حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف طوفانِ بدتمیزی کیوں ؟
محترم قارئینِ کرام : امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا ، بیررومہ کا وقف ِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر عسر ت و تنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبو ت سے دادِ تحسین حاصل کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس موقع پر ان کی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا '' ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم '' (آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگر ے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ، بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ، دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرما کر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق و انتشار سے محفوظ فرمانا ،یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کےلیے صرف حضر ت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔ ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جن کا ان کی ذات کو مورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کیے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیے ، چاہے تو یہ تھا کہ سلسلہ اعتراضات ختم ہو جاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک نسلِ ابنِ سبا یہودی کی طرف سے زور و شور سے جاری ہے ۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کیے ۔
پہلا یہ تھا کہ کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ دوسراسوال یہ کہ کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے اعتراف کیا ہے ، خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ان تینوں سوالوں کا جواب بھی لیتا جا ، پھر آپ نے اس کے سوالوں کا ترتیب وار جواب دیا ۔ فرمایا : جہاں تک جنگِ احد میں فرار کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں ان کی معافی کااعلان کر چکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان فرما دیا تو اعتراض کیسا ؟ ۔ دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اس لیے حاضر نہیں ہو سکے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی او ر اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔ انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرما کر ان کےلیے اجر و ثواب کا اعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا ۔ اور تیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بنا کر ان کا زبردست اعزاز و اکرام فرمایا ان کے مکہ جانے کے بعد بیعتِ رضوان کا معاملہ پیش آیا پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ، اپنا دایاں ہاتھ بلند کر کے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیعت لی ۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے جوابات سے فارغ ہو کر اس معترض سے فرمایا ''اذھب بھاالآن'' ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتا جا ، یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچا دکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیا کہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔ (مشکوۃ المصابیح مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ،چشتی)
امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا ، بیررومہ کا وقف ِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر عسر ت و تنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبو ت سے دادِ تحسین حاصل کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس موقع پر ان کی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا '' ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم '' (آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگر ے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ، بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ، دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرما کر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق و انتشار سے محفوظ فرمانا ،یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کےلیے صرف حضر ت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔ ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جن کا ان کی ذات کومورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کیے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیے ، چاہے تو یہ تھا کہ سلسلہ اعتراضات ختم ہو جاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک نسلِ ابنِ سبا یہودی کی طرف سے زور و شور سے جاری ہے ۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کیے ۔
پہلا یہ تھا کہ کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ دوسراسوال یہ کہ کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟ ۔ آپ نے فرمایا ہاں ۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے اعتراف کیا ہے ، خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ان تینوں سوالوں کا جواب بھی لیتا جا ، پھر آپ نے اس کے سوالوں کا ترتیب وار جواب دیا ۔ فرمایا : جہاں تک جنگِ احد میں فرار کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں ان کی معافی کااعلان کر چکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان فرما دیا تو اعتراض کیسا ؟ ۔ دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اس لیے حاضر نہیں ہو سکے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی او ر اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔ انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرما کر ان کےلیے اجر و ثواب کا اعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا ۔ اور تیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بنا کر ان کا زبردست اعزاز و اکرام فرمایا ان کے مکہ جانے کے بعد بیعتِ رضوان کا معاملہ پیش آیا پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ، اپنا دایاں ہاتھ بلند کر کے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیعت لی ۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے جوابات سے فارغ ہو کر اس معترض سے فرمایا ''اذھب بھاالآن'' ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتا جا ، یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچا دکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیا کہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔ (مشکوۃ المصابیح مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ،چشتی)
امام ابو اللیث نصر بن محمد سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٧٠ ھ روایت کرتے ہیں : غیلان بن جریر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف کے درمیان بحث ہوئی ‘ حضرت عبدالرحمان نے کہا تم مجھے برا کہتے ہو ‘ حالانکہ میں جنگ بدر میں حاضر ہوا اور تم حاضر نہیں ہوئے اور میں نے درخت کے نیچے بیعت (رضوان) کی اور تم نے نہیں کی اور تم جنگ احد کے دن لوگوں کے ساتھ بھاگ گئے تھے حضرت عثمان نے فرمایا جنگ بدر میں حاضر نہ ہونے کا جواب یہ ہے کہ میں کسی غزوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غائب نہیں رہا ‘ البتہ غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی بیمار تھیں ‘ اور میں ان کی تیمارداری میں مشغول تھا ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مال غنیمت سے مجھے بھی اتنا ہی حصہ دیا تھا جتنا آپ نے دوسرے مسلمانوں کو حصہ دیا تھا اور رہا درخت کے نیچے بیعت کا معاملہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مکہ میں مشرکین سے بات کرنے کےلیے بھیجا تھا ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے اپنے دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے بہتر ہے اور رہا جنگ احد میں بھاگنے کا سوال تو اس کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا اور یہ آیت نازل فرمائی : بیشک جس دن دو فوجیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہوئی تھیں اس دن جو لوگ تم میں سے پھرگئے تھے ان کے بعض کاموں کی وجہ سے شیطان ہی نے ان کو لغزش دی تھی ‘ بیشک اللہ نے ان کو معاف کر دیا ۔ (تفسیر سمرقندی جلد ١ صفحہ ٣١٠ مطبوعہ دار الباز مکہ مکرمہ ١٤١٣ ھ,چشتی)
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : عثمان بن موھب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حج بیت اللہ کرنے کے لیے آیا۔ اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا اس نے پوچھا یہ کون لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ؟ لوگوں نے کہا یہ قریش ہیں ‘ پوچھا یہ بوڑھا آدمی کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں ‘ اس نے کہا میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیا آپ مجھے اس کا جواب دیں گے ؟ میں آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان بن عفان جنگ احد کے دن بھاگ گئے تھے ؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں ! اس سے کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ غزوہ بدر میں بھی حاضر نہیں ہوئے تھے ؟ حضرت ابن عمر نے کہا ہاں ! اس نے نعرہ لگایا اللہ اکبر ‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا تم نے جن چیزوں کے متعلق سوال کیا تھا اب میں تم کو ان کی وجوہات بیان کرتا ہوں رہا جنگ احد میں بھاگنے کا معاملہ تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے اس کو معاف کردیا ‘ اور رہا غزوہ بدر میں غیرحاضر رہنا ‘ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ان کے نکاح میں تھیں ‘ (وہ ان کی تیمارداری کر رہے تھے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا تم کو بدر میں حاضر ہونے والے مسلمانوں اجر اور مال غنیمت ملے گا اور رہا بیعت رضوان سے غائب ہونے کا معاملہ تو یہ بیعت اس وقت ہوئی تھی جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ جا چکے تھے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے ‘ پھر اس کو اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا ‘ اور فرمایا یہ عثمان کی بیعت ہے ۔ پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے فرمایا تم نے یہ جوابات سن لیے اب جہاں جانا چاہو چلے جاؤ ۔ (صحیح بخاری جلد ٢ صفحہ ٥٨٢ ۔ ٥٨١ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی ١٣٨١ ھ,چشتی)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف اس طوفانِ بدتمیزی کا اصل سبب یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام کا بدخواہ ایک سازشی گروہ پیدا ہو چکا تھا جس کا قائد عبد اللہ بن سبا یہودی تھا جس نے بڑی تیزی کے ساتھ کوفہ ، بصرہ ، مصر اور بعض دوسرے شہروں میں لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا اور سادہ لوح عوام کواپنے دام تزویر میں پھنسا کر خلیفہ اسلام سے بد گمان کر کے ان کے خلاف ایک محاذ قائم کیا یہ بے بنیاد الزامات و اتہامات اسی گروہ کے تراشے ہوئے ہیں ۔ اس سبائی گروہ کی باقیات و نسل آج بھی ان خودساختہ الزامات کو بنیاد بنا کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ہدفِ تنقید بنارہے ہیں ۔ اور اہلِ حق نے ہمیشہ ہر دور میں ان الزامات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی برات ثابت کر کے ان کی پوزیشن واضح فرمائی ۔ لہٰذا مناسب ہوگا کہ ان سطور میں چند ایسے الزامات کامع جوابات کے ذکر کیا جائے جو شہرت کے ساتھ آپ کی ذات پر عائد کیے گئے ہیں ۔
(1) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے مناصب سے معزول کر کے اپنے رشتہ داروں کو ان کی جگہ مقرر کیا ، چنانچہ حضر ت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کوفہ کی گورنری سے ہٹا کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا تقرر کیا پھر انہیں معزول کیا اور ان کی جگہ ولید بن عقبہ کو گورنر بنایا ، اسی طرح حضر ت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی گورنر ی ہٹا کر عبد اللہ بن عامر کو بطور گورنر مقرر کیا ، یونہی حضر ت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ کو مصر کی گورنر ی معزول کر کے عبد اللہ بن ابی سرح کو اس منصب پر بٹھایا ، ان تمام کاروائیوں کی اصل بنیاد اقربا پروری ہے کیونکہ عبد اللہ بن ابنی سرح ، عبد اللہ بن عامر ، اور ولید بن عقبہ حضر ت عثما نِ غنی رٰرضی اللہ عنہم کے قریبی رشتہ دار تھے ۔
(2) بغیر کسی استحقاق کے اپنے اعزہ واقارب کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں دلائیں ۔
(3) حکم بن ابی العاص کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے افشاء راز کے جرم میں طائف کی طرف جلاوطن کردیا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد شیخین رضی اللہ عنہما نے اس سزا کو برقرار رکھا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو حکم کو مدینہ طیبہ بلا لیا اور یہ اس لیے تھا کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے چچا تھے ۔
(4) باغیوں کا ایک وفد جو مصر ، کوفہ اور بصرہ کے لوگوں پر مشتمل تھا مدینہ طیبہ میں حضر ت علی ، حضر ت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عزل کا مطالبہ کر رہا تھا ، جب ان بزگوں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر واپس کر دیا تو بعد میں بصری وفد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا انہوں نے ان کی واپسی کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک خط پکڑا ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے گورنر مصر کے نام لکھا ہے جس میں اسے حکم دیا گیا ہے کہ جب وفد تمہارے پاس پہنچے تو اسے قتل کر دینا ، اس خط پر عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مہر لگی ہوئی تھی جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے اس خط کی بابت سوال کیا گیا ۔ توآپ نے لاعلمی کا اظہار کیا ، اس لیے لوگوں نے نتیجہ نکالا کہ پھر یہ خط مروان نے لکھا ہوگا جو عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی ان کے سیکریٹری ہیں سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی سازش پکڑے جانے کے باوجود عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مروان کو سزا کیوں نہ دی اور اس کے جرائم پرپردہ کیوں ڈالا گیا ۔
(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃالوداع میں منیٰ و عرفات میں نمازِ قصر ادا فرمائی اور شیخین کاعمل بھی اسی پر رہا مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم منیٰ و عرفات میں اتمام کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور طریقہ شیخین کے خلاف تھا ۔
ان تمام سوالات کے اختصارکے ساتھ جوابات پیشِ خدمت ہیں :
پہلے ، دوسرے اور پانچویں سوال اور بہت سے دیگر سوالات کے خود حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے جوابات دیے جو ہدیہ قارئین کیے جاتے ہیں ، چنانچہ تاریخِ اسلام مؤلفہ اکبر شاہ نجیب آبادی میں ہے ، ایک شخص نے اٹھ کر سوال کیا کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طور پر مال دیتے ہیں مثلاً عبد اللہ بن سعد کو آپ نے تمام مالِ غنیمت بخش دیا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں اس کو مالِ غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیا ہے مجھ سے پہلے خلافتِ صدیقی ، فاروقی میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ اس کے بعد ایک اور شخص اٹھا اس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیز و اقارب کو امارتیں اور حکومتیں دے رکھی ہیں مثلاً معاویہ بن سفیان جن کو تمام ملکِ شام پر امیر بنا رکھا ہے بصرہ کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کو معزول کر کے ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر کو امیر بنایا ، کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ کوجدا کر کے ولید بن عقبہ کو اس کے بعد سعید بن العاص کو امیر بنایا ۔ یہ سن کر عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جن لوگوں کومیں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ سارے میرے اقارب نہیں اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن و خوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔ اگر آپ کی رائے کے مطابق امارت کے قابل نہیں ہیں اورمجھ پر ان کی بے جا رعایت کا الزام عائد ہوتا ہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کو مقرر کرنے کےلیے تیار ہوں ۔ چنانچہ میں نے سعید بن العاص کو ان کی امارت سے الگ کر کے ابو موسیٰ اشعر ی کو کوفہ کا گورنر بنایا ہے ۔ اس کے بعد ایک شخص نے کہا تم نے بلا استحقاق اور ناقابل رشتہ داروں کو امارتیں دی جوان امارتوں کے اہل نہ تھے مثلاً عبد اللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں ان کو والی نہیں بنانا چاہیے تھا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ عبد اللہ بن عامر عقل و فراست ، دین داری اور قابلیت میں خاص طور پر ممتاز ہے محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسامہ بن زید کو صرف 17 سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے آپ ان کو بڑے بڑے عطیا ت دیتے ہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خاندان والوں سے محبت ہونا کوئی گناہ نہیں ہے میں اگر ان کو عطیا ت دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں بیت المال سے تو میں اپنے خرچ کےلیے بھی ایک کوڑی نہیں لی ، اپنے رشتہ داروں کےلیے بلا استحقاق کیسے لے سکتا ہوں اپنے ذاتی مال کا مجھے اختیار ہے چاہے جس کو بھی دوں ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا او راس نے کہا کہ تم نے چراگاہ کو اپنے لیے مخصوص کر لیا ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ نہ تھا تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ اونٹ کسی کے پاس نہ ہی بکریاں لیکن آج کل میرے پا س صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کےلیے ہیں میں ان کو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ مخصوص ضرور ہے اور وہ میرے زمانے میں نہیں بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آ رہی ہے اس کا مجھ پر الزام نہیں لگایا جاسکتا ۔ پھر ایک شخص نے کہا کہ تم بتاؤکہ تم نے منیٰ میں پوری نماز کیوں پڑھی حالانکہ قصر کرنی چاہیے تھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میرے اہل و عیال مکہ میں مقیم تھے لہٰذا میرے لیے نماز قصر نہ کرنا جائز تھا ۔ (تاریخ اسلام جلد اول صفحہ نمبر 341 ،چشتی)
گورنروں کے عزل و نصب کے سلسلے میںیہ با ت ذہن نشین ہونی چاہیے کہ تقرری اور برخاستگی کا سلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کے دور میں جہاں عزل و نصب کی ضرور ت محسوس کی گئی ، عزل و نصب کیا گیا ۔ چنانچہ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو بصرہ کی گورنری سے علیحدہ کیا اسی طرح حضرت سعدبن ابی وقاص کوبھی بصرہ کی گورنری سے حضرت عمر نے معزول فرمایا تھا اورحضر ت خالد بن ولید کی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے برخاستگی مشہور و معروف ہے جس طرح حضرت عمر نے بعض حالات کے تحت بعض جلیل الشان صحابہ کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اسی طرح حضر ت عثما ن غنی (رضی اللہ عنہم) نے جن حضرات کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اس کے معقول اسباب و وجوہ تھے ۔ اورجن حضر ت کا تقرر فرمایا وہ باصلاحیت لوگ تھے ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، عہدِ شیخین میں کسی عہدہ پر فائز رہے تھے ۔ مثلاً ولید بن عقبہ فتح مکہ کے زور مسلمان ہوئے پھر انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنو مصطلق کے صدقات کا عامل مقرر فرمایا او ر حضرت عمر نے انہیں عرب الجزیرہ کا عامل بنایا اسی طرح عبد اللہ بن ابی سرح فاتح افریقہ اورعبد اللہ بن عامر فاتحِ ایر ان وخراسان ہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مردم شناس نگاہوں نے جن عظیم افراد کا انتخاب فرمایا وہ رشتہ داری کی بناء پر نہیں بلکہ خداداد صلاحیتوں کی بناء پرچنے گئے اور وہ مستقبل میں قوم کے ہیرو بنے جن کے کارناموں پر اسلام واہلِ اسلام کو نازہے ۔
جہاں تک تیسرے سوال کا تعلق ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حکم بن ابی العاص کو طائف سے مدینہ طیبہ میں بلا لیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کی واپسی کی وجہ خود بیان فرمائی کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سفارش کی جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول فرماتے ہوئے ان کی واپسی کامجھ سے وعدہ فرمایا ۔ اسد الغابہ میں ہے کہ : فلماولیٰ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخلافۃ ردہ وقال کنت قد شفعت فیہ الی رسول اللہؐ فوعدنی بردہ وتوفی فی خلافۃعثمان ۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد دوم صفحہ ٥٣ مطبوعہ المکتبہ اسلامیہ تہران,چشتی)
ترجمہ : پھرجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ نے حکم بن ابی العاص کو مدینہ طیبہ میں بلالیا اور فرمایا کہ میں نے ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سفارش کی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے ان کی واپسی کا وعدہ فرمایا ۔
اور چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ خط نہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لکھا اور نہ اس کا حکم دیا اور نہ یہ آپ کی مہر تھی اور نہ ہی اس میں مروان ملوث تھا بلکہ یہ شیعہ مذھب کے بانی عبد اللہ بن سبا یہودی کی جماعت کی سازش تھی جنہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اس جماعت نے صرف حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نام سے جعلی خط نہیں لکھا بلکہ حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضر ت زبیر رضی اللہ عنہم کے نام سے مختلف شہروں کے عوام کو جعلی خطوط لکھے گئے جن میں ان سے کہا گیا کہ تم لوگ مد ینہ طیبہ میں جمع ہو کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے معزول ہونے کا مطالبہ کرو ، چنانچہ حافظ ابن کثیر اس خط کے بارے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں : فو اللہ لاکتبت ولااملیت ولادریت بشیء من ذالک والخاتم قد یزورعلی خاتم ۔
ترجمہ : بخدا میں نے یہ خط نہ لکھوایا نہ اس کے بارے میں کچھ علم ہے اور انگوٹھی ۔۔۔۔۔۔ انگوٹھی توجعلی بھی بنائی جا سکتی ہے ۔
چند سطر بعد حافظ ابن کثیر ، ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں : ان الصحابۃ کتبو االی الافاق من المدینۃ یامرون باالنا س بالقدوم علی عثما ن لیقاتلوہ .وھذاکذب علی الصحابۃ .وانما کتبت کتبا مزورۃ علیھم کماکتبو من جھۃ علی وطلحۃ والزبیرالی الخوارج کتبا مزورۃ علیھم انکروھا وھکذا زورھذالکتاب علی عثمان ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ٧ صفحہ ١٧٥,چشتی)
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ طیبہ سے باہر رہنے والوں کو خطوط لکھے جس میں انہیں مدینہ طیبہ میں آکر حضر ت عثما ن سے لڑائی کرنے کو کہا گیا تھا اور یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹا الزام ہے ، ان بزرگوں کی طرف سے جھوٹے لکھے گئے جیسے علی و طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کی طرف سے جھوٹے خطوط لکھے گئے جس کا انہوں نے انکار کیا ، اسی طرح حضرت عثمانِ غنی کی طرف سے یہ جھوٹا خط لکھا گیا ۔
معاملاتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں راہِ عافیت
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اعداءِ دین کی طرف سے لگائے گئے الزام و اتہامات کی ایک طویل فہر ست ہے جن میں سے چند ایسے مطاعن جنہیں بہت زیادہ اچھالا جاتا ہے انتخاب کیا گیا اور پھر اختصار کے ساتھ ان کا جواب دیا گیا حق کے متلاشی کےلیے یہ چند سطور کافی و شافی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ صحابہ کرام خصو صاً خلفائے راشدین علیہم الرضوان کی عدالت ایک مسلّم امر ہے اور اپنی زبانوں کوان کے حق میں برائی سے روکنا عقائدِ اہلِسنت میں شامل ہے ۔ شرح عقائد میں ہے : ویکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ۔
ترجمہ : ذکرِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے زبان کو روکا جائے مگر بھلائی کے ساتھ ۔
اور یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم ان کی عظمتوں کی گواہی دے رہا ہے اور احادیث ان کے فضائل ومناقب سے مالامال ہیں ۔ یہ آیتیں ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہییں :
یداللّٰہ فوق ایدیھم ،
ان کے ہاتھوں پر اللہ کاہاتھ ہے ۔
رضی اللّٰہ عنہ ورضو عنہ ۔
اللہ ان سے راضی اوروہ اللہ سے راضی ہیں ۔
کلا وعداللّٰہ الحسنیٰ ۔
سب صحابہ سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی (جنت) کاوعدہ فرمایا ہے ۔
اور یہ احادیثِ مبارکہ بھی ہمارے ذہن نشین رہنی چاہییں :
لایمس النا رمسلماًرأنی ۔
جس مسلمان نے میرا دیدارکیااسے آگ نہیں چھوئے گی ۔
اکرموا اصحابی فانھم خیارکم ۔
میرے سارے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم سب میں بہتر ہیں ۔
لاتسبوااصحابی،میرے صحابہ کو گالی نہ دو ۔
اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا ۔
میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈروانہیں طعن کانشانہ نہ بناؤ ۔
من سب اصحابی فعلیہ لعنۃاللّٰہ ۔
جومیرے صحابہ کو گالی دے اس پراللہ کی لعنت ۔
اذارأیتم الذین یسبون اصحابی فقولوالعنۃاللّٰہ علی شرکم ۔
جب تم ایسے لوگوں کودیکھوجو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں تو کہو تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو ۔
خصوصاً حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حق میں دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاری ہونے والا پروانہ بشارت کبھی لوحِ قلب سے محو نہ ہو ۔ ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم ، آج کے بعد عثمان پر کسی عمل کا مؤاخذہ نہیں ۔ اور یہ بات بھی ہر دم ملحوظ ہو کہ وہ ان دس خوش بختوں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نبوت سے نویدِ جنت ملی ۔ ان نصوص کے مقابلہ میں ان تاریخی کتب کی کیا حیثیت ہے جو ضعاف درکنار موضوعات سے بھری پڑی ہیں جب کتبِ احادیث موضو عات سے محفوظ نہ رہ سکیں تو کتبِ تاریخ کا کیا ٹھکانا ، لہٰذا راہِ احتیاط قرآن و سنت کو اپنا نے میں ہے تاریخی موضوعات و مہملات کو عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی نصوصِ شرعیہ کے مقابلے میں تاریخی واقعات کو اہمیت دی جا سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کے قلوب و اذہان میں صحابہ واہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت بسائے اور ان کی بارگاہ میں زبا ن درازی سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment