Tuesday, 21 May 2024

فضائل اور احکام و مسائلِ حج

فضائل اور احکام و مسائلِ حج

محترم قارئینِ کرام : لغوی رُو سے حج کا معنی قصد کرنا ، زیارت کا ارادہ کرنا ہے ۔ اصطلاحِ شریعت میں مخصوص اوقات میں خاص طریقوں سے ضروری عبادات اور مناسک کی بجاآوری کےلیے بیت اللہ کا قصد کرنا ، کعبہ اللہ کا طواف کرنا اور میدانِ عرفات میں ٹھہرنا حج کہلاتا ہے ۔ حج کا لغوی معنی ’’القصد‘‘ (ارادہ کرنا) ہے ۔ جبکہ اصطلاح میں حج کا معنی ہے کہ : هُوَ عِبَارَةٌ عَنِ الْاَفْعَالِ الْمَخْصُوْصَةِ مِنَ الطَّوَافِ وَالْوُقُوْفِ فِي وَقْتِهِ، مُحْرَماً بِنِیَّةِ الْحَجِّ سَابِقاً ۔
ترجمہ : حج افعال مخصوصہ مثلاً طواف اور وقوف اپنے وقت میں بحالت احرام پہلے سے ہی حج کی نیت سے ادا کرنے سے عبارت ہے ۔ (الفتاوی الهندیةِ جلد 1 صفحہ 216)


حج اسلام کا بنیادی رکن ہے یہ ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو ۔ حج ، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو اجتماعیت اور اتحاد و یگانگت کا آئینہ دار ہے ۔ قرآن کریم میں حج کی فرضیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَ ِﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً ۔
ترجمہ : اور اللہ کےلیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو ۔ (سورہ آل عمران: 97)

حجاج کرام اللہ عزوجل کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کی دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے ۔ یہ نفوس ہر قسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ رب کائنات کی رحمتوں سے نہ صرف محروم ہوجاتا ہے بلکہ ہدایت کے راستے بھی اس کےلیے مسدود ہوجاتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دوران خطبہ ارشاد فرمایا : اے لوگو ! تم پر حج فرض کیا گیا لہٰذا حج کرو - ایک شخص نے عرض کی ، یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کیا ہر سال ؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے سکوت فرمایا - انہوں نے تین بار یہ کلمہ کہا -
ارشاد فرمایا : اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر واجب ہو جاتا اور تم سے نہ ہو سکتا پهر فرمایا : جب تک میں کسی بات کو بیان نہ کروں تم مجهه سے سوال نہ کرو، اگلے لوگ کثرت سوال اور پهر انبیاء کرام (علیهم السلام) کی مخالفت سے ہلاک ہوئے ، لہٰذا جب میں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ہو سکے اسے کرو اور جب میں کسی بات سے منع کروں تو اسے چهوڑ دو ۔ (صحیح مسلم کتاب الحج،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے حج کیا اور رفث (فحش کلام) نہ کیا اور فسق نہ کیا تو گناہوں سے پاک ہوکر ایسا لوٹا جیسے اس دن تها کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ۔ (صحیح بخاری کتاب الحج)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عمرہ سے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حج مبرور (مقبول) کا ثواب جنت ہی ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حج کمزوروں کےلیے جہاد ہے ۔ (سنن ابن ماجہ ،ابواب المناسک)

ام المومنین سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنها نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم عورتوں پر جہاد ہے ، فرمایا : ہاں ان کے ذمہ وہ جہاد ہے جس میں لڑنا نہیں (یعنی) حج و عمرہ ۔ (سنن ابن ماجہ ابواب المناسک،چشتی)
اور دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا : تمہارا جہاد حج ہے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجهاد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیں ، جیسے بهٹی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور (مقبول) کا ثواب جنت ہی ہے ۔ (جامع الترمذی ، ابواب الحج)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حاجی اپنے گهر والوں میں سے چار سو (افراد) کی شفاعت کرے گا اور (حاجی) گناہوں سے ایسا نکل جائے گا ، جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ۔ (مسند بزار حدیث نمبر 3196،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حج و عمرہ کرنے والے اللہ تعالٰی کے وفد ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں بلایا ، یہ حاضر ہوئے ، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ، اس نے انہیں دیا ۔ (الترغیب والترهیب للمنذری ، کتاب الحج)

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حاجی کی مغفرت ہوجاتی ہے اور حاجی جس کےلیے استغفار کرے اس کےلئے بهی ۔ ( مجمع الزوائد للهیثمی حدیث نمبر 5287 جلد 3)

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اس راہ میں حج یا عمرہ کےلئے نکلا اور مر گیا اس کی پیشی نہیں ہوگی ، نہ حساب ہوگا اور اس سے کہا جائے گا تو جنت میں داخل ہوجا ۔ (معجم اوسط للطبرانی حدیث نمبر 5388 جلد 4)

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو حج کےلئے نکلا اور مر گیا ۔ قیامت تک اس کےلیے حج کرنے والے کا ثواب لکها جائے گا اور جو عمرہ کےلیے نکلا اور مر گیا تو اس کےلیے قیامت تک عمرہ کرنے کا ثواب لکها جائے گا اور جو جہاد میں گیا اور مر گیا اس کےلیے قیامت تک غازی کا ثواب لکها جائے گا ۔ (مسند ابی یعلی حدیث نمبر 6337 جلد 5)

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے حج کرنے سے نہ حاجت ظاہرہ مانع ہوئی ، نہ بادشاہ ظالم، نہ کوئی ایسا مرض جو روک دے ، پهر بغیر حج کیے مرگیا تو چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر ۔ (سنن دارمی کتاب المناسک)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنهما روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص عرض کی : کیا چیز حج کو واجب کرتی ہے ؟ فرمایا : توشہ اور سواری ۔ (جامع الترمذی ابواب الحج،چشتی)

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنهما راوی کہ کسی نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حاجی کو کیسا ہونا چاہیے ؟ فرمایا : پراگندہ سر ، میلا کچیلا ۔  دوسرے نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حج کا کون سا عمل افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا : بلند آواز سے لبیک کہنا اور قربانی کرنا- کسی اور نے عرض کی، سبیل کیا ہے ؟ فرمایا : توشہ اور سواری ۔ (شرح السنتہ للبغوی کتاب الحج)

حج کا لغوی معنیٰ ہے قصد کرنا
اور شرعی طور پر حج نام ہے احرام باندھ کر نویں (9) ذی الحجہ کو (میدان) عرفات میں ٹهہرنے اور کعبہ معظمہ کے طواف کا اور اس کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہے کہ اس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان)

حج 9 ہجری میں فرض ہوا ۔ حج کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے ۔ (المفہم جلد 3 - فتاویٰ ہندیہ، کتاب المناسک)

عمر بهر میں صرف ایک بار حج فرض ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ فتاویٰ عالمگیری و درمختار)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔
عرض کی گئی : پھر کونسا ہے ؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔
قِیلَ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ : حَجٌّ مَبْرُورٌ ۔
عرض کی گئی کہ پھر کونسا ہے ؟ فرمایا کہ حج جو برائیوں سے پاک ہو ۔ (بخاري، الصحیح، 1:18 ، رقم:27،چشتی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : مَنْ حَجَّ لِلّٰهِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ۔
ترجم : جو رضائے الٰہی کےلیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب ۔ وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو ۔ (مسلم، الصحیح، 2: 983 ، رقم: 1350)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَلْعُمْرَةِ إِلَی الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَیْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّةِ ۔
ترجمہ : ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے ، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ جنت ہی ہے ۔ (بخاري، الصحیح، 2: 929، رقم: 1683،چشتی)

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ کرم سے نکال دیتا ہے ۔ حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : مَنْ لَمْ یَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَآءَ یَهُوْدِیًّا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا ۔
ترجمہ : جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے) ۔ (ترمذي، السنن، 3: 176،رقم: 812،چشتی)

اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے والے کو بخشش کی نوید سناتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ ﷲِ. إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْهُ غَفَرَ لَهُمْ ۔
ترجمہ : حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، 2: 9، رقم: 2892)

حجاج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ دَخَلَ الْبَیْتَ دَخَلَ فِي حَسَنَةِ وَخَرَجَ مِنْ سَیِّئَةِ مَغْفُوْرًا لَهُ ۔
ترجمہ : جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور برائی سے خارج ہو کر مغفرت پا گیا ۔ (ابن خزیمةِ، الصحیح، 4: 332،چشتی)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : إِذَا لَقِیتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَیْهِ وَصَافِحْهُ وَمُرْهُ أَنْ یَسْتَغْفِرَ لَکَ قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بَیْتَهُ فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ ۔
ترجمہ : جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام اور مصافحہ کرو اور اسے گھر داخل ہونے سے پہلے اپنے بخشش کی دعا کی درخواست کرو کہ وہ بخشا ہوا ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2: 69، رقم: 5371)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ خَرَجَ حَاجّاً أَوْ مُعتَمِراً أوْ غَازِیاً ثمَّ مَاتَ فِی طریقِه کَتَبَ ﷲُ لَهٗ أجْرَ الغازِی وَالْحَاجِّ وَالْمُعْتَمِرِ ۔
ترجمہ : جو مسلمان حج یا عمرہ یا جہاد کی نیت سے نکلا اور راستہ میں مرگیا ، اللہ اس کے لئے حج ، عمرہ یا جہاد کا اجر و ثواب لکھ دیتا ہے ۔ (بیهقی، شعب الایمان 3 : 474، رقم: 4100)

حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُلَبِّي إِلَّا لَبَّی مَنْ عَنْ یَمِینِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ حَتَّی تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا ۔
ترجمہ : جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت ڈھیلے تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین اِدھر اُدھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے ۔ (ترمذي السنن، 3: 189، رقم: 828،چشتی)

ادائیگی کے طریقہ کے لحاظ سے حج کی تین اقسام ہیں : ⬇

افراد : اس طریقے کو کہتے ہیں جس میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے، حج کرنے والا اس میں عمرہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف حج ہی کرسکتا ہے اور احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک مسلسل احرام کی شرائط کی پابندی ضروری ہے ۔

قِران : حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا جاتا ہے ۔ مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کیا جاتا ہے اور پھر اسی احرام میں حج ادا کرنا ہوتا ہے ۔

تمتع : وہ طریقہ حج ہے جس میں حج اور عمرہ کو ساتھ ساتھ اس طرح ادا کیا جاتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کی حالت سے باہر آسکتا ہے اور پھر حج کےلیے 8 ذی الحجہ کو حج کے ارادے سے احرام باندھتا ہے اور یہ سب سے آسان حج ہے ۔

فرائضِ حج درج ذیل ہیں : ⬇

1 : احرام باندھنا ۔

2 : وقوفِ عرفات ۔

3 : طواف زیارت کرنا ۔

ان تینوں فرائض کو مقررہ مقامات اور مقررہ اوقات میں ترتیب سے ادا کرنا ۔

سات چیزیں حج کے واجبات میں شامل ہیں : ⬇

1 : مزدلفہ میں ٹھہرنا ۔

2 : جمرات کو کنکریاں مارنا ۔

3 : اگر حج قِران یا حج تمتع کی نیت کی ہے تو قربانی کرنا ۔

4 : سر کے بال منڈاونا یا کترانا ۔

5 : صفا اور مروہ کے درمیان  طوافِ سعی کرنا ۔

6 : طواف و داع کرنا ۔

7 : طواف زیارت کے سات چکر پورے کرنا ۔

ان واجبات میں سے کوئی واجب بھی ترک ہو جائے تو ایک قربانی دینا ضروری ہے ۔

ایامِ حج اور ارکانِ حج کی ادائیگی

8 ذی الحجہ سے 12 ذی الحجہ کے پانچ دن ایام حج کہلاتے ہیں ۔ انہی ایام میں حج کے جملہ مناسک ادا کرنا ہوتے ہیں ۔ ان کی تفصیل یہ ہے : ⬇

8 ذالحجہ : منیٰ کو روانگی
حجاج 8 ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں نماز فجر ادا کرکے سورج نکلتے ہی منیٰ کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں ۔ سفر میں تلبیہ کی کثرت کی جاتی ہے ۔ منی پہنچ کر ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھنے کے بعد رات یہیں قیام کرتے ہیں اور 9 ذی الحجہ کی نماز فجر بھی منیٰ میں ادا کرتے ہیں ۔

9 ذی الحجہ : وقوف عرفات
نماز فجر منیٰ میں ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے پر عرفات کی طرف روانگی ہوتی ہے اور عرفات میں ظہر و عصر کی نمازیں ظہر کے وقت ملاکر پڑھی جاتی ہیں ۔ میدان عرفات میں اسی قیام کو وقوف عرفات کہتے ہیں جو حج کا سب سے اہم رکن ہے ۔ اگر کسی وجہ سے 9 ذی الحجہ کے دن یا اس رات بھی کوئی یہاں پہنچنے سے رہ جائے تو اس کا حج نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی تلافی کی کوئی گنجائش ہے ۔

مزدلفہ میں قیام : اس دن غروب آفتاب کے وقت عازمین مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہوجاتے ہیں ۔ مزدلفہ میں نماز عشاء کے وقت میں مغرب و عشاء کی نماز جمع کرکے پڑھی جاتی ہیں ۔ رات مزدلفہ میں ہی قیام ہوتا ہے ۔

10 ذی الحجہ : منٰی روانگی
فجر کی نماز کے بعد مزدلفہ میں توقف کرنا واجب ہے ۔ بعد ازاں عازمین منیٰ کو روانہ ہوتے ہیں ۔ منیٰ پہنچ کر حجاج کرام کو تین واجبات بالترتیب اداکرنے ہوں گے ۔

بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا ۔
رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربانی کرنا ۔
قربانی کے بعد سرمنڈاوانا یا کتروانا ۔
اس کے بعد احرام کھول کر عام لباس پہن لیا جاتا ہے اور حجاج سے احرام کی سب پابندیاں (سوائے مباشرت کے) ختم ہوجاتی ہیں ۔

طوافِ زیارت اور سعی

حجاج احرام کھولنے کے بعد مکہ مکرمہ میں چوتھا رکن طوافِ زیارت ادا کرتے ہیں ۔ یہ حج کے فرائض میں شامل ہے اور 12 ذی الحجہ کا آفتاب غروب ہونے تک جائز ہے اس کے بعد دم (قربانی) واجب ہوگا اور فرض بھی ذمہ رہے گا ۔

طواف زیارت کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرنا واجب ہے ۔

منیٰ واپسی

طواف زیارت و سعی کے بعد دو رات اور دو دن منیٰ میں قیام کرنا سنت موکدہ ہے ۔ مکہ میں یا کسی اور جگہ رات گزارنا ممنوع ہے ۔ گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو ایام رمی، کہتے ہیں ۔ ان تینوں تاریخوں میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے ۔ رمی کا وقت زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔ پہلے جمرہ اولیٰ پر پھر جمرہ وسطیٰ اور بعد ازاں جمرہ عقبہ پر۔ پھر مکہ واپسی ہوتی ہے ۔

طوافِ وداع

یہ حج کا آخری واجب ہے جو صرف میقات سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ جب وہ مکہ سے رخصت ہونے لگیں تو آخری طواف کرلیں ۔

مدینہ منورہ روانگی

مکہ میں مناسک حج کی تکمیل کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ کی حاضری کےلیے عشاق مدینہ منورہ روانہ ہو جاتے ہیں ۔

حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور کعبہ معظمہ کے طواف کا اور اس کےلیے ایک خاص وقت مقرر ہے کہ اس میں یہ افعال کیے جائیں تو حج ہے ۔ 9 ہجری میں فرض ہوا ، اس کی فرضیت قطعی ہے، جو اس کی فرضیت کا انکار کرے کافر ہے مگر عمر بھر میں صرف ایک بار فرض ہے ۔ (''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الأول في تفسیر الحج و فرضیتہ ...إلخ ، ج۱، ص۲۱۶)(و''الدرالمختار ''معہ'' ردالمحتار''، کتاب الحج، ج۳، ص۵۱۶-۵۱۸)

دکھاوے کےلیے حج کرنا اور مالِ حرام سے حج کو جانا حرام ہے۔ حج کو جانے کے لیے جس سے اجازت لینا واجب ہے بغیر اُس کی اجازت کے جا نا مکروہ ہے مثلاًماں باپ اگر اُس کی خدمت کے محتاج ہوں اور ماں باپ نہ ہوں تو دادا، دادی کا بھی یہی حکم ہے۔ یہ حج فرض کا حکم ہے اور نفل ہو تو مطلقاً والدین کی اطاعت کرے ۔ (''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، مطلب فیمن حج بمال حرام، ج۳، ص۵۱۹،چشتی)

لڑکا خوبصورت اَمرد ہو تو جب تک داڑھی نہ نکلے ، باپ اُسے جانے سے منع کر سکتا ہے ۔ (''الدرالمختار'' کتاب الحج، ج۳، ص۵۲۰)

جب حج کےلیے جانے پر قادر ہو حج فوراََ فرض ہو گیا یعنی اُسی سال میں اور اب تاخیر گناہ ہے اور چند سال تک نہ کیا تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود مگر جب کرے گا ادا ہی ہے قضا نہیں ۔ (''الدرالمختار''، کتاب الحج، ج۳، صفحہ ۵۲۰،چشتی)

مال موجود تھا اور حج نہ کیا پھر وہ مال تلف ہوگیا ، تو قرض لے کر جائے اگرچہ جانتا ہو کہ یہ قرض ادا نہ ہو گا مگر نیت یہ ہو کہ اللہ تَعَالٰی قدرت دے گا تو ادا کر دوں گا۔ پھر اگر ادانہ ہو سکا اور نیت ادا کی تھی تو امید ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس پر مؤاخذہ نہ فرمائے ۔ (''الدرالمختار''، کتاب الحج، ج۳، ص۵۲۱)

حج کا وقت شوال سے دسویں ذی الحجہ تک [یعنی دو مہینے اور دس دن تک] ہے کہ اس سے پیشتر [پہلے] حج کے افعال نہیں ہوسکتے ، سوا احرام کے کہ احرام اس سے پہلے بھی ہوسکتا ہے اگرچہ مکروہ ہے ۔ (بہارِ شریعت ، جلد اول ، حصہ۶،صفحہ۱۰۳۵ ، ۱۰۳۶،چشتی)۔(''الدرالمختار''، کتاب الحج، ج۳، ص۵۴۳)

حج فرض ہونے کی آٹھ (8) شرطیں ہیں، جب تک سب نہ پائی جائیں حج فرض نہیں ہوگا.
(1) : اسلام : اگر کوئی شخص مسلمان ہونے سے پہلے استطاعت رکهتا تها مگر اب حالت اسلام میں (شرعی) فقیر ہوگیا تو حالت کفر کی استطاعت کیوجہ سے اسلام لانے کے بعد اس پر حج فرض نہیں ہوگا. اور اگر مسلمان صاحب استطاعت تها مگر حج نہ کیا اور اب فقیر ہوگیا تو اس پر اب بهی حج فرض ہے ۔
(2) : دارالحرب میں ہو تو یہ بهی ضروری ہے کہ جانتا ہو کہ اسلام کے فرائض میں حج ہے .
(3) : بلوغ یعنی بالغ ہونا . اگر نابالغ نے حج کیا یعنی اپنے آپ جبکہ سمجھ دار ہو یا اس کے ولی نے اس کی طرف سے احرام باندها ہو جب کہ ناسمجھ ہو، بہرحال وہ حج نفل ہوا، حجتہ الاسلام یعنی حج فرض کے قائم مقام نہیں ہوسکتا .
(4) عاقل ہونا : مجنون پر حج فرض نہیں . پہلے مجنون تها اور وقوف عرفہ سے پہلے جنون جاتا رہا اور نیا احرام باندھ کر حج کیا تو یہ حج حجتہ الاسلام ہوگیا ورنہ نہیں- بوہرا بهی مجنون کے حکم میں ہے .
(5) آزاد ہونا : باندی غلام پر حج فرض نہیں .
(6) تندرست ہونا کہ حج کو جا سکے، اعضا سلامت ہوں ، انکهیارا ہو ، اپاہج اور فالج والے پر اور جس کے پاؤں کٹے ہوں اور بوڑهے پر (اتنا بڑهاپا و ضعف ہو) کہ سواری پر خود نہ بیٹھ سکتا ہو (پر) حج فرض نہیں . یونہی اندهے پر بهی واجب نہیں اگرچہ ہاتھ پکڑ کر لے چلنے اسے ملے- ان سب پر یہ بهی واجب نہیں کہ کسی کو بهیج کر اپنی طرف سے حج کرا دیں یا وصیت کر جائیں اور اگر تکلیف اٹها کر حج کرلیا تو صحیح ہوگیا اور حجتہ الاسلام ادا ہوا یعنی اس کے بعد اگر اعضا درست ہوگئے تو اب دوبارہ حج فرض نہ ہوگا وہی پہلا حج کافی ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 کتاب الحج،چشتی)

(7) : سفر خرچ کا مالک ہو اور سواری پر قادر ہو ۔ کسی نے حج کےلئے اس کو اتنا مال مباح کردیا کہ حج کرلے تو (اس وجہ سے) حج فرض نہ ہوا کہ اباحت سے ملک نہیں ہوتی (یعنی یہ اس مال کا مالک نہ ہوا) اور (حج) فرض ہونے کےلئے ملک درکار ہے . اگر عاریتاً سواری مل جائے گی جب بهی فرض نہیں ، کسی نے حج کےلئے مال ہبہ کیا تو قبول کرنا اس پر واجب نہیں - دینے والا اجنبی ہو یا ماں، باپ، اولاد وغیرہ ، مگر قبول کرلے گا تو حج واجب ہوجائے گا ، سفر خرچ اور سواری پر قادر ہونے کے یہ معنیٰ ہیں کہ یہ چیزیں اس کی حاجت سے فاضل ہوں یعنی ، مکان و لباس اور سواری کا جانور اور پیشہ کے اوزار اور خانہ داری کے سامان اور دین (یعنی قرض ) سے اتنا زائد ہو کہ سواری پر مکہ معظمہ جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کےلئے کافی مال چهوڑ جائے ، اور جانے آنے میں اپنے نفقہ اور گهر اہل و عیال کے نفقہ میں قدر متوسط کا اعتبار ہے نہ کمی ہو نہ اسراف ۔ (بہارشریعت حصہ 6 کتاب الحج)

حج پر جانے والے اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کےلئے تحائف لیکر آتے ہیں، ان تحائف پر ہونے والا خرچ ضروریات میں سے نہیں ۔ (ماخوذ از بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان)

جس کی بسر اوقات تجارت پر ہے اور مالی حیثیت اتنی ہوگئی کہ سفر حج کا خرچ اور واپسی تک بال بچوں کی خوراک نکال لے تو اتنا مال باقی بچ جائے جس سے اپنی تجارت بقدر اپنی گزر کے کر سکے ، تو حج فرض ہے ورنہ نہیں ۔ (ماخوذ بہارشریعت)

پیدل کی طاقت ہو تو پیدل حج کرنا افضل ہے ۔ حدیث میں ہے : جو پیدل حج کرے ، اس کےلئے ہر قدم پر سات (7) سو نیکیاں ہیں ۔ ( بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ ردالمحتار ، کتاب الحج،چشتی)

( شرعی) فقیر نے پیدل حج کیا پهر مالدار ہوگیا تو اس پر دوسرا حج فرض نہیں ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری کتاب المناسک)

رہنے کا مکان اور خدمت کا غلام اور پہننے کے کپڑے اور برتنے کے اسباب ہیں تو حج فرض نہیں ، یعنی لازم نہیں کہ انہیں بیچ کر حج کرے اور اگر مکان ہے مگر اس میں رہتا نہیں غلام ہے مگر اس سے خدمت نہیں لیتا تو بیچ کر حج کرے اور اگر اس کے پاس نہ مکان ہے نہ غلام وغیرہ اور روپیہ ہے جس سے حج کر سکتا ہے مگر مکان وغیرہ خریدنے کا ارادہ ہے اور خریدنے کے بعد حج کے لائق (روپیہ) نہ بچے گا تو فرض ہے کہ حج کرے اور باتوں میں اٹهانا گناہ ہے یعنی اس وقت کہ اس شہر ( جہاں یہ رہتا ہے) والے حج کو جارہے ہوں اور ، اگر پہلے مکان وغیرہ خریدنے میں اٹها دیا (یعنی روپیہ خرچ کردیا) تو حرج نہیں ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری،چشتی)

جس مکان میں رہتا ہے اگر اسے بیچ کر اس سے کم حیثیت کا خرید لے تو اتنا روپیہ بچے گا کہ حج کرلے تو (مکان) بیچنا ضروری نہیں مگر ایسا کرے تو افضل ہے ، لہٰذا مکان بیچ کر حج کرنا اور کرایہ کے مکان میں گزر کرنا تو بدرجہ اولی ضرور نہیں ۔ (بہار شریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری)

جس کے پاس سال بهر کے خرچ کا غلہ ہو تو یہ لازم نہیں کہ (غلہ ، اناج) بیچ کر حج کو جائے اور اس (سال بهر کے غلے) سے زائد ہے تو اگر زائد کے بیچنے میں حج کا سامان ہوسکتا ہے تو (حج) فرض ہے ورنہ نہیں ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ لباب المناسک)

دینی کتابیں اگر اہل علم کے پاس ہیں جو اس کے کام میں رہتی ہیں تو انہیں بیچ کر حج کرنا ضروری نہیں اور بے علم کے پاس ہوں اور اتنی ہیں کہ بیچے تو حج کر سکے گا تو اس پر حج فرض ہے ۔ یوہیں طب اور ریاضی وغیرہ کی کتابیں اگرچہ کام میں رہتی ہوں اگر اتنی ہوں کہ بیچ کر حج کر سکتا ہے تو حج فرض ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ فتاویٰ عالمگیری و ردالمحتار)

(8) : وقت : یعنی حج کے مہینوں میں تمام شرائط پائے جائیں اور اگر دور کا رہنے والا ہو تو جس وقت وہاں کے لوگ (حج کےلیے) جاتے ہوں اس وقت شرائط پائے جائیں اور اگر شرائط ایسے وقت پائے گئے کہ اب نہیں پہنچے گا تو (حج) فرض نہ ہوا ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان،چشتی)

سیدی اعلی حضرت امام اهلسنت قدس سرہ العزیز اسی طرح کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : جبکہ زید اپنے ذاتی روپے سے (حج کی) استطاعت رکهتا ہے تو حج اس پر فرض ہے، اور حج فرض میں والدین کی اجازت درکار نہیں بلکہ والدین کو ممانعت کا اختیار نہیں ، زید پر لازم ہے کہ حج کو چلا جائے اگرچہ والدین مانع (منع کرتے) ہوں ، اور والدین پر قرض ہونا اس شخص پر فرضیت میں خلل انداز نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 10 صفحہ 658)

واضح رہے کہ بعض لوگ یوں کہتے بهی سنائی دیتے ہیں کہ اگر لڑکیوں کی شادی نہیں کی تو باپ حج پر نہیں جا سکتا ۔ اسی طرح یہ یہ اختراع بهی ہے کہ اگر والدین نے حج نہیں کیا تو بیٹا بهی حج نہیں کر سکتا ۔ یہ سب جاہلانہ باتیں ہیں ، شریعت مطہرہ میں اس کا کوئی ثبوت یا حکم نہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : آپ نے حج واجب ہونے کے شرائط کا مطالعہ کیا ۔ اب ان شرائط کا ذکر ہوگا وہ پائی جائیں تو خود حج کو جانا ضروری ہے اور سب (شرائط) نہ پائی جائیں تو خود جانا ضروری نہیں بلکہ دوسرے (کو بهیج کر) سے حج کرا سکتا ہے یا وصیت کرجائے مگر اس میں یہ بهی ضروری ہے کہ حج کرانے کے بعد آخر عمر تک خود قادر نہ ہو ورنہ خود بهی (حج) کرنا ضرور ہوگا ۔
وہ شرائط یہ ہیں : ⬇

(1) : راستہ میں امن ہو ۔ یعنی اگر غالب گمان سلامتی ہو تو جانا واجب اور غالب گمان یہ ہو کہ ڈاکے وغیرہ سے جان ضائع ہوجائے گی تو جانا ضرور نہیں ، (حج کےلیے) جانے کے زمانے میں امن ہونا شرط ہے پہلے کی بد امنی قابل لحاظ نہیں ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ ردالمحتار کتاب الحج)

(2) : عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے ، خواہ وہ عورت جوان ہو یا بوڑهیا ۔
محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے ہمیشہ کےلئے اس کا نکاح حرام ہے ، خواہ نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہو، جیسے باپ، بیٹا، بهائی وغیرہ یا دودھ کے رشتہ کی حرمت ہو ، جیسے رضاعی بهائی ، باپ ، بیٹا وغیرہ یا سسرالی رشتہ سے حرمت آئی ، جیسے خسر ، شوہر کا بیٹا وغیرہ ۔
شوہر یا محرم جس کے ساتھ سفر کر سکتی ہے اس کا عاقل بالغ غیر فاسق ہونا شرط ہے ۔ مجنون یا نابالغ یا فاسق کے ساتھ نہیں جاسکتی ...الخ
عورت بغیر محرم یا شوہر کے حج کو گئی تو گنہگار ہوئی، مگر حج کرے گی تو حج ہوجائے گا یعنی فرض ادا ہوجائے گا ۔
عورت کا نہ شوہر ہے ، نہ محرم تو (اس صورت میں) اس پر واجب نہیں کہ حج کے جانے کےلئے نکاح کرلے اور جب محرم ہے تو حج فرض کےلئے محرم کے ساتھ جائے اگرچہ شوہر اجازت نہ دیتا ہو . نفل اور منت کا حج ہو تو شوہر کو منع کرنے کا اختیار ہے ۔ (بہار شریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ الجوهرتہ النیرہ کتاب الحج،چشتی)
(3) : حج پر جانے کے زمانے میں عورت عدت میں نہ ہو، وہ عدت وفات کی ہو یا طلاق کی ، بائن کی ہو یا رجعی کی ۔
(4) : قید میں نہ ہو مگر جب کسی حق کی وجہ سے قید میں ہو اور اس کے ادا کرنے پر قادر ہو تو یہ عذر نہیں اور بادشاہ اگر حج کے جانے سے روکتا ہو تو یہ عذر ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 بحوالہ درمختار و ردالمحتار کتاب الحج)

صحت ادا کی شرائط : ⏬

صحت ادا کےلیے نو ( 9 ) شرطیں ہیں کہ وہ نہ پائی جائیں تو حج صحیح نہیں ۔
(1) اسلام : کافر نے حج کیا تو نہ ہوا ۔
(2) احرام : بغیر احرام حج نہیں ہوسکتا ۔
(3) زمان یعنی حج کےلیے جو زمانہ مقرر ہے اس سے قبل افعال حج نہیں ہوسکتے ۔
(4) مکان : طواف کی جگہ مسجد الحرام شریف ہے اور وقوف کےلئے عرفات و مزدلفہ ، کنکری مارنے کےلئے منی ، قربانی کےلئے حرم ، یعنی جس فعل کےلئے جو جگہ مقرر ہے وہ وہیں ہوگا ۔
(5) تمیز ۔ (6) عقل ۔ جس میں تمیز نہ ہو جیسے ناسمجھ بچہ یا جس میں عقل نہ ہو جیسے مجنون- یہ خود وہ افعال نہیں کرسکتے جن میں نیت کی ضرورت ہے ، مثلاً احرام یا طواف ، بلکہ ان کی طرف کوئی اور کرے اور جس فعل میں نیت شرط نہیں ، جیسے وقوف عرفہ وہ یہ خود کرسکتے ہیں ۔
(7) فرائض حج کا بجا لانا مگر جب کہ عذر ہو ۔
(8) احرام کے اور وقوف سے پہلے جماع نہ ہونا اگر ہوگا حج باطل ہوجائے گا ۔
(9) جس سال احرام باندها اسی سال حج کرنا ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان،چشتی)

حج فرض ادا ہونے کے شرائط ۔ حج فرض ادا ہونے کےلیے نو ( 9 ) شرطیں ہیں : ⬇

(1) اسلام ۔ (2) مرتے وقت تک اسلام ہی پر رہنا . (3) عاقل (ہونا) . (4) بالغ ہونا.
(5) آزاد ہونا ۔ (6) اگر قادر ہو تو خود ادا کرنا ۔ (7) نفل ( نفلی حج ) کی نیت نہ ہوناب ۔ (8) دوسرے کی طرف سے حج کرنے کی نیت نہ ہونا ۔ (9) فاسد نہ کرنا ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان )

حج میں یہ چیزیں فرض ہیں : ⏬

(1) احرام ، کہ یہ شرط ہے.
(2) وقوف عرفہ یعنی *نویں ذی الحجہ کے آفتاب ڈهلنے سے دسویں کی صبح صادق سے پیشتر تک کسی وقت عرفات میں ٹهرنا ۔
(3) طواف زیارت کا اکثر حصہ ، یعنی (کعبہ شریف کے) چار پهیرے پچهلی دونوں چیزیں یعنی وقوف (عرفات) اور طواف رکن ہیں.
(4) نیت ۔ (5) ترتیب یعنی پہلے احرام باندهنا پهر وقوف پهر طواف ۔
(6) ہر فرض کا اپنے وقت پر ہونا ۔ (7) مکان یعنی وقوف زمین عرفات میں ہونا سوا بطن عرنہ ( یہ عرفات کے قریب جگہ ہے جہاں حاجی کا وقوف درست نہیں) کے اور طواف کا مکان (جگہ ) مسجد الحرام شریف ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ درمختار، ردالمحتار کتاب الحج)

حج کے واجبات : ⬇

(1) میقات سے احرام باندهنا، یعنی میقات سے بغیر احرام نہ گزرنا اور اگر میقات سے پہلے ہی احرام باندھ لیا تو جائز ہے.
(2) صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا اس ( دوڑنے کے عمل ) کو *سعی* کہتے ہیں.
(3) سعی کو صفا سے شروع کرنا اور اگر مروہ سے شروع کی تو پہلا پهیرا شمار نہ کیا جائے، اس کا اعادہ کرے ۔
(4) اگر عذر نہ ہو تو پیدل سعی کرنا ۔ تنبیہہ : بعض لوگ بلاعذر صحیح محض آرام سستی و غفلت کیوجہ سے *وہیل چیئر* پر صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں، انہیں خیال رکهنا چاہئے کہ ایسا کرنا واجب کا ترک ہے ، علمائے کرام نے لکها کہ جو بلا عذر سوار ہو کر وہ وہیل چیئر پر ہو یا کسی کے کندهے پر وہ اس کا اعادہ کرے اور اگر اعادہ نہ کیا وطن واپس پہنچ گیا تو ایک قربانی حدود حرم میں دے .
(5) دن میں وقوف کیا تو اتنی دیر تک وقوف کرے کہ آفتاب ڈوب جائے خواہ آفتاب ڈهلتے ہی شروع کیا ہو یا بعد میں، غرض غروب تک وقوف میں مشغول رہے اور اگر رات میں وقوف کیا تو اس کےلئے کسی خاص حد تک وقوف کرنا واجب نہیں مگر وہ اس واجب کا تارک ہوا کہ دن میں غروب تک وقوف کرتا ۔
(6) وقوف میں رات کا کچھ جز (حصہ) آجانا ۔ (7 )عرفات سے واپسی میں امام کی متابعت کرنا ۔ (8) مزدلفہ میں ٹهرنا ۔
نوٹ : مزدلفہ منی سے میدان عرفات کی جانب کم و بیش پانچ کلو میٹر پر واقع ایک میدان کا نام ہے ، اس میدان یعنی مزدلفہ میں حجاج عرفات سے واپسی پر رات بسر کرتے ہیں ۔
ـ9) مغرب و عشا کی نماز وقت عشا میں مزدلفہ میں آکر پڑهنا ۔
(10) تینوں جمروں پر دسویں، گیارہویں، بارہویں (تاریخ) تینوں دن کنکریاں مارنا یعنی دسویں کو صرف ۔ جمرتہ العقبہ پر اور گیارہویں بارهویں کو تینوں (جمروں) پر رمی کرنا ۔

نوٹ : منی میں تین مقامات جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں ، پہلے کا نام جمرتہ العقبی ، دوسرے کو جمرتہ الوسطی اور تیسرے کو جمرتہ الاولی کہتے ہیں، ان کو جمع کے طور پر جمرات کہا جاتا ہے - اور عوام بولی میں بالترتیب بڑا شیطان ، منجهلا شیطان اور چهوٹا شیطان کہا جاتا ہے - ان کو جو کنکریاں ماری جاتی ہیں اس فعل کو رمی کہتے ہیں ۔
(11) جمرہ عقبہ کی رمی پہلے دن حلق سے پہلے ہونا ۔ (12) ہر روز کی رمی کا اسی دن ہونا ۔ (13) سر مونڈانا یا بال کتروانا ۔ (14) اور اس کا ایام نحر اور ۔ (15) حرم شریف میں ہونا اگرچہ منی میں نہ ہو ۔
نوٹ : مرد حضرات قربانی سے فارغ ہو کر حلق یعنی تمام سر کے بال منڈاوا دیں، یا تقصیر یعنی کم از کم چوتهائی سر کے بال انگلی کے پورے برابر کٹوائیں ۔
آج کل یہ بات اکثر دیکهنے کو مل رہی ہے کہ لوگ عمرہ یا حج کے موقع پر قینچی سے چند بال کاٹ لیتے ہیں یہ عمل جائز نہیں ۔ عورتیں صرف " تقصیر " کروائیں ۔ یعنی چوتهائی سر کے بالوں میں سے ہر بال انگلی کے پورے برابر کٹوائیں ۔
(16) حج قران اور تمتع والے کو قربانی کرنا ۔ (بہارشریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ لباب المناسک)
(17) اس قربانی کا حرم اور ایام نحر میں ہونا.
(18) طواف افاضہ کا اکثر حصہ ایام نحر میں ہونا . عرفات سے واپسی کے بعد جو طواف کیا جاتا ہے اس کا نام طواف افاضہ ہے اور اسے طواف زیارت بهی کہتے ہیں ۔
(19) طواف حطیم کے باہر سے ہونا ۔ کعبہ شریف کی دیوار کے پاس آدهے دائرے کی شکل میں باؤنڈری کے اندر کے حصے کو حطیم کہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ حطیم کعبہ شریف کا حصہ ہے، اس میں داخل ہونا عین بیت اللہ شریف میں داخل ہونا ہے - حج و عمرہ میں طواف کے دوران حطیم کے اندر سے نہیں گزریں گے ۔
(20) دہنی طرف سے طواف کرنا یعنی کعبہ معظمہ طواف کرنے والے کی بائیں جانب ہو ۔
(21) عذر نہ ہو تو پاؤں سے چل کر طواف کرنا*، یہاں تک کہ اگر گهسٹتے ہوئے طواف کرنے کی منت مانی جب بهی طواف میں پاؤں سے چلنا لازم ہے اور طواف نفل ( نفلی طواف) اگر گهسٹتے ہوئے شروع تو ہوجائے گا مگر افضل یہ ہے کہ چل کر طواف کرے ۔

(22) طواف کرنے میں نجاست حکمیہ سے پاک ہونا ، یعنی جنب ( جس پر غسل فرض ہے) اور بے وضو نہ ہونا،اگر بے وضو یا جنابت میں طواف کیا تو اعادہ کرے ۔
(23) طواف کرتے وقت ستر چهپا ہونا یعنی اگر ایک عضو کی چوتهائی یا اس سے زیادہ حصہ کهلا رہا تو دم واجب ہوگا اور چند جگہ سے کهلا رہا تو جمع کریں گے ، غرض نماز میں ستر کهلنے سے جہاں نماز فاسد ہوتی ہے یہاں دم واجب ہوگا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (مرد کےلیے) ناف کے نیچے سے گهٹنے تک عورت ہے ۔ (سنن دار قطنی، کتاب الصلوٰہ)
صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکهتے ہیں : مرد کےلئے ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک عورت ہے ، یعنی اس کا چهپانا فرض ہے ۔ ناف اس میں داخل نہیں اور گهٹنے داخل ہیں ، اس زمانہ میں بہتیرے ایسے ہیں کہ تہبند یا پاجامہ اس طرح پہنتے ہیں، کہ پیڑو (ناف کے نیچے کا حصہ) کا کچھ حصہ کهلا رہتا ہے ، اگر کرتے وغیرہ سے اس طرح چهپا ہو کہ جلد کی رنگت نہ چمکے تو خیر ، ورنہ حرام ہے اور نماز میں چوتهائی کی مقدار کهلا رہا تو نماز نہ ہوگی اور بعض بےباک ایسے ہیں کہ لوگوں کے سامنے گهٹنے ، بلکہ ران تک کهولے رہتے ہیں، یہ بهی حرام ہے اور اس کی عادت ہے تو فاسق ہے ۔
آزاد عورتوں اور خنثی مشکل (جس میں مرد و عورت دونوں کی علامات پائی جائیں) کےلیے سارا بدن عورت ہے، سوا منہ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بهی عورت ہیں، ان کا چهپانا بهی فرض ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 3 ، نماز کی شرطوں کا بیان)
(24) طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑهنا، نہ پڑهی تو دم واجب نہیں ۔
(25) کنکریاں پھینکنے اور ذبح اور سر منڈانے اور طواف میں ترتیب یعنی پہلے کنکریاں پهینکے پهر غیر مفرد قربانی کرے پهر سر منڈائے پهر طواف کرے ۔
(26) طواف صدر یعنی میقات سے باہر کے رہنے والوں کےلئے رخصت کا طواف کرنا- اگر حج کرنے والی حیض یا نفاس سے ہے اور طہارت سے پہلے قافلہ روانہ ہوجائے گا تو اس پر طواف رخصت نہیں ۔
(27) وقوف عرفہ کے بعد سر منڈانے تک جماع نہ ہونا ۔
(28) احرام کے ممنوعات مثلاً سلا کپڑ پہننے اور منہ یا سر چهپانے سے بچنا ۔
یاد رکهیے : واجب کے ترک سے دم لازم آتا ہے خواہ قصداً (واجب) ترک کیا ہو یا سہواً خطا کے طور پر ہو یا نسیان کے ، وہ شخص (جس نے واجب ترک کیا) اس کا واجب ہونا جانتا ہو یا نہیں ، ہاں ! اگر قصداً کرے اور جانتا بهی ہے تو گنہگار بهی ہے ۔ مگر واجب کے ترک سے حج باطل نہ ہوگا ، البتہ بعض واجب کا اس حکم سے استثنا ہے کہ ترک کرنے پر دم لازم نہیں ، مثلاً طواف کے بعد کی دونوں رکعتیں یا کسی عذر کی وجہ سے سر نہ منڈانا یا مغرب کی نماز کا عشا تک موخر نہ کرنا یا کسی واجب کا ترک ، ایسے عذر سے ہو جس کو شرع نے معتبر رکها ہو ، یعنی وہاں اجازت دی ہو اور کفارہ ساقط کر دیا ہو ۔ (بہار شریعت حصہ 6 حج کا بیان بحوالہ لباب المناسک)


حج دین اسلام کا پانچواں رکن ہے ۔ اصطلاح شریعت میں اس سے مراد مقررہ دنوں میں مخصوص عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنا ہے ۔ حج بیت اللہ کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی موجودہ جگہ شروع ہی سے بنی نوع انسان کا مر کز چلی آ رہی ہے ، کیونکہ اس مقدس مقام کو آنے والی نسلوں کےلیے تہذیب و ثقافت اور علم و عرفان کا گہوارہ بننا تھا ۔ حج دین اسلام کا پانچواں رکن ہے ، جس کے لفظی معنی ہیں ’ قصد کرنا ، کسی جگہ ارادے سے جانا ‘ جبکہ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد مقررہ دنوں میں مخصوص عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنا ہے ۔ (ابن منظور افريقی لسان العرب 3 : 52)

حج کے مقررہ دنوں کے علاوہ بھی کسی وقت مخصوص عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنے کو عمرہ کہتے ہیں ۔ اصطلاحِ شریعت میں عمرہ سے مراد شرائطِ مخصوصہ اور افعالِ خاصہ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی زیارت کرنا ہے ۔ (الجزيری، الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 : 1121)

وہ آخری مقام جہاں سے حج یا عمرہ کا ارادہ کرنے والے کا احرام کے بغیر آگے بڑھنا جائز نہیں ، میقات کہلاتا ہے ۔

حدودِ حرم سے پہلے جن مقامات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطور میقات مقرر فرمایا وہ پانچ ہیں ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اہل مدینہ کےلیے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحُلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جُحفہ ہے اور اہل عراق کےلیے احرام باندھنے کی جگہ ذاتِ عرق ہے ، اہل نجد کےلیے قرن المنازل ہے اور اہل یمن کےلیے یَلَمْلَمْ ہے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب مواقيت الحج و العمره، 2 : 841، رقم : 1183،چشتی)

پاکستانیوں کا میقات یَلَمْلَمْ ہے ، جہاں اہلِ پاکستان احرام باندھتے ہیں ، جو جدہ سے پہلے آتا ہے ۔

حدودِ حرم کے باہر چاروں طرف جو زمین میقات تک ہے ، اسے حِلّ کہتے ہیں اور جو شخص زمین حِلّ کا رہنے والا ہو اسے حِلّی کہتے ہیں ۔ اس جگہ وہ تمام چیزیں حلال ہیں جو حرم میں احتراماً منع ہیں ۔

مکہ معظمہ کے اردگرد کئی کوس تک زمین کو حرم کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔ ہر طرف حدود پر نشانات لگے ہوئے ہیں ، ان حدود کے اندر شکار کھیلنا ، وحشی جانوروں حتیٰ کہ جنگلی کبوتروں کو تکلیف و ایذا دینا، جانوروں کو گھاس چرانا بلکہ تر گھاس اکھیڑنا بھی حرام ہے۔ مکہ مکرمہ ، منیٰ ، مزدلفہ سب حدودِ حرم ہیں ، البتہ عرفات داخلِ حرم نہیں ۔

وہ شخص جو حج کی نیت سے حدود میقات کے باہر سے آئے ، مثلاً یمنی ، پاکستانی ، بھارتی ، مصری ، شامی ، عراقی اور ایرانی وغیرہ کو آفاقی کہتے ہیں ۔ یہ بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہو سکتا ۔

حج یا عمرہ کی باقاعدہ نیت کر کے جو لباس پہنا جاتا ہے اسے احرام کہتے ہیں ۔ اس کے بغیر آدمی میقات سے نہیں گزر سکتا ۔ یعنی ایک چادر نئی یا دھلی ہوئی اوڑھنے کےلیے اور ایسا ہی ایک تہہ بند کمر پر لپیٹنے کےلیے ۔ اس کے پہننے کے بعد بعض حلال چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں ۔

تلبیہ وہ مخصوص ورد ہے جو حج اور عمرہ کے دوران حالت احرام میں کیا جاتا ہے۔ تلبیہ کے کلمات یہ ہیں : لَبَّيکَ اَللّٰهمَّ! لَبَّيک، لَبَّيک لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَة لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب التلبية، وصفتها ووقتها، 2 : 841، رقم : 1184،چشتی)(ترمذی، السنن، ابواب الحج، باب ما جاء فی التلبية، 2 : 176-177، رقم : 825)
’’اے اللہ میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں ۔ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ میں حاضر ہوں ۔ تعریف ، نعمت اور بادشاہی تیری ہی ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘

احرام کےلیے ایک مرتبہ زبان سے تلبیہ کہنا ضروری ہے اور نیت شرط ہے ۔ الفاظِ نیت یہ ہیں : اَللّٰهمَّ إِنِّی أُرِيدُ الْحَجَّ يا أُرِيدُ الْعُمْرَة فَيسِّرْه لِیْ يا فَيسِرَها لِی وَتَقَبَّلْه مِنِّی ۔
’’ اے اللہ ! میں حج یا عمرہ کی نیت کرتا ہوں ، پس اس کو میرے لیے آسان کر دے اور مجھ سے قبول کر لے ۔‘‘

مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے اردگرد بطریقِ خاص چکر لگانے کا نام طواف ہے ۔ جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے اسے مطاف کہتے ہیں ۔ طواف حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور وہیں ختم ہوتا ہے ۔

مکۃ المکرمہ میں داخل ہونے کے بعد جو پہلا طواف کیا جاتا ہے ۔ اسے طوافِ قدوم کہتے ہیں ، یہ طواف ہر اس آفاقی کےلیے مسنون ہے جو حج اِفراد یا قِران کی نیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہو ۔

طوافِ زیارت حج کا رُکن ہے ، چونکہ یہ قربانی ، حلق و تقصیر اور اِحرام کھولنے کے بعد عام لباس میں کیا جاتا ہے ، اس لیے اس طواف میں اضطباع نہیں ۔ یہ طواف 10 ذوالحجہ کی صبح صادق سے لے کر 12 ذوالحجہ غروبِ آفتاب سے پہلے تک ہو سکتا ہے ۔ البتہ 10 ذوالحجہ کو کرنا احسن ہے ۔ طوافِ زیارت کرنے کے بعد احرام کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں ۔

بیت اللہ سے واپسی کے وقت طواف کرنا ، طوافِ وداع کہلاتا ہے ۔ اس میں نہ رمل ہے نہ سعی اور نہ ہی اضطباع ۔ یہ آفاقی پر واجب ہے ۔

وہ طواف جو کوئی بھی عاقل شخص مکہ میں قیام کے دوران وقت کی پابندی کیے بغیر کسی بھی وقت ایک یا ایک سے زائد بار کر سکتا ہے نفلی طواف کہلاتا ہے ۔ اس طواف میں رمل اور اضطباع نہیں کیا جاتا اور نہ ہی احرام باندھنے کی پابندی ہوتی ہے ۔ آفاقی یعنی مسافر کےلیے نفل نماز سے نفل طواف افضل ہے اور اہل مکہ کےلیے طواف سے نماز افضل ہے ، مکہ والوں کےلیے یہ حکم فقط موسم حج کےلیے ہے تاکہ آفاقیوں کےلیے جگہ تنگ نہ ہو ورنہ نفل طواف بہتر ہے ۔

طواف شروع کرنے سے پہلے چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کنارے بائیں کندھے پر اس طرح ڈال دینا کہ دایاں شانہ کھلا رہے ، اضطباع کہلاتا ہے ۔ حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اضطباع کی حالت میں طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چادر مبارک تھی‘‘۔ پھر کعبہ کی طرف منہ کر کے اپنی دائیں جانب حجرِ اسود کی طرف چلیں، یہاں تک کہ حجر اسود بالکل سامنے ہو جائے۔ اس کے بعد طواف کی نیت کرے ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء أن النبی صلی الله عليه وآله وسلم طاف مضطبعًا، 3 : 214، رقم : 859)

طواف کے پہلے تین پھیروں میں تیز قدم اٹھانے اور شانے ہلانے کو رمل کہتے ہیں ، جیسا کہ قوی اور بہادر لوگ چلتے ہیں ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بیت اللہ کا طواف فرماتے تو تین مرتبہ رمل فرماتے اور چار مرتبہ چلتے ۔ (ابن ماجه ، السنن، کتاب المناسک، باب الرمل حول البيت، 3 : 441، رقم : 2951،چشتی)

دونوں ہاتھوں کے درمیان منہ رکھ کر حجر اسود کو بوسہ دینا اور اگر بھیڑ کی وجہ سے ممکن نہ ہو تو ہاتھ یا لکڑی سے چھو کر چوم لینے کا اشارہ کر کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو استلام کہتے ہیں ۔

حضرت زبیر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا استلام کرتے اور بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ (بخاری الصحيح کتاب الحج، باب تقبيل الحجر، 2 : 583، رقم : 1532)

احرام کے ساتھ طواف و سعی کے مجموعہ کا نام عمرہ ہے ۔ یہ طواف عمرہ کرنے والوں پر فرض ہے ۔ اس طواف میں اضطباع ، رمل اور اس کے بعد سعی بھی ہے ۔

صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی طرف جانا اور آنا اور مِیْلَیْن اخضَرَیْن کے درمیان سات مرتبہ دوڑنا سعی کہلاتا ہے ۔

آٹھ 8 ذوالحجہ کو حج کی عبادات کا آغاز ہوتا ہے ، اسے ’’یوم التّرویہ‘‘ کہتے ہیں ۔

نو 9 ذوالحجہ کو میدان عرفات میں حج ہوتا ہے، اسی نسبت سے اس دن کو یومِ عرفہ کہتے ہیں ۔

دس 10 ذوالحجہ کو ، جس دن قربانی کی جاتی ہے ، اسے یومِ نحر کہتے ہیں ۔

نو 9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصر تک کے ایّام ، ایامِ تشریق کہلاتے ہیں ۔ ان دنوں میں ہر فرض نماز باجماعت پڑھنے کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھی جاتی ہے ، تکبیر تشریق یہ ہے : الله اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَرُ لَا اِلٰه اِلَّا اللهُ وَاللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْد ۔

نو 9 ذوالحجہ کو عرفات میں ٹھہرنا ، خشیتِ الٰہی اور خالص نیت سے ذکر ، لبیک ، دعا ، درود و سلام ، استغفار میں مشغول رہنا ، نماز ظہر و عصر ادا کرنا اور نماز سے فراغت کے بعد بالخصوص غروبِ آفتاب تک دعا میں اپنا وقت گزارنے کو وقوف عرفہ کہتے ہیں ۔

منیٰ میں واقع تین جمرات (یعنی شیاطین) پر کنکریاں مارنے کو رَمِیْ کہتے ہیں ۔ ان میں سے پہلے کا نام جمرۃ الاخریٰ یا جمرۃ العقبہ ہے ۔ اسے عوام الناس بڑا شیطان کہتے ہیں ۔ دوسرے کو جمرۃ الوسطیٰ (منجھلا شیطان) اور تیسرے کو جمرۃ الاولیٰ (چھوٹا شیطان) کہتے ہیں ۔

وہ جانور جسے حج یا عمرہ کرنے والا اپنی طرف سے قربانی کےلیے وقف کرے اسے ھَدِی کہتے ہیں ۔

رمی سے فارغ ہو کر قربانی کے بعد قبلہ رو بیٹھ کر حاجی کےلیے سارا سر منڈانا حلق کہلاتا ہے ۔ حلق کروانا افضل ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَللَّهمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الحج، باب الحلق والتقصير عند الإحلال، 2 : 617، رقم : 1641،چشتی)
’’اے اللہ سر منڈانے والوں کو بخش دے۔‘‘

رمی سے فارغ ہو کر قربانی کے بعد سر منڈانے کی بجائے بالوں کو کتروانے یعنی بال چھوٹے کرانے کی بھی اجازت ہے ، یہ عمل تقصیر کہلاتا ہے ۔ لیکن حلق ، تقصیر کی نسبت زیادہ افضل ہے ۔ خواتین پر حلق اور قصر دونوں نہیں ، بلکہ وہ انگلی کی ایک پور کے برابر بال کتروائیں ۔

کعبہ یا بیت اللہ مقاماتِ حج میں سے سب سے عظیم مقام ہے ۔ اسی کا حج اور طواف کیا جاتا ہے اور وہ مسجد جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ گھر واقع ہے ، اسے مسجدِ حرام کہتے ہیں ۔

کعبۃ اللہ کے چار رُکن ہیں : ⬇

رکنِ اَسود : یہ حرمِ کعبہ کا جنوب مشرقی کونہ ہے، جہاں حجر اسود نصب ہے ۔
رکنِ عراقی : یہ حرم کعبہ کا شمال مشرقی کونہ ہے ، جہاں بابِ کعبہ ہے ، جو اپنی دو رکنوں کے درمیان کی شرقی دیوار میں زمین سے بہت بلند ہے ۔
رکنِ شامی : یہ بیت اللہ کا شمال مغربی کونہ ہے ۔ یہاں حجرِ اسود کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں تو بیت المقدس سامنے ہو گا ۔
رکنِ یمانی : یہ بیت اللہ کا جنوب مغربی کونہ ہے ، جو کہ یمن کی سمت واقع ہے ۔

حجرِ اسود : یہ ایک جنتی پتھر ہے ، جو خانہ کعبہ میں نصب ہے ۔ حدیثِ مبارکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نَزَل الْحَجرُ الْاَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّة وَهوَ اَشَدُّ بَياضًا مِنَ اللَّبْنِ فَسَوَّدَتْه خَطَايا بَنِی آدَمُ ۔ (ترمذی، السنن، ابواب الحج، باب ماجاء فی فضل الحجر الاسود و الرکن و المقام، 2 : 216-215، رقم : 877،چشتی)
’’حجر اسود جنت سے اترا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا، ابن آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا۔‘‘

حجرِ اسود خانہ کعبہ کے طواف کے شروع اور ختم کرنے کےلیے ایک نشان کا کام دیتا ہے ۔

مشرقی دیوار کا وہ ٹکڑا جو رکنِ اسود سے بابِ خانہ کعبہ تک ہے ۔ ملتزم کہلاتا ہے ۔ طواف کے بعد مقام ابراہیم پر نماز و دعا سے فارغ ہو کر حاجی یہاں آ کر اس سے لپٹتے ، اپنا سینہ و رخسار اس پر رکھتے ہوئے اور ہاتھ اونچے کر کے دیوار پر پھیلاتے ہوئے دعا کرتے ہیں ۔

سونے کا پرنالہ جو رکنِ عراقی اور رکنِ شامی کی درمیانی دیوار کی چھت پر نصب ہے ۔ اسے خانہ کعبہ کا پرنالہ یعنی میزابِ رحمت کہا جاتا ہے ۔

بیت اللہ شریف کی شمالی دیوار کی طرف زمین کا ایک حصہ ، جس کے ارد گرد قوسی کمان کے انداز کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا دی گئی ہے ، اُسے حطیم کہتے ہیں ۔ اس کے دونوں طرف آمد و رفت کا دروازہ ہے ۔ اس حصہ زمین کو طواف میں شامل کرنا واجب ہے ۔

رکنِ یمانی و شامی کے درمیان غربی دیوار کا وہ ٹکڑا جو ملتزم کے مقابل ہے ، مستجار کہلاتا ہے ۔

رکنِ یمانی اور رکن اَسود کے درمیان جنوبی دیوار ہے ۔ یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لئے مقرر ہیں ۔ اس لیے اس کا نام مستجاب رکھا گیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وُکِّلَ بِه يعنی بِالرُّکْنِ الْيمَانِي سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ فَمَنْ قَالَ : اللَّهمَّ إِنِّی أَسأَلُکَ الْعَفْوَ (والعافية) فِی الدُّنْيا وَالآخِرَة، رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَة وَفِی الْآخِرَة حَسَنَة وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، قَالُوْا : آمين ۔ (ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 5 : 110، رقم : 7332،چشتی)
’’رکن یمانی پر ستر ہزار فرشتے تعینات ہیں، پس جو کوئی بھی وہاں یہ دعا پڑھتا ہے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ،‘‘ تو وہ آمین کہتے ہیں۔‘‘

مقامِ ابراہیم علیہ السلام دروازہ کعبہ کے سامنے ایک قبہ میں وہ مقدس پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کی ۔ آپ کے قدم مبارک کا اس پر نشان پڑ گیا جو اب تک موجود ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيتَ مَثَابَة لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهيمَ مُصَلًّی ۔ (البقرة، 2 : 125)
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کےلیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا ، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو۔‘‘

آب زمزم مکہ معظمہ کا وہ کنواں ہے جس کا پانی پینا ثواب اور بہت سی بیماریوں کےلیے باعث شفا ہے ۔

باب الصّفا مسجد حرام کے جنوبی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے ۔

باب السّلام مسجد حرام کا ایک دروازہ ہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی دروازے سے مسجد حرام میں داخل ہوئے تھے ۔ اس کا نام اب ’’باب الفتح‘‘ رکھ دیا گیا ہے ۔

کعبۃ اللہ سے جنوب کی سمت ایک پہاڑی ہے ، جہاں سے سعی شروع ہوتی ہے ، اسے صفا کہتے ہیں ۔ یہ پہاڑی تعمیری اضافہ جات کے باعث اب زمین میں چھپ گئی ہے اور اب وہاں قبلہ رخ ایک دالان (برآمدہ) سا بنا ہے اور اوپر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں بھی ہیں ۔

کعبہ کے قریب شمال مشرق کی سمت ایک پہاڑی ہے ، جہاں سعی ختم ہوتی ہے ، اسے مروہ کہتے ہیں ۔ یہ بھی تعمیری اضافہ جات کے باعث اب زمین میں چھپ چکی ہے ۔ یہاں بھی اب قبلہ رخ دالان اور سیڑھیاں ہیں ۔ صفا سے مروہ کو جاتے ہوئے بائیں ہاتھ مسجد حرام کا احاطہ ہے ۔

دو سبز ستون جو حرمین شریفین میں صفا و مروہ کے درمیان نصب ہیں ، انہیں میلین اخضرین کہتے ہیں ، ان کے درمیان صفا و مروہ کی سعی کرتے ہوئے دوڑ کر گزرنا پسندیدہ ہے ۔ نشانی کے طور پر وہاں سبز رنگ کی ٹیوب لائٹس شب و روز روشن رہتی ہیں ۔

صفا و مروہ کے مابین سعی کرنے کی جگہ یعنی وہ فاصلہ جو ان دونوں نشانوں کے درمیان ہے مَسعیٰ کہلاتا ہے ۔

تنعیم وہ مقام ہے ، جہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے احرام باندھا تھا ۔ اسے مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ مسجد حرم پاک سے باہر ہے اور مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران عمرے کےلیے وہاں سے احرام باندھا جاتا ہے ۔

ذُوالحُلَیْفَہ : یہ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ کی طرف 10 کلومیٹر دور ایک مقام ہے، جو اہل مدینہ کا میقات ہے ۔

ذاتِ عرق : یہ عراق سے آنے والوں کےلیے میقات ہے اور مکہ سے تقریبًا تین دن کی مسافت پر عراق کی طرف ہے ۔

جُحفہ : یہ اہل شام و اہل مصر کا میقات ہے اور مکہ مکرمہ سے تقریباً 180 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔

قَرنُ الْمَنازِل : یہ نجد کی طرف سے آنے والوں کےلیے میقات ہے ۔

میدانِ عرفات ایک بہت بڑا میدان ہے ، جو منیٰ سے تقریبًا 11 کلو میٹر دور ہے ۔ یہاں پر حج کا خطبہ دیا جاتا ہے ۔ یہ اُس یادگار ملاقات کی علامت بھی ہے ، جو حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیھا السلام کے درمیان جنت سے نکالے جانے اور طویل عرصہ کی جدائی کے بعد اس میدان میں ہوئی ، جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ۔ اس پہچان کی وجہ سے اس کو میدانِ عرفات کہا جاتا ہے ۔ اس میدان کی حدود چاروں طرف سے متعین ہیں اور اب حکومت سعودیہ نے ان حدود پر نشانات لگوا دیے ہیں ۔ تاکہ وقوف عرفات جو حج کا رکن اعظم ہے، اس سے باہر نہ ہو ۔

عرفات میں وہ جگہ جہاں نماز کے بعد غروب آفتاب تک کھڑے ہو کر ذکر و دعا کرنے کا حکم ہے ، مَوقِف کہلاتا ہے ۔

بطنِ عرفہ : یہ عرفات کے قریب ایک جنگل ہے ۔ یہاں وقوف جائز نہیں ۔ یہاں قیام یا وقوف کیا تو حج ادا نہ ہوگا ۔ سعودی حکومت نے اس کی حدود پر نشانات لگوا دیئے ہیں تاکہ وقوف عرفات اس کے اندر نہ ہو ۔

مسجدِ نَمرہ : میدانِ عرفات کے بالکل کنارے پر ایک عظیم مسجد ہے ، جسے مسجد نمرہ کہتے ہیں ، اس کا کچھ حصہ عرفات کے اندر اور کچھ حصہ عرفات سے خارج ہے ۔ اس حصہ میں بڑے بڑے بورڈ لگا دیئے ہیں ۔ تاکہ کوئی شخص مسجد کے اس حصے میں قیام نہ کرے ۔ کیونکہ اس حصے میں قیام کرنا وقوف عرفات کےلیے کافی نہیں ۔ حج کا خطبہ اسی مسجد میں دیا جاتا ہے ۔ اسے مسجد ابراہیم بھی کہتے ہیں ۔

جبلِ رحمت عرفات کا ایک پہاڑ ہے ۔ یہ زمین سے تقریبًا تین سو فٹ اونچا اور سطح سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہے ، اسے موقفِ اعظم بھی کہتے ہیں ۔ اسی کے قریب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقوف فرمایا ۔

مزدلفہ : عرفات اور منیٰ کے درمیان ایک کشادہ میدان ہے ، اسے مزدلفہ کہتے ہیں ۔ عرفات سے تقریبًا تین میل دور ہے ۔ یہاں سے منیٰ کا فاصلہ بھی تقریباً اتنا ہی ہے ۔

ماذمین : عرفات اور مزدلفہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ راستہ ہے، جو ماذمین کہلاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرفات سے مزدلفہ اسی راستے تشریف لائے تھے ۔

مَشْعَرِ حرام اس خاص مقام کا نام ہے جو مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے اور خود سارے مزدلفہ کو بھی مشعر حرام کہتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۔ (البقرة، 2 : 198)
’’پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اللہ کا ذکر کیا کرو۔‘‘

مزدلفہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقوف کی جگہ گنبد بنا دیا گیا تھا ، آج کل یہاں ایک مسجد ہے ، جسے مسجد مشعر حرام کہا جاتا ہے ۔ مزدلفہ کا پہاڑ جبل قزح مشعر حرام ہے ۔

وادی مُحَسَّرْ : مُحَسَّرْ وہ وادی ہے جہاں اصحاب فیل پر عذاب الٰہی نازل ہوا تھا اور وہ مکہ مکرمہ کی طرف آگے نہ بڑھ سکے اور سب ہلاک ہو گئے ، جس کا سورہِ فیل میں ذکر ہے ۔

مِنٰی : منیٰ ایک وسیع اور کشادہ میدان ہے ، جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے ۔ مزدلفہ سے یہاں آ کر رمی جمار اور قربانی جیسے افعال ادا کئے جاتے ہیں ۔

مسجد خیف : مسجد خیف منیٰ کی مشہور اور بڑی مسجد کا نام ہے ۔ خیف وادی کو کہتے ہیں، اس پر ہشت پہلو قبہ ہے ، اس قبہ کی جگہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں بہت سے انبیاۓ کرام علیہم السّلام نے نمازیں ادا فرمائی ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسجدِ خیف میں ستر انبیاء علیہم السلام نے نماز ادا کی ۔ (حاکم، المستدرک، 2 : 653، رقم : 4169،چشتی)

مسجد کبش اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کےلیے اپنے لخت جگر کو لٹایا تھا اور کبش یعنی دنبہ ذبح فرمایا تھا ۔

جنت معلّٰی مکہ مکرمہ کا وہ تاریخی قبرستان ہے جہاں چھ ہزار جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبریں ہیں ۔ یہ منیٰ کے راستہ میں مسجد الحرام سے تقریباً ایک میل دور شمال مشرق میں واقع ہے ۔ یہ قبرستان مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کے علاوہ دنیا کے تمام قبرستانوں سے افضل ہے ۔
قبرستان کو اب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ درمیان میں سڑک ہے ۔ پرانے حصے میں ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک ہے ۔ پہلے کبھی قبر مبارک پر گنبد تھا جو اب گرا دیا گیا ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ تابعین اور بہت سے اولیائے کاملین و صالحین علیہم الرحمہ یہاں آرام فرما ہیں ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما، حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا جناب عبد المطلب، چچا جناب ابوطالب، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادگان حضرت قاسم، حضرت طاہر اور حضرت طیب رضی اللہ علہیم اجمعین کے مزارات بھی یہیں ہیں ۔

جنت البقیع مدینہ منورہ کا عظیم قبرستان ہے، جو مسجد نبوی کی مشرقی سمت میں ہے، باب جبریل سے نکل کر سڑک پر آئیں تو سامنے جنت البقیع کا احاطہ نظر آتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہاں دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آرام فرما ہیں اور تابعین، تبع تابعین اور اولیاء و علماء و صلحاء وغیرھم بھی بے شمار ہیں۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بقیع کے شمال مشرقی گوشہ کے قریب مدفون ہیں۔ یہیں پر ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک ہے۔ اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دیگر امہات المومنین اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تینوں صاحبزادیاں حضرت زینب رضی اللہ عنہا، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ النساء حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ اسی مقامِ ادب پر محوِ استراحت ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہما، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھیوں کے مزارات بھی بقیع کے احاطہ میں ہیں۔ بقیع کی مشرقی دیوار سے باہر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کے مزارات ہیں۔
حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت اسد بن زرارۃ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات بھی یہیں ہیں۔
شیخ القرآء امام نافع اور امام مالک رضی اللہ عنہ بھی یہیں مدفون ہیں۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے مزار بھی احاطہ میں موجود ہیں جو جنگ احد میں زخمی ہوئے اور مدینہ منورہ میں آ کر وفات پا گئے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر جنت البقیع تشریف لے جاتے اور اہل بقیع کے لئے مغفرت کی دعا فرماتے۔ مسجد نبوی اور روضہ اطہر کی حاضری کے بعد پہلی فرصت میں جنت البقیع کی زیارت کرنی چاہئے۔

جمار : منیٰ کے میدان میں پتھر کے تین بڑے ستون نصب ہیں، جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں جمار کہلاتے ہیں۔ ان میں سے منیٰ سے مکہ کی طرف جائیں تو پہلے کا نام جمرہ اولیٰ، دوسرے کا نام جمرہ وسطی اور تیسرے کا نام جمرہ عقبہ ہے۔

جبل النور وہ عزت و عظمت والا پہاڑ ہے جس پر غارِ حرا ہے۔ اعلانِ نبوت سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی غارِ حرا میں مصروف عبادت رہا کرتے تھے۔ قرآنِ حکیم کی پہلی وحی بھی اسی غارِ حرا میں نازل ہوئی۔ گویا پہلی وحی کے نزول کی یہی جگہ ہے۔ اس پر چڑھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔

جبل ثور مکہ مکرمہ سے تقریبًا ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر وہ تاریخی پہاڑ ہے جس کی چوٹی کے قریب واقع ایک غار میں ہجرت کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیق سفر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین دن قیام فرمایا۔ اس پہاڑ کی بلندی تقریبًا سوا دو کلومیٹر ہے۔(ماخوذ : فتایٰ رضویہ ۔ بہار شریعت ۔ فتاویٰ قاضی خان ۔ فتایٰ عالمگیری)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے کسی آدمی نے پوچھا : بیت اللہ کا طواف کب سے ہو رہا ہے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کے بارے میں اطلاع دی تو انہوں نے عرض کیا : ہم آپ کی تسبیح و تقدیس کرنے والے ہیں اور آپ ایسے بشر کو خلیفہ بنا رہے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ فرشتوں کو اپنی عرض پر نہایت ہی شرمندگی ہوئی ، انہوں نے حالت زاری اور تضرع میں عرش الٰہی کا تین دفعہ طواف کیا، اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے عرش کے نیچے بیت المعمور بنا کر فرمایا : تم اس کا طواف کیا کرو۔ ہر روز ستر ہزار فرشتے بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں اور ایک دفعہ طواف کرنے والے دوبارہ نہیں آتے ۔ اس کے بعد فرشتوں سے فرمایا : أَبْنُوْا لِیْ بَيتًا فِی الْأَرْضِ بِمِثَالِه وَقَدْرِه ۔
ترجمہ : اسی کی مثل و مقدار کے مطابق زمین پر میرا گھر بناؤ ۔

جب گھر بن گیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین پر رہنے والی مخلوق کو حکم دیا : أَنْ يطُوْفُوْا بِهذَا الْبَيتِ کَمَا يطُوْفَ أَهلَ السَّمَآءِ بِالْبَيتِ الُمَعْمُوْرِ ۔ (ازرقی، اخبار مکة، 1 : 34،چشتی)
ترجمہ : تم اس گھر کا اسی طرح طواف کرو جیسے آسمان والے بیت المعمور کا کرتے ہیں ۔

پھر جب سیدنا آدم اور حضرت حوا علیہما السلام زمین پر آئے تو حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا : مولا میں اس لذت و سرور سے محروم ہو گیا ہوں جو فرشتوں کے ساتھ بیت المعمور کے طواف میں آیا کرتا تھا۔ کاش! ہمیں پھر وہاں لوٹا دیا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا : اے آدم ! اِبْنِ لِي بَيتًا بِحِذَاءِ بَيتِی الَّذِی فِی السَّمَآءِ، تَتَعَبَّدُ فِيه اَنْتَ وَوَلَدُکَ کَمَا تَتَعَبَّدُ مَلائِکَتِی حَوْلَ عَرْشِیْ ۔ (الصالحی، سبل الهدی والرشاد، 1 : 147،چشتی)
ترجمہ : تم اسی آسمانی گھر (بیت المعمور) کے مقابل زمین پر میرا گھر بناؤ اور اس میں تم اور تمہاری اولاد اسی طرح عبادت کرو جیسے ملائکہ میرے عرش کے ارد گرد کرتے ہیں ۔

پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دور آیا۔ تو آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے حکم الٰہی کے مطابق قدیم بنیادوں پر ہی دوبارہ تعمیر کی۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ۔ (سورہ آل عمران، 3 : 96) ” بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کےلیے بنایا گیا ، وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہے ۔

جب تعمیر مکمل ہوئی تو حکم ہوا کہ تمام جہاں والوں کو اللہ کے گھر میں آنے کی دعوت دیں۔ اس دعوت کا ذکر قرآن حکیم میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے : وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۔ (سورہ الحج، 22 : 27) ’’ اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیغمبرانہ دعوت کے نتیجہ میں حرم کعبہ کی تعمیر کے بعد پہلے حج کا آغاز ہوا۔ آپ علیہ السلام نے حضرت جبریل امین علیہ السلام کی رہنمائی میں سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور قبیلہ جرہم کے جو لوگ وہاں موجود تھے ان سب کی معیت میں ارکان حج ادا کیے۔ سب سے پہلے آپ نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا۔ پھر صفا، مروہ کے درمیان سعی کی۔ بعد ازاں منیٰ تشریف لے گئے، وہاں تین جگہ شیطان نظر آیا تو آپ نے تکبیر کے ساتھ اسے سات، سات کنکریاں ماریں۔ آپ چلتے چلتے میدان عرفات پہنچ گئے، رات وہاں قیام کیا اور صبح وہاں سے منیٰ تشریف لے گئے اور جن تین مقامات پر شیطان دکھائی دیا تھا، وہاں رمی کی۔ منیٰ قیام کیا، پھر مناسک حج سے فراغت کے بعد آپ اپنے وطن ملک شام تشریف لے گئے۔

تاریخی تناظر میں حج کے پس منظر کا جائزہ لیں تو آج ہمیں حج کی وہ ارتقائی شکل نظر آتی ہے جو فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت و سربراہی میں ادا کیا گیا تھا ۔ 9 ہجری کا حج دو طریقوں سے ادا کیا گیا ۔ کفار و مشرکین جو اس موقع پر موجود تھے ، انہوں نے قدیم آبائی طریقے سے حج کی رسوم ادا کیں، جبکہ مسلمانوں نے اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر مناسکِ حج ادا کیے ۔ اس طرح سب سے پہلی مقدس عمارت جو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کےلیے تعمیر کی گئی اور انسانیت کےلیے رشد و ہدایت کا مرکز اولیں قرار پائی ، قرآن حکیم کی نص قطعی کے مطابق کعبۃ اللہ ہے جس کی تعمیر اوّل حضرت آدم علیہ السلام نے کی ۔ بعد ازاں جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے حکم الٰہی کے مطابق قدیم بنیادوں پر ہی اس کی دوبارہ تعمیر کی ۔

زمین پر ورودِ آدم علیہ السلام کے بعد سرزمین مکہ کو بنی نوع انسان کی ہدایت کا نہ صرف پہلا مرکز ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ بلکہ اس مقام کو عالمگیر دعوت و تبلیغ اسلام کے مرکز اور نقطۂ آغاز کے طور پر منتخب کر لیا گیا اور جس دینِ حنیف کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمینِ کعبہ میں رکھی، خاتم الانبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بعد اس کی تکمیل ہو گئی۔ گویا وہ بیج جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بِوَادٍ غَیرِ ذِیْ زَرعٍ (مکہ کی بے آب و گیاہ وادی) میں بویا تھا، صدیوں بعد نمو پا کر ایک شجر سایہ دار کی صورت سارے عالم پر سایہ فگن ہو گیا ۔ سلسلہ حج کا باقاعدہ آغاز بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی تین ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد تک جاری رہا اور تا قیامت جاری رہے گا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد بیت اللہ شریف کی پہلی تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ اکثر مناسک یعنی ارکان حج اور دیگر شرائط سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے منسوب ہیں۔ پھر آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض ترامیم کے ساتھ حج کا طریقہ کار مقرر فرما دیا ۔

حج کے مناسک و ارکان اور فرائض و سنن کی بجا آوری میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو مرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اس کے درج ذیل اسباب ہیں : ⬇

پہلا سبب : موجودہ تاریخ جو کم و بیش ساڑھے چار ہزار سال پرانی ہے، کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دورِ نبوت سے ہوا۔ اس سے قبل کا دور واقعات کا محفوظ ریکارڈ نہ ہونے کی بنا پر قبل از تاریخ دور کہلاتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک کے اَدوار کے بارے میں ہماری معلومات کا ذریعہ کتب سماویہ اور صحائف الٰہیہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ تاہم یہ بات مدنظر رہے کہ قدیم واقعات کی معلومات کا ذریعہ مقدس آسمانی کتابیں۔ انجیل اور توریت ہیں۔ جو کہ اب تحریف و اضافہ کے باعث صحیح اور ثقہ نہیں رہیں۔ ان میں اتنے تضادات ہیں کہ کسی واقعہ کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں ان سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ بنا بریں اب ہمارے پاس قدیم واقعات کی صحت جانچنے کا ماخذ و ذریعہ صرف قرآن حکیم اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ ہیں۔ چونکہ بعثتِ ابراہیمی علیہ السلام سے قبل ادوار کے واقعات مؤرخین اور تاریخ دانوں کی نظر سے اوجھل ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد کی تاریخ ہے۔ اس لیے یہ کہنا برحق ہے کہ موجودہ تاریخ عالم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت مسلمہ طور پر مرکزی و بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور اس سے پہلے کا دور تاریخی اعتبار سے پردۂ اخفا میں ہے ۔

دوسرا سبب : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مرکزی حیثیت کا دوسرا اہم سبب آپ کا جدالانبیاء ہونا ہے۔ تاریخ ادیان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام تھے جن سے حضرت یعقوب علیہ السلام متولد ہوئے۔ ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام تھے، جن کا قصہ قرآن حکیم میں خاص طور پر مذکور ہے۔ ان سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام سلسلہ انبیاء کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا، جس کے معنی ہیں ’اللہ کا بندہ‘۔ اس بنا پر آپ کی نسل بنی اسرائیل کے نام سے موسوم ہوئی۔ بنی اسرائیل میں سے پے در پے بہت بڑی تعداد میں انبیاء کرام مبعوث ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے، جن کی نسل سے خاتم الانبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا گیا ۔

تیسرا سبب : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مرکزی حیثیت کا تیسرا بنیادی سبب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدِ امجد ہونے کا شرف و اعزاز ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے فخریہ انداز سے ان کا ذکر ’اَبِي اِبْرَاہِیْم‘ کہہ کر فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کو ابراہیمی دعاؤں اور بشارتوں کا حاصل قرار دیا ہے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی دعاؤں میں بارگاہِ ایزدی میں التجا کرتے نظر آتے ہیں کہ یا الٰہی! میری نسل میں ایسے افراد پیدا فرما جو تیری عبادت و اطاعت اور بندگی میں شب و روز محو و منہمک رہیں اور آخر میں اپنے ہونہار اور سعادت مند نوجوان بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد و تعاون سے کعبۃ اللہ کی دیواریں تعمیر کرتے وقت یہ دعا ان کے لبوں پر مچل پڑی کہ یا الٰہی! میرے اس بیٹے کی پشت سے وہ نبی آخر الزماں مبعوث فرما جس کا وجودِ مسعود باعثِ تکوین کائنات ہو اور جس کے سر پر رحمۃ اللعالمینی کا تاج ابد الآباد تک رکھا جائے ۔

چوتھا سبب : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مرکزی حیثیت کا چوتھا بنیادی سبب یہ ہے کہ آپ کو منصب نبوت کی تکمیل کی خاطر پے در پے آزمائشوں اور امتحانوں سے گزارا گیا۔ یہ امر مسلّمہ ہے کہ منصب جس قدر عظیم ہوگا اتنی ہی بڑی آزمائش و ابتلا کے سلسلے سے اس شخصیت کو دوچار کیا جائے گا۔ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد ہونے کا بے نظیر و بے مثال شرف نصیب ہوا، انہیں پیغمبرانہ بصیرت اور اہلیت و قیادت ہونے کا جوہرِ بیمثال بھی عطا ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کا مابہ الامتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے تن تنہا شرک و الحاد کی باطل قوتوں کو للکارا اور وہ اس بناء پر اس دو قومی نظریے کے پہلے نقیب ٹھہرے جو پانچ ہزار سال بعد تخلیق پاکستان کا بنیادی اور اساسی نقطہ قرار پایا۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آج سے چار ہزار سال قبل اپنی فقید المثال عزیمت اور مقصد کے عشق کی لگن سے باطل کے مقابلے میں حکومت الٰہیہ کی تشکیل کا علم اٹھایا اوروہ الحادی طاقتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ میں بلا خوف و خطر کود پڑے۔ بقول اقبال : ⬇

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

یہی نظریہ پیغمبر اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ جدوجہد کی اساس بنا جس پر آگے چل کر قصرِ اسلام کی عظیم الشان تعمیر عمل میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے صحرا نشینوں نے عالم استعمار کے عزائم خاک میں ملا دیئے اور دنیا میں پہلی مرتبہ حکومت الٰہیہ قائم ہوئی ۔

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو تمام نوع انسانی کےلیے مکمل نمونہ قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ۔ (سورہ الاحزاب، 33 : 21)
ترجمہ  فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرآن حکیم نے صرف دو شخصیات کا ذکر کیا ہے جو اپنے سیرت و کردار کی بناء پر تمام بنی نوع انسان کےلیے کامل نمونہ ہیں۔ ان میں پہلی شخصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اور دوسری حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ یہ دونوں ہستیاں آفتابِ رشد و ہدایت ہیں۔ ان کے اسوہ حسنہ سے روشنی لینے کے لئے شرق تا غرب تمام عالم تا ابد محتاج رہے گا ۔

شعائر شعار کی جمع ہے ، جو نشانی یا علامت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں ایسے تمام ارکان جو خواہ عبادات، اوامر و نواہی یا مقدس مقامات سے متعلق ہوں یا جن پر عمل کرنے سے اسلام کی ہیئت اجتماعیہ تشکیل پائے شعائر کے ذیل میں آتے ہیں۔ چونکہ ان سب کا تعلق تاریخی اعتبار سے بعض مخصوص شخصیات و واقعات سے ہے جن کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے ، اس لیے ایسی تمام علامات کو شعائر اللہ یعنی اللہ کی نشانیوں سے موسوم کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ۔ (البقرة، 2 : 158)
ترجمہ : بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان) چکر لگائے، اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقینًا اللہ (بڑا) قدر شناس (بڑا) خبر دار ہے ۔

حج کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کے تمام مناسک اللہ کی تعظیم اور محبوبانِ الٰہی کی یاد میں عشق و محبت کے والہانہ پن سے عبارت ہیں۔ مثلًا جب بندہ بطور حاجی اللہ کے گھر میں داخل ہو کر ابھی سجدہ ریز نہیں ہوتا، رکوع و قیام اور نماز میں داخل نہیں ہوتا، بس غلاف کعبہ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کے پیمانے اشکوں سے لبریز ہو جاتے ہیں اور پلکوں سے برسات ٹپکنے لگتی ہے اور پھر حدود حرم میں داخل ہونے سے قبل اپنے قیمتی کپڑوں کو اتار کر سادہ اَن سلی چادریں زیب تن کر لیتا ہے اور پیکر عجز و انکسار بن کر ننگے سر اور ننگے پاؤں بیت اللہ کے صحن میں آ جاتا ہے اور ایک طرح کی بے خودی سے دیوانہ وار دوڑنے لگتا ہے اور حرم کعبہ کے گرد سات چکر مکمل کرتا ہے۔ جسے عرف عام میں طواف کہا جاتا ہے۔ پھر وہ ایک گوشے میں نصب ایک پتھر دیکھتا ہے، جس کی طرف وہ دیوانہ وار لپکتا ہے، بڑی محنت و جانفشانی سے اس کے قریب پہنچتا ہے اور بے اختیار اسے چومنے لگتا ہے۔ وہ اس کی عقلی دلیل نہیں جانتا، اسے بس اتنا پتہ ہے کہ یہ حجرِ اسود ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسے دیئے تھے اور اسی نسبت سے اسے بوسہ دینا اپنے لئے بڑی سعادت خیال کرتا ہے ۔

طواف سے فارغ ہو کر وہ ایک مقام پر جہاں سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ثبت ہیں رک جاتا ہے اور وہاں اس ارشادِ خداوندی کی تعمیل میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۔ (البقرة، 2 : 125)
ترجمہ : اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو ۔

پھر وہ بیت اللہ سے کچھ فاصلے پر صفا و مروہ دو پہاڑ دیکھتا ہے، جن کی طرف اس کے قدم بے اختیار اٹھ جاتے ہیں اور وہ دوڑ کر کبھی اس پہاڑ پر چڑھتا ہے، کبھی اس پہاڑ پر۔ ان دو پہاڑوں کی نسبت اللہ کی پیاری بندی حضرت حاجرہ علیہا السلام اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہے، جن کی بنا پر انہیں شعائر اللہ قرار دے دیا گیا ۔

اللہ کا بندہ احرام باندھے ہوئے ننگے سر جب صفا و مروہ کی سعی مکمل کر لیتا ہے تو اس کی حجامت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، وہ بال جن کو اپنی زیب و زینت سمجھ کر سنوار کر رکھتا ہے، انہیں استرے سے منڈوا ڈالتا ہے۔ ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو انہیں کٹواتا ہے، پھر منیٰ کی طرف روانہ ہو جاتا ہے، خیمے گاڑتا ہے اور عرفات میں شام تک قیام کرتا ہے۔ عرفات میں نماز ظہر کا وقت آتا ہے تو وہ جو عمر بھر قانون خداوندی : إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ۔ (النساء، 4 : 103) ’’ بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے ۔

کی تعمیل میں ہمیشہ نماز اپنے وقت پر پڑھنے کا عادی تھا ، ظہر کی نماز کے ساتھ عصر کو ملا کر پڑھتا ہے ۔ ایسا کیوں ؟ صرف اس لیے کہ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میدانِ عرفات میں ظہر و عصر کو ملا کر پڑھا تھا۔ اب اس کی پیروی ہر خاص و عام کےلیے واجب قرار پائی۔ پھر مغرب کا وقت آ جاتا ہے ، وہ تمام حالات میں غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب ادا کرنے کا پابند ہے لیکن یہاں آ کر قانونِ شریعت سے وہ پابندی معطل ہوگئی۔ وہ نماز کا وقت دیکھتا ہے، لیکن اس کی ادائیگی سے اس لئے گریز کرتا ہے کہ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت نماز ادا نہیں کی تھا ، وہ اس نماز کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں مزدلفہ جا کر عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھتا ہے ۔

مزدلفہ پہنچ کر سفر سے تھکا ہوا انسان سوچتا ہے کہ رات گزرنے کے بعد کچھ سستاؤں اور آرام کر لوں ، لیکن حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے سامنے ہے کہ مزدلفہ چھوڑ کر خیمہ یہاں (منیٰ میں) گاڑ لے اور پتھر کے ستونوں کو شیطان سمجھ کر انہیں کنکریاں مارے ۔ عقل لاکھ کہے کہ شیطان کہاں یہ تو پتھر ہیں انہیں کنکریاں کیوں ماری جائیں ؟ لیکن وہ محبت کے آگے سر تسلیم خم کر کے تین دن تک انہیں کنکریاں مارنے جاتا ہے ۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس فعل کو اللہ کے ایک مقرب بندے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے نسبت ہے، جنہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اتنی پسند آگئی کہ اب اس کی یاد کو قیامت تک دہرانے کا حکم دے دیا گیا ۔

پھر اللہ کا بندہ منیٰ پہنچ کر قربانی کرتا ہے اور قربانی کے بعد شہر مکہ لوٹ آتا ہے۔ کبھی یہ صحراؤں میں پھرتا ہے ، کبھی جنگلوں میں ڈیرے لگاتا ہے اور کبھی شہر میں آتا ہے ۔ شعائر اللہ کی یہ تعظیم و تکریم، دیوانہ وار طواف اور بھاگ دوڑ یہ سب باتیں ادب اور تقاضائے محبت ہیں۔ ان کی کوئی عقلی دلیل ممکن نہیں ۔ بس یہ سب محبوبانِ الٰہی کی یادیں ہیں ، جنہیں جاری و ساری کرنے کا اہتمام شرعاً عبادت کا درجہ اختیار کر گیا ہے ۔

نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور کسی بھی فرض و نفلی عبادت سے حکم الٰہی کی تکمیل تو ہو جاتی ہے ، لیکن عشق و محبت کی وہ آگ جو بندۂ مومن کے سینے میں محبوب حقیقی کے ہجر و فراق کی وجہ سے بھڑکتی رہتی ہے ، ختم نہیں ہوتی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذوقِ محبت کے فروغ اور ان کی تسکین کا سامان بہم پہنچانے کے لیے اپنے انبیاء کرام اور برگزیدہ و مقبول بندوں کی زندگی کے ان واقعات کو چن چن کر بنی نوع انسان کے سامنے رکھا ہے، جو عشق و محبت ، ایثار و قربانی اور وفا کے باب میں سب کے لئے ابدی معیار کا درجہ اختیار کر گئے ہیں ۔ ان کو اپنی نشانیاں قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے : ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ۔ (الحج، 22 : 32)
ترجمہ : یہی (حکم) ہے اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات،احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہوا ۔

حج میں شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم کرنے کے حکم میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے حجاج کے دلوں میں تقویٰ پیدا ہو جائے۔ شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم اور ان کا ادب اللہ کی نظر میں اس قدر محبوب ہے کہ اسے دلوں کے تقویٰ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ویسے تو پہاڑ، پتھر اور قربانی کے جانوروں کی حیثیت عام چیزوں جیسی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقبول بندوں سے نسبت ہونے کی بناء پر ان کی تعظیم و ادب اتنی بڑی عبادت بن گیا جو دلوں کے تقوی کا موجب ہے۔

قربانی کے جانور بھی شعائر اللہ ہیں۔ یوں تو دنیا میں ہر جگہ اللہ کے نام پر صدقہ و خیرات کے لئے جانور ذبح کئے جاتے ہیں، لیکن ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے نسبت ہونے کی بنا پر مقام منیٰ پر قربانی کے لئے ذبح کئے جانے والے جانوروں کی حیثیت منفرد اور جداگانہ ہوگئی ہے۔ انہیں اس خاص نسبت کے باعث شعائر اللہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے : وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللهِ ۔ (الحج، 22 : 36)
ترجمہ : اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ۔

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ باقاعدہ سلسلۂ حج کا آغاز بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین ہزار سال قبل ہوا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد تک جاری رہا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقرر کردہ حج کے طریقوں میں تحریف اور تبدیلی کی جانے لگی۔ ان کی ہیئت پے در پے تبدیلیوں کے عمل سے مسخ ہوتی چلی گئی اور بالآخر ایسی بے بنیاد رسموں کی صورت اختیار کر گئی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کی روح سے قطعاً مختلف تھی۔ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پر ان تحریفات کا ذکر کیا ہے۔

منجملہ رسوم میں ایک رسم جسے زمانہ جاہلیت کے عربوں نے اپنے ہاں بطور خاص رواج دے رکھا تھا، احرام باندھنے سے متعلق تھی۔ اہل عرب جب حج کے ارادے سے احرام باندھ لیتے تو وہ اپنے گھر میں نہ صرف اصل دروازوں سے داخل ہونا حرام قرار دیتے بلکہ عقبی دیوار پھلانگ کر یا پچھواڑے میں کسی کھڑکی یا روشن دان کے راستے سے گھر کے اندر داخل ہوتے اور اپنے اس فعل کو مناسک حج کا حصہ اور عبادت تصور کرتے۔ قران حکیم نے اس مضحکہ خیز اور بلا جواز رسم کے بارے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ اس میں کسی قسم کی نیکی کا کوئی تصور نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى ۔ (البقرة، 2 : 189) ’’ اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے فرمان کی رُو سے نیکی تو اللہ کے ہاں تقوی کا نام ہے اور گھر کی عقبی دیواروں کو پھاند کر اندر داخل ہونا محض توہمات کے ذیل میں آتا ہے، جو نیکی کے کسی تصور سے ہرگز تعلق نہیں رکھتا۔ قرآن حکیم نے اس طرح نیکی کا اصل الاصول بیان فرما کر ان بیہودہ اور لغو رسوم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔

عربوں کے دورِ جاہلیت کی ایک اور رسم حج اور عمرہ سے متعلق تھی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کی ادائیگی یکجا نہیں ہو سکتی۔ اس غلط عقیدے کی بنا پر انہوں نے حج اور عمرہ کے لئے الگ الگ مہینے مقرر کر رکھے تھے، جس کے لئے وہ جدا جدا سفر اختیار کرتے اس سے دور دراز کی مسافت طے کر کے آنے والے لوگوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسلام کی آمد کے بعد اس خود ساختہ رسم کو منسوخ کر دیا گیا اور ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کرنے کی ہر ایک کو اجازت مل گئی۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے : فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۔ (البقرة، 2 : 158) ’’ چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان) چکر لگائے ۔

اسی طرح ایک غلط نظریہ اور تصور زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں جڑ پکڑ چکا تھا، جس کی رو سے انہوں نے اپنے اوپر حج کے سفر کے دوران زاد راہ ہمراہ لے جانا حرام قرار دیا تھا۔ وہ حج کےلیے سفر پر نکلتے تو اپنے ساتھ کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا سامان لے جانا اپنے نام نہاد تقویٰ کے منافی سمجھتے تھے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بے بنیاد اور لغو تصوّر کا راز کھول دیا، ارشاد فرمایا : الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُوْلِي الْأَلْبَابِ ۔ (البقرة، 2 : 197) ’’ حج کے چند مہینے معیّن ہیں (یعنی شوّال، ذوالقعد اور عشرئہ ذوالحجہ) تو جو شخص ان (مہینوں) میں نیت کر کے (اپنے اوپر) حج لازم کرلے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی (اور) گناہ اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے، اور تم جو بھلائی بھی کرو اللہ اسے خوب جانتا ہے، اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو، بے شک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو ۔

یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی علیم و خبیر ذاتِ کریم زندگی کے ہر گوشے میں نوع انسانی کے تمام مسائل کی تہہ پر نظر رکھتی ہے اور اسے ہرگز ہرگز گوارا نہیں کہ غلط سوچ اور نادانی کی بناء پر انسان نے معاشرتی سطح پر جو ناروا پابندیاں یکطرفہ طور پر عائد کر رکھی ہیں یا غلط رسوم اپنا لی ہیں، انہیں جاری رکھا جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حج کے سفر پر نکلنے والوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنا زادِ راہ اور خورد و نوش کا سامان ساتھ لے کر نکلا کریں۔ پھر فرمایا کہ بہترین زادِ راہ تو تمہارا تقویٰ ہے اور باقی دنیاوی سامان تو سب عارضی ہے۔

دورِ جاہلیت میں عرب طواف کعبہ کرتے وقت برہنہ ہو کر تالیاں بجاتے اور سیٹیاں بجاتے، جنہیں وہ عبادت تصور کرتے۔ قرآن حکیم نے ان کے اس ناپسندیدہ فعل کو یوں بیان فرمایا : وَمَا كَانَ صَلاَتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلاَّ مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۔ (الانفال، 8 : 35) ’’ اور بیت اللہ (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (نام نہاد) نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔

اسلام دین فطرت ہونے کے باعث عمل کے اعتبار سے آسان ہے تا کہ انسانوں کو ان تمام ناروا پابندیوں اور رسم و رواج کی زنجیروں سے رہائی دلا دے جو اہل عرب نے ایک طویل عرصے سے حج کے ضمن میں عائد کر رکھی تھیں ۔ اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد خصوصی توجہ کا حامل ہے : کُلُّ شَيئٍ مِنْ اَمْرِ الْجَاهلِيَّة تَحْتَ قَدَمِیَّ ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 2 : 889، رقم : 1218،چشتی) ’’ زمانہ جاہلیت کی تمام رسوم میرے قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیں ۔

تاریخی تناظر میں اگر حج کا جائزہ لیا جائے تو آج ہمیں جو حج کی صورت نظر آتی ہے، وہ اس حج کی ارتقائی شکل ہے، جو فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت و سربراہی میں ادا کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ فتح مکہ 8 ہجری میں ہوئی اور اس سال حج اسی قدیم طریقے پر ادا ہوا تھا، جو زمانہ جاہلیت میں طویل عرصہ سے رائج چلا آ رہا تھا۔

اگلے سال 9 ہجری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بطور خاص امیر بنا کر جیّد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہمراہی میں مکہ مکرمہ بھیجا، یہ وفد عازمِ سفر ہو چکا تھا کہ سورہ توبہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں تفصیل کے ساتھ حج کے احکام بیان کیے گئے ہیں اور دورِ جاہلیت کی ان باطل رسموں کو مکمل ختم کر دیا گیا ہے جن سے حج کی صورت مسخ ہو کر رہ گئی تھی ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ خاص بنا کر ان آیات حج کو مجمع عام کے سامنے خطبہ کی شکل میں تلاوت کرنے کےلیے مدینہ منورہ سے روانہ فرمایا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ہر خاص و عام تک پہنچانے کے لئے اس تاریخی حج کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وفد کے ساتھ شامل ہوگئے اور حج کے اجتماع عام میں خطبہ حج ارشاد فرمایا : جس نے دور جاہلیت کی تمام باطل رسموں کو ہمیشہ کےلیے ختم کر دیا۔ یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ 9 ہجری کا حج دو طریقوں سے ادا کیا گیا۔

کفار اور مشرکین جو اس موقع پر موجود تھے، انہوں نے قدیم آبائی طریقے سے حج کی رسوم ادا کیں، جبکہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر مناسک حج ادا کئے۔ تاہم اس تاریخی حج کے موقع پر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلان کر دیا گیا کہ آئندہ کسی کافر و مشرک کو حج کے لئے حرم پاک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چنانچہ آئندہ حج سے قبل ہی سرزمین کعبہ ہمیشہ کے لیے مشرکوں کے وجود سے پاک ہوگئی۔ اس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادۂ خداوندی کے مطابق حج سے باطل رسموں کا خاتمہ فرما کر دور جاہلیت کے سب آثار اور نقوش حرفِ غلط کی طرح مٹا دیے ۔

خطبہ حجۃ الوداع کی اہمیت و انفرادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 23 سالہ جدوجہد کے بعد اسلامی معاشرہ کے قیام اور بین الاقوامی سطح پر مصطفوی انقلاب کی بنیادیں استوار کر دینے کے بعد 10 سن ہجری کو آخری حج کے موقع پر جو خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا وہ عالم انسانیت کے لئے انسانی حقوق کا پہلا باقاعدہ چارٹر (Charter of Human Rights) اور اقوامِ عالم کے لیے نیا عالمی نظام (New World Order) ہے۔ اس خطبہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نئے عالمی نظام کا آغاز فرمایا ۔ سابقہ جاہلانہ اور ظالمانہ نظام کو منسوخ فرما دیا ۔
ہر شخص کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت کا اعلان فرما کر عالمی امن کے قیام کا اعلان فرمایا۔
تقویٰ کو شرف و کرامت کی بنیاد قرار دے کر عالمی مساوات کا قیام فرمایا۔
سود کی ممانعت کا اعلان فرما کر معاشی استحصال کا خاتمہ کر دیا۔
عورت کے حقوق اور اس کی عزت و ناموس کو تحفظ دے کر اس کا وقار بلند کیا۔
زیردست اور افلاس زدہ انسانیت کے حقوق کا تحفظ فرما کر ان میں جینے کا حوصلہ اور ناانصافی کے خلاف ڈٹ جانے کی جرات عطا فرمائی۔
درج بالا خطبہ حجۃ الوداع کا مختصر جائزہ اس کی اہمیت و انفرادیت کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیتا ہے کہ اس خطبے کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت اور اعجاز کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبائلی تفاخر و عصبیت، سماجی اونچ نیچ کے باطل تصورات اور عرب و عجم کے جھوٹے امتیازات اور مادی شان و شوکت اور کبر و غرور پر مبنی طبقاتی عدم مساوات کے باطل نظریات کو پامال کر دیا اور حتمی طور پر اعلان فرما دیا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت و برتری حاصل نہیں اور اگر کسی میں کوئی فضیلت ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ اس اعلامیہ میں یہ بات کھول کر بیان کر دی گئی کہ ہر مسلمان کا خون، جان و مال اور اس کی عزت و آبرو اتنی ہی حرمت کی حامل ہے جتنا کہ یہ شہر اور یہ دن سب کےلیے ۔

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهدُ الْغَائبَ ۔ (بخاری، الصحيح، ابواب الحج، باب الخطبة ايام منی، 2 : 620، رقم : 1652، 1654)
ترجمہ : سنو ! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں ۔

یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ حیات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اثر انگیزی جس طرح ظاہری حیاتِ مبارکہ میں ایک زندہ حقیقت تھی، اسی طرح دورِ حاضر کےلیے بھی ایک زندہ حقیقت ہے ۔ اس لیے آپ کی حیات مبارکہ کو اسوہ حسنہ کہا گیا ۔ آج ساڑھے چودہ سو سال گزرجانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں عدل و مساوات کے ایسے ضوابط و قوانین تشکیل پاتے ہیں ، جو انسانی حقوق کے تحفظ کی مکمل ضمانت فراہم کرتے ہیں اور جن کی بنیاد پر باہمی جنگ و جدل ، نفرت اور استحصال سے پاک اور اعتدال ، میانہ روی ، عدل و انصاف اور تکریم انسانیت پر مبنی انسانی معاشرہ وجود میں لایا جا سکتا ہے ۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ يَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَكۡبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِىۡۤءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ‌ ۙ وَ رَسُوۡلُهٗ‌ ؕ فَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَهُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ ‌ۚ وَاِنۡ تَوَلَّيۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّكُمۡ غَيۡرُ مُعۡجِزِى اللّٰهِ‌ ؕ وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَ لِيۡمٍۙ ۔ (سورہ التوبة آیت نمبر 3)
ترجمہ : اور (یہ) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام لوگوں کی طرف بڑے حج کے دن اعلان ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری ہے اور اس کا رسول بھی تو اگر تم توبہ کروتو تمہا رے لیے بہتر ہے اور اگر تم منہ پھیروتو جان لو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے اور کافروں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔

حج اکبر کی تعیین میں مختلف اقوال ہیں : ⬇

امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی متوفی ٢١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حسن اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ جس سال حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حج کیا تھا اس میں مسلمان اور مشرکین جمع تھے اور اسی دن یہود اور نصاریٰ کی عید بھی تھی اس لیے اس کو حج اکبر فرمایا ۔ حارث حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے اور معمر زہری سے روایت کرتے ہیں کہ یوم النحر (قربانی کا دن) حج اکبر ہے۔ ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن شداد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے حج اکبر اور حج اصغر کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا : حج اکبر یوم النحر ہے اور حج اصغر عمرہ ہے ۔ عطا نے کہا حج اکبر یوم عرفہ ہے۔ ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو حجیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے حج اکبر کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا وہ یوم عرفہ ہے ۔ میں نے پوچھا یہ آپ کی رائے ہے یا نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب کی ؟ انہوں نے کہا سب کی ، پھر میں نے حضرت عبداللہ بن شداد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے سوال کیا تو انہوں نے کہا حج اکبر یوم النحر ہے اور حج اصغر عمرہ ہے ۔ (تفسیر امام عبدالرزاق ج ١، ص ٢٤١، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت، ١٤١١ ھ)

حضرت حسن  رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جس سال حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حج کیا تھا تو اس میں مسلمان اور مشرکین سب جمع تھے ، اس لیے اس حج کو حجِ اکبر فرمایا گیا ۔(تفسیر طبری ، التوبۃ الآیۃ: ۳، ۶ / ۳۱۷)

امام عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’یَوم سے مراد عَرفہ کا دن ہے کیونکہ وُقوف ِعرفہ حج کے اَ رکان میں سے رکنِ اعظم ہے یا اس سے مراد یومِ نَحر ہے کیونکہ حج کے زیادہ تر اَفعال جیسے طواف ، قربانی ، سر منڈانا اور رَمی وغیرہ اسی دن ہوتے ہیں اور اس حج کو حجِ اکبر اس لیے فرمایا گیاکہ اس زمانہ میں عمرہ کو حجِ اصغر کہا جاتا تھا ۔ (تفسیر مدارک، التوبۃ الآیۃ: ۳، ص۴۲۵)

اَحادیث اور آثارِ صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم میں مختلف دنوں کو حجِ اکبر کہا گیا ہے جبکہ عوام میں یہ مشہور ہے کہ جب یومِ عرفہ جمعہ کے دن ہوتووہ حجِ اکبر ہوتا ہے، اس کے ثبوت میں اگرچہ کوئی صریح حدیث موجود نہیں تاہم یہ کہنا غلط بھی نہیں کیونکہ بکثرت روایات سے اس دن کا حجِ اکبر ہونا ثابت ہے بلکہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس دن کے حجِ اکبر ہونے کے ثبوت میں ’’اَلْحَظُّ الْاَوْفَرْ فِی الْحَجِّ الْاَکْبَرْ‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ تفسیر کی کتابوں میں حجِ اکبر سے متعلق امام ابنِ سیرین  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ ’’ حجِ اکبر وہ حج ہے کہ جو اس دن کے مُوافق ہو جس دن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور تمام اَعراب نے حج کیا تھا ۔ (تفسیر طبری، التوبۃ الآیۃ: ۳، ۶ / ۳۱۳) ۔ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول تفسیر بغوی ، جلد 2،صفحہ226، تفسیرقرطبی جلد 4 صفحہ 9 جزء 8،چشتی)(البحر المحیط جلد 5 صفحہ 10)(اوردر منثور جلد 4 صفحہ128 پر بھی مذکور ہے ۔ تفسیر خازن میں ہے ’’جو حج نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حج کے موافق ہو اسے حجِ اکبر کہا گیا ہے اور یہ دن جمعہ کا دن تھا۔(خازن، التوبۃ الآیۃ: ۳، ۲ / ۲۱۷)

حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب حج ادا کیا تو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یوم النحر (١٠ ذوالحجہ) کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : یہ حج اکبر کا دن ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٧٤٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٩٤٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٦٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٠٥٥، الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ١٤٠، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، المستدرک ج ٢ ص ٢٣١) امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ نے عبداللہ بن ابی اوفٰی اور سعید بن جبیر سے، عبداللہ بن شداد سے، حضرت علی سے، حضرت مغیرہ بن شعبہ سے، عامر سے، حضرت ابن عباس سے اور حضرت ابو حجیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم سے اپنی اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حج اکبر یوم النحر ہے۔ (المصنف ج ٣ ص ٣٦٠، رقم لحدیث : ١٥١١١۔ ١٥١٠٢)

حج اکبر کے مصداق کے متعلق مذاہب فقہاء، حافظ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی المالکی المتوفی ٦٥٦ ھ لکھتے ہیں : امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ حمید بن عبدالرحمن کہتے تھے کہ یوم النحر، یوم الحج الاکبر ہے۔ (البخاری : ٣٦٩، مسلم : ١٣٤٧، سنن ابودائود : ١٩٤٦، سنن النسائی : ٢٣٤، مسند احمد ج ٢ ص ٢٩٩) یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ حج اکبر کا دن یوم النحر ہے، جیسا کہ حمید نے کہا ہے، اور یہ سعید بن جبیر اور امام مالک کا قول ہے، اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ حج اکبر یوم عرفہ ہے اور یہی حضرت عمر کا قول ہے، امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے، مجاہد نے کہا حج اکبر قران ہے اور حج اصغر افراد ہے، اور شعبی نے کہا حج اکبر، حج ہے اور حج اصغر عمرہ ہے، اور پہلا قول اولیٰ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دیا کہ وہ لوگوں میں حج اکبر کا اعلان کریں اور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : حج اکبر یوم النحر ہے۔ (سنن ابودائود، رقم الحدیث ١٩٤٥) (المفہم ج ٣ ص ١٦٠۔ ٤٥٩، مطبوعہ دار اب کثیر بیروت، ١٤١٧ ھ،چشتی)

حج اکبر کے مخلف اقوال میں تطبیق، ملا علی بن سلطان محمد القاری الحنفی المتوفی ١٠١٤ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : خلاصہ یہ ہے کہ یوم حج اکبر کے متعلق چار قول ہیں : ایک قول یہ ہے کہ حج اکبر یوم عرفہ ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ یوم نحر ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ حج اکبر طواف زیارت کا دن ہے، چوتھا قول یہ ہے کہ حج کے تمام ایام یوم حج اکبر ہیں، اور درحقیقت ان اقوال میں کوئی تعارض نہیں، ہے، کیونکہ اکبر اور اصغر امر اضافی ہیں، لہٰذا جمعہ کے دن کا حج دوسرے ایام کی بہ نسبت اکبر ہے اور حج قران حج افراد سے اکبر ہے اور مطلقاً حج، عمرے سے اکبر ہے اور جمیع ایام حج بھی اکبر ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے نورانی مقام کے اعتبار سے مختلف ہے، اسی طرح ایام میں یوم عرفہ، حج اکبر کی تحصیل کا دن ہے جو مطلقاً حج ہے، اور یوم نحر حج اکبر کے افعال کے مکمل ہونے اور ان سے حلال ہونے کا دن ہے ۔ (الحظ الاوفرنی الحج الاکبر مع المسلک المتقسط ص ٤٨١، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی، ١٤١٧ ھ)

جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس کے حج اکبر ہونے کی تحقیق : ⏬

احادیث اور آثار صحابہ میں مختلف ایام پر حج اکبر کا اطلاق آیا ہے اور کسی دن کے حج اکبر ہونے پر اتفاق نہیں ہے، اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جب جمعہ کے دن یوم عرفہ ہو تو وہ حج اکبر ہوتا ہے۔ اس کے ثبوت میں ہرچند کہ کوئی صریح حدیث نہیں ہے تاہم بکثرت دلائل شرعیہ سے اس دن کا حج اکبر ہونا ثابت ہے، اس لیے اس کو حج اکبر کہنا صحیح ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ جس سال جمعہ کے دن یوم عرفہ ہو اس سال کے حج کا ثواب زتر حج سے زیادہ ہوتا ہے۔ ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ رحمۃ اللہ علیہ نے جب یوم عرفہ جمع کے دن ہو تو اس کے حج اکبر ہونے کے ثبوت میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں : جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس پر حج اکبر کا اطلاق کرنا بہت مشہور ہے اور زبان زد خلائق ہے، اور خلق خدا کی زبانیں، حق کا قلم ہوتی ہیں اور (حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا جس چیز کو مسلمان حسن (اچھا اور نیک) سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی حسن ہے اور جس چیز کو مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔ (مسند احمد ج ١ ص ٣٧، شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، مسند احمد ج ٣ رقم الحدیث : ٣٦٠٠، مطبوعہ دار الحدیث القاہرہ،حافظ الہیشمی نے کہا اس حدیث کو امام احمد، امام بزار اور امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں، مجع الزوائد ج ١ ص ١٧٨۔ ١٧٧، ج ٨ ص ٢٥٢، حاکم نے کہا اس کی سند صحیح ہے، المستدرک، ج ٣ ص ٧٩۔ ٧٨، تاریخ بغداد ج ٤ ص ١٦٥، کشف الخفاء ج ٢ ص ٢٦٣) اس رسالہ میں ہمارا مقصود اس مسئلہ کی تحقیق کرنا ہے۔ امام رزین بن معاویہ نے تجرید الصحاھ میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا افضل الایام، یوم عرفہ ہے اور جب یہ جمعہ کے دن ہو تو یہ بغیر جمعہ کے ستر حج سے افضل ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ج ٤ ص ٧٤، مطبوعہ مطبعہ میمنہ مصر) ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ بعض محدثین نے یہ کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اگر بالفرض یہ واقع میں ضعیف ہو بھی تو کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ فضائل اعمال میں حدیث ضعیف بھی معتبر ہوتی ہے اور بعض جاہلوں کا یہ کہنا کہ یہ حدیث موضوع ہے، باطل اور مردود ہے (علامہ مناوی اور حافظ ابن قیم نے اس حدیث کو باطل کہا ہے) کیونکہ رزین بن معاویہ عبدری کبراء نے اس کو صحاح ستہ کی تجرید میں بیان کیا ہے، اس لیے یہ سند اگر صحیح نہیں ہے تو ضعیف سے کسی حال میں کم نہیں ہے اور اس حدیث کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ جمعہ کے دن عبادات کا ثواب ستر یا سو گناہ بڑھ جاتا ہے، اور علامہ نووی نے اپنے مناسک میں بیان کیا ہے کہ جب عرفہ جمعہ کے دن ہو تو تمام اہل موقف کی مغفرت کردی جاتی ہے، علامہ ابو طالب مکی نے اس حدیث کو قوت القلوب میں بیان کیا ہے۔ ابن جماعہ نے اس حدیث کو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف مسند کرکے بیان کیا ہے، اور علامہ سیوطی نے اس کو ابن جماعہ سے نقل کرکے مقرر رکھا ہے اور یہ چیز قواعد میں سے ہے کہ جب کسی حدیث کے متعدد طرق ہوں تو وہ قوی ہوجاتی ہے اور اس پر دلیل ہوتی ہے کہ اس حدیث کو اصل ہے ۔ (الحظ الاو فرنی الحج الاکبر مع المسلک المتقسط ص ٤٨٢، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی)

جمعہ کے دن مغفرت اور نیکیوں میں اضافہ کے متعلق احادیث ؛ ملا علی قاری (رح) نے فضائل جمعہ میں چند احادیث ذکر کی ہیں جن کو ہم تخریج کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والیوم الموعود وشاہد ومشہود (البروج : ٣۔ ٢)
ترجمہ : وعدہ کیے ہوئے دن کی قسم اور حاضر ہونے والے کی اور حاضر کیے ہوئے کی قسم۔

اس کی تفسیر اس حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : یوم موعود قیامت کا دن ہے، اور یوم مشہود یوم عرفہ ہے اور شاہد یوم الجمعہ ہے ، اور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا سورج کسی ایسے دن پر طلوع ہوا، نہ غروب ہوا جو جمعہ کے دن سے افضل ہو، اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ بندہ اس میں جس خیر کی بھی دعا کرے اللہ اس کو قبول فرماتا ہے اور جس چیز سے بھی پناہ طلب کرے اس کو اس سے پناہ میں رکھتا ہے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٥٠، مسند احمد ج ٢ ص ٢٩٨، سنن کبریٰ ج ٤ ص ١٧٠، شرح السنہ للبغوی ج ٧ ص ٢٢٦، کامل ابن عدی ج ٢ ص ٤٧٦، حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے، المستدرک ج ٢ ص ٥١٩، المشکوٰۃ رقم الحدیث : ١٣٦٢، شعب الایمان ج ٣ ص ٨٨، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢١٠٦٥) ملا علی قاری اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث میں یہ ظاہر دلیل ہے کہتنہا جمعہ یوم عرفہ سے افضل ہے، پس ثابت ہوا کہ جمعہ سید الایام ہے جیسا کہ زبان زد خلائق ہے۔ (الحظ الاو فرنی الحج الاکبر مع المسلک المتقسط ص ٤٨٣) میں کہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں بھی احادیث وارد ہیں : حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جمعہ کا دن سید الایام ہے، اس میں حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا، اسی دن ان کو جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن وہ جنت سے باہر لائے گئے اور قیامت صرف جمعہ کے دن ہی قائم ہوگی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٥٥٠٧، شعب الایمان ج ٣ ص ٩٠، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٠ ھ) حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رمضان سید الشہور (مہینوں کا سردار) ہے اور جمعہ سید الایام ہے۔ (المعجم الکبیر ج ٩ ص ٤٠٥، رقم الحدیث : ٩٠٠، مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٤٥، کنزالعمال ج ٧ رقم الحدیث : ٢١٠٦٧، مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٥٥٠٨) اس کے بعد ملا علی قاری نے جمعہ کے دن مغفرت کے متعلق یہ احادیث ذکر کی ہیں : حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اللہ جمعہ کے دن ہر مسلمان کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (المعجم الاوسط، ج ٥ ص ٤١٢، رقم الحدیث : ٤٨١٤، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٤، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢١٠٥٣، اس کا ایک راوی محمد بن بحر الہجیمی بہت ضعیف ہے) ۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جمعہ کے دن اور اس کی رات کے چوبیس گھنٹوں کی ہر ساعت میں چھ سو گنہ گار دوزخ کی آگ سے آزاد ہوتے ہیں، ان میں سے ہر گنہ گار پر دوزخ واجب ہوتی ہے۔ (مسند ابو یعلیٰ ج ٦ ص ٢٠٢۔ ٢٠١ رقم الحدیث : ٣٤٨٤، اس کی سند میں عبدالواحد بصری ضعیف ہے، مجمع الزوائد ج ٢ ص ١٦٥، المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٨٥٢، کنزالعمال ج ٧، ص ٧١٩، رقم الحدیث : ٢١٠٨٠) امام محمد بن سعد نے طبقات کبریٰ میں حضرت حسن بن علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے روایت کیا ہے کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یوم عرفہ کو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کی وجہ سے فخر فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ میرے بندے بکھرے ہوئے غبار آلود بالوں کے ساتھ میری رحمت کی طلب میں آئے ہیں، میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں نے ان کے نیکوں کو بخش دیا اور ان کے نیکوں کو ان کے بروں کے لیے شفاعت کرنے والا بنادیا اور جمعہ کے دن بھی اسی طرح فرماتا ہے (مجھ کو طبقات یا کسی اور کتاب میں یہ حدیث نہیں ملی) ۔ ان احادیث کو ذکر کرنے کے بعد ملا علی قاری فرماتے ہیں : اس حدیث میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جمعہ اور عرفہ کا اجتماع زیادہ مغفرت کا موجب ہے، اور جو شخص اس کا انکار کرتا ہے، وہ جاہل ہے اور منقول اور معقول پر مطلع نہیں ہے۔ اس کے بعد ملا علی قاری جمعہ کے دن اجر میں زیادتی کے متعلق احادیث بیان کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن نیکیوں کو دگنا کردیا جاتا ہے۔ (المعجم الاوسط ج ٨ ص ٤٣٥، رقم الحدیث : ٧٨٩١، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ رقم الحدیث : ٥٥١٢، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢١٠٥٧) ملا علی قاری فرماتے ہیں : بعض احادیث میں ستر گنا اضافہ کا بھی ذکر ہے اور امام احمد بن زنجویہ نے فضائل اعمال میں مسیب بن رافع سے روایت کیا ہے کہ اس کو باقی ایام کی بہ نسبت دس گنا زائد اجر دیا جائے گا، میں کہتا ہوں کہ یہ ستر گنا اضافہ بلکہ سو گنا اضافہ کو بھی شامل ہے اور یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس حدیث کو شامل ہے کہ جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس کا اجر ستر گنا زائد ہوتا ہے۔ (الحظ الاو فرنی الحج الاکبر مع المسلک المتقسط ص ٤٨٤) میں کہتا ہوں کہ جمعہ کے دن اجر وثواب میں زیادتی کے متعلق یہ حدیث بہت واضح ہے : حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میری امت کی عیدوں میں جمعہ کی عید سے بڑھ کر کوئی عید نہیں ہے، جمعہ کے دن ایک رکعت نماز پڑھنا باقی دنوں میں ہزار رکعات سے افضل ہے اور جمعہ کے دن ایک تسبیح پڑھنا باقی دنوں میں ہزار تسبیحات پڑھنے سے افضل ہے۔ (الفردوس بماثور الخطاب ج ٣ ص ٣٨٣، رقم الحدیث : ٥١٦٦، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٠٦ ھ)

جس جمعہ کو یوم عرفہ ہو اس دن حج اکبر ہونے پر ایک حدیث سے استدلال : نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس دن حج کیا وہ جمعہ کا دن تھا۔ علامہ حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں : الیوم اکملت لکم دینکم۔ (المائدۃ : ٣) یہ آیت جمعہ کے دن یوم عرفہ کو عصر کے بعد حجتہ الوداع میں نازل ہوئی۔ اس وقت نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میدان عرفات میں اپنی اونٹنی عضباء پر تشریف فرما تھے۔ حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک یہودی کے سامنے یہ آیت پڑھی : الیوم اکملت لکم دینکم۔ (المائدۃ : ٣) اس یہودی نے کہا اگر ہم میں یہ آیت نازل ہوتی تو ہم اس دن عید مناتے۔ حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے فرمایا : یہ آیت یہ عیدوں کے دن نازل ہوئی ہے، جمعہ کے دن اور عرفہ کے دن۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٥٥، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٥، ٤٤٠٧، ٤٦٠٦، ٧٢٦٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٠١٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٠٠٢، ٥٠٢٧، سنن کبریٰ للنسائی، رقم الحدیث : ١١١٣٧، سنن کبریٰ للیہقی، ج ٥ ص ١١٨، صحیح ابن حبان، ج ١ ص ١٨٥،چشتی) ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمہع کے دن حج کیا اور جس دن نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حج کیا اسی دن حج کرنا حج اکبر ہے۔ امام ابن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ روایت کرتے ہیں : شہاب بن عباد العصری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا یوم عرفہ حج اکبر ہے میں نے اس بات کا سعید بن مسیب سے ذکر کیا، انہوں نے کہا مجھ سے عون بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے محمد بن سیرین سے حج اکبر کے متعلق سوال کیا تھا، انہوں نے کہا جس دن حج اس دن کے موافق ہو جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور تمام اہل ملل نے حج کیا تھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٦٠، رقم الحدیث : ١٥١٠٣، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٦ ھ) ۔ اور اس حدیث سے محدث رزین کی اس حدیث کی تائید ہوتی ہے کہ جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس حج کا ثواب ستر حج سے افضل ہے۔

جمعہ کے حج کے متعلق مفسرین کے اقوال : امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے حج اکبر کے متعلق ایک یہ قول ذکر کیا ہے : ابن عون بیان کرتے ہیں کہ میں نے محمد بن سیرین سے حج اکبر کے متعلق سوال کیا، انہوں نے کہا جو حج اس دن کے موافق ہو جس دن نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اور تمام دیہاتیوں نے حج کیا تھا۔ (وہ حج اکبر ہے) ۔ (جامع البیان، جز ١٠، ص ٩٣، مطبوعہ دارلفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔ امام ابن شیبہ کی روایت میں اہل ملل کے الفاظ ہیں اور امام ابن جریر کی روایت میں اہل وبر (دیہاتیوں) کے الفاظ ہیں اور امام ابن جریر کی روایت ہی صحیح ہے کیونکہ تمام اہل ملل نے سال حج کیا تھا جس سال حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حج کیا تھا اور جس سال نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حج کیا تھا اس سال صرف مسلمانوں نے حج کیا تھا جن میں اہل وبر بھی تھے۔ بہرحال اس روایت کا ذکر حسب ذیل علامء نے کیا ہے : امام بغوی شافعی، متوفی ٥١٦ ھ۔ (معالم التنزیل ج ٢ ص ٢٢٦، مطبوعہ بیروت) علامہ قرطبی مالکی، متوفی ٦٦٨ ھ (الجامع الاحکام القرآن جز ٨، ص ١١) علامہ ابوالحیان اندلسی، متوفی ٧٥٤ ھ۔ (البحر المحیط ج ٥ ص ٣٦٩، مطبوعہ دارالفکر بیروت) حافظ ابن کثیر شافعی، متوفی ٧٧٤ ھ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٣٦٣، مطبوعہ ارلاندلس بیروت) حافظ جلال الدین شافعی، متوفی ٩١١ ھ۔ (الدرالمنثور ج ٤ ص ١٢٨، مطبوعہ دارالفکر بیروت) نواب صدیق حسن خان بھوپالی (غیر مقلد) ، متوفی ١٣٠٤ ھ۔ (فتح البیان ج ٥ ص ٢٣٣، مطبوعہ المکتبہ العصریہ بیروت، ١٤١٥ ھ،چشتی) علامہ علی بن محمد خازن شافعی متوفی ٧٢٥ ھ لکھتے ہیں : جو حج نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حج کے موافق ہو اس کو حج اکبر کہا گیا ہے اور یہ دن جمعہ کا دن تھا۔ (لباب التاویل ج ٢ ص ٢١٧، مطبوعہ مکتبہ دارالکتب العربیہ پشاور) ۔ علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں : حدیث میں وارد ہے کہ جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس کا اجر ستر حج کے برابر ہے اور یہی حج اکبر ہے۔ (روح البیان، ج ٣ ص ٣٨٥، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ) ۔ صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ لکھتے ہیں : اور ایک قول یہ ہے کہ اس حج کو حج اکبر اس لیے کہا گیا کہ اس سال نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حج فرمایا تھا اور چونکہ یہ جمعہ کو واقع ہوا تھا اس لیے مسلمان اس حج کو جو روز جمعہ ہو حج وداع کا مذکر (یاد دلانے والا) جان کر حج اکبر کہتے ہیں۔ (خزائن العرفان ص ٣٠١، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور) ۔ مفتی احمد یار خاں نعیمی متوفی ١٣٩١ ھ لکھتے ہیں : اس سے اشارتاً معلوم ہوا کہ اگر حج جمعہ کا ہو تو حج اکبر ہے کیونکہ جمعہ کے ایک حج کا ثواب ستر حج کے برابر ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حجتہ الوداع جمعہ ہی کو ہوا تھا۔ (نورالعرفان ص ٢٩٧، مطبوعہ ادارہ کتب اسلامیہ گجرات) ۔ مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں : عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جس سال یوم عرفہ بروز جمعہ واقع ہو صرف وہی حج اکبر ہے، اس کی اصلیت اس کے سوا نہیں ہے کہ اتفاقی طور پر جس سال نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حج وداع ہوا ہے اس میں عرفہ بروز جمعہ ہوا تھا۔ (معارف القرآن ج ٤ ص ٣١٥، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی، ١٤١٤ ھ) ۔ شیخ محمد ادریس کا ندھلوی (دیوبندی) متوفی ١٣٩٤ ھ لکھتے ہیں : عوام الناس میں جو یہ مشہور ہے کہ حج اکبر وہ حج ہے جو خاص جمعہ کے دن ہو اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ (تفسیر معارف القرآن ج ٣ ص ٤٨٦، مطبوعہ مکتبہ عثمانیہ لاہور، ١٤٠٢ ھ) ۔

جمعہ کے حج کے متعلق فقہاء کے اقوال : علامہ عثمان بن علی زیلعی حنفی متوفی ٧٤٣ ھ لکھتے ہیں : حضرت طلحہ بن عبیداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تمام ایام میں افضل یوم عرفہ ہے اور جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ باقی دنوں کی بہ نسبت ستر حج سے افضل ہے۔ اس حدیث کو رزین بن معاویہ نے تجرید الصحاح میں ذکر کیا ہے اور علامہ نووی نے اپنے مناسک میں ذکر کیا ہے۔ جب یوم عرفہ یوم جمعہ کو ہو تو تمام اہل موقف کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ (تبیین الحقائق ج ٢ ص ٢٦، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان، ایضاً حاشیتہ الشبلی ج ٢ ص ٢٦، مطبوعہ ملتان) ۔ علامہ زین الدین بن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ لکھتے ہیں : اور ایک قول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہے تمام دنوں میں افضل یوم عرفہ ہے اور جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ باقی دنوں کی نسبت ستر حج سے افضل ہے۔ اس حدیث کو رزین نے روایت کیا ہے، اور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جمعہ کے دن کے حج کی باقی دنوں پر فضیلت ہے ؟ انہوں نے کہا جمعہ کے حج کو باقی دنوں کے حج پر پانچ وجہ سے فضیلت ہے : پہلی اور دوسری وجہ تو مذکور الصدر حدیثوں سے واضح ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح جگہ کی فضیلت سے بھی عمل کی فضیلت ہوتی ہے اور جمعہ کے دن ہفتہ کے باقی دنوں سے افضل ہے (بلکہ سید الایام ہے) پس واجب ہوا کہ جمعہ کے دن کا عمل باقی دنوں کے عمل سے افضل ہو، اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن میں ایک ایسی ساعت ہوتی ہے جس میں مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو سوال بھی کرے اللہ تعالیٰ اسے وہ عطا فرماتا ہے اور یہ فضیلت باقی دنوں میں نہیں ہے اور پانچویں فضیلت یہ ہے کہ جمعہ کے حج میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حج سے موافقت ہے کیونکہ حجتہ الوداع جمعہ کے دن تھا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے سب سے افضل عمل اختیار کیا جاتا تھا۔ بعض طلبہ نے میرے والد سے سوال کیا کہ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمام اہل موقف کی مغفرت فرما دیتا ہے، پھر اس میں جمعہ کے دن کی کیا خصوصیت ہے جیسا کہ مذکور الصدر حدیث میں ہے تو میرے والد نے جواب دیا کہ ہوسکتا ہے کہ جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ بلاواسطہ مغفرت فرمئے اور باقی ایام کے حج میں بعض لوگوں کے واسطہ سے مغفرت فرمائے۔ شیخ نورالدین الزیاری الشافعی کے حاشیہ میں بھی اسی طرح مذکور ہے۔ (منحتہ الخالق علی ہامش البحرالرائق ج ٢ ص ٣٤٠، مطبوعہ مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ،چشتی) ۔ علامہ حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی الحنفی المتوفی ١٠٦٩ ھ لکھتے ہیں : تمام دنوں میں افضل یوم عرفہ ہے اور جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ باقی دنوں کی بہ نسبت ستر حج سے افضل ہے، اس حدیث کو معراج الدرایہ نے اپنے اس قول کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حدیث صحیح مروی ہے کہ تمام دنوں میں افضل یوم عرفہ ہے اور جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ ستر حج سے افضل ہے۔ یہ حدیث تجرید الصحاح میں علامتہ الموطا کے ساتھ مذکور ہے (الموطا کے موجودہ مطبوعہ نسخوں میں یہ حدیث مذکور نہیں ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے اگر اس حدیث کی کوئی اصل ہے تو ہوسکتا ہے ستر سے مراد ستر درجے ہوں یا مبالغہ مراد ہو اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ (فتح الباری ج ٨ ص ٢٧١) … (مراقی الفلاح مع حاشیہ الطحطاوی ص ٤٤٥، مطبوعہ مصر، ١٣٥٦ ھ،چشتی) ۔ علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد الحصکفی الحنفی المتوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں : جب عرفہ جمعہ کے دن ہو تو ستر حج کا ثواب ہے اور (میدان عرفات میں) ہر فرد کے لیے بلاواسطہ مغفرت کردی جاتی ہے۔ (الدرالمختار مع ردلمحتارج ٢ ص ٢٥٤، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٠٧ ھ) ۔ اس کے حاشیہ پر علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں : الشرنبلالی نے زیلعی سے نقل کیا ہے کہ تمام دنوں میں افضل یوم عرفہ ہے اور جب عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس دن حج کرنا باقی دنوں کے ستر حج سے افضل ہے۔ اس حدیث کو رزین بن معاویہ نے تجرید الصحاح میں روایت کیا ہے۔ علامہ مناوی نے بعض حفاظ سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ (فیض القدیر ج ٣ ص ١١٧٣، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ) البتہ امام غزالی نے احیاء العلوم میں ذکر کیا ہے کہ بعض سلف نے کہا ہے کہ جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو تمام اہل عرفہ کی مغفرت کردی جاتی ہے اور یہ دن دنیا کے تمام دنوں سے افضل ہے، اسی دن میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حج کیا تھا جو حجتہ الوداع تھا، اور جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وقوف فرما رہے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی : الیوم اکملت لکم دینکم۔ (المائدۃ : ٣) اہل کتاب نے کہا اگر ہم میں یہ آیت نازل ہوتی تو ہم عید مناتے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ آیت دو عیدوں کے دن نازل ہوئی ہے : یوم عرفہ اور یوم جمعہ۔ اس وقت نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عرفہ میں وقوف فرما رہے تھے۔ (علامہ شامی نے معراج کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ردالمختار، ج ٢ ص ١٧٨) ۔ نیز علامہ شامی لکھتے ہیں : علامہ سندی نے المنسک الکبیر میں لکھا ہے کہ تمام اہل موقف کی مطلقاً مغفرت کردی جاتی ہے پرھ جمعہ کی تخصیص کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا یہ جواب ہے کہ جمعہ کے دن بلاواسطہ مغفرت کی جاتی ہے اور باقی ایام میں بعض لوگوں کی بعض کے واسطے سے مغفرت کی جاتی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دوسرے دنوں میں صرف حجاج کی مغفرت کی جاتی ہے اور جب عرفہ جمعہ کے دن ہو تو حجاج اور غیر حجاج سب کی مغفرت کی جاتی ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ میدان عرفات میں بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا حج قبول نہیں ہوتا تو سب کی مغفرت کیسے ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی مغفرت تو ہوجائے گی لیکن ان کو حج مبرور کا ثواب نہیں ملے گا اور مغفرت حج کے مقبول ہونے کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ ان احادیث میں تمام اہل موقف کی مغفرت کا ذکر ہے، اس لیے اس قید کا اعتبار کرنا واجب ہے۔ (ردالمختار ج ٢ ص ٢٥٤، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٠٧ ھ) ۔ علامہ سید احمد الفحطاوی الحنفی المتوفی ١٢٣١ ھ لکھتے ہیں : جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس دن حج کرنا دوسرے ایام کی بہ نسبت ستر حج سے افضل ہے۔ (حاشیتہ الطحطاوی علی الدر المختار ج ١ ص ٥٥٩، مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت، ١٣٩٥ ھ) ۔ امام محمد بن محمد غزالی شافعی متوفی ٥٠٥ ھ لکھتے ہیں : بعض اسلاف نے یہ کہا ہے کہ جب جمعہ کے دن یوم عرفہ ہو تو تمام میدان عرفات والوں کی مغفرت کردی جاتی ہے اور یہ دن دنیا کے تمام دنوں سے افضل ہے اور اسی دن میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حجتہ الوداع کیا تھا۔ (احیاء علوم الدین ج ١ ص ٣٢٠، مطبوعہ دارالخیر بروت، ١٤١٣ ھ) ۔ اس کی شرح میں علامہ سید محمد زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : رزین بن معاویہ العبدری نے تجرید الصحاح میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تمام دنوں میں افضل یوم عرفہ ہے اور جس دن عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ ستر حج سے افضل ہے۔ اس حدیث پر موطا کی علامت ہے لیکن یہ حدیث یحییٰ بن یحییٰ کی موطا میں نہیں ہے، شاید یہ کسی اور موطا میں ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ج ٤ ص ٢٧٤، مطبوعہ مطبعہ میمنہ مصر) ۔ علامہ یحییٰ بن شرف نواوی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں : اور بیشک یہ کہا گیا ہے کہ جب یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو تمام اہل موقف (میدان عرفات کے تمام لوگوں) کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ (شرح المہذب ج ٨ ص ١١٥، مطبوعہ دارالفکر بیروت، الایضاح فی مناسک الحج والعمرۃ، ص ٢٨٦، مطبوعہ المکتبہ الامدادیہ مکہ مکرمہ ١٤١٧ ھ) ۔ مناسک نووی کی یہی وہ عبارت ہے جس کا اکثر علماء نے حوالہ دیا ہے اور اس عبارت سے استدلال کیا ہے۔ علامہ عبدالفتاح مکی مناسک الحج والعمرۃ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے کہ تمام دنوں میں افضل یوم عرفہ ہے، اگر اس میں وقف جمعہ کے دن ہو تو وہ دوسرے دنوں کی بہ نسبت ستر دنوں سے افضل ہے۔ (الافصاح علی مسائل الایضاح، ص ٢٨٧، مطبوعہ المکتبہ الامدادیہ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ) ۔ علامہ ابن حجر الہیتمی المکی الافعی المتوفی ٩٧٤ ھ لکھتے ہیں : جمعہ کے دن کے فضائل میں سے یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے : تمام دنوں میں افضل یوم عرفہ ہے ، اگر وقوف عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ غیر جمعہ کے ستر حج سے افضل ہے۔ (حاشیہ ابن حجر الہیتمی علی شرح الایضاح فی مناسک الحج للامام النووی ص ٣٢٨، مطبوعہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٩ ھ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...