ایسے دلائل قائم فرماتا ہے جو غیب پر رہبری کریں ۔

فلا یظھر علی غیبہ احد من ارتضی من رسول ۔ (سورۃ الجنّ آیت 26)
ترجمہ : تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔

تفسیرِ کبیر میں اس آیت کے تحت لکھا ہے : ای وقت وقوع القیمۃ من الغیب الذی لا یظھرہ اللہ لاحد فان قیل فاذا حملتم ذلک علی القیمۃ فکیف قال الا من ارتضی من رسول مع انہ لا یظھر ھذا لغیب لاحد قلنابل یظھرہ عند قریب القیمۃ ۔
ترجمہ : قیامت کے آنے کا وقت ان غیبوں میں سے ہے جس کو اللہ تعالٰی کسی ہر ظاہر نہیں فرماتا پس اگر کہا جاوے کہ جب تم اس غیب کو قیامت پر محمول کر لیاتو اب رب تعالٰی نے یہ کیسے فرمایا! مگر پسندیدہ رسولوں کو حالانکہ یہ غیب تو کسی پر ظاہر نہیں کیا جاتا تو ہم کہیں گے کہ رب تعالٰی قیامت کے قریب ظاہر فرما دے گا ۔

تفسیرِ الخازن میں اس آیت کے تحت لکھا ہے : {إلا من ارتضى من رسول} يعني إلا من يصطفيه لرسالته ونبوته فيظهره على ما يشاء من الغيب حتى يستدل على نبوته بما يخبر به من المغيبات فيكون ذلك معجزة ۔

جو چیز تمام مخلوق سے غائب ہو وہ غائب مطلق ہے جیسے قیامت کے آنے کا وقت اور روزانہ اور ہر چیز کے پیدائشی اور شرعی احکام اور جیسے پروردگار کی ذات و صفات بر طریق تفصیل اس قسم کو رب کا خاص غیب کہتے ہیں۔پس اپنے خاص غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ۔ اس کے سوا جسکو پسند فرمادے اور وہ رسول ہوتے ہیں خواہ فرشتے کی جنس سے ہوں یا انسان کی جنس سے جیسے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بعض خاص غیب ظاہر فرماتا ہے۔ سوا اس کے جس کو اپنی نبوت اور رسالت کے لئے چن لیا پس ظاہر فرماتا ہے جس پر چاہتا ہے غیب تاکہ انکی نبوت پر دلیل پکڑی جاوے ان غیب چیزوں سے جس کی وہ خبر دیتے ہیں پس یہ ان کا معجزہ ہوتا ہے ۔

ولا یحیطون بشئ من علمہ الا بماشاء ۔ (سورۃ البقرہ آیت 255)۔
ترجمہ : اور نہیں پاتے اس کے علم میں مگر جتنا وہ چاہے ۔

تفسیر خازن میں لکھا ہے کہ : إلاّ بما شاء ۔ يعني أن يطلعهم عليه وهم من الأنبياء والرسل ليكون ما يطلعهم عليه من علم غيبه دليلاً على نبوتهم كما قال تعالى: { فلا يظهر على غيبه أحداً إلاّ من ارتضى من رسول ۔
ترجمہ : خدا تعالٰی ان کو اپنے علم پر اطلاع دیتا ہے اور وہ انبیاء اور رسل ہیں تاکہ ان کا علم غیب پر مطلع ہونا ان کی نبوت کی دلیل ہو جیسے رب نے فرمایا ہے کہ پس نہیں ظاہر فرماتا اپنے غیب خاص پر کسی کو سوائے اس کے رسول جس سے رب راضی ہے ۔

تفسیرِ البغوی معالم التنزیل میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ : وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ ۔ أي من علم الله { إِلاَّ بِمَا شَآءَ } أن يطلعهم عليه يعني لا يحيطون بشيء من علم الغيب إلا بما شاء مما أخبر به الرسل ۔ یعنی یہ لوگ علم غیب کو نہیں گھیر سکتے مگر جس قدر کہ خدا چاہے جس کی خبر رسولوں نے دی ۔

یہ تو صرف چند آیات پیش کیں ہیں ورنہ ربِ کائنات نے قرآنِ کریم نے کئی مقامات پر میرے آقاومولیٰ مالک و مختارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا بیان فرمایا ہے ۔ اب اسی ضمن میں کچھ احادیث بھی پڑھ لیں ۔

بخاری کتاب بدءالحلق اور مشکوٰۃ جلد دوم باب بدءالخلق و ذکر الانیباء میں حضرت فاروق سے روایت ہے: قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مقاما فاخبرنا عن بدءالخلق حتٰی دخل اھل الجنۃ منازلھم واھل النار منازلھم حفظ ذلک من حفظہ و نسیہ من نسیہ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ قیام فرمایا پس ہم کو ابتداء پیدائش کی خبر دےد ی ۔ یہاں تک کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی میں جس نے یاد رکھا ۔ اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا ۔

مشکوٰۃ باب المعجزات میں مسلم بروایت عمرو ابن اخطب اسی طرح منقول ہے مگر اس میں اتنا اور ہے ۔ فاخبرنا بما ھو کائن الٰی یوم القٰمۃ فاعلمنا احفظنا ، ہم کو تمام ان واقعات کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونیوالے ہیں ۔ پس ہم میں بڑا عالم وہ ہے جو ان باتوں کا زیادہ حافظ ہے ۔

مشکوٰۃ باب الفتن میں بخاری و مسلم سے بروایت حضرت حذیفہ ہے ۔ ما ترک شیئا یکون مقامہ الٰی یوم القیمۃ الا حدث بہ و نسیہ من نسیہ ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جگہ قیامت تک کی کوئی چیز نہ چھوڑی مگر اس کی خبر دے دی جس نے یاد رکھا یاد رکھا جو بھول گیا وہ بھول گیا ۔

مشکوٰۃ باب المساجد میں عبد الرحٰمن بن عائش سے روایت ہے ۔ ریت ربی عزوجل فی احسن صورۃ فو صنع کفہ بین کتفی فو جدت بردھا بین ثدیی فعلمت فافی السمٰوت و الارض ۔ میں نے اپنے رب کو اچھی صورت میں دیکھا رب تعالٰی نے اپنا دست قدرت ہمارے سینہ پر رکھا۔ جسکی ٹھنڈک ہم نے اپنے قلب میں پائی پس تمام آسمان و زمین کی چیزوں کو ہم نے جان لیا ۔

مسلم جلد دوم کتاب الجہاد باب غزوہ بدر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذا مصرع فلان یصنع یدہ علی الارض ھھنا ھھنا قال فما ماط احدھم عن موضع ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص کے گرنے کی جگہ ہے اور اپنے دست مبارک کو ادھر ادھر زمین پر رکھتے تھے راوی نے فرمایا کہ کوئی بھی مقتولین میں سے حضور علیہ السلام کے ہاتھ کہ جگہ سے ذرا بھی نہ ہٹا ۔

شرح مواہب لدنیہ میں زرقانی ، حضرت عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے ۔ ان اللہ رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا و الی ما ھو کائن فیھا الی یوم القیمۃ کانما انظر الی کفی ھذا ۔ اللہ تعالٰی نے ہمارے سامنے ساری دنیا کو پیش فرما دیا پس ہم اس دنیا کو اور جو اس میں قیامت تک ہونیوالا ہے اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے اپنے اس ہاتھ کو دیکھتے ہیں ۔

مسند امام احمد بن حنبل میں بروایت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ہے ۔ ما ترک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قائد فتنہ الی ان تنقضی الدنیا یبلغ من ثلث مائۃ فصاعدا قد سماہ لنا باسمہ و اسم ابیہ و اسمقبیلتہ رواہ ابو داؤد ۔ نہیں چھوڑا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی فتنہ چلا نیوالے کو دنیا کے ختم ہونے تک جن کی تعداد تین سو سے زیادہ تک پہنچے گی مگر ہم کو اس کا نام اس کے باپ کا نام اس کے قبیلے کا نام بتا دیا ۔

بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ اور تفسیر خازن میں زیر آیت لا تسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم ہے۔قام علی المنبر فذکر الساعۃ و ذکر ان بین یدیھا امور اعظاما ثم قا ما من رجل احب ان یسئال عن شئی فلیسئل عنہ فواللہ لا تسئلونی عن شیئی الا اخبر کم ما دمت فی مقامی ھذا فقام رجل فقال این مدخلی قال النار فقام عبداللہ ابن حذافۃ فقال من ابی قال ابوک حذافۃ ثم کثر ان قول سلونی سلونی ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کھڑے ہوئے پس قیامت کا ذکر فرمایا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہیں پھر فرمایا کہ جو شخص جو بات پوچھنا چاہے پوچھ لے قسم خدا کی جب تک ہم اس جگہ یعنی منبر پر ہیں تم کوئی بات ہم سے پوچھو گے مگر ہم تم کو اس کی خبر دیں گے ایک شخص نے کھڑےہو کر عرض کیا کہ میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ فرمایا جھنم میں عبد اللہ ابن حذافہ نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے فرمایا حذافہ۔ پھر بار بار فرماتے رہے کہ پوچھو پوچھو ۔

مشکوٰۃ باب ذکر الانبیاء میں بخاری سے بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہے۔خفف علی داود القراٰن فکان یامر دوآبہ فتسرج فیقرء القراٰن قبل ان تسرج ۔
حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن ( زبور) کو اس قدر ہلکا کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کو زین لگانے کا حکم دیتے تھے تو آپ ان کی زین سے پہلے زبور پڑھ لیا کرتے تھے ۔

نوٹ : یہ حدیث اس جگہ اس لیے بیان کی گئی کہ اگر حضور علیہ السلام نے ایک وعظ میں ازل تا آخر واقعات بیان فرمادئے تو یہ بھی آپ کا معجزہ تھا۔ جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام آن کی آن میں ساری زبور پڑھ لیتے تھے ۔

اور حضرت شیخ محقق کے جنہں منکرینِ علمِ غیب بھی مستند مانتے ہیں، مدارج النبوۃ جلد اول وصل رویۃ الہی میں فرماتے ہیں کہ : فاوحی ۔ الآیۃ بتمام علوم علوم و معارف و حقائق و بشارات و اشارات، اخبار و آثار و کراماتو کمالات در احیطہء ایں ابہام داخلاست وہمہ راشامل و کثرت وعظمت اوست کہ مبہم آدردوبیان نہ کرداشارات بآنکہ جزعلم علام الغیوب ورسول محبوب بہ آں محیط نتواند شد مگر آں چہ آں حضرت بیان کردہ ۔
معراج میں رب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو سارے علوم اور معرفت اور بشارتیں اور اشارے اور خبریں اور کرامتیں و کمالات وحی فرمائے وہ اس ابہام میں داخل ہیں اور سب کو شامل ہیں انکی زیادتی اور عظمت ہی کی وجہ سے ان چیزوں کو بطور ابہام ذکر کا بیان نہیں فرمایا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان علوم غیبیہ کو سوئے رب تعالٰی اور محبوب علیہ السلام کے کوئی نہ احاطہ کر سکتا ۔ ہاں جس قدر حضور نے بیان فرمایا وہ معلوم ہے ۔

علمائے دیوبند کے عقائد پر مستند کتاب جس پر بیشتر اکابرینِ دیوبند کے دستخط ہیں جن میں اشرف تھانوی ، محمود الحسن اور مفتی کفایت اللہ وغیرہ شامل ہیں، المہند میں خلیل احمد انبھیٹوی رقمطراز ہیں کہ : ہم زبان سے کہتے ہیں اور دل سے عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوق سے زیادہ علم رکھتے ہیں ۔ خواہ ان علوم کا تعلق ذات وصفات سے ہو یا تشریعات سے، عملی احکام ہوں یا نظری احکام، واقعی حقیقتیں اور مخفی اسرار ہوں، وہ علوم جن کے پردوں تک کسی مخلوق کی رسائی نہیں ہوئی، نہ کسی مقرب فرشتے کی اور نہ کسی نبی رسول کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اولین اور آخرین کا علم عطا کیا گیا اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل تھا، لیکن اس سے ہر زمانے میں نوپیدا امور کی ہر جزئی کا علم لازم نہیں آتا ۔ اس کے چند سطر آگے لکھتے ہیں کہ : لیکن توجہ نہ ہونے کی بنا پر بعض نوپیدا اور حقیر جزئیات کا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ سے اوجھل ہوجانا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب سے بڑے عالم ہونے میں موجبِ نقص نہیں ہے، جبکہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند مقام کے لائق علوم شریفہ کا تمام مخلوق سے زیادہ علم رکھتے ہیں ۔ (المہند صفحہ 24 - 25 - 26)

اورکوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کڑوڑوں درود

علم غیب عطا ہو کر بھی غیب ہی کہلاتا ہے : ⏬

کیونکہ قرآن حکیم کے مطابق ﷲ تعالیٰ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات کی خبر دی تو اس باب میں ارشاد فرمایا : ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۔ (سورہ يوسف آیت نمبر 102)
ترجمہ : یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں ۔

اس سے ثابت ہوا کہ علم غیب وحی کے ذریعے عطا ہونے کے بعد بھی قرآنی اصطلاح میں ’’غیب‘‘ ہی کہلاتا ہے ۔

ذٰلِکَ مِنْ اَنۡۢبَآءِ الْغَیۡبِ : یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں ۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جو واقعات ذکر کئے گئے یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو کہ وحی نازل ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم نہ تھیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں کے پاس نہ تھے جب انہوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں میں ڈالنے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا ا ور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں سازش کر رہے تھے ، اس کے  باوجود اے اَنبیاء علیہم السّلام کے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ کا ان تمام واقعات کو اس تفصیل سے بیان فرمانا غیبی خبر اور معجزہ ہے ۔  (تفسیر خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳/۴۷-۴۸ ، چشتی)(تفسیر مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۵۴۶-۵۴۷)

مکتبہ فکر دیوبند کے مفتی اعظم جناب مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں : جنابِ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کے متعلق یوں نہ کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے علوم غیب کا بہت بڑا علم دیا تھا ۔ (تفسیر معارف القرآن جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 796 مطبوعہ مکتبۃ المعارف کراچی)

جمہور مفسرین کرام علیہم الرّحمہ کے نزدیک غیب وہ ہے جو حِس سے چھپا ہوا ہو ۔ (تفسیر کبیر،جلد اول ،صفحہ نمبر ۲۷۳)

یعنی آنکھ ، ناک ، کان وغیرہ جو علم حاصل کرنے کے ذرائع ہیں ، اُن سے جو معلوم نہ کیا جا سکے وہ غیب ہے ۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ غیب وہ چیز ہے جسے کوئی بھی انسان اپنی عقل اور سوچ وفکر کے ذریعے خود سے حاصل نہ کر سکے ۔ واضح رہے کہ یہ تعریف انسان کے لحاظ سے ہے ، نہ کہ اللہ عزّ و جل کے لحاظ سے ۔ کیو نکہ ربِّ قدیر کے نزدیک تو دنیا کی کوئی چیزپو شیدہ ہی نہیں ، بلکہ ہر چیز اس کے نزدیک خوب روشن وظا ہر ہے ۔

منکرینِ علم غیبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں : جب اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا ہی دیا تو پھر وہ علم غیب کہاں رہا ؟

جواب : وہ غیب ہی رہا ، کیو نکہ خود اللہ تعالیٰ نے اُسے غیب ہی قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد رب العالمین ہے : وما ھو علی الغیب بضنین ۔
ترجمہ : اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب کی بات بتانے پر بخیل (کنجوس) نہیں ۔ (سورہ تکویر،آیت:۲۴)

پھر یہ کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی یہ کہنا درست نہ ہو کہ اللہ غیب جانتا ہے کیو نکہ اللہ کے نزدیک کوئی چیز غیب ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں نہایت روشن اور ظاہر ہیں ۔

منکرین کہتے ہیں : پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو “عالم الغیب”کہنا صحیح ہو نا چا ہیے ؟

جواب : نہیں،کیو نکہ ”عالم الغیب”  کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے ۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو “عالِمِ غیب ” عالمِ ما کان و ما یکون (جو کچھ ہو چکا ، ہوتا ہے اور ہوگا ان سب کا جاننے والا ) اور عالمِ اولین و آخرین کہا جائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم مَاکَانَ وَمَایَکُوْن : ⏬

ہمارا عقیدہ ہے کہ جو ہو چکا ہے جو ہو رہا ہے اور جو ہو گا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے ہیں آیئے اس پر دلائل کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں : ⏬

جو ہوچکا جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں

مخالفینِ اہلسنت کے اس عقیدے کو جو کہ قران و حدیث سے ماخوذ ہے مشرکانہ عقیدہ بتاتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا ازلی شقاوت کے اظہار کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے علم ماکان ومایکون کا عقیدہ دراصل اکابرین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے ۔

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :  اَلرَّحْمٰنُۙ ۔ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ‏ ، ‏خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ‏ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ  ۔ (سورہ رحمٰن)
ترجمہ : اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ۔ (ترجمہ محمد جونا گڑھی غیر مقلد وہابی)

ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے ان میں سے چند اکابرین مفسرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر پیش خدمت ہیں : ⏬

خَلَقَ الْاِنْسَانَ : انسان کو پیدا کیا ۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ’’انسان‘‘ اور’’ بیان‘‘ کے مِصداق کے بارے میں  مفسرین کے مختلف قول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں  انسان سے مراد دو عالَم کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں  اور بیان سے’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا، کا بیان مراد ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَوّلین و آخرین اور قیامت کے دن کی خبریں  دیتے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں  انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں  اور بیان سے مراد تمام چیزوں  کے اَسماء اور تما م زبانوں  کا بیان مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں  انسان سے اس کی جنس یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تمام اولاد مراد ہے اور بیان سے مراد گفتگو کی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے انسان دیگر حیوانوں  سے ممتاز ہوتا ہے۔(خازن، الرحمن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴/۲۰۸،چشتی)(صاوی، الرحمن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۶/۲۲۷۳- ۲۲۷۴)

مشہور مفسّر امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خلق الانسان یعنی محمداً صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (تفسیر البغوی (معالم التنزیل) صفحہ ١٢٥٧) ابی محمد حسین بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٥١٦ھ)

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں : الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  صلی ﷲعلیہ وسلم والبیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان الجزءالعشرون صفحہ١١٣)۔ابی عبد ﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ ۔ (متوفی ٦٧١ھ)

امام ابن عادل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :  المراد بالانسان ھنا محمد علیہ السلام علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (اللباب فی علوم الکتاب المشہور تفسیر ابن عادل الجزء الثامن عشر صفحہ٢٩٣- ٢٩٤) ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٨٠ھ،چشتی)

امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر میں موجود ہے : خلق الانسان یعنی محمداً صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الکشف والبیان فی تفسیر القران المشہور تفسیر الثعلبی الجزء السادس صفحہ٤٨ ، العلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٤٢٧ھ)

اَلرَّحْمٰنُ : رحمن ۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ جب سورۂ فرقان کی آیت نمبر60 نازل ہوئی جس میں  رحمن کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا توکفارِ مکہ نے کہا کہ رحمن کیا ہے ہم نہیں  جانتے ،اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃُ الرّحمن نازل فرمائی کہ رحمن جس کا تم انکار کرتے ہو وہی ہے جس نے قرآن نازل فرمایا ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے جب کہا کہ محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی بشر سکھاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ رحمن نے قرآن اپنے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھایا ۔ (تفسیر خازن، الرحمن، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴/۲۰۸)

(1) قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اسی لیے سب سے پہلے اس کا ذکر فرمایا ۔

(2) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قرآن پاک بظاہر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے واسطے سے آیا لیکن در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآن سکھایا ۔

(3) مخلوق میں  سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی استاد نہیں  بلکہ آپ کا علم مخلوق کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے ۔

(4) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآنِ پاک کے مُتَشابہات کا علم بھی دیا گیا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے سارا قرآن اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھادیا تو اس میں  متشابہات کا علم بھی آگیا کہ یہ بھی قرآنِ پاک کا حصہ ہی ہیں ۔

(5) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام اَشیاء کے نام سکھائے ، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا‘‘ ۔ (بقرہ:۳۱)
ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے ۔

حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زِرہ بنانا سکھائی ،چنانچہ ارشاد فرمایا : وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ ۔ (انبیاء:۸۰)
ترجمہ : اور ہم نے تمہارے فائدے کےلیے اسے  (جنگی) لباس کی صنعت سکھا دی ۔

حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پرندوں  کی زبان سکھائی ، جیسا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ ۔ (نمل:۱۶۔)
ترجمہ : اے لوگو!ہمیں  پرندوں  کی بولی سکھائی گئی ہے ۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو طب ، تورات اور انجیل کا علم عطا فرمایا، ارشادِباری تعالیٰ ہے : وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ ۔ (اٰل عمران:۴۸)
ترجمہ : اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا ۔

حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علمِ لدُنی عطا فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا : وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ۔ (کہف:۶۵)
ترجمہ : اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا ۔

اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کچھ سکھایا اس کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ :  اَلرَّحْمٰنُۙ ۔ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ۔
ترجمہ : رحمن نے ، قرآن سکھایا ۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ ۔ (نمل:۶)
ترجمہ : اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیشک آپ کو حکمت والے ، علم والے کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے ۔

اور ایک جگہ واضح طور پر فرمادیا کہ : وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ۔ (سورہ النساء:۱۱۳)
ترجمہ : اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاعلم تمام اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ ہے ۔

دیوبندی ، وہابی اور غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیث کے اکابرین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب عطائی کو بھی شرک قرار دیتے ہیں ۔ علم غیب عطائی ماننے والے کو ابوجہل جیسا مشرک کہتے ہیں ۔

اہلسنّت و جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے اوّلین اور آخرین کے حالات جاننے والا اور غیب کی باتیں بتانے والا کہتے ہیں ۔

اللّٰہ تعالیٰ کا قرآن مجید فرقان حمید میں فرمان ہے : وَمَاکَا نَ اللّٰہُ لِیُطلِعَکُم عَلَی الغَیبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجتَبِی مِن رُسُلِہ مَن یَّشَاءُ ۔ (پارہ 4 رکوع 9 ّ)
ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کی اے عام لوگوں تمہیں غیب کا علم دے ۔ہاں اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے ۔

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ : ⏬

اس آیت کے تحت امام اجل جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ معنٰے یہ ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے ۔ پس ان کو غیب پر مطلع کرتا ہے ۔ (تفسیر جلالین صفحہ 66۔چشتی)

علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : ⏬

علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ اِسی آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ پس حقائق اور حالات کے غیب نہیں ظاہر ہوتے بغیر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے واسطہ سے ۔ (تفسیر روح البیان صفحہ 132 جلد 2 مطبوعہ بیروت)

دوسرے مقام پر اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَعَلَّمَکَ مَا لَم تَکُن تَعلَم وَکَانَ فَضلُ اللّٰہِ عَلَیکَ عَظِیمََا ۔ (پارہ 5 رکوع 14 )
ترجمہ : اور تم کو سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔

امام رازی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : ⏬

امام المفسرین فخرالدین امام رازی علیہ الرحمۃ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اَی مِنَالاَحکَامِ وَالغَیبِ ۔ یعنی احکام اور غیب ۔ (تفسیر کبیر مطبوعہ مصر)

امام نسفی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : ⏬

امام نسفی علیہ الرّحمہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : یعنی شریعت مطہرہ کے احکام اور امور دین سکھائے اور کہاگیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب میں وہ باتیں سکھائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ جانتے تھے اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھپی چیزیں سکھائیں اور دلوں کے رازوں پر مطلع فرمایا اور منافقین کے مکر و فریب آپ کو بتادیئے ۔ اُمو ر دین سکھائے ، چھپی ہوئی باتیں اور دلوں کے راز بتائے ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 250 مطبوعہ بیروت)

علامہ کاشفی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : ⏬

علامہ کاشفی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت فرمایا ہے : یہ ماکان وما یکون کا علم ہے کہ حق تعالیٰ نے شب ِ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا چنانچہ حدیث معراج میں ہے کہ ہم عرش کے نیچے تھے ایک قطرہ ہمارے حلق میں ڈالا ، پس ہم نے سارے گزرے ہوئے اور آئندہ ہونے والے واقعات معلوم کر لیے ۔ ( تفسیر حسینی فارسی صفحہ 124،چشتی)

علامہ قاضی ثناء اللّٰہ پانی پتی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : ⏬

علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر مظہری میں فرمایا ہے : اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسرار و مغیبات کے علوم عطا فرمائے ۔ (تفسیر مظہری)

علامہ جار اللّٰہ محشری علیہ الرّحمہ : ⏬

علامہ جار اللہ محشری علیہ الرّحمہ نے اپنی تفسیر کشاف میں فرمایا ہے : خفیہ امور لوگوں کو دلوں کے حالات ، امور دین اور احکام شریعت ۔ (تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 563 مطبوعہ بیروت)

علامہ بغوی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : ⏬

تفسیر معالم التنزیل میں اُنہیں آیات طیبات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے : اللہ تعالیٰ نے انسان یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا اور ان کو بیان یعنی اگلی پچھلی باتوں کا بیان سکھادیا ۔ (تفسیر معالم التنزیل)

عَنْ عَمْرِو بْنِ اَخْطَبَ الْاَ نْصَارِیِّ قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا الْفَجْرَ وَصَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظُّھْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَاَخْبَرَنَا بِمَا ھُوَ کَاءنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ قَالَ: فَاَعْلَمُنَا اَحْفَظُنَا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات ، الحدیث:۵۹۳۶،  ج۲،ص ۳۹۷ ،چشتی)(مشکوٰۃ ، باب المعجزات،ص۵۴۳)
ترجمہ : حضرت عَمْرو بن اَخْطَب اَنصاری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ انہوں  نے کہا کہ ایک دن ہم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ظہر کی نماز تک خطبہ پڑھتے رہے پھر اُترے اور نماز پڑھ کر پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا پھر اُترے اور نماز پڑھی پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور سورج ڈوبنے تک خطبہ پڑھتے رہے تو (اس دن بھر کے خطبہ میں) ہم لوگوں کو حضور نے تمام ان چیزوں اور باتوں کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والی ہیں  تو ہم صحابہ میں  سب سے بڑا عالم وہی ہے جس نے سب سے زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھاہے ۔

حضرت عَمْرو بن اَخْطَب : اِس حدیث کے راوی حضرت عَمْرو بن اَخْطَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں ۔ یہ اَنصاری ہیں  اور ان کی کنیت ’’اَبو زید‘‘ہے اور محدثین کے نزدیک ان کی کنیت ان کے نام سے زیادہ مشہور ہے ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ بہت سے غزوات میں  شریک ِجہاد رہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ایک مرتبہ محبت اور پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر  دیااور ان کی خوبصورتی کےلیے دعا فرمائی ۔ جس کا یہ اثر ہوا کہ ان کی سو برس کی عمر ہوگئی تھی مگر سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے اور آخری عمر تک چہرے کا حسن و جمال باقی رہا ۔ (اکمال فی اسماء الرجال، حرف العین، فصل فی الصحابۃ، صفح ۶۰۷، چشتی)

مختصر شرحِ حدیث : یہ حدیث مسلم شریف میں  بھی ہے ۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نماز فجر سے غروب آفتاب تک بجز ظہر و عصر پڑھنے کے برابر دن بھر خطبہ ہی میں  مشغول رہے اور سامعین سُنتے رہے اور اس خطبہ میں  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کے ہونے والے تمام واقعات تمام چیزوں اور تمام باتوں کی سامعین کو خبر دے دی اور صحابہ میں  سے جس نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھا اتنا ہی بڑا وہ عالم شمار کیا جاتا تھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب اخبارالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ الخ،  الحدیث:۲۸۹۲،ص۱۵۴۶)

یہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے معجزات میں  سے ہے کہ قیامت تک کے کروڑوں واقعات کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے صرف دن بھر کے خطبہ میں  بیان فرما دیا۔صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت داٶد علیہ السلام کو خداوند ِعالَم نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ گھوڑے پر زِین کسنے کا حکم دیتے تھے اور ساءیس گھوڑے کی زین باندھ کر درست کر تا تھا اتنی دیر میں  آپ ایک ختم ’’زبور شریف ‘‘ کی تلاوت کرلیتے تھے (صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب قول اللّٰہ تعالی۔۔۔الخ، الحدیث:۳۴۱۷، ج۲،ص۴۴۷،چشتی)

تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نبی آخرالزمان جو تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات کے جامع ہیں اگر دن بھر میں  قیامت تک کے تمام احوال و واقعات کو بیان فرمادیں تو اس میں  کونسا تعجب کا مقام ہے ۔

اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل پر روشنی پڑتی ہے : ⏬

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو خدا وند ِعالِم ُا لْغَیْب و الشَّہادَۃ نے جس طرح بہت سے معجزانہ کمالات سے نوازااور تمام انبیاء اور رسولوں میں  آپ کو ممتاز فرماکر’’سید الانبیاء‘‘ اور’’افضل الرسل‘‘بنایا اسی طرح علمی کمالات کا بھی آپ کو وہ کمال بخشا کہ’’ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ یعنی روز ازل سے قیامت تک کے تمام علوم کا خزانہ آپ کے سینہ نبوت میں  بھر دیا ۔

مشکوۃ شریف کی حدیث ہے کہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عزوجل کو بہترین صورت میں دیکھا تو اس نے مجھ سے فرمایا کہ اوپر والی جماعت کس چیز میں بحث کر رہی ہے ؟ تو میں  نے عرض کیا کہ یا اللہ ! عزوجل تو ہی اس کو زیادہ جاننے والا ہے پھر خدا وند ِعالَم نے اپنی (قدرت کی) ہتھیلی کو میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا تو میں  نے اس کی ٹھنڈک کو اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان میں  پایا اور جو کچھ آسمان و زمین میں  ہے سب کو میں  نے جان لیا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ، باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الحدیث:۷۲۵،ج۱، ص۱۵۲،چشتی)،(مشکوٰۃ ، باب المساجد،ص۷۰)

اللہ عزوجل نے میرے لیے دُنیا کو اٹھا کر اس طرح میرے سامنے پیش فرمادیا کہ میں  تمام دنیاکو اور اس میں  قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ان سب کو اسطرح دیکھ رہا ہوں  جس طرح میں  اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب، المقصد الثامن، الفصل الثالث، ج۱۰، ص۱۲۳، وحلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب، الحدیث۷۹۷۹، ج۶،ص۱۰۷)(زرقانی علی المواہب ، جلد۷،ص۲۳۴)

جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ’’اَفضل الْخَلق ‘‘ہیں  اسی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَعلم ُالْخَلق ‘‘ بھی ہیں  کہ تمام جن و انس اور ملائکہ کے علوم سے بڑھ کر آپ کا علم ہے یہاں تک کہ حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے قصیدۂ بُردَہ میں  فرمایا کہ : فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا ۔ وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ ۔ (القصیدۃ البردۃ ، الفصل العاشر فی المناجات وعرض الحال)
ترجمہ :  یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دنیا اور اس کی سوکن (یعنی آخرت) یہ دونوں آپ کی سخاوت کے ثمرات میں  سے ہیں  اور ’’لوح و قلم کا علم ‘‘ آپ کے علوم کا ایک جزو ہے ۔

تمام ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کیے گئے ہیں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم غیب واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے ، لیکن دیوبندی ، وہابی غیر مقلد حضرات کے نزدیک یہ عقیدہ کفر و شرک ہے ، جبکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا اور پھر حضرات اہلسنّت و جماعت ہونے کا دعویٰ بھی کریں تو یہ صریحاََ دھوکہ اور فریب ہے لہٰذا قرآن و حدیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ یہ اہلسنّت و جماعت نہیں ۔


قرآن کریم کے کسی مسئلہ سے متعلق بعض آیات کو لینا اور بعض کو ہاتھ ہی نہ لگانا وہ بددیانتی ہے جو تو ریت کے ساتھ یہودی علماء اور انجیل کے ساتھ عیسائی پادری کرتے رہے ۔ جسے قرآن کریم میں تحریف اور کتاب اللہ کا انکار قرار دیا گیا ہے ۔ ہمارے کچھ لوگوں نے بھی وہی وطیرہ اپنایا ہوا ہے ۔ اپنے مطلب کی بات لینا اور جو اپنے خلاف ہو اسے چھوڑ دینا ۔ اس جرم کی سزا قرآن میں یہ بتائی گئی ہے ۔ کہ ’’دنیا میں ذلت اور آخرت میں سخت تر عذاب ‘‘ ۔ (البقرہ، 2 : 85) ۔ ایسے لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیے کہیں یہی انجام ان کا بھی نہ ہو ۔ قرآن میں یہ سب کچھ بیان کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ یہ کہ ہم ایسی حرکت نہ کریں ورنہ انجام ان سے مختلف نہ ہو گا ۔

علم غیب قرآن سے ثابت ہے : ⏬

سورہ بقرہ کی ابتداء میں متقین یعنی پرہیزگار لوگوں کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی گئی : الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 3)
ترجمہ : جو غیب پر ایمان لاتے ۔

وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لائیں ۔ غیب اس پوشیدہ حقیقت کو کہا جاتا ہے جو نہ حواس خمسہ سے معلوم ہو نہ عقل سے معلوم ہو ۔ اس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کی پہلی شرط ہے ۔ ایمان تصدیق کو کہا جاتا ہے ۔ تصدیق علم کے بغیر نہیں ہو سکتی تو غیب پر ایمان کا مطلب ہوا غیب کی تصدیق ۔ غیب کی تصدیق غیب کے علم کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ بغیر علم تصدیق کرنا جھوٹ ہے مثلاً اللہ عزوجل کی ذات و صفات ، ملائکہ ، انبیاۓ کرام ، قبر ، حشر نشر ، قیامت ، جنت اور جہنم کی تفضیلات وغیرہ وہ حقائق ہیں جو نہ حواس سے معلوم ہیں نہ عقل سے ۔ ہر مسلمان صرف نبی کے بتانے سے ان پر ایمان لاتا ہے ہے مثلاً قبر میں پہلا سوال ، دوسرا سوال ، تیسرا سوال ، منکر نکیر وغیرہ ان حقائق کو سچا یقین کرنا تصدیق ہے اور یہی ایمان ہے ۔ ہر مسلمان ان حقائق کو جانتا بھی ہے اور دل سے حق سچ مانتا بھی ہے ۔ یہ سب علم غیب ہے جو نبی کے ذریعے ہمیں ملا ۔ اب اگر کوئی شخص نبی کےلیے ہی علم غیب نہ مانے تو وہ نبی کی بات اور دعوت کی تصدیق کیسے کرے گا ؟ نبی ان حقائق کی خبریں دیں گے اور وہ کہے گا آپ کو غیب کا کیا پتہ ؟ اور جس کے پاس علم غیب نہیں اس کی غیبی خبر کا کیا اعتبار ؟ دیکھا آپ نے ایمان کے یہ دشمن کس طرح مسلمانوں کو ایمان سے محروم کر رہے ہیں ۔ قرآن میں ﷲ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا : عالم الغیب والشهادة ۔ (سورہ الحشر آیت نمبر 22)
یعنی جو کچھ مخلوق کے سامنے ہے ﷲ تعالیٰ اس کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ مخلوق سے پوشیدہ ہے ۔ ﷲ اس کو بھی جاننے والا ہے۔ ﷲ سے کبھی کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی، نہ ہے، نہ ہو گی ۔

وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاءِ ۔ (سورہ یونس آیت نمبر 61)
ترجمہ : اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے ۔

قدیم زمانے سے نجومی ، رمال ، جفار ، جادوگر ، طوطے والا ، کاہن ، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں علم غیب کا دعویٰ کرتے رہے ہیں ۔ اکثر لوگ بیماری ، بے روزگاری ، معلومات شادی ، کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں ۔ گرتے کو تنکے کا سہارا اور وہ ان لوگوں سے رجوع کرتے ہیں ۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پُر امید رکھتے ہیں ۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے ۔ ﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کےلیے قرآن کریم میں فرمایا : قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ الْغَیْبَ اِلاَّ ﷲُ ۔ (سورہ النمل آیت نمبر 65)
ترجمہ : فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے ۔

انبیاءِ کرام علیہم السلام کےلیے علم غیب کا ثبوت : ⏬

اب یہ سوال پیدا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پہلے انبیاء کرام بھی تو غیب کی باتیں بتاتے تیں تو ان کو بھی دوسروں کی طرح سمجھیں حالانکہ انبیاء کرام کی غیبی باتیں تو سو فیصد سچی ہوتی ہیں ۔ اگر انبیاء کرام کی بتائی ہوئی باتیں حقیقت ہیں تو شاید انبیاء کرام خود غیب جان لیتے ہیں ۔ ان کی باتیں حق سچ ہوتی ہیں ۔ اس خیال کی نفی کرنے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء سے بذات خود غیب دانی کی نفی کروائی : وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ ۔ (سورہ الانعام آیت 50)
ترجمہ : اور نہ میں اَز خود غیب جانتا ہوں ۔

جب انبیاء کرام بھی خود بخود غیب نہیں جانتے تو آحر ان کے علم غیب کی بنیاد کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے انبیاء کو غیب کا علم عطا کیا ۔

وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ۔ (سورہ النساٗ آیت نمبر 113)
ترجمہ : اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ۔

مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 179)
ترجمہ : اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے ۔

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ۔ (سورہ الجن آیت نمبر 26۔ 27)
ترجمہ : (وہ) غیب کا جاننے والا ہے ، پس وہ اپنے غیب پر کسی (عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا ۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے) ، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کےلیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے ۔

نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں : وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ۔ (سورہ التکویر آیت نمبر 24)
ترجمہ : اور وہ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی) ۔

علم غیب احادیثِ مبارکہ سے : ⏬

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : رایت ربی عزوجل فی أحسن صوره قال فیم یختصم الملاء الاعلی قلت أنت أعلم قال فوضع کفه بین کتفی فوجدت بردها بین ثدیی فعلمت ما فی السموات والارض وتلا وکذلک نری ابراهیم ملکوت السموات والارض ولیکون من الموقنین ۔ (سنن ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ جلد 5 صفحہ 342 الرقم : 3233،چشتی)
ترجمہ : میں نے اپنے عزت و جلال والے رب کو بہترین صورت میں دیکھا ۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا عالم بالا کے فرشتے کسی بات میں جھگڑ رہے ہیں ۔ میں نے عرض کی تو بہتر جانتا ہے پھر اس نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا پر میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ، ہم یونہی دکھاتے ہیں ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت کہ وہ یقین والوں میں سے رہیں ۔

دوسری روایت میں ہے : فتجلّی لی کلَ شیئیٍ وعرفتُ ۔ (سنن ترمذی کتاب التفسیر القرآن باب سورۃ الرقم : 3235)
ترجمہ : سو میرے لیے ہر شے روشن ہو گئی اور میں نے ہر چیز پہچان لی ۔

فقیر چشتی نے قرآن و حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم الغیب آپ کے سامنے پیش کر دیا اور نفی کی آیات کی توجیہہ بھی کر دی ۔ ﷲ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام میں اختلاف نہیں ہوتا بشرطیکہ دل میں حوف خدا ہو اور آدمی پوری حدیث پر نظر رکھے ۔ بعض کو ماننا اور بعض کا انکار مومن کی شان نہیں ۔ ﷲتعالیٰ سب کو ہدایت دے ۔

علم رسول پر اعتراضات کا جواب : ⏬

سوال : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں غلم غیب کا عقیدہ سلف صالحین میں بھی تھا یا آج کے دور میں گھڑا گیا اور علم غیب کی ذاتی اور عطائی تقسیم کا تصور بھی پہلے سے ہے یا آج کی پیداوار ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سارا عقیدہ جدید زمانے میں اپنایا گیا ہے ۔ قرآن و حدیث اور اسلام کی تفسیر سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں؟

جواب : غیب کی لغوی تعریف ۔ غیب کام معنی چھپنا ، پوشیدہ ہونا وغیرہ ۔ (المنجد صفحہ 892)

امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : غیب مصدر ہے ۔ سورج آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو کہتے ہیں غابت الشمس سورج غائب ہو گیا ۔ کل غائب عن الحاسه وعما یغیب عن علم الانسان بمعنی الغائب یقال للشئ غیب وغائب باعتباره بالناس لا باﷲ تعالی فانه لا یغیب عنه الشئ قوله عالم الغیب والشهادة أی ما یغیب عنکم وما تشهدونه والغیب في قوله ’’یومنون بالغیب‘‘ ما لا یقع تحت الحواس ولا تقتضیه بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیاء علیهم السلام وبدفعه یقع علی الانسان اسم الالحاد ۔ (مفردات راغب صفحہ 367،چشتی)
ترجمہ : جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔ کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ ﷲ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے ﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یومنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جا سکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں ۔

شرح عقائد میں ہے : وبالجمله العلم بالغیب امر تفرد به ﷲ تعالی لا سبیل للعباد الیه الا باعلام منه ۔ (شرح عقائد مع النبراس صفحہ 572)
ترجمہ : خلاصہ کلام یہ کہ علم غیب ﷲ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ۔ بندوں کےلیے اس طرف کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے بتائے اور وہ وحی کے ذریعے بتاتا ہے جیسے نبی کا معجزہ یا الہام کے ذریعے جیسے ولی کی کرامت یا نشانات و علامات سے جیسے استدلالی علم ۔

قاضی ناصر الدین بیضاوی علیہ الرحمہ (متوفی 791ھ) فرماتے ہیں : المراد به الخفی الذی لا یدرکه الحس ولا یقتضیه بداهه العقل وهو قسمان لا دلیل علیه وهو المعنی بقوله تعالی ’’وعنده مفاتح الغیب‘‘ لا یعلمها الا هو. وقسم نصب علیه دلیل کالصانع وصفاته والیوم الاخر واحواله وهو المراد به فی هذه الایه (یومنون بالغیب) ۔ (تفسیر بیضاوی جلد 1 صفحہ 7)
ترجمہ : غیب سے مراد ہے وہ پوشیدہ چیز جسے حس معلوم نہ کر سکے اور نہ ہدایت عقل چاہے اس کی دو قسمیں ہیں پہلی جس پر کوئی دلیل قائم نہیں اور وہی مراد ہے ﷲ کے اس فرمان میں عندہ مفاتح الغیب الخ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں صرف وہ جانتا ہے، دوسری جس پر دلیل قائم ہو جیسے صانع (خالق) اور اس کی صفات، یوم قیامت اور اس کے احوال اور یہی مراد اس آیہ کریمہ یومنون بالغیب میں ہے ۔

امام رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ان الغیب هو الذی یکون غائباً عن الحاسه ثم هذا الغیب ینقسم الی ما علیه دلیل والی ما لیس علیه دلیل فالمراد من هذه الایه مدح المتقین بانهم یومنون بالغیب الذی دل علیه الدلیل بان یتفکروا ویستدلوا فیومنوا به وعلی هذه یدخل فیه العلم باﷲ تعالی وبصفاته والعلم بالاخر والعلم بالنبوه والعلم بالاحکام وبالشرائع فان فی تحصیل هذه العلوم بالاستدلال مشقه فیصلح ان یکون سببا لاستحقاق الثناء العظیم ۔ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 27)
ترجمہ : غائب وہ ہے جو حاسہ سے غائب ہو پھر یہ غیب دو قسم پر ہے ایک وہ جس پر دلیل قائم ہو دوسری وہ جس پر دلیل نہیں۔ اس آیہ کریمہ سے مراد متقیوں کی تعریف کرنا ہے کہ وہ اس غیب پر ایمان رکھتے ہیں جس پر دلیل قائم ہے کہ غور و فکر اور استدلال کرتے ہوئے اس پر ایمان لاتے ہیں ۔ اس میں ﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم ، آخرت ، نبوت اور احکام شرع کا علم شامل ہے کیونکہ ان علوم کو استدلال سے حاصل کرنے میں مشقت ہے لہٰذا بڑی مدح و ثنا کا مستحق ہے ۔

امام رازی علیہ الرحمہ ایک سوال قائم کرتے ہیں : فان قیل افتقولون العبد یعلم الغیب أم لا ؟ قلنا قد بینا ان الغیب ینقسم الی ما علیه دلیل والی ما لا دلیل علیه أما الذی لا دلیل علیه فهو سبحانه وتعالی العالم به لا غیره وأما الذی علیه دلیل فلا یمتنع ان تقول نعلم من الغیب ما لنا علیه دلیل ویفید الکلام فلا یلتبس ۔ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 28،چشتی)
ترجمہ : اگر کہا جائے کیا تم یہ کہتے ہو کہ بندہ غیب جانتا ہے یا نہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ غیب کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس پر دلیل ہے اور دوسرا وہ جس پر کوئی دلیل نہیں۔ وہ جس پر کوئی دلیل نہیں وہ ﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا علم ہے ، کسی اور میں یہ صفت نہیں پائی جاتی مگر جس پر دلیل قائم ہے سو کچھ مانع نہیں کہ ہم کہیں کہ ہم وہ غیب جانتے ہیں جس پر دلیل ہے ۔ یہ کلام مفید ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔

امام ابو عبد ﷲ محمد بن احمد انصاری القرطبی علیہ الرحمہ (متوفی 671ھ) فرماتے ہیں : (یومنون) یصدقون، والایمان فی اللغه التصدیق… الغیب کل ما اخبر به الرسول مما لا تهتدی الیه العقول من اشراط الساعة وعذاب القبر والحشر والنشر والصراط والمیزان والجنة والنارِ ۔ (الاحکام القرآن للقرطبی، 1 : 114۔ 115،چشتی)
ترجمہ : (ایمان لاتے ہیں یعنی) تصدیق کرتے ہیں۔ لغت میں ایمان کا مطلب ہے تصدیق… غیب ہر شے جس کی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی، جس کی طرف عقل رہنمائی نہ کر سکے مثلاً قیامت کی شرطیں ، عذاب قبر ، حشر و نشر ، پل صراط ، میزان ، جنت و جہنم ۔

امام قرطبی علیہ الرحمہ سورۃ الانعام کی آیت : 59 عندہ مفاتیح الغیب لا یعلمہا الا ہو کے تحت لکھتے ہیں : فاﷲ تعالی عنده علم الغیب وبِیده الطرق الموصلة الیه، لا یملکها الا هو فمن شاء اطلاعه علیها اطلعه ومن شاء حجبه عنها ولا یکون ذلک من افاضته الا علی رسله بدلیل قوله تعالی وما کان ﷲ لیطلعکم علی الغیب ولکن ﷲ یجتبی من رسله من یشاء وقال عالم الغیب فلا یظهره علی غیبه احدا الا من ارتضی من رسول ۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی جلد 3 صفحہ 7،چشتی)
ترجمہ : سو ﷲ کے پاس غیب کا علم ہے (یعنی جو مخلوق سے پوشیدہ ہے اسے ﷲ جانتا ہے) اور اسی کے ہاتھ میں غیب تک پہنچانے والے راستے ہیں۔ وہی ان کا مالک ہے سو جس کو ان پر اطلاع دینا چاہے اطلاع دیتا ہے اور جن سے پردے میں رکھنا چاہے پردے میں رکھتا ہے اور اس کی فیضان صرف رسول پر ہوتا ہے ۔

منافقین کا علم : ⏬

وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 179)
ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کےلیے) چن لیتا ہے ۔

فان سنة ﷲ جاریة بانه لا یطلع عوام الناس علی غیبه بل لا سبیل لکم الی معرفة ذلک الامتیاز الا بالامتحانات مثل ما ذکرنا من وقوع المحن والافات حتی یتمیز عندها الموافق من المنافق فاما معرفته ذلک علی سبیل الاطلاع من الغیب فهو من خواص الانبیاء فلهذا قال ولکن ﷲ یجتبی من رسله من یشاء أی ولکن ﷲ یصطفی من رسله من یشاء فخصهم باعلامهم ان هذا مومن وهذا منافق… ویحتمل ولکن ﷲ یجتبی من یشاء فیمتحن خلقه بالشرائع علی ایدیهم حتی یتمیز الفریقان بالامتحان ویحتمل ایضا ان یکون المعنی وما کان ﷲ لیطلعکم لیجعلکم کلکم عالمین بالغیب من حیث یعلم الرسول حتی تصیروا مستغنین عن الرسول بل ﷲ یخص من یشاء من عباده بالرسالة ثم یکلف الباقین طاعة هولاءِ الرُسُل ۔ (تفسیر کبیر جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 111،چشتی)
ترجمہ : ﷲ کی سنت جاری ہے کہ عوام کو اپنے غیب پر اطلاع نہیں دیتا بلکہ تمہارے لیے اس امتیاز ایمان و نفاق کے سلسلہ میں بجز اس کے کوئی رستہ نہیں کہ امتحانات ہوں جیسے ہم نے ذکر کیا کہ آفات و آلام نازل ہوں تاکہ اس وقت موافق و منافق میں تمیز ہو سکے ۔ رہا اس پر خبردار ہونا علم غیب پر دسترس حاصل کر لے تو یہ نبیوں کا خاصہ ہے اسی لئے فرمایا لیکن ﷲ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے چن لیتا ہے پھر خصوصی طور پر ان کو باتا ہے کہ یہ مومن ہے اور یہ منافق ۔۔۔ یہ احتمال بھی ہے کہ ﷲ اپنے رسولوں سے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے پھر نبیوں کے ذریعے احکام شرع بھیج کر اپنی مخلوق کا امتحان لیتا ہے یہاں تک کہ اس جانچ سے دونوں جماعتیں ممتاز ہو جاتی ہیں۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ معنی ہو کہ ﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تم سب کو غیب پر اطلاع کر دے جیسے رسول کو علم غیب دیتا ہے کہ تم رسولوں سے بے نیاز ہو جاؤ بلکہ ﷲ اپنے بندوں میں خاص کو رسالت سے سرفراز فرماتا ہے پھر باقیوں کو ان رسولوں کی اطاعت کا مکلف بناتا ہے ۔

امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ سورۃ التوبہ کی آیت : 82 کے تحت لکھتے ہیں : وﷲ تعالی کان یطلع الرسول علیه الصلوه والسلام علی تلک الاحوال حالا فحالا ویخبره عنها علی سبیل التفصیل وما کانوا یجدون فی کل ذلک الاالصدق فقیل لهم ان ذلک لو لم یحصل باخبار ﷲ تعالی والا لما اطرد الصدق فیه ولظهر فی قول محمد انواع الاختلاف والتفاوت فلما لم یظهر ذلک علمنا ان ذلک لیس الا باعلام ﷲ تعالی ۔ (تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 196)
ترجمہ : ﷲ تعالیٰ منافقین کے تمام احوال پر نبی ں کو اطلاع دیتا رہا اور تفصیل بتاتا رہا اور وہ ان خبروں کو ہمیشہ سچ ہی پاتے۔ سو ان سے کہا گیا کہ اگر یہ خبریں ﷲ کے بتانے سے نہ ہوتیں تو اس میں سچائی کس طرح جمع ہو جاتی۔ محمد کی اپنی بات ہوتی تو اس میں اختلاف وتفاوت واضح ہوتا ہے۔ جب ایسا کبھی ظاہر نہیں ہوا تو ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ سب کچھ محض ﷲ کے بتانے سے ہے ۔

فاغرض عنھم : والمعنی لا تهتک سترهم ولا تفضحهم ولا تذکرهم باسماء هم وَ لمّا امر ﷲ بستر امر المنافقین الی ان یستقیم امر الاسلام ۔ (تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 195)
ترجمہ : اس کا مطلب ہے کہ ان منافقین کی پردہ داری فرمائیں اور ان کے نام سرعام لے کر ان کو رسوا نہ کریں ۔ ﷲ نے منافقین کے معاملات کو چھانے کا حکم دیا، یہاں تک کہ اسلام کا معاملہ درست اور مضبوط ہو جائے ۔

امام رازی علیہ الرحمہ آیہ کریمہ ۔ ولا یحیطون بشئٍی من علمه الا بما شآء ،، اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے ۔
کے تحت لکھتے ہیں : لا یعلمون الغیب الا عند اطلاع ﷲ بعض انبیاء هم علی بعض الغیب کما قال عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احد الا من ارتضی من رسول ۔ (تفسیرکبیرجلد 7 صفحہ 11)
ترجمہ : لوگوں کو غیب کا علم نہیں مگر ہاں جب کسی نبی کو اس نے کسی غیب کی اطلاع کر دی تو اس کو علم غیب حاصل ہو جاتا ہے جیسے فرمایا : وہ عالم غیب ہے اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا مگر جس نبی کو اس کےلیے چن لے ۔

تتقیح مسئلہ علم غیب : احتج اهل الاسلام بهذه الایة علی انه لا سبیل الی معرفة المغیبات الا بتعلیم ﷲ تعالی وانه لا یمکن التوصل الیها بِعِلم النجوم والکهانه والعرافة وَنظیرُه قوله تعالی و عنده مفاتح الغیب لا یعلمها الا هو و قوله عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احد الا من ارتضی من رسول ۔ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 209)
ترجمہ  تمام اہل اسلام نے اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ غیبی امور کی معرفت ﷲ کے بتائے بغیر کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتی ، اسے علم نجوم ، کہانت اور ماہرانہ نظر سے حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کی مثال ﷲ کا فرمان ہے اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور فرمان باری تعالیٰ ہے وہ غیب جاننے والا ہے ۔ سو اپنے غیب پر بجز اپنے پسندیدہ رسولوں کے کسی کو مسلط نہیں کرتا ۔

وَعَلَّمَ اَدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّها ۔ (البقره) ۔ کے تحت لکھتے ہیں : ان المراد اسماء کل ما خلق ﷲ من اجناس المحدثات من جمع اللغات المختلفه التی یتکلم بها ولد ادم الیوم من العربیة والفارسیة والرومیة وغیرها وکان ولد ادم علیه السلام یتکلمون بهذه اللغات فلما مات ادم تفرق ولده فی نواحی العالم تکلم کل واحد منهم بلغة معینة من تلک اللغات فغلب علیه ذلک اللسان فلما طالت المدة و مات منهم قرن بعد قرن نسوا سائر اللغات فهذا هو السبب فی تغیر الالسنه فی ولد ادم علیه السلام ۔ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 176،چشتی)
ترجمہ : مشہور بات یہی ہے کہ اسماء سے مراد تمام مخلوق کی اجناس و اقسام کے نام ہیں ان مختلف زبانوں میں جن کو اولاد آدم آج تک استعمال کر رہی ہے مثلاً عربی ، فارسی ، رومی وغیرہ ۔ اولاد آدم ان زبانوں میں گفتگو کرتی تھی جب آدم علیہ السلام کی وفات ہوئی اور آپ کی اولاد دنیا کے کونے کونے ان زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں بات کرنی شروع کر دی اور ان لوگوں پر وہی زبان غالب آگئی جب مدت لمبی ہو گئی اور یکے بعد دیگرے قومیں رخصت ہوتی گئیں تو لوگ باقی زبانیں بھول گئے ۔ یہی سبب ہے اولاد آدم میں مختلف زبانوں کے اختلاف ۔

قال علما ونا وقد انقلبت الاحوال فی هذه الازمان باتیان المنجمین والکهان لاسیما بالدیار المصریة فقد شاع فی روسائهم واتباعهم و امرائهم اتخاذ المنجمین بلٌ لقد انخدع کثیر من المنتسبین الفقه والدین فجاؤَا الی هولاء الکهنه و العرافین فبهر جوا علیهم بالمحال و استخرجوا منهم الاموال فحصلوا من اقوالهم علی السراب والال ومن ادیانهم علی الفساد والضلال وکل ذلک من الکبائر لقوله علیه السلام ’’لم تقبل له صلاة اربعین لیله فکیف بمن اتخذهم وانفق علیهم معتمدا علی اقوالهم‘‘ روی المسلم رحمه ﷲ عن عائشة رضی ﷲ عنها قالت سَألَ رسولَ ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم اناسٌ عن الکهان فقال انهم لیسوا بشئی فقالوا یا رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم انهم یحدثون احیانا بشئی فیکون حقا فقال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم تلک الکلمة من الحق یخطفها الجنی فیقرها فی اذن ولیه قر الدجاجه فیخلطون معها مائه کذبه‘‘ واخرج البخاری ایضا من حدیث ابی لاسود محمد بن عبدالرحمن عن عروه عن عائشه رضی ﷲ عنها سمعت رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم یقول ان الملائکة تنزل فی العنان و هو السحاب فتذکر الامر قضی فی السماء فتسترق الشیاطین السمع فتسمعه فتوحیه الی الکهان فیکذبون معها مائة کذبة من عند انفسهم ۔ (تفسیر قرطبی جلد 7 صفحہ 4)
ترجمہ : ہمارے علماء نے فرمایا اس زمانے میں حالات میں انقلاب آگیا ہے۔ لوگ نجومیوں اور کاہنوں کے پاس آتے ہیں خصوصاً مصر میں کہ ان کے رئیسوں، ان کے پیروکاروں اور ان کے امراء میں نجومیوں کی خدمات حاصل کرنا بہت عام ہے بلکہ بہت سے دین و فقہ کی طرف منسوب ہونے والے (علمائ) بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ وہ ان کاہنوں (غیب کے دعویداروں) او رماہروں، قیانہ شناسوں کے پاس آتے ہیں۔ پھر یہ لوگ بڑے ناز و انداز سے ان کو محال باتوں کے ہونے کا اطمینان دلاتے اور ان سب سے مال نکالتے ہیں۔ سو ان باتوں سے وہ سراب (دوپہر کو پانی کی طرح نظر آنے والی ریت) اور آل (دوپہر کو فضا میں چمکتے پانی کے قطرے) ہی حاصل کر سکتے ہیں یعنی صفر، ان کے مسلک سے فساد و گمراہی ہی مل سکتی ہے۔ بہر حال یہ سب بڑے گناہ ہیں کیونکہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان کیپاس آنے والے کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ تو کیا حال ہو گا ان لوگوں کا جو ان کے دامن سے وابستہ ان پر اپنے مال خرچ کر تے اور ان کی باتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ امام مسلم ؒ نے (ام المؤمنین حضرت) عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کی کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لوگوں نے کاہنوں (بزعم خود غیب دان) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کاہن کچھ نہیں۔ صحابہ ث نے عرض کیا کیا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی باتیں بسا اوقات سچی نکل آتی ہیں تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کلمہ حق کوئی جن کہیں سے لے آتا ہے اور اسے اپنے دوست کاہن کے کان میں ڈال دیتا ہے تو پھر یہ لوگ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتے ہیں اور امام بخاریؒ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کی کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا کہ فرشتے بادل میں اتر کر کسی ایسی بات کا ذکر کرتے ہیں جس کا آسمانوں پر فیصلہ ہوا ہو۔ شیطان چوری سے انہیں سن لیتے اور کاہنوں کو بتا دیتے ہیں جس میں وہ اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا لیتے ہیں ۔

امام رازی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : قال الفراء یاتیه غیب السماء وهو شیئی نفیس فلا یبخل به علیکم وقال ابو علی الفارسی المعنی انه یخبر بالغیب فیبینه ولا یکتمه کما یکتم الکاهن ذلک ویمتنع من اعلامه حتی یا خذ علیه حلوانا ۔ (تفسیر کبیر جلد 31 صفحہ 74)
ترجمہ : فراء نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آسمانی غیب آتا ہے جو نفیس چیز ہے ۔ پھر آپ اس کے عطا فرمانے میں تم سے بخل نہیں کرتے ۔ ابو علی فارسی نے کہا مطلب یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب واضح طور پر بتا دیتے ہیں اور کاہن کی طرح چھپاتے نہیں جو مٹھائی لے کر بتاتا ہے ۔ (وہ بھی غلط) ۔

قُلْ لاَّ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنَ ﷲِ ۔ کے تحت لکھتے ہیں غلم غیب کا مفہوم : المراد منه ان یظهر الرسول من نفسه التواضع ﷲ والخضوع له والاعتراف بعبودیته حتی لا یعتقد فیه مثل اعتقاد النصاری فی المسیح ۔
ترجمہ : مراد یہ ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷲ کے سامنے اپنی عاجزی ظاہر فرمائیں اور اپنی بندگی کا اعتراف فرمائیں تاکہ آپ کے بارے میں ایسے عقیدے نہ رکھے جائیں جیسے عیسائیوں نے مسیح کے متعلق گھڑے ہیں ۔

القول الثانی : هذه الامور التی طلبتموها فلا یُمْکِمن تحصیلها الا بقدرة ﷲ فکان المقصود من هذا الکلام اظهار العز والضعف وانه لا یستقل بتحصیل هذه المعجزات التی طلبتوها منه ۔
ترجمہ : یہ ہے کہ جو مطالبے تم مجھ سے کر رہے ہو ان کو تو صرف ﷲ کی قدرت سے حاصل کیا جاسکتا ہے پس اس کلام کا مقصد یہ ہے کہ عاجزی و کمزوری کا اظہار کرنا اور یہ بتانا ہے کہ جن معجزات کا مطالبہ تم سرکار سے کرتے آئے ہو، وہ ان کو پورا کرنے میں مستقل قدرت نہیں رکھتے ۔

القول الثالث : معناه انی لا ادعی کونی موصوفا بالقدره الائقه باﷲ تعالی وقوله (ولا اعلم الغیب) أی ولا ادعی کوئی موصوفا بعلم ﷲ تعالی وبجموع هذین الکلامین حصل انه لا یدعی الالهیه ۔ (تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 231)
ترجمہ : اس کی وضاحت میں یہ ہے کہ میں اس قدرت کے ساتھ موصوف ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا جو صرف ﷲ تعالیٰ کے لائق ہے۔ (لا اعلم الغیب) کا مطلب یہ ہے کہ اس صفت علم سے موصوف ہونے کا دعویدار ہی نہیں جو ﷲ کی صفت خاصہ ہے دونوں باتوں کے مجموعے سے یہ مفہوم نکلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا ہونے کا دعوی نہیں فرما رہے ۔

لا رطبٍ ولا یابس الا فی کتاب مبین لوح محفوظ میں ہر چیز لکھنے کے تین فائدے ہیں : انه تعالی انما کتب هذه الاحوال فی اللوح المحفوظ لتفف الملائکه علی نفاذ علم ﷲ تعالی فی المعلومات وانه لا یغیب عنه مما فی السموات والارض شئی فیکون فی ذالک عبرة تامه کامله للملائکه الموکلین باللوح المحفوظ لانهم یقابلون به ما یحدث فی صحیفه هذا العالم فیجدونه موافقا له وثانیها یجوز ان یقال انه تعالی ذکر ما ذکر من الورقه والحبه تنبیها للمکلفین علی أمر الحساب واعلاما بانه لا یفوته من کل ما یصنعون فی الدنیا شئی لأنه اذا کان لا یهمل الاحوال التی لیس فیها ثواب ولا عقاب ولا تکلیف فبان لا یهمل الاحوال المشتمله علی الثواب والعقاب اولی وثالثها انه تعالی علم احوال جمیع الموجودات فیمتنع تغییرها عن مقتضی ذالک العلم والالزام الجهل ۔ (تفسیر کبیر جلد 13 صفحہ 11،چشتی)
ترجمہ : ﷲ تعالیٰ نے یہ تمام حالات لوح محفوظ میں اس لئے لکھے ہیں کہ فرشتے اسے دیکھ کر معلوم کر لیں کہ مخلوق میں ﷲ کے علم کے مطابق کیا کچھ کرنا ہے۔ ﷲ سے تو زمین و آسمان کی کوئی شئے غائب نہیں۔ اس میں کامل و تام عبرت ہے۔ ان فرشتوں کے لئے جو لوح محفوظ پر مقرر ہیں کہ وہ صحیفہ کائنات میں ہونے والے امور کا لوح محفوظ میں لکھے گئے امور سے مقابلہ کرتے اور اس کے موافق پاتے ہیں۔ دوم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے ہر پتے اور دانے کا لوح محفوظ میں ذکر کر کے مکلفین کو حساب و کتاب پر تنبیہ کی ہے اور ان کو بتا دیا کہ وہ دنیا میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ ﷲ سے ذرہ بھر چھپا نہیں اس لہے کہ جب وہان امور میں سستی نہیں کرتا جن کا ثواب و عذاب اور تکلیف سے کوئی تعلق نہیں تور ان امور کے لکھنے میں بطریق اولیٰ سستی نہیں کرتا جن کا تعلق ثواب و عذاب سے ہے۔ سوم ﷲ تعالیٰ تمام موجودات کے حالات کو جانتا ہے تو اس کے علم کے خلاف ہونا محال ہے ورنہ اس کی جہالت لازم آئے گی تو جب اس نے تمام موجودات کے حالات پوری تفصیل سے لکھ دے ۔ اب بھی ان میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ورنہ جہالت لازم آئے گی ۔

دور و نزدیک : ⏬

يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ قَالُوا بَلَى وَلَكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ ۔ (سورہ الحدید : 14)
ترجمہ : وہ (منافق) اُن (مومنوں) کو پکار کر کہیں گے : کیا ہم (دنیا میں) تمہاری سنگت میں نہ تھے؟ وہ کہیں گے : کیوں نہیں لیکن تم نے اپنے آپ کو (منافقت کے) فتنہ میں مبتلا کر دیا تھا اور تم (ہمارے لیے برائی اور نقصان کے) منتظر رہتے تھے اور تم (نبوّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام میں) شک کرتے تھے اور باطل امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال دیا، یہاں تک کہ اللہ کا امرِ (موت) آپہنچا اور تمہیں اللہ کے بارے میں دغا باز (شیطان) دھوکہ دیتا رہا ۔

جنت آسمانوں سے بلند تر اور جہنم اسفل السافلین یعنی تمام مخلوق سے نیچ ترین جگہ ہے تب ان میں یہ مکالمہ کیسے ہو گا ؟

امام رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اذا یَدُلُّ علی ان البعد الشدید لا یمنع من الادراک ۔ (تفسیر کبیر جلد 29 صفحہ 226)
ترجمہ : اس آیت کا مضمون اس بات پر دلیل ہے کہ بہت زیادہ دوری علم کے لئے مانع نہیں ۔

ان اکثر ارباب الملل و النحل یسلمون وجود ابلیس ویسلمون انه هو الذی یتولی القاء الوسوسه فی قلوب بنی آدم ویسلمون انه یمکنه الانتقال من المشرق الی المغرب لَـاَجل القاء الوساوس فی قلوب بنی آدم فلما سلموا جواز مثل هذا الحرکه السریعه فی حق ابلیس فلان یسلموا جواز مثلها فی حق اکابر الانبیاء کان اولی ۔ (تفسیر کبیر جلد 20 صفحہ 149)
ترجمہ : اکثر اہل مذاہب ابلیس کا وجود مانتے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اولاد آدم کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اولادِ آدم کے دلوں میں وسوسہ اندازی کےلیے اس کا مشرق سے مغرب تک منتقل ہونا ممکن ہے سو جب اس قسم کی تیز حرکت ابلیس کےلیے جائز مانتے ہیں تو اکابر انبیاء کےلیے بطریق اولیٰ جائز ماننا چاہیے ۔

فان کان القول لمعراج محمد صلی الله علیه وآله وسلم فی الیله الواحده ممتنعا فی العقول کان القول بنزول جبریل علیه السلام من العرش الی مکة فی اللحظه الواحده ممتنعا ولو حکمنا بهذا الامتناع کان ذلک طعنا فی نبوه جمیع الانبیاء علیهم السلام۔ (تفسیر کبیر جلد 20 صفحہ 148)
ترجمہ : ایک رات میں معراج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عقلاً محال ہے تو جبرائیل علیہ السلام کا عرش سے مکہ تک ایک آن میں اترنا بھی محال ہو گا۔ اگر ہم اس محال کا فیصلہ کرلیں تو تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر طعن ہو گا ۔

تفسیر کی امہات کتب سے واضح ہوتا ہے کہ علم غیب کاعقیدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے۔ جو کہ اہل سنت و جماعت اور تمام اسلام کا عقیدہ رہا ہے اور آج ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے ۔

علمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وسعت ما کان وما یکون کو شامل ہے : ⏬

علم ما کان وما یکون قرآن سے ۔ ﷲ تعالیٰ نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو ہوا اور ہو گا سب کا علم عطا فرمایا قرآن کریم میں ہے : وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 113)
ترجمہ : اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ۔

اعتراض کرنے والوں سے پوچھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کیا نہیں جانتے تھے ؟ جب فہرست بنا کر دیں تو یہ آیہ کریمہ پڑھ کر سنا دیں ۔ کہ جو جو کچھ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ جانتے تھے وہ سب کچھ ﷲ نے آپ کو بتا دیا اور سکھا دیا ہے ۔ اس جاننے اور سیھکنے کے بعد بھی آپ پر غیب، غیب ہی رہا ؟ پھر اس پڑھانے سکھانے کا کیا فائدہ اور اس اعلان خداوندی کا کیا مطلب ؟ کیا معاذ ﷲ ، ﷲ عزوجل کے اعلان ایسے ہوتے ہیں جیسے انسانوں کے ؟

دوسری جگہ قرآن میں فرمایا : مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 179)
ترجمہ : اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے ، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کےلیے) چن لیتا ہے ، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاٶ اور اگر تم ایمان لے آٶ ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے ۔

سب جانتے ہیں کہ وجود ، علم ، حسن، قدرت ، اختیار ، اقتدار ، بادشاہی ، سننا دیکھنا ، جزا و سزا دینا ، رزق ، صحت ، بیماری دینا ، کھلانا پلانا وغیرہ سب ﷲ تعالیٰ کی صفات ازلی ہیں ۔ مخلوق کے پاس جو کچھ بھی ہے ﷲ کی دین ہے ، اس کی عطا ہے ۔ ﷲ تعالیٰ کے دیے بغیر نہ کسی کا وجود اپنا ہے نہ کوئی صفت ، نہ کوئی فعل نہ حکم وغیرہ ، ﷲکے دیے ہوئے سے ہے ۔ جو بھی مخلوق کے پاس ہے یہی حقیقتِ کبریٰ ہے ۔ یہی ایمان ہے اور یہی اسلام کی بنیاد ہے ۔ دونوں باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے ۔

اول : یہ کہ ﷲ تعالیٰ تمام کمالات کا مالک ہے۔ باقی سب اس کی عنایت و عطا ہے ۔

دوم : یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے جس مخلوق کو جو جتنا کمال دیا ہے اس پر بھی ایمان اسی طرح لایا جائے جس طرح پہلی حقیقت پر، کسی ایک کا بھی انکار کفر ہے ۔

چند مثالیں : ⏬

ﷲ مالک ہے، بادشاہ ہے، قرآن میں فرمایا : قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَـنْـزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔ (آل عمران، 3 : 26)
ترجمہ : (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں) عرض کیجیے : اے ﷲ ! سلطنت کے مالک ! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بے شک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے ۔

دیکھ لیجیے مالک الملک کس طرح اپنا ملک دے بھی رہا ہے اور چھین بھی رہا ہے ۔

ﷲ حلیم ہے ، علیم ہے ، رؤف ہے ، رحیم ہے مثلاً : ⏬

وَﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ (البقرہ، 2 : 247) ’’ اور ﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے ۔

إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ (البقرہ، 2 : 143) ’’ بے شک ﷲ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے ۔

إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ۔ (الإسراء، 17 : 1) ’’ بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے ۔

اب ذرا غور سے دیکھیں یہی صفات ﷲ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کو عطا فرمائی ہیں : ⏬

فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ ۔ (الصافات، 37 : 101) ’’ پس ہم نے انہیں بڑے بُردبار بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) کی بشارت دی ۔

اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ ۔ (الحجر، 15 : 53) ’’ ہم آپ کو ایک دانش مند لڑکے (کی پیدائش) کی خوش خبری سناتے ہیں ۔

بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ (التوبہ، 9 : 128) ’’ مومنوں کےلیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔

فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ۔ (الدھر، 76 : 2) ’’ پس ہم نے اسے (ترتیب سے) سننے والا (پھر) دیکھنے والا بنایا ہے ۔

یہ سب عام انسانوں کی صفات بتائی گئی ہیں ۔ پس قرآن کریم سے بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ ایک لفظ مخلوق کےلیے استعمال ہوا اور وہی لفظ کسی دوسری جگہ ﷲ کے لئے استعمال ہوا ۔ یہ اشتراک لفظی تو ہے معنوی و حقیقی اشتراک ہرگز نہیں ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ﷲ کا دیا ہوا علم غیب ہے اور ساری کائنات سے زیادہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ نہ جانتے تھے وہ سب کچھ ﷲ نے آپ کو بتا دیا جو پہلی آیت میں مذکور ہے ۔ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ۔ (النسا، 4 : 113) ’’ اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے ۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن صبح کی نماز کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ تاخیر سے تشریف لائے یوں لگتا تھا کہ سورج نکل آیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی سے تشریف لائے تکبیر ہوئی، مختصر نماز پڑھائی ، سلام پھیر کر باآواز بلند فرمایا اپنی جگہ بیٹھے رہو پھر ہماری طرف رخ انور پھیر کر فرمایا ۔ میں تمہیں تاخیر کی وجہ بتاتا ہوں ، میں رات کو اٹھا ، وضو کر کے جو مقدر میں تھی نماز پڑھی، مجھے نماز میں اونگھ آ گئی دیکھا تو سامنے بہترین شکل و صورت میں میرا پروردگار تھا ۔ فقال یا محمد قلت لبیک رب قال فیما یختصم الملاء الاعلی قلت لا ادری قالها ثلث قال فوضح کفه بین کتفی حتی وجدت بردَ اَنامِلَه بین ثدبی قتجلی لی کل شئ وعرفت… الخ ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر القرآن، باب سورۃ ص، الرقم : 3235،چشتی)(احمد، ترمذی، امام بخاری نے صحیح کہا، مشکوۃ : 72)
ترجمہ : فرمایا : اے محمد ! میں نے عرض کی ، پروردگار ! حاضر ہوں ۔ فرمایا : فرشتے کس بات میں بحث کر رہے ہی ؟ میں نے عرض کی : مجھے معلوم نہیں ۔ یہی بات تین بار فرمائی ۔ فرمایا : میں نے دیکھا اس نے اپنا دستِ اقدس میرے دو شانوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی (انگلیوں سے مراد جو بھی ہے) پھر ہر چیز مجھ پر روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لی ۔۔۔ الخ ۔

حضرت حذیفہ بن یمان ص فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے : ما ترک شیئا یکون فی مقامه ذالک الی قیام الساعه الا حدث به حفظه من حفظه ونسیه من نسیه قد علمه اصحابی هولاء وانه لیکون منه الشئ قد نسیته فاراه فاذکره کما یذکر الرجل وجه الرجل واذا غاب عنه ثم اذا راه عرفه ۔ (بخاری، الصحیح، کتاب القدر، باب وکان امر ﷲ قدرا مقدورًا، 6 / 2435، الرقم : 6230)(مسلم، مشکوۃ : 461)
ترجمہ : کوئی چیز نہ چھوڑی ، قیامت تک ہونے والی ہر چیز بتا دی جس نے یاد رکھی ، یاد رکھی اور جو بھول گیا سو بھول گیا ۔ میرے ان ساتھیوں کو علم ہے، اس میں سے کوئی بات میں بھول جاتا ہوں پھر ہوتے دیکھتا ہوں تو یاد آ جاتی ہے جیسے کوئی شخص دوسرے کا چہرہ پہچانتا ہے پھر وہ اس سے غائب ہو جاتا ہے پھر جب اسے دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے ۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میری امت میں تلوار چلے گی تو قیامت تک نہ اٹھے گی اور قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے کچھ قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں یہاں تک کہ میری امت کے بعض گروہ بتوں کی عبادت کریں گے (جیسے گاندھی ، نہرو ، پٹیل ، سعودیہ و دبٸی میں مندروں کی تعمیر ، سعودی ریالوں کی یا امریکی سامراج کی) میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ۔ کلهم بزعم انه نبی ﷲ و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی لا تزال ظائفه من امتی علی الحق ظاهرین لا یضرهم من خالفهم حتی تاتی امر ﷲ ۔ (ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4 / 432، الرقم : 2219،چشتی)(ابوداؤد، ترمذی، مشکوۃ : 465)
ترجمہ : ہر ایک نبوت کا دعویٰ کرے گا حالانکہ میں آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا ، مخالف ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا یہاں تک کہ ﷲ کا حکم آ جائے گا ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ان رسول ﷲ قال لا تقوم الساعة حتی تَقْتَتِل فئتان عظیمتان تکون بینهما مقتلة عظیمة دعواهما واحدة… الخ (بخاری، الصحیح، کتاب الفتن، باب خروج النار، 6 / 2605، الرقم : 6704)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک دو بڑی جماعتیں جنگ نہ کریں اور ان میں بہت بڑی خونریزی ہو گی، دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا (یعنی اسلام) ۔ الخ ۔

مومن تو ہوتا ہی وہ ہے جو یومنون بالغیب غیب پر ایمان لائے کہ ﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو غیب کی باتیں بیان فرمائیں ان پر یقین کرے جو کہے کہ نبی کو غیب کا علم ﷲ نے دیا ہی نہیں ہے وہ فرشتوں، قبر، قیامت، ذات باری تعالیٰ ، جنت ، جہنم ، منکر نکیر ، حور و غلمان وغیرہ پر یقین کیسے کرے گا ؟ یہ حقائق تو صرف نبی نے بتائے ، ماننے والے مسلمان اور شک کرنے والے یا انکار کرنے والے غیر مسلم کہلائے ۔ نبی کا مفہوم ہی غیب بتانے والا ہے ۔ دیکھو عربی لغت کی کوئی کتاب قرآن و سنت میں یہ حقیقت واضح کر دی گئی ۔ ﷲ سب کو ہدایت دے آمین ۔

تکمیلِ علم : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ کلی علم پہلے دن سے ہی آپ کو حاصل نہیں ہو گیا بلکہ بتدریج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ اس کا نزول ہوا چونکہ قرآن کریم کے نزول میں 23 سال لگے ہیں لہٰذا ہر وہ بات جس کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے علم نہ تھا وہ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہو گئی ۔


علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نفی میں پیش کی جانی والی آیات کا جواب : ⬇

(آیت نمبر 1) وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِۚۛ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوۡنَ ﴿سورہ اعراف آیت نمبر 188)
ترجمہ : اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔

وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ : اور اگر میں غیب جان لیا کرتا ۔ اس آیتِ مبارکہ میں علمِ غیب کی نفی کی علماء ِکرام نے مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں ، ان میں سے چار توجیہات درج ذیل ہیں جنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علوم کے بیان پر مشتمل اپنی لاجواب کتاب’’اِنْبَائُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُوْنَ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْئ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کا کلام قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں بیان فرمایا ہے ۔

(1) اس آیت میں علمِ عطائی کی نفی نہیں بلکہ علمِ ذاتی کی نفی ہے ۔ امام قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غُیوب پر مُطّلع فرمایا اور آئندہ ہونے والے واقعات سے با خبر کیا۔ اس باب میں احادیث کا وہ بحرِ ذَخّار ہے کہ کوئی اس کی گہرائی جان ہی نہیں سکتا اور نہ ا س کا پانی ختم ہوتا ہے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو یقین اور وُثوق سے معلوم ہے اور ہم تک ا س کی خبریں مُتواتِر طریقے سے کثرت سے پہنچی ہیں اور غیب پر اطلاع ہونے پر اِن احادیث کے معانی و مطالب آپس میں متحد ہیں ۔ (شفاء شریف، فصل ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ص۳۳۵-۳۳۶، الجزء الاول)

(2) اس آیت سے بعض لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کی نفی کرتےہیں ۔ یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ قرآن پڑھ کر لوگوں کا گمراہ ہونا ۔ قرآن سے ثابت ہے ۔ سورہ بقرہ،آیت نمبر26 يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦) اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے (ف۴۷) اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں-(ف ۴۸) (٢٦)

کسی نے بخاری شریف کے بارے میں کہا ہے : ⏬

بغیر عشق کے جو پڑھتے ہیں بخاری
آتا ہے بخار ان کو آتی نہیں‌ بخاری

اعظم چشتی مرحوم نے کہا تھا : ⏬

محبوبان اتے نقطی چینی کرنا کم نہیں ‏عاشقاں دا
جتھے دل لگ جاوے اعظم اوتھےعیب نظر نہیں‌آؤندا

علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’یہ وضاحت ا ن قرآنی آیات کے منافی نہیں جن میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور اس آیتِ کریمہ’’ وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ‘‘ میں کسی واسطے کے بغیر (یعنی علمِ ذاتی) کی نفی کی گئی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکا غیب پر مطلع ہونا ثابت ہے اور ا س کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ۔ عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہ اَحَدًا ۔ ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ‘‘ (سورۂ جن۲۶،۲۷) ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (نسیم الریاض، القسم الاول فی تعظیم العلی الاعظم۔۔۔ الخ، فصل فیما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ۴/۱۴۹)

یہ کلام ادب و تواضع کے طور پر ہے

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اس بات کا احتمال ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے یہ کلام تواضع اور ادب کے طور پر فرمایا ہو اور مطلب یہ ہے کہ میں غیب نہیں جانتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس کی مجھے اطلاع دی اور جو میرے لئے مقرر فرمایا میں صرف اسی کو جانتا ہوں ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷ )

اس آیت میں فی الحال غیب جاننے کی نفی ہے مستقبل میں نہ جاننے پر دلیل نہیں ہے ۔ علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے غیب پر مطلع ہونے سے پہلے یہ کلام فرمایا، پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو علمِ غیب کی اطلاع دی تو حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا س کی خبر دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ‘‘ (سورۂ جن۲۶،۲۷) ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷،چشتی)

یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا، پھر ا س کے بعد اللہ تعالیٰ نے غیبی اَشیاء کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَپر ظاہر کیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی خبر دی تاکہ یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا معجزہ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت صحیح ہونے پر دلیل بن جائے ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷)

لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ:تومیں بہت سی بھلائی جمع کرلیتا ۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت ،امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بھلائی جمع کرنا اور برائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہوسکتا ہے جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی رکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہوکیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے اس کے تمام صفات ذاتی ،تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کرلیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا ۔ بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے تنگی و تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کرلینا ہو اور برائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا تو حاصلِ کلام یہ ہوگا کہ اگر میں نفع و ضَرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین وکافرین ! تمہیں سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی ۔ (تفسیر خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ص۳۳۰،چشتی)

(آیت نمبر 2) قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْؕ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ وَ مَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ (سورہ احقاف آیت نمبر 9)
ترجمہ : تم فرماؤ میں کوئی انوکھا رسول نہیں اور میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے اور میں نہیں مگر صاف ڈر سنانے والا ۔

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ : تم فرماؤ : میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پرنت نئے اعتراضات کرنا کفارِ مکہ کا معمول تھا ، چنانچہ کبھی وہ کہتے کہ کوئی بشرکیسے رسول ہوسکتاہے؟ رسول توکسی فرشتے کوہوناچاہیے ،کبھی کہتے کہ آپ توہماری طرح کھاتے پیتے ہیں ،ہماری طرح بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں ،آپ کیسے رسول ہوسکتے ہیں ؟کبھی کہتے: آپ کے پاس نہ مال ودولت ہے اورنہ ہی کوئی اثر ورسوخ ہے ۔ ان سب باتوں کاجواب اس آیتِ مبارکہ میں دیا گیا کہ اے پیارے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، آپ ان سے فرما دیں :میں کوئی انوکھارسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی رسول آچکے ہیں ، وہ بھی انسان ہی تھے اوروہ بھی کھاتے پیتے تھے اور یہ چیزیں جس طرح ان کی نبوت پر اعتراض کا باعث نہ تھیں اسی طرح میری نبوت پر بھی اعتراض کا باعث نہیں ہیں تو تم ایسے فضول شُبہات کی وجہ سے کیوں نبوت کا انکار کرتے ہو ؟

دوسری تفسیر یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کفارِ مکہ عجیب معجزات دکھانے اور عناد کی وجہ سے غیب کی خبریں دینے کا مطالبہ کیا کرتے تھے ۔اس پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا کہ آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں کہ میں انسانوں کی طرف پہلا رسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول تشریف لاچکے ہیں اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی وحدانیّت اور عبادت کی طرف بلاتے تھے اور میں اس کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بلانے والا نہیں ہوں بلکہ میں بھی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے اور سچے دل کے ساتھ اس کی عبادت کرنے کی طرف بلاتا ہوں اور مجھے اَخلاقی اچھائیوں کو پورا کرنے کے لئے بھیجاگیا ہے اور میں بھی اس چیز پر (ذاتی)قدرت نہیں رکھتا جس پر مجھ سے پہلے رسول (ذاتی) قدرت نہیں رکھتے تھے، تو پھر میں تمہیں تمہارا مطلوبہ ہر معجزہ کس طرح دکھا سکتا ہوں اور تمہاری پوچھی گئی ہر غیب کی خبر کس طرح دے سکتا ہوں کیونکہ مجھ سے پہلے رسول وہی معجزات دکھایا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے تھے اور اپنی قوم کو وہی خبریں دیا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی تھیں اور جب میں نے پچھلے رسولوں سے کوئی انوکھا طریقہ اختیار نہیں کیا تو پھر تم میری نبوت کا انکار کیوں کرتے ہو ؟ ( تفسیرکبیر ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : ۹، ۱۰/۹ ، خازن ، الاحقاف ، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸/۴۶۷،چشتی)

وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ : اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا؟} آیت کے اس حصے کے بارے میں مفسرین نے جو کلام فرمایا ہے ا س میں سے چار چیزیں یہاں درج کی جاتی ہیں : ⏬

یہ آیت منسوخ ہے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں دو صورتیں ہیں ،پہلی صورت یہ کہ اگر اس آیت کے یہ معنی ہوں ’’ قیامت میں جو میرے اور تمہارے ساتھ کیا جائے گا وہ مجھے معلوم نہیں ۔‘‘تو یہ آیت سورہِ فتح کی آیت نمبر 2 اور 5 سے منسوخ ہے ،جیسا کہ حضرت عکرمہ اور حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں : اسے سورہِ فتح کی اس آیت ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ(۱) لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ۔۔۔الایۃ ‘‘ نے منسوخ کر دیا ہے۔(تفسیر طبری، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۱۱/۲۷۶)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :آیت کریمہ ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ اور ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ۔۔۔الایۃ ‘‘ نازل فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بتا دیا کہ وہ آپ کے ساتھ اور ایمان والوں کے ساتھ (آخرت میں ) کیا معاملہ فرمائے گا۔( در منثور، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۷/۴۳۵)

اس کی تفصیل اس حدیثِ پاک میں ہے ،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حُدَیْبِیَہ سے واپسی کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی : لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ۔ (فتح:۲)
ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارےاگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے ۔

توحضورِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے زمین پر موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔پھر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سامنے اسی آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو مبارک ہو،اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے تو بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرے گا،اب (یہ معلوم نہیں کہ) ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا،تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ۔
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ ۔ (فتح:۵) ،، بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اور تاکہ اللہ ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵/۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عُزّیٰ کی قسم! اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارا اور محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کا یکساں حال ہے ، انہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت نہیں ، اگر یہ قرآن ان کا اپنا بنایا ہوا نہ ہوتا تو ان کو بھیجنے والا انہیں ضرور خبر دیتا کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرے گا ۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ (فتح:۲) ۔ ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارےاگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضور کو مبارک ہو، آپ کو تو معلوم ہوگیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا ،اب یہ انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کیا کرے گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ(فتح:۵)
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔
اور یہ آیت نازل ہوئی : وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا‘‘(احزاب:۴۷) ترجمہ : اور ایمان والوں کو خوشخبری دیدو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے ۔
تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اور مومنین کے ساتھ کیا کرے گا۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳،چشتی)

دوسری صورت یہ ہے کہ آخرت کا حال تو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا بھی معلوم ہے ، مومنین کا بھی اورجھٹلانے والوں کا بھی ،اور اس آیت کے معنی یہ ہیں ’’ دنیا میں کیا کیا جائے گا، یہ معلوم نہیں ‘‘ اگر آیت کے یہ معنی لئے جائیں تو بھی یہ آیت منسوخ ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ بھی بتادیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ‘‘( توبہ:۳۳) ۔ ترجمہ : تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے ۔

اورارشاد فرمایا : وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘(انفال:۳۳)
ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذابدے جب تک اے حبیب! تم ان میں تشریف فرما ہو۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳، خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴)

یہاں اس آیت کے منسوخ ہونے کے بارے میں جو تفصیل بیان کی اسے دوسرے انداز میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمانا ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ قرآنِ مجید کا نزول مکمل ہونے سے پہلے کی بات ہے ،ا س لئے یہاں فی الحال جاننے کی نفی ہے۔ آئندہ اس کا علم حاصل نہ ہونے کی نفی نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ آیت اسلام کے ابتدائی دور میں ،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مومنین اور کفارکا انجام بیان کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی، ورنہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ا س وقت تک دنیا سے تشریف نہ لے گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآنِ مجید میں اِجمالی اور تفصیلی طور پر وہ سب کچھ بتا دیا جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مومنین اور کفار کے ساتھ کیا جائے گا۔( صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۵/۱۹۳۳-۱۹۳۴،چشتی)

(2) یہاں ذاتی طور پر جاننے کی نفی کی گئی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نفی دائمی اور اَبدی ہے، لیکن اس سے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے ہر چیز کے جاننے کی نفی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ علامہ نظام الدّین حسن بن محمد نیشا پوری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : آیت کے اس حصے میں اپنی ذات سے جاننے کی نفی ہے وحی کے ذریعے جاننے کی نفی نہیں ہے ۔(غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶/۱۱۸)

صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو حضور کے ساتھ اور حضور کی امت کے ساتھ پیش آنے والے اُمور پر مُطَّلع فرما دیا خواہ وہ دنیا کے ہوں یا آخرت کے اور اگر دِرایَت بَمعنی اِدراک بِالقیاس یعنی عقل سے جاننے کے معنی میں لیا جائے تو مضمون اور بھی زیادہ صاف ہے اور آیت کا اس کے بعد والا جملہ اس کا مُؤیِّد ہے۔(خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴،چشتی)

یہاں تفصیلی دِرایَت کی نفی ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مومنین پر فضل و ثواب کی خِلعَتُوں کی نوازش کرتا رہے گا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں پر ذلت و عذاب کے تازیانے اور کوڑے برساتا رہے گا اور یہ سب کے سب غیر مُتناہی ہیں یعنی ان کی کوئی انتہاء نہیں ، اور غیر مُتناہی کی تفصیلات کا اِحاطہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی کر سکتا ہے ۔

علامہ نیشا پوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں : تفصیلی دِرایَت حاصل نہیں ہے ۔ ( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶/۱۱۸ ،چشتی)

اور علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ـ:ممکن ہے کہ یہاں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ تفصیلی دِرایَت ہو،یعنی مجھے اِجمالی طور پر تو معلوم ہے لیکن میں تمام تفصیلات کے ساتھ یہ نہیں جانتا کہ دنیا اور آخرت میں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گاکیونکہ مجھے (ذاتی طور پر )غیب کا علم حاصل نہیں ۔

آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مُبَلِّغ(یعنی بندوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دینے والا )بنا کر بھیجا گیا ہے اور کسی کو ہدایت دے دینا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غیبوں کا ذاتی علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے جبکہ انبیا ء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا غیبی خبریں دینا وحی، اِلہام اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے واسطے سے ہے۔(روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸/۴۶۷-۴۶۸)

یہاں دِرایَت کی نفی ہے، علم کی نہیں ۔دِرایَت کا معنی قیاس کے ذریعے جاننا ہے یعنی خبر کی بجائے آدمی اپنی عقل سے جانتا ہواور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اُخروی اَحوال کو اپنے عقلی قیاس سے نہیں جانا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانا۔ یہ معنی اوپر دوسری تاویل میں خزائن العرفان کے حوالے سے ضمنی طور پربھی موجود ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ان کے ساتھ اور آپ کی امت کے ساتھ پیش آنے والے امُور پر مُطَّلع فرمادیا ہے خواہ وہ دنیا کے اُمور ہوں یا آخرت کے اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیب کا ذاتی علم نہیں رکھتے اور جوکچھ جانتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے جانتے ہیں ۔

نوٹ : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’اِنْبَاءُ الْحَی اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُونُ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْئ‘‘ (قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں اسی آیت کو ذکرکر کے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کی نفی پر بطورِ دلیل یہ آیت پیش کرنے والوں کا رد فرمایا اور اس آیت میں مذکور نفی ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ:میں نہیں جانتا‘‘ کے 10جوابات ارشاد فرمائے ہیں ،ان کی معلومات حاصل کرنے کے لئے مذکورہ بالا کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔

نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک سے یہ فرمان پیش کیا گیا ہے کہ ماادری مایفعل بی ولا بکم ، جس کا ترجمہ انہوں نے یہ کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے، اس کے ساتھ ہی بعد میں دی جانے والی حدیث کو کو بھی شامل کردیا جائے تو بہتر ہوگا ۔

حدیث نمبر 1 میں ہے کہ ایک صحابیہ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد یہ الفاظ کہے کہ میں گواہی دیتی ہوں اس بات کی کہ ضرور تحقیق اللہ نے تیرا اکرام کیا ہے (بخاری) اس کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا میں خدا کا نبی ہوں مگر درایت کی رو سے میں ایسا بیان جاری نہیں کرتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ۔ (مشکوٰة بحوالہ بخاری) ، آیت وحدیث ملا کر پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل کے حوالے سے کوئی یقینی بات روایت کی رو سے کرنی چاہئے ، درایت(عقل وقیاس) کی رو سے نہیں، لیکن بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ جیسے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنا اور دوسروں کا انجام معاذ ﷲ معلوم نہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین نے یہ آیت سنی تو ہمارے دور کے کم فہموں والا مفہوم مراد لے بیٹھے اور خوشی سے پھولے نہ سمائے ، پھر ﷲ تعالیٰ نے سورة فتح نازل فرمائی تو درایت سے پیدا ہونے والے ابہام کو توضیحی بیان سے دور فرمایا اور صحابہ کرام کو سورة فتح کے نزول سے بہت زیادہ خوشی ہوئی، جس میں سورة الاحقاف کی مذکورہ زیر بحث آیت میں بیان شدہ خبر کے ابہام کو توضیح سے بدل دیا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سورة الاحقاف کی مذکورہ آیت کو سورة فتح نے منسوخ کردیا، جو اخبار میں نسخ کے قائل ہیں وہ یہی کہتے ہیں، اور دوسرے یہ کہتے ہیں کہ خبر کے ابہام کو بعد میں آنے والی توضیح نے منسوخ کر دیا ۔

ایک تو یہ لوگ ہیں جو سورة الاحقاف کے نزول تک بھی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنے اور اپنے صحابہ کے انجام سے بے خبر بتاتے ہیں اور دوسری طرف ہم محبت کے مارے ہیں جو کہتے ہیں کہ جس قلم نے ماکان ومایکون کا علم لکھا وہ نور محمدی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہے، اور آپ اُس وقت سے اپنے اور سب کے انجام سے واقف ہیں، تفصیل یہ ہے کہ ترمذی شریف میں حضرت عبادہ بن صامت رضی ﷲ عنہ کی حدیث ابواب القدر کے باب نمبر ١٧ میں موجود ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو تخلیق فرمایا ، اسے فرمایا لکھ، اس نے عرض کیا کیا لکھوں، حکم ہوا کہ اکتب القدر ما کان وماھو کائن الی الابد(حدیث نمبر ٢١٥٥) ، یعنی لکھ تقدیر کو جو کچھ ہوا اور جوکچھ ابد تک ہونے ولا ہے ۔ (مشکوٰة صفحہ ٢١)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اوّل الخلق کاتب تقدیر ذی شعور قلم ہے کون سا ؟ اس کا جواب بخاری ، کتاب القدر، حدیث نمبر٦٦٠٩، بخاری کتاب الایمان والنذور، حدیث نمبر ٦٦٩٤، ابودائود، کتاب الایمان، حدیث نمبر٣٢٨٨ میں آچکا ، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ''لا یاتی ابن أدم النذر بشی لم أکن قدرتہ '' کہ ابن آدم کو نذر (منت) سے وہ چیز نہیں ملتی جو میں (نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) نے اُس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو ۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ تقدیر لکھنے والے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہیں اور قلم لا لفظ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے بطور استعارہ آیا ہے، عجب نہیں کہ ن والقلم (سورة قلم، آیت ١) میں نور محمدی بشکلِ قلم مراد ہو، ورنہ قلموں کی کیا مجال کہ وہ ماکان وما یکون جان سکیںلکھنا تو دُور کی بات ہے ، (سورة لقمان، آیت ٢٧)، بعض عارفین نے کہا کہ اوّل الخلق نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں ، اوّل الخلق کے طور پر حدیثوں میں آنے والے سب نام آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے استعارةً استعمال ہوئے ہیں۔(سر الاسرار، ص١٢، ١٤ ۔ مرصاد العباد، ص٣٠۔ تاریخ الخمیس،ج ١، ص١٩،چشتی)

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

ماکان و مایکون کا علم تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اُس وقت بھی حاصل تھا، البتہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا علم مبارک تکمیلِ نزولِ قرآن تک ہر لمحہ ﷲ تعالیٰ بڑھاتا رہا، اور ہر لمحہ کا علم پچھلے لمحہ کی نسبت تفصیل بنتا چلا گیا اور ماضی والا علم اُس کی روشنی میں اجمالی نظر آیا، تاہم باقی تمام مخلوقات کے تفصیلی علوم کے مجموعے سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا اجمالی علم جو لوح نے قلم سے محفوظ کیا وہ زائد ہے، امیر مینائی نے کیا خوب کہا : ⏬

حضرت کا علم علمِ لدنی تھا اے امیر
دیتے تھے قدسیوں کو سبق بے پڑھے ہوئے

تعلیم جبرائیلِ امیں تھی برائے نام
حضرت وہیں سے آئے تھے لکھے پڑھے ہوئے

اس کلام کی روشنی میں قصیدہ بردہ کا وہ مصرعہ سمجھنا مشکل نہ رہا کہ'' ومن علومک علم اللوح والقلم '' ، لوح وقلم کا علم تو آپ کے علوم میں سے صرف ایک علم ہے، یہ محض عقیدت نہیں حدیثوں کو ملا کر دیکھنے سے ثابت ہے، یہ قرآن کے عجائب وغرائب ہیں جنہیں قیامت تک ظاہر ہوتے رہنا ہے، حاصل یہ ہوا کہ حضور ۖ کا یہ علم درایة پر مبنی نہیں ، قیاس کے گھوڑے دوڑا کر حاصل نہیں کیا گیا ، یہ قطعی یقینی تعلیم الٰہی پر مبنی ہے۔

حدیث نمبر ١۔ رسول ﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ گو میں خدا کا نبی ہوں مگر مجھے یہ'' معلوم نہیں '' کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے ۔ اس کی وضاحت اوپر پیش کی جاچکی ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا، کے حوالے سے میرا علم ظن وتخمین اور درایت وقیاس پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں میرا علم قطعی اور وحی الٰہی پر مبنی ہے۔

حدیث نمبر 2 ۔ ربیع بنت معوذ کا بیان ہے کہ چند بچیاں کچھ شعر پڑھ رہی تھیں ان میں سے کسی نے کہا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ(ہم میں ایک ایسا نبی ہے جو آنے والی کل کی بات جانتا ہے) ، آپ نے فرمایا ایسا مت کہو جو شعر پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھتی رہو۔ (بخاری)

بچیوں نے شادی کی تقریب میں شہداء کا مرثیہ پڑھتے پڑھتے نبی پاک ۖ کو دیکھ کر اچانک موضوع بدلا اور نعتیہ کلام شروع کردیا، جس میں کہا گیا تھا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ ، ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات سے باخبر ہے، یہ مصرعہ کسی صحابی کی کہی گئی نعت کا ہی ہوسکتا ہے جو بچیوں تک کو یاد تھی، بچیوں نے منقبت صحابہ کو چھوڑ کر نبی پاک ۖ کی نعت شروع کی تو آپ ۖ نے اُنہیں منقبت صحابہ جاری رکھنے کا حکم دیا اور کسر نفسی اور تواضع سے کام لیا، اگریہ جملہ شرکیہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اُن بچیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور توبہ کی تلقین فرماتے، آپ نے صرف اتنا فرمایا اسے رہنے دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں، بلکہ اس مصرعہ سے ملتا جلتا مصرعہ حضرت مالک بن عوف رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اُس کو مصرعہ چھوڑنے کی بجائے انعام سے نوازا، مصرعہ یہ ہے ومتیٰ تشاء یخبرک عما فی غدٍ اور جب تو چاہے تو وہ تجھے بھی اس بات سے باخبر کردیں کہ کل کیا ہونے والا ہے(الاصابہ ، ابن حجر عسقلانی، ج٥، ص٥٥١) ۔

کے حوالے سے منقول ہے کہ جو شخص تمہیں کہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ یہ پانچ غیب جانتے تھے تو وہ شخص بڑا جھوٹا ہے ۔ (بخاری شریف)

اُم المومنین سے دوسری جگہ یہ الفاظ یوں منقول ہیں کہ جو شخص کہتا ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کل کیا ہوگا سے باخبر ہیں، اُس نے جھوٹ بولا انہ یعلم ماغدٍ (بخاری ، کتاب التفسیر سورة النجم، حدیث ٤٨٥٥) ۔

تیسری جگہ الفاظ یوں ہیں انہ یعلم الغیب یعنی جو کہتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیب کا علم رکھتے ہیں تو وہ کذب کا مرتکب ہے۔اب روایتیں ملا کر دیکھیں تو پورا مفہوم یہ ہوا کہ جو شخص کہتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کل کی بات کا علم ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سورة لقمان کے آخر والے پانچوں غیب جانتے ہیں اور آپ ۖ کو غیب کا علم حاصل ہے تو وہ کذب کا مرتکب ہوتا ہے، اُم المومنین رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے دو باتیں اور بھی اپنے اس فتوے میں ارشاد فرمائی ہیں ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر سورة النجم،حدیث نمبر٣٢٧٨ ) سے پتہ چلتا ہے کہ اُم المومنین حضرت عبدﷲ ابن عباس اور بنو ہاشم (رضی اللہ عنہم) کی طرف اشارہ فرمارہی ہیں کہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے رب کو دیکھا، اُم المومنین اُن کا ردّ کرتے ہوئے فرمارہی ہیں کہ جو تجھے کہے کہ (1) حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے رب کو دیکھا ، (2) یا حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسرار مخفی رکھے، (3) یا حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غیوب کا علم حاصل ہے تو وہ جھوٹ کا مرتکب ہے، یہ واضح بات ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اِن فضائل کا قائل اُس دَور کا کوئی کافر ومشرک تو نہیں تھا ، وہ جو بھی تھا مسلمانوں میں سے تھا ، اور اُم المومنین اُس دور کے کسی مسلمان کے اِن نظریات کی عبارت اور تعبیر میں خطا کو کذب سے تعبیر کر رہی ہیں ، تو یہ اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا اُن سے اجتہادی اختلاف ہے ، اُم المومنین نفی ادراکِ باری سے نفی رویتِ باری کا مفہوم نکال رہی ہیں ، تو اُن کا قیاس ہے ورنہ احادیث نبویہ میں رویت باری کا ثبوت ہر دو جہاں میں ملتا ہے ، اسی طرح تبلیغی احکام نہ چھُپانے کا مطلب یہ نہیں کہ اسرار بھی کسی سے نہ چھپائے ، اور علم غیب کے حوالے سے حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما حضرت خضر علیہ السلام کی بابت بیان فرماتے ہیں کان رجلاً یعلم علم الغیب''وہ مرد تھے جو علمِ غیب جانتے تھے'' ۔ (تفسیر ابن جریر ۔ تفسیر ابن کثیر) ، بلکہ بخاری شریف میں تو حدیث مرفوع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین اقوال پر بھی لفظِ کذب استعمال کیا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ وہ بھی صورتاً کذب ہے نہ کہ حقیقتاً ۔

منکرین نفی غیب کےلیے بہت سی احادیث پیش کرتے ہیں ۔ ان سب کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ ان احادیث میں حضور علیہ السلام نے یہ نہ فرمایا کہ مجھے رب نے فلاں چیز کا علم نہ دیا بلکہ کسی میں تو ہے ۔“ اللہ اعلم“کسی میں ہے مجھے کیا خبر کسی میں ہے کہ فلاں بات حضور علیہ السلام نے نہ بتائی۔ کسی میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے فلاں سے یہ بات پوچھی۔ اور یہ تما باتیں علم کی نفی ثابت نہیں کرتی۔ نہ بتانا یا پوچھنا یا اللہ اعلم فرمایا اور بہت سی مصلحتوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے بہت سی باتیں خدا نے بندوں کو نہ بتائیں ۔ سوال کے باوجود مخفی رکھا ۔ بہت سی چیزوں کے متعلق پروردگار عالم فرشتوں سے پوچھتا ہے کیا اس کو بھی علم نہیں۔ ایک حدیث قطعی الدالالت ایسی لاؤ ۔ جس میں عطائے علم غیب کی نفی ہو۔ مگر ان شاء اللہ نہ لاسکیں گے ۔ یہ جواب نہایت کافی تھا مگر پھر بھی ان کی مشہور احادیث عرض کر کے جواب عرض کرتا ہوں۔ وباللہ التوفیق ۔

اعتراض 1 : مشکوٰۃ باب الاعلان النکاح کی پہلی حدیث ہے کہ حضور علیہ السلام ایک نکاح میں تشریف لے گئے جہاں انصار کی کچھ بچیاں دف بجا کر جنگ بدر کے مقتولین کے مرثیہ کے گیت گانے لگیں ان میں سے کسی نے یہ مصرعہ پڑھا : وفینا نبی یعلم ما فی غد ۔  ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں ۔ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو۔ وہ ہی گائے جاؤ جو پہلے گا رہی تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو علم غیب نہیں تھا اگر ہوتا تو آپ ان کو یہ کہنے سے نہ روکتے ۔ سچی بات سے کیوں روکے ۔

جواب : اولاً تو غور کرنا چاہیے کہ یہ مصرع خود ان بچیوں نے تو بنایا ہی نہیں۔ کیونکہ بچیوں کو شعر بنانا نہیں آتا۔ اور نہ کسی مفر و مشرک نے بنایا۔کیوں کہ وہ حضور علیہ السلام کو نبی نہیں مانتے تھے لا محالہ یہ کسی صحابی کا شعر ہے ۔ بتاؤ وہ شعر بتانے والے صحابی معاذ اللہ مشرک ہیں یا نہیں؟ پھر حضور علیہ السلام نے نہ تو اس شعر بنانے والے کو برا کہا نہ شعر کی مذمت کی ۔ بلکہ ان کو گانے سے روکا ۔ کیوں روکا؟ چار وجہ سے اولا یہ کہ اگر کوئی ہمارے سامنے ہماری تعریف کرے ۔ تو بطور انکسار کہتے ہیں ۔ ارے میاں! یہ باتیں چھوڑو وہ ہی بات کرو ۔ یہ بھی انکساراً فرمایا ۔ دوم یہ کہ کھیل کود ۔ گانے بجانے کے درمیان نعت کے اشعار پڑھنے سے ممانعت فرمائی اس کے لئے ادب چاہیے ۔ تیسرے یہ کہ علم غیب کی نسبت اپنی طرف کرنے کو ناپسند فرمایا ۔ چوتھے یہ کہ مرثیہ کت درمیان نعت ہونا نا پسند فرمایا ۔ جیسا کہ آج کل نعت خواں کرتے ہیں کہ نعت و مرثیہ ملا ملا کر پڑھتے ہیں ۔ مرقاۃ میں اسی حدیث کے ما تحت ہے : لکرامۃ نسبۃ علم الغیب الیہ لانہ لا یعلم الغیب الا اللہ وانما یعلم الرسول من الغیب ما اعلمہ او لکرامۃ ان یذکر فی النار ضرب الدف واثناء مرثیۃ القتلی لعلو منصبہ عن ذالک ۔
ترجمہ : منع فرمایا کہ علم کی نسبت اپنی طرف کرنے کو ۔ کیونکہ علم غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور رسول وہ ہی غیب جانتے ہیں جو اللہ تعالٰی بتائے یا یہ پسند کیا کہ آپ کا ذکر دف بجانے میں یا مقتولین کے مرثیے کے درمیان کیا جاوے کہ آپ کا درجہ اس سے اعلٰی ہے ۔

اشعتہ اللمعات میں اسی حدیث کے ماتحت ہے : گفتہ اند کہ منع آنحضرت ازیں قول بجھت آں است کہ دروے اسناد علم غیب است بہ آنحضرت رانا خوش امدو بعضے گویند کہ بجھت آں است کہ ذکر شریف دے در اثنا لہو مناسب نہ باشد ۔
ترجمہ : شارحین نے کہا ہے حضور علیہ السلام کا اس کو منع فرمانا اسلئے ہے کہ اس میں علم غیب کی نسبت حضور کی طرف ہے۔ لہذا آپ کو ناپسند آئی اور بعض نے فرمایا کہ آپ کا ذکر شریف کھیل کود میں مناسب نہیں ۔

اعتراض 2 : مدینہ پاک میں انصار باغوں میں نر برخت کی شاخ مادہ درخت میں لگاتے تھے تا کہ پھل زیادہ دے اس فعل سے انصارکو حضور علیہ السلام نے منع فرمایا ( اس کام کو عربی میں تلقیح کہتے ہیں) انصار نے تلقیح چھوڑ دی ۔ خدا کی شان کے پھل گھٹ گئے اس کی شکایت سرکار دوعالم کی خدمت پیش ہوئی تو فرمایا : انتم اعلم بامور دنیاکم ۔ اپنے دنیاوی معاملات تم جانتے ہو ۔ معلوم ہوا کہ آپ کو علم نہ تھا کہ تلقیح روکنے سے پھل گھٹ جاوینگے اور انصار کا علم آپ سع زیادہ ثابت ہوا ۔

جواب : حضور علیہ السلام کا فرمانا“ انتم اعلم بامور دنیاکم“ اظہار ناراضگی ہے کہ جب تم صبر نہیں کرتے تو دنیاوہ معاملات تم جانو۔ جیسے ہم کسی سے کوئی بات کہیں اور وہ اس میں کچھ تامل کرے تو کہتے ہیں بھائی تو جان۔ اس سے نفی علم مقصود نہیں ۔ شرح شفاء علی قاری بحث معجزات میں فرماتے ہیں : وخصہ اللہ من الاطلاع علٰی جمیع مصالح الدنیا والدین واستشکل بانہ علیہ السلام وجد الانصار یلقحون النکل فقال لو ترکتموہ فلم یخرج شیئا او خرج شیصا فقال انتم اعلم بامور دنیاکم قال الشیخ السسوسی اراد ان یحملھم علٰی خرق العوائد فی ذلک الٰی باب التوکل واما ھناک فلم یمتثلوا فقال انتم اعرف بدنیا کم ولو امتثلوا و تحملوا فی سنۃ او سنتین لکفوا امر ھذہ المحنۃ ۔
ترجمہ : اللہ تعالٰی نے حضور علیہ السلام کو تمام دینی و دنیاوی مصلحتوں پر مطلع فرمانے سے خاص فرمایا اس پر یہ اعتراض ہے کہ حضور علیہ السلام نے انصار کو درختوں کی تلقیح کرتے ہوئے پایا تو فرمایا تم اس کو چھوڑ دیتے تو اچھا تھا انہوں نے چھوڑ دیا تو کچھ پھل ہی نہ آیا یا ناقص آیا تو فرمایا کہ اپنے دنیاوی معاملات تم جانو ۔ شیخ سنوسی نے فرمایا کہ آپ نے چاہا تھا کہ ان کو خلاف عادت کام کر کے باب توکل تک پہنچا دیں ۔ انہوں نے نہ مانا تو فرما دیا کہ تم جانو۔ اگر وہ مان جاتے اور دو ایک سال نقصان برداشت کر لیتے تو اس محنت سے بچ جاتے ۔

ملا قاری اسی شرح شفاء جلد دوم صفحہ 238 میں فرماتے ہیں : ولو ثبتوا اعلٰی کلامہ افاقوا انی الفن تقع عنھم کلفۃ المعالجۃ ۔
ترجمہ : اگر وہ حضرات حضور کے فرمان پر ثابت رہتے تو اس فن میں فوقیت لے جاتے اور ان سے اس تلقیح کی محنت دور ہو جاتی ۔

فصل الخطاب میں علامہ قیصری سے نقل فرمایا : ولا یعزب عن علمہ علیہ السلام مچقال ذرۃ فی الارض ولا فی السماء من حیث مرتبتہ وان کان یقول انتم اعلم بامور دنیاکم ۔
ترجمہ : حضور علیہ السلام کے علم سے زمین و آسمان میں ذرہ پھر چیزیں پوشیدہ نہیں اگرچہ آپ فرماتے تھے کہ دنیاوی کام تم جانو ۔“ حضرت یوسف علیہ السلام نے کبھی کاشتکاری نہ کی تھی اور نہ کاشتکاروں کی صحبت حاصل کی۔ مگر زمانہ قحط آنے سے پہلے حکم دیا کہ غلہ کاشت کرو ۔ اور فرمایا : فما حصدتم فذروہ فی سنبلہ “ کہ جو کچھ کاٹو اس کو بالی ہی میں رہنے دو ۔

یعنی گیہوں کی حفاظت کا طریقہ سکھایا ۔ آج بھی غلہ کو بھوسے میں رکھ کر اس کی حفاظت کرتے ہیں ان کو کھیتی باڑی کا خفیہ راز کس طرح معلوم ہوا ؟ اور فرمایا : اجعلنی علٰی خزائن الارض انی حفیظ علیم۔ ( پارہ 13 سورہ 12 آیت 55)
ترجمہ : مجھ کو زمین کے خزانوں پر مقرر کردو میں اس کا محافظ اور ہر کام جاننے والا ہوں ۔

یہ ملکی انتظامات وغیرہ کس سے سیکھے ؟ تو کیا حضور علیہ السلام کی دانائی اور حضورکا علم حضرت یوسف علیہ السلام سے بھی کم ہے ۔ معاذ اللہ ۔

اعتراض 3 : ترمذی کتاب التفسیر سوری انعام میں ہے کہ حضرت مسروق عائشی صدیقہ رضی اللہ عنھما سے روایت فرماتے ہیں کہ جو شخص کہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنے رب کو دیکھا یا کسی شئی کو چھپایا وہ جھوٹا ہے ۔ ومن زعم انہ یعلم فافی غد فقد اعظم الفریۃ علے اللہ “ اور جو کہے کہ حضور علیہ السلام کل کی بات جانتے ہیں اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ۔

جواب : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ تینوں باتیں اپنی ظاہری معنٰی پر نہیں ہیں آپ کے یہ قول اپنی رائے سے ہیں ۔ اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتیں بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں رب تعالٰی کو دیکھنے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت پیش فرمائی ۔ اور اب تک جمہور اہل اسلام اس کو مانتے چلے آئے ہیں۔ دیکھو اس کی تحقیق مدارج اور نسیم الریاض وغیرہ میں ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن سوری النجم میں اسی طرح صدیقہ کا فرمانا کہ حضور علیہ السلام نے کوئی چیز نہ چھپائی۔ اس سے مراد احکام شرعیہ تبلیغیہ ہیں۔ ورنہ بہت سے اسرار الہیہ پر لوگوں کع مطلع نہ فرمایا ۔ مشکوٰۃ کتاب العلم دوم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضور علیہ السلام سے دو قسم کے علوم ملے ۔ ایک وہ جن کی تبلیغ کر دی ۔ دوسرے وہ کہ تم کو بتاؤ تو تم میرا گلا گھونٹ دو ۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسرار الہیہ نا محرم سے چھپائے گئے ۔ اسی طرح صدیقہ کا یہ فرمانا کہ کل کی بات حضور علیہ السلام نہیں جانتے تھے۔ اس سے مراد ہے بالذات نہ جاننا اور صدہا احادیث اور قرآنی آیات کی مخالفت لازک آوے گی۔ حضور علیہ السلام نے قیامت کی، دجال کی، امام مہدی کی اور حوض کوثر کی شفاعت بلکہ امام حسین کی شہادت کی، جنگ بدر ہونے سے پیشتر کفار کے قتل کی، اور جگہ قتل کی خبر دی ۔ نیز اگر صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کے ظاہری معنٰے کیے جاویں تو مخالفین کے بھی خلاف ہے کہ وہ بہت سے غیوب کا علم مانتے ہیں اور اس میں بالکل نفی ہے ۔ مجھے آج یقین ہے کہ کل پیچشنبہ ہوگا ۔ سورج نکلے گا ، رات آوے گی ۔ یہ بھی تو کل کی بات کا علم ہوا۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے معراج جسمانی کا بھی انکار فرمایا ۔ مگر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ واقعہ معراج انکے نکاح میں آنے سے پیشتر کا ہے ۔ جو اب تک ان کے علم میں نہ آیا تھا ۔

اعتراض 4 : صدیقہ کا ہار گم ہو گیا۔ جگہ جگہ تلاش کرایا گیا نہ ملا پھر اونٹ کے نیچے سے بر آمد ہوااگر حضور علیہ السلام کو علم تھا تو لوگوں کو اسی وقت کیوں نہ بتا دیا کہ ہار وہاں ہے ۔ معلوم ہوا کہ کہ علم نہ تھا ۔

جواب : اس حدیث سے نہ بتانا ثانت ہوا کہ نہ کہ نہ جاننا اور نہ بتانے میں صدہا حکمتیں ہوتی ہیں حضرات صحابہ نے چاند کے گھٹنے بڑھنے کا سبب دریافت کیا ۔ رب تعالٰی نے نہ بتایا تو کیا خدائے پاک کو بھی علم نہیں ؟ مرضی الہٰی یہ تھی، صدیقہ کا ہار گم ہو ، مسلمان اس کی تلاش میں یہاں رک جاویں ظہر کا وقت آجاوے پانی نہ ملے ۔ تب حضور علیہ السلام سے عرض کیا جاوے کہ اب کیا کریں تب آیت تیمم نازل ہو جس سے حضرت عائشہ صدیقہ کی عظمت قیامت تک مسلامن معلوم کریں ان کے طفیل ہم کو تیمم ملا۔ اگر اسی وقت ہار بتا دیا جاتا ۔ تو آیت تیمم کیوں نازل ہوتی ۔ رب کے کام اسباب سے ہوتے ہیں ۔ تعجب ہوتا ہے کہ جو آنکھ قیامت تک کے حالات کو مشاہدہ کرے ۔ اس سے اونٹ کے نیچے کی چیز کس طرح مخفی رہے ۔ شان محبوب علیہ السلام پہچاننے کی خدا توفیق دے ۔

اعتراض 5 : مشکوٰۃ باب الحوض و الشفاء میں ہے ۔ لیردن علی اقوام اعرفھم ویعر فوننی ثم یحال بینی و بینھم فاقول انھم منی فیقال انک لا تدری ما احد ثوا بعدک فاقول سحقا سحقا لمن غیر بعدی ۔
ترجمہ : حوض پر ہمارے پاس کچھ قومیں ائینگی جنکو ہم پہچانتے ہیں پھر ہمارے اور ان کے درمیان آڑ کر دی جاوے گی ہم کہیں گے کہ یہ تو ہمارے لوگ ہیں تو کہا جاویگا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا نئے کام کیے پس فرمائیں گے دوری ہو دوری ہو اس کو جو میرے بعد دین بدلے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو قیامت میں بھی اپنے پرائے اور مومن و کافر کی پہچان نہیں ہو گی کیونکہ آپ کا مرتدین کو فرمائیں گے کہ یہ میرے صحابہ ہیں اور مللائکہ عرض کریں گے کہ آپ نہیں جانتے ۔

جواب : حضور علیہ السلام کا ان کا صحابی کہنا طعن کے طور پر ہوگا کہ ان کو آنے دو یہ تو ہمارے بڑے مخلص صحابہ ہیں ملائکہ کا یہ عرض کرنا ان کو سنا کر غمگین کرنے کےلیے ہوگا ۔ ورنہ ملائکہ نے ان کو یہاں تک آنے ہی کیوں دیا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ جھنمی کافر سے کہا جاوے گا ۔ ذق انک انت العزیز الکریم “ عذاب چکھ، تو تو عزت و کرم والا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سورج کو دیکھ کر فرمایا تھا “ ھذا ربی“ یہ میرا رب ہے ۔ پھر غور کی بات ہے کہ آج تو حضور علیہ السلام اس سارے واقعہ کو جانتے ہیں اور فرماتے ہیں “ اعرفھم “ ہم ان کو پہچانتے ہیں ۔ کیا اس دن بھول جائیں گے؟ نیز قیامت کے دن مسلمانوں کی چند علامات ہوں گی۔ اعضاء وضو کا چمکنا، چہرا نورانی ہونا،“ یوم تبیض وجوہ و تسودہ“ داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال کا ہونا۔ پیشانی پر سجدہ کا داغ ہونا۔ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ،چشتی)

اور کفار کی علامات ہوں گی ان کے خلاف ہونا ۔ اور ان لوگوں کو ملائکہ کا روکنا۔ ان کے ارتداد کی خاص علامت ہوگی جو آج بیان ہو رہی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اتنی علامات کے ہوتے ہوئے حضور ان کو نہ پہچانیں ۔ نیز آج تو حضور علیہ السلام نے جنتی و جھنمی لوگوں کی خبر دے دی۔ عشرہ مبشرہ کو بشارت دے دی۔ دو کتابیں صحابہ کرام کو دکھا دیں ۔ جن میں جنتی اور جہنمی لوگوں کے نام ہیں وہاں نہ پہچانتے کے کیا معنٰی؟ حضور علیہ السلام کو خبر نہیں ۔ رب فرماتا ہے “یعرف المجرمون بیسماھم“ ۔ نیز فرماتا ہے کہ “ سیماھم وجوھم من اثر السجود“ معلوم ہوا کہ قیامت میں نیک و بد لوگوں کی علامت چہروں پر ہوں گی ۔ مشکوٰہ باب الحوض و الشفاعۃ میں ہے کہ جنتی مسلمان جھنمی مسلمانوں کو نکالنے کےلیے جہنم میں جائیں گے اور ان کی پیشانی کے داغ سجدہ دیکھ کر ان کو جل چکنے کے بعد نکالیں گے اور ان سے فرمایا جاوے گا ۔ فمن وجدتم فی قلبہ مچقال ذرۃ من خیر فاجر جوہ “ جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان پاؤ۔ اس کو نکال لے جاؤ ۔

دیکھو جنتی مسلمان دوزخی مسلمانوں کے دل کے ایمان کو پہچانتے ہیں ۔ بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کس کے دل میں کس درجہ کا ایمان ہے ۔ دینار کے برابر یا ذرہ برابر ۔ لیکن حضور علیہ السلام کو چہرہ دیکھ کر بھی خبر نہیں ہوئی کہ یہ مسلمان ہیں یا کافر ۔ اللہ تعالٰی سمجھ نصیب کرے ۔

اعتراض 6 : بخاری جلد اول کتاب الجنائز میں حضرت ام العلاد کی روایت ہے : واللہ ما ادری وانا رسول اللہ یفعل بی ۔ خدا کی قسم میں نہیں جانتا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جاوے گا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو اپنی بھی خبر نہ تھی کہ قیامت میں میں مجھ سے کیا معاملہ ہو گا ۔

جواب : اس جگہ علم کی نفی نہیں ہے ۔ بلکہ درایتہ کی نفی ہے ۔ یعنی میں اپنے اٹکل و قیاس سے نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ بلکہ اس کا تعلق وحی الہٰی سے ہے تو اے ام العلاء تم جو عثمان ابن مظعون کے جنتی ہونے کی گواہی محض قیاس سے دے رہی ہو۔ یہ معتبر نہیں ۔ اس غیب کی خبروں میں تو انبیا کرام بھی قیاس نہیں فرماتے ورنہ مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین میں کہ ہم اولاد آدم کے سردار ہیں اس روز لواء الحمد ہمارے ہاتھ میں ہو گا ۔ آدم ہمارے جھنڈے کے نیچے ہوں گے ان کی مطابقت کس طرح کی جاوے گی ۔

اعتراض 7 : بخاری جلد دوم کتاب المغازی باب حدیث افک میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی۔ آپ اس میں پریشان تو رہے مگر بغیر وحی آئے ہوئے کچھ نہ فرماسکے کہ یہ نہمت صحیح ہے کہ غلط اگر علم غیب ہوتا تو پریشانی کیسی ؟ اور اتنے روز تک خاموشی کیوں فرمائی ؟

جواب : اس میں بھی نہ بتانا ثابت ہے نہ کہ جاننا ۔ نا بتانے سے نہ جاننا لازم نہیں آتا ۔ خود رب نے بھی بہت روز تک ان کی عصمت کی آیات نہ اتاریں تو کیا رب کو خبر نہ تھی نیز بخاری کی اسی حدیث میں ہے : ما علمت علٰی اھلی الا خیرا “ میں اپنی بیوی کی پاکدامنی ہی جانتا ہوں ۔

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم ہے ، وقت سے پہلے اظہار نہیں اور یہ تو ہو سکتا ہی نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ پر بد گمانی ہوئی ہو ۔ کیونکہ رب تعالٰی نے مسلمانوں کو عتابا فرمایا : لولا اذسمعتوہ ظن المومنون و المومنات بانفسھم خیرا وقالوا ھذا افک مبین ۔ (پارہ 18 سورہ 24 آیت 12) “ یعنی مسلمان مردوں و عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور فورا کیوں نہ کہا کہ کھلا بہتان ہے ۔

معلوم ہوا کہ نزول براءت سے پہلے ہی مسلمانوں پر نیک گمانی واجب اوربد گمانی حرام تھی اور نبی علیہ السلام حرام سے معصوم ہیں۔ تو آپ بد گمانی ہز گز نہیں فرما سکتے ۔ ہاں آپ کا فورا یہ فرمانا “ ھذا افک مبین“ آپ پر واجب نہ تھا کیونکہ یہ آپ کے گھر کا معاملہ تھا۔ رہی پریشانی اور اتنا سکوت، یہ کیوں ہوا ؟ پریشانی کی وجہ معاذ اللہ لا علمی نہیں ہے۔ اگر کسی عزت و عظمت والے کو غلط الزام لگا دیا جاوے اور خود جانتا بھی ہو کہ یہ الزام غلط ہے۔ پھر بھی اپنی بد نامی کے اندیشے سے پریشان ہوتا ہے لوگوں میں افواہ کا پھیلنا ہی پریشانی کا باعث ہوا ۔ اگر آیات نزول کے انتظار میں نہ فرمایا جاتا ۔ اور پہلے ہی عصمت کا اظہار فرمایا جاتا تو منافقین کہتے کہ اپنی اہل کانہ کی ھمایت کی۔ اور مسلمانوں کو تہمت کے مسائل نہ معلوم ہوتے اور پھر مقدمات میں تحقیقات کرنےکا طریقہ نہ آتا اور صدیقہ الکبرٰی کع صبر کا وہ ثواب نہ ملتا جو اب ملا ۔ اس تاخیر میں صد ہا حکمتیں ہیں ۔ اور یہ تو مسئلہ عقئد کا ہے کہ نبی کی بیوی بد کار نہیں ہو سکتی ۔ رب تعالٰی فرماتا ہے : الخبیثات للخبیثین والخبیثون للخبیثات۔ (پارہ 18 سورہ 24 آیت 26) “ گندی عورتیں گندے مردوں کےلیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کےلیے ۔

اس گندگی سے مراد گندگی زنا ہے ۔ یعنی نبی کی بیوی زانیہ نہیں ہو سکتی ۔ ہاں کافرہ ہو سکتی ہے کہ کفر سخت جرم ہے ۔ مگر گھنونی چیز نہیں ۔ ہر شخص اس عار نہیں کرتا اور زنا سے ہر طبیعت نفرت اور عار کرتی ہے اسی لیے انبیاء کی بیوی کو کبھی خواب میں احتلام نہیں ہوتا ۔ دیکھو مشکوٰۃ کتان الغسل کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس پر تعجب فرمایا کہ عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ۔ تو کیا حضور علیہ السلام کو عقیدے کا یہ مسئلہ بھی معلوم نہیں تھا کہ صدیقہ سید الانبیاء کی زوجی پاک ہیں ان سے یہ قصور ہو سکتا ہی نہیں ۔ نیز مرضی الہٰی یہ تھی کہ محبوبہ محبوب علیہ السلام کی عصمت کی گواہی ہم براہ راست دیں اور قرآن میں یہ آیت اتار کر قیامت تک کے مسلمانوں سے تمام دنیا میں ان کی پاکدامنی کے خطبے پڑھوا لیں کہ نمازی نمازوں میں ان کی عفت کے گیت کایا کریں اب اگر حضور علیہ السلام خود ہی بیان فرمادیتے تو یہ کوبیاں حاصل نہ ہوتیں غرضیکہ علم تو تھا اظہارنہ تھا ۔

لطف یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے تہمت لگائی ۔ تو رب تعالٰی نے ان کی صفائی خود بیان نہ فرمائی بلکہ ایک شیر خوار بچہ کے ذریعہ چاکدامنی سے پاکدامنی فرمادی ۔ حضرت مریم کو تہمت لگی ۔ تو شیر خوار روح اللہ سے ان کی عصمت ظاہر کی۔ مگر محبوب علیہ السلام کی محبوبہ روزی کو الزام لگا تو کسی بچہ یا فرشتہ سے عصمت کی گواہی نہ دلوائی گئی۔ بلکہ یہ گواہی خود خالق نے دی اور گواہی کو قرآن کو جزو بنایا۔ تاکہ یہ گواہی ایمان کا رکن بنے اور مخلوق کو حضور علیہ السلام کی محبوبیت کا پتہ چلے ۔

تنبیہ : ایک جہل ہے ایک نسیان ہے ایک دھول ۔ جہل نہ جاننا ہے۔ نسیان جان کر حافظہ سے نکل جانا۔ ڈھول یہ ہے کہ کوئی چیز ھافظہ میں ہو مگر ادھر توجہ نہ رہے ۔ ایک شخص قرآن نہ پڑھا ، دوسرے نے حفظ کر کے بھلا دیا ، تیسرا شخص حافظہ کامل ہے۔ اگر کسی وقت کوئی آیت اس سے پوچھی تو بتا نہ سکا۔ توجہ نہ رہی ۔ پہلا تو قرآن سے جاہل ، دوسرا ناسی ، تیسرا ذاہل ہے ۔ انبیائے کرام کو بعض وقت کسی خاص چیز کا نسیان ہو سکتا ہے مگر بعد میں اس پر قائم نہیں رہتے ۔ قرآن کریم سیدنا آدم علیہ السلام کےلیے فرماتا ہے : فنسی ولم نجد عزما “ وہ بھول گئے ہم نے ان کا قصد نہ پایا ۔

حضرت آدم علیہ السلام کی نظر لوح محفوظ پر تھی ۔ یہ تمام واقعات پیش نظر تھے۔ مگر ارادہ الہٰی کہ کچھ مدت کےلیے نسیان ہو گیا ۔ قیامت میں شفیع کی تلاش میں سارے مسلمان جن میں محدثین و مفسرین و فقہاء سب ہی ہیں ۔ انبیاء کرام کے پاس جائیں گے کہ آپ شفاعت فرمادیں ۔ وہ شفاعت تو نہ کریں گے اور نہ شفیع المذنبین کا صحیح پتہ دیں گے ۔ خیال سے فرمادیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ ۔ وہاں جاؤ ، وہاں جاؤ شاید وہ تمھاری شفاعت کریں ۔ حالانکہ دنیا میں سب کا عقیدہ تھا اور ہے کہ قیامت میں شفیع المذنبین حضور علیہ السلام ہی ہیں ۔ یہ ہوا ڈھول کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہ رہی۔ ۔ اگر حضور علیہ السلام کسی وقت کوئی بات نہ بتائیں تو اس کی وجہ ڈھول (ادھر توجہ کا نہ ہونا) ہو سکتی ہے ۔ بے علمی ثابت نہ ہوگی رب تعالٰی فرماتا ہے : وان کنت من قبلہ لمن الغافلین “ اگر چہ آپ اس سے پہلے واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام سے بے پرواہ تھے ۔

غافل فرمایا جاہل نہ فرمایا ۔ غافل وہ کہ واقعہ علم میں ہے ۔ مگر ادھر دھیان نہیں گلستان میں فرماتے ہیں کسی نے حضرت یوسف علیہ السلام سے پوچھا ۔

زمصرش بوئے پیراہن شمیدی چرا چاہ کنعائش ندیدی “ کہ آپ نے حضرت یوسف کے کرتہ کی خوشبو مصر سے تو پائی ۔ مگر تنعان کے کنویں میں رہے۔ تو آپ معلوم نہ کرسکے ۔ جواب دیا : ⏬

بگفت احوال ما برق جہاں است دمے پیدا و دیگر دم نہاں است
گہے بر طارم اعلٰی تشینیم ! گہے پشت پائے خود نہ بینیم

ترجمہ : فرمایا کہ ہمارا حال بجلی تڑپ کی طرح ہے کبھی ظاہر کبھی چھپا ہوا ۔ قرانی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو علم تھا کہ ماہ کنعان مصر میں تجلی دے رہا ہے ۔ فرماتے ہیں : واعلم من اللہ ما لا تعلمون (پارہ 13 سورہ 12 آیت 86) “ مجھے خدا کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم کو نہیں معلوم ۔

روح البیان پارہ بارہ زیر آیت “ ولقد ارسلنا نوحا الٰی قومہ“ میں ہے کہ رب تعالٰی کو اپنے پیاروں کا رونا نہت پسند ہے حضرت نوح اتنا روئے کہ نام ہی نوح ہوا ۔ یعنی نوحہ اور گریہ زاری کرنے والے۔ حضرت یعقوب کے رونے کے لئے فراق یوسف سب ظاہری تھا ورنہ ان کا رونا بلندی درجات کا سبب تھے۔ لہذا ان کا یہ رونا حضرت یوسف سے بے خبری کی وجہ سے نہ تھا بلکہ “ المجاز قبطرۃ الحقیقۃ“ مثنوی میں ہے : ⏬

عشق لیلی نیست امین کارمنست حسن لیلٰی عکس رخسار منست
خوش بیاید نالئہ شب ہائے تو ذوقہا دارم بیار بہائے تو

بنیامین کو مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک حیلہ سے روک لہا ۔ بھوئیو نے اگر قسم کھائی اور قافلوں والوں کی گواہی پیش کی کہ بنیامین مصر شاہی قیدی بنالئے گئے مگر فرمایا : بل سولت لکم انفسکم امرا ۔ (پارہ 12 سورہ 12 آیت 18) “ کہ تمھارے نفس نے تمہیں حیلہ سکھا دیا ۔

یعنی یوسف علیہ السلام کو بھی مجھ سے میری اولاد نےہی جدا کیا اور بنیامین کو بھی، میری اولاد حضرت یوسف نے حیلہ سے روکا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل واقعہ کی خبر ہے۔ پھر بظاہر مصر میں یعقوب علیہ السلام کے دو فرزند رہ گئے تھے ایک بنیامین دوسرا یہودہ ۔ مگر فرماتے ہیں : عسی اللہ ان یاتینی بھم جمیعا “ قریب ہے کہ اللہ ان تینون کو مجھ سے ملائے ۔

تین کون تھے ؟ تیسرے حضرت یوسف علیہ السلام ہی تو تھے۔ جب زلیخہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو گھر بند کر کے بری خواہش کرنا چاہی تو اس بند مکان میں یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے اور دانت تے انگلی دبا کر اشارہ کیا کہ ہر گز نہیں ۔ اے فرزند یہ کام تمارا نہیں کہ تم نبی کے بیٹے ہو جس کو قرآن فرماتا ہے : وھم بھا لو لا ان ریٰ برھان ربہ “ وہ بھی زلیخہ کا قصد کر لیتے اگر رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے ۔

یہ بھی خیال رہے کہ برادران یوسف علیہ السلام نے خبر دیکہ ان کو بھیریا کھا گیا اور آپ کو قمیس اور بھیرئیے کی خبر سے ان کا جھوتا ہونا معلوم ہو گیا تھا کہ بھیڑیے نے عرض کیا تھا کہ ہم پر انبیاء کا گوشت حرام ہے ۔ (تفسیر خازن ، روح البیان، سورہ یوسف)

پھر آپ اپنے فرزند کی تلاش میں جنگل میں کیوں نہ گئے ؟ معلوم ہوا کہ با خبر تھے مگر رازدار تھے جانتے تھے کہ فرزند سے مصر میں ملاقات ہوگی۔ اسی طرح یوسف علیہ السلام کو بہت سے موقعے ملے مگر والد کو اپنی خبر نہ دی کہ حکم کا انتظار تھا کنعان سے بیٹھے ہوئے یعقوب علیہ السلام اپنے فرزندوں کی ایک ایک بات دیکھ لیں ۔ مگر حضور علیہ السلام اپنی طیبہ طاہرہ صدیق کی بیٹی حضرت صدیقہ کے حالات سے بے خبر ہون ۔ مگر جو رب انکو اتنا علم دیتا ہے طاقت ضبط بھی دیتا ہے کہ دیکھتے ہیں مگر بے مرضی الہٰی راز فاش نہیں کرتے ہیں ۔ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ ، یہ تقریر اگر خیال میں رہی تو بہت مفید ہو گی ۔ ان شاء اللہ ۔

اعتراض 8 : حدیث شریف میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے بعض ازواج کے گھر شہد ملاحظہ فرمایا اس پر حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یا حبیب اللہ آپ کے دہن مبارک سے مغافیر کی بو آرہی ہے ۔ تو فرمایا کہ ہم نے مغافیر نہیں استعمال فرمایا ۔ شہد پیا ہے ۔ حضور علیہ السلام نے اپنے پر شہد حرام کر لیا۔ جس پر یہ آیت اتری “ لم یحرم ما احل اللہ لک“ معلوم ہوا کہ اپنے دہن کی بو کا بھی علم نہیں تھا کہ اس بو آرہی ہے یا نہیں ۔

جواب : اس کا جواب اسی آیت میں ہے “ تبتغی مرضات ازواجک“ اے حبیب یہ حرام فرمانا آپ کی بے خبری سے نہیں بلکہ ان معترض ازواج کی رضا کے لئے ہے نیز اپنے منہ کی بو غیب نہیں محسوس چیز ہے ہر صحیح الدماغ محسوس کر لیتا ہے کیا دیوبندی انبیاء کے حواس کو بھی ناقص ماننے لگے ان کی حواس کی قوت کو مولا نے بیان فرمایا : ⏬

نطق آب و نطق خاک و نطق گل محسوس از حواس اہل دل
فلسفی گو منکر حنانہ است از حواس اولیاء بیگانہ است

اعتراض 9 : اگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب تھا تو خیبر میں زہر آلود گوشت کیوں کھا لیا۔ اگر جانتے ہوئے کھایا تو یہ خود کشی کی وکوشش ہے ۔ جس سے نبی معصوم ہے ۔

جواب : اس وقت حضور علیہ السلام کو بھی یہ علم تھا کہ اس میں زہر ہے اور یہ بھی خبر تھی کہ زہر ہم پر بحکم الہٰی اثر نہیں کرے گا ۔ اور یہ بھی خبر تھی کہ رب تعالٰی کی مرضی یہ ہی تھی کہ ہم اسے کھا لیں تاکہ بوقت وفات اس کا اثر لوٹے اور ہم کو شہادت کی وفات عطا فرمائی جاوے راضی برضا تھے ۔

اعتراض 10 : اگر حضور علیہ السلام کو علم غیب تھا تو بیر معونہ کے منافقین دھوکے سے آپ سے ستر صحابہ کیوں لے گئے ؟ جنہیں وہاں لے جا کر شہید کر دیا ۔ اس آفت میں انہیں حضور علیہ السلام نے کیوں پھنسایا ؟

جواب : جی ہاں ! حضور علیہ السلام کو یہ بھی خبر تھی کہ بیر معونہ والے منافقین ہیں ۔ اور یہ بھی خبر تھی کہ یہ لوگ ان ستر صحابہ کو شہید کر دیں گے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی خبر تھی کہ مرضی الہٰی یہ ہی ہے اور ان ستر کی شہادت کا وقت آگیا ۔ یہ بی جانتے تھے کہ رب تعالیی کی رضا پر راضی رہنا بندے کی شان ہے ابراہیم علیہ السلام تو مرضی الہٰی پا کر فرزند پر چھری لے کر تیار ہو گئے کہ یہ بے گناہ پر ظلم تھا ؟ نہیں بلکہ رضائے الہٰی مولٰی پر رضا تھی ۔ اچھا بتاؤ رب تعالٰی کو تو خبر تھی کہ گوشت میں زہر ہے ۔ اور بیر معونہ والے ان ستر (70) کو شہید کر دیں گے ۔ اس نے وحی بھیج کر کیوں نہ روک دیا ۔ اللہ تعالٰی سمجھ دے ۔


قرآن (غیب) قلب رسول پر القاء ہوتا تھا افعالِ خمسہ کے ذریعے نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پر وحی نازل کی جاتی تھی جس کا شمار حواس خمسہ میں نہیں ہوتا یعنی اللہ عزوجل کے سکھانے کے بعد بھی وہ علم غیب ہی ہوتا ہے کیونکہ غیب تو وہ ہے جو حواس کے بغیر معلوم کیا جائے ۔

قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلۡبِكَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡهِ وَ ہُدًی وَّبُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ۹۷)
ترجمہ : (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم فرما دو : جو کوئی جبرئیل کا دشمن ہو (تو ہو) پس بیشک اس نے تو تمہارے دل پر الله کے حکم سے یہ اتارا ہے ، جو اپنے سے پہلے موجود کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہے اور ایمان والوں کےلیے ہدایت اور بشارت ہے ۔

وَاِنَّه لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔ نَزَلَ بِه الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ۔ عَلٰی قَلۡبِكَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ ۔ (سور الشعراء آیت نمبر ۱۹۴)
ترجمہ : اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے ، اسے روح الامین لے کر اترا تمہارے دل پر کہ تم ڈر سناؤ ۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول قلبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوتا تھا اور یہ افعال خمسہ میں سے نہیں لہذا اس ذریعے سے جو علم حاصل ہوگا اسے علم غیب ہی کہا جائے گا ۔

اب آتے ہیں جامعیت و علوم قرآن پر ۔ قرآن میں ما کان ما یکون کا علم مخفی ہے : ⏬

وَمَا مِنۡ غَآئِبَةٍ فِی السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ۔ (سورہ النمل آیت نمبر ۷۵)
ترجمہ : اور جتنے غیب ہیں آسمانوں اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں ۔

ونزلنا علیك الکتٰب تبیاناً لکل شیئ وھدی ورحمۃ وبشرٰی للمسلمین ۔
ترجمہ : اتاری ہم نے تم پر کتاب جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کےلیے ہدایت و رحمت و بشارت ۔ (القرآن الکریم ۱۶ / ۸۹)

مافرطنا فی الکتب من شیئ ۔
ترجمہ : ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھا نہیں رکھی ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۳۸)

ولا حبّة فی ظلمٰت الارض ولارطب ولا یابس الا فی کتٰب مبین ۔
ترجمہ : کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک مگر یہ کہ سب ایک روشن کتاب میں لکھا ہے ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۵۹)

مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡهِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡهِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔ (یونس آیت نمبر ۳۷)
ترجمہ : اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنالے بے اللہ کے اتارے ہاں وہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے اس میں کچھ شک نہیں ہے پروردگار عالم کی طرف سے ہے ۔

خارجـیـوں کے علـم غیب نبوی پر اعـتراض کا جواب : ⏬

اعتراض : قرآن شریف میں ہے قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا الله ،، آپ کہیے کہ آسمانوں میں اور زمینوں میں الله کے سوا کوئی (ازخود) غیب نہیں جانتا ، یعنی نبی غیب نہیں جانتے تھے ؟

جواب : یہاں علم غیب ذاتی کل مراد ہے ۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے اس طرح کا علم غیب نہیں مانتے ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے ہم علم غیب عطائی مانتے ہیں اور اس آیت میں الله عزوجل نے یہ نہیں کہا کہ وہ کسی کو سکھاتا بھی نہیں اور اہلِ سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم الغیب نہیں کہتے بلکہ عالمِ غیب کہتے ہیں ۔ ورنہ ان آیات کا مطلب کیا ہو گا ؟ : ⬇

عٰلم الغیب فلا یظھر علٰی غیبه احدًا الامن ارتضٰی من رسولٍ ۔
غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (القرآن الکریم ، 24/72)
ہم نبی کو عالم غیب مانتے ہیں عالم الغیب نہیں، وہ بھی لامحدود نہیں ۔

وما ھوا علی الغیب بضنین ۔ (التکویر، 24)
اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل (کنجوس) نہیں ۔

وَکَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَلِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ ۔ (الانعام 75)
اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور اس لیے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے ۔

اگر تم کہو کہ صرف بعض علم غیب بتایا گیا سکھایا نہیں گیا تو اس آیت کا مطلب کیا ہے وعلمك مالم تکن تعلم ، وکان فضل الله علیك عظیما ۔
اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے ۔ (سورۃ النساء، 113)

اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : من الحکام والغیب، یعنی احکام اور غیب اگر تم کہو یہاں علم سے تمام علوم حتی کے علم غیب مراد نہیں تو اس سے اس بات کی قطعی دلیل مانگو جو کہ آیت قطعی اور حدیث متواترہ ہے ۔

ہم اہل سنت و جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے مکمل قرآن نازل ہونے کے بعد سے بعض علم غیب مانتے ہیں جو ما کان ما یکون سے بھی زیادہ ہے کیونکہ قرآن میں ما کان ما یکون کا سارا علم ہے ۔

قرآن میں ما کان ما یکون کا علم مخفی ہے : ⏬

وَمَا مِنۡ غَآئِبَةٍ فِی السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ  ۔ (النمل ۷۵)
اور جتنے غیب ہیں آسمانوں اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں ۔

ونزلنا علیك الکتٰب تبیاناً لکل شیئ وھدی ورحمۃ وبشرٰی للمسلمین ۔
اتاری ہم نے تم پر کتاب جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت و رحمت و بشارت ۔ (القرآن الکریم ۱۶ /۸۹)

مافرطنا فی الکتب من شیئ ۔
ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھا نہیں رکھی ۔
(القرآن الکریم ۶/ ۳۸)

ولاحبّة فی ظلمٰت الارض ولارطب ولا یابس الا فی کتٰب مبین ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۵۹)
کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک مگر یہ کہ سب ایک روشن کتاب میں لکھا ہے ۔

مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡهِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡهِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔ (یونس ۟۳۷)
اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنالے بے اللہ کے اتارے ہاں وہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے اس میں کچھ شک نہیں ہے پروردگار عالم کی طرف سے ہے ۔

اب آئیں تعلیم الہی پر جو الله عزوجل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تعلیم فرمائی ۔ الله تعالی نے خود اپنے حبیب کو قرآن سکھایا ۔ سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۔ (الاعلی ۶)
اب ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم نہ بھولو گے ۔

وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما ۔
اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے ۔ (سورۃ النساء 113)

اَلرَّحۡمٰنُ ۙ۔ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ۔ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ۔ عَلَّمَه الۡبَیَان ۔ (الرحمن ۴)
الرحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا، انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا اور انہیں بیان سکھایا ۔

فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے : تجلی کل شیئ وعرفت ۔
ترجمہ : ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی ۔ (سنن الترمذی حدیث نمبر ۳۲۴۶،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پر وحی نازل کی جاتی تھی جس کا شمار حواس خمسہ میں نہیں ہوتا یعنی الله عزوجل کے سکھانے کے بعد بھی وہ علم غیب ہی ہوتا ہے کیونکہ غیب تو وہ ہے جو حواس کے بغیر معلوم کیا جائے ۔

قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلۡبِكَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡهِ وَ ہُدًی وَّبُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔ (البقرہ ۹۷)
(اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم فرمادو : جو کوئی جبرئیل کا دشمن ہو (تو ہو) پس بیشک اس نے تو تمہارے دل پر الله کے حکم سے یہ اتارا ہے، جو اپنے سے پہلے موجود کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہے اور ایمان والوں کےلیے ہدایت اور بشارت ہے ۔

وَاِنَّه لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۹۲﴾ نَزَلَ بِه الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ عَلٰی قَلۡبِكَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ ۔ (الشعراء ۱۹۴)
اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے، اسے روح الامین لے کر اترا تمہارے دل پر کہ تم ڈر سناؤ ۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول قلب مصطفی پر ہوتا تھا اور یہ افعال خمسہ میں سے نہیں لہٰذا اس ذریعے سے جو علم حاصل ہوگا اسے علم غیب ہی کہا جائے گا ۔

نوٹ : ہر صحیح حدیث سے عقائد اخذ نہیں کیے جاتے بلکہ احادیثِ متواترہ اور قطعی آیات سے اخذ کیے جاتے ہیں ۔ اگر کوئی بدمذہب علم غیب نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراض کرے اور دلیل پیش کرے تو اس سے پوچھو : ⏬

1 کیا یہ آیت نص قطعی ہے ؟

2 : کیا یہ حدیث متواترہ ہے ؟ کیونکہ ہر حدیث سے عقیدہ نہیں بنایا جاتا ۔ اس حدیث میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تواضع اور انکساری تو نہیں ۔

3 : کیا یہ روایت نزول قرآن مکمل ہونے کے بعد کی ہے؟ کیونکہ ہم اہل سنت و جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے مکمل قرآن نازل ہونے کے بعد سے بعض علم غیب مانتے ہیں جو ما کان ما یکون سے بھی زیادہ ہے کیونکہ قرآن میں ما کان ما یکون کا سارا علم ہے. ونزلنا علیک الکتٰب تبیاناً لکل شیئ وھدی ورحمة وبشرٰی للمسلمین اتاری ہم نے تم پر کتاب جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کےلیے ہدایت و رحمت و بشارت ۔ (القرآن الکریم ۱۶ /۸۹) ۔ مافرطنا فی الکتب من شیئ ،، ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھا نہیں رکھی ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۳۸)

4 : اگر وہ آنا کانی کرے کہے کتاب سے مراد قرآن نہیں "کل” سے مراد ضروری احکام ہے بس تو اس سے کہو قطعی دلیل دے قرآن یا حدیث متواترہ سے. عقائد میں علماء اور خودساختہ کے اقوال معتبر نہیں ہوتے ۔

5 : اگر وہ قرآنی آیت پیش کرے تو اس سے کہو یہاں علم ذاتی اور کل مراد ہے؟ ہم نبی کےلیے ایسا علم نہیں مانتے اور اگر نہ مانے تو ان آیتوں کے مطلب پوچھیں ،،عٰلم الغیب فلا یظھر علٰی غیبه احدًا الامن ارتضٰی من رسولٍ،، غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (القرآن الکریم ، 24/72) ۔ہم نبی کو عالم غیب مانتے ہیں عالم الغیب نہیں ، وہ بھی لامحدود نہیں ۔

6 : اگر وہ کہے صرف بعض علم غیب بتایا گیا سکھایا نہیں گیا تو اس سے پوچھیں اس آیت کا مطلب کیا ہے ,,وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما،، اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے ۔ (سورۃ النساء، 113) ۔ اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : من الحکام والغیب ، یعنی احکام اور غیب ۔ اگر وہ کہے یہاں علم سے تمام علوم حتی کے علم غیب مراد نہیں تو اس سے اس بات کی قطعی دلیل مانگو جو کہ آیت قطعی اور حدیث متواترہ ہے ۔

7 : اگر وہ کہے تم کہے تم اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہو تو کہو کیا الله اگر بعض علم قرآن کے ذریعے سکھا دے تو کس بنیاد پر شرک ہوگا ؟ ۔ اور لوحِ محفوظ میں غیب کی باتیں لکھی ہیں اسے تم الله کا شریک سمجھتے ہو ؟ ولا حبّة فی ظلمٰت الارض ولارطب ولایا بس الا فی کتٰب مبین کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک مگر یہ کہ سب ایک روشن کتاب میں لکھا ہے ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۵۹) ۔ شرک ہونے کی دلیل دو کیونکہ شرک قطعی دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے ظنی دلائل سے نہیں ۔

8 : اگر وہ کہے کہ یہ تمہارا پیدا کیا ہوا عقیدہ ہے جو یوں جواب دیجیے : وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما ۔
ترجمہ : اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی الله کا آپ پر بڑا فضل ہے ۔ (سورۃ النساء، 113)
اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : من الحکام والغیب ، یعنی احکام اور غیب ۔

ابن حجر قسطلانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں : قد اشتھر وانتشر امرہ صلی الله تعالی علیه وسلم بین اصحابه بالاطلاع علی الغیوب
بے شک صحابہ کرام میں مشہور و معروف تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غیبوں کا علم ہے ۔ (المواہب اللدنیة ،المقصد الثامن، الفصل الثالث، ۳ /۵۵۴،چشتی)
النبوأۃ ماخوذۃ من النباء وھو الخبر ای ان ﷲ تعالٰی اطلعه علٰی غیبه ۔
حضور کو نبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ﷲ تعالٰی نے حضور کو اپنے غیب کا علم دیا ۔ (المواہب اللدنیہ ،المقصد الثانی، ۲ /۴۵ و ۴۶)

قاضی عیاض رحمة اللہ علیه فرماتے ہیں : (ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعه صلی الله تعالی علیہ وسلم علی الغیب ( المعلومة علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا او التردد فیہا لا حدٍ من العقلاء ( لکثرۃ رواتھا واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذا لا ینافی الاٰیات الدالة علی انه لایعلم الغیب الا اللہ وقوله ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمه من غیر واسطة وامّا اطلاعه صلی اللہ تعالٰی علیه وسلم علیہ با علام ﷲ تعالٰی له فامر متحقق بقوله تعالٰی فلا یظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول ۔
ترجمہ : رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت خیر جمع کرلیتا ، اس لیے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر خدا کے بتائے ہو اور ﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے ، کہ اللہ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسول کے ۔ (نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض، ومن ذٰلک ما اطلع علیه من الغیوب ۳ /۱۵۰،چشتی)

امام زرقانی رحمة الله علیه فرماتے ہیں : اصحابه صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جازمون ليش علی الغیب ۔
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غیب کا علم ہے ۔ (شرح الزرقانی، علی المواہب الدنیة، الفصل الثالث، ۷ /۲۰۰)

امام ابن حجر مکی رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں : انه تعالی اختص به لکن من حیث الاحاطة فلا ینافی ذلک اطلاع الله تعالی لبعض خواصه علی کثیر من المغیبات حتی من الخمس التی قال صلی الله تعالى علیه وسلم فیھن خمس لا یعلمھن الا الله ۔
ترجمہ : غیب ﷲ کےلیے خاص ہے مگر بمعنی احاطہ تو اس کے منافی نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے اپنے بعض خاصوں کو بہت سے غیبوں کا علم دیا یہاں تک کہ ان پانچ میں سے جن کو نبی صلی الله تعالی علیه وسلم نے فرمایا کہ ان کو ﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے ۔ (افضل القراء القراء ام القرٰی، تحت شعرلک ذات العلوم ۴۴ ۔ ۱۴۳)

ابوعبدالله شیرازی رحمة الله علیه فرماتے ہیں : مولٰنا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ شریف میں کتاب عقائد تالیف حضرت شیخ ابوعبدﷲ شیرازی سے نقل فرماتے ہیں : نعتقدان العبدینقل فی الاحوال حتی یصیر الی نعت الروحانية فیعلم الغیب ۔
ترجمہ : ہمارا عقیدہ ہے کہ بندہ ترقیِ مقامات پا کر صفتِ روحانی تک پہنچتا ہے اس وقت اسے علمِ غیب حاصل ہوتا ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان الفصل الاول ، تحت حدیث نمبر ۲ جلد ۱ صفحہ ۱۲۸)

ملا علی قاری رحمة الله علیه فرماتے ہیں : علمه صلی الله تعالی علیه وسلم حاو لفنون العلم (الٰی ان قال) ومنہا علمه بالامور الغیبیة ۔
ترجمہ : رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم اقسام علم کو حاوی ہے غیبوں کا علم بھی علمِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شاخوں سے ایک شاخ ہے ۔ (الزبدۃ العمدۃ صفحہ ۵۷)

علامہ شامی رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں : الخواص یجوزان ان یعلموا الغیب فی قضیة اوقضایا کما وقع لکثیر منھم و اشتھر ۔
ترجمہ : جائز ہے کہ اولیاء کو کسی واقعے یا وقائع میں علم غیب ملے جیسا کہ ان میں بہت کےلیے واقع ہو کر مشتہر ہوا ۔ (الاعلام بقواطع الاسلام صفحہ نمبر ۳۵۹،چشتی)

امام ابن جریر طبری رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں : قال انّک لن تستطیع معی صبرا، وکان رجلا یعلم علم الغیب قد علم ذٰلک ۔
ترجمہ : حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے موسٰی علیہ السلام سے کہا : آپ میرے ساتھ نہ ٹھہر سکیں گے ۔ خضر علمِ غیب جانتے تھے انہیں علم غیب دیا گیا تھا ۔ (جامع البیان تحت آیة ۱۸ / ۶۷ ، ۱۵ / ۳۲۳)

امام بوصیری رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں : ⏬

فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
ترجمہ : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا و آخرت دونوں حضور کی بخشش سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کا علم ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے ۔ (مجموع المتون متن قصیدۃ البردۃ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر صفحہ ۱۰،چشتی)

امام نیشاپوری رحمة الله علیه فرماتے ہیں : ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون ۔
ترجمہ : تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے ، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خود فرماتے ہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گذرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ۔ (غرائب القرآن، تحت آلایة ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)

تفسیر انموذج جلیل میں ہے : معناہ لایعلم الغیب بلادلیل الا ﷲ اوبلا تعلیم الا ﷲ اوجمیع الغیب الاﷲ ۔ آیت کے یہ معنی ہیں کہ غیب کو بلادلیل و بلا تعلیم جاننا یا جمیع غیب کو محیط ہونا یہ ﷲ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے ۔

تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان میں ہے : لم ینف الاالدرایۃ من قبل نفسہ وما نفی الدرایۃ من جھۃ الوحی ۔
ترجمہ : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات سے جاننے کی نفی فرمائی ہے خدا کے بتائے سے جاننے کی نفی نہیں فرمائی۔ (غرائب القرآن ۔ (تفسیر النیساپوری تحت آیۃ ۴۶ /۹ ، ۸ /۲۶ )

تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے : وعندہ مفاتیح الغیب وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لایعلمھا کما ھی ابتداءً الاّ ھو ۔
ترجمہ : یہ جو آیت میں فرمایا کہ غیب کی کنجیاں ﷲ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداءً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی ۔ (عنایۃ القاضی علٰی تفسیر البیضاوی ،تحت آیتہ ۶ /۵۸، ۴ /۷۳)

تفسیر علامہ نیشاپوری میں ہے : (قل لا اقول لکم) لم یقل لیس عندی خزائن ﷲ لیعلم ان خزائن ﷲ وھی العلم بحقائق الاشیاء وما ھیاتھا عندہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم باستجابۃ دعاء ہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی قولہ ارنا الا شیاء کما ھی ولکنہ یکلم الناس علٰی قدر عقولھم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمت ماکان وما سیکون ۔
ترجمہ : ارشاد ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں ۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس ہیں ، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے خزانے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہیں مگر حضور لوگوں سے ان کی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں، اور وہ خزانے کیا ہیں ، تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے قبول فرمائی پھر فرمایا : میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے ، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خود فرماتےہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ۔ (غرائب القرآن تحت آلایۃ ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲،چشتی)

ذکرناہ فی الاٰیۃ صرح بہ النووی رحمۃ ﷲ علیہ فی فتاواہ فقال معناھا لایعلم ذٰلک استقلا لاً وعلم احاطۃ بکل المعلومات الاّ ﷲ تعالی ۔
ترجمہ : ہم نے جو آیاتِ کی تفسیر کی امام نووی رحمۃ ﷲ علیہ نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح کی، فرماتے ہیں آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ غیب کا ایسا علم صرف خدا کو ہے جو بذاتِ خود ہو اور جمیع معلومات کو محیط ہو ۔ (فتاوٰی حدیثیہ ابن حجر مکی ، مطلب فی حکم مااذا.. الخ، ص ۲۲۸)

تفسیر کبیر میں ہے : قولہ ولا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات ۔
ترجمہ : آیت میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد ہوا تم فرمادو میں غیب نہیں جانتا ، اس کے یہ معنی ہیں کہ میرا علم جمیع معلومات الہٰیہ کو حاوی نہیں ۔ (مفاتح الغیب)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں حدیث کے نیچے فرماتے ہیں : پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں ۔
ترجمہ : چنانچہ میں (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی ۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ ، ۱ /۳۳۳)

ابن حجر قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ولا شک ان ﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین ۔
ترجمہ : اور کچھ شک نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القاء کیا ۔ (المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من الغیب ۳ /۵۶۰)

علم غیب ذاتی صرف الله کو ہے : ذکرناہ فی الاٰیۃ صرح بہ النووی رحمۃ ﷲ تعالٰی فی فتاواہ فقال معناھا لایعلم ذٰلک استقلا لاً وعلم احاطۃ بکل المعلومات الاّ ﷲ تعالی ۔
ترجمہ : ہم نے جو آیاتِ کی تفسیر کی امام نووی رحمۃ ﷲ علیہ نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح کی، فرماتے ہیں آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ غیب کا ایسا علم صرف خدا کو ہے جو بذاتِ خود ہو اور جمیع معلومات کو محیط ہو ۔ (فتاوٰی حدیثیہ ابن حجر مکی ،مطلب فی حکم مااذا ۔۔۔ الخ، صفحہ ۲۲۸،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم غیب الله عزوجل کے علم کے برابر نہیں : ⏬

تفسیر کبیر میں ہے : قولہ ولا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات ۔
ترجمہ : آیت میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد ہوا تم فرمادو میں غیب نہیں جانتا، اس کے یہ معنی ہیں کہ میرا علم جمیع معلومات الہٰیہ کو حاوی نہیں ۔ (مفاتح الغیب)

ہمارا عقیدہ ہے کہ الله ”عالم الغیب“ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ”عالم غیب“ ہیں۔ نبی کو عالم غیب کہہ سکتے ہیں عالم الغیب کہنا منع ہے ۔ (حبیب الفتاوی)

علم ما کان و مایکون نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے : ⏬

حدیث صحیح سنن ترمذی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تجلّٰی کل شیئ وعرفتُ ۔
ترجمہ : ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی ۔ (جامع سنن الترمذی ، کتاب التفسیر من سورۃ ص، حدیث ۳۲۴۶، ۵ /۱۶۰)

فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا و آخرت دونوں حضور کی بخشش سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کا علم، حضور کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے۔(مجموع المتون متن قصیدۃ البردۃ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر ص ۱۰)

امام ابن حجر مکی اس کی شرح میں فرماتے ہیں : لان ﷲ تعالٰی اطلعه علی العالم فعلم علم الاولین والاخرین ماکان ومایکون ۔
اس لیے کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام عالم پر اطلاع دی، تو سب اولین وآخرین کا علم حضور کو ملا جو ہو گزرا اور جو ہونے والا ہے سب جان لیا ۔ (افضل القرا لقراء ام القرٰی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سب کچھ بتا دیا

صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : ایک دن رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ فرمایا، بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا ۔ *فاخبرنا بما ھو کائن الی یوم القیمۃ فاعلمنا احفظه* اس میں *سب کچھ* ہم سے بیان فرمادیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن، ۲ /۳۹۰)
حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم *سب کچھ* جانتے ہیں جو اللہ نے انہیں سکھایا اور نبی نے سب کچھ بیان فرمادیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چھپی ہوئی چیزوں کو جانتے ہیں

جامع ترمذی شریف وغیرہ کتب کثیرئہ آئمہ حدیث میں دس صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سےروایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : فرأیتہ عزّوجل وضع کفّہ بین کتفّی فوجدت برد انا ملہ بین ثدّی فتجلّٰی لی کل شیئ وعرفت ۔
ترجمہ : میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے اپنا دستِ قدرت میری پشت پر رکھا کہ میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا ۔ (سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۴۶ ۵ /۱۶۰)
امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ھذا حدیث حسن سألت محمد بن اسمٰعیل عن ھذا الحدیث فقال صحیح ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ، میں نے امام بخاری سے اس کا حال پوچھا، فرمایا صحیح ہے۔(سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۴۶ ۵ /۱۶۱،چشتی)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں : پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں ۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی ۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ ۱ /۳۳۳)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہر چیز کی خبر دے دی یہاں تک کہ ہر پرندے کے بھی

امام احمد مسند اور ابن سعد طبقات اور طبرانی معجم میں بسند صحیح حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابویعلٰی وابن منیع و طبرانی حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی : لقد ترکنارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وما یحّرک طائر جناحیہ فی السمّاء الّا ذکر لنا منہ علما ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں اس حال پر چھوڑا کہ ہوا میں کوئی پرندہ پَر مارنے والا ایسا نہیں جس کا علم حضور نے ہمارے سامنے بیان نہ فرمادیا ہو ۔ (مسند احمد بن حنبل عن ابی ذر غفار ی رضی اللہ عنہ ۵/۱۵۳،چشتی)،(مجمع الزوائد عن ابی الدرداء کتاب علامات النبوۃ باب فیما اوقی من العلم، ۸ /۲۶۴)

نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض و شرح زرقانی للمواہب میں ہے : ھذا تمثیل لبیان کل شیئ تفصیلاً تارۃً واجمالاً اُخرٰی ۔
ترجمہ : یہ ایک مثال دی ہے اس کی کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہر چیز بیان فرمادی، کبھی تفصیلاً کبھی اجمالاً ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، فصل و من ذٰلک مااطلع الخ ۳ /۱۵۳)۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل الثالث ۷ /۲۰۶)

مواہب امام قسطلانی میں ہے : ولا شک ان ﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین ۔
اور کچھ شک نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القاء کیا، صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔ (المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم من الغیب ۳ /۵۶۰)

بد مذہبوں کا قرآنی آیات سے استدال غلط ہے : ⏬

امام قاضی عیاض شفا شریف اور علامہ شہاب الدین خفا جی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : (ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علی الغیب (المعلومۃ علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا اوالتردد فیہا لا حدٍ من العقلاء (لکثرۃ رواتھا واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذالاینافی الاٰیات الدالۃ علی انہ لایعلم الغیب الا ﷲ وقولہ ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمہ من غیرواسطۃ وامّا اطلاعہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم علیہ با علام ﷲ تعالٰی لہ فامرمتحقق بقولہ تعالٰی فلایظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول ۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت خیر جمع کرلیتا ، اس لیے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر خدا کے بتائے ہو اور ﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے، کہ ﷲ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسول کے ۔ (نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض ومن ذٰلک ما اطلع علیہ من الغیوب ۳ /۱۵۰)

تفسیر نیشا پوری میں ہے : لا اعلم الغیب فیہ دلالۃ علی ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الّا ﷲ ۔
آیت کے یہ معنی ہیں کہ علم غیب جو بذاتِ خود ہو وہ خدا کے ساتھ خاص ہے ۔ (غرائب القرآن تحت آیۃ ۶ /۵۰، ۶ /۱۱۰)

تفسیر انموذج جلیل میں ہے : معناہ لایعلم الغیب بلادلیل الا ﷲ اوبلا تعلیم الا ﷲ اوجمیع الغیب الاﷲ ۔
آیت کے یہ معنی ہیں کہ غیب کو بلادلیل و بلا تعلیم جاننا یا جمیع غیب کو محیط ہونا یہ ﷲ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے ۔

تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان میں ہے : لم ینف الاالدرایۃ من قبل نفسہ وما نفی الدرایۃ من جھۃ الوحی ۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی ذات سے جاننے کی نفی فرمائی ہے خدا کے بتائے سے جاننے کی نفی نہیں فرمائی ۔ (غرائب القرآن تفسیر النیساپوری تحت آیۃ ۴۶ /۹ ، ۸ /۲۶)

تفسیر جمل شرح جلالین و تفسیر خازن میں ہے : المعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی ﷲ تعالٰی علیہ ۔
آیت میں جو ارشاد ہوا کہ میں غیب نہیں جانتا ۔ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ میں بے خدا کے بتائے نہیں جانتا ۔ (لباب التاویل (تفسیر الخازن) تحت الآیۃ ۷ /۱۸۸ ، ۲ /۲۸۰ والفتوحات (تفسیرالجمل) ۳ /۱۵۸)

تفسیر البیضاوی میں ہے : لااعلم الغیب مالم یوح الی ولم ینصب علیہ دلیل ۔
آیت کے یہ معنی ہیں کہ جب تک کوئی وحی یا کوئی دلیل قائم نہ ہو مجھے بذاتِ خود غیب کا علم نہیں ہوتا۔( انوارالتنزیل (تفسیر البیضاوی تحت آیۃ ۶ /۵۰ ۲ /۴۱۰)

تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے : وعندہ مفاتیح الغیب وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لایعلمھا کما ھی ابتداءً الاّ ھو ۔
یہ جو آیت میں فرمایا کہ غیب کی کنجیاں ﷲ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداءً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی۔ (عنایۃ القاضی علٰی تفسیر البیضاوی ،تحت آیتہ ۶ /۵۸، ۴ /۷۳)

تفسیر علامہ نیشاپوری میں ہے : (قل لا اقول لکم) لم یقل لیس عندی خزائن ﷲ لیعلم ان خزائن ﷲ وھی العلم بحقائق الاشیاء وما ھیاتھا عندہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم باستجابۃ دعاء ہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی قولہ ارنا الا شیاء کما ھی ولکنہ یکلم الناس علٰی قدر عقولھم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمت ماکان وما سیکون ۔
ترجمہ : ارشاد ہوا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں ، یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں ۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس ہیں ، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے خزانے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے ان کی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں، اور وہ خزانے کیا ہیں ، تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے قبول فرمائی پھر فرمایا : میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے ، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خود فرماتےہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گذرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ۔ (غرائب القرآن تحت آلایۃ ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲،چشتی)


عقیدہ علم غیب اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا : ⏬

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں تھا اور رات روشن تھی ، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں جتنی ہوں گی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جی ہاں ! وہ عمر ہیں ، جن کی نیکیاں ان ستاروں جتنی ہیں ۔ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر میرے والد ماجد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نیکیاں کس درجہ میں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی کے برابر ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب المناقب الفصل الثالث حدیث نمبر ۶۰۶۸ جلد ۳ صفحہ ۳۴۹)

منکرین کیا کہتے ہیں اب اگر بقول تمہارے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جس نے یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم غیب جانتے ہیں وہ جھوٹا ھے تو خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال کیوں کیا ؟

حدیث بخاری کا جواب : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ تینوں باتیں اپنی ظاہری معنٰی پر نہیں ہیں آپ کے یہ قول اپنی رائے سے ہیں ۔ اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتیں بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں رب تعالٰی کو دیکھنے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت پیش فرمائی ۔ اور اب تک جمہور اہل اسلام اس کو مانتے چلے آئے ہیں۔ دیکھو اس کی تحقیق مدارج اور نسیم الریاض وغیرہ میں ۔ اسی طرح صدیقہ کا فرمانا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی چیز نہ چھپائی ۔ اس سے مراد احکام شرعیہ تبلیغیہ ہیں۔ ورنہ بہت سے اسرار الہیہ پر لوگوں کع مطلع نہ فرمایا ۔

مشکوٰۃ کتاب العلم دوم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو قسم کے علوم ملے ۔ ایک وہ جن کی تبلیغ کر دی۔ دوسرے وہ کہ تم کو بتاؤ تو تم میرا گلا گھونٹ دو ۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسرار الہیہ نا محرم سے چھپائے گئے۔ اسی طرح صدیقہ کا یہ فرمانا کہ کل کی بات حضور علیہ السلام نہیں جانتے تھے۔ اس سے مراد ہے بالذات نہ جاننا اور صدہا احادیث اور قرآنی آیات کی مخالفت لازم آوے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کی ، دجال کی ، امام مہدی کی اور حوض کوثر کی شفاعت بلکہ امام حسین کی شہادت کی ، جنگ بدر ہونے سے پیشتر کفار کے قتل کی ، اور جگہ قتل کی خبر دی ۔ نیز اگر صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کے ظاہری معنٰے کئے جاویں تو مخالفین کے بھی خلاف ہے کہ وہ بہت سے غیوب کا علم مانتے ہیں اور اس میں بالکل نفی ہے۔ مجھے آج یقین ہے کہ کل پیچشنبہ ہو گا ۔ سورج نکلے گا ، رات آوے گی ۔ یہ بھی تو کل کی بات کا علم ہوا ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے معراج جسمانی کا بھی انکار فرمایا ۔ مگر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ واقعہ معراج انکے نکاح میں آنے سے پیشتر کا ہے۔ جو اب تک ان کے علم میں نہ آیا تھا۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم : صحیح بخاری شریف میں روایت ہے:عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت من حدثک أن محمدا صلی الله عليه و سلم رأي ربه فقد کذب وهو يقول (لا تدرکه الابصار)
ترجمہ : مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کواحاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا تدرکه الابصار ۔ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ (انعام103:) (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا،حدیث نمبر:7380 )

اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں ‘ اس لیے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ۔

جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے : عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول لا تدرکه الابصار و هو يدرک الابصار قال و يحک اذا تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين ۔
ترجمہ : حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیاہے ۔ میں نے عرض کیا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدارکیاہے ۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61،چشتی،مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767)

علم غیب کی تعریف اور جہلاۓ زمانہ کے فریب کا جواب : ⏬

محترم قارٸینِ کرام : جو تعریف جہلاۓ زمانہ علم غیب کی کرتے ہیں اس حساب سے نعوذ بااللہ اللہ پاک کو علم غیب کا مالک کہنا سواۓ جہالت کے کچھ نہیں کیونکہ اللہ پاک ہر ایک شۓ کا مالک و خالق ہے اس سے جب کوئی شٸے غیب ہے ہی نہیں تو اس کے پاس غیب کا علم کہنا کیسا یہ بات ان جہلاۓ زمانہ کے لیۓ ہے جو کہتے ہیں کہ اطلاع علی الغیب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا علم ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی بھی استاد نہیں سوائے اللہ پاک کے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جو بھی علم ہے وہ سب کا سب علم غیب ہی ہے کیونکہ وہ علم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل کسی بھی انسان کے پاس نہیں تھا لہٰذا قرآن پاک کا علم ہو یا حدیث رسول سب کا سب علمِ غیب ہے کیونکہ قرآن پاک فرماتا ہے ۔۔۔ وما ینطق عن الھوا ان ھوا الا وحی یو حی ۔۔۔۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی بھی کچھ بھی نہیں فرما تے یہاں تک کہ جب تک اللہ پاک کی وحی نازل نہ ہو جائے ۔

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے لے کر وصال تک کا ہر ایک عمل علم غیب ہی ہے ۔

وعلمک مالم تکن تعلم ۔
اے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو بھی آپ نہیں جانتے تھے وہ سب کا سب علم ہم نے آپ کو عطا فرما دیا ۔

قرآن پاک فرماتا ہے : ولا رطب ولا یئبس الا فی کتاب ۔
نہ ہی اللہ پاک کی تخلیق میں کوئی خوشک اور نہ ہی تر ہے جس کا علم اس کتاب می کھول کھول کر بیان نہ کیا گیا ہو ۔

ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتا ہے  ولا اصغر من ذلك ولا اكبر الا فی كتاب مبين ۔
نہ ہی کوئی انتہائی چھوٹے سے بھی چھوٹی اور نہ ہی انتہائی بڑے سے بھی بڑی چیز ہے ہی نہیں جس کا علم اس کتاب میں کھول کھول کر بیان نہ کیا گیا ہو ۔ایک اور مقام پر فرماتا ہے ۔

الرحمان علم القران ۔
وہی رحم فرمانے و لا ہے جس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قرآن پاک کا مکمل علم سکھایا ۔

جبکہ قرآن پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم غائب کی نفی کے نام پر کافروں کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے سے روکتا ہے وہ اس لیے کہ جب منافقین اور کفار آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو بار بار سوالات کر کر کے ستانے لگے تو اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم غائب کا انکار نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما دیجئے کہ غائب کے خزانوں کی چابیاں اللہ پاک کے پاس ہیں میں نہیں جانتا ۔

تاکہ کافر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو ستانا چھوڑ دیں ۔۔ جب امتیوں نے آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا تو اللہ پاک نے فرمایا : وما ھوا علی الغیب بضنین ۔
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی بھی غائب کی خبروں کو بتانے میں بخیل نہیں ہیں ۔

اب منافقین اور کفار آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے علم پر اعتراض کرتے تھے ہیں اور تا قیامت کرتے رہیں گے جبکہ اہل ایمان آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کی عطا سے پہلے بھی علم غیب جاننے والے مانتے تھے ہیں اور تا قیامت رہیں گے ان شاءاللہ ۔

منکرین انبیاء علیہم السلام کے علم غیب پر بے سروپا اعتراض کررہے ہیں، علم کیا ہوتا ہے اور غیب کیا ہوتا ہے اس کو سمجھیں ۔

علم : علم کے معنٰی ہیں جاننا ۔

غیب : کہ معنٰی ہے ہر وہ شئے جو عقول و حواس سے پوشیدہ ہو ۔

اور نبی : نبی کہتے ہی اس مبارک ہستی کو ہیں جو غیب کی خبروں کو اللہ پاک کی ذات سے بطور علم کے اخذ کرکے آگے امت تک منتقل کرے ۔

جیسا کہ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ : الغيب كل ما أخبر به الرسول عليه السلام مما لا تهتدي إليه العقول ۔
ترجمہ : ہر وہ چیز جسی کی خبر یا ہر وہ مخفی حقیقت کہ جس کی خبر نبی دے اور انسانی عقول اس سے عاجز ہوں وہ غیب ہے ۔

محترم قارئینِ کرام آپ نے دیکھا کہ غیب کی تعریف ہی یہ ہے یعنی غیب کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کی خبر انسانوں کو نبی کے ذریعہ سے معلوم پڑے اب اس پر کوئی یہ کہہ دے کہ نبی کو غیب کا علم نہیں یا خبر نہیں یا غیب پر اطلاع نہیں ؟

کتنی عجیب اور مضحکہ خیز بات ہوگئی کہ جس کا عقل و فہم شعور و ہدایت کے ساتھ کوئی دور کا بھی واسطہ نہ ہوگا کہ نبی تو نام ہی اس ہستی کا ہے جو اللہ کی طرف سے غیب پر مطلع ہو کر پھر انسانوں کو اس سے خبردار کرتا ہے تو معلوم ہوا کہ غیب اور نبی تو آپس میں اس طرح سے لازم و ملزوم ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے عین یک دگر ہیں کہ ان دونوں کو ہرگز ایک دوسرے سے جدا ہی نہیں کیاجاسکتا کہ نبی کہتے ہی اسے ہیں کہ جو اللہ کی طرف سے مامور ہوطکر اخذِ فیض علم کر کے بطور غیب کی اخبار لوگوں تک پہنچائے تو پھر دونوں یعنی نبی اور غیب کو آپس میں کس طرح سے جدا کیا جاسکتا ہے؟

کیا کبھی کسی نے یہ کہا کہ یہ پانی ہے مگر گیلا نہیں ، یہ آگ ہے مگر جلاتی نہیں ؟

یعنی نبی ایک ایسا عہدہ ہے کہ جس کےلیے (اللہ کی طرف سے غیب پر مطلع ہونا) اس کی لازمی صفت قرار پاتی ہے یعنی نبی ذات ہے اور غیب اس کی صفت اور صفت بھی ایسی کہ جسے اس کے موصوف سے ہرگز جدا نہ کیا جا سکے ۔

منافقین مدینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے علم غیب منکر تھے اور کہا کرتے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ غیب کیا جانیں اللہ عزّوجل کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ نے انہیں کیسے رُسوا کر کے نکالا آیئے پڑھتے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ منافقین کے فتنہ و شر اور فساد سے سب اہلِ ایمان کو بچائے آمین ۔

کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے جمعہ کے دن خطبے کےلیے قیام کرکے نام بنام فرمایا : نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ، نکل ۔ اے فلاں ! تو منافق ہے ، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا ۔ (تفسیر خازن ، التوبۃ ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲/۲۷۶)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منافقوں کو پہچانتے تھے ۔ مگر پردہ پوشی سے کام لیتے تھے عینی شرح بخاری جلد صفحہ 221 میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ یوم الجمعۃ فقال اخرج یا فلان فانک منافق فاخرج منھم ناسا ففضحھ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا ۔ پس فرمایا کہ اے فلاں نکل جا کیونکہ تو منافق ہے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو رسوا کر کے نکال دیا ۔

شرح شفا ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ جلد اول صفحہ 241 میں فرماتے ہیں : عن ابن عباس کان امنفقون من الرجال ثلثۃ مائۃ ومن النساء مائۃ و سبعین ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منافقین مرد تین سو تھے اور عورتیں ایک سو ستر ۔

دکتور الازھر ڈاکٹر محمد ابوشھبہ منکرین کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فلیس فی الایۃ اسمرار عدم العلم بحالھم بل فیھا مایشعر بان اللہ یفضحھم یکشف امرھم لنبیۃ علیہ السلام والمومنین المرۃ بعد المرۃ فالمراد بالمرتین التکثیر کقولہ سبحانہ ثم ارجع البصر کرتین والایۃ تشعر باطلاع اللہ سبحاہ نبیہ علیہ السلام علی احوالھم ولا سیما وقد ورد فی الروایۃ مایوید ذلک اخرج ابن ابی حاتم والطبرانی فی الاوسط وغیرھما عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم الجمعۃ خطببا فقال قم یا فلان فاخرج فانک منافق اخرج یا فلاں فانک منافق فاخرجھم باسمائھم ففضحھم ۔ (دفاع عن السنۃ ۳۳۲،چشتی)
ترجمہ : اس آیت مبارکہ میں کہیں نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منافقین کو نہ جاننا دائمی ہے بلکہ اس میں یہ اطلاع ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں ذلیل و رسوا فرمائے گا اور ان کے معاملہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان پر خوب منکشف کردے گا یہاں مرتین سے کثرت مراد ہے جیسا کہ اس ارشاد الٰہی (ثم ارجع البصر کرتین) میں ہے آیت تو واضح کررہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے احوال پر مطلع فرمارہا ہے اور اس کی تائید یہ حدیث ہے جسے امام ابن ابی حاتم ، طبرانی نے اوسط اور دیگر محدثین نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے اجتماع میں خطبہ کے لیئے کھڑے ہوئے تو فرمایا فلاں تو اٹھ جا اور نکل جا تو منافق ہے ، فلاں تُو اٹھ اور نکل جا تُو منافق ہے تو ان کے نام لے لے کر آپ علیہ السلام نے انہیں نکال کر رسوا فرمایا ۔

تفسیر جمل میں اسی آیت کے ما تحت ہے : فان قلت کیف نفی عنہ علم بحال النافقین واثبتہ فی قولہ تعالٰٰی و لتعرفھم فی لحن القول فالجواب ان اٰیۃ النفی نزلت قبل اٰیۃ الاثبات ۔
اسی تفسیر جمل میں زیر آیت ۔ ولتعرفھم فی لحن القول“ ہے فکان بعد ذلک لا یتکلم منافق عند النبی علیہ السلام الا عرفیہ ویستدل علٰٰی فساباطنہ و نفاقہ ۔
ترجمہ : اگر تم کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافقین کا حال جاننے کی نفی کیوں کی گئی حالانکہ آیت “ ولتعرفھم فی لحن القول“ میں اس کے جاننے کا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفی کی آیت کا ثبوت کی آٰیت سے پہلے اتری ہے اس آیت کے بعد کوئی بھی منافق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرفت میں کلام نہ کرتا تھا ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پہچان لیتے تھے اور اس کے فساد باطن اور نفاق پر دلیل پکڑتے تھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کا نام بنام منافقین کو مسجد سے نکالنا : ⏬

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ توبہ آیت نمبر 101 کی تفسیر میں کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دینے کےلیے کھڑے ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے منافقوں کا نام لے لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا اور ان کو رسوا کر دیا ۔ اس دن کسی کام کی وجہ سے اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں نہیں پہنچے تھے ۔ جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ مسجد سے نکل رہے تھے ۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے چھپ رہے تھے ۔ ان کا گمان تھا کہ حضت عمر رضی اللہ عنہ کو حقیقتِ واقعہ کا پتا چل گیا ہے ۔ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ کو خوشخبری ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے آج منافقین کو رسوا کر دیا ۔ یہ ان پر عذاب اوّل تھا اور عذاب ثانی عذاب قبر ہے ۔ (المعجم الاوسط ج ١ ص ٤٤٢، رقم الحدیث : ٧٩٦،چشتی)(مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٣) ، (الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف ج ٢ ص ٣٠٦) ۔ ان مفسرین کرام نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ ان میں سے بعض نے اس کو اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے : (١) امام ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ (جامع البیان جز ١١ ص ١٥) ۔ (٢) امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ، (تفسیر القرآن ج ٦ ص ١٨٧٠) ۔ (٣) امام ابواللیث سمر قندی متوفی ٣٧٥ ھ، (تفسیر سمرقندی ج ٢ ص ٧١) ۔ (٤) علامہ ابوالحسن الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ، (الوسیط ج ٢ ص ٥٢١ ) ۔ (٥) امام حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥٣٨ ھ، (معالم التنزیل ج ٢ ص ٢٧٢) ۔ (٦) علامہ محمود بن عمر زمحشری متوفی ٥٣٨ ھ، (الکشاف ج ٢ ص ٢٩١) ۔ (٧) قاضی ابن عطیہ اندلسی متوفی ٥٤٦ ھ، (المحرر الوجیز ج ٨ ص ٢٦٢ ) ۔ (٨) امام عبدالرحمن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ، (زادالمسیر ج ٣ ص ٤٩٢) ۔ (٩) امام فخر الدین رازیمتوفی ٦٠٦ ھ، ( تفسیر کبیر ج ٦ ص ١٣١) ۔ (١٠) علامہ علاء الدین خازن متوفی ٧٢٥ ھ، (لباب التاویل ج ٢ ص ٢٩١) ۔ (١١) علامہ نظام الدین نیشاپوری متوفی ٧٢٨ ھ، (غرائب القرآن ج ٣ ص ٥٢٤ ) ۔ (١٢) علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ، (البحر المحیط ج ٥ ص ٤٩٧) ۔ (١٣) حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ (تفسیر القرآن ج ٢ ص ٤٩٧) ۔ (١٤) علامہ ابو حجص عمر دمشقی متوفی ٨٨٠ ھ، (اللباب فی علوم الکتاب ج ١٠ ص ١٩٠) ۔ (١٥) حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ، (الدرالمنثور ج ٤ ص ٢٧٣) ۔ (١٦) قاضی ابوالسعود متوفی ٩٨٢ ھ، (تفسیر ابوالسعود ج ٣ ص ١٨٦) ۔ (١٧) قاضی محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ، (فتح القدیر ج ٢ ص ٥٦٧ ) ۔ (١٨) علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ، (روح المعانی ج ١١ ص ١١) ۔ (١٩) نواب صدیق حسن خان بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ، (فتح البیان ج ٥ ص ٢٨٦) ۔ (٢٠) صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ، (خزائن العرفان ص ٣٢٥ ) ۔ (٢١) (علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی متوفی ١٣٦٩ ھ ، تفسیرِ عثمانی برحاشیہ قرآن جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٣٦٩)

بعض علماء دیوبند اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ۔ اس لیے ہم نے متعدد حوالہ جات ذکر کیے ہیں جنہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے بھی منافقین کے علم کے متعلق دو حدیثیں ذکر کی ہیں : امام احمد کی سند کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمیں مکہ کی عبادت کا کوئی اجر نہیں ملے گا ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم کو تمہاری عبادتوں کے اجور ملیں گے خواہ تم لومڑی کے سوراخ میں ہو ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب اپنا سر کرکے کان لگا کر سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب میں منافقین بھی ہیں ۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بعض منافقین منکشف ہوگئے تھے اور وہ لوگ جو بے پر کی افواہیں اڑاتے تھے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو چودہ ، پندرہ معین منافقوں کا علم عطا فرمایا تھا اور یہ تخصیص اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام منافقوں کے اسماء پر شخصی طور پر مطلع نہ ہوں ۔ اور امام ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ایک شخص جس کا نام حرملہ تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : ایمان یہاں ہے اور اس نے اپنے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا ۔ اور نفاق یہاں ہے ۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا اور اس نے اللہ کا ذکر بہت کم کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی : اے اللہ ! اس کی زبان کو ذکر کرنے والا بنا دے ۔ اور دل کو شکر کرنے والا بنا دے اور اس کو میری محبت عطا فرما اور جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کی محبت عطا فرما ، اور اس کا معاملہ خیر کی طرف کر دے ۔ اس نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں منافقوں کا سردار تھا۔ کیا میں ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو ہمارے پاس آئے گا ہم اس کے حق میں استغفار کریں گے اور جو اصرار کرے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ، اور تم کسی کا پردہ فاش نہ کرنا ۔ ( تفسیر ابن کثیر جلد ٤ صفحہ ٤٣٠ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٩ ھ)

محترم قارئینِ  کرام : ثابت ہوا کہ دور جدید کے خوارج و منافقین جو ان آیات کو لے کر بنا سلف کے معنی و تفسیرات کے اپنی خود ساختہ تعلیمات نشر کرتےاور فساد پھیلاتے اور سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اپنے بڑوں منافقین مدینہ کی طرح رسوا ہوتے رہیں گے ان شاء اللہ ۔
غور کیجیے کہ آج کے دور کےمنافقین و خوارج اور ان سب کے ماننے والوں کا بھی لاعلمی یا پھر منافقت سے ویسا ہی عقیدہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں منافقین تھے جو کہ انکارِ علم نبوی کرتے تھے ۔ وہ اس دور میں کھلم کھلا انکار کرتے تھے ۔ اور انہوں نے مسلمانوں کا لباس پہنا ہوتا تھا نام رکھے ہوتے تھے اور آجکل یہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں بگاڑ ڈالا اور خوارج اسی لیئے کہلائے کہ امتِ مسلمہ سے ہٹ کر انہوں نے ایسی چیزوں کا انکار کیا اور توہینِ نبوی کے مرتکب ہوئے ۔

لا تعلمھم نحن نعلمھم علم نبوی کے منکرین کی ایک غلط دلیل کا جواب : ⏬

محترم قارئینِ کرام : منکرین سب سے بڑی دلیل اس ارشادِ الٰہی کو بناتے ہیں فرمایا : وَمِمَّنْ حَوْلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعْرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕۛ وَمِنْ اَہۡلِ الْمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعْلَمُہُمْ ؕ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ ؕ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 101)
ترجمہ : اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے ان کی خو ہوگئی ہے نفاق تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں ۔

اور کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا لیکن ائمہ سلف الصالحین مفسرین علیہم الرّحمہ نے اس کی تفسیر میں کچھ یوں لکھا ہے مثلا امام ابواللیث سمرقندی رحمتہ اللہ علیہ (م ۳۸۶ھ) لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے : لانی عالم السروالعلانیۃ ونعلم نفاتھم نعرفک حالھم ۔
ترجمہ : میں ظاہر و مخفی جانتا ہوں اور ان کے نفاق کو بھی جانتا ہوں اور ہم ان کا حال تم پر آشکار کردیں گے ۔ (تفسیر السّمر قندی الجزء الثانی صفحہ نمبر 71)

دکتور الازھر ڈاکٹر محمد ابوشھبہ منکرین کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فلیس فی الایۃ اسمرار عدم العلم بحالھم بل فیھا مایشعر بان اللہ یفضحھم یکشف امرھم لنبیۃ علیہ السلام والمومنین المرۃ بعد المرۃ فالمراد بالمرتین التکثیر کقولہ سبحانہ ثم ارجع البصر کرتین والایۃ تشعر باطلاع اللہ سبحاہ نبیہ علیہ السلام علی احوالھم ولا سیما وقد ورد فی الروایۃ مایوید ذلک اخرج ابن ابی حاتم والطبرانی فی الاوسط وغیرھما عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم الجمعۃ خطببا فقال قم یا فلان فاخرج فانک منافق اخرج یا فلاں فانک منافق فاخرجھم باسمائھم ففضحھم ۔ (دفاع عن السنۃ ۳۳۲،چشتی)
ترجمہ : اس آیت مبارکہ میں کہیں نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منافقین کو نہ جاننا دائمی ہے بلکہ اس میں یہ اطلاع ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں ذلیل و رسوا فرمائے گا اور ان کے معاملہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان پر خوب منکشف کردے گا یہاں مرتین سے کثرت مراد ہے جیسا کہ اس ارشاد الٰہی (ثم ارجع البصر کرتین) میں ہے آیت تو واضح کررہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے احوال پر مطلع فرمارہا ہے اور اس کی تائید یہ حدیث ہے جسے امام ابن ابی حاتم ، طبرانی نے اوسط اور دیگر محدثین نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے اجتماع میں خطبہ کےلیے کھڑے ہوئے تو فرمایا فلاں تو اٹھ جا اور نکل جا تو منافق ہے ، فلاں تُو اٹھ اور نکل جا تُو منافق ہے تو ان کے نام لے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نکال کر رسوا فرمایا ۔

یعنی ثابت ہوا کہ دور جدید کے خوارج جو ان آیات کو لے کر بنا سلف کے معنی و تفسیرات کے اپنی خود ساختہ تعلیمات نشر کرتے ہیں اسی وجہ سے لوگوں کے اذھان دین میں گمراہ ہوتے ہیں اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین ۔

محترم قارئینِ کرام : اس آیت سے مخالفین دلیل پکڑتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ میں آنے والے منافقوں کو نہ پہچانتے تھے پھر علم غیب کیسا ؟ مگر مفسرین نے اس آیت کی توجہیہ کی ہے کہ اس آیت کے بعد یہ آیت نازل ہوئی “ ولتعرفھمفنھم فی لحن القول“ اور ضرور تم ان کو بات کے طریقے سے پہچان لوگے لہٰذا یہ آیت منسوخ ہے یا تو یہ توجہیہ ہے کہ بغیر ھمارے بتائے انکو نہیں پہچانتے ۔

تفسیر جمل میں اسی آیت کے ما تحت ہے : فان قلت کیف نفی عنہ علم بحال النافقین واثبتہ فی قولہ تعالٰٰی و لتعرفھم فی لحن القول فالجواب ان اٰیۃ النفی نزلت قبل اٰیۃ الاثبات ۔
اسی تفسیر جمل میں زیر آیت ۔ ولتعرفھم فی لحن القول“ ہے فکان بعد ذلک لا یتکلم منافق عند النبی علیہ السلام الا عرفیہ ویستدل علٰٰی فساباطنہ و نفاقہ ۔
ترجمہ : اگر تم کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافقین کا حال جاننے کی نفی کیوں کی گئی حالانکہ آیت “ ولتعرفھم فی لحن القول“ میں اس کے جاننے کا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفی کی آیت کا ثبوت کی آٰیت سے پہلے اتری ہے اس آیت کے بعد کوئی بھی منافق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرفت میں کلام نہ کرتا تھا ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پہچان لیتے تھے اور اس کے فساد باطن اور نفاق پر دلیل پکڑتے تھے ۔

تفسیر بیضاوی یہ ہی آیت : خفی علیک حالھم مع کمال فطنتک وصدق فراستک ۔
ترجمہ : آپ پر ان کا حال باوجود آپ کی کمال سمجھ اور سچی پردم شناسی کے مخفی رہ گیا ۔

اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں اندازہ سے پتہ لگا لینے کی نفی ہے ۔ اگر اس آیت کی یہ توجہیں نہ کی جاویں تو ان احادیث کی مخالفت ہوگی جن سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منافقوں کو پہچانتے تھے ۔ مگر پردہ پوشی سے کام لیتے تھے عینی شرح بخاری جلد صفحہ 221 میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم الجمعۃ فقال اخرج یا فلان فانک منافق فاخرج منھم ناسا ففضحھ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا ۔ پس فرمایا کہ اے فلاں نکل جا کیونکہ تو منافق ہے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو رسوا کر کے نکال دیا ۔

شرح شفا ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ جلد اول صفحہ 241 میں فرماتے ہیں : عن ابن عباس کان امنفقون من الرجال ثلثۃ مائۃ ومن النساء مائۃ و سبعین ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ منافقین مرد تین سو تھے اور عورتیں ایک سو ستر ۔

اس آیت مبارکہ کی مزید تفسیر : وَمِمَّنْ حَوْلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعْرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ : اور اے مسلمانو تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں ۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مدینے کے منا فقین کے حالات بیان فرمائے ، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا ، پھر بیان فرمایا کہ اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے ۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶/۱۳۰)

اور یونہی خود مدینہ طیبہ میں بھی کچھ منافقین ہیں جیسے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی اور دیگر بہت سے لوگ جن کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں نشاندہی کی جاتی رہی ۔

صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا : ⏬

اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جاسکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے ، ہاں اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۵، الحدیث: ۴۸۳(۱۳۷۷،چشتی)

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ عزوجل اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ و دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹-۷۱۰، الحدیث: ۴۵۹-۴۶۰(۱۳۶۳)

حضرت سفیان بن ابی زہیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہو گا ، اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہو گا ، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کےلیے بہتر ہے اگر جانتے ، اور عراق فتح ہو گا ، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، ۱/۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۵،چشتی)(مسلم کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص۷۱۹، الحدیث: ۴۹۷(۱۳۸۸)

حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے ۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، ۱/۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۷،چشتی)

حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا : جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گااللہ عَزَّوَجَلَّ اسے خوف میں ڈالے گا ۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔۔۔ الخ، ۴/۲۰، الحدیث: ۳۷۳۰، الجزء السادس)

حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ یا اللہ !عَزَّوَجَلَّ ، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔ (معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، ۲/۳۷۹، الحدیث: ۳۵۸۹،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسوئ، ۳/۶۵۹، الحدیث: ۵۸۲۶)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا ۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵/۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)

لَا تَعْلَمُہُمْ ؕ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ : تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں ۔ اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو ، وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منافقین کا حال جاننے کی نفی جو پہلے ہو چکا اس کے اعتبار سے ہے اور اس کا علم بعد میں عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا وَ لَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیۡ لَحْنِ الْقَوْلِ ۔ (سورہ محمد:۳۰)
ترجمہ : اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے ۔ (تفسیر جمل، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳/۳۰۴،چشتی)

کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا : نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ، نکل ۔ اے فلاں ! تو منافق ہے ، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا ۔ (تفسیرخازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲/۲۷۶)

ہم اثبات علم غیب میں ایک حدیث پیش کر چکے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہم پر ہماری امت پیش کی گئی لہٰذا ہم نے منافقوں اور کفار اور مومنین کو پہچان لیا ۔ اس پر منافقین نے اعتراض کیا اور قرآن کی آیت ان کے جواب کے لئے آئی ۔ ان سب دلائل میں مطابقت کرنے کےلیے یہ توجہیہ کرنا ضروری ہے ۔ نیز یہ کلام اظہارِ غضب کے لئے ہوتا ہے اگر باپ بچہ کو مارنے لگے اور کوئی باپ سے بچائے تو وہ کہتا ہے کہ اس کو تم نہیں جانتے میں جانتا ہوں اس سے علم کی نفی نہیں ۔

علم غیب پر اعتراض کا جواب از فتاویٰ رضویہ : ⏬

مسئلہ ۱۴۵ : از موضع پارہ پرگنہ مورانواں ضلع اناؤ مسئولہ محمد عبدالرؤف صاحب ۔ ۳ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ ۔(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 29 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کا عقیدہ ہے کہ چونکہ عالم الغیب صفت مختصہ باری تعالٰی ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت لفظ عالم الغیب بالواسطہ یا بالعطایا کہنا بھی جائز نہیں اور نہ حضور پر نور کو کل علم غیب یعنی از روزِ ازل تا ابد شبِ معراج میں عطا فرمایا گیا تھا۔البتہ بعض بعض علوم غیبیہ کا قائل ہے اور اپنے عقیدہ کی دلیل میں چند واقعات بطور اثبات نوشتہ علمائے دیوبند پیش کرتا ہے،مثلًا سورہ کہف کہ آنحضرت صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بجواب اس سوال کے کہ اصحابِ کہف کس مدت تك سوئے تھے،فرمایا کل بتلاؤں گا،اور لفظ ان شاء ﷲ تعالٰی نہ کہنے کی وجہ سے اٹھارہ روز تک وحی کا نزول نہ ہوا،اگر علمِ غیب ہوتا تو توقف نہ فرماتے۔

دوئم ۲ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ تعالٰی عنہا کا حادثہ کہ کفار مکہ نے آپ کو متہم کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طلاق دینے پر آمادہ ہوگئے۔اور اگر آپ کو علم ہوتا تو تذبذب کیوں ہوتا،وحی کے نزول پر آپ مطمئن ہوئے اور کہتا ہے کہ اگر کل علمِ غیب عطا فرمایا جاتا تو پھر وحی آنے کی کیا ضرورت تھی ؟

(عقیدہ عمرو) برعکس اس کے عمرو کا عقیدہ یہ ہے کہ حضور پر نور سید یوم النشور حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شب معراج میں ﷲ رب العزت نے جملہ اولین و آخرین مانند آفتابِ درخشاں روشن کردیئے تھے اور تمام علم ماکان ومایکون سے صدرِ مبارك حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جلوہ افروز کردیا تھا اور جن باتوں سے آپ نے جواب نہیں دیا بلکہ سکوت اختیار فرمایا ان کو خدا اور حبیبِ خدا کے درمیانی اسرار مخفی کی جانب مبذول کرتا ہے،اور روز اول سے لے کر یوم الحشر کے تمامی علوم کو حضور سرور کائنات و مفخر موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم کے سمندر کی ایک لہر کی برابر تصور کرتا ہے۔

الجواب : اس مسئلہ میں بفضلہ تعالٰی یہاں سے متعدد کتابیں تصنیف ہوئیں۔الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ پر اکابر علمائے مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ وغیرہ ہا بلادِ اسلامیہ نے مہریں کیں،گرانقدر تقریظیں لکھیں خالص الاعتقاد دس سال سے شائع ہوا انباء المصطفٰی بیس سال سے ہزار کی تعداد میں بمبئی و بریلی و مراد آباد میں چھپ کر تمام ملك میں شائع ہوا اور بحمدہ تعالٰی سب کتابیں آج تك لاجواب ہیں، مگر وہابیہ اپنی بے حیائی سے باز نہیں آتے۔علم غیب عطا ہونا اور لفظ عالم الغیب کا اطلاق اور بعض اجلہ اکابر کے کلام میں اگرچہ بندہ مومن کی نسبت صریح لفظ یعلم الغیب وارد ہے کما فی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح لملا علی القاری(جیسا کہ ملا علی قاری کی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے۔ت)بلکہ خود حدیث سیدنا عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما میں سیدنا خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت ارشاد ہے:کان رجلا یعلم علم الغیب[جامع البیان(تفسیر الطبری)تحت آیۃ وعلمنٰہ من لدنا علما داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۵/ ۳۲۳]

وہ مرد کامل ہیں جو علمِ غیب جانتے ہیں۔ت)

مگر ہماری تحقیق میں لفظ عالم الغیب کا اطلاق حضرت عزت عزجلالہ کے ساتھ خاص ہے کہ اُس سے عرفًا علم بالذات متبادر ہے۔کشاف میں ہے:المراد بہ الخفی الذی لاینفذ فیہ ابتداء الا علم اللطیف الخبیر ولہذا لایجوزان یطلق فیقال فلان یعلم الغیب[الکشاف تحت آیۃ ۲/ ۳ انتشارات آفتاب تہران ۱/ ۱۲۱]

اس سے مراد پوشیدہ شے ہے جس تك ابتداءً (بالذات) سوائے باریکی جاننے والے یا خبیر (ﷲ تعالٰی) کے کسی کے علم کی رسائی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ علی الاطلاق یوں کہنا کہ فلاں غیب جانتا ہے جائز نہیں(ت)

اور اس سے انکار معنی لازم نہیں آتا۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قطعًا بے شمار غیوب و ماکان مایکون کے عالم ہیں مگر عالم الغیب صرف ﷲ عزوجل کو کہا جائے گا جس طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قطعًا عزت جلالت والے ہیں تمام عالم میں ان کے برابر کوئی عزیز و جلیل ہے نہ ہوسکتا ہے مگر محمد عزوجل کہنا جائز نہیں بلکہ ﷲ عزوجل و محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔غرض صدق وصورت معنی کو جواز اطلاق لفظ لازم نہیں نہ منع اطلاق لفظ کو نفی صحت معنی۔امام ابن المنیر اسکندری کتاب الانتصاف میں فرماتے ہیں:کم من معتقدلایطلق القول بہ خشیۃ ایہام غیرہ مما لا یجوز اعتقادہ فلا ربط بین الاعتقاد والاطلاق۔[الانتصاف]

بہت سے معتقدات ہیں کہ جن کے ساتھ قول کا اطلاق اس ڈر سے نہیں کیا جاتا کہ ان میں ایسے غیر کا ایہام ہوتا ہے جس کا اعتقاد جائز نہیں،لہذا اعتقاد اور اطلاق کے درمیان کوئی لزوم نہیں۔(ت)

یہ سب اس صورت میں ہے کہ مقید بقید اطلاق اطلاق کیا جائے یا بلا قید علی الاطلاق مثلًا عالم الغیب یا عالم الغیب علی الاطلاق اوراگر ایسا نہ ہو بلکہ بالواسطہ یا بالعطاء کی تصریح کردی جائے تو وہ محذور نہیں کہ ایہام زائل اور مراد حاصل۔علامہ سید شریف قدس سرہ حواشی کشاف میں فرماتے ہیں:وانما لم یجزالاطلاق فی غیرہ تعالٰی لانہ یتبادر منہ تعلق علمہ بہ ابتداء فیکون تنا قضا واما اذا قید وقیل اعلمہ اللہ تعالٰی الغیب او اطلعہ علیہ فلا محذور فیہ[حاشیہ سید الشریف علی الکشاف تحت آیۃ ۲/۳ انتشارات آفتاب تہران ۱/ ۲۸]

علم غیب کا اطلاق غیر ﷲ پر اس لیے ناجائز ہے کہ اس سے غیر ﷲ کے علم کاغیب کے ساتھ ابتداء(بالذات) متعلق ہونا متبادر ہوتا ہے تو اس طرح تناقض لازم آتا ہے لیکن اگر علم غیب کے ساتھ کوئی قید لگادی جائے اور یوں کہا جائے کہ ﷲ تعالٰی نے اس کو غیب کا علم عطا فرمادیا ہے یا اس کو غیب پر مطلع فرمادیا ہے تو اس صورت میں کوئی ممانعت نہیں۔(ت)

زید کا قول کذب صریح و جہل قبیح ہے،کذب تو ظاہر کہ بے ممانعت شرعی اپنی طرف سے عدم جواز کا حکم لگا کر شریعت و شارع علیہ الصلوۃ والسلام اور رب العزۃ جل و علا پر افتراء کررہا ہے۔

قال ﷲ تعالٰی" وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوۡا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفْتَرُوۡنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾ؕمَتٰعٌ قَلِیۡلٌ ۪ وَّلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۱۷﴾"[القرآن الکریم ۱۶/ ۱۱۶و ۱۱۷]
ﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں،یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ ﷲ تعالٰی پر جھوٹ باندھو،بے شك جو ﷲ تعالٰی پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا،تھوڑا برتنا ہے اور انکے لیے دردناك عذاب ہے۔ت)

اور جہل فاضح یہ کہ عالم الغیب صفت مختصہ باری تعالٰی ہونے پر بالواسطہ و بالعطا کہنے کے عدمِ جواز کو متفرع کررہا ہے شاید اس کے نزدیك علم غیب بالواسطہ، وبالعطا خاصہ باری تعالٰی ہے یعنی دوسرے کے دیئے سے علم غیب خاص ﷲ تعالٰی کو ہوتا ہے اس کے غیر کو علم غیب بالذات بلاواسطہ ہے ایسا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کفرِ اشد کیا ہے۔گنگوہی صاحب نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب بالذات بے عطائے الٰہی ملنے کے اعتقاد کو کفر نہ مانا تھا صرف اندیشہ کفر کہا تھا ان کے فتاوٰی حصہ اول صفحہ ۸۳ میں ہے:جو یہ عقیدہ رکھے کہ خود بخود آپ کو علم تھا بدون اطلاق حق تعالٰی کے تو اندیشہ کفر کا ہے لہذا امام نہ بنانا چاہیے اگر چہ کافر کہنے سے بھی زبان کو روکے ۔ [فتاوٰی رشیدیہ]

حالانکہ گنگوہی صاحب کا یہ قول خود ہی صریح کفر ہے بلاشبہہ جو غیر خدا کو بے عطا ئے الہٰی خود بخود علم مانے قطعًا کافر ہے اور جو اس کے کفر میں تردد کرے وہ بھی کافر۔اسمعٰیل دہلوی صاحب نے دوسری شق لی تھی کہ ﷲ عزوجل کے علم غیب کو حادث و اختیاری مانا۔

تقویت الایمان میں ہے:غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہو کہ جب چاہے کرلیجیے یہ ﷲ صاحب کی ہی شان ہے ۔ [تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علمیی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص ۱۴]

یہ بھی صریح کلمہ کفر ہے مگر دونوں شقیں جمع کرنا کہ ﷲ تعالٰی کا علم عطائی اور دوسرے کا ذاتی یہ اسی نتیجہ قول زید کا خاصہ ہے۔

دو واقعے کہ زید نے پیش کیے اگرچہ ان پر ابحاث اور بھی ہیں مگر کیا انباء المصطفی میں صاف نہ کہہ دیا گیا تھا کہ بحمد ﷲ تعالٰی نص قطعی سے روشن ہوا کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ﷲ عزوجل نے تمام موجودات جملہ ماکان ومایکون(جو ہوچکا اور جو ہوگا۔ت)کا علم دیا اور جب یہ علم قرآن عظیم کے تبیانًا لکل شیئ ہونے نے دیا اور پر ظاہر کہ یہ وصف تمام کلام مجید کا ہے نہ ہر آیت یا سورت کا تو نزول جمیع قرآن عظیم سے پہلے اگر بعض کی نسبت ارشاد ہو لم نقصص علیک (ہم نے آپ پر بیان نہیں کیا۔ت) ہرگز احاطہ علمِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کانافی نہیں ، مخالفین جو کچھ پیش کرتے ہیں سب انہیں اقسام کے ہیں۔ہاں ہاں تمام نجدیہ دہلوی گنگوہی جنگلی کو ہی سب کو دعوتِ عام ہے سب اکٹھے ہو کر ایک آیت یا ایک حدیث متواتر یقینی الافادۃ لائیں جس سے صریح ثابت ہو کہ تمام نزولِ قرآن کے بعد بھی ماکان و مایکون سے فلاں امر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مخفی رہا اگر ایسا نص نہ لاسکو اور ہم کہے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ لاسکو گے تو جان لو کہ ﷲ راہ نہیں دیتا دغا بازوں کے مکر کو اھ ۔ [انباء المصطفٰی رضا اکیڈمی بمبئی صفحہ ۷ تا ۱۰] اس کے بعد بھی ایسے وقائع پیش کرنا کیسی شدید بے حیائی ہے ، بلاشبہہ عمرو کا قول صحیح ہے جمیع ماکان وما یکون جملہ مندرجات لوح محفوظ کا علم محیط حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کریم کے سمندروں سے ایک لہر ہے جیسا کہ علامہ قاری کی زبدہ شرح بردہ میں مصرح ہے ۔ وﷲ تعالٰی اعلم ۔


علم ما فی الارحام : ⏬

ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ ۔ ( سورۃ لقمان آیت نمبر 34 )
ترجمہ : اور (اللہ) جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے ۔

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد السّاری شرح بخاری میں فرماتے ہیں : فمن ادعٰی علم شیئ منہا غیر مسند الٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان کاذبًا دعواہ ۔
ترجمہ : جو کوئی قیامت و غیرہ خمس سے کسی شئی کے علم کا اِدعا کرے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت نہ کرے کہ حضور کے بتائے سے مجھے یہ علم آیا ، وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے ۔ (ارشاد السّاری شرح صحیح بخاری عربی)

تفسیر عرائس البیان زیر آیت “یعلم ما فی الارحام“ ہے : سمعت ایضا من بعض الاولیاء انہ اخبر مافی الرحم من ذکر وانثی ورئیت بعینی ما اخبر ۔
ترجمہ : ہم نے بعض اولیاء علیہم الرّحمہ کو سنا کہ انہوں نے پیٹ کے بچہ لڑکی یا لڑکے کی خبر دی اور ہم نے اپنی آنکھوں سے وہی دیکھا جس کی انہوں نے خبر دی تھی ۔

تفسیر روح البیان میں اسی آیت کے ما تحت ہے : وما روی عن الانبیاء و الاولیاء من الاخبار عن الغیوب فیتعلم اللہ اما بطریق الوحی او بطریق الالھام والکشف وکذا اخبر بعض الولیاء عن نزول المطر واخبر عما فی الرحم من ذکر و انثی فوقع کما اخبر ۔
ترجمہ : اور جو غیب کی خبریں انبیاء و اولیاء سے مروی ہیں پس یہ اللہ کی تعلیم سے ہیں یا وحی یا الہام کے طریقے سے ۔ اور اسی طرح بعض اولیاء نے بارش آنے کی خبر دی اور بعض نے رحم کے بچہ لڑکے یا لڑکی کی خبر دی تو وہ ہی ہوا جو انہوں نے کہا تھا ۔

علامہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ روض النظر شرح جامع صغیر میں اسی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں : قولہ علیہ السلام الا ھو معناہ بانہ لا یعلھا احد بذاتہ الا ھو لکن قد یعلم بہ با علام اللہ فان ثم من یعلمھا وقد وجدنا ذلک بغیر واحد کما رءینا جماعۃ علموا امتی یموتون وعلموا ما فی الارحام ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا ”الا ھو“ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ ان کو اپنے آپ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن کبھی اللہ کے بتانے سے جان لیتے ہیں کیونکہ یہان یہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں ہم نے متعدد کو ایسا پایا جیسے ہم نے ایک جماعت کو دیکا کہ وہ جان لیتے ہیں کہ کب مرینگے اور جانتے ہیں شکم کے بچے کو ۔
یہی علامہ جلال الدین سیوطی خصائص شریف میں فرماتے ہیں : عرض علیہ ما ھو کائن فی امتہ حتٰی تقوم الساعۃ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام وہ چیزیں پیش کر دی گئیں جو آپ کی امت میں قیامت تک ہونے والی ہیں ۔

علامہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ شرح قصیدہ بردہ صفحہ 74 میں فرماتے ہیں : لم یخرج النبی علیہ السلام من الدنیا الا بعد اب اعلمہ اللہ بھذہ الامور الخمسۃ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے تشریف نہ لے گئے مگر اس کے بعد کہ اللہ نے آپ کو پانچوں چیزوں کا علم بتا دیا ۔

جمع النہایہ میں علامہ شبوائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قد ورد ان اللہ تعالٰی یخرج النبی علیہ السلام حتٰی اطلعہ اللہ علٰٰ کل شئی ۔
ترجمہ : یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا سے خارج نہ کیا یہاں تک کہ ہر چیز پر مطلع کر دیا ۔

فتوحات وہیبہ شرح اربعین نووی میں فاضل ابن عطیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الحق کما جمع ان اللہ لم یقض نبینا علیہ السلام حتٰی اطلعہ علٰی کم ما ابھم عنہ الا انہ امر بکتم بعض والاعلام ببعض ۔
ترجمہ : حق وہ ہی ہے جو ایک جماعت نے کہا ہے کہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفات نہد ی یہانتک کہ پوشیدہ چیزو ں پر خبردار کر دیا لیکن بعض کے چھپانے اور بعض کے بتانیکا حکم دیا ۔

قرآن مجید میں ہے کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق کی بشارت دی اور حضرت سارہ کے پٹ میں لڑکے کی خبر دی :
قالوا لاتخف وبشروہ بغلم علیم ۔ (سورہ الذاریات : 28)
ترجمہ : تو اپنے جی میں ان سے ڈرنے لگا وہ بولے ڈریئے نہیں اور اسے ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی ۔
اس بشارت کا ذکر سورہ الحجر : 53 میں بھی ہے : انہوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں ۔

اسی طرح فرشتوں نے حضرت زکریا علیہ السّلام کو حضرت یحیی علیہ السّلام کی بشارت دی قرآن مجید میں ہے : فنادتہ الملئکة وھو قآئم یصلی فی المحراب ان الله یبسرک بیحی ۔ (آل عمران : 39)
ترجمہ : تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کےلیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے ۔

اور حضرت جبریل علیہ السّلام نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو پاکیزہ لڑکے کی بشارت دی اور انہوں نے یہ خبر دی کہ ان کے پیٹ میں کیا ہے : قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلما زکیا ۔ (مریم : 19)
ترجمہ : بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں ، کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں ۔

اور فرشتوں کو بتلا دیا جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی اور فرشتے ماں کے پیٹ میں لکھ دیتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ کہتا ہے اے رب ! یہ نطفہ ہے ، اے رب ! یہ جما ہوا خون ہے ، اے رب ! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے ، پھر جب اللہ اس کی تخلیق کا ارادہ فرماتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے یہ مذکر ہے یا مؤنث ؟ یہ بدبخت ہے یا نیک بخت ؟ اس کا رزق کتنا ہے ؟ اس کی مدت حیات کتنی ہے ‘ پھر وہ ماں کے پیٹ میں لکھ دیتا ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٣١٨،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٤٦)

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی کہ حضرت سیدتنا فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں حسن پیدا ہوں گے : قابوس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یارسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہمارے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء میں سے ایک عضو ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے اچھا خواب دیکھا ہے ، عنقریب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور تم اس کو دودھ پلاٶں گی ، پھر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں حضرت حسین یا حضرت حسن رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے اور انہوں نے حضرت قسم بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کو دودھ پلایا ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٢٣،چشتی)(مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث : ٦١٨٠)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی پیٹ کی خبردی کہ ان کی بنت خارجہ سے ایک بیٹی پیدا ہونے والی ہے : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے غابہ کے مال سے بیس وسق کھجوریں عطا فرمائیں ، پھر جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا : اے بیٹی ! مجھے اپنے بعد تمام لوگوں کی بہ نسبت تمہارا خوش حال ہونا سب سے زیادہ پسند ہے ، اور اپنے بعد تمہارا تنگ دست ہونا مجھ پر سب سے زیادہ شاق ہے ، اور میں نے تم کو درخت پر لگی ہوئی کھجوروں میں سے بیس وسق کھجوریں دی تھی ، اگر تم ان کھجوروں کا اندازہ کرکے درختوں سے توڑ لیتیں تو وہ تمہاری ہوجاتیں ، اب آج کے دن وہ وارث کا مال ہے ، (وفات کے وقت) اور اب تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ، اب تم اس مال کو کتاب الله کے مطابق تقسیم کرلینا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا : اے میرے اباجان ! اگر یہ مال اس سے بہت زیادہ بھی ہوتا تو میں اس کو چھوڑ دیتی مگر میری بہن تو صرف ایک ہے ‘ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ہیں تو دوسری بہن کون سی ہیں ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ ان کی زوجہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوں گی ۔ (موطاء امام مالک رقم الحدیث : ١٥٠٣)(تنویر الحوالک صفحہ ٥٦٠)(القبس جلد ٣ صفحہ ٤٧٠)

انجاح الحاجہ حاشیہ ابن ماجہ باب اشراط الساعتہ زیر حدیچ “ خمس لا یعلمھن الا اللہ“ ہے : اخبر الصدیق زوجتہ بنت خارضۃ انھا حاملۃ بنت فولدت بعد وفاتہ ام کلثوم بنت ابی بکر فھذا من الفراسۃ والظن ویصدق اللہ فراسۃ المؤمن ۔
ترجمہ : حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی بنت خارجہ کو خبر دی کہ وہ بیٹی سے حاملہ ہیں ۔ لہٰذا صدیق کی قفات کے بعد ام کلثوم بنت صدیق پیدا ہوئیں پس یہ فراست اور ظن ہے خدا تعالٰی مومن کی فراست کو سچا کر دیتا ہے ۔

علامہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ١١٢٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے گمان کے مطابق ان کی زوجہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہا سے ایک لڑکی پیدا ہوئی اس کا نام ام کلثوم تھا ۔ (شرح الزرقانی علی الموطاء جلد ٤ صفحہ ٦١)

حافظ ابو عمر ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٦٣ ھ نے بھی لکھا ہے کہ بنت خارجہ ان کی زوجہ تھی اس سے ایک لڑکی ام کلثوم پیدا ہوئی ۔ (الاستذکار جلد ٢٢ صفحہ ٢٩٨ مطبوعہ دارقنبیہ بیروت ١٤١٤ ھ،چشتی)

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بستان المحدثین صفحہ 114 میں فرماتے ہیں : نقل مہ کند کہ والد شیخ ابن حجر را فرزاند نمی زیست کبیدہ خاطر بحضور شیخ فرمود کہ از مشت تو فرزند مے خواہد آمد کہ بعلم خود دنیا را پر کند ۔
ترجمہ : نقل ہے کہ شیخ ابن حجر کے والد کا کوئی بچہ نہ جیتا تھا ۔ ملول دل ہو کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے شیخ نے فرمایا کہ تمھاری مشت سے ایسا فرزند ہو گا کہ اپنے علم سے دنیا کو بھر دے گا ۔

اس کی عقلی دلیل یہ ہے کہ مخالفین بھی مانتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کا علم تمام مخلوق سے زیادہ ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مخلوق میں سے کسی کو ان پانچ چیزوں کا علم دیا گیا یا نہیں ۔ مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے کہ شکم مادر میں بچہ بننے کا ذکر فرماتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا : ثم یبعث اللہ الیہ ملکا باربع کلمت فیکتب عملہ واجلہ ورزقہ وشقی او سعید ثم ینفخ فیہ الروح ۔
ترجمہ : یعنی پھر رب تعالٰٰی ایک فرشتہ کو چار باتیں بتا کر بھیجتا ہے وہ فرشتہ لکھ جاتا ہے اس کا علم اس کی موت اس کا رزق اور یہ کہ نیک بخت ہے یا بد بخت پھر روح پھونکی جاتی ہے ۔

یہ ہی علوم خمسہ ہیں اور تمام موجودہ اور گذشتہ لوگوں کی یہ پانچ باتیں وہ فرشتہ کاتب تقدیر جانتا ہے ۔

مشکوٰۃ اسی باب میں ہے : کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السٰمٰوت والارض بخمسین الف سنۃ ۔
ترجمہ : اللہ نے زمین و آسمان کی پیدایش سے بچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھ دیں ۔

معلوم ہوا کہ لوح محفوظ میں علومِ خمسہ ہیں ۔ تو وہ ملائکہ جو لوح محفوظ پر مقرر ہیں اسی طرح انبیاء و اولیاء جن کی نظر لوح محفوظ پر رہتی ہے ان کو یہ علوم خمسہ حاصل ہوئے ۔ مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے کہ میثاق کے دن حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اولاد آدم کی روحیں سیاہ و سفید رنگ میں دکھا دی گئیں کہ سیاہ روحیں کافروں کی ہیں سفید مسلمانوں کی ۔ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس طرح دیکھا کہ ان کے داہنے جانب سفید اور بائیں جانب سیاہ رنگ کی ارواح ہیں یعنی جنتی وہ دوذخی لوگ مومنوں کو دیک کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کو ملاحظہ فرما کر غمگین ۔ اسی مشکوٰۃ کتاب الایمان بالقدر میں ہے ۔ کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں میں دو کتابیں لیے ہوئے مجمع صحابہ میں تشریف لائے ۔ اور داہنے ہاتھ کی کتاب کے بارے میں فرمایا کہ نام بمع ان کے قبائل کے ہیں ۔ اور آخر میں ان ناموں کا ٹوٹل بھی لگا دیا گیا ہے ۔ کہ کل کتنے ۔
اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری نے مرقات میں فرمایا : الظاہر من الاشارات انھما حسیان وقیل تمثیل ۔
ترجمہ : اشارہ سے یہ ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کتابیں دیکھنے میں آرہی تھیں ۔

اسی مشکوٰۃ باب عذاب القبر میں ہے کہ جو مردہ نکیرین کے امتحا ن میں کامیاب یا ناکام ہو تا ہے تو نکیرین کہتے ہیں ۔ ”قد کنا نعلم انک تقول ھذا“ ہم تو پہلے سے ہی جانتے تھے کہ تو یہ کہے گا ۔

معلوم ہوا کہ نکیرین کو امتحان میت سے پہلے ہی سعادت اور شقاوت کا علم ہوتا ہے ۔ امتحان تو فقط پابندی قانون یا معترض کا منہ بند کرنے کو ہوتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ جب کسی صالح آدمی کی بیوی اس سےلڑتی ہے تو جنت سے حور پکارتی ہے کہ یہ تیرے پاس چند دن کا مہمان ہے ۔ پھر ھمارے پاس آنیوالا ہےاس سے جھگڑا نہ کر مشکوٰۃ کتاب النکاح فی عشرۃ النساء معلوم ہوا کہ حور کو بھی خبر ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہو گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک دب پہلے زمین پر نشان لگا کر فرمایا کہ یہاں فلاں کافر مرے گا اور یہاں فلاں ۔ موت کی زمین کا علم ہوا ۔ (مشکوٰۃ کتاب الجہاد)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وحق آنست کہ در آیت دلیلے نیست بر آنکہ حق تعالی مطلع نگر دانیدہ است حبیب خود راصلے الله وسلم برماھیت روح بلکہ احتمال دارد کہ مطلع گردانیدہ باشد وامر نکرد اور کہ مطلع گرداند ایں قوم راو بعضی از علماء در علم ساعت نیز ایں معنی گفتہ اندالی ان قال ولے گوید بندہ مسکین خصہ الله بنور العلم والیقین وچگونه جرات کند مومن عارف کہ نفی علم به حقیقت روح سیدالمرسلین وامام العارفین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کند و دادہ است اور احق سبحانہ علم ذات وصفات خود و فتح کردہ بروے فتح مبین از علوم اولین واخرین روح انسانی چہ باشد کہ در جنب حقیقت جامعہ وے قطرہ ایست از دریائے ذرہ از بیضائے فافھم وباللہ التوفیق ۔ (مدارج النبوۃ جلد ٢ صفحہ ٤٠،چشتی)
ترجمہ : حق یہ ہے کہ قرآن کی آیت میں اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ حق تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روح کی حقیقت پر مطلع نہیں کیا بلکہ جائز ہے کہ مطلع کیا ہو اور لوگوں کو بتلانے کا حکم آپ کو نہ دیا ہو۔ اور بعض علماء نے علم قیامت کے بارے میں بھی یہی قول کیا ہے ‘ اور بندہ مسکین (اللہ اس کو نور علم اور یقین کے ساتھ خاص فرمائے) یہ کہتا ہے کہ کوئی مومن عارف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روح کے علم کی کیسے نفی کرسکتا ہے وہ جو سید المرسلین اور امام العارفین ہیں ‘ جن کو الله تعالی نے اپنی ذات اور صفات کا علم عطا فرمایا ہے اور تمام اولین اور آخرین کے علوم آپ کو عطا کیے ‘ ان کے سامنے روح کے علم کی کیا حیثیت ہے۔ آپ کے علم کے سمندر کے سامنے روح کے علم کی ایک قطرہ سے زیادہ کیا حقیقت ہے ۔

سید عبدالعزیز دباغ عارف کامل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وکیف یخفی امر الخمس علیه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والواحد من اھل التصرف من امته الشریفة لا یمکنه التصرف الا بمعرفة ھذہ الخمس ۔ (الابریز صفحہ ٤٨٣)
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان پانچ چیزوں کا علم کیسے مخفی ہوگا حالانکہ آپ کی امت شریفہ میں سے کوئی شخص اس وقت تک صاحب تصرف نہیں ہوسکتا جب تک اس کو ان پانچ چیزوں کی معرفت نہ ہو ۔

علامہ احمد قسطلانی شافعی متوفی ٩١١ ھ تحریر فرماتے ہیں : لایعلم متی تقوم الساعة الا الله الا من ارتضی من رسول فانہ یطلعہ علی من یشاء من غیبہ والو لی تابع له یا خذ عنه ۔
ترجمہ : کوئی غیر خدا نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی سوا اس کے پسندیدہ رسولوں کے کہ انہیں اپنے جس غیب پر چاہے اطلاع دے دیتا ہے ۔ (یعنی وقت قیامت کا علم بھی ان پر بند نہیں) رہے اولیاء وہ رسولوں کے تابع ہیں ان سے علم حاصل کرتے ہیں ۔ (ارشاد الساری جلد ٧ صفحہ ١٧٨)

کون کب اور کہاں مرے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے ہیں : ⏬

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جنگ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا کہ:یہ فلاں کافر کے مر نے کی جگہ ہے {یہ کہتے جاتے تھے} اور اپنے ہاتھ مبارک کو زمین پر اِدھر اُدھر رکھتے تھے ، پھر کوئی کافر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتا ئی ہو ئی جگہ سے ذرّا برابر بھی اِدھر اُ دھر نہیں مرا ۔ (صحیح مسلم مترجم جلد دوم صفحہ نمبر 671)(صحیح مسلم،کتاب الجھاد والسیر،باب غزوۃ بدر حدیث : ۱۷۷۹،چشتی)(سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٧٣)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بھی معلوم تھا کہ کون کب اور کہاں مرے گا ۔ اور یہ بات غیب کی ہے ۔ لہٰذا اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم غیب واضح طر یقے سے ثا بت ہوا ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر سے آئے جب مدینہ شر یف کے قر یب پہونچے تو بڑے زور کی آندھی چلی یہاں تک کہ سوار زمین میں دھنسنے کے قر یب ہو گیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا کہ : یہ آندھی ایک منافق کی موت کےلیے بھیجی گئی ہے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ شر یف پہونچے تو منافقوں میں سے ایک بڑا منافق مر چکا تھا ۔ (صحیح مسلم کتاب صفات المنا فقین و احکامھم حدیث نمبر : ۲۷۸۲،چشتی)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ شر یف میں قدم رکھنے سے پہلے ہی ایک منافق کے مرنے کی خبر دے دی اور یہ خبر بالکل صحیح ثابت ہو ئی یہی تو علم غیب ہے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ : حضرت زید ، حضرت جعفر اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہم سے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے شہید ہو جانے کی خبر لوگوں کو بتا دیا تھا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا کہ : اب جھنڈا زید نے سنبھا لا ہے لیکن وہ شہید ہو گئے ۔ اب جھنڈا جعفر نے سنبھال لیا ہے ، اوروہ بھی شہید ہو گئے ۔ اب ابنِ رواحہ نے جھنڈا لیا ہے لیکن وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بیان فر ما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک سے آنسو کے قطرے ٹپک ر ہے تھے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا کہ : اب جھنڈا اللہ کی تلواروں میں ایک تلوار {خالد بن ولید} نے سنبھالا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو کافروں پر فتح عطا فر مائی ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ موتہ من ارض الشام حدیث : ۴۲۶۲)

یہ جنگ ملک شام میں لڑی گئی اور مجا ہدین اسلام سے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ شر یف میں رہتے ہوئے وہاں کی ساری باتیں یہاں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیان کر دیا ۔ اور کسی صحابی نے اِس پر اعترا ض بھی نہ کیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ مدینہ شر یف میں رہتے ہو ئے ملک شام میں ہو نے والے واقعے کے بارے میں کیسے خبر دے رہے ہیں ؟ معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی یہ مانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں کے سامنے کوئی چیز آڑ نہیں بن سکتی اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نگا ہوں کے سامنے ہو نے والے واقعات کو دیکھتے ہیں اُسی طر ح دور دراز مقامات پر ہو نے والے واقعات کو بھی بغیر کسی ظا ہری ذریعے کے دیکھتے اور جانتے ہیں یہی تو غیب کا جاننا ہے ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ ایک چٹیل میدان سے گزرے تو ایک مرا ہوا سانپ دیکھ کر فرمایا اس کو دفن کرنا مجھ پر لازم ہے پھر سانپ کو اٹھا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر اسے دفن کردیا تو اچانک کسی نے آواز دی اے سرق تم پہ اللہ کی رحمت ہے مگر کوئی نظر نہ آیا تو حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ فرمایا تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں ایک جن ہوں اور ( جسے دفن کیا ) وہ سرق ( جن ) ہے اور جنوں میں میرے اور اس کے علاوہ کوئی باقی نہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا کہ اے سرق تم چٹیل میدان میں مروگے اور تمہیں میرا بہترین امتی دفن کریگا ۔ (دلائل النبوت جلد 6 صفحہ 493)(البدایہ والنہایہ ابن کثیر جلد 6 صفحہ 234)

اس روایت سے معلوم ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جانتے ہیں کہ کون کب اور کہاں مرے گا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی جانتے ہیں کہ مرنے والے کو کون دفن کرے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جانتے ہیں کہ پوری امت میں کون نیک بخت ہے اور کون بد بخت ہے ۔

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات نے عرض کی کہ ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے گا ( یعنی موت کے بعد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جس کا ہاتھ سب سے لمبا ہو تو انہوں نے ایک زکل (لکڑی کو ) لیا اور اس کے ساتھ اپنے ہاتھوں کی پیمائش کی تو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ سب سے لمبا تھا تو بعد میں ہمیں پتا چلا کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقہ کرنا ہے اور حضرت زینب رضی ا للہ تعالیٰ عنہا سب سے پہلے ملنے والی تھیں اور انہیں صدقہ کرنے سے بڑی محبت تھی ۔ (صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ١٩١،چشتی)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو اپنے اسی مرض میں بلا یا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کچھ سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر بلایا پھر سرگوشی فرمائی تو وہ ہنس پڑیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے ان سے سرگوشی کے متعلق پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس مرض میں وصال ہوجائے گا میں یہ سنکر روپڑی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے خبر دی کہ اہل بیت میں سب سے پہلے میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے آؤں گی پس میں ہنس پڑی ۔ (صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ٥٣٢)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ابو بکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ لرزنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اثبت احد فانما علیک نبی و صدیق و شھیدان ،، یعنی اے احد ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔ (صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ٥١٩)

حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے قید کے ایک ساتھی سے فرمایا تھا تمہیں سولی دی جائے گی ۔ (یوسف : ٤١) ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ آپ نے بتادیا کہ تمہیں پھانسی کے تختہ پر موت آئے گی، اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس کے مرنے کی جگہ کا علم تھا ۔

نیز حضرت عزرائیل (علیہ السلام) انسانوں کی روح قبض کرتے ہیں سو ان کو علم ہوتا ہے کہ انہوں نے کس شخص کی روح کس جگہ قبض کرنی ہے ۔

علامہ محمود بن عمر زمخشری خوارزمی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٥٣٨ ھ لکھتے ہیں : روایت ہے کہ ملک الموت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے ، ان کی مجلس میں ایک شخص بیٹھے ہوئے تھے وہ ان میں سے ایک شخص کو گھور گھور کر دیکھ رہے تھے ، اس شخص نے حضرت سلیمان سے پوچھا یہ شخص کون ہے ؟ انہوں نے کہا یہ ملک الموت ہے ، اس نے کہا لگتا ہے کہ یہ میری روح قبض کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ آپ ہوا کو حکم دیں کہ وہ مجھے اڑا کرلے جائے اور ہندوستان کے کسی شہر میں پہنچا دے ، حضرت سلیمان نے ایسا کردیا ، پھر ملک الموت نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کہا جو اس شخص کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اس پر تعجب تھا کہ مجھے ہندوستان کے ایک شہر میں اس کی روح قبض کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور وہ یہاں آپ کے پاس موجود تھا ۔ (الکشاف جلد ٣ صفحہ ٥١٢ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٧ھ)(علامہ ابو البرکات نسفی متوفی ٧١٠ ھ ، علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ اور شیخ قنوجی علیہم الرّحمہ متوفی ١٣٠٧ ھ نے بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے)(مدارک علی ھامش الخازن جلد ٣ صفحہ ٤٧٤،چشتی)(روح المعانی جز ٢١ صفحہ ١٧٠)(فتح البیان جلد ٥ صفحہ ٣١٢)

مشہور دیوبندی مولوی عاشق الہٰی میرٹھی لکھتے ہیں : جن دنوں نواب محمود علی خاں صاحب مرحوم رئیس چہتاری جن کےساتھ اخلاص و ارادت کے سبب حضرت کو بھی تعلق تھا علیل ہوئے اور مدہوشی طاری ہوئی سب کو زندگی سے یاس (بے امیدی) ہوگئی اس وقت ایک شخص چہتاری سے صرف گنگوہ بھیجے گئے کہ نواب صاحب کےلیے حضرت سے دعا کرائیں چنانچہ وہ آئے اور حضرت سے نواب صاحب کی حالت بیان کر کے دعائے صحت کی درخواست کی آپ نے حاضرین جلسہ سے فرمایا بھائی دعا کرو چونکہ حضرت نے دعا کا وعدہ نہیں فرمایا اس لئے فکر ہوا اور عرض کیا گیا کہ حضرت آپ دعا فرمادیں اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا امر مقرر کر دیا گیا ہے اور ان کی زندگی کے چند روز باقی ہیں حضرت کے اس ارشاد پر اب کسی عرض معروض کی گنجائش نہ رہی اور نواب صاحب کی حیات سے سب کو ناامیدی ہوگئی تاہم قاصد نے عرض کیا کہ حضرت یوں ہی دعا فرمادیجئے کہ نواب صاحب کو ہوش آجائے اور وصیت و انتظام ریاست کےمتعلق جو کچھ کہنا سننا ہو کہہ سن لیں آپ نے فرمایا خیر اس کا مضائقہ نہیں اس کے بعد دعا فرمائی اور یوں ارشاد فرمایا ان شاء اللہ افاقہ ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نواب صاحب کو دفعۃً ہوش آگیا اور ایسا افاقہ ہوا کہ عافیت و صحت کی خوش خبری دور دور تک پہنچ گئی کسی کو خیال بھی نہ رہا کہ کیا ہونے والا ہے یکا یک حالت بگڑی اور مخیر دریا دل نیک نفس سخی رئیس نے انتقال بہ آخرت فرمایا ۔ (تذکرۃ الرشید صفحہ 208 ، 209 جلد 2 )

حضرت مولانا صادق الیقین صاحب رحمة اللہ علیہ ایک بار سخت علیل ہوئے واقفین احباب بھی یہ خبر سن کر پریشان ہو گئے اور حضرت سے عرض کیا دعا فرما دیں حضرت خاموش رہے اور بات کو ٹال دیا جب دوبارہ عرض کیا گیا تو آپ نے تسلی دی اور فرمایا میاں وہ ابھی نہیں مریں گے اور اگرمریں گے تو بھی میرے بعد چنانچہ ایساہی ہوا کہ اس مرض سے صحت حاصل ہوگئی اور حضرت کے وصال کے بعد اسی سال بہ ماہ شوال حج بیت اللہ کےلیے روانہ ہوئے مکہ معظمہ میں بیمار ہوئے مرض ہی میں عرفات کا سفر کیا یہاں تک کہ شروع محرم میں واصل بحق ہو کر جنت المعلیٰ میں مدفون ہوئے ۔ ( تذکرۃالرشید صفحہ 209 جلد 2،چشتی)

مولوی نظر محمد خاں نے ایک مرتبہ پریشان ہو کر عرض کیا کہ حضرت فلاح شخص جو والد صاحب سےعداوت رکھتا تھا ان کے انتقال کے بعد اب مجھ سے ناحق عداوت رکھتا ہے بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا وہ کب تک رہے گا ۔ چند روز گزرے تھے کہ دفعۃ وہ شخص انتقال کر گیا ۔ (تذکرۃ الرشید صفحہ 214 جلد 2)

با ختلاف روایت 8 یا 9 جمادی الثانیہ مطابق 11 اگست 1905 کو بیوم جمعہ بعد اذان یعنی ساڑھے بارہ بجے آپ نے دنیا کو الوداع کہا اور اٹھہتر سال سات ماہ تین یوم کی عمر میں رفیق اعلیٰ کی جانب ہنستے اور مسکراتے ہوئے سد ہارے حضرت امام ربانی قدس سرہ کو چھ روز پہلے ہی جمعہ کا انتظار تھا بیوم شنبہ دریافت فرمایا تھا کہ آج کیا جمعہ کا دن ہے ؟ خدام نے عرض کیا کہ حضرت آج شنبہ ہے اس کے بعد درمیان میں بھی کئی بار یوم جمعہ کو دریافت کیا حتی کہ جمعہ کا دن جس روز وصال ہوا صبح کے وقت پھر دریافت فرمایا کہ کیا دن ہے اور جب معلوم ہوا کہ جمعہ ہے تو فرمایا انا للہ واناالیہ رجعون ۔ ( تذکرۃ ارشید صفحہ 331 جلد 2)

مولوی ریاض احمد فیض آبادی دیوبندی صدر جمیعۃ علمائے میوات مقلد مولوی حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی کے ساتھ اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : میں نے کہا کہ حضرت ان شاء اللہ اختتام سال پر حاضر ہوں گا فرمایا کہہ دیا کہ ملاقات نہیں ہوگی اب تو میدان آخرت ہی میں ان شاء اللہ ملوگے مجمع میرے قریب جو تھا احقر کی معیت میں آبدیدہ ہو گیا حضرت نے فرمایا کہ رونےکی کیا بات ہے کیا مجھے موت نہ آئے گی اس پر احقر نے الحاح کےساتھ کچھ علم غیب اور زیادتی عمر پر بات کرنی چاہی مگر فرط غم کے باعث بول نہ سکا ۔ (روزنامہ الجمعیۃ دھلی کا شخ الاسلام نمبر ص 156،چشتی)

حکیم الامتِ دیوبند مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : حضرت مولانا ظفر حسین صاحب مرحوم مکہ معظمہ میں بیمار ہوئے اور اشتیاق تھا کہ مدینہ منورہ میں وفات ہو حضرت حاجی صاحب (دیوبندیوں کے پیر حاجی امداد اللہ) سے عرض استفسار کیا کہ میری وفات مدینہ میں ہوگی یا نہیں ؟ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ میں کیا جانوں عرض کیا کہ حضرت یہ عذر تو رہنے دیجیے جواب مرحمت فرمائیے حضرت نے مراقب ہو کر فرمایا کہ آپ مدینہ منورہ وفات پائیں گے ۔ (قصص الاکابر صفحہ 106)

تبلیغی نصاب لکھنے والے مشہور دیوبندی مولوی زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں کہ : شیخ ابو یعقوب سنوسی کہتےہیں کہ میرے پاس ایک مرید آیا اور کہنے لگا کہ میں کل کو ظہر کے وقت مر جاؤں گا چنانچہ دوسرے دن ظہر کے وقت مسجد حرام میں آیا طواف کیا اور تھوڑی دور جا کر مر گیا ۔ ( فضائل صدقات صفحہ 563)

ابو علی روزباری رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک فقیر میرے پاس عید کے دن آیا بہت خستہ حال پرانے کپڑے کہنے لگا کوئی پاک و صاف جگہ ایسی ہے جہاں کوئی غریب فقیر مر جائے میں نے لاپرواہی سے لغو سمجھ کر کہہ دیا کہ اندر آجا اور جہاں چاہے پڑ کے مر جا وہ اندر آیا وضو کیا چند رکعات نماز پڑھی ارو لیٹ کر مر گیا ۔ (فضائل صدقات صفحہ 570،چشتی)


قیامت کا علم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⏬

ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ - وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ - وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ - وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ - اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۠ ۔ (سورۃ لقمان آیت نمبر 34)
ترجمہ :  بیشک الله کے پاس ہے قیامت کا علم اور اُتارتا ہے مینہ اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں  کے پیٹ میں  ہے اور کوئی جان نہیں  جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں  جانتی کہ کس زمین میں  مرے گی بیشک الله جاننے والا بتانے والا ہے ۔

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد السّاری شرح بخاری میں فرماتے  ہیں : فمن ادعٰی علم شیئ منہا غیر مسند الٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان کاذبًا دعواہ ۔
ترجمہ : جو کوئی قیامت و غیرہ خمس سے کسی شے کے علم کا اِدعا کرے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت نہ کرے کہ حضور کے بتائے سے مجھے یہ علم آیا ، وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے ۔ (ارشاد السّاری شرح صحیح بخاری)

یہ آیت حارث بن عمرو کے بارے میں  نازل ہوئی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قیامت کا وقت دریافت کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ میں نے کھیتی بوئی ہے ، مجھے خبر دیجیے کہ بارش کب آئے گی ؟ اور میری عورت حاملہ ہے ، مجھے بتائیے کہ اس کے پیٹ میں  کیا ہے ، لڑکا یا لڑکی ؟ نیزیہ تو مجھے معلوم ہے کہ کل میں نے کیا کیا ، البتہ مجھے یہ بتائیے کہ آئندہ کل کو میں کیا کروں گا ؟ نیز میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں کہاں پیدا ہوا ، لیکن مجھے یہ بتائیے کہ میں کہاں مروں گا ؟ اس کے جواب میں  یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۷ صفحہ ۱۰۳۔چشتی)

اس آیت کا آخری ٹکڑا ہے بیشک الله جاننے والا بتانے والا ہے یعنی الله ان پانچ چیزوں کی خبر بھی دیتا ہے ۔

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قال ابن عباس ھذہ الخمسة لایعلمھا الا الله ولا یعلمھا ملک مقرب ولا نبی مرسل فمن ادعی انه یعلم شیئا من ھذہ فقد کفر بالقرآن لانه خالفه ثم ان الانبیاء یعلمون کثیرا من الغیب بتعریف الله تعالی ایاھم والمراد ابطال کون الکہنة والمنجمین ومن یستسقی بالانواء ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ یہ پانچ چیزیں وہ ہیں جنہیں اللہ تعالی کے بغیر کوئی نہیں جانتا حتی کہ کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی نبی مرسل بھی انہیں خود بخود نہیں جان سکتا ۔ جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ ان چیزوں میں سے کوئی چیز خود بخود جانتا ہے ، اس نے قرآن کریم کا انکار کیا کیونکہ اس نے قرآن کریم کی مخالفت کی ۔ انبیاء ان امور غیبہ میں سے بہت کچھ جانتے ہیں ۔ ان کا یہ جاننا اللہ تعالی کی تعلیم اور سکھانے سے ہے ۔ اس آیت سے مراد (انبیاء کے علوم کی نفی نہیں بلکہ) کاہنوں ، نجومیوں اور جو لوگ بارش کے نزول کو مخصوص ستاروں کے طلوع غروب سے وابستہ سمجھتے ہیں، ان کی تردید ہے ۔

قاضی ثناء الله پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : یحصل له علم بتعلیم من الله تعالی بتوسط الرسل او بنصب دلیل علیه ۔ (تفسیر مظہری)
ان امور کے جاننے کی ایک ہی صوت ہے کہ اللہ تعالی ان کا علم سکھا دے ، خواہ رسولوں کے ذریعے سے یا اس پر دلائل قائم کر کے ۔

علامہ ابن کثیر نے ایک فقرے میں ہی ساری الجھنوں کا خاتمہ کر دیا۔ لکھتے ہیں : ھذہ مفاتیح الغیب التی استاثر الله تعالی بعلمہا ولا یعلمھا احد الا بعد اعلامه تعالی بھا ۔ (تفسیر ابن کثیر)
ترجمہ : یہ امور خمسہ مفاتیح الغیب (غیب کی کنجیاں) ہیں جنہیں الله تعالی نے اپنے علم کے ساتھ مختص کرلیا ہے، پس انہیں کوئی نہیں جان سکتا ۔ سوائے اس بات کے کہ الله تعالی اس کا علم سکھا دے ۔

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری شرح بخاری میں علامہ قرطبی کا یہ قول نقل کیا ہے : من ادعی علم شیء من الخمس غیر مسندہ الی رسول کان کاذبا فی دعوہ ۔
ترجمہ : اگر کوئی شخص ان پانچ امور میں سے کسی کے جاننے کا دعوی کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے یہ علم حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کے واسطہ سے ملا ہے تو وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہوگا ۔

علامہ صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال العلماء الحق انه لم یخرج نبینا من الدنیا حتی اطلعه الله علی تلک الخمس ولکنه امرہ بکتمھا ۔ (تفسیر صاوی جلد ٣ صفحہ ٢١٥۔چشتی)
ترجمہ : علماء کرام نے فرمایا کہ حق بات یہ ہے کہ رسول صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم نے دنیا سے اس وقت تک وفات نہیں پائی ‘ جب تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو ہر اس چیز کا علم نہیں دے دیا جس کا علم دینا ممکن تھا ۔ (تفسیر روح المعانی جلد ١٥ صفحہ ١٥٤)

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : عالم الغیب فلا یظھر علی غیبه المخصوص وھو قیام القیامة احداثم قال بعدہ لکن من ارتضی من رسول ۔ (تفسیر کبیر جلد ١٠ صفحہ ٦٧٨)

اللہ تعالی عالم الغیب ہے وہ اپنے مخصوص غیب یعنی قیامت قائم ہونے کے وقت پر کسی کو مطلع نہیں فرمایا ‘ البتہ ان کو مطلع فرماتا ہے جن سے وہ راضی ہوتا ہے اور وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ علامہ علاؤ الدین خازن نے بھی یہی تفسیر کی ہے ۔ (تفسیر خازن جلد ٤ صفحہ ٣١٩)

علامہ تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : والجواب ان الغیب ھھنا لیس للعموم بل مطلق اومعین ھو وقت وقوع القیمة بقرینة السیاق ولا یبعدان یطلع علیه بعض الرسل من المئکة او البشر ۔ (شرح المقاصد جلد ٥ صفحہ ٦ طبع ایران،چشتی)
ترجمہ : اور جواب یہ ہے کہ یہاں غیب عموم کے لیے نہیں ہے بلکہ مطلق ہے یا اس سے غیب خاص مراد ہے یعنی وقت وقوع قیامت ‘ اور آیات کے سلسلہ ربط سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے اور یہ بات مستبعد نہیں ہے کہ الله تعالی بعض رسولوں کو وقت وقوع قیامت پر مطلع فرمائے خواہ رسل ملائکہ ہوں یا رسل بشر ۔

علامہ حسن بن علی مدابغی رحمۃ اللہ علیہ حاشیه فتح المبین امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور فاضل ابن عطیه رحمۃ اللہ علیہ فتوحات وہبیہه شرح اربعین امام نووی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم قیامت عطا ہونے کے باب میں فرماتے ہیں : الحق کما قال جمع ان ﷲ سبحٰنه وتعالٰی لم یقبض نبینا صلی اللہ تعالٰی علیه وسلم حتی اطلعه علی کل ما ابھمه عنہ الا انه امر بکتم بعض والا علام ببعض ۔
ترجمہ : حق مذہب وہ ہے جو ایک جماعت علماء نے فرمایا کہ اللہ عز و جل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا سے نہ لے گیا یہاں تک کہ جو کچھ حضور سے مخفی رہا تھا اس سب کا علم حضور کو عطا فرمادیا، ہاں بعض علوم کی بنسبت حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کو حکم دیا کہ کسی کو نہ بتائے اور بعض کے بتانے کا حکم کیا ۔

روض النضیر شرح جامع صغیر امام کبیر جلال الملتہ والدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث کے متعلق ہے : اما قوله صلی الله تعالٰی علیہ وسلم الا ھو ففسر بانه لا یعلمہا احد بذاته و من ذاته الا ھو لکن قد تعلم باعلام ﷲ تعالٰی فان ثمہ من یعلمھا وقد وجدنا ذٰلک لغیر واحد کما راینا جماعته علموامتی یموتون و علموا مافی الارحام حال حمل المرأۃ وقبله ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جو فرمایا کہ ان پانچویں غیبوں کو ﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا اس کے یہ معنی ہیں کہ بذاتِ خود اپنی ذات سے انہیں ﷲ ہی جانتا ہے مگر خدا کے بتائے سے کبھی ان کو بھی ان کا علم ملتا ہے بے شک یہاں ایسے موجود ہیں جو ان غیبوں کو جانتے ہیں اور ہم نے متعدد اشخاص ان کے جاننے والے پائے ایک جماعت کو ہم نے دیکھا کہ ان کو معلوم تھا کب مریں گے اور انہوں نے عورت کے حمل کے زمانے میں بلکہ حمل سے بھی پہلے جان لیا کہ پیٹ میں کیا ہے ۔ (روض النضیر شرح الجامع الصغیر)

علامہ عشماوی رحمۃ اللہ علیہ کتاب مستطاب عجب العجاب شرح صلاۃ سیّدی احمد بدوی رحمۃ اللہ علیہ میں فرماتے ہیں : قیل انه صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اوتی علمہا (ای الخمس) فی اٰخرالامرلکنه امرفیہابالکتمان وھٰذا القیل ھوالصحیح ۔
ترجمہ : کہا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخر میں ان پانچوں غیبوں کا بھی علم عطا ہو گیا مکر ان کے چھپانے کا حکم تھا ، اور یہی قول صحیح ہے ۔ (عجب العجاب شرح صلٰوۃ سید احمد کبیر بدوی)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وحق آنست کہ در آیت دلیلے نیست بر آنکہ حق تعالی مطلع نگر دانیدہ است حبیب خود راصلے الله وسلم برماھیت روح بلکہ احتمال دارد کہ مطلع گردانیدہ باشد وامر نکرد اور کہ مطلع گرداند ایں قوم راو بعضی از علماء در علم ساعت نیز ایں معنی گفتہ اندالی ان قال ولے گوید بندہ مسکین خصہ الله بنور العلم والیقین وچگونه جرات کند مومن عارف کہ نفی علم به حقیقت روح سیدالمرسلین وامام العارفین صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلّم کند و دادہ است اور احق سبحانہ علم ذات وصفات خود و فتح کردہ بروے فتح مبین از علوم اولین واخرین روح انسانی چہ باشد کہ در جنب حقیقت جامعہ وے قطرہ ایست از دریائے ذرہ از بیضائے فافھم وباللہ التوفیق ۔ (مدارج النبوۃ جلد ٢ صفحہ ٤٠،چشتی)
ترجمہ : حق یہ ہے کہ قرآن کی آیت میں اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ حق تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روح کی حقیقت پر مطلع نہیں کیا بلکہ جائز ہے کہ مطلع کیا ہو اور لوگوں کو بتلانے کا حکم آپ کو نہ دیا ہو ۔ اور بعض علماء نے علم قیامت کے بارے میں بھی یہی قول کیا ہے ‘ اور بندہ مسکین (اللہ اس کو نور علم اور یقین کے ساتھ خاص فرمائے) یہ کہتا ہے کہ کوئی مومن عارف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روح کے علم کی کیسے نفی کرسکتا ہے وہ جو سید المرسلین اور امام العارفین ہیں ‘ جن کو الله تعالی نے اپنی ذات اور صفات کا علم عطا فرمایا ہے اور تمام اولین اور آخرین کے علوم آپ کو عطا کیے ‘ ان کے سامنے روح کے علم کی کیا حیثیت ہے۔ آپ کے علم کے سمندر کے سامنے روح کے علم کی ایک قطرہ سے زیادہ کیا حقیقت ہے ۔

سید عبدالعزیز دباغ عارف کامل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وکیف یخفی امر الخمس علیه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والواحد من اھل التصرف من امته الشریفة لا یمکنه التصرف الا بمعرفة ھذہ الخمس ۔ (الابریز صفحہ ٤٨٣،چشتی)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان پانچ چیزوں کا علم کیسے مخفی ہوگا حالانکہ آپ کی امت شریفہ میں سے کوئی شخص اس وقت تک صاحب تصرف نہیں ہوسکتا جب تک اس کو ان پانچ چیزوں کی معرفت نہ ہو ۔

علامہ احمد قسطلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٩١١ ھ تحریر فرماتے ہیں : لایعلم متی تقوم الساعة الا الله الا من ارتضی من رسول فانہ یطلعہ علی من یشاء من غیبہ والو لی تابع له یا خذ عنه ۔
ترجمہ : کوئی غیر خدا نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی سوا اس کے پسندیدہ رسولوں کے کہ انہیں اپنے جس غیب پر چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔ (یعنی وقت قیامت کا علم بھی ان پر بند نہیں) رہے اولیاء وہ رسولوں کے تابع ہیں ان سے علم حاصل کرتے ہیں ۔ (ارشاد الساری جلد ٧ صفحہ ١٧٨)

علامہ بیجوری رحمۃ اللہ علیہ شرح بردہ شریف میں فرماتے ہیں : لم یخرج صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الدنیا الا بعد ان اعلمه الله تعالی بھذہ الامورای الخمسه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے تشریف نہ لے گئے مگر بعد اس کے کہ الله تعالی نے حضور کو ان پانچوں غیبوں کا علم دے دیا ۔

علامہ شنوانی نے جمع النہایہ میں اسے بطور حدیث بیان کیا ہے کہ : قدوردان الله تعالی لم یخرج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی اطعه علی کل شیٔ ۔
ترجمہ : بیشک وارد ہوا کہ الله تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا سے نہ لے گیا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام اشیاء کا علم عطا نہ فرمایا ۔

ابوالعزم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ شیراز میں بیمار ہو گئے انہوں نے کہا کہ میں نے الله تعالی سے طرطوس میں موت کی دعا ہے اگر بالفرض شیراز میں مر گیا تو مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کر دینا ۔ (یعنی ان کو یقین تھا کہ ان کی موت طرطوس میں آئے گی) وہ تندرست ہو گئے اور بعد میں طرطوس میں ان کی وفات ہوئی ، اور میرے شیخ نے بیس سال پہلے اپنی موت کا وقت بتادیا تھا اور وہ اپنے بتائے ہوئے وقت پر فوت ہوئے تھے ۔ (تفسیر روح البیان جلد ٧ صفحہ ١٠٥ ۔ ١٠٣)

اس آیت میں  پانچ چیزوں  کے علم کی خصوصیت الله تعالیٰ کے ساتھ بیان فرمائی گئی اور مخلوق کو علمِ غیب عطا کیے جانے کے بارے میں  سورہِ جن کی آیت نمبر 26 اور 27 میں ارشاد ہوا : عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ (۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ ۔
ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں  دیتا ۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ علم ِغیب آیت میں  مذکور پانچ چیزوں  سے متعلق ہو یا کسی اور چیز کے بارے میں ، ذاتی طور پر الله تعالیٰ ہی جانتا ہے جبکہ الله تعالیٰ کے بتا دینے سے مخلوق بھی غیب جان سکتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ ذاتی علم غیب الله تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور انبیاء ِکرام علیہم السلام ، اور اولیاءِ عظام علیہم الرحمہ کو غیب کا علم الله تعالیٰ کے بتانے سے معجزہ اور کرامت کے طور پر عطا ہوتا ہے ، یہ اس اِختصاص کے مُنافی نہیں جو آیت میں بیان ہوا بلکہ اس پر کثیر آیتیں  اور حدیثیں دلالت کرتی ہیں ، بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے اور کل کو کیا کرے گا اور کہاں  مرے گا ان اُمور کی خبریں  اَنبیاءِ کرام علیہم السلام اور اَولیاءِ عظام علیہم الرحمہ نے بکثرت دی ہیں  اور قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرشتوں نے حضرت اسحق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحیٰ علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت مریم رَضِیَ الله عَنْہَا کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیدا ہونے کی خبریں  دیں ، تو ان فرشتوں کو بھی پہلے سے معلوم تھا کہ ان حملوں (حمل کی جمع) میں کیا ہے اور ان حضرات کو بھی جنہیں فرشتوں نے اطلاعیں دی تھیں اور ان سب کا جاننا قرآنِ کریم سے ثابت ہے ، تو اس آیت کے معنی قطعاً یہی ہیں کہ الله تعالیٰ کے بتائے بغیر کوئی نہیں جانتا ۔ اس کے یہ معنی مراد لینا کہ الله تعالیٰ کے بتانے سے بھی کوئی نہیں جانتا ، محض باطل اور صَدہا آیات و اَحادیث کے خلاف ہے ۔

نوٹ : اس آیت اور ا س جیسی دیگر آیات سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کےلیے فتاویٰ رضویہ کی 26 ویں  جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ ’’اَلصَّمْصَامْ عَلٰی مُشَکِّکٍ فِیْ آیَۃِ عُلُوْمِ الْاَرْحَامْ ۔ (علومِ اَرحام سے تعلق رکھنے والی آیتوں سے متعلق کلام) کا مطالعہ فرمائیں ۔

اس آیت کے تحت حضرت صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ عربی کی مشہور و معتمد تفاسیر تفسیر خازن ، تفسیر بیضاوی ، تفسیر احمدی اور تفسیر روح البیان کے حوالے سے اپنی تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں : اس آیت میں جن پانچ چیزوں کے علم کی خصوصیات اللہ تعالٰی کے ساتھ بیان فرمائی گئی انہی کی نسبت سورہ جن میں ارشاد ہوا علم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من الرتضٰی من رسول غرض یہ کہ بغیراللہ کے بتائے ان چیزوں کا علم کسی کو نہیں اور اللہ تعالٰی اپنے محبوبوں میں سے جسے چاہے بتائے اور اپنے پسندیدہ رسولوں کو بتانے کی خبر خود اس نے سورہ جن میں دی ہے ، خلاصہ یہ کہ علم غیب اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے اور انبیاء و اولیاء کو غیب کا علم اللہ تعالٰی کی تعلیم سے بطریق معجزہ و کرامت عطا ہوتا ہے یہ اس اختصاص کے منافی نہیں اور کثیر آیتیں اور حدیثیں اس پر دلالت کرتیں ہیں‌ بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے اور کل کو کیا کرے اور کہاں مرے گا ان امور کی خبریں بکثرت اولیاء و انبیاء نے دی ہیں‌اور قرآن و حدیث‌ سے ثابت ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسحٰق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحیٰی علیہ السلام کے پیدا ہونے کی اور حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پیدا ہونے کی خبریں دیں تو فرشتوں کو بھی پہلے سے معلوم تھا کہ ان حملوں میں کیا ہے اور حضرات کو بھی جنہیں فرشتوں نے اطلاعیں‌ دی تھیں اور ان سب کا جاننا قرآن کریم سے ثابت ہے تو آیت کے معنی قطعاً یہی ہیں‌ کہ بغیر اللہ تعالٰی کے بتائے کوئی نہیں جانتا اور کے یہ معنی لینا کہ اللہ تعالٰی کے بتانے سے بھی کوئی نہیں‌ جانتا محض باطل اور صدہا آیات و احادیث کے خلاف ہے ۔ (‌تفسیر خزائن العرفان صفحہ 746 بحوالہ خازن بیضاوی ۔ تفسیر احمدی ۔ تفسیر روح البیان)

مذکورہ عبارت سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ سوائے اللہ عزوجل کے ذاتی طور پر کوئی بھی ان علوم کے بارے میں نہیں جانتا لیکن اللہ تعالٰی نے اس آیت کے آخر میں یہ بھی واضح کردیا کہ اللہ تعالٰی جاننے والا بتانے والا ہے یعنی جس کو چاہے اپنے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء علیہم الرّحمہ اور انہیں خبر خبردار کر دے ۔

عوام سے قیامت کا علم مخفی رکھنے کی وجہ : ⏬

بندوں سے قیامت کا علم اور اس کے وقوع کا وقت مخفی رکھنے کا سبب یہ ہے کہ لوگ قیامت سے خوف زدہ اور ڈرتے رہیں کیونکہ جب انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ قیامت کس وقت آئے گی تو وہ اس سے بہت زیادہ ڈریں گے اور ہر وقت گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کوشاں رہیں گے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گناہوں میں مشغول ہوں اور قیامت آجائے ۔ (تفسیر خازن جلد ۲ صفحہ ۱۶۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی تفصیل کے ساتھ قیامت سے پہلے اور اس کے قریب ترین اوقات کے بارے میں تفصیلات بیان فرمائی ہیں جو اس بات کی علامت ہیں کہ اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت کا علم تھا ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی حتّٰی کہ زمانہ جلد جلد گزرنے لگے گا ۔ سال ایک ماہ کی طرح گزرے گا ۔ مہینہ ہفتہ کی طرح گزرے گا ۔ ہفتہ ایک دن کی طرح ، ایک دن ایک گھنٹے کی طرح اور ایک گھنٹہ آگ کی چنگاری کی طرح گزر جائے گا ۔ (سنن ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی تقارب الزمن و قصر الامل جلد ۴ صفحہ ۱۴۸ الحدیث : ۲۳۳۹،چشتی)

حضرت سلامہ بنت حر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ اہلِ مسجد امامت کرنے کےلیے ایک دوسرے سے کہیں گے اور انہیں نماز پڑھنے کےلیے کوئی امام نہ ملے گا ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب فی کراہیۃ التدافع عن الامامۃ جلد ۱ صفحہ ۲۳۹ الحدیث : ۵۸۱)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھایا جائے گا اور جہل کا ظہور ہو گا ، زنا عام ہو گا اور شراب پی جائے گی ، مرد کم ہو جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہوں گی حتّٰی کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہو گا ۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح باب یقلّ الرجال ویکثر النسا جلد ۳ صفحہ ۴۷۲ الحدیث : ۵۲۳۱،چشتی)

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب میری امت پندرہ کاموں کو کرے گی تو اس پر مَصائب کا آنا حلال ہو جائے گا ۔ عرض کی گئی : یا رسولَ اللہ ! وہ کیا کام ہیں ؟ ارشاد فرمایا : جب مالِ غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے گا ، امانت کو مالِ غنیمت بنالیا جائے گا ، زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھ لیا جائے گا ، جب لوگ اپنی بیوی کی اطاعت کریں گے اور اپنی ماں کی نافرمانی کریں گے ، جب دوست کے ساتھ نیکی کریں گے اور باپ کے ساتھ برائی کریں گے ، جب مسجدوں میں آوازیں بلند کی جائیں گی ، ذلیل ترین شخص کو قوم کا سردار بنا دیا جائے گا ، جب کسی شخص کے شر کے ڈر سے اس کی عزت کی جائے گی ، شراب پی جائے گی ، ریشم پہنا جائے گا ، گانے والیاں اور ساز رکھے جائیں گے اور اس امت کے آخری لوگ پہلوں کو برا کہیں گے ۔ اس وقت تم سرخ آندھیوں ، زمین کے دھنسنے اور مَسخ کا انتظار کرنا ۔ (جامع الاصول حرف القاف الکتاب التاسع الباب الاول الفصل الحادی عشر جلد ۱۰ صفحہ ۳۸۴ الحدیث : ۷۹۲۵،چشتی)

حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت ہر گز اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو ، پھر آپ نے دھویں ، دجّال ، دابَّۃُ الارض ، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے ، حضرت عیسیٰ بن مریم کے نزول ، یاجوج ماجوج کا اور تین مرتبہ زمین دھنسنے کا ذکر فرمایا ، ایک مرتبہ مشرق میں ، ایک مرتبہ مغرب میں ، ایک مرتبہ جزیرۂ عرب میں اور سب کے آخر میں ایک آگ ظاہر ہو گی جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ صفحہ ۱۵۵۱ الحدیث : ۳۹ (۲۹۰۱)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ایک طویل روایت کے آخر میں ہے کہ قیامت یومِ عاشوراء یعنی محرم کے مہینہ کی دس تاریخ کو ہو گی ۔ (فضائل الاوقات للبیہقی باب تخصیص یوم عاشوراء بالذکر صفحہ ۱۱۹ الحدیث: ۲۸۲)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہو تا ہے وہ جمعہ کا ہے ،اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے ، اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن جنت سے باہر لائے گئے اور قیامت بھی جمعہ کے دن قائم ہو گی ۔ (صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب فضل یوم الجمعۃ صفحہ ۴۲۵ الحدیث : ۱۸ (۸۵۴)

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی آخری ساعت میں حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی ساعت میں قیامت قائم ہو گی ۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب بدء الخلق جلد ۲ صفحہ ۲۵۰ رقم : ۸۱۱)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کی اس قدر تفصیلی علامات بیان فرمائی ہیں کہ دیگر نشانیوں کے ساتھ ساتھ قیامت کا مہینہ ، دن ، تاریخ اور وہ گھڑی بھی بتا دی کہ جس میں قیامت واقع ہو گی البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں بتایا کہ کس سن میں قیامت واقع ہو گی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر سَن بھی بتا دیتے تو ہمیں معلوم ہو جاتا کہ قیامت آنے میں اب کتنے سال ، کتنے دن اور کتنی گھڑیاں باقی رہ گئی ہیں یوں قیامت کے اچانک آنے کا جو ذکر قرآنِ پاک میں ہے وہ ثابت نہ ہوتا لہٰذا سال نہ بتانا قرآنِ پاک کے صِدق کو قائم رکھنے کےلیے اور اس کے علاوہ بہت کچھ بتا دینا اپنا علم ظاہر کرنے کےلیے ہے ۔


میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا کیا جائے گا منکرین کے فریب کا جواب : ⏬

ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْؕ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ وَ مَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ (سورہ احقاف آیت نمبر 9)
ترجمہ : آپ فرما یجیے میں کوئی انوکھا رسول نہیں اور میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے اور میں نہیں مگر صاف ڈر سنانے والا ۔

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ : آپ فرما یجیے : میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پرنت نئے اعتراضات کرنا کفارِ مکہ کا معمول تھا ، چنانچہ کبھی وہ کہتے کہ کوئی بشر کیسے رسول ہو سکتا ہے ؟ رسول تو کسی فرشتے کو ہونا چاہیے ، کبھی کہتے کہ آپ تو ہماری طرح کھاتے پیتے ہیں ، ہماری طرح بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں ، آپ کیسے رسول ہو سکتے ہیں ؟ کبھی کہتے : آپ کے پاس نہ مال ودولت ہے اورنہ ہی کوئی اثر و رسوخ ہے ۔ ان سب باتوں کاجواب اس آیتِ مبارکہ میں دیا گیا کہ اے پیارے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، آپ ان سے فرما دیں : میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی رسول آ چکے ہیں ، وہ بھی انسان ہی تھے اوروہ بھی کھاتے پیتے تھے اور یہ چیزیں جس طرح ان کی نبوت پر اعتراض کا باعث نہ تھیں اسی طرح میری نبوت پر بھی اعتراض کا باعث نہیں ہیں تو تم ایسے فضول شُبہات کی وجہ سے کیوں نبوت کا انکار کرتے ہو ؟

دوسری تفسیر یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کفارِ مکہ عجیب معجزات دکھانے اور عناد کی وجہ سے غیب کی خبریں دینے کا مطالبہ کیا کرتے تھے ۔ اس پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا کہ آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں کہ میں انسانوں کی طرف پہلا رسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول تشریف لاچکے ہیں اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی وحدانیّت اور عبادت کی طرف بلاتے تھے اور میں اس کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بلانے والا نہیں ہوں بلکہ میں بھی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے اور سچے دل کے ساتھ اس کی عبادت کرنے کی طرف بلاتا ہوں اور مجھے اَخلاقی اچھائیوں کو پورا کرنے کے لئے بھیجاگیا ہے اور میں بھی اس چیز پر (ذاتی) قدرت نہیں رکھتا جس پر مجھ سے پہلے رسول (ذاتی) قدرت نہیں رکھتے تھے، تو پھر میں تمہیں تمہارا مطلوبہ ہر معجزہ کس طرح دکھا سکتا ہوں اور تمہاری پوچھی گئی ہر غیب کی خبر کس طرح دے سکتا ہوں کیونکہ مجھ سے پہلے رسول وہی معجزات دکھایا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے تھے اور اپنی قوم کو وہی خبریں دیا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی تھیں اور جب میں نے پچھلے رسولوں سے کوئی انوکھا طریقہ اختیار نہیں کیا تو پھر تم میری نبوت کا انکار کیوں کرتے ہو ؟ ۔ ( تفسیرکبیر ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : ۹، ۱۰/۹ ، خازن ، الاحقاف ، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸/۴۶۷،چشتی)

وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ : اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ؟ آیت کے اس حصے کے بارے میں مفسرین نے جو کلام فرمایا ہے اس میں سے چار چیزیں یہاں درج کی جاتی ہیں :
یہ آیت منسوخ ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں دو صورتیں ہیں ، پہلی صورت یہ کہ اگر اس آیت کے یہ معنی ہوں ’’ قیامت میں جو میرے اور تمہارے ساتھ کیا جائے گا وہ مجھے معلوم نہیں ۔‘‘تو یہ آیت سورہِ فتح کی آیت نمبر 2 اور 5 سے منسوخ ہے ، جیسا کہ حضرت عکرمہ اور حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں : اسے سورہِ فتح کی اس آیت ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ(۱) لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ۔۔۔الایۃ ‘‘ نے منسوخ کر دیا ہے۔(تفسیر طبری، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۱۱/۲۷۶)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : آیت کریمہ ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ اور ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ۔۔۔الایۃ ‘‘ نازل فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بتا دیا کہ وہ آپ کے ساتھ اور ایمان والوں کے ساتھ (آخرت میں ) کیا معاملہ فرمائے گا ۔ ( در منثور، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۷/۴۳۵)
اس کی تفصیل اس حدیثِ پاک میں ہے حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حُدَیْبِیَہ سے واپسی کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی : لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ۔ (فتح:۲)
ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارےاگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے ۔
تونبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے زمین پر موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سامنے اسی آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کو مبارک ہو ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے تو بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرے گا ، اب (یہ معلوم نہیں کہ) ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ، تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی : ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَیُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ - وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ ۔ (سورہ فتح:۵)
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اور تاکہ اللہ ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے ۔ ( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵/۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عُزّیٰ کی قسم ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارا اور محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کا یکساں حال ہے ، انہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت نہیں ، اگر یہ قرآن ان کا اپنا بنایا ہوا نہ ہوتا تو ان کو بھیجنے والا انہیں ضرور خبر دیتا کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرے گا ۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ ۔ (سورہ فتح:۲)
ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضور کو مبارک ہو، آپ کو تو معلوم ہوگیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا ، اب یہ انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۔ (سورہ فتح:۵)
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔
اور یہ آیت نازل ہوئی : وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا‘‘ ۔ (احزاب:۴۷) ترجمہ : اور ایمان والوں کو خوشخبری دیدو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے ۔
تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اور مومنین کے ساتھ کیا کرے گا ۔ (تفسیر خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳)

دوسری صورت یہ ہے کہ آخرت کا حال تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا بھی معلوم ہے ، مومنین کا بھی اورجھٹلانے والوں کا بھی ، اور اس آیت کے معنی یہ ہیں ’’ دنیا میں کیا کیا جائے گا ، یہ معلوم نہیں ‘‘ اگر آیت کے یہ معنی لئے جائیں تو بھی یہ آیت منسوخ ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ بھی بتادیا ہے ، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ‘‘ ۔ ( توبہ:۳۳) ۔ ترجمہ : تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے ۔
اورارشاد فرمایا : وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘ ۔ (سورہ انفال:۳۳)
ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذابدے جب تک اے حبیب! تم ان میں تشریف فرما ہو ۔ (تفسیر خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳)(تفسیر خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴)
یہاں اس آیت کے منسوخ ہونے کے بارے میں جو تفصیل بیان کی اسے دوسرے انداز میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمانا ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ قرآنِ مجید کا نزول مکمل ہونے سے پہلے کی بات ہے ،ا س لئے یہاں فی الحال جاننے کی نفی ہے ۔ آئندہ اس کا علم حاصل نہ ہونے کی نفی نہیں ہے ۔ چنانچہ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ آیت اسلام کے ابتدائی دور میں ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، مومنین اور کفارکا انجام بیان کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی ، ورنہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت تک دنیا سے تشریف نہ لے گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآنِ مجید میں اِجمالی اور تفصیلی طور پر وہ سب کچھ بتا دیا جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مومنین اور کفار کے ساتھ کیا جائے گا ۔ ( صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۵/۱۹۳۳-۱۹۳۴،چشتی)

(2) یہاں ذاتی طور پر جاننے کی نفی کی گئی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نفی دائمی اور اَبدی ہے ، لیکن اس سے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے ہر چیز کے جاننے کی نفی نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ علامہ نظام الدّین حسن بن محمد نیشا پوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : آیت کے اس حصے میں اپنی ذات سے جاننے کی نفی ہے وحی کے ذریعے جاننے کی نفی نہیں ہے ۔ ( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶/۱۱۸)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو حضور کے ساتھ اور حضور کی امت کے ساتھ پیش آنے والے اُمور پر مُطَّلع فرما دیا خواہ وہ دنیا کے ہوں یا آخرت کے اور اگر دِرایَت بَمعنی اِدراک بِالقیاس یعنی عقل سے جاننے کے معنی میں لیا جائے تو مضمون اور بھی زیادہ صاف ہے اور آیت کا اس کے بعد والا جملہ اس کا مُؤیِّد ہے۔( خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴،چشتی)

یہاں تفصیلی دِرایَت کی نفی ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مومنین پر فضل و ثواب کی خِلعَتُوں کی نوازش کرتا رہے گا اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں پر ذلت و عذاب کے تازیانے اور کوڑے برساتا رہے گا اور یہ سب کے سب غیر مُتناہی ہیں یعنی ان کی کوئی انتہاء نہیں ، اور غیر مُتناہی کی تفصیلات کا اِحاطہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی کر سکتا ہے ۔
علامہ نیشا پوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں : تفصیلی دِرایَت حاصل نہیں ہے ۔ ( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶/۱۱۸ ،چشتی)
اورعلامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : ممکن ہے کہ یہاں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ تفصیلی دِرایَت ہو ، یعنی مجھے اِجمالی طور پر تو معلوم ہے لیکن میں تمام تفصیلات کے ساتھ یہ نہیں جانتا کہ دنیا اور آخرت میں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا کیونکہ مجھے (ذاتی طور پر )غیب کا علم حاصل نہیں ۔
آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں : اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مُبَلِّغ (یعنی بندوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دینے والا ) بنا کر بھیجا گیا ہے اور کسی کو ہدایت دے دینا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غیبوں کا ذاتی علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے جبکہ انبیا ء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا غیبی خبریں دینا وحی ، اِلہام اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے واسطے سے ہے ۔ ( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸/۴۶۷-۴۶۸)

یہاں دِرایَت کی نفی ہے ، علم کی نہیں ۔دِرایَت کا معنی قیاس کے ذریعے جاننا ہے یعنی خبر کی بجائے آدمی اپنی عقل سے جانتا ہواور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اُخروی اَحوال کو اپنے عقلی قیاس سے نہیں جانا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانا۔ یہ معنی اوپر دوسری تاویل میں خزائن العرفان کے حوالے سے ضمنی طور پربھی موجود ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ان کے ساتھ اور آپ کی امت کے ساتھ پیش آنے والے امُور پر مُطَّلع فرمادیا ہے خواہ وہ دنیا کے اُمور ہوں یا آخرت کے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیب کا ذاتی علم نہیں رکھتے اور جوکچھ جانتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے جانتے ہیں ۔

نوٹ : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’اِنْبَاءُ الْحَی اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُونُ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْئ‘‘ (قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں اسی آیت کو ذکر کر کے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کی نفی پر بطورِ دلیل یہ آیت پیش کرنے والوں کا رد فرمایا اور اس آیت میں مذکور نفی ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ:میں نہیں جانتا‘‘ کے 10جوابات ارشاد فرمائے ہیں ، ان کی معلومات حاصل کرنے کےلیے مذکورہ بالا کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔

نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک سے یہ فرمان پیش کیا گیا ہے کہ ماادری مایفعل بی ولا بکم ، جس کا ترجمہ انہوں نے یہ کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے ، اس کے ساتھ ہی بعد میں دی جانے والی حدیث کو کو بھی شامل کردیا جائے تو بہتر ہوگا ۔

حدیث نمبر 1 میں ہے کہ ایک صحابیہ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یہ الفاظ کہے کہ میں گواہی دیتی ہوں اس بات کی کہ ضرور تحقیق ﷲ نے تیرا اکرام کیا ہے ۔ (صحیح بخاری) اس کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا میں خدا کا نبی ہوں مگر درایت کی رو سے میں ایسا بیان جاری نہیں کرتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ، (مشکوٰة بحوالہ بخاری)
آیت وحدیث ملا کر پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل کے حوالے سے کوئی یقینی بات روایت کی رو سے کرنی چاہئے ، درایت (عقل وقیاس) کی رو سے نہیں ، لیکن بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ جیسے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا اور دوسروں کا انجام معاذ اللہ معلوم نہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین نے یہ آیت سنی تو ہمارے دور کے کم فہموں والا مفہوم مراد لے بیٹھے اور خوشی سے پھولے نہ سمائے ، پھر اللہ تعالیٰ نے سورة فتح نازل فرمائی تو درایت سے پیدا ہونے والے ابہام کو توضیحی بیان سے دور فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سورة فتح کے نزول سے بہت زیادہ خوشی ہوئی ، جس میں سورة الاحقاف کی مذکورہ زیر بحث آیت میں بیان شدہ خبر کے ابہام کو توضیح سے بدل دیا ، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سورة الاحقاف کی مذکورہ آیت کو سورة فتح نے منسوخ کردیا ، جو اخبار میں نسخ کے قائل ہیں وہ یہی کہتے ہیں ، اور دوسرے یہ کہتے ہیں کہ خبر کے ابہام کو بعد میں آنے والی توضیح نے منسوخ کردیا ۔

ایک تو یہ لوگ ہیں جو سورة الاحقاف کے نزول تک بھی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے انجام سے بے خبر بتاتے ہیں اور دوسری طرف ہم محبت کے مارے ہیں جو کہتے ہیں کہ جس قلم نے ماکان و مایکون کا علم لکھا وہ نور محمدی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہے ، اور آپ اُس وقت سے اپنے اور سب کے انجام سے واقف ہیں ، تفصیل یہ ہے کہ ترمذی شریف میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ابواب القدر کے باب نمبر 17 میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو تخلیق فرمایا ، اسے فرمایا لکھ ، اس نے عرض کیا کیا لکھوں ، حکم ہوا کہ اکتب القدر ما کان وماھو کائن الی الابد ۔ (ترمذی حدیث نمبر ٢١٥٥) ، یعنی لکھ تقدیر کو جو کچھ ہوا اور جوکچھ ابد تک ہونے ولا ہے ۔ (مشکوٰة، ص٢١،چشتی)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اوّل الخلق کاتب تقدیر ذی شعور قلم ہے کون سا ؟
اس کا جواب بخاری ، کتاب القدر، حدیث نمبر٦٦٠٩، بخاری کتاب الایمان والنذور، حدیث نمبر ٦٦٩٤، ابودائود، کتاب الایمان، حدیث نمبر٣٢٨٨ میں آچکا ، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ''لا یاتی ابن أدم النذر بشی لم أکن قدرتہ '' کہ ابن آدم کو نذر (منت) سے وہ چیز نہیں ملتی جو میں (نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے اُس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو ۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ تقدیر لکھنے والے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی ہیں اور قلم لا لفظ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے بطور استعارہ آیا ہے ، عجب نہیں کہ ن والقلم ۔ (سورة قلم، آیت ١) میں نور محمدی بشکلِ قلم مراد ہو ، ورنہ قلموں کی کیا مجال کہ وہ ماکان وما یکون جان سکیںلکھنا تو دُور کی بات ہے ، ۔ (سورة لقمان، آیت ٢٧) ، بعض عارفین نے کہا کہ اوّل الخلق نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ، اوّل الخلق کے طور پر حدیثوں میں آنے والے سب نام آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے استعارةً استعمال ہوئے ہیں ۔ (سر الاسرار، ص١٢، ١٤ ۔ مرصاد العباد، ص٣٠۔ تاریخ الخمیس،ج ١، ص١٩)

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

ماکان ومایکون کا علم تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اُس وقت بھی حاصل تھا ، البتہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا علم مبارک تکمیلِ نزولِ قرآن تک ہر لمحہ اللہ تعالیٰ بڑھاتا رہا ، اور ہر لمحہ کا علم پچھلے لمحہ کی نسبت تفصیل بنتا چلا گیا اور ماضی والا علم اُس کی روشنی میں اجمالی نظر آیا ، تاہم باقی تمام مخلوقات کے تفصیلی علوم کے مجموعے سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا اجمالی علم جو لوح نے قلم سے محفوظ کیا وہ زائد ہے ، امیر مینائی نے کیا خوب کہا :

حضرت کا علم علمِ لدنی تھا اے امیر
دیتے تھے قدسیوں کو سبق بے پڑھے ہوئے

تعلیم جبرائیلِ امیں تھی برائے نام
حضرت وہیں سے آئے تھے لکھے پڑھے ہوئے

اس کلام کی روشنی میں قصیدہ بردہ کا وہ مصرعہ سمجھنا مشکل نہ رہا کہ'' ومن علومک علم اللوح والقلم '' ، لوح وقلم کا علم تو آپ کے علوم میں سے صرف ایک علم ہے، یہ محض عقیدت نہیں حدیثوں کو ملا کر دیکھنے سے ثابت ہے ، یہ قرآن کے عجائب وغرائب ہیں جنہیں قیامت تک ظاہر ہوتے رہنا ہے، حاصل یہ ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ علم درایة پر مبنی نہیں ، قیاس کے گھوڑے دوڑا کر حاصل نہیں کیا گیا ، یہ قطعی یقینی تعلیم الٰہی پر مبنی ہے ۔

حدیث : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ گو میں اللہ کا نبی ہوں مگر مجھے یہ'' معلوم نہیں '' کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے ۔ اس کی وضاحت اوپر پیش کی جا چکی ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ، کے حوالے سے میرا علم ظن و تخمین اور درایت و قیاس پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں میرا علم قطعی اور وحی الٰہی پر مبنی ہے ۔

حدیث : ربیع بنت معوذ کا بیان ہے کہ چند بچیاں کچھ شعر پڑھ رہی تھیں ان میں سے کسی نے کہا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ ، (ہم میں ایک ایسا نبی ہے جو آنے والی کل کی بات جانتا ہے) ، تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ایسا مت کہو جو شعر پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھتی رہو ۔ (صحیح بخاری)
بچیوں نے شادی کی تقریب میں شہداء کا مرثیہ پڑھتے پڑھتے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھ کر اچانک موضوع بدلا اور نعتیہ کلام شروع کردیا ، جس میں کہا گیا تھا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ ، ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات سے باخبر ہے ، یہ مصرعہ کسی صحابی کی کہی گئی نعت کا ہی ہوسکتا ہے جو بچیوں تک کو یاد تھی ، بچیوں نے منقبت صحابہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت شروع کی تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں منقبت صحابہ جاری رکھنے کا حکم دیا اور کسر نفسی اور تواضع سے کام لیا ، اگریہ جملہ شرکیہ ہوتا تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن بچیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور توبہ کی تلقین فرماتے ، آپ نے صرف اتنا فرمایا اسے رہنے دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں ، بلکہ اس مصرعہ سے ملتا جلتا مصرعہ حضرت مالک بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُس کو مصرعہ چھوڑنے کی بجائے انعام سے نوازا ، مصرعہ یہ ہے ومتیٰ تشاء یخبرک عما فی غدٍ اور جب تو چاہے تو وہ تجھے بھی اس بات سے باخبر کردیں کہ کل کیا ہونے والا ہے ۔ (الاصابہ ، ابن حجر عسقلانی، ج٥، ص٥٥١)

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے منقول ہے کہ جو شخص تمہیں کہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ یہ پانچ غیب جانتے تھے تو وہ شخص بڑا جھوٹا ہے ۔ (بخاری شریف) ۔
سے دوسری جگہ یہ الفاظ یوں منقول ہیں کہ جو شخص کہتا ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کل کیا ہوگا سے باخبر ہیں ، اُس نے جھوٹ بولا انہ یعلم ماغدٍ ۔ (بخاری ، کتاب التفسیر سورة النجم، حدیث ٤٨٥٥،چشتی)

تیسری جگہ الفاظ یوں ہیں انہ یعلم الغیب یعنی جو کہتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیب کا علم رکھتے ہیں تو وہ کذب کا مرتکب ہے ۔ اب روایتیں ملا کر دیکھیں تو پورا مفہوم یہ ہوا کہ جو شخص کہتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کل کی بات کا علم ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سورة لقمان کے آخر والے پانچوں غیب جانتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غیب کا علم حاصل ہے تو وہ کذب کا مرتکب ہوتا ہے ، اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دو باتیں اور بھی اپنے اس فتوے میں ارشاد فرمائی ہیں ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر سورة النجم حدیث نمبر ٣٢٧٨ ) ۔ سے پتہ چلتا ہے کہ اُم المومنین حضرت عبداﷲ ابن عباس اور بنو ہاشم (رضی اللہ عنہم) کی طرف اشارہ فرما رہی ہیں کہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے رب کو دیکھا ، اُم المومنین اُن کا ردّ کرتے ہوئے فرمارہی ہیں کہ جو تجھے کہے کہ (1) حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے رب کو دیکھا ، (2) یا حضرت محمد نے اسرار مخفی رکھے ، (3) یا حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غیوب کا علم حاصل ہے تو وہ جھوٹ کا مرتکب ہے ، یہ واضح بات ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اِن فضائل کا قائل اُس دَور کا کوئی کافر ومشرک تو نہیں تھا ، وہ جو بھی تھا مسلمانوں میں سے تھا ، اور اُم المومنین اُس دور کے کسی مسلمان کے اِن نظریات کی عبارت اور تعبیر میں خطا کو کذب سے تعبیر کر رہی ہیں ، تو یہ اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا اُن سے اجتہادی اختلاف ہے ، اُم المومنین نفی ادراکِ باری سے نفی رویتِ باری کا مفہوم نکال رہی ہیں ، تو اُن کا قیاس ہے ورنہ احادیث نبویہ میں رویت باری کا ثبوت ہر دو جہاں میں ملتا ہے ، اسی طرح تبلیغی احکام نہ چھُپانے کا مطلب یہ نہیں کہ اسرار بھی کسی سے نہ چھپائے ، اور علم غیب کے حوالے سے حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت خضر علیہ السّلام کی بابت بیان فرماتے ہیں کان رجلاً یعلم علم الغیب ، وہ مرد تھے جو علمِ غیب جانتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر۔ تفسیر ابن کثیر) ، بلکہ بخاری شریف میں تو حدیث مرفوع میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے تین اقوال پر بھی لفظِ کذب استعمال کیا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ وہ بھی صورتاً کذب ہے نہ کہ حقیقتاً ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم : ⏬

صحیح بخاری شریف میں روایت ہے:عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت من حدثک أن محمدا صلی الله عليه و سلم رأي ربه فقد کذب وهو يقول (لا تدرکه الابصار)
ترجمہ :مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کواحاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا تدرکه الابصار۔
آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ (انعام103:) (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا،حدیث نمبر:7380 )
اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں ‘اس لئے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ۔
جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے :
عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول لا تدرکه الابصار و هو يدرک الابصار قال و يحک اذا تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين ۔
ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضرت سیدنا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیاہے۔ میں نے عرض کیا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدارکیاہے۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61-مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767)

عقیدہ علم غیب اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا : ⏬

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ایک بار اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا سر مبارک میری گود میں تھا اور رات روشن تھی، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں جتنی ہوں گی؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’ جی ہاں ! وہ عمر ہیں ، جن کی نیکیاں ان ستاروں جتنی ہیں ۔‘‘حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :’’میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! پھر میرے والد ماجد سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نیکیاں کس درجہ میں ہیں ؟‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی کے برابر ہیں ۔ (مشکوٰۃالمصابیح، کتاب المناقب، الفصل الثالث، الحدیث:۶۰۶۸، ج۳، ص۳۴۹،چشتی)

منکرین کیا کہتے ہیں اب اگر بقول تمہارے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں جس نے یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں وہ جھوٹا ھے تو خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال کیوں کیا ؟

حدیث بخاری کا جواب : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ تینوں باتیں اپنی ظاہری معنٰی پر نہیں ہیں آپ کے یہ قول اپنی رائے سے ہیں ۔ اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتیں بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں رب تعالٰی کو دیکھنے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت پیش فرمائی ۔ اور اب تک جمہور اہل اسلام اس کو مانتے چلے آئے ہیں۔ دیکھو اس کی تحقیق مدارج اور نسیم الریاض وغیرہ میں ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن سوری النجم میں اسی طرح صدیقہ کا فرمانا کہ حضور علیہ السلام نے کوئی چیز نہ چھپائی۔ اس سے مراد احکام شرعیہ تبلیغیہ ہیں۔ ورنہ بہت سے اسرار الہیہ پر لوگوں کع مطلع نہ فرمایا ۔

مشکوٰۃ کتاب العلم دوم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضور علیہ السلام سے دو قسم کے علوم ملے ۔ ایک وہ جن کی تبلیغ کر دی۔ دوسرے وہ کہ تم کو بتاؤ تو تم میرا گلا گھونٹ دو ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسرار الہیہ نا محرم سے چھپائے گئے۔ اسی طرح صدیقہ کا یہ فرمانا کہ کل کی بات حضور علیہ السلام نہیں جانتے تھے۔ اس سے مراد ہے بالذات نہ جاننا اور صدہا احادیث اور قرآنی آیات کی مخالفت لازک آوے گی۔ حضور علیہ السلام نے قیامت کی، دجال کی، امام مہدی کی اور حوض کوثر کی شفاعت بلکہ امام حسین کی شہادت کی، جنگ بدر ہونے سے پیشتر کفار کے قتل کی، اور جگہ قتل کی خبر دی ۔ نیز اگر صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کے ظاہری معنٰے کئے جاویں تو مخالفین کے بھی خلاف ہے کہ وہ بہت سے غیوب کا علم مانتے ہیں اور اس میں بالکل نفی ہے۔ مجھے آج یقین ہے کہ کل پیچشنبہ ہوگا۔ سورج نکلے گا، رات آوے گی۔ یہ بھی تو کل کی بات کا علم ہوا۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے معراج جسمانی کا بھی انکار فرمایا ۔ مگر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ واقعہ معراج انکے نکاح میں آنے سے پیشتر کا ہے۔ جو اب تک ان کے علم میں نہ آیا تھا۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم : صحیح بخاری شریف میں روایت ہے:عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت من حدثک أن محمدا صلی الله عليه و سلم رأي ربه فقد کذب وهو يقول (لا تدرکه الابصار )
ترجمہ : مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کواحاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا تدرکه الابصار ۔ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں ۔ (انعام103:) (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا،حدیث نمبر:7380 )
اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں ‘اس لئے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ۔
جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے : عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول لا تدرکه الابصار و هو يدرک الابصار قال و يحک اذا تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين ۔ ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیاہے۔ میں نے عرض کیا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدارکیاہے ۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61-مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...