Thursday 23 May 2024

فضائل و مناقبِ اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم

فضائل و مناقبِ اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم

محترم قارئینِ کرام : قرآنِ کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے : قُلْ لَّاۤ اَسْلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ ۔
تَرجَمہ : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبّت ۔ (پارہ نمبر 25 سورہ الشوریٰ آیت نمبر 23)

دورِ صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک اُمّتِ مسلمہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتی ہے ، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے مَحبت کا دَم بھرتے ہیں ۔ حضرت علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 256)

حضرت علّامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ نمبر 94)

حضرت صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب رضی اللہ عنہم کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے اور انصار نے دیکھا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ مصارف بہت ہیں اور (بظاہر) مال بھی کچھ نہیں ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق اور احسانات یاد کرکے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں پیش کرنے کے لئے بہت سا مال جمع کیا اور اس کو لے کر حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کی بدولت ہمیں ہدایت ملی ہم نے گمراہی سے نجات پائی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اس لئے ہم خدام آستانہ پہ مال آپ کی خدمت نذر کرنے کے لئے لائے ہیں ۔ امید ہے آپ قبول فرماکر ہماری عزت افزائی فرمائیں گے ۔ اس پر آیت مبارکہ نازل ہوئی اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اموال واپس فرمادیے ۔ (خزائنُ العرفان، پارہ نمبر 25 سورہ الشوریٰ تحت الآیۃ : 23 ، صفحہ نمبر 894،چشتی)

اہل بیت کا معنی و مفہوم

لفظ اہل کا معنی ہے والا اور لفظ بیت کا مطلب ہے گھر۔ یعنی اس سے مراد ہے گھر والا یا گھر والے۔ ہمارے اردو محاورے میں بھی بیوی بچوں کو اہل خانہ یا اہل و عیال یا گھر والے کہا جاتا ہے ۔

حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں مندرجہ بالا آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں : لما نزلت هذه الآية قيل يارسول الله من قرابتک هولاء الذين وجبت علينا مودتهم فقال: علی وفاطمة وابناهما ۔
ترجمہ : جب یہ آیت (قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى) نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بارگاہ مصطفوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کے وہ کون رشتہ دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کردی گئی ہے تو امام الانبیاء صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ علی، فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند (امام حسن و امام حسین) رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسير کبير، الجزء السابع والعشرون . صفحہ نمبر 166،چشتی)

اسی آیت کی تفسیر میں حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ مزید رقمطراز ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :⬇

شہادت کا درجہ

من مات علی حب آل محمد مات شهيدا ۔
ترجمہ : جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس نے شہادت کی موت پائی ۔

گناہوں کی بخشش

اور مزید فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد مات مغفورا له ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ ! جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ ایسا ہے کہ اس کے گناہ بخش دیئے گئے ۔

توبہ کی توفیق

الا ومن مات علی حب آل محمد مات تائبا ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ گناہوں سے تائب ہوکر مرا ۔

خاتمہ بالایمان

پھر فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد مات مومنا مستکمل الايمان ۔
ترجمہ : خبردار ہوجاؤ جو شخص اہل بیت کی محبت میں مرا وہ مکمل ایمان کے ساتھ فوت ہوا ۔

جنت کی بشارت

اور فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد بشره ملک الموت بالجنة ثم منکرو نکير ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ ، جو اہل بیت کی محبت میں مرا اسے حضرت عزرائیل علیہ السلام (موت کے فرشتے) اور منکر نکیر جنت کی بشارت دیں گے ۔

عزت کے ساتھ جنت میں داخلہ

پھر ارشاد فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد يزف الی الجنة کما يزف العروس الی بيت زوجها ۔
ترجمہ : آگاہ ہوجاؤ جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس کو ایسی عزت کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے گا جیسے دلہن کو اس کا شوہر گھر لے جاتا ہے ۔

قبر میں جنت کے دروازوں کا کھلن

اور فرمایا : الا ومن مات علی حب آل محمد فتح له فی قبره بابان الی الجنة ۔
ترجمہ : خبردار ہوجاؤ ۔ جو اہل بیت کی محبت میں مرا اس کی قبر میں جنت کے دو دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ (تفسير کبير الجزء السابع والعشرون صفحہ 166-165)(تفسير کشاف، جلد 3 صفحہ 467،چشتی)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت

خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا : والذی نفسی بيده لقرابه رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم احب الی ان اصل من قرابتی ۔
ترجمہ : خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مجھ کو اپنے اقرباء سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقرباء محبوب تر ہیں ۔ (بخاری جلد نمبر 2 صفحہ 438 حدیث نمبر 3712،چشتی) ، (الشفاء بتعريف حقوق المصطفی، عياض بن موسیٰ القاضی صفحہ 38)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت

خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنی اولاد سے زیادہ اہل بیت اطہار سے محبت فرمایا کرتے تھے اور ہر موقع پر ان کو فوقیت دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا ۔ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو ہزار ہزار درہم دیئے اور اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف پانچ سو درہم دیئے تو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: یا امیرالمومنین! میں حضور سید دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں جوان تھا اور آپ کے حضور جہاد کیا کرتا تھا ۔ اس وقت حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے تھے اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے۔ آپ نے ان کو ہزار ہزار درہم دیئے اور مجھے صرف پانچ سو درہم دیئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : بیٹا! پہلے وہ مقام اور فضیلت تو حاصل کرو جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہے پھر ہزار درہم کا مطالبہ کرنا۔ ان کے باپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ماں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، نانا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نانی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش ہوگئے ۔ (تاريخ کربلا محمد امين القادری صفحہ نمبر 71)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت عبد اللہ بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کسی کام کی غرض سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا : اگر آئندہ آپ کو کوئی ضرورت پیش آئے تو کسی کو میرے پاس بھیج دیا کریں یا خط لکھ کر مجھے بلا لیا کریں ۔ آپ کے آنے سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے ۔ (الشفاء، قاضی عياض الاندلسی صفحہ 39،چشتی)

صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء جلد نمبر 1صفحہ نمبر 244)(تاریخ ابنِ عساکر جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 372)

حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔ (معجمِ کبیرجلد نمبر 10 صفحہ نمبر 285 حدیث نمبر10675)

حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت سیّدُنا عمر فاروق اور حضرت سیّدُنا عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 360)

حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان ! نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو ، حضرت علی کے نہیں ۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث:8161،چشتی)

ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789)

ایک موقع پر حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔ (ریاض النضرۃ،ج1،ص341)

حضرت سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کے لئے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لئے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج3،ص259)

حضرت امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ کی اہلِ بیت سے محبت

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ، صفحہ نمبر 59)

آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415)

آپ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی،ج10،ص205، مؤطا امام مالک،ج2،ص259)

ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی : اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 209،چشتی)

یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہم کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید جلد 5 صفحہ 344)

آپ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے تھے ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)

ایک بار آپ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179)

حضرت امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے ، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309)(طبقات ابن سعد،ج 6،ص409،چشتی)(معجم الصحابہ،ج 4، ص370) (کشف المحجوب،ص77)(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)

حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ 92)

نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء، صفحہ نمبر 135)

حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔ (مسند امام احمد،ج 3،ص632)

ابومہزم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 407،چشتی)

عیزار بن حریث رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا : اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 179،چشتی)

حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل بیت کی بہت تعظیم کرتے تھے اور ان کی ظاہر و پوشیدہ نادار لوگوں پر خوب خرچ کرکے ان کی قربت حاصل کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ آپ نے ان میں سے ایک نادار آدمی کو خفیہ طور پر بارہ ہزار درہم بھجوائے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اہل بیت کی تعظیم کا درس دیا کرتے تھے ۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت سیدنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی اہل بیت سے بے پناہ عقیدت ومحبت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا: جب میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں کی راہ پر چل رہے ہیں جو ہلاکت اور جہالت کے سمندر میں غرق ہیں تو میں اللہ کا نام لے کر نجات کے سفینے میں سوار ہوگیا اور وہ نجات کا سفینہ حضور سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت ہیں ۔ (الصواعق المحرقه احمد بن حجرالهيتمی صفحہ 54)

ایک مرتبہ اہل بیت سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح فرمایا :

ان کان رفضا حب آل محمد
فليشهد الثقلان انی رافضی
ترجمہ : اگر آل رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی کا نام رفض ہے تو دونوں جہاں گواہ رہیں کہ میں بے شک رافضی ہوں ۔ (تفسير کبير ، الجزء السابع والعشرون صفحہ 166)

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت سیدنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو جب عباسی حاکم جعفر بن سلیمان نے زدو کوب کیا اور کوڑوں سے آپ کے جسم مبارک کو مارنا شروع کیا تو آپ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش آیا تو حاضرین سے فرمایا: میں نے اس اذیت دینے والے کو معاف کردیا ہے تو لوگوں نے اس معافی کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا : مجھے خوف ہوا کہ اگر اسی حالت میں میری موت واقع ہو جائے اور حضور سید دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہو جائے تو مجھے اس وقت ندامت و شرمندگی نہ اٹھانی پڑے کہ میری وجہ سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک قرابت دار کو عذاب دوزخ کا مزہ چکھنا پڑے ۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت سے محبت

حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ اہل بیت اطہار کی تعظیم و تکریم کرتے تھے ۔ جب کوئی اولاد اہل بیت سے ان کے پاس آتا تو اپنی جگہ سے اٹھ جاتے اور انہیں مقدم فرمایا کرتے اور خود ان کے پیچھے بیٹھتے تھے ۔ (تاريخ کربلا ، محمد امين القادری صفحہ 73)

امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ اور ادب و محبت ساداتِ کرام رضی اللہ عنہم

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو ساداتِ کرام سے بے حد عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت و محبت صرف زبانی کلامی نہ تھی بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے ساداتِ کرام سے محبت فرماتے اور اگر کبھی لاشعوری میں کوئی تقصیر واقع ہو جاتی تو ایسے انوکھے طریقے سے اس کا اِزالہ فرماتےکہ دیکھنے سننے والے وَرْطَۂ حیرت میں ڈوب جاتے چنانچہ اِس ضمن میں ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے : بریلی شریف کے کسی محلہ میں امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مدعو تھے ۔ اِرادت مندوں نے اپنے یہاں لانے کےلیے پالکی کا اِہتمام کیا ۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سُوار ہو گئے اور چار مزدور پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیئے ۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یکایک امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے پالکی میں سے آواز دی : ”پالکی روک دو ۔ “پالکی رُک گئی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فوراً باہر تشریف لائے اور بھرّائی ہوئی آواز میں مزدورو ں سے فرمایا : سچ سچ بتائیں آپ میں سیِّد زادہ کون ہے ؟ کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان سرورِ دوجہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خُوشبو محسوس کر رہا ہے ۔ ایک مزدور نے آگے بڑھ کر عرض کی : حُضُور! مَیں سیِّد ہوں ۔ ابھی اس کی بات مکمّل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ عالمِ اِسلام کے مقتدر پیشوا اور اپنے وقت کے عظیم مجدِّد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا عِمامہ شریف اس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دیا ۔ امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گر رہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلتِجا کر رہے ہیں ،معزز شہزادے ! میری گستاخی مُعاف کر دیجیے ، بے خیالی میں مجھ سے بھول ہوگئی ، ہائے غضب ہو گیا ! جن کی نعلِ پاک میرے سر کا تاجِ عزّت ہے، اُن کے کاندھے پر میں نے سُواری کی ، اگر بروزِقیامت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھ لیا کہ احمد رَضا ! کیا میرے فرزند کا دوشِ ناز نین اس لئے تھا کہ وہ تیر ی سُواری کا بوجھ اُٹھائے تو میں کیا جواب دو ں گا ! اُس وقت میدانِ مَحشرمیں میرے ناموسِ عشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی ۔ کئی بار زَبان سے مُعاف کر دینے کا اِقرار کروا لینے کے بعد امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے آخِری اِلتجائے شوق پیش کی،محترم شہزادے ! اس لاشُعوری میں ہونے والی خطا کا کفّارہ جبھی اَدا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا دوں گا ۔ اِس اِلتجاپر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں ۔ ہزار اِنکار کے بعد آخرِکا ر مزدو ر شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا ۔ یہ منظر کس قدر دِل سوز ہے ، اہلسنّت کا جلیلُ الْقَدْر امام مزدوروں میں شامل ہو کر اپنی خداداد عِلمیّت اور عالمگیر شُہرت کا سارا اِعزاز خوشنودیٔ محبوب کی خاطر ایک گُمنام مزدور شہزادے کے قدموں پر نثار کر رہا ہے ۔ (اَنوارِرضا صفحہ ٤١٥)(زلف و زنجیر ،چشتی)

اِمامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ ” سید کے لڑکے سے جب شاگر ہو یا ملازم ہو دینی یا دنیاوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یانہیں ؟ توآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا : ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں ۔ نہ ایسی خدمت پر اسے ملازم رکھنا جائز اور جس خدمت میں ذِلَّت نہیں اس پر ملازم رکھ سکتاہے ۔ بحالِ شاگرد بھی جہاں تک عُرف اورمعروف ہو(خدمت لینا) شرعاً جائز ہے لے سکتا ہے اور اسے (یعنی سید کو ) مارنے سے مُطلَق اِحتراز (یعنی بالکل پرہیز) کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۲/۵۶۸)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط اور عظمتِ سادات کرام رضی اللہ عنہم ملاحظہ فرمائیے ، چنانچہ حیاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے : جناب سیِّد ایُّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے : ایک کم عُمر صاحِبزادے خانہ داری کے کاموں میں اِمداد کے لیے (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے) کاشانۂ اقدس میں ملازِم ہوئے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سیِّد زادے ہیں لہٰذا (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے) گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحِبزادے صاحب سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں (نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے فرزندِ ارجمند ہیں ان سے خدمت نہیں لینی بلکہ ان کی خدمت کرنی ہے لہٰذا) کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضَرورت ہو (ان کی خدمت میں) حاضِر کی جائے ۔جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورِ نذرانہ پیش ہوتا رہے،چُنانچِہ حسبُ الارشاد تعمیل ہوتی رہی۔کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحِبزادے خود ہی تشریف لے گئے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت،۱/۱۷۹،چشتی)

تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سے آپ کے طرزِ عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ساداتِ کرام جز و رسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلٰی حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا ۔ اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو اس کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ اس حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جزو ہیں ۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت 165/1)

تعظیم کےلیے نہ یقین دَرْکار ہے اور نہ ہی کسی خاص سند کی حاجت لہٰذا جو لوگ سادات کہلاتے ہیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے ، ان کے حَسَب و نَسَب کی تحقیق میں پڑنے کی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ساداتِ کرام سے سیِّد ہونے کی سند طلب کرنے اور نہ ملنے پر بُرا بھلا کہنے والے شخص کے بارے میں اِستفسار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً اِرشاد فرمایا : فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کےلیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں ، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اورخواہی نخواہی سند دِکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا ، مَطْعُون کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ اَلنَّاسُ اُمَنَاءُ عَلٰی اَنْسَابِھِم (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں ) ۔ ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کرینگے ، نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مُطَّلع کر دیا جائے ۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پرمیرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیِّد سے اُلجھا ، انہوں نے فرمایا : میں سید ہوں ، کہا : کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی ؟ رات کو زیارتِ اَقدس سے مشرف ہوا کہ معرکۂ حشر ہے ، یہ شفاعت خواہ ہوا ، اِعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی : میں بھی حضور کا اُمتی ہوں ۔ فرمایا : کیا سند ہے تیرے اُمتی ہونے کی ؟ ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٩/٥٨٧-٥٨٨،چشتی)

غیرِ سیِّد ، سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ(جان بوجھ کر ) سید بنتا ہو وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے ، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل ۔ (مُسلِم،کتاب الحج،باب فضل المدینة ۔ الخ  ص۷۱۲،حدیث:۱۳۷۰) مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلادلیل تکذیب نہیں کر سکتے، اَلْبَتَّہ ہمارے علم(میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق ومُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٣/١٩٨)

بد مذ ہب سیِّد کا حکم

اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ امامِ اہلسنّت ، مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی )جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے : قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۫٭ۖ) (پ۱۲، ھُود:۴۶) ترجَمہ : فرمایا! اے نوح ! وہ (یعنی تیرابیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١)

سادات كا احترام

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سادات كرام رضی اللہ عنہم كا بے پناه ادب و احترام كرتے ۔ مولوي محمد ابراهيم صاحب فريدي صدر مدرس مدرسه شمس العلوم بدايوں كا بيان هے كه حضرت مهدي حسن سجاده نشين سركار كلاں مارهره شريف نے فرمايا كه : ٫٫ميں جب بريلي آتا تواعليٰ حضرت خود كھانا لاتے اور هاتھ دھلاتے ۔ حسب دستور ايك بار هاتھ دھلاتے وقت فرمايا ۔ حضرت شهزاده صاحب انگوٹھي اور چھلے مجھے دے ديجيے، ميں نے اتار كر دے ديے اور وهاں سے ممبئي چلا گيا۔ ممبئي سے مارهره واپس آيا تو ميري لڑكي فاطمه نے كها ابا بريلي كے مولانا صاحب كے يهاں سے پارسل آيا تھا جس ميں چھلے اور انگوٹھي تھے، يه دونوں طلائي تھے اور نامه ميں مذكور تھا ، شهزادي يه دونوں طلائي اشيا آپ كي هيں ۔ (حيات اعليٰ حضرت صفحہ نمبر 111 ، 112)

مذکورہ بالا روایات میں آپ نے پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم اور آئمہ علیہم الرّحمہ کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے ، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے ، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے ، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول رضی اللہ عنہم کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ۔
ترجمہ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے گھر والو ! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب صاف ستھرا کردے ۔ (سورہ الاحزاب ، 33 : 33)

یہ آیت کریمہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے جمیع فضائل ، رفعتوں ، عظمتوں اور قدرو منزلت کے بیان کا منبع و مصدر اور سب سے اہم علمی اور قرآنی سرچشمہ ہے ۔ یہ آیت کلمہ حصر ’’اِنَّمَا‘‘ سے شروع ہوتی ہے ۔ ’’حصر‘‘ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ بات کی اہمیت اور تاکید کو بیان کرتا ہے ۔ اس سے مقصود سننے اور پڑھنے والوں کو بھر پور طریقے سے متوجہ کرنا ہوتا ہے تاکہ جو بات بیان کی جارہی ہے ، لوگ توجہ سے اسے سنیں ، سمجھیں اور اپنے فکر و عقیدہ میں اس کو جگہ دیں ۔

اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے گھر والو ! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو ۔ (تفسیر مدارک الاحزاب الآیۃ: ۳۳، صفحہ ۹۴۰)

اِس آیت میں اہلِ بیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواجِ مُطَہَّرات سب سے پہلے مراد ہیں کیونکہ آگے پیچھے سارا کلام ہی اُن کے متعلق ہو رہا ہے ۔ بقیہ نُفوسِ قُدسیہ یعنی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت علی المرتضیٰ اور حسنین کریمَین رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کا اہلِ بیت میں  داخل ہونابھی دلائل سے ثابت ہے ۔

تاجدار گولڑہ ولی کامل حضرت سیّدنا و مرشدنا پیر سیّد مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ : آیتہ تطہیر میں لفظ اہل بیت امہات المؤمنین آیتِ تطہیر ، اہلبیتِ اطہار اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن و آلِ عبا علیہم السلام دونوں کو شامل ہے سیاق آیۃ و احادیث کثیرہ اسی پر دال ہیں ۔ (مکتوبات طیّبات معرف بمہریہ چشتیہ صفحہ نمبر 263 طبع قدیم،چشتی)

حضرت صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’سوانح کربلا‘‘ میں  یہ آیت لکھ کر اہلِ بیت رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کے مِصداق کے بارے میں  مفسرین کے اَقوال اور اَحادیث نقل فرمائیں ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں  داخل ہیں (یعنی ازواجِ مُطَہَّرات) کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں  (اور) چونکہ اہلِ بیتِ نسب (نسبی تعلق والوں) کا مر اد ہونا مخفی تھا ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں  پنجتن پاک کو چادر میں  لے کر ان کےلیے دعا فرمائی) سے بیان فرما دیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں  ۔ خواہ بیت ِمسکن کے اہل ہوں  جیسے کہ اَزواج یا بیتِ نسب کے اہل (جیسے کہ) بنی ہاشم و مُطّلب ۔ (سوانح کربلا ، اہل بیت نبوت صفحہ ۸۲)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے اہل بیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے نسب و قرابت کے وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ ایک جماعت نے اسی پر اعتماد کیا اور اسی کو ترجیح دی اور ابن کثیرنے بھی اسی کی تائید کی ہے ۔ (الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر،الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم  صفحہ نمبر ۱۴۳،چشتی)

اس سے پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جو مومنین کی مائیں ہیں ، وہ بھی اہل بیت رضی اللہ عنہم ہیں ، اگرچہ اس پر قرآن و حدیث گواہ ہیں ، مگر یہ بات تفضیلی پیر و مولوی صاحبان چھپاتے ہیں ، لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے کتراتے ہیں ، کہ کہیں سُنّی عوام پوچھ ہی نہ لیں کہ جب یہ بھی اہل بیت ہیں ، تو پھر روافض کی جانب سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن خصوصاً امّا عائشہ صدیقہ پاک سلام اللہ علیہا کی توہین و گستاخیوں پر تم گونگے کیوں بن جاتے ہو ؟

کبھی ایسے گستاخ رافضی ذاکروں کے نام سوشل میڈیا پر لے کر ، ان پر بھی دو چار لعنتیں ڈال دیا کریں ؛ کبھی اپنے درباری مولویوں کے ذریعے سے ان کا رد بھی کروا دیا کریں ؛ کبھی اپنے چاپلوس نعت خوانوں اور نقیبوں سے دو اشعار ایسوں کی مذمت میں بھی لکھوا دیا کریں ؛ کبھی اِن اہل بیت کی ناموس کی خاطر بھی خود تھانے جاکر گستاخ روافض کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دیا کریں ؛ اور کبھی کبھی اپنے مریدین و متعلقین کی تربیت ایسی بھی کر دیا کریں ، کہ اُن سے جب پوچھا جائے ، کہ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کون ہیں ؟ تو وہ نام لیتے وقت امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کو بھی یاد رکھیں ۔

احادیث پر جب نظر کی جاتی ہے تو مفسرین کی دونوں جماعتوں کو ان سے تائید پہنچتی ہے ۔ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی ۔ پنجتن سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت علی و حضرت فاطمہ و حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ہیں ۔ (صلوات اللہ تعالیٰ علی حبیبہ و علیہم وسلم)

خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں داخل ہیں (یعنی ازواجِ مُطَہَّرات) کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں (اور) چونکہ اہلِ بیتِ نسب (نسبی تعلق والوں) کا مر اد ہونا مخفی تھا ، اس لئے آں سَرور ِعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں پنجتن پاک کو چادر میں لے کر ان کے لئے دعا فرمائی) سے بیان فرمادیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں ۔ خواہ بیت ِمسکن کے اہل ہوں جیسے کہ اَزواج یا بیت ِنسب کے اہل (جیسے کہ) بنی ہاشم و مُطّلب ۔ (سوانح کربلا باب اہل بیت نبوت ، چشتی)

اہل بیت کون ہیں ؟

بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے

(1) بیت نسب

(2) بیت مسکن یا بیت سکنٰی

(3) بیت ولادت

اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں

(1) اہل بیت نسب

(2) اہل بیت سکنٰی

(4) اہل بیت ولادت

اہل بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتہ دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتہ دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں مثلاً چچا، تایا، پھوپھی وغیرہ نسب کے رشتے ہیں ۔

اہل بیت مسکن سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی ۔

اہل بیت ولادت سے مراد وہ نسل ہے جو گھر میں پید اہوئی ہے۔ اس میں بیٹے، بیٹیاں اور آگے ان کی اولاد شامل ہے۔ جب مطلق اہل بیت کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد مذکورہ تینوں طبقات ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ اہل ایمان ہوں ۔ ان میں سے کسی ایک طبقے کو خارج کردینے سے اہل بیت کا مفہوم پورا نہیں ہوتا ۔

جب انسان متعصب ہو جاتا ہے تو پھر اسے اپنے مطلب کی چیز کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ جب دین تعصب کی نظر ہوجاتا ہے تو ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالنے لگتا ہے ۔ وہ دو طبقے جو حب صحابہ اور حب اہل بیت رضی اللہ عنھم کے نام پر افراط و تفریط کا شکار ہوئے ان میں سے ایک طبقے نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے اس میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو نکال دیا ۔ گویا انہوں نے اہل بیت میں سے اہل بیت مسکن کو نکال دیا ۔ جب اہل بیت میں سے بیویاں ہی نکل جائیں تو پھر اولاد کا گھر سے کیا تعلق رہا ؟

بہر حال انہوں نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو نکال کر کہا کہ اہل بیت سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ شیر خدا ، حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں ۔

بے شک مذکورہ چاروں ہستیاں اہل بیت میں شامل ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے انہیں چادر تطہیر میں چھپایا اور ان کے اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہونے کا انکار فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا انکار ہے مگر سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ایک طبقے نے کچھ اہل بیت مراد لیے اور باقی چھوڑ دیے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر دوسرے طبقے نے کہا کہ اہل بیت سے مراد صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، سیدہ دوعالم حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھما اہل بیت میں شامل ہی نہیں ۔ دونوں طبقوں نے قرآن پاک کو گویا سکول کا رجسٹر داخل خارج سمجھ لیا ہے کہ جسے چاہا داخل کر دیا اور جسے چاہا خارج کر دیا ۔ من مانی تاویلیں کر کے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور نہ صرف امت بلکہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بھی متنازعہ بنا دیا ۔

محترم قارئینِ کرام : جو گھر والا ہے وہ تو ہر گھر والے کو پیارا ہے اور وہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہے پھر جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نسبی تعلق والا ہے ، آپ کے گھر میں ہے یا آپ کی نسل پاک میں سے ہے اور اہل ایمان ہے ۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا اہل بیت اور ہر ایک کو پیارا ہونا چاہیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نسبی تعلق ہونا ، آپ کے گھر میں ہونا یا آپ کی اولاد پاک میں سے ہونا تو ایک طرف حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے گھر صرف خدمت کرتے تھے اور سودا سلف لاکر دیتے تھے انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا ہے حالانکہ نہ تو ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نسبی تعلق تھا نہ وہ اہل بیت مسکن میں سے تھے اور نہ ہی وہ آپ کی اولاد پاک میں سے تھے ، بیت کی تینوں نسبتیں مفقود تھیں لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے رحمت کے ہاتھ بڑھاتے ہوئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اہل بیت میں شامل فرمالیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے ۔ (مستدرک امام حاکم 3 : 691 رقم 6539،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب اپنے اہل بیت میں سے کسی ایک طبقے کو خارج نہیں کیا تو ہم کسی ایک طبقے کو خارج کرکے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے انصاف کر رہے ہیں ؟ یقیناً یہ انصاف نہیں بلکہ محض جہالت اور تعصب ہے ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ارشادِ مبارک

راہ اعتدال کو چھوڑ کر افراط و تفریط کا راستہ اپنانے والوں کےلیے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان مبارک ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ایک مشابہت ہے ۔ ان سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ ماجدہ پر زنا کی تہمت لگائی اور نصاریٰ ان کی محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے معتقد ہوگئے ۔ ہوشیار ! میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے ۔ ایک زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا اور حد سے تجاوز کرے گا ۔ دوسرا بغض رکھنے والا جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے گا ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد نبر 2 صفحہ نمبر 167، رقم 1376،چشتی)

شیعہ مذہب کے نزدیک معتبر کتاب ’’نہج البلاغہ،، میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے : میرے معاملہ میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے ۔ ایک محبت کرنے والا ، حد سے بڑھانے والا ۔ وہ محبت اس کو غیر حق کی طرف لے جائے گی ۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا ، وہ بغض اس کو خلاف حق کی طرف لے جائے گا اور سب سے بہتر حال میرے معاملہ میں میانہ رو جماعت کا ہے پس اس میانہ رو جماعت کو اپنے لئے ضروری سمجھو اور (بڑی جماعت) سواد اعظم کے ساتھ وابستہ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے اور خبردار! اس جماعت سے الگ نہ ہونا کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوگا وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوگا جس طرح ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیئے کا شکار ہوتی ہے ۔ (ترجمہ و شرح نہج البلاغہ جلد اول، 383)

ان آیات کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ أمہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس میں شامل ہیں ۔ کسی عامی آدمی کو بھی ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ یہاں اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بیویاں شامل ہیں ۔

اس پورے رکوع کو آپ اس آیت سے پہلے پڑھ لیں اس کے بعد پڑھ لیں سب کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہیں بلکہ یہی آیت اس کو شروع سے پڑھ لیں ۔ و قرن فی بیوتکن ۔ اس میں خطاب مؤنث کے صیغے کے ساتھ ہے ۔
اور پھر اس سے بعد والی آیت بھی واذکرن سے شروع ہورہی ہے جو خطاب جمع مؤنث کے لیے ہے ۔ جبکہ إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا ۔ میں یہ نکتہ ہے ۔ واللہ أعلم ۔ تاکہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شمولیت کا بھی امکان باقی رہے ۔ یہی وجہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی تو حضرت علی و حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور امامِ حسن و امامِ حسین رضی اللہ عنہما کو بطور خاص اہل بیت میں شامل کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ سیاق سباق تو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے لیے ہے یہ چار ہستیاں اس میں کیسے شامل ہیں ۔

اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن چونکہ اس سے پہلے بنص قرآن اس میں شامل تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ یہ تو ایک قسم کا تحصیل حاصل تھا ۔ اور ویسے بھی معروف بات ہے کہ اہل بیت کے واقعے والی اس حدیث میں یہ تو ذکر ہے کہ چار ہستیاں اہل بیت میں سے ہیں لیکن باقیوں کی نفی کہیں بھی نہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ تو کہا تھا کہ یہ چار میرے اہل بیت ہے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے علاوہ اور کوئی اہل بیت میں سے نہیں ہے ۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سنواے لوگو ! میں صرف ایک بشر ہوں ‘ عنقریب میرے پاس اللہ کا سفیر آئے گا ‘ اور میں اس کی دعوت کو قبول کروں گا ‘ میں تم میں وہ بھاری چیزیں چھوڑنے والا ہوں ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے ‘ سو تم اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس کا دان تھام لو ‘ پھر آپ نے کتاب اللہ پر برانگخیتہ کیا اور اس کی طرف راغب کیا ‘ اور فرمایا دوسری بھاری چیز میرے اہل بیت ہیں ‘ میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں ‘ حصین نے حضرت زید بن ارقم سے پوچھا ! اے زید ! آپ کے اہل بیت کے اہل بیت کو ہیں ؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات آپ کی اہل بیت نہیں ہیں ؟ حضرت زید بن ارقم نے کہا آپ کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت سے ہیں لیکن (اس ارشاد میں) آپ کے اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ کرنا حرام ہے ‘ اس نے پوچھا وہ کون ہیں ! انہوں نے کہا وہ آل علی ‘ آل عقیل ‘ آل جعفر اور آل عباس ہیں ‘ اس نے پوچھا ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٠٨‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨١٧٥)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے حج کے موقع پر دیکھا آپ اپنی اونٹنی القصواء پر سوار خطبہ دے رہے تھے ‘ آپ فرما رہے تھے اے لوگو ! میں نے تم میں واپسی چیزیں چھوڑی ہیں کہ اگر تم نے ان کو پکڑ لیا تو تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے اللہ کی کتاب اور میری اولاد میرے اہل بیت ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٦‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٨)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لے پالک حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت حضرت ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی : انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا ۔ (سورہ الاحزاب : ٣٣)

ترجمہ : اے رسول کے گھر والو ! اللہ صرف یہ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی نجاست دور رکھے اور تم کو خوب ستھرا اور پاکیزہ رکھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلوایا اور ان سب کو ایک چادر میں ڈھانپ لیا ‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی پشت کے پیچھے تھے پس آپ نے ان کو بھی اس چادر میں ڈھانپ لیا پھر کہا اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ تو ان سے (ہرقسم کی) نجاست کو دور رکھنا اور انکو خوب پاکیزہ رکھنا ‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ ! آیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں ؟ آپ نے فرمایا تم اپنے مقام پر ہو اور تم میری طرف منسوب ہو ‘ نیک ہو ‘ دوسری روایت میں ہے تم خیر پر ہو۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٧‘ ٣٢٠٥،چشتی)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں اسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے ان کو تھام لیا تو تم میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے ! ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظیم ہے ‘ ایک کتاب اللہ ہے یہ وہ رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تانی ہوئی ہے اور دوسری میری اولاد ہے میرے اہل بیت ‘ وہ ہرگز ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے حتی کہ وہ دونوں میرے پاس حوض پروارد ہوں گے ‘ پس غور کرو کہ تم میرے بعد ان سے کس طرح پیش آتے ہو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٨‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ٥٠٦‘ مسند احمد ج ٣ ص ١٤۔ ١٧۔ ٢٦۔ ٥٩‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٠٢١۔ ١٠٢٧‘ الضعفاء للعقیلی ج ٢ ص ٢٥٠‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٧٨‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٥٦٦‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٣٦٣،چشتی)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو امام طبرانی کی دیرگ روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی ہے) کو ایک کپڑے میں داخل کیا (حدیث : ٢٦٦٧ میں سیاہ چادر کا ذکر ہے) پھر مرمایا : اے اللہ یہ مرے اہل بیت ہیں ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے بھی ان کے ساتھ داخل فرما لیں ! آپ نے فرمایا تم (بھی) میرے اہل سے ہو ۔ دیگر روایات میں الاحزاب : ٣٣ کی تلاوت کا بھی ذکر ہے ۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٧٣۔ ٢٦٧٢۔ ٢٦٧١۔ ٢٦٧٠۔ ٢٦٦٨۔ ٢٨٨٧٦۔ ٢٦٦٦۔ ٢٦٦٥۔ ٢٦٦٤۔ ٢٦٦٣ )

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ‘ حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ (مسند البز اررقم الحدیث : ٢٦١١‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦٣‘ رقم الحدیث : ٢٦١١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

ابو الحمراء ہلال بن الحارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے دروازے پر جا کر فرماتے الصلاۃ الصلاۃ (نماز کےلیے اٹھو) انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٤ ص ١٩٨‘ رقم الحدیث : ١٠٧٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ،چشتی)

اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات ‘ آپ کی اولاد اور آپ کے رشتہ دار سب داخل ہیں ‘ اولاد اور رشتہ دار داخل ہیں ۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب ‘ یا دین یا پیشہ یا گھر یا شہر میں شریک اور شامل ہوں ‘ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے گھر میں رہتے ہوں ‘ پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلقاً اہل بیت کہا جاتا ہے ‘ جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت میں ہے : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت (الاحزاب : ٣٣) اے رسول کے گھر والو ! اللہ صرف یہ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی نجاست کو دور رکھے ۔ کسی شخص کی بیوی کو اس کے اہل سے تعبیر کی جاتا ہے اور اہل اسلام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب اسلام کے ماننے والے ہوں۔ اور چونکہ اسلام نے مسلم اور کافر کے دریمن نسب کا رشتہ منقطع کردیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا : یانوح انہ لیس من اھلک ج انہ عمل غیر صالح ۔ (ھود : ٤٦) اے نوح ! بیشک وہ (آپ کا بیٹا) آپ کے اہل سے نہیں ہے ‘ اس کے عمل نیک نہیں ہیں ۔ (المفردات ج ١ ص ٣٧‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ،چشتی)

علامہ محمد بن مکرمہ ابن منظور الافرفیقی المصری المتوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت آپ کی ازواج ‘ آپ کی بیٹیاں اور آپ کے داماد یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (لسان العرب ج ١١ ص ٢٩‘ نشرادب الحوزۃ ‘ ١٤٠٥ ھ)

علامہ محمد طاہر پیٹنی المتوفی ٩٨٢ ھ لکھتے ہیں : آپ کی ازواج آپ کے اہل بیت سے ہیں جن کو تعظیما ثقل کہا گیا ہے لیکن یہ وہ اہل بیت نہیں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ (مجمع بخار الانوارج ١ ص ١٣٤‘ مکتبہ دارالایمان المدینۃ المنورۃ ‘ ١٤١٥ ھ،چشتی)

سید محمد مرتضیٰ حسینی زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : کسی شخص کی بیوی کو اس کی اہل کہا جاتا ہے ‘ اور اہل میں اولاد بھی داخل ہے ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل آپ کی ازواج ‘ آپ کی بیٹیاں اور آپ کے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تاج العروس شرح القاموس جلد ٧ صفحہ نمبر ٢١٧‘ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت سارہ کے متلعق قرآن مجید میں ارشاد ہے : قالوا آتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ و برکتہ علیکم اھل البیت ۔ (ھود : ٧٣) ۔ تعجب کرتی ہو ! اے اہل بیت ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیوی کے متعلق ارشاد ہے : فقال لاھلہ امکثوآ انی انست نارا ۔ موسیٰ نے اپنی بیوی سے کہا تم ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے ۔ (سورہ طہ : ١٠)

عزیز مصر کی بیوی کے متعلق ارشاد ہے : قالت ما جزآء من اراد باحلک سوء الآ ان یسجن ۔ (سورہ یوسف : ٢٥) ۔ وہ کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی یہی سزا ہے کہ اس کو قید کردیا جائے ۔

بیوی اور بچوں کے متعلق ارشاد ہے : فاستجبنا لہ فکشفنا ما بہ من ضرو اتینہ اھلہ و مثلہم معھم ۔ (سورہ الانبیا : ٨٤) ۔ سو ہم نے ایوب کی دعا سن لی اور ان کو جو تکلیف تھی وہ دور کردی اور ہم نے ان کو اہل و عیال عطا فرمائے اور ان کے ساتھ ان کی مثل بھی ۔

وکان یامر اھلہ بالصلوۃ ۔ (سورہ مریم : ٥٥) اور اسماعیل اپنے بیوی بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے ۔

جب منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر غزوہ بنو المصطلق میں بدکاری کی تہمت لگائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس تہمت سے برأت بیان کرتے ہوئے فرمایا : یامعشر المسلمین من یعذرنی من رجل قد بلغنی عنہ اذاہ فی اھلی واللہ ماعلمت علی اھلی الاخیر ا ۔ اے مسلمانو ! اس شخص کے معاملہ میں میری مدد کون کرے گا جس کی اذیت اب میری بیوی کے متعلق پہنچ چکی ہے ‘ اللہ کی قسم مجھے اپنی بیوی کے متلعق سوا خیر کے اور کسی چیز کا علم نہیں ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٤١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٧٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٣٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣٤٧۔ ١٩٧٠،چشتی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی اہل (بیوی) سے عمل زوجیت کرتے وقت یہ دعا کرے بسم اللہ اے اللہ شیطان کو ہم سے دور رکھ اور ہم کو جو (بچہ) دے اس کو بھی شیطان سے دور رکھ ‘ پھر ان کے لیے جو بچہ مقدر کیا جائے اس کو شیطان ضرر نہیں پہنچائے گا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٣٤‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢١٦١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٩٢‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٩٠٣٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩١٩،چشتی)

اسی طرح صحیح مسلم (رقم الحدیث : ٢٤٠٨) کے حوالہ سے یہ حدیث گذر چکی ہے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت سے ہیں لیکن ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ‘ اور جن پر صدقہ کرنا حرام ہے وہ اہل بیت آل علی ‘ آل عقیل ‘ آل جعفر اور آل عباس رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٧ ص ٤٢٠‘ ١ لمفہم ج ٦ ص ٣٠٥‘ صحیح مسلم بشرح النوادی ج ١٠ ص ٦٣٠٥،چشتی)

اور اس وضاحت سے ان احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جن میں سے بعض میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تم اپنی جگہ خیر پر یعنی اہل بیت میں سے نہیں ہو ‘ اور بعض احادیث میں ہے کہ تم اہل بیت میں ہو ‘ یعنی ان اہل بیت میں سے نہیں ہو جن پر صدقہ حرام ہے اور مطلقاً اہل بیت میں سے ہو ‘ روایات کی تفصیل یہ ہے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ یہ آیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا ۔ (الاحزاب : ٣٣) ۔ میرے گھر میں نازل ہوئی ‘ میں اس وقت دروازہ پر بیٹھی ہوئی تھی ‘ آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھم اپنے خاوند اور اپنے دونوں بیٹوں کو بلاٶ ‘ پھر آپ نے ان سب کو چادر میں داخل کرکے فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے چادر اٹھائی تاکہ میں بھی ان میں داخل ہوں تو آپ نے میرا ہاتھ کھینچ کر فرمایا (بعض روایات میں ہے تم الگ رہو) تم تو خیر پر ہو ہی ۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٦٢۔ ٢٦٦٤۔ ٢٦٦٦۔ ٢٦٦٨،چشتی)

اس روایت کا محمل یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ان اہل بیت میں سے نہیں ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ‘ اور دوسری روایات وہ ہیں جن میں آپ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تم اہل بیت سے ہو ۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ ‘ (دوسری روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر ہے) اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو ایک کپڑے میں داخل کرکے فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے بھی ان کے ساتھ داخل فرمالیں ‘ آپ نے فرمایا تم بھی میرے اہل سے ہو ‘ اور بعض روایات میں ہے تم بھی ہو۔ امام بغوی کی روایت میں ہے : حضرت ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی اہل بیت میں سے ہوں آپ نے فرمایا کیوں نہیں ! ان شاء اللہ ۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٦٣‘ ٢٦٦٥۔ ٢٦٦٧۔ ٢٦٦٩۔ ٢٦٧٠ معالم النزیل ج ٣ ص ٦٣٧‘ شرح السنہ رقم الحدیث ٣٨٠٥)

امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں :

اہل بیت کی تعین میں مختلف اقوال ہیں اولیٰ یہ ہے یہ کہا جائے کہ آپ کے اہل بیت ‘ آپ کی اولاد اور آپ کی ازواج ہیں ‘ اور حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی ان میں سے ہیں ‘ کیونکہ آپ کی بیٹی کی واسطے سے وہ بھی آپ کیا ہل بیت سے ہیں ۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ١٦٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں :

ازواج مطہرات اہل بیت سے خارج نہیں ہیں ‘ بلکہ زیادہ ظاہر یہ ہے کہ وہ اہل بیت کے عنوان کی زیادہ مستحق ہیں کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیت (گھر) میں آپ کے ساتھ لازم رہتی تھیں ‘ علامہ ابن عطیہ نے کہا کہ آپ کی ازواج اہل بیت سے خارج نہیں ہیں ‘ پس اہل بیت آپ کی ازواج ہیں ‘ آپ کی بیٹی (حضرت فاطمہ) ان کے بیٹے اور ان کے شوہر ہیں ‘ علامہ زمخشری نے کہا اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج اہل بیت سے ہیں ‘ اور آپ کی ازواج کے گھر وحی نازل ہونے کی جگہیں ہیں ۔ (البحر المحیط جلد ٨ صفحہ ٤٧٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٤ ھ،چشتی)

علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں : اس آیت میں اس پر قوی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت سے ہیں اور اس میں شیعہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ اہل بیت حضرت فاطمہ ‘ حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے ساتھ مخصوص ہیں کیونکہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاہ چادر لے کر آئے پھر حضرت فاطمہ ‘ حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کو اس چادر میں داخل کرکے یہ آیت پڑھی : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ‘ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ حضرات اہل بیت سے ہیں ‘ اس پر دلالت نہیں کرتی کہ ان کے علاوہ دیگر حضرات اہل بیت سے نہیں اور اگر بالفرض اس کی یہ دلالت ہو بھی تو قرآن مجید کی اس نص صریح کے مقابلہ میں اس روایت کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ یہ آیت ازواج مطہرات کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ (تفسیر روح البیان ج ٧ ص ٢٩٧‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ،چشتی)

قاضی ابو السعود محمد بن محد العماری الحنفی المتوفی ٩٨٢ ھ اور قاضی عبداللہ بن عمر البیضادی الشافعی متوفی ٦٨٥ ھ نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی تقریر کی ہے ۔ (تفسیر ابی السعود ج ٥ ص ٢٢٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ ‘ تفسیر بیضاوی مع حاثیۃ الشہباب ج ٧ ص ٤٨٧‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : امام ابن جریر ‘ امام ابن ابی حاتم اور امام طبرانی نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ آیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ‘ میرے متعلق ‘ علی کے متعلق ‘ فاطمہ ‘ حسن اور حسین کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ اس روایت میں حضر کا لفظ نہیں ہے اور عدد میں مفہوم مخالف معتبر نہیں ہوتا ‘ اور شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پانچ کا خصوصیت سے اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ افضل اہل بیت ہیں اور یہ تقریر اس مفروضہ کی بناء پر ہے کہ یہ حدیث صحیح ہو اور مجے ظن غالب یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ٤ ہ ‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

مشکوۃ المصابیح : ٦١٨٦ میں صحیح مسلم کے حوالے سے یہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صبح سیاہ چادر اوڑھی ہوئی تھی ‘ آپ کے پاس حضرت حسن بن علی آئے تو آپ نے ان کو اس چادر میں داخل کرلیا ‘ پھر حضرت حسین آئے تو وہ بھی اس چادر میں داخل ہوگئے ‘ پھر حضرت فاطمہ آئیں تو آپ نے ان کو اس سیاہ چادر میں داخل کرلیا ‘ پھر حضرت علی آئے تو ان کو بھی اس چادر میں داخل کرلیا (رضی اللہ عنہم) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا ۔ (الاحزاب : ٣٣)

اس کی تشریح میں امام ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : اس حدیث میں دلیل ہے کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں کیونکہ اس آیت سے پہلے بھی ازواج مطہرات سے خطاب سے ینسآ النبی لسنتن کا حد من النسآء ۔ (الاحزاب : ٣٢) ۔ اور اس آیت کے بعد بھی ازواج مطہرات سے خطاب ہے واذکرن مایتلی فی بیوتکن من آیت اللہ والحکمۃ ۔ (الاحزاب : ٣٤) ۔ (مرقات ج ١٠ ص ٥٠٨‘ مکتبہ خقانیہ پشاور)

الحمد للہ فقیر چشتی نے کتب لغت ‘ قرآن مجید کی آیات ‘ احادیث اور فقہاء اسلام کی عبارات سے واضح کر دیا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہراتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عترت اور آپ کے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں اس لیے شیعہ حضرات کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اہل بیت کا لفظ صرف ان پانچ نفوس قدسیہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اب ہم شیعہ علماء کی عبارت پیش کررہے ہیں ۔ ⬇

شیعہ علماء کے اس اعتراض کا جواب کہ اہل بیت کے ساتھ مذکر کی عبارت ضمائر کیوں لائی گئیں

شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی ٤٦٠ ھ اور شیخ طبرسی لکھتے ہیں :

حضرت ابو سعید الخدری ‘ حضرت انس بن مالک ‘ حضرت عائشہ ‘ حضرت ام سلمہ اور حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت (انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ حضرت علی ‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلا کر اپنی سیاہ چادر میں داخل فرمالیا اور فرمایا اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان سے نجاست کو دور کر دے اور ان کو خوب پاک کردے ‘(الی قولہ) عکرمہ نے کہا یہ آیت خصوصیت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے متعلق ہے اور یہ غلط ہے ‘ کیونکہ اگر یہ آیت ازواج کے متعلق ہوتی تو اس میں مؤنث کے صیغے ہوتے جیسے اس سے پہلے وقرن فی بیوتکن اور ولا تبرجن اور اطعن اللہ اور اقمن وغیر ھا میں ہیں ۔ (التبیان فی تفسیر القرآن ج ٨ ص ٣٤٠‘ ملخصا داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ مجمع البیان جلد ٨ صفحہ ٥٥٩‘ دارالمعرفہ بیروت،چشتی)

شیخ الشیعہ کے اس عتراض کا جواب یہ ہے کہ اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی داخل ہیں اور جب کسی جملہ میں مذکر اور مؤنٹ دونوں ہوں تو مذکر صیغے لائے جاتے ہیں مؤنث نہیں لائے جاتے اس لیے لیذھب عنکم الرجس فرمایا اور لیذھب عنکن الرجس نہیں فرمایا ‘ اور اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اہل بیت الفظاً مذکر ہے اور معنی مونث ہے اور ضمیروں کے لانے میں لفظ کی رعاییت ہوتی ہے معنی کی نہیں ہوتی ۔

شیعہ علماء کا اہل بیت کی عصمت کو ثابت کرنا اور اس کا جواب

شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی ٤٦٠ ھ لکھتے ہیں : ہمارے اصحاب نے اس آیت (الاحزاب : ٣٣) سے یہ استدلال کیا ہے کہ اہل بیت کی جماعت میں ایسے معصوم ہیں جن سے کوئی غلطی نہیں ہو سکتی اور ان کا جماع ہمیشہ صحیح ہوتا ہے ‘ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ نے اہل بیت سے نجاست کو دور کرنے کا اور ان کو پاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں سے مجتنب رکھنے اور ان سے اطاعت اور عبادت کرانے کا ارادہ فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ تو تمام مکلفین سے فرمایا ہے اور اس ارادہ کی اہل بیت کے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں ہے ‘ بلکہ اہل بیت کی خصوصیت تب ہوگی جب اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایسے لطف کا ارادہ کرے جس کی بناء پر ان سے معصیت کا صدور ممتنع اور محال ہوجائے اور اسی وجہ سے اس آیت کو اہل بیت کی مدح میں پیش کرنا درست ہوگا اور اس سے واضح ہوگیا کہ اس آیت میں اہل بیت کی عصمت کا ثبوت ہے ۔ (التبیان فی تفسیر القرآن ج ٨ ص ٤٣٠‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

شیخ ابو علی الفضل بن السحن الطبرسی نے بھی اہل بیت کی عصمت کے ثبوت میں یہی تقریر کی ہے ۔ (مجمع البیان ج ٨ ص ٥٦٠‘ بیروت ‘ ١٤٠٦ ھ)

شیعہ مفسرین کی یہ دلیل حسب ذیل وجوہ سے مردود ہے : ⬇

(1) اس آیت میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جس کا یہ تقاضا ہو کہ نجاست کو دور کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا آل رسول کی خصوصیت ہے اور کسی اور کسی اور کو یہ وصف نہیں دیا گیا اور اس آیت کا سیاق وسباق ازواج مطہرات کی مدح کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ آل رسول کی ‘ اس لیے اگر اس وصف کی خصوصیت ہوگی بھی تو وہ ازواج مطہرات کے ساتھ ہوگی نہ کی آل رسول کے ساتھ ۔

(2) عصمت کا یہ معنی نہیں ہے کہ معصوم سے گناہ کا صدور ممتنع اور محال ہو ورنہ اس کو گناہوں کے ترک کرنے کا مکلف کرنا یا اطاعت کرنے کا مکلف کرنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ مکلف اس کام کا کیا جاتا ہے ہے جس کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو ‘ جیسے پتھروں اور درختوں کو عبادت کرنے اور گناہوں کو ترک کرنے کا مکلف نہیں کیا گیا ‘ اور جب اہل بیت اس معنی میں معصوم ہیں کہ ان کے لیے نیکی کو تر کرنا اور برائی کا ارتکاب کرنا ممکن نہیں ہے تو ان کا عبادت کرنا اور گناہوں سے بازرہنا تعریف اور تحسین کا موجب بھی نہیں ہوگا جیسے دیواروں کی اس بات پر تعریف نہیں کی جاتی کہ وہ شراب نہیں پیتیں اور زنا نہیں کرتیں ۔

(3) اگر اہل بیت معصوم ہیں اور ان کا گناہ رکنا ممکن نہیں ہے تو پھر اس آیت کا نازل کرنا عبث اور بےفائدہ ہوگا کیونکہ جب وہ گناہوں سے معصوم ہیں اور ان سے گناہ ہو ہی نہیں سکتے تو پھر اس کہنے کا کیا فائدہ ہے کہ اللہ اہل بیت کو گناہوں سے مجتنب کرنے اور پاک کرنے کا ارادہ فرماتا ہے۔

(٤) اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ فرماتا ہے اس کا ہونا لازم اور ضروری ہوگا یا نہیں ہوگا اگر اس کا ہونا لازم اور ضروری نہیں ہے تو پھر اہل بیت کا گناہوں سے پاک ہونا بھی لازم اور ضروری نہیں ہوگا اور اس سے اہل بیت کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوگا ‘ اور اگر اس کا پورا ہونا لازم اور ضروری ہو تو پھر لازم آئے گا کہ تمام مسلمانوں کو معصوم مانا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وضو ‘ غسل اور تیمم کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج و لکن یرید لیطھرکم ولیتم نعمتہ علیکم ۔ (سورہ المائدہ : ٦) ۔ اللہ تم کو کسی قسم کی تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا لیکن وہ تم کو پاک کرنے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کرنے کا ارادہ فرماتا ہے ۔

بلکہ اس آیت سے اہل بیت رضی اللہ عنہم کی تطہیر کی بہ نسبت عام مسلمانوں کی عصمت زیادہ مٶکد طریقہ سے ثابت ہوگی کیونکہ اس میں مسلمانوں کو صرف گناہوں سے پاک کرنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ ان پر اپنی نعمت کو مکمل کرنے کا بھی ذکر ہے کیونکہ آیت تیمم غزوۃ المریسیع ٦ ھ میں نازل ہوئی ہے ۔ (الاسذکار جلد ٣ صفحہ ١٤١،چشتی) ۔ اور غزوہ بدر ٢ ھ میں ہوا ہے ۔

اہل بیت کے لفظی معنٰی ہیں گھر والے ۔ اہل بیت سے مراد اہل بیتِ رسول علیہم السّلام  ہیں ۔

(1)  بنی ہاشم جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی حضرات عباس‘ علی‘ جعفر‘ عقیل اور حارث رضی اللہ عنہم کی اولاد اہلبیت ہے جو اہل بیتِ نسب کہلاتے ہیں ۔

(2) قرآن میں آیت تطہیر (سورہ احزاب آیت نمبر 33) کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم خوبصورت چادر مبارک اوڑھے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے اور حضرت بی بی فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی اُس خوبصورت چادر مبارک میں داخل فرمالیا اور بارگاہ رب العالمین میں دعا فرمائی یعنی رب العالمین ! یہ میرے اہل بیت اور میرے مخصوصین ہیں تُو اِن سے ناپاکی دور کردے اور انہیں خوب پاک و پاکیزہ بنا ۔ یہ دعاء سن کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی ’’و انا منھم‘‘ یعنی میں بھی ان میں سے ہوں تو ارشاد نبوی ہوا ’’انک علی خیر‘‘ یعنی بے شک تم بہتری پر ہو بلکہ دوسری روایت میں آپ نے ’’بلٰی‘‘ فرمایا یعنی کیوں نہیں ۔ اس طرح ام المومنین حضرت ام سلمہ  و نیز تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیتِ سکونت ہیں ۔

(3) جب نجران کے عیسائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نبوت کے بارے میں جھگڑنے لگے تو آیت مباہلہ (سورہ العمران) نازل ہوئی جس میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں کے ساتھ نکل کر مباہلہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حضرات علی‘ فاطمہ‘ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ لیکر نکلے اور فرمایا : اللھم ھٰؤلآء اھل بیتی یعنی الٰہی یہ میرے گھر والے ہیں ۔

تاجدار گولڑہ ولی کامل حضرت سیّدنا و مرشدنا پیر سیّد مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ : آیتہ تطہیر میں لفظ اہل بیت امہات المؤمنین علیہا الرضوان و آل عبا علیہم السلام دونوں کو شامل ہے سیاق آیتہ و احادیث کثیرہ اسی پر دال ہیں ۔ (مکتوبات طیّبات  صفحہ نمبر 150)

اس سے پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جو مومنین کی مائیں ہیں ، وہ بھی اہل بیت رضی اللہ عنہم ہیں ، اگرچہ اس پر قرآن و حدیث گواہ ہیں ، مگر یہ بات تفضیلی پیر و مولوی صاحبان چھپاتے ہیں ، لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے کتراتے ہیں ، کہ کہیں سُنّی عوام پوچھ ہی نہ لیں کہ جب یہ بھی اہل بیت ہیں ، تو پھر روافض کی جانب سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن خصوصاً امّا عائشہ صدیقہ پاک سلام اللہ علیہا کی توہین و گستاخیوں پر تم گونگے کیوں بن جاتے ہو ؟

امام اللغۃ حسین بن محمد راغب اصفہانی اور محمد مرتضیٰ الزبیدی علیہما الرّحمہ فرماتے ہیں : اهل الرجل من يجمعه و اياهم نسب او دين او مايجري مجراهما من صناعة و بيت و بلد فاهل الرجل في الاصل من يجمعه و اياهم مسکن واحد ثم تجوز به فقيل اهل بيت الرجل لمن يجمعه اياهم نسب و تعورف في اسرة النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم مطلقا اذا قيل اهل البيت لقوله عزوجل : إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ،(سورہ احزاب، 33: 33) وغير باهل الرجل عن امراته و اهل الاسلام الذين يجمعهم ولما کانت الشريعة حکمت برفع حکم النسب في کثير من الاحکام بين المسلم و الکافر قال تعالیٰ : إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔ (سورہ هود آیت نمبر 46)
ترجمہ : کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب یا دین یا پیشہ یا گھر یا شہر میں شریک اور شامل ہوں ۔ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو کسی کے گھر میں رہتے ہوں پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلق اہل بیت کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآنِ مجید کی اس آیت میں ہے بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت ! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے  کسی شخص کی بیوی کو اس کے اہل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اہل اسلام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب انسانوں کے ماننے والے ہوں۔ چونکہ اسلام نے مسلم اور کافر کے درمیان نسب کا رشتہ منقطع کر دیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا : بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے ۔ (المفردات فی غريب القرآن، 1: 29، بيروت، لبنان: دارالمعرفة،چشتی)(تاج العروس، 28: 41، دارالهداية)

قرآنِ مجید میں اہلِ بیت سے مراد ازواج اور اولاد ہے : قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ  ۔
ترجمہ : فرشتوں نے کہا : کیا تم ﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو ؟ اے گھر والو ! تم پر ﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ۔ (هُوْد، 11: 73)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اہل بیت کا لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ سلام اللہ علیہا کے لیے استعمال ہوا ہے ۔

اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی روزجہ محترمہ کے لیے قرآن مجید میں اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا ۔
ترجمہ : جب موسٰی (علیہ السلام) نے (مدین سے واپس مصر آتے ہوئے) ایک آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم یہاں ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا میں نے ایک آگ میں انس و محبت کا شعلہ پایا ہے ۔ (طهٰ، 20: 10)

عزیز مصر کی بیوی کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے : قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔
ترجمہ : وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) درد ناک عذاب دیا جائے ۔ ( سورہ يُوْسُف، 12: 25)

حضرت ایوب علیہ السلام کے زوجہ اور بچوں کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے : فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ ۔
ترجمہ : تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیئے) ۔ (سورۃُ الْأَنْبِيَآء، 21: 84)

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل بیت میں ازواج اور اولاد دونوں شامل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواجِ مطہرات اور آپ کی اولاد تو اہلِ بیت ہیں ہی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کو بھی اپنی اہلِ بیت میں شامل فرمایا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے : سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ}، [آل عمران، 3: 61]، دَعَا رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِی ۔
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں ۔‘‘(سورہ آل عمران، 3: 61) ، تو رسولنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا ، پھر فرمایا:یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں ۔ (مسلم، الصحيح، 4: 1871، رقم: 2404، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 185، رقم: 1608، مؤسسة قرطبة مصر)

عَنْْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَدَةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهَ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِیٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ ﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيرًا ۔ [سورۃُ الآحزاب، 33: 33]
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ اس چادر میں داخل ہوگئے، پھر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کرلیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی اس چادر میں لے لیا پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آیت مبارکہ پڑھی : بس ﷲ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک ونقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔ (مسلم، الصحيح، 4: 1883، رقم: 2424،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 15۹، رقم: 4707، دار الکتب العلمية بيروت)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی}[الشوری، 42: 23]، قَالُوْا: يَارَسُوْلَ ﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِیُّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَهُمَا ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : ’’فرما دیجیے : میں اِس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور ﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘ [الشوری، 42: 23] نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول ﷲ! آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن وحسین رضی اللہ عنہم ) ۔ (طبراني، المعجم الکبير، 3: 47، رقم: 2641، الموصل: مکتبة الزهراء)

معلوم ہوا اہلِ بیت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ، سیدنا علی اور سیدنا حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں ۔ ان کے علاوہ تمام سادات آلِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آل قیامت تک موجود رہے گی ۔

اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے گستاخوں کی نسل کی پہچان : آج کل کچھ لوگ محبّتِ یزید پلید میں مبتلا ہوکر اہلبیت رسول علیہم السّلام کے بغض میں مبتلا ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے احادیث مبارکہ سے کچھ پھول چنے ہیں پڑھیے اور پہچانیے ان اہلبیت رسول علیہم السّلام کے دشمنوں کو اور خود کو اور اپنی نسلوں کو ان یزیدیوں کے فتنہ و شر سے بچایئے فقیر اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا یہ آپ پڑھ کر فیصلہ کیجیے گا اہل علم سے گزارش ہے اگر کہیں غلطی پائیں تو آگاہ فرمائیں شکریہ : ⬇

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ عِتْرَتِي وَ الْأَنْصَارِ وَ الْعَرَبِ فَهُوَ لإِحْدَي ثَلاَثٍ : إِمَّا مُنَافِقٌ، وَ إِمَّا لِزِنْيَة، وَإِمَّا امْرَؤٌ حَمَلَتْ بِهِ أمُّهُ لِغَيْر طُهْرٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخض میرے اہل بیت اور انصار اور عرب کا حق نہیں پہچانتا تو اس میں تین چیزوں میں سے ایک پائی جاتی ہے : یا تو وہ منافق ہے یا وہ حرامی ہے یا وہ ایسا آدمی ہے جس کی ماں بغیر طہر کے اس سے حاملہ ہوئی ہو ۔ اس حدیث کو امام دیلمی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البيهقي في شعب الإيمان الجزء الثالث ، الرقم الحدیث ؛ 1500)(الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 626، الرقم؛ 5955)(الذهبي في ميزان الإعتدال في نقد الرجال، 3 / 148،چشتی)(الفردوس بماثور الخطا ب حدیث ٥٩٥٥ دارالکتب العلمیہ بیروت ٣/ ٦٢٦)

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يُبْغِضُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ رَجُلٌ إِلاَّ أَدْخَلَهُ ﷲُ النَّارَ.رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ ۔
ترجمہ : حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ہم اہل بیت سے کوئی آدمی نفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ ﷲ تعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال کر دیتا ہے ۔ اس حدیث کو امام ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 435، الرقم : 6978، و الحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4717،چشتی)(الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 123، والهيثمي في موارد الظمان، 1 / 555، الرقم : 2246)

عن سلمان رضی الله عنه قال سمعت رسول ﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يقول الحسن والحسين ابناي من أحبهما أحبني ومن أحبني أحبه ﷲ ومن أحبه ﷲ أدخله الجنة ومن أبغضهما أبغضني ومن أبغضني أبغضه ﷲ ومن أبغضه ﷲ أدخله النّار ۔
ترجمہ : حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین علیہما السلام میرے بیٹے ہیں ۔ جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے اللہ سے محبت کی اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جس نے حسن وحسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے اللہ سے بغض رکھا اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا ۔(المستدرک علی الصحيحين، 3: 181، رقم: 4776، بيروت، لبنان: دارالکتب العلمية،چشتی)

یہ بات قابل توجہ ہے کہ محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ تصور جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری میں تھا وہ بعد ازوصال بھی ہمیشہ سے اسی طرح قائم ودائم ہے اور یوں ہی بغض وعداوت اور دشمنی وعناد رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روش بھی قائم ہے ۔

عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي سَأَلْتُ ﷲَ لَکُمْ ثَلَاثًا أَنْ يُّثْبِتَ قَائِمَکُمْ وَ أَنْ يَّهْدِيَ ضَالَّکُمْ، وَ أَنْ يُّعَلِّمَ جَاهِلَکُمَ، وَ سَأَلْتُ ﷲَ أَنْ يَجْعَلَکُمْ جُوَدَاءَ نُجَدَاءَ رُحَمَاءَ، فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّکْنِ وَ الْمَقَامِ، فَصَلَّي وَ صَامَ ثُمَّ لَقِيَ ﷲَ وَ هُوَ مُبْغِضٌ لِأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ النَّارَ.رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بنو عبدالمطلب بے شک میں نے تمہارے لئے ﷲ تعالیٰ سے دس چیزیں مانگی ہیں پہلی یہ کہ وہ تمہارے قیام کرنے والے کو ثابت قدم رکھے اور دوسری یہ کہ وہ تمہارے گمراہ کو ہدایت دے اور تیسری یہ کہ وہ تمہارے جاہل کو علم عطاء کرے اور میں نے تمہارے لیے ﷲ تعالیٰ سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ تمہیں سخاوت کرنے والا اور دوسروں کی مدد کرنے والا اور دوسروں پر رحم کرنے والا بنائے پس اگر کوئی رکن اور مقام کے درمیان دونوں پاؤں قطار میں رکھ کر کھڑا ہوجائے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور پھر (وصال کی شکل میں) ﷲ سے ملے درآنحالیکہ وہ اہل بیت سے بغض رکھنے والا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک 3 / 161، الرقم : 4712 ،چشتی)(الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 176، الرقم : 11412، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 171)

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ ﷲَ عزوجل وَ ُهوَ يَوَدُّنَا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إِلاَّ بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت حسن بن علی رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس بے شک وہ شخص جو اس حال میں ﷲ سے ملا کہ وہ ہمیں محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب ۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے ۔ (المعجم الأوسط طبرانی ، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172)

عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي ﷲ عنه : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ رضي ﷲ عنه : أَنْتَ وَشِيْعَتُکَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ الْحَوْضَ رُوَاءَ مُرَوَّييْنَ، مُبَيَّضَةً وُجُوْهُکُمْ. وَإِنَّ عَدُوَّکَ يَرِدُوْنَ عَلَيَّ ظُمَاءً مُقَبَّحِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے علی! تو اور تیرے (چاہنے والے) مددگار (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر چہرے کی شادابی اور سیراب ہو کر آئیں گے اور ان کے چہرے (نور کی وجہ سے) سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر بدنما چہروں کے ساتھ اور سخت پیاس کی حالت میں آئیں گے ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (المعجم الکبير طبرانی ، 1 / 319، الرقم : 948، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : النُّجُوْمُ أَمَانٌ ِلأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْغَرْقِ وَ أَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأمَّتِي مِنَ الإِخْتِلاَفِ، فَإِذَا خَالَفَتْهَا قَبِيْلَةٌ مِنَ الْعَرَبِ اخْتَلَفُوْا فَصَارُوْا حِزْبَ إِبْلِيْسَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ . وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ستارے اہل زمین کو غرق ہونے سے بچانے والے ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کو اختلاف سے بچانے والے ہیں اور جب کوئی قبیلہ ان کی مخالفت کرتا ہے تو اس میں اختلاف پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کی جماعت میں سے ہو جاتا ہے ۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (المستدرک حاکم 3 / 162، الرقم : 4715)

عَنِ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ : مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ، وَ مَنْ قَاتَلَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَکَأَنَّمَا قَاتَلَ مَعَ الدَّجَّالِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہو گیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا اور آخری زمانہ میں جو ہمیں (اہل بیت کو) قتل کرے گا گویا وہ دجال کے ساتھ مل کر قتال کرنے والا ہے ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے ۔ (معجم الکبير طبرانی ، 3 / 45، الرقم : 2637، و القضاعي في مسند الشهاب، 2 / 273، الحديث 1343، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168)

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ لِلّٰهِ حُرُمَاتٍ ثَلَاثًا مَنْ حَفِظَهُنَّ حَفِظَ ﷲُ لَهُ أَمْرَ دِيْنِهِ وَ دُنْيَاهُ، وَ مَنْ ضَيَّعَهُنَّ لَمْ يَحْفَظِ ﷲُ لَهُ شَيْئًا فَقِيْلَ : وَ مَا هُنَّ يَا رَسُوْلَ ﷲِ؟ قَالَ : حُرْمَةُ الإِسْلاَمِ، وَحُرْمَتِي، وَ حُرْمَةُ رَحِمِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک ﷲ تعالیٰ کی تین حرمات ہیں جو ان کی حفاظت کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کے لئے اس کے دین و دنیا کے معاملات کی حفاظت فرماتا ہے اور جو ان تین کو ضائع کر دیتا ہے ۔ ﷲ تعالیٰ اس کی کسی چیز کی حفاظت نہیں فرماتا سو عرض کیا گیا : یا رسول ﷲ! وہ کون سی تین حرمات ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام کی حرمت، میری حرمت اور میرے نسب کی حرمت ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 72، الرقم : 203، و في المعجم الکبير، 3 / 126، الرقم : 2881، 1 / 88، و الذهبي في ميزان الإعتدال، 5 / 294،چشتی)

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ، لَعَنَهُمُ ﷲُ، وَ کُلُّ نَبِيٍّ مُجَابٍ کَانَ : الزَّائِدُ فِي کِتَابِ ﷲ، وَ الْمُکَذِّبُ بِقَدْرِ ﷲِ وَ الْمُسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِيُعِزَّ بِذَلِکَ مَنْ أَذَلَّ ﷲُ ، وَ يُذِلُّ مَنْ أَعَزَّ ﷲُ، وَ الْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ ﷲِ، وَ الْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ ﷲُ، وَ التَّارِکُ لِسُنَّتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چھ بندوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور ﷲ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہے وہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے : جو کتاب ﷲ میں زیادتی کرنے والا ہو اور ﷲ تعالیٰ کی قدر کو جھٹلانے والا ہو اور ظلم و جبر کے ساتھ تسلط حاصل کرنے والا ہو تاکہ اس کے ذریعے اے عزت دے سکے جسے ﷲ نے ذلیل کیا ہے اور اسے ذلیل کر سکے جسے ﷲ نے عزت دی ہے اور ﷲ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والا اور میری عترت یعنی اہل بیت کی حرمت کو حلال کرنے والا اور میری سنت کا تارک ۔ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : القدر، باب : منه، (17)، 4 / 457، الرقم : 2154، و ابن حبان في الصحيح، 13 / 60، الرقم : 5749، و الحاکم في المستدرک، 2 / 572، الرقم : 3941، و الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 43، الرقم : 89، و البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 443، الرقم : 4010)

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ بْنِ خُدَيْجٍ : يَا مُعَاوِيَةَ بْنَ خُدَيْجٍ، إِيَّاکَ وَ بُغْضَنَا فَإِنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : لاَ يُبْغِضُنَا أَحَدٌ، وَ لاَ يَحْسُدُنَا أَحَدٌ إِلاَّ ذِيْدَ عَنِ الْحَوْضِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِسَيَاطِ مِّنْ نَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت حسن بن علی رضی ﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن خدیج سے کہا : اے معاویہ بن خدیج! ہمارے (اھلِ بیت کے) بغض سے بچو کیونکہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ ہم (اھلِ بیت) سے کوئی بغض نہیں رکھتا اور کوئی حسد نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اسے آگ کے چابکوں سے حوض کوثر سے دھتکار دیا جائے گا ۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 39، الرقم : 2405، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172)

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اللَّهُمَّ ارْزُقْ مَنْ أَبْغَضَنِي وَأَبْغَضَ أَهْلَ بَيْتِي، کَثْرَةَ الْمَالِ وَالْعَيَالِ. کَفَاهُمْ بِذَلِکَ غَيَّا أَنْ يَکْثُرَ مَالُهُمْ فَيَطُوْلَ حِسَابُهُمْ، وَ أَنْ يَکْثُرَ الْوِجْدَانِيَاتُ فَيَکْثُرَ شَيَاطِيْنُهُمْ.رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ جو مجھ سے اور میرے اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اسے کثرت مال اور کثرت اولاد سے نواز یہ ان کی گمراہی کے لئے کافی ہے کہ ان کا مال کثیر ہو جائے پس (اس کثرت مال کی وجہ سے) ان کا حساب طویل ہو جائے اور یہ کہ ان کی وجدانیات (جذباتی چیزیں) کثیر ہو جائیں تاکہ ان کے شیاطین کثرت سے ہو جائیں ۔‘‘ اس کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 492، الرقم : 2007،چشتی)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَا أَنَا مِنْهُ : بُغْضُ عَلِيٍّ، وَ نَصْبُ أَهْلِ بَيْتِي، وَ مَنْ قَالَ : الإِيْمَانُ کَلَامٌ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں وہ جس میں پائی جائیں گی نہ وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں (اور وہ تین چیزیں یہ ہیں) : علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا، میرے اہل بیت سے دشمنی رکھنا اور یہ کہنا کہ ایمان (فقط) کلام کا نام ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ مسند الفردوس دیلمی ، 2 / 85، الرقم : 2459)

گھر والے اور در والے گھر در کے بغیر نہیں ہوتا : ⏬

محترم قارٸینِ کرام ارشادِ باری تعالٰٕ ہے : وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 100)
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں صحابہ کرام اور اہلبیت رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ سب کے بارےمیں فرمایا :  اللہ تعالی ان سے راضی ہوا وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔

اس کے باوجود فاسد نیت سے صحابہ کرام رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ کےلیے در کا علاوہ استعمال کرکے ان کی تنقیص کرنا انتہائی بے باکی اور گستاخی کی بات ہے ۔ لیکن ان کے اس نعرے سے عظمتِ صحابہ کرام رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ کم نہ ہوئی نہ ہوسکتی ہے ۔

در والے اور گھر والے کا نعرہ لگانے والے کان کھول کہ سن لیں کہ :  گھر در کے بغیر نہیں ہوتا ۔ اور گھر میں داخلہ بغیر در کے ممکن نہیں ہے ۔ اے تفضیلی نیم رافضیو یہ اصطلاح ہی خود بتا رہی ہے کہ نبی کے قدموں تک پہنچنا ہے تو پہلے درِ صحابہ کرام رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ پر آٶ ۔ وہاں سے گزر کر آٶ گے تو تمہیں نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی ملیں گے اور نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اہلبیت رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ بھی ملے گی ۔

گھر کو دیکھنا ہو تو در سے داخل ہونا پڑے گا

نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اہلبیت کی زیارت چاہتے ہو ، تو پہلے درِ صحابہ کرام علیہم الرضوان پر آو وہاں کے منگتے بنو پھر سب ملے گا ۔ در پر کوئی آتا ہے تو گھر والے در پر آتے ہیں ۔ اپنا ہو تو اجازت ملتی ہے ورنہ در سے واپس کر دیا جاتا ہے ۔ جو ڈاریکٹ گھر میں گھستا ہے اسے بے وقوف کہا جاتا ہے ۔ اہلبیت علیہم الرضوان کو جو صحابہ کرام علیہم الرضوان کے در پر نظر آۓ گا اہلبیت اور نبی اسی کو ملیں گے ۔ در کی توہین کرنے والوں سے گھر والے بیزار ہوتے ہیں ۔

در کی خوبصورتی سے گھر کی خوبصورتی ہے ۔ آج جو صحابہ کرام علیہم الرضوان کو در والا کہہ کر برا کہتے ہیں وہ اہلبیت کرام کے سچے محب نہیں ہوسکتے ۔ سوچنے والے ضرور سوچیں گے کہ جب معاذاللہ در والے برے ہیں تو گھر والے بھی برے ہونگے ۔ (معاذاللہ)

وہ آدمی گھر میں کبھی داخل نہیں ہوسکتا جو در پر ہی لڑے پڑے اور در والوں سے ہی لڑاٸی شروع کر دے ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو در والے کہنے والوں تم نے دن رات صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے تم ہرگز گھر میں داخل نہیں ہو سکتے ۔

ہر در کا ایک دروازہ ہوتا ہے ۔ داخل ہونے والے بھی مختلف ہیں کوئی دروازہ پر دستک دیتا ہے کوئی دروازہ توڑ کر اندر جاتا ہے ۔ جو دروازے پر دستک دے کر اندر آتا ہے یہ ہیں سنی جو کہ گھر دَر ، دروازہ سب کی قدر کر رہے ہیں ۔ دراوزہ توڑنے والے رافضی و تفضیلی ہیں نہ تو در کی قدر نہ گھر والوں کی قدر کر رہے ہیں ۔

در کی توہین سے گھر والوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔ جو لوگ آج صحابہ کرام علیہم الراضوان کو در والا کہہ کر ان کی توہین کر رہے ہیں وہ سوچیں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اہلبیت علیہم الرضوان کو کتنی تکلیف دے رہے ہیں ۔

جس نے گھر والوں سے ملنا ہو وہ در والے سے رابطہ کرتا ہے اس کی معرفت سے گھر والوں سے ، معرفت ہوتی ہے ۔ ہمیں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کےفضائل کمالات معجزات صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ذریعے معلوم ہوئے ۔ آج جو در والا کہہ کر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی توہین کر رہے ہیں وہ معرفت مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ حاصل نہیں کر سکتے ۔ اب یا تو اصطلاح بدلو یا اصطلاح کی خوبیوں پر پورا اترو ۔

صحابی کی تعریف

علماء متقدمین ومتاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی،اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نومولود بچے جو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوگا ۔

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : لا تسبوا اصحابی لعن اللہ من سب اصحابی ۔
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا مت کہو ، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 94،چشتی)

امام المفسرین علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لیے ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور ان سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کفِ لسان کریں اورہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں ، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کررکھا ہے اور ان سے راضی ہے ۔ (فسیر قرطبی جلد نمبر ۱۶ صفحہ ۳۲۲)

اس آیت کی ابتداء میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے دو گروہوں کا ذکر ہوا ۔ سابقین مہاجرین یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین ۔ ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بدر مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بیتِ رضوان مراد ہیں ۔ سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار ۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ عَنْھا نے ، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ایمان قبول کیا ۔ (تفسیر خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳/۲۷۴)

وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ : اور جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں ، اس قول کے مطابق تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس آیت میں داخل ہوگئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت اور نیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے راستے پرچلیں ۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا کہ اسے ان کے نیک عمل قبول ہیں اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے راضی ہیں کہ اس کے ثواب و عطاسے خوش ہیں ۔ اور اس نے ان کےلیے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہ حضرات ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (تفسیر خازن ، التوبۃ الآیۃ: ۱۰۰، ۲/۲۷۵،چشتی)

اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے ۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵/۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸،چشتی)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : لَاتَسُبُّوْااَصْحَابِیْ فَلَوْ اَنَّ اَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَابَلَغَ مُدًّا اَحَدِھِمْ وَلَانَصِیْفَہُ ۔ (متفق علیہ)
ترجمہ : تم میرے صحابہ کوگالی نہ دو اگرتم میں سے کوئی احد پہاڑکی مثل سونا خرچ کرے وہ ان میں سے کسی ایک کے مد اورنہ ہی آدھے مد (خرچ کرنے کے ثواب) کوپہنچ سکتا ہے ۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اَکْرِمُوْا اَصْحَابِیْ فَاَنَّھُمْ خِیَارُکُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ۔
ترجمہ : تم میرے صحابہ کی تکریم کرو پس وہ بے شک تم میں سے بہترلوگ ہیں پھر وہ جوان سے متصل ہوں گے پھر وہ جوان سے متصل ہوں گے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح باب مناقب الصحابہ رضی اللہ عنھم اجمٰعین)

محترم قارئینِ کرام : مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کا اقرار ‘ عزت کی حفاظت اوران کی پیروی کرنا ایمان کا حصہ ہے اور جو کوئی شخص کسی ایک صحابی رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بارے میں بھی غلط عقیدہ رکھے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معاذ اللہ غبی یا احمق وغیرہ قرار دے تو وہ مسلمان اور مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا ۔

طبرانی میں ارشادِ نبوی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ،اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ‘‘ غرض مذکورہ آیاتِ قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیش ِ نظر اہل ِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے : فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ ۱۹۸)

حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں ، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے ، اس میں تحریر فرماتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض صفحہ۳۱)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری ۲/۲۶۸،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)

درّ مختار میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔ (درمختار)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی :۲/ ۲۹۴)

علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حق پر تھے اور فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں ۔

حدیث میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کرام کو گالی دی اس پر اللہ اور رسول اور فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ (برکات آل رسول صفحہ 383 )

اصحابِ رسول کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل : عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا ” , هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي صحيح ۔ (مستدرك الحاكم : ٣/٦٣٢).قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ ۔ (الشريعة للآجري رقم الحديث: 1973)
ترجمہ : حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ رسول الله صلی اللہ علیہ  آلہ وسلّم سے مروی ہیں کہ بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا ، اور میرے لیے اصحاب کو چن لیا ، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا ، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل ۔ (السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 885 2) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:279) » رقم الحديث: 1553 3)الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1590(1772) 4) الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287،چشتی) » رقم الحديث : 1730(1946) 5) معجم الصحابة لابن قانع (سنة الوفاة:351) » رقم الحديث: 1285 (1437) 6) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1972 7) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1973 8) المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 467(456) 9) المعجم الكبير للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 13809(349) 10) جزء ابن الغطريف (سنة الوفاة:377) » رقم الحديث: 37 11) المستدرك على الصحيحين (سنة الوفاة:405) » رقم الحديث: 6686(3 : 629) 12) الجزء التاسع من الفوائد المنتقاة (سنة الوفاة:412) » رقم الحديث: 27 13) حديث ابن السماك والخلدي (سنة الوفاة:419) » رقم الحديث: 56 14) أمالي ابن بشران 20 (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 59 15) حلية الأولياء لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 1399 (1401) 16) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4040(4440) 17) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4863 (5344) 18) المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي (سنة الوفاة:458) » رقم الحديث: 24(47) 19) تلخيص المتشابه في الرسم (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 936(2 : 631) 20) أربع مجالس للخطيب البغدادي (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 21 21) مجلسان من أمالي نظام الملك (سنة الوفاة:485) » رقم الحديث: 20 22) الثاني والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 55 23) السابع والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576چشتی) » رقم الحديث: 14 24) التبصرة لابن الجوزي (سنة الوفاة:597) » رقم الحديث: 104 25) التدوين في أخبار قزوين للرافعيي (سنة الوفاة:623) » رقم الحديث: 1438 26) مشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي (سنة الوفاة:718) رقم الحديث: 69(70)

علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم تک دین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعے ہی پہنچا ہے انہیں کو جب مطعون کر دیا جائے گا تو آیات و احادیث بھی محل طعن بن جائیں گی اور اس میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مبلغ کی تبلیغ کے لیے اس کا عادل ہونا ضروری ہے اور ۔ (برکات آل رسول صفحہ 281)

حضرت امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہ آپ نے فرمایا ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہاد کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا وہ غبار حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افضل ہے ۔ (الناہیہ صفحہ 16)

علامہ قاضی عیاض علامہ معافی بن عمران علیہما الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ معافی نے فرمایا کہ صحابی پر کسی کسی کو بھی قیاس نہیں کیا جائے گا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابی اور زوجہء رسول ام حبیبہ کے بھائی اور کاتب وحی ہیں ۔ (برکات آلِ رسول صفحہ 17)

بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جب کہ فلاں مسئلے میں انہوں نے یوں کیا تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کیا بیشک وہ فقیہ ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 112)

بخاری مسلم ترمذی ابوداؤد وغیرہ کبار محدثین نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو قبول فرمایا اور اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ان ائمہ محدثین کس قدر محتاط ہوئے ہیں اخذ حدیث کے معاملے میں کسی ذی علم پر مخفی نہیں خاص طور پر شیخین کہ ذرا سا عیب بھی پایا تو اس کی روایت لینے سے پرہیز کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تمام ائمہ کرام کے نزدیک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ متقی عادل اور ثقہ قابل روایت ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : اس عنوان پر بہت تحقیق ہو چکی ہے جو کتب عقائد میں موجود ہے جس کو مزید تحقیق درکار ہو وہ اہل سنت کی کتب کی طرف رجوع کرے اور بہت موٹی سی بات یہی سمجھ لے کہ جس سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ نے صلح کی ہم ان سے مخالفت نہیں کر سکتے کہ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے اعتماد کا کھلا مذاق ہے اور جس سے ان کے برادر صغیر سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی ہم اس یزید پلید سے صلح نہیں کر سکتے باقی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان نزاع ہوا اس میں بحث کرنے سے خود کو دور رکھتے ہیں نہ ہم اس کے مکلف کہ مجالس میں صبح سے شام تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگوں کا ذکر کریں ۔ ہمارے آقا کا فرمان ہے کہ کہ صحابہ کرام کے بارے میں تمہیں اللہ کا ڈر سناتا ہوں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی الخ ۔

شرح عقائد میں ہے : خوب کان کھول کر سن لیجیے جو صحابہ کرام کی محبت کے نام پر اہل بیت کی شان میں گستاخی کرے ناصبی خارجی ہے اور جو محبت اہل بیت کے نام پر صحابہ کرام پر سب و شتم کرے رافضی ہے ۔ دونوں کی محبت اور تعظیم فرض ہے . امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے : ⬇

اپنا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں
اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

امیر معاویہ بھی ہمارے سردار
لیکن حق بجانب حیدر کرار
(رضی اللہ عنہم)

ضروری گزارش : ہمارا یہ مضمون لکھنے کا مقصد واللہ صرف یہ بتانا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بھی مطعون کرنا کتنا جرم ہے اور سخت گمراہی ہے ایسے کتنے لوگ ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بغض سے سفر شروع ہوا اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بغض تک پہنچ گئے نعوذ باللہ من ذالک الف مرات ۔ لہٰذا جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد گمراہ نہ ہو ، وہ قرآن و سنت اور دین و شریعت پر عمل پیرا رہے، یا وہ جادہ حق پر قائم اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہے تو ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے دور کے اکابر علماء ، محققین اور خدا ترس صلحاء سے دلائل و براہین کے ساتھ اختلاف ضرور کریں ، کیونکہ یہ ان کا حق ہے ، مگر خدارا ! ان کی توہین و تنقیص سے پرہیز کریں ، کیونکہ اس سے ان کی اولادوں اور نسلوں کے بے دین اور ملحد ، خارجی ، ناصبی اور رافضی ہونے کا شدید اندیشہ ہے ، چنانچہ ایسی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ جن لوگوں نے اکابر علماء اور صلحا کی گستاخی یا بے ادبی کی ، نہ صرف یہ کہ ان کی اولاد بے دین و گمراہ ہوگئی بلکہ ان کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہوا ۔ ازواجِ مطہرات ، اہل بیت اطہار ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بے ادبی و گستاخی کرنے والا گمراہ اور بے ایمان ہے ، اس کواسلامی عدالت میں تعزیراً سزادی جائے گی جو حد سے بھی سخت ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کی بے ادبی وگستاخی کرنے والا گمراہ اور بدعقیدہ ہے اس کو بھی جو مناسب ہو تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کواور ہماری نسلوں کو گستاخی اور بے ادبی سے بچنے ، اہل اللہ اور مقربین بارگاہِ الٰہی کی قدردانی کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔

مذکورہ آیتِ کریمہ میں حصر اللہ کے ارادہ پر ہے ۔ اللہ کے ارادے اور مخلوق کے ارادے میں فرق ہے ۔ ارشاد فرمایا : فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔
ترجمہ : وہ جو بھی ارادہ فرماتا ہے (اسے) خوب کر دینے والا ہے ۔ (سورہ البروج، 85: 16)

اللہ جس چیز کا ارادہ فرماتا ہے وہ ہمارے ارادوں کی طرح نہیں ہوتا ۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے پورا ہونے کے حوالے سے کئی سوال ہیں مثلاً : وہ ارادہ کب پورا ہوگا ؟ پورا ہوتا بھی ہے یا نہیں ؟ کس قدر پورا ہوتا ہے اور کس قدر رہ جاتا ہے ؟ کتنے زمانے کے بعد جاکر پورا ہوگا ؟ یہ ہمارے ارادوں کا حال ہوتا ہے جبکہ اللہ کا ارادہ ایسا نہیں ہے ۔ اللہ کا ارادہ ازلی، ابدی اور قدیم ہے ۔ وہ جس شے کا ارادہ فرماتا ہے ، وہ شے ہوکر رہتی ہے ۔ قرآن مجید نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے ۔ ارشاد فرمایا : اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ۔
ترجمہ : اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے ہو جا ، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے) ۔ (سورہ یٰسین، 36: 82)

جب اللہ رب العزت یہ ارشاد فرمادے کہ ’’میرا ارادہ تو یہی ہے‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا اس نے ارادہ فرمایا ہے ، اب اس ارادے کی تکمیل میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی ۔ یہ حتمی، قطعی اور یقینی ہے ، یہ (بغیر کسی کمی و نقص کے) اکمل و احسن طریق سے پورا ہوکر رہے گا ، اس پر Ifs اور Buts نہیں لگ سکتے اور نہ ہی بحث و تکرار اور مختلف قسم کے اصرار کی گنجائش رہتی ہے ۔

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنے جس ارادہ کا اظہار فرمایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا : لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ ۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل بیت سے ہر قسم کا رجس دور کردینے اور انہیں اس سے پاک و صاف کردینے کا ارادہ کرلیا ہے ۔

رجس سے مراد گناہ ، شکوک و شبہات اور نقائص ہیں ۔ جن سے اللہ رب العزت اہل بیت کو ہمیشہ کےلیے ایسا پاک اور صاف کر دینا چاہتا ہے کہ ان چیزوں کی گنجائش بھی ان کی زندگیوں میں نہ رہے ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا : ’’وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا‘‘ ۔

یعنی وہ اہل بیت کو ایسی کامل طہارت اور پاکیزگی عطا کردے جو نہ صرف عظیم اور کثیر ہو بلکہ بڑی عجیب بھی ہو ۔ ایسی طہارت جو کبھی کسی نے دیکھی اور سنی نہ ہو ۔ تَطْہِیْرًا کے لفظ میں تنوین مبالغہ کےلیے ہے کہ اللہ نے جو ارادہ کیا وہ بتمام و کمال پورا ہو گیا اور بطریقِ اعلیٰ و اولیٰ اللہ تعالیٰ نے اس کی تکمیل کر دی ۔

تطہیراً کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اہل بیت کو ایسی طہارت سے نوازا جو عرفِ عام کی پاکیزگی اور طہارت جیسی نہیں ہے بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ بلند تر طہارت ہے ۔ یہ طہارت ہماری سمجھ اور فہم و ادراک سے بھی بالا تر ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بیان کے بعد یُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا کا معنی یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے بڑی عظیم ، نادر الوجود ، عدیم المثال اورہمارے فہم و فراست سے بالا تر طہارت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت کو عطا فرمائی ۔

اہل بیت سے کون مراد ہیں ؟

اس آیتِ مبارکہ میں مذکور اہل بیت سے کون سی شخصیات مراد ہیں ۔ اس کو سمجھنے کے لیے اور اہل بیت کے تعین کے حوالے سے درج ذیل چار اقوال بیان کیے جاتے ہیں : ⬇

1 ۔ اہلِ بیت : آلِ علی، آل عقیل ، آلِ جعفر ، آلِ عباس ۔

اہل بیت کے تعین کے حوالے سے ایک قول یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد وہ ہستیاں اور مبارک گھرانے ہیں جن پر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ اور صدقات حرام قرار دیے ہیں ۔ اس لیے کہ زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ مال سے نکلنے والا میل کچیل ہوتا ہے جو ان ہستیوں اور گھرانوں کے شایانِ شان نہیں اور ان کی عظمتوں کے منافی ہے ۔ وہ چار گھرانے جو حضور علیہ السلام کے خانوادہ نبوت کا حصہ مانے جاتے ہیں ، ان میں آل علی رضی اللہ عنہ ، آل عقیل رضی اللہ عنہ ، آل جعفر رضی اللہ عنہ اور آل عباس رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔

پہلے قول کے مطابق اہل بیت کا اطلاق ان چار گھرانوں کے افراد پر ہوگا ۔ یہ قول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام عینی رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض مالکیہ سے بھی مروی ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے اس کا اشارہ ملتا ہے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کھیل رہے تھے ، قریب ہی صدقہ و زکوٰۃ کی تقسیم کےلیے کچھ کھجوریں پڑی تھیں ان میں سے کسی ایک نے کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی ۔ آقا علیہ السلام نے دیکھا تو اپنی انگلی مبارک ان کے منہ کے اندر ڈال کر اس کھجور کو نکال دیا اور فرمایا : اما علمت ان آل محمد لا یاکلون صدقه ۔

ترجمہ : تمہیں معلوم نہیں کہ آل محمد صدقہ نہیں کھاسکتے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الزکوٰة، باب اخذ صدقة التمر، ج: 2، ص: 541، حدیث نمبر: 1414،چشتی)

یہ حدیث مبارک اس بات کی تائید میں ہے کہ اہلِ بیت کا اطلاق ان مذکورہ گھرانوں پر ہوتا ہے ۔ یہ معنی صحیح مسلم کی حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جسے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کا آخری حصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں اپنی اہل بیت کی محبت و مودت کےلیے اللہ کی یاد دلاتا ہوں کہ اللہ اور اس کے حکم کو میری اہل بیت کے بارے میں کبھی نہ بھولو ۔

اس حدیث کے راوی حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آقا علیہ السلام نے اہل بیت کا اتنا عظیم ذکر فرمایا ہے ، ان اہل بیت سے مراد کون ہیں ؟ کیا آقا علیہ السلام کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں سے ہیں ؟

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اس میں شک نہیں کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں سے ہیں : ولکن اهل بیته من حرم صدقة ۔ ’’ مگر حقیقت میں اہل بیت سے مراد وہ سارے گھرانے اور افراد و نفوس ہیں جن پر صدقہ کو حرام کردیا گیا ہے ‘‘ ۔ (شرح النووی علی صحیح مسلم، باب من فضائل علی بن ابی طالب صفحہ نمبر 180،چشتی)

پھر فرمایا : وهم آل علی وآل عقیل وآل جعفر وآل عباس ’’ یہ چار گھرانے آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر اور آل عباس ہیں ۔

اہل بیت : ازواجِ مطہرات اور آلِ پاک : ⏬

اہلِ بیت کے تعین کے حوالے سے دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آپ کی ذریت طیبہ (اولاد پاک) ہے ۔

متفق علیہ حدیث ہے جسے حضرت ابو حمید الساعدی نے روایت کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۔
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں ، اے ایمان والو ! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔ (السجده، 32: 56)
صحابہ کرام نے پوچھا : یارسول الله کیف نصل علیک ؟
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم آپ پر کیسے درود پڑھیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قولو اللهم صل علی محمد وازواجه وذریته کما صلیت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم ’’ مجھ پر درود ایسے پڑھو : اے اللہ! محمد پر اور محمد کی ازواج مطہرات پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اور ذریت پر درود بھیج جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر درود بھیجا ۔ (صحیح مسلم باب التسمیع والتحمید والتامین، جلد 1 صفحہ 306، حدیث: 407،چشتی)

صحابہ کرام نے آلِ پاک پر درود و سلام پڑھنے کا نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑھنے کا پوچھا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اوپر درود پڑھنے کے معنی میں اپنی ذات کے ساتھ اپنی ازواج اور اپنی اولاد کو بھی شامل فرمایا۔ اس وجہ سے نماز میں درود پڑھتے ہوئے ازواج اور ذریت کو بھی شامل کرتے ہیں ، اس لیے کہ آل محمد میں ازواج بھی آجاتی ہے اور ذریت یعنی اولاد بھی آجاتی ہے ۔

اس دوسرے قول کے مطابق آپ کی اولاد اور ازواج اہل بیت میں شامل ہو گئے اور بقایا گھرانے جیسے آل علی ، آل جعفر ، آل عقیل ، آل عباس ہیں تو وہ اس قول میں شامل نہیں ۔ گویا یہاں اہل بیت سے مراد صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد یعنی بنو فاطمہ شامل ہیں ۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد و ذریت سیدہ کائنات سے چلی ہے ، اس لیے بنو فاطمہ اس دوسرے قول کے مطابق اہل بیت میں آجاتے ہیں ۔

اہل بیت صرف ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن : ⏬

اہل بیت کے تعین کے حوالے سے تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت صرف ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی شان میں نازل ہوئی ۔ اس کے راوی حضرت عکرمہ ہیں جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں ۔ اس قول کو ائمہ تفسیر و حدیث اور علماء امت نے قبول نہیں کیا کیونکہ یہ قول خارجی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ حضرت عکرمہ بازار و گلی کوچوں میں جاکر آواز بلند کرتے تھے کہ جو تم سمجھتے ہو (یعنی اہل بیت سے مراد حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حسنین کریمین رضی اللہ عنہم) اس سے مراد وہ نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد صرف ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں ۔ یہ قول مردود ہے ، اسے اکابرین امت نے قبول نہیں کیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عکرمہ بربری تھے اور ان کا تعلق مراکو سے تھا ، مراکو میں قیام کے دوران وہاں کے نجدہ الحروری نامی شخص جو خارجیوں کا بڑا لیڈر تھا ، آپ اس کی صحبت میں 6 مہینے رہے اور اس کی خارجی فکر سے متاثر ہو گئے جس کے نتیجے میں ان کے بعض امور میں خارجی فکر کا غلبہ ہو گیا ۔ خارجی فکر کی نمایاں خصوصیات میں بغضِ اہلِ بیت بھی شامل ہے ۔ خارجیوں کے دل اہلِ بیت کی محبت سے خالی ہوتے ہیں اور یہ لوگ اہل بیت کی عظمت و رفعت اور ان کی شان کے قائل نہیں ہوتے ۔ حضرت عکرمہ ان سے متاثر ہوئے تو اہل بیت کی شان میں نازل ہونے والی آیات و احادیث میں تاویل کرلیتے تھے ۔ لہٰذا جس آیت میں اہل بیت کا ذکر آجائے اور اس کی تفسیر میں ان کی وہ تاویل آئے جو اہل بیت کی شان کو کم کرنے والی ہو تو اس میں ان کا قول قبول نہیں کیا جاتا۔ باقی امور میں یہ ثقہ اور معتبر ہیں ، البتہ اہل بیت اطہار کے حوالے سے خارجی فکر سے متاثران کی تاویلات والے اقوال کو قبول نہیں کیا گیا ۔

اہل بیت صرف اہل الکِسَاء : ⏬

اس قول کے مطابق اہلِ بیت سے مراد صرف اصحاب الکِسَاء ہیں ۔ یعنی آقا علیہ السلام نے جن چار ہستیوں کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا تھا کہ یہ میری اہل بیت ہیں ، اس قول کے مطابق اہل بیت سے مراد صرف یہی ہیں ۔ ان کے نظریے میں صرف پنجتن یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک ، سیدنا مولا علیٰ ، سیدہ فاطمہ ، امام حسن ، امام حسین رضی اللہ عنہم ہی اہل بیت ہیں ۔ یہ شیعہ حضرات کا قول ہے ۔
یہ قول بھی تیسرے قول کی طرح انتہا پر ہے ۔ تیسرے قول کو خوارج نے اپنایا ہے اور چوتھے قول کو اہل تشیع نے اپنایا ہے اور یہ دونوں اقوال مردود ہیں ۔ تیسرے قول والوں نے اہل الکِسَاء کو اہل بیت سے نکال دیا اور اس قول کے قائلین نے ازواج مطہرات کو خارج کردیا ۔
اس قول کو مردود کہنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم پنجتن کو نہیں مانتے ۔ انہیں ہم مانتے ہیں اور ہم پنجتن کہنا بھی جائز سمجھتے ہیں ۔ پنجتن کا لفظ حدیث پاک سے ثابت ہے اور یہ پنجتن اس آیتِ تطہیر میں شامل ہیں ۔ اس وقت فقیر جو نفی کر رہا ہے وہ اس بات کی ہے کہ آیت کریمہ میں لفظ اہل بیت سے مراد صرف پنجتن نہیں ہیں ۔

قولِ راجح : اہل بیت سے مراد ازواجِ مطہرات اور پنجتن رضی اللہ عنہم ہیں ۔ ان چار اقوال کا مطالعہ کرنے کے بعد اب آیئے ان میں سے قولِ راجح کو تلاش کرتے ہیں : ⬇

سورہ احزاب کی مذکورہ آیت نمبر 33 جس میں اہل بیت کا ذکر اور ان کی شانِ تطہیر آئی ہے ، اس آیت میں مذکور اہل بیت سے مراد پنجتن بھی ہیں اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم بھی ہیں ۔ ان دونوں کو جمع کردیں تو اہل بیت کا معنی مکمل ہو جاتا ہے ۔ اہل بیت سے صرف ازواج مطہرات مراد لینا اور پنجتن کو نکال دینا بھی درست نہیں ہے ۔ اسی طرح اہل بیت سے صرف پنجتن مراد لینا اور ازواج مطہرات کو نکال دینا بھی درست نہیں ۔ ایسا کرنا خود قرآن مجید کے سیاق و سباق کے خلاف ہے ۔ صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات بھی ہیں اور پنجتن رضی اللہ عنہم بھی ہیں ۔

آیتِ تطہیر کا مصداق ازواجِ مطہرات کس طرح ہیں ؟ : ⏬

آیت تطہیر (سورہ الاحزاب: 33) کے مصداق ازواج مطہرات بھی ہیں ، اس لیے کہ سورۃ احزاب کی تین آیات (32، 33،34) نازل ہی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ہوئی ہیں ۔ ان تینوں آیات کا سبب نزول امہات المومنین رضی اللہ عنہن ہیں اور سبب نزول کبھی غایتِ نزول سے خارج نہیں ہوتا ۔ جس کےلیے آیت نازل ہوئی ہو وہ آیت کے مقصود اور معنی سے خارج نہیں ہوتا بلکہ سبب نزول معنیٔ آیت کا حصہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے لیے ہی آیت نازل ہوئی تھی ۔

سوال یہ ہے کہ حدیث مبارک میں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ : اَللّٰهُمَّ هٰؤلآءِ اَهْلُ بَیْتِیْ ۔ ’’اے اللہ یہ اہل بیت ہیں ۔‘‘ جبکہ ازواج مطہرات کی طرف تو اس طرح کی کوئی صراحت نہیں ملتی پھر ازواج مطہرات اہل بیت میں کیسے شامل ہو گئیں ؟

اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ زوجہ تو ہوتی ہی گھر والی ہے ۔ ان پر تو سوال ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ کیسے اہل بیت میں شامل ہوگئیں ؟ اہل بیت کا مطلب ہے ’’گھر والے‘‘ ۔ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ’’میری گھر والی نے یہ کہا‘‘ یعنی بیوی کو کہتے ہی گھر والی ہیں اور اسی گھر والی کا معنی ہے اہل بیت ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32 شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے ، ارشاد فرمایا : یٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ ۔ ’’اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو۔‘‘(سورہ الاحزاب، 33: 32)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خطاب ہی نبی کی بیویوں سے کیا ہے ، اس لیے کوئی ان کے اہل بیت سے ہونے کا انکار نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن مجید کی ان آیات کا نزول بھی ان کےلیے ہوا اور خطاب بھی ان سے ہوا ۔ لہذا اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیت ہیں ۔

آیتِ تطہیر کا مصداق پنجتن کس طرح ہیں ؟ : ⏬

ازواج مطہرات کے اہل بیت میں شامل ہونے کی وضاحت کے بعد اب سوال ہے کہ پنجتن اہل بیت میں کیسے شامل ہوئے ؟ سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تو شہزادی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما شہزادے ہیں ، اس لیے اہل بیت میں شامل ہوگئے مگر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تو کزن اور داماد ہیں ، وہ اہل بیت میں کیسے ہوئے ؟

یاد رکھیں ! یہ ہستیاں بھی قرآن مجید کی اسی آیت کریمہ آیتِ تطہیر سے ہی اہل بیت قرار پاتی ہیں ۔ یہاں اس مغالطہ کا بھی ازالہ کردوں کہ بعض اوقات لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا اہل بیت میں شامل ہونا تو قرآن مجید سے ثابت ہے ، چار تن (سیدنا علی المرتضیٰ ، سیدہ فاطمہ ، سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہم) کیسے اہل بیت ہو گئے ؟ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے کہ یہ پنجتن اہل بیت ہیں ۔ یاد رکھیں ! حدیث سے ان کا اہل بیت ہونا بھی ثابت ہے مگر یہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے ، اس سے پہلے قرآن مجید ہی کے ذریعے ان کا اہل بیت کا حصہ ہونا ثابت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت کی اصطلاح کو Extend (وسیع) کر کے اپنے امر سے ان چار شخصیات کو اہلِ بیت میں شامل نہیں کیا ۔ بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ان چار ہستیوں کو اہل بیت میں شامل کر سکتے ہیں ، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و اختیار کے متعلق قرآن میں آیا ہے کہ : وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ۔ ’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے ۔‘‘ (سورہ النجم، 53: 3-4)

آپ جو کچھ شامل کرلیں تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ہو گا ۔ مگر یاد رکھیں کہ اس طریق پر آقا علیہ السلام نے اہل بیت میں پنجتن کو اضافتاً شامل نہیں فرمایا بلکہ وہ بھی از روئے قرآن اہل بیت میں اصلاً شامل ہیں ۔

لفظ اہل بیت سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32 اور 34 دونوں میں نہیں آیا ۔ ان دونوں آیات میں خطاب ازواج مطہرات سے ہے ، لفظ اہل بیت اور یُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا کی شان کا بیان آیت نمبر 33 کا مضمون ہے ۔ آیت 32 اور 34 میں ازواج مطہرات کی فضیلت کا ذکر ، دوسری عورتوں کے ساتھ ان کی عدم مثلیت کا ذکر کہ یہ دوسری خواتین جیسی نہیں ہیں ، تقویٰ کا حکم آیا ہے ، ترغیب و ترہیب آئی ہے ، گفتگو کے طریقے ، انداز اور احکام آئے ہیں اور اللہ کی آیات کی تلاوت اور یاد کرنے کی بات آئی ہے ۔ ان سارے احکامات میں مخاطب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں ۔ آیت نمبر 33 جو آیت تطہیر ہے، اس کا سیاق و سباق اس امر پر غماز ہے کہ چونکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد خطاب ازواج مطہرات سے ہی ہے اس لیے آیت تطہیر کی مخاطب ازواج مطہرات بھی ہیں ۔

یاد رکھیں ! اس آیت کا خطاب صرف ازواج مطہرات سے نہیں بلکہ اس خطاب میں خود اللہ رب العزت نے ازواج مطہرات کے ساتھ مولیٰ علی ، سیدہ فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہم سب کو شریک فرمایا ہے ۔ جس طرح اہل بیت میں ازواج مطہرات شریک ہو گئیں اسی طرح پنجتن کا بھی اہل بیت کا حصہ ہونا سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر33 (آیتِ تطہیر) کے اصل میں شامل ہے ۔ آقا علیہ السلام نے اپنے فرمان کے ذریعے بعد میں ان کو شامل نہیں فرمایا ۔ احادیث میں اہل بیت کے حوالے سے جو کچھ ارشاد فرمایا ، وہ اس آیت کی تفسیر، تائید اور وضاحت میں فرمایا تاکہ کسی کو شک و شبہ نہ رہے ۔ وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آیات کا نزول ازواج مطہرات کےلیے آرہا ہے لہٰذا کسی کو مغالطہ نہ ہو کہ اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات شامل ہیں ۔ پنجتن اصل میں (قرآن کی رو سے) شامل ہیں ، احادیث کی رو سے درجہ اضافی میں شامل نہیں ہیں ۔

پنجتن بھی آیتِ تطہیر میں اصلاً شامل ہیں ، اس کو سمجھنے کے لیے ان آیاتِ کریمہ کے اسلوب میں غور کرنا ہوگا ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32 میں خطاب کے سارے صیغے مونث کے ہیں ، ایک صیغہ بھی مرد کےلیے نہیں ہے ۔ ارشاد فرمایا : یٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ۔ ’’اے ازواجِ پیغمبر ! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا‘‘ ۔ (سورہ الاحزاب، 32: 32)
اس آیت میں لَسْتُنَّ ، اتَّقَیْتُنَّ ، تَخْضَعْنَ ، قُلْنَ یہ سارے مونث کے صیغے ہیں ۔

اسی طرح آیت نمبر 34 میں بھی تمام صیغے مونث کے استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ ﷲِ وَالْحِکْمَةِط اِنَّ ﷲَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ۔ ’’اور تم اللہ کی آیتوں کو اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) سنت و حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے یاد رکھا کرو، بے شک اللہ (اپنے اولیاء کے لیے) صاحبِ لُطف (اور ساری مخلوق کےلیے) خبردار ہے‘‘ ۔ (سورہ الاحزاب، 33: 34)
اس آیت میں بھی وَاذْکُرْنَ اور بُیُوْتِکُنَّ مونث کے صیغے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سارے خطاب صرف ازواج مطہرات کےلیے تھے ۔ اب علمی اعتبار سے بڑا دلچسپ نکتہ ہے کہ آیت نمبر 32 اور آیت نمبر 34 میں بھی ازواج مطہرات سے خطاب ہے اور ان دونوں آیات کے درمیان میں آیت تطہیر ہے ۔ آیت تطہیر آیت نمبر 32 بھی نہیں اور آیت نمبر 34 بھی نہیں ہے بلکہ آیت تطہیر آیت نمبر 33 کا عنوان ہے۔ اس آیت کے سیاق و سباق میں ازواج کو خطاب چل رہا تھا اور مونث کے صیغے استعمال ہو رہے تھے مگر اس آیت نمبر 33 یعنی آیت تطہیر میں خطاب یک لخت بدل گیا اور اب مونث کے بجائے مذکر کا صیغہ آگیا ۔ ارشاد فرمایا : لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ۔ اس آیت میں ’’عَنْکُمُ‘‘ بھی مذکر کا صیغہ ہے اور یُطَهِرَکُمْ بھی مذکر کا صیغہ ہے ۔ گویا اس سے پہلے بھی مونث کے صیغے استعمال فرمائے اور اس کے بعد بھی مونث کے صیغے استعمال فرمائے ، درمیان میں اس مقام پر آیت تطہیر میں مونث کا صیغہ ہٹا کر مذکر کا صیغہ لگادیا ۔ اس اسلوب سے معلوم ہوا کہ اس جگہ پر خطاب صرف ازواج مطہرات کو نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اگر مخاطب صرف ازواج مطہرات ہوتیں تو مونث کا صیغہ ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ لیذہب عنکن اور ویطہرکن کہا جاتا جیسے پہلے مونث صیغے استعمال کیے ۔

یاد رکھیں ! ظاہری طور پر جب مذکر کا صیغہ آئے تو اس میں عورتیں شامل نہیں ہوتیں ، صرف مرد شامل ہوتے ہیں لیکن عربی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ عورتیں اور مرد اکٹھے ہوں تو غلبہ ذکور کی وجہ سے وہاں مذکر کا صیغہ آجاتا ہے ۔ مخاطب صرف عورتیں ہوں تو مونث کا صیغہ آتا ہے لیکن مذکر کا صیغہ دو صورتوں میں آتا ہے ، جب صرف مرد مخاطب ہوں تب مذکر کا صیغہ آئے گا اور جب مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں تو پھر بھی مذکر کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے مخاطب کیا جاتا ہے ۔

مذکورہ آیت تطہیر سے اب مونث خارج نہیں ہو سکتی ، اس لیے کہ آیت کے آگے پیچھے ازواج مطہرات کےلیے مونث کا صیغہ آرہا ہے ، لہٰذا جب مذکر کا صیغہ درمیان میں آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں آکر کچھ مرد بھی اس خطاب میں شامل ہو گئے یعنی وہ لوگ جو آیت نمبر 32 اور آیت نمبر 34 میں نہیں تھے ، وہ آیت نمبر 33 میں شامل ہو گئے ۔ پس پنجتن کا اہل بیت میں شامل ہونا درجہ اصل میں ہے اور اسے اللہ نے خود اہل بیت میں شامل کیا ہے ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں شامل نہیں کیا ۔ آقا علیہ السلام نے اس دائرے کو نہیں بڑھایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ، سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ، امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو شامل کیا ۔ پس مذکر کا صیغہ استعمال کر کے اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات میں پنجتن کا اضافہ کیا ۔

یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ پنجتن کا اضافہ ہوا تب اہلِ بیت بنے اور جب تک پنجتن اس میں شامل نہیں تھے ، تب تک ازواج مطہرات تھیں ، نساء النبی تھیں ، وہ امہات المومنین تھیں ، ان کےلیے اہل بیت کا صیغہ نہیں تھا ، اہلِ بیت کا ٹائٹل اس وقت ملا جب ازواج مطہرات کے ذکر کے ساتھ پنجتن بھی شامل ہو گئے ۔ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ کسی اور مقام پر بھی اگر ازواج مطہرات کا ذکر آیا ہے تو وہاں بھی اہلِ بیت نہیں کہا گیا بلکہ صرف ازواج اور امہات المومنین کہا گیا۔ اہل بیت کا ٹائٹل پورے قرآن میں فقط اسی جگہ استعمال ہوا ہے اور یہاں یہ ٹائٹل ازواج مطہرات کے ساتھ پنجتن کو شامل کر کے استعمال کیا گیا ہے ۔

’اَللّٰهُمَّ هٰوُلآءِ اَهْلُ بَیْتِیْ‘ کی وضاحت : ⬇

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں حضرت علی ، حضرت فاطمۃ الزہراء اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم ان چار نفوس قدسیہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : اللهم هولاء اهل بیتی ۔ ’’اے اللہ یہ میری اہل بیت ہے ۔‘‘ (المعجم الاوسط، باب من اسمه علی جلد 4 صفحہ 236،چشتی)

اس حدیث کے دو غلط معنی لیے گئے : بعض لوگوں نے یہ معنٰی لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث مبارکہ کے ذریعے ان چار نفوس کو اہل بیت میں شامل کیا ۔ یہ معنٰی غلط ہے ، اس لیے کہ پنجتن کا اہلِ بیت میں شامل ہونا بھی قرآن کی نص سے ثابت ہے ۔ کچھ لوگوں نے یہ معنٰی مراد لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت سے مراد صرف پنجتن ہیں ۔ اس معنٰی کی رو سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کو اہل بیت سے خارج کرنے کا سوچا گیا ۔ یہ معنٰی بھی غلط ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات کو تو آیت کی شانِ نزول کے ذریعے ہی اہل بیت میں شامل فرما چکا ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے شامل کیا، ان کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خارج تو نہیں کر سکتے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھولاء اہل بیتی فرما کر صرف چار نفوس ہی کی طرف اشارہ کیوں فرمایا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ آیت مبارکہ میں ان کے اسماء مبارکہ نہیں آئے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تصریح کردی کہ آیت مبارک میں اللہ نے جن کو میری اہل بیت میں شامل کیا ہے ، ان میں سے ازواج مطہرات کو تو ہر کوئی جانتا ہے، اس لیے کہ ان کے بارے تو آیات اتریں ، آیتِ تطہیر کی شکل میں اہل بیت کا عنوان دیا ہے مگر نام لے کر بتانے کا مقصود یہ تھا تاکہ پتہ چل جائے کہ ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ اور کون کون اہل بیت میں شامل ہے ۔

صحیح مسلم کتاب الفضائل صحابہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اوپر کالی کملی اوڑھی ہوئی تھی ، اس میں اونٹوں کے کجاووں کے نشان بنے ہوئے تھے ۔ اتنے میں حسن مجتبیٰ آگئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کملی اٹھاکر ان کو اندر داخل کر لیا ، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی کملی کے اندر داخل کرلیا ۔ پھر سیدہ فاطمۃ الزہراء تشریف لائیں تو ان کو بھی کملی کے اندر داخل کرلیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی کملی کے اندر داخل کر لیا اور ان چاروں کو داخل کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت تطہیر کی تلاوت کی کہ : اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ۔ ’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت ! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔ (سورہ الاحزاب، 33: 33)

عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے کہ ایک کملی اتنی بڑی ہو کہ پہلے ہی ایک ہستی بیٹھی ہو، پھر چار اور بھی اس میں داخل کیے جائیں ، یہ عام معمول نہیں ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت اس آیت کی تفسیر بتانا چاہ رہے تھے ۔

قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اُس میں کسی کا نام نہیں لیا ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ کسی کا نام بھی نہیں لیتا بس گنتی کے چند پیغمبروں کے نام لیے اور جب کفار و مشرکین کو رد کیا تو سوائے ابولہب کے کسی کا نام نہیں لیا ۔ قرآن ازواج مطہرات ، صحابہ اور اہل بیت میں سے کسی کانام نہیں لیتا ۔ اب آیتِ تطہیر کے ذیل میں اجتماعی طور پر نساء النبی آگیا تھا (اے نبی کی بیویو) تو خاص ہو گیا اور مغالطہ نہ رہا کہ ازواج مطہرات کی بات ہوئی ہے ۔ اسلوب بیان میں عترت کے بھی اہل بیت میں داخل ہونے کی صراحت ہے مگر نام موجود نہیں ۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نام لینا چاہ رہے ہیں ، اس لیے ایک ایک کو پکڑ کر اپنی کملی میں داخل کیا تاکہ ساری دنیا دیکھ لے اور کسی کو شک و شبہ نہ رہے کہ آیتِ تطہیر میں مذکور اہلِ بیت میں یہ شخصیات بھی شامل ہیں ۔

قرآن و حدیث سے پنجتن کا تصور : ⏬

لوگ کہتے ہیں کہ پنجتن تو شیعوں کا تصور ہے ، آپ کیوں ان کے نام لیتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک کملی میں اِن پانچ تنوں کے اکٹھا ہونے کے منظر کو بیان کیا ہے ۔ قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت نمبر 61 میں بھی پنجتن کا ذکر آیا ہے ۔ جب نصاریٰ کا وفد مباہلہ کے لیے مدینہ آیا تو یہ آیت نازل ہوئی جسے آیتِ مباہلہ کہتے ہیں، ارشاد فرمایا : فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآئَکُمْ وَنِسَآئَناَ وَنِسَآئَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ۔ ’’آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں‘‘ ۔ (سورہ آل عمرن، 3: 61)

جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلایا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو ’’نِسَآئَنَا‘‘ کی جگہ بلا لیا ، حسن و حسین کو اَبْنَائَنَا کی جگہ پر بلا لیا اور خود اور حضرت علی کو اَنْفُسَنَا کی جگہ پر بلا لیا ۔ اس طرح یہ پانچ تن اکٹھے ہوئے۔ ان کو ساتھ لیا اور مباہلہ کےلیے تشریف لے آئے ۔ قرآن مجید کی اس آیت کریمہ نے پانچ تن ثابت کردیے ۔ تن مصطفی ، تن علی المرتضیٰ ، تن فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ، تن حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ ، تن حسین ابن المرتضیٰ رضی اللہ عنہما ۔

پس قرآن مجید نے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 33 میں پنجتن کو اور ازواج مطہرات کوملا کر اہل بیت ڈکلیئر کردیا تھا اور چونکہ نام معلوم نہ تھے تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان چاروں کو بلا کر اپنی کملی میں بٹھا کر اپنے دستِ اقدس سے اشارہ کر کے بتا دیا کہ یہ میری اہل بیت ہیں تاکہ کسی کو اس بات کے تعین میں مغالطہ ، شبہ اور اعتراض نہ رہے اور کل کوئی اس چیز پر اصرار نہ کرے کہ اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات شامل ہیں بلکہ اُسے معلوم ہو جائے کہ ازواج مطہرات اور پنجتن مل کر اہل بیت قرار پاتے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو 6 ماہ تک (بعض روایتوں میں 7 اور 8 ماہ کا ذکر بھی ہے) آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ ہر روز جب نماز فجر کے لیے نکلتے تو حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر آواز دیتے : الصلوة یا اهل البیت۔ ’’ اے اہل بیت نماز کا وقت ہوگیا‘‘ ۔ اور پھر یہ آیت پڑھتے : اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا ۔ تمام کتب تفسیر و احادیث میں ہے کہ : نزلت فی خمسة فی رسول الله و علی و فاطمة و الحسن و الحسین ۔ یہ آیت پانچ تن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی ، حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی ۔ (المعجم الاوسط باب من اسمه الحسن جلد 3 صفحہ 380،چشتی)

یہی وجہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے محبت و مودت کی حد درجہ تلقین فرمائی ۔ محبت اہل بیت عمر بھر رہنی چاہیے ، اس لیے کہ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی کا حصہ ہے مگر بطورِ خاص اس محبت کے اظہار کا موسم محرم الحرام کا مہینہ ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار تو ہم پورا سال کرتے رہتے ہیں مگر ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بطور خاص اظہارِ محبت کرتے ہیں ۔ اس لیے جب اہل بیت سے محبت کے اظہار کا یہ مہینہ آئے تو اس کا بالخصوص اہتمام کیا کریں ۔ اہل بیت کی محبت ، عترت و ذریت پاک کی محبت بالخصوص حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی محبت نہ صرف ہمارے ایمان کا حصہ ہے بلکہ عینِ ایمان ہے ۔

محبتِ اہلبیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین واجب ہے : ⏬

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی}[الشوری، 42: 23]، قَالُوْا: يَارَسُوْلَ ﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِیُّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَهُمَا ۔
ترجمہ : حضرت عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : فرما دیجیے : میں اِس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اللہ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں) ۔ [الشوری، 42: 23] نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی ، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے حسن وحسین رضی اللہ عنہم ) ۔ (طبراني، المعجم الکبير، 3: 47، رقم: 2641، الموصل: مکتبة الزهراء)

اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا اور اپنی بندگی، عبادت اور طاعت کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے رشتے میں منسلک کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے باب میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ مظاہر بنائے ہیں اور اہل بیت اطہار اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی محبت کو اہم ترین مظاہرِ ایمان اور مظاہرِ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل فرمایا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قرابت اور اپنی اہل بیت کی محبت کو ہمارے اوپر فرض و واجب قرار دیا ہے اور یہ وجوب مذکورہ حکم الہی سے ثابت ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ رسالت کے ذریعے ہم پر جو احسان فرمایا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے کوئی اجر طلب نہیں فرمایا سوائے اِس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت اور قرابت سے محبت کریں ۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرابت سے محبت کا جو حکم دیا ، یہ اجر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدلہ کے طور پر اپنے لیے طلب نہیں فرما رہے بلکہ یہ بھی ہمارے بھلے کے لیے ہے۔ اِس سے ہمیں ایمان و ہدایت کا راستہ بتار ہے ہیں ، ہمارے ایمان کو جِلا بخش رہے ہیں اور اہل بیت و قرابت کی محبت کے ذریعے ہمارے ایمان کی حفاظت فرما رہے ہیں ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس فرمان کے ذریعے ہماری ہی بھلائی کی راہ تجویز فرما رہے ہیں ۔

ہر تفسیر اور ہر مفسر امام قرطبی ، امام بغوی ، امام نسفی ، حافظ ابن کثیر ، امام ابن العادل الحنبلی ، امام بقائی ، امام ہیثمی ، عسقلانی ، زمحشری، امام سیوطی ، امام ابو نعیم ، ابن المنذر ، ابن الحاتم ، طبرانی ، ابن حجر مکی ، امام احمد بن حنبل ، امام بزار ، امام شوکانی الغرض جملہ محدثین و آئمہ کی کتب میں احادیث سے بے حساب تائیدات اور آئمہ تفسیر کی تصریحات اس معنی پر ملتی ہیں ، جس سے اس معنی پر کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا ۔

اہلِ قرابت کون ہیں ؟

اہل بیت کی عظمت و شان میں بہت سی آیات ہیں، مگر اُن کی محبت کا ہم پر فرض ہونا مذکورہ آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے۔ جملہ آئمہ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اس آیت میں جن کی محبت فرض کی گئی ہے وہ قرابتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔

حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : يَا رَسُوْلَ ﷲِ ، مَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدَاهَا ۔
ترجمہ : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی قرابت والے وہ کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی ، فاطمہ ، اور اس کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین) ۔ (أخرجه ابن أبي حاتم الرازي في تفسيره، 10/ 3276، الرقم/18473)

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : لَمَّا نَزَلَتْ : {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی} (الشوریٰ، 42/23) ، قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ ﷲِ ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا ۔
ترجمہ : جب مذکورہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل قرابت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی ، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے رضی اللہ عنہم ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 669، رقم: 1141،چشتی)

یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پوچھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت مبارکہ کی خود تفسیر کی اور امت پر واضح فرمادیا کہ ان پر کن کن کی مؤدت اور محبت واجب و فرض ہے ۔

یہی معنی حضرت ابوالعالیہ التابعی ، سعید بن جبیر ، ابو اسحاق ، عمرو بن شعیب ، امام ترمذی ، امام احمد بن حنبل ، امام حاکم ، امام بزار ، امام طبرانی الغرض کتب احادیث اور کتب تفسیر میں کثرت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أَحِبُّوا ﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہ ۔ وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ ﷲ ۔ وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي ۔
ترجمہ : یعنی اللہ سے محبت کرو اِس وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا ، وہ تم سے محبت کرتا ہے ، تم پر شفقت ، بے حساب رحمت ، کرم اور لطف و عطاء فرماتا ہے ۔ صبح و شام تم اُس کی نعمتوں اور رحمتوں کے سمندوں میں غوط زن رہتے ہو ، تم پر اللہ کی نعمتوں کی موسلا دھار بارش رہتی ہے ، اِس کی وجہ سے اللہ سے محبت کیا کرو ۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب جلد 5 صفحہ 664، رقم: 3789،چشتی)
پھر فرمایا : اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے ، اس لیے کہ اللہ کی محبت میری محبت کے بغیر نہیں ملتی ۔ میری محبت ہی اللہ کی محبت کا راستہ ، واسطہ ، ذریعہ اور وسیلہ ہے ۔ لہٰذا مجھے سے محبت کرو ، تاکہ تم اللہ سے محبت کر سکو ۔ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی محبت کا راستہ بتایا ہے ۔
اور پھر فرمایا : میری اہل بیت سے محبت کرو تاکہ تمہیں میری محبت مل سکے ۔ میری محبت کے حصول کےلیے میری اہل بیت سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کے حصول کےلیے مجھ سے محبت کرو ۔

حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت میں امت کےلیے پیغام

حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والہانہ محبت کا اظہار فرماتے ۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین سے محبت کا والہانہ و بے ساختانہ اظہار بغیر کسی مقصد کے تھا ؟ نہیں ، ایسا نہیں ہے بلکہ اس والہانہ اندازِ محبت میں بھی امتِ مسلمہ کےلیے ایک پیغام ہے ۔ آیئے سب سے پہلے ایک حدیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس میں موجود پیغام پر ایک نظر ڈالتے ہیں : حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَامِلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلٰی عَاتِقِهِ فَقَالَ رَجُلٌ : نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ يَا غُـلَامُ ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : وَنِعْمَ الرَّاکِبُ هُوَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز سیدنا امام حسین کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل رہے تھے تو ایک شخص نے دیکھا تو دیکھتے ہی اُس نے کہا اے بیٹے مبارک ہو ، کتنی پیاری سواری تمہیں نصیب ہوئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں سواری کا اچھا ہونا نظر آرہا ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنا پیارا ، خوبصورت اور اعلیٰ ہے ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب، 5: 661، رقم: 3784،چشتی)

یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ حدیث مبارکہ سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ واقعہ گھر کے اندر کا نہیں ہے ۔ یعنی گھر کی چار دیواری کا نہیں بلکہ باہر کا ہے ، اسی لیے ایک غیر شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عملِ مبارک پر اظہار خیال کر رہا ہے ۔ اِس کا مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو گلی میں لے کر چل رہے تھے ۔ اب ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ ، شان ، عظمت، جلالت اور قدر بھی ذہن میں رکھیں اور یہ عمل بھی دیکھیں ۔ ہم یہ کام نہیں کرتے ، اپنا بیٹا ہو ، پوتا ہو ، نواسا ہو ، نواسی ہو ، جس سے بہت پیار ہو ، اسے کندھے پر اٹھا کر گلی میں نہیں چلتے بلکہ شرماتے ہیں حالانکہ یہ سنتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی پیار اگر فقط اپنی ذات تک رکھنا ہوتا تو یہ عمل گھر کے اندر چار دیواری میں کرتے ، کندھوں پر بٹھا کر اس طرح گلی میں نہ چلتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل تمام لوگوں کے سامنے کرنا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امام حسین رضی اللہ عنہ سے پیار کرنے کا یہ طرز عمل ، وطیرہ اور ادا کا سبب دراصل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو یہ ہے میرے پیار کا عالم حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ۔ یہ ہے میرا انداز اُن رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے کا ۔ لہٰذا اے امت مسلمہ تم بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے اسی طرح ٹوٹ کر محبت کرنا تاکہ تمہیں اسی واسطہ و وسیلہ سے میری محبت نصیب ہو جائے ۔

حضرت یعلی العامری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت پر گئے۔ گلی سے گزر رہے تھے ، راستے میں بچے کھیل رہے تھے اور وَ حُسَيْنٌ مَعَ غِلْمَانٍ يَلْعَب ، اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بھی ان بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو کھیلتے دیکھا تو ہر چیز کو نظر انداز کر کے یہ ارادہ کیا کہ دوڑ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑیں ۔ فَطَفِقَ الصَّبِيُّ يَفِرُّ هٰهُنَا مَرَّةً، وَهٰهُنَا مَرَّة ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پکڑنے کےلیے دوڑے ، امام حسین رضی اللہ عنہ کبھی دوڑ کر اِدھر چلے جاتے اور کبھی دوڑ کے اُدھر چلے جاتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انہیں پکڑنے کےلیے کبھی ایک طرف بھاگتے ہیں اور کبھی دوسری طرف بھاگتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر لوگ اس منظر کو دیکھ رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین کو ہنساتے جا رہے ہیں اور انہیں پکڑنے کےلیے ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور انہیں خوش کر رہے ہیں ۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پکڑ لیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اٹھا لیا ، اپنی زبان مبارک اُن تمام صحابہ کے سامنے اُن کے منہ میں ڈال دی ۔ پھر انہیں چوما اور چوم کر آقا علیہ السلام نے فرمایا : حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ ۔ أَحَبَّ ﷲُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا ۔
ترجمہ : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔ اللہ اُس سے محبت کرے اور کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 4: 172)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں ایک حقیقت بھی بیان فرمائی اور ایک دعا بھی دی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے ، اللہ اُس سے محبت کرتا ہے اور اِس میں آقا علیہ السلام نے دعا بھی کی کہ اللہ اُس سے محبت کر جو میرے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے ۔ امام احمد بن حنبل اور امام ترمذی اور دیگر آئمہ علیہم الرّحمہ نے تو اس حدیث کو حدیث صحیح لکھا ہی ہے مگر سعودی عرب میں سلفی مکتب فکر کے نامور عالم محدث علامہ البانی ہوئے ہیں ۔ اُنہوں نے مختلف کتب حدیث کے اوپر تخریجات اور تحقیقات کی ہیں ۔ وہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ یعنی اِس حدیث کی صحت کا عالم یہ ہے کہ علامہ البانی جیسے شخص بھی اِس حدیث کے صحیح ہونے کا انکار نہیں کر سکے اور اپنے السلسلہ الصحیحہ میں اِسے درج بھی کیا اور صحیح بھی کہا ہے ۔

یاد رکھیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی عمل غیر ارادی نہیں ہوتا ۔ لہٰذا یہ عمل بھی غیر ارادی نہیں ہے ، بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے ۔ اگر اس طرح کا عمل غیر ارادی صادر ہوتا ہو تو ایسا کام ہم کیوں نہیں کر لیتے ۔ ہم باہر نکلیں اور ہمارا پوتا ، نواسا ، پوتی ، نواسی ، جس سے ہمیں پیار ہے ، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہو اور ہم اپنے دوست احباب کے ساتھ جا رہے ہوں تو کیا ہم اُن کو چھوڑ کر، نظر انداز کرکے اس بچے کے ساتھ گلی میں کھیلنے لگ جائیں گے ، انہیں پکڑنے کےلیے پیچھے پیچھے دوڑیں گے ؟ نہیں ، ہم ایسا نہیں کرتے اس لیے کہ ہمیں اپنے مقام و مرتبہ کا خیال رہتا ہے ، اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے کہ ہم کیا ہیں ؟ لوگ کیا کہیں گے ؟ ہم سوسائٹی کی respectable figure ہیں ۔ honourable figure ہیں ۔ ایک سنجیدہ مزاج شخص ہیں ۔ لوگ ہمارے بارے میں ایک امیج رکھتے ہیں ۔ ہم تو اِن چیزوں میں گھرے رہتے ہیں اور یہ کام نہیں کرتے ۔ اِس طرح کے کام اگر کرنے ہوں تو گھر کے اندر کریں گے ، باہر کوئی نہیں کرتا ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا معاذا للہ ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر ارادی طور پر ایسا فعل صادر ہو جاتا تھا کہ کبھی نماز پڑھا رہے ہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی موجود ہیں ، حالتِ نماز میں امام حسین رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر چڑھ جاتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ طویل کر لیتے ہیں ، سجدہ سے اٹھتے وقت انہیں اٹھا کر بٹھا لیتے ہیں ، پھر چڑھا لیتے ہیں ، کیا یہ غیر ارادی فعل ہے ؟ کیا اِس عمل سے دین اور ایمان کی کوئی تعلیم اخذ نہیں کی جائے گی ؟ کیا اِس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی پیغام امت کے نام اخذ نہیں کیا جائے گا ؟ کیا اِس عمل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم پر کچھ فرض نہیں کرنا چاہ رہے ؟ کیا اس عمل مبارکہ سے ہمارے لیے کچھ سنت نہیں بنانا چاہ رہے ؟ کیا ہمیں کسی امر کے کرنے کی کوئی نصیحت نہیں فرمانا چاہ رہے ؟ کیا اپنا طرزِ عمل امت کو دکھانا نہیں چاہ رہے ؟ اس سوال کا جواب ہمیں اِس فرقہ بندی اور صف بندی سے نکالتا ہے جس نے معاشرے کے لوگوں کے عقائد کو راہِ اعتدال سے ہٹا دیا ہے ۔ یاد رکھیں کہ محبت و مؤدت اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین ، محبت و مودت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ، محبت سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا اور مودت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ صرف شیعوں سے منسوب عقیدہ نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں ، اسلام اور امت مسلمہ کی میراث ہے ۔ یہ ایمان ہے ، یہ قرآن کا پیغام ہے ، اِس کو قرآن نے تمام مسلمانوں پر فرض کیا ہے ۔

امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اہل بیت سے اتنی شدید محبت کرتے اور آئمہ اطہار اہل بیت رضی اللہ عنہم کی اتنی تکریم کرتے کہ لوگوں نے اُن پر شیعہ ہونے کا طعنہ کیا اور اُن کو شیعہ کہتے ۔ اگر محبت اہل بیت کی وجہ سے امام اعظم ابو حنیفہ شیعہ ہو گئے تو پھر سنی کو ن بچا ہے ؟ ۔ (ملا علی القاری، مرقاة المفاتيح، 1/ 67،چشتی)

امام ابن حجر مکی نے ’’الصواعق المحرقہ‘‘، امام الدمیاطی نے ’’اعانۃ الطالبین‘‘ اور بہت سارے محدثین نے اہل بیت کی محبت کے وجوب کے باب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ایک رباعی بیان کی ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں : ⬇

يَا أَهْلَ بَيْتِ رَسُوْلِ ﷲِ حُبُّکُمْ
فَرَضٌ مِنَ ﷲِ فِي الْقُرْآنِ أَنْزَلَهُ

کَفَاکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْقَدْرِ أَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ

ترجمہ : اے اہلِ بیتِ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ سے محبت کرنا ﷲ کی طرف سے فرض ہے ، جسے اس نے قرآن مجید میں نازل کیا ہے اور آپ کےلیے یہ عظیم مرتبہ ہی کافی ہے کہ آپ وہ ہستیاں ہیں کہ جو شخص آپ پر درود نہ پڑھے ، اس کی نماز مکمل نہیں ہوتی ۔
ان اشعار میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اہلِ بیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو قرآن مجید کی طرف سے امت مسلمہ پر فرض ہونے کو بیان کیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ کہ جو شخص نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھے اُس کی نماز نہیں ہوتی ۔ گویا ہم پر محبتِ اہلِ بیت فرض کردی گئی ہے ۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی محبت اہل بیت کی وجہ سے لوگ شیعہ اور رافضی کہتے تھے ۔ آپ نے جواب میں فرمایا : اگر محبت اہل بیت کا نام شیعہ ہونا ہے تو مجھے یہ تہمت قبول ہے ۔ اگر امام شافعی شیعہ ہیں تو پھر باقی سنی کون بچا ہے ؟

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت اطہار کےلیے بڑی تعظیم و تکریم تھی ۔ سمجھانا یہ چاہتا ہوں کہ محبت و مؤدتِ اہل بیت کسی مکتبہ فکر کی میراث نہیں ہے ۔ خدا کےلیے سنی ، شیعہ کی جنگ اور صف بندی کی وجہ سے اِس ایمان کے اثاثے کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے بغض کا تاریخی پس منظر

جس طرح کی تفریق بد قسمتی سے آج محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں ہے ، اس کا آغاز یزید کے دورِ حکومت سے ہوا ۔ یزید نے ایک نئی طرز پیدا کر دی ۔ اُس بدبخت اور ملعون کے زمانہ میں ایک کلچر develop ہو گیا ، سارے معاملہ نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا ، معاملہ Politicize ہو گیا ۔ حکومت کے چھوکرے ، لونڈے ، عمال ، انتظامیہ ، بیوروکریسی ، وزیر ، مشیر ، سیاسی نمائندگان ، جن کو چھوٹی چھوٹی سطح کا اقتدار ملتا ہے ، علاقوں میں اُن کے ذمہ داران ، یہ تمام اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے خلاف ہر سطح پر ایک ماحول پیدا کرتے اور انہیں گالیاں دیتے تھے ۔ سیدنا مولا علی المرتضی اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ۔ حکمران اور ان کے گماشتے چونکہ جان سے مار دیتے تھے ، قتل کر دیتے تھے ، داڑھی منڈھوا دیتے تھے ، کوڑے مارتے تھے ۔ بڑے بڑے جلیل القدر تابعین اس ظلم و ستم اور سب و شتم کو دیکھ کر بڑی احتیاط کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو روایت کرتے تاکہ دین امت تک پہنچے ۔

حتیٰ کہ سیدنا عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جو چھٹے خلیفہ راشد کہلاتے ہیں ، جب اُن کا دور آیا ، تو انہیں یہ قانون نافذ کرنا پڑا کہ جو یزید کو امیرالمومنین کہے گا ، شرعی طور پہ اُس کو بیس کوڑوں کی سزا دی جائے گی ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اس حوالے سے مزید سخت اقدامات لینے پڑے ۔ آپ نے منبروں پر حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنہما اور اہل بیت اطہار کو گالی دینے کا کلچر حکماً بند کردیا ۔ الغرض لوگوں کے ذہن اتنے یکطرفہ اور اتنے زہر آلودہ ہو چکے تھے کہ باقاعدہ احکامات صادر کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔
عام نئی نسلیں جس ماحول میں جنم لیتی ہیں ، وہ جو کچھ پیدا ہوتے ہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں ، اسی کو دین سمجھتے ہیں ۔ مثلاً روس اور چین کے اندر جب سیکولرازم آیا ، تو تین چار نسلیں اس کے اندر گزر گئیں ، انہوں نے اسلام نہیں دیکھا تھا ۔ جب سے آنکھ کھلی وہ سب کچھ سیکولرازم ہی کو سمجھتے رہے ۔ اسی طرح اور بھی دنیا کی کئی جگہیں ایسی ہیں ، جہاں ایک عقیدہ مسلط کردیا جاتاہے ، تو تین تین چار نسلیں اس میں گزرتی ہیں ، اس لیے کہ اُنہوں نے اور کچھ دیکھا ہی نہیں ہے ، اصل دین نہیں دیکھا ، باپ دادا سے جو دیکھا ، اسے ہی اصل دین سمجھتے ہیں ۔ نتیجتاً اصل تاریخ سے منقطع (cut off) ہو جاتے ہیں ۔

اِسی طرح جب حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اطہار کو اور سیدنا مولاعلی المرتضی رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے پر پابندی لگادی تو تاریخ کی کتب ، اسماء الرجال کی کتب ، محدثین کے ہاں یہ درج ہے کہ عامۃ الناس نے شور مچایا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے سنت بند کردی ۔ حالانکہ وہاں سنت سے لغوی معنی مراد ہے کہ وہ ایک طریقہ اور شیوہ جو پرانا چلا آرہا تھا ، اس کو ختم کر دیا ۔ اُنہوں نے فرمایا کہ سنت بند نہیں کی بلکہ جو بند کیا وہ بے ہودگی تھی ، دین کے خلاف ایک ماحول تھا ، جو بعض لوگوں نے اپنے مفادات کےلیے بنا رکھا تھا تاکہ حکومت سے مراعات لیں لہٰذا اُس کوبند کیا ہے ۔

قاتلینِ حسین رضی اللہ عنہ کی نشاندہی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاتلین حسین کی نشاندہی خود فرما دی تھی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بڑا معجزہ ہے ۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر پیشین گوئیاں فرمائی ہیں اور آنے والے زمانوں کے حالات اور واقعات بتائے ہیں ، اُن میں سے یہ چیز بھی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں کے نام تک سے امت کو آگاہ فرمادیا تھا ۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يُقْتَلُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنهما عَلٰی رَأْسِ سِتِّيْنَ مِنْ مُهَاجَرَتِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَزَادَ فِيْهِ: حِيْنَ يَعْلُو الْقَتِيْرُ، الْقَتِيْرُ: الشَّيْبُ ۔
ترجمہ : حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو میری ہجرت کے ساٹھویں سال کے آغاز پر شہید کر دیا جائے گا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 105، الرقم/ 2807)

اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ امام دیلمی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: جب ایک (اَوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا ۔

حضرت عبیدہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا : لَا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ. حَتّٰی يَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَثْلِمُهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَةَ ۔ يُقَالُ لَهُ يَزِيْدُ ۔
ترجمہ : یعنی میری امت کا نظام ، اُس میںدین کا نظام ، دین کی قدریں ، عدل کے ساتھ چلتی رہیں گی، حتی کہ ایک شخص اقتدار پر آئے گا ۔ یہ پہلا شخص جو میرے دین کی قدروں کو پامال کردے گا ۔ وہ شخص بنو امیہ میں سے ہوگا۔ اُس کا نام یزید ہوگا ۔ (ابو يعلی، المسند جلد 2 صفحہ 176، رقم: 871،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو قیامت تک کی نشانیاں بیان کی ہیں اور واقعہ کربلا تو اُسی صدی کا واقعہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی نشانیاں کیوں بیان نہ فرمائیں گے ۔ یہ نشانیاں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق ہیں جن کو کندھوں پر اٹھا کر چل رہے ہیں اورجن کےلیے کہہ رہے ہیں کہ سواری کی بات نہ کر اے بندے، سوار کی بات کر اور جن کے منہ میں اپنی زبان مبارک دے رہے ہیں ، جنہیں فرما رہے ہیں : حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْن ۔ یہ تو اُن سے متعلق معاملہ ہے ، اِس کی نشاندہی میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں نہیں کریں گے ؟
شہادت امام حسین علیہ السلام کی یہ تمام احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ پاک میں اس شہادت اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کی اہمیت کو واضح کر رہی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آپ رضی اللہ عنہ سے محبت کتنی ہے اور اِس رتبہ شہادت کا عالم کیا ہے ؟ دوسری طرف آج اہل سنت و جماعت کا ہر مکتبہ فکر اور محبت اہل بیت کا نام لینے والے بطور خاص اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ وہ محبت اہل بیت کا کتنا دم بھرتے ہیں ؟ شہادت امام حسین کی عظمت کا ذکر کتنا کرتے ہیں کہ جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی محبت دلوں میں پیدا ہو ؟ جس سے دل امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار کی محبت اور مودت کی طرف راغب ہوں ؟ یاد رکھیں ! ہمارا دین روکھا دین نہیں ہے ۔ اُس میں ہر جگہ جہاں ذات آئی ہے وہاں تعلیمات بھی آئی ہیں اور تعلیمات کے ساتھ ذات کو بھی جوڑا ہے ۔ ذات سے محبت ، ادب ، تعلق قلبی ، تعلق روحی ، تعلق عشقی ، ادب اور احترام کا رشتہ ہوتا ہے ، دل جھکتے ہیں ، اُس سے فیض ملتا ہے ، ایمان کی تقویت ہوتی ہے جبکہ تعلیمات عمل ، اُسوہ اور سیرت کو سنوارتی ہیں ۔ پیغام سے زندگی کا اُسوہ اور طریقہ ملتا ہے ، باطل سے ٹکرانے کی جرات ملتی ہے ۔ ہر چیز کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے، مگر ہم نے تعلیم اور پیغام پر زور دے کر بڑی عیاری و مکاری یا نادانستگی و نادانی کے ساتھ امام عالی مقام اور شہداء کربلاء معلی اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت اور مودت کے رشتے کو کمزور کر لیا ہے ۔ اُن کا ذکر کرنا ، کثرت سے اُن کا بیان کرنا، ہم نے شیعہ حضرات کے کھاتے میں ڈال دیا ہے کہ یہ اُن کا مسلک ہے ۔ سوسائٹی میں ایک غلط سوچ پیدا کر دی گئی ہے کہ جو اُن کا بہت ذکر کرے گا وہ شیعہ ہے ۔ چونکہ محرم کو وہ اپنے خاص طریقے کے ساتھ مناتے ہیں ، اُن کا اپنا طرز عمل ، طرز فکر ، طریق اور مسلک و انداز ہے، اس کا اہتمام وہ اپنے طریقے سے کرتے ہیں ۔ ہم اُس طریق سے نہیں کرتے ، ہمارا اپنا عقیدہ و مسلک ہے، ہمارا اپنا اندازہے ، ہم اُس طریق سے بعض چیزیں نہیں کرتے جو اہل تشیع اپنے مسلک کے اندر کرتے ہیں ۔ ٹھیک ہے کہ وہ اپنے انداز اور طریق سے شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یاد کرتے اور اہل بیت سے محبت کرتے ہیں لیکن اِس کا مطلب یہ کہاں سے پیدا ہو گیا کہ ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی چھوڑ دیں ، شہادت حسین کی عظمت کا بیان ہی چھوڑ دیں ، مؤدت و محبت اہل بیت بھی چھوڑ دیں ، حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کا ذکر اور اُن کی محبت کا تذکرہ ہی چھوڑ دیں کہ کیونکہ یہ شیعہ کرتے ہیں لہٰذا ہم نہیں کریں گے ۔ یہ رویہ کہاں سے آگیا ؟ یہ ظلم ہے ۔ یہ ایک ایسا عجیب پہلو ہے کہ اِس سے ہم اپنے ایمان اور اُس کی جڑ پر چھری چلا رہے ہیں ، اپنے ایمان کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ یاد رکھ لیں اہل بیت کی محبت کسی ایک مسلک کا شعار ہے نہ کسی ایک مسلک کی وارثت ہے ۔ یہ عین ایمان ہے اور عین اسلام ہے ۔ امت مسلمہ کے ساتھ نادانستہ طریقے سے یہ ظلم ہوتا جا رہا ہے کہ چونکہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مجالس اہل تشیع کرتے ہیں ، لہٰذا جو سنی ہیں ، وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر چھوڑ دیں ، وہ محبت و مودت اہل بیت کا نام لینا چھوڑ دیں ۔ تو کیا محبت حسنین رضی اللہ عنہما ، محبت علی رضی اللہ عنہ ، محبت فاطمہ رضی اللہ عنہا ، مودت اہل بیت ، آپ نے ایک مسلک کا ورثہ بنا دیا ؟
یہ سوچ خارجیت کا اثر ہے ، سنیت نہیں ہے ۔ فقیر کہنا چاہتا ہے کہ اگر مودت اہل بیت نکل گئی تو آپ ایمان سے محروم ہو گئے ۔ محبت اہل بیت نہ رہی تو آپ کا رشتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کٹ گیا ۔ آپ خود ہی ایمان سے محروم ہو رہے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو کندھوں پر بٹھا کر گلی میں نکلتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورپوری گلی میں ، مجمع عام ، سب کے سامنے زبان مبارک امام حسین رضی اللہ عنہ کے منہ میں ڈالتے ہیں ، انہیں چومتے ہیں اور شہر مدینہ کے گلی کوچوں میں اعلان فرماتے کہ حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْن تو اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سنت قائم کر رہے ہیں ، امت کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دیکھو میری محبت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیسی ہے ۔ دیکھو میں اہل بیت سے کیسی محبت کرتا ہوں ۔ میں نے تبلیغ دین ، تبلیغ رسالت پر کوئی اجر نہیں مانگا سوائے اپنی قرابت کی محبت کے ۔ اور وہ بھی اِس لیے نہیں مانگ رہا کہ حسین رضی اللہ عنہ میرا نواسہ ہے تم اِس سے محبت کرو ، کوئی بدلے کے طور پر نہیں مانگ رہا ، نہیں ، بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرو گے تو تمہارا ایمان بچ جائے گا ۔ اِس میں بھی تمہارے ایمان کی فکر کر رہا ہوں ۔ میری اہل بیت سے محبت کرو گے تمہارا ایمان بچ جائے گا ۔ یہ کشتی نوح ہے ، جو اِس میں سوار ہوگیا وہ بچ گیا ، جو رہ گیا وہ ڈوب گیا ۔ میں اپنی قرابت اوراہل بیت کی محبت اور مودت کی تاکید بھی تمہارے بھلے کے لیے کر رہا ہوں ، یہ تمہارے بھلے کے لیے ہے،اِس سے تمسک کرو گے ، اِس سے لپٹ جاؤ گے توتمہارا اسلام اور تمہارا دین بچ جائے گا ۔ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت سے میری محبت نصیب ہوتی ہے اور میری محبت سے اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے ۔ (حاکم، المستدرک، 3: 181،رقم : 4776)

یہ ایک سلسلہ ہے ، جو ہمیں محبت الہیٰ تک لے جاتا ہے ۔ اللہ رب العزت ہمیں اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت و تمسک عطا فرمائے ، اُن کے طفیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تک پہنچائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے صدقے سے اللہ تعالیٰ اپنی محبت عطا کرے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

حقوقِ اہلبیت ، امامِ باقر ، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم اور اُن کی محبت ۔ شیعہ مذہب کے مشہور مصنفین لکھتے ہیں کہ : کثیر نوار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے آپ اہلبیت کے حقوق کے بارے میں ذرا بھی ظلم کیا کثیر نوار کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ میرے جان آپ پر قربان ہو ۔ کیا ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے آپ اہلبیت کے حقوق کے بارے میں ذرا بھی ظلم کیا تھا یا آپ کے حق دبائے رکھے ۔ تو امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں ۔ اس اللہ کی قسم جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا ۔ تا کہ تمام جہانوں کےلیے وہ زندہ نذیر بن جائے ۔ ہمارے حقوق میں سے ایک رتی برابر بھی ان دونوں ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے ہم پر ظلم نہی کیا ۔ میں نے امام باقر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ پر قربان جاؤں ۔ کیا میں ان دونوں ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے محبت رکھوں توامام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں ۔ تو برباد ہوجائے ۔ تو ان دونوں ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے دونوں جہانوں میں دوست رکھ ۔ اور اگر اس وجہ سے تجھے کوئی نقصان ہو تو وہ میر ے ذمہ ہے ۔ پھر امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مغیرہ اور بنان سے خدا نپٹے ان دونوں نے ہم اہلبیت پر جھوٹ گھڑا ۔ (السقیفہ و فدک صفحہ نمبر 110)(شرح نہج البلاغہ جلد نمبر 16 صفحہ نمبر 326)

کیا شرح ابن ابی الحدید اہل سنت کی معتبر کتاب ہے ؟ شیعہ فریب کا جواب
محترم قارئینِ کرام : رافضی شیعہ مذہب میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر الزام تراشی اور طعن و تشنیع عقائد میں شامل ہے ۔ شیعہ اپنے الزامات اور عقائد کو ثابت کرنے کے لیے کچھ کتب کے حوالے دیتے ہیں اور ساتھ ان کتب کو اہل سنت کی معتبر کتب بھی کہہ دیتے ہیں اور ہمارے سادہ لوح سنی پریشان ہو جاتے ہیں ان بےچاروں نے تو ہو سکتا ہے کتاب کا نام بھی پہلی بار سنا ہو ۔ حالانکہ یہ کتابیں شیعہ کی اپنی ہوتی ہیں اور اہل سنت کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا جنہیں وہ کمال ڈھٹائی سے اہل سنت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں یا اگر مصنف اہل سنت ہو تو معتمد و مستند عالم نہیں ہوتا بلکہ کسی واعظ یا غیر معروف شخص کی ہوتی ہیں ۔ یا ان روایات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ان کے راوی ضعیف ، کذاب یا محترق شیعہ ہوتے ہیں اس لیے یہ روایات قابل قبول نہیں ہوتی ۔

ایسی ہی ایک کتاب شرح ابن ابی الحدید جو کہ نہج البلاغہ کی شرح ہے ۔ آج کل شیعہ اور ان کے ساتھ ساتھ شیعہ کے بڑے بڑے ذاکرین اور مصنفین بھی اس کتاب کو اہل سنت کی معتبر کتاب کا کہہ کر شور مچاتے ہیں جبکہ حقیقت میں اس کتاب کا مصنف عزالدین عبد الحمید ایک معتزلی شیعت پسند تھا اور اس نے یہ کتاب بھی ایک شیعہ وزیر کی فرمائش پر لکھی تھی ۔ اس کا ثبوت شیعہ کی اپنی کتابوں اور اس مصنف کے اپنے بیان سے پیشِ خدمت ہے ۔

شیعہ مذہب کا معتبر عالم و مصنف شیخ عباس قمی اپنی کتاب الکنی والألقاب (جو کہ شیعہ کی اسماء الرجال کی کتب میں سے ایک معروف کتاب ہے) میں ابن ابی الحدید کے متعلق لکھتا ہے ۔ (ابن ابی الحدید ) عزالدین عبدالحمید بن محمد بن محمد بن حسين بن ابی الحدید المدائنی الفاضل الأديب المؤرخ الحکیم الشاعر شارح نہج البلاغہ المکرمہ و صاحب القصائد السبع المشهورة ، کان مذہبہ الاعتزال کما شھد لنفسه فی احدی قصائده فی مدح أميرالمؤمنين ع بقوله ۔۔۔

ورأيت دين الاعتزال وإنني
اھوی لأجلك کل من یتشیع

ترجمہ : عزالدین عبد الحمید بن محمد بن محمد بن حسين بن ابی الحدید المدائنی الفاضل الأديب المؤرخ الحکیم الشاعر نہج البلاغہ کا شارح ہے اور سات مشہور قصائد کا قائل ہے ۔ مذہب کے اعتبار سے معتزلہ تھا جیسا کہ خود اس نے اپنے معتزلہ ہونے کا اقرار اپنے ایک قصیدہ میں کیا جو اس نے حضرت علی المرتضٰی کی شان میں کہا ۔ “اور میں اپنے آپ کو معتزلہ سمجھتا ہوں اور میں آپ کی وجہ سے ہر شیعہ کہلانے والے کو دل سے چاہتا ہوں ۔ (الکنی والألقاب جلد اول صفحہ 193 مطبوعہ تہران،چشتی)

ابن ابی الحدید معتزلی ہونے کے باوجود تشیع کو پسند کرتا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں میں یہ زندگی بسر کر رہا تھا وہ معتزلی ہوتے ہوئے تشیع کو اپنائے ہوئے تھے بلکہ تشیع ان کے لئے ضروری تھا اس کا ثبوت خود ابن ابی الحدید کے مقدمہ میں یوں مذکور ہے ۔

ولد فی المدائن فی غرة ذىالحجة سنة ست ثمانين وخمسمائة و نشأبها وتلقى عن شيوخها ودرس المذهب الكلامية ثم مال إلى مذهب الاعتزال منها وكان الغالب على أهل المدائن التشيع والتطرف والمقالاة فسار في دربهم وتقبل مذهبهم ونظم القصائد المعروفة بالعلويات على طريقتهم وفيها غالى وتشيع وذهب به الإسراف في كثير من ابياتها كل مذهب يقول في إحداها : ⏬

ورأيت دين الاعتزال وإنني
أهوى لأجلك كل من يتشيع

( شرح ابن ابی الحدید

تحقیق محمد ابو الفضل ابراهيم الجزء الأول صفحة 14 مقدمة ۔ ۔ 12 جلدوں میں شائع ہونے والی شرح ابن ابی الحدید کے مقدمہ میں مذکورہ عبارت موجود ہے ۔

ترجمہ : ابن ابی الحدید مدائن میں پیدا ہوا ۔ اس کا سن پیدائش 586 ہجری ہے اور مدائن میں پرورش پائی ۔ اور وہی کے شیوخ سے استفادہ کیا اور مذہب کلامیہ پڑھا ۔ پھرتا اعتزال کی طرف پلٹ گیا ان دنوں اہل مدائن میں شیعت غالب تھی ۔ اس بارے میں غلو اور ادھر ادھر کی بہت سی باتیں موجود تھیں ۔ اس نے بھی ان کی روش اختیار کی ۔ اور ان کے مذہب کو اپنا لیا۔ اس نے علویات نامی مشہور قصیدے بھی لکھے ۔ جن میں اہل مدائن کے معتقدات بھی بیان کئے ۔ ان میں اس نے غلو بھی کیا اور تشیع کا اظہار بھی ۔ ان قصائد کے بہت سے اشعار میں مذہب اعتزال کا اعتراف بھی ہے ۔ اسی کا ان قصائد میں ایک شعر یہ بھی ہے ۔

میں نے مذہب اعتزال اختیار کیا اور تیری وجہ سے ہر اس شخص سے محبت رکھتا ہوں جس تشیع رکھتا ہے ۔

ابن ابی الحدید نے شرح ابن ابی الحدید اپنے دور کے ابن علقمی نامی شیعہ وزیر کی فرمائش پر لکھی اور اسی وزیر کے کہنے پر حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں سات قصیدے بھی لکھے جس کا اقرار خود اہل تشیع کے معتبر علماء اپنی معروف تصنیفات میں کر چکے ہیں ۔ شیعہ مذہب کی کتاب الذریعہ الی تصانیف الشیعہ کا مصنف لکھتا ہے ۔

شرح النھج الشيخ عزالدین ابی حامد عبدالحمید بن ھبة الله ابن أبي الحديد المعتزلى المولود فى المدائن سنة ٥٨٦ والمتوفى ببغداد سنة ٦٥٥ هو فى عشرين جزء طبع بطهران جميعها فى مجلدين فى سنة ١٢٧٠ وطبع بعد ذلك فى مصر وغيرها مكررا وقد الفه للوزير مؤيدالدين ابي طالب محمد الشهير بابن علقمی وكتب له إجازة روايته وقد رأيت صورة الاجازة وفى اخر بعض أجزائه فى مكتبة الفاضلية قبل هدمها ولعلها نقلت إلى الرضويه كما أنه نظم القصائد ( سبع العلويات ) المطبوعة بإيران فى ١٣١٧ أيضا للوزير ابن العلقمی وقد رأيت نسختها التي كانت عليها خط ابن العلقمی فى مكتبة العلامة الشيخ محمد السماوى . (الذريعه إلى تصانیف الشيعه جلد ١٤ صفحة ١٥٨ تا ١٥٩ مطبوعة بيروت طبع جدید،چشتی)

ترجمہ : نہج البلاغہ کی شرح ( ابن ابی الحدید ) جسے شیخ عزالدین ابو حامد عبدالحمید بن ہبة اللہ ابن ابی الحدید معتزلی نے لکھا ۔ وہ مدائن میں 586 ہجری میں پیدا ہوا اور 655 ہجری کو بغداد میں فوت ہوا ۔ اس کی بیس جلدیں ہیں ۔ 1270 ہجری میں یہ شرح تہران میں دو جلدوں میں شائع ہوئی پھر مصر اور دوسرے شہروں میں کئی بار چھپی ۔ یہ شرح ابن ابی الحدید نے اپنے دور کے ایک وزیر مويدالدين ابی طالب محمد کے حکم پر لکھی جو ابن علقمی کے لقب سے مشہور تھا ۔ مصنف نے وزیر موصوف کو اس کتاب کی روایت کی بھی اجازت دی ۔ میں نے اس اجازت نامہ کی تحریر خود مکتبہ فاضلیہ میں دیکھی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ مکتبہ فاضلیہ ابھی قائم تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ اس مکتبہ کی بربادی سے کچھ عرصہ پہلے یہ منتقل ہو کر مکتبہ رضویہ چلی گئی ہو ۔ اسی طرح ابن ابی الحدید نے وزیر ابن علقمی کی فرمائش پر سات مشہور قصیدے بھی لکھے جو 1317 میں ایران میں طبع ہوئے ۔ میں نے وہ نسخہ بھی دیکھا ہے جس پر ابن العلقمی کی تحریر تھی ۔ یہ نسخہ علامہ شیخ محمد سماوی کے مکتبہ میں تھا ۔

شیخ عباس قمی الکنی والألقاب میں اسی کے متعلق لکھتا ہے ۔ ابن العلقمی ھو الوزير ابو طالب مويدالدين محمد بن محمد ( احمد خ ل ) بن علی العلقمی البغدادی الشیعی کان وزیر المعتصم آخر خلفاء بنی عباس وکان کاتبا خبیرا بتدبير الملک ناصحا لأصحابه وکان امامی المذهب صحیح الاعتقاد رفيع الھمة محبا للعلماء والزھاد کثیرا المبار ولأجلہ صنف ابن ابی الحدید شرح نہج فی عشرين مجلدا والسبع العلويات توفی فی ٢ جمادی الأخرى سنة ٦٥٦ ( خون ) وقد یطلق علی لابیہ شرف الدین ابی القاسم علی بن محمد ۔ (الکنی والألقاب جلد اول صفحہ نمبر ٣٦٢ مطبوعہ تہران طبع جدید،چشتی)

ترجمہ : ابن العلقمی یعنی ابو طالب مويدالدين محمد بن محمد بن علی العلقمی البغدادی الشیعی معتصم کا وزیر تھا۔ جو کہ بنی عباس کے خلفاء میں سے سب سے آخری خلیفہ تھا ۔ یہ وزیر کاتب تھا اور ملکی معاملات کو بخوبی سمجھتا تھا ۔ اپنے دوستوں کا خیر خواہ تھا اور مذہب میں امامی شیعہ تھا ۔ ہمت کا بلند اور علماء و زھاد سے محبت کرنے والا تھا ۔ اسی کے لئے ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح لکھی اور سات مشہور قصیدے بھی اسی کے کہنے پر لکھے ۔ ابن علقمی 2 جمادی الآخر 656 ہجری میں فوت ہوا ۔ اس کا ایک بیٹا تھا جسے شرف الدین ابو القاسم علی بن محمد کہتے ہیں ۔

اوپر جن دو کتب (الکنی والألقاب اور الذریعہ) سے عبارات نقل کیں یہ اہل تشیع کی معتبر اور مستند کتابوں میں سے ہیں اور ان کتابوں کی تصنیف و تالیف کا مقصد بھی یہی تھا کہ اہل تشیع کی کتابوں کی نشاندہی کی جا سکے ۔ لہذا ان دونوں کتابوں سے علقمی وزیر کا شیعہ ہونا ثابت ہو گیا جس وزیر نے ابن ابی الحدید سے نہج البلاغہ کی شرح لکھوائی ۔

اب اگر ابن ابی الحدید نے ایک شیعہ وزیر کی فرمائش پر کتاب لکھی ہے تو ظاہر ہے وہ اس کتاب میں وہی کچھ لکھے گا جو اس وزیر کو پسند ہو گا اہلسنت کی حمایت کرنے سے تو وہ رہا ۔ ایسی کتاب کو اگر کوئی اہل سنت کی معتبر کتاب کہے تو اس سے بڑا جاہل یا منافق کون ہے ؟

اہل سنت کی کتب میں بھی ابن ابی الحدید کو شیعہ کہا گیا ہے ایک کتاب کی عبارت بطور ثبوت نقل کر رہا ہوں ۔

نہج البلاغہ فقد شرحه عزالدین عبدالحمید بن هبة الله المدائنی الشاعر الشيعى فى عشرين مجلدا وتوفى ٦٥٥ هجري ۔ (الكشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون جلد ٢ صفحة ١٩٩١ مطبوعة بيروت طبع جدید،چشتی)

ترجمہ : نہج البلاغہ کی ایک شرح ابن ابی الحدید عزالدین عبدالحمید بن ھبة اللہ المدائنی شیعہ نے لکھی جو 20 جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کا انتقال 655 ھ میں ہوا ۔

ان تمام حوالہ جات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ نہ تو ابن ابی الحدید سنی عالم یا مصنف تھا نہ ہی شرح ابن ابی الحدید اہل سنت کی کتاب ہے ہاں یہ ضرور پتہ چل رہا ہے کہ یہ ایک شیعہ تھا اور شیعہ وزیر کی فرمائش پر ہی اس نے یہ کتاب لکھی ۔ اور ایسی کتاب میں اصحاب رسول پر تنقید کی روایات کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور اہل سنت اہل تشیع کی کسی بھی کتاب کے حوالے کے ذمہ دار نہیں ۔

ابن ابی الحدید تشیع پسند تھا
عزالدین عبد الحمید بن محمد بن الحسین بن ابی الحدید المدائنی الفاضل الادیب المؤرخ الحکیم الشاعر نہج البلاغہ کا شارح ہے اور سات مشہور قصیدوں کا قائل ہے ۔ مذہب کے اعتبار سے معتزلہ تھا، جیسا کہ اپنے بارے میں خود اسے معتزلہ ہونے کا اقرار ہے اور یہ اقرار اس نے ایک قصیدے میں کہا، جو اس نے حضرت علی المرتضی کی شان میں کہا : اور میں اپنے آپ کو معتزلہ سمجھتا ہوں ، اور میں آپ کی وجہ سے ہر شیعہ کہلانے والے کو دل سے چاہتا ہوں ۔ (الکنی والالقاب جلد اوّل ص 239)
ابن ابی الحدید باوجود معتزلی ہونے کے “تشیع پسند” تھا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ شخص جن لوگوں میں زندگی بسر کر رہا تھا وہ معتزلی ہوتے ہوئے تشیع کو اپنائے ہوئے تھے، بلکہ تشیع ان کے لئے ضروری تھا۔ اس بات کا ثبوت شرح ابن ابی الحدید کے مقدمے میں بھی کچھ اس طرح مذکور ہے ۔
مقدمہ شرح ابی الحدید کے مطابق ابن ابی الحدید معتزلی شیعہ تھا
ترجمہ : ابن ابی الحدید مدائن میں پیدا ہوا۔ اس کا سن پیدائش 586 ھجری ہے اور مدائن میں پرورش پائی اور اسی کے شیوخ سے استفادہ کیا اور مذہب کلامیہ پڑھا پھر اعتزال کی طرف پلٹ گیا۔ ان دنوں اہل مدائن میں شیعت غالب تھی اور اس بارے میں غلو اور ادھر ادھر کی بہت سی باتیں ان میں موجود تھیں، اس نے بھی ان کی روش اختیار کی اور ان کے مذہب کو اپنا لیا۔ اس نے “علویات” نامی مشہور قصیدے بھی لکھے۔ جن میں اہل مدائن کے معتقدات بھی بیان کئے، ان میں اس نے غلو بھی کیا اور تشیع کا اظہار بھی۔ ان قصائد میں بہت سے اشعار میں مذہب اعتزال کا اعتراف میں اظہار کیا، ان قصائد میں ایک شعر یہ بھی ہے ۔
میں نے مذہب اعتزال اختیار کیا اور تیری وجہ سے ہر اس شخص سے محبت کرتا ہوں جو تشیع رکھتا ہے ۔ (شرح ابن ابی الحدید تحقیق محمد ابوالفضل ابراھیم الجزء الاول ص 13,14) ۔ بارہ 12 جلدوں میں جو شرح ابن ابی الحدید چھپی ہے ، اس کے مقدمے میں مذکورہ عبارت موجود ہے ۔
ان حوالا جات سے معلوم ہوا کہ
ابن ابی الحدید خود اقراری ہے کہ وہ معتزلی شیعہ تھا کیونکہ جس علاقہ میں اس کی نشونما ہوئی ، ان لوگوں میں یہ مرض بکثرت تھا ۔
ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح لکھی ، جسے “شرح ابن ابی الحدید” کہا جاتا ہے ۔
یہ شرح اس دور کے ایک وزیر ابن علقمی کے کہنے پر لکھی گئی ، جو شیعہ تھا ۔
غور فرمائیں : نہج البلاغہ کی شرح لکھنے کا حکم بھی شیعہ وزیر دے اور لکھنے والا خود اپنا شیعہ ہونا تسلیم کرے تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس شرح کو وہ مسلک اہل سنت کے مطابق اور ان کے معتقدات کے موافق تحریر کرے ۔ شرح ابن ابی الحدید کو اہل سنت کی کتاب قرار دینا اورعلامہ ابن ابی الحدید کو اہل سنت کا عالم کہنا صریح جھوٹ ہے ۔

صحابہ کرام و اہلبیت رضی اللہ عنہم کا آپسی تعلق و محبت : ⏬

حضرت امام عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر جلد 1 صفحہ 256)

حضرت امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ نمبر 94)

خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی علیہم الرّحمہ تفسیرِ خزائنُ العرفان میں لکھتے ہے : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ (خزائنُ العرفان، پ25،الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، صفحہ 894،چشتی)

صَحابَۂ کرام جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے ، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین سے کیسی محبت رکھتے تھے اوراپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا کرتے تھے ! آئیے اس کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں : ⬇

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء،ج 1 ص 244،چشتی)(تاریخ ابنِ عساکر ج 26،ص372)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔(معجمِ کبیر،ج 10،ص285، حدیث:10675)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب،ج 2،ص360)

ایک موقع پر حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا:اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے ! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے  قَرابَت  داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ۔ (بخاری،ج2،ص438،حدیث:3712،چشتی)

ایک بار حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔(بخاری،ج2 حدیث: 3713)

حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صِدّیق  رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی ، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو ، حضرت علی کے نہیں ۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث:8161)

ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم ! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789،چشتی)

ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہم کی شان  کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔(ریاض النضرۃ،ج1،ص341)

یوں ہی جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کےلیے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا ، دونوں کےلیے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 259)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ صفحہ 59)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی ج 10 ص 205)(مؤطا امام مالک،ج2،ص259)

ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی:اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب،ج 3،ص209،چشتی)

یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید،ج 5،ص344)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے  تھے ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)

ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309)(طبقات ابن سعد،ج 6 ص 409)(معجم الصحابہ،ج 4،ص370)(کشف المحجوب ص 77)(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)

حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد، ص92،چشتی)

نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء،ص135)

حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔(مسند امام احمد،ج 3،ص632،چشتی)

ابومہزم رحمۃ اللہ  علیہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4 ص 407)

عیزار بن حریث رحمۃ اللہ  علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا:اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179،چشتی)

محترم قارٸینِ کرام : آپ نے بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی  اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار سے اپنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول رضی اللہ عنہم کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کے محترم نفوسِ قدسیہ اور حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے درمیان باہمی رشتہ داریاں ، تعلق ، محبت ، احترام واکرام اور اس کا اظہار ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش اس کے برعکس تاریخ سے ڈھونڈ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات کو بنیاد بنا کر اُن نفوسِ قدسیہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں جن سے اُن کا دامن صاف تھا۔ آج کی تحریر میں تصویر کے اصل اور حقیقی رخ کی ایک جھلک دکھانی ہے اور مستور حقائق کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ماننے والے بھی باہمی محبت ومودت اور احترام کے ساتھ معاشرت کا مظہر بن سکیں ۔ خاص طور پر اہلِ بیت کرام اور خلیفۂ اول، خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہم کے درمیان محبت ومودت کا جو تعلق تھا، اس کا ذکر نہ صرف اہلِ سنت علماء کرام نے کیا، بلکہ اہلِ تشیع کے علماء نے بھی اسے بیان کیا ۔مضمون کے اس حصّے میں صرف شیعہ حضرات کی کتب سے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے ، تاکہ اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم سے محبت کا دعویٰ کرنے والے حضرات اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور معاشرہ میں اسی محبت ومودت کو فروغ مل سکے ۔

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کا حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنا

یہ عام فہم اور معقول بات ہے کہ آدمی اپنی اولاد اور بچوں کے نام ہمیشہ باکردار ، پسندیدہ ، نیک سیرت اور صالح لوگوں کے نام پر رکھتا ہے اور جس نام کا انتخاب کیا جاتا ہے ، وہ عقیدت ، محبت ومودت اور احترام کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ ایک عام انسان بھی کسی ناپسندیدہ شخصیت اور اپنے دشمنوں کا نام اپنے بچوں کو نہیں دیتا ، یہی وجہ ہے کہ اہلِ بیت کرام  رضی اللہ عنہم کے مقدس نفوس نے بھی خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عقیدت و محبت اور مودت کا اظہار مختلف طرح سے کیا ، ان میں سے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھا ۔

ابو الائمہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل

اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم میں سے ابو الائمہ سیدنا مولا حضرت علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ نے اسی محبت و مودت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیٹے کا نام سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام پر ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، مشہور شیعہ عالم ’’شیخ مفید‘‘ نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی اولاد ، ان کے نام اور تعداد کے عنوان سے لکھا ہے : ’’۱۲-محمد الأصغر المکنی بأبي بکر ، ۱۳-عبید اللہ، الشہیدان مع أخیہما الحسین (ع) بألطف أمہما لیلی بنت مسعود الدارمیۃ ۔‘‘(الارشاد، ص:۱۸۶،چشتی)

یعنی ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادوں میں سے محمد اصغر جن کی کنیت ابو بکر تھی اور عبید اللہ جو کہ لیلیٰ بنت مسعود دارمیہ کے بطن سے تھے، دونوں اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کی معیت میں شہید کیے گئے ۔‘‘

مشہور شیعہ مؤرخ ’’یعقوبی‘‘ نے لکھا ہے : وکان لہ من الولد الذکور أربعۃ عشر ، ذکر الحسن والحسین ۔۔۔ وعبید اللہ وأبو بکر لا عقب لہما أمہما لیلی بنت مسعود الحنظلیۃ من بني تیم ۔ (تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص:۲۱۳)
یعنی ’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی ۱۴ نرینہ اولاد تھی ، ان میں حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ عنہما  کا تذکرہ کیا اور ان میں سے عبید اللہ اور ابوبکر کا نام بھی ذکر کیا، جن کی کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی والدہ بنو تیم کی لیلیٰ بنت مسعود حنظلیہ تھیں ۔‘‘

شیعہ عالم ابو الفرج اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  اور اُن کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والے اہلِ خانہ کے عنوان سے لکھا ہے : ’’وکان منہم: أبو بکر بن علي بن أبي طالب وأمہ لیلٰی بنت مسعود ۔‘‘ (مقاتل الطالبیین ، ص:۱۴۲، ط: دار المعرفۃ، بیروت)

یہی بات ’’کشف الغمۃ‘‘ میں ہے اور مجلسی نے ’’جلاء العیون‘‘ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۲۶۔ جلاء العیون، ص:۵۸۲) میں اسی طرح لکھا ہے ۔

کیا یہ اس بات پر دلیل نہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی اور اُن کے درمیان محبت ومودت اور بھائی چارے کا رشتہ تھا ، تبھی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا ؟

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت مولا علی  رضی اللہ عنہ  کے یہ صاحب زادے حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کو خلیفۂ اول مقرر کیے جانے کے بعد پیدا ہوئے تھے ، بلکہ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد اُن کی ولادت ہوئی تھی، کیا آج حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے نام لیوا اور اُن کی محبت کا دم بھرنے والے شیعہ حضرات میں کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی اتباع میں اپنے کسی بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھ سکے ؟ کیا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موالات رکھتے ہیں یا عملی طور پر اُن کی مخالفت کرتے ہیں ؟

حضرت مولا علی  رضی اللہ عنہ  کی اولاد کا طرزِ عمل

خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  سے محبت ومودت کا یہ سلسلہ صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تک محدود نہیں تھا ، بلکہ اُن کے بعد ان کی آل واولاد نے اپنے والد بزرگوار کی پیروی کی اور انہی کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے بچوں کا نام حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر رکھا ۔

حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ  کے صاحبزادے کا اسم گرامی

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا  کے بڑے صاحب زادے ، نواسۂ رسول حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ  جن کو شیعہ‘ امامِ ثانی اور امامِ معصوم کا درجہ دیتے ہیں ، انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، تاریخِ یعقوبی اور منتہی الآمال میں ہے : ’’وکان للحسن من الولد ثمانیۃ ذکور وہم الحسن بن الحسن وأمہ خولۃ  وأبوبکر وعبد الرحمٰن لأمہات أولاد شتی وطلحۃ وعبید اللہ ۔ (شیعہ کتب تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص: ۲۲۸،چشتی)(منتہی الآمال، ج: ۱، ص: ۲۴)
یعنی ’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ  کی آٹھ نرینہ اولاد تھی، جن میں سے حسن بن حسنؓ کی والدہ کا نام خولہ تھا، عبد الرحمٰن اور ابو بکر اُمِ ولد سے تھے، طلحہ اور عبید اللہ بھی آپ کے صاحبزادے تھے ۔‘‘

اصفہانی نے مقاتل الطالبیین، ص:۸۷) میں لکھا ہے کہ ابو بکر بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی اپنے چچا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والوں میں سے تھے، انہیں عقبہ غنوی نے شہید کیا تھا ۔

حضرت امامِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما  کے صاحبزادے کا اسمِ گرامی

حضرت امامِ حسین بن علی  رضی اللہ عنہما  نے بھی اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، معروف شیعہ مؤرخ نے ’’التنبیہ والإشراف‘‘ میں شہداء کربلا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’وممن قتلوا في کربلاء من ولد الحسین ثلاثۃ، علي الأکبر وعبد اللہ الصبي وأبوبکر بنوا الحسین بن عليؓ۔‘‘ (شیعہ کتاب التنبیہ والاشراف، ص: ۲۶۳،چشتی)

یعنی ’’حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں سے آپ کے تین صاحب زادے علی الاکبر، عبد اللہ اور ابوبکر کربلا میں شہید ہوئے ۔‘‘

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کنیت

’’کشف الغمۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ : ’’امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ  کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔‘‘ (شیعہ کتاب کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۷۴)

حضرت امامِ حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم کے صاحبزادے کا نام

حضرت اماِ حسن بن امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہم نے اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، چنانچہ مقاتل الطالبیین، ص:۱۸۸، ط: دار المعرفۃ ، بیروت) میں اصفہانی کی محمد بن علی حمزہ علوی سے روایت ہے کہ : ’’ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ شہید ہونے والوں میں ابو بکر بن حسن بن حسن بھی تھے ۔‘‘

حضرت امام موسیٰ بن جعفر رضی اللہ عنہما جن کا لقب کاظم ہے ، انہوں نے بھی اپنے پیش رو بزرگوں کی طرح اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص:۲۱۷)

اصفہانی نے ذکر کیا ہے کہ : حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ، اسی کتاب میں عیسیٰ بن مہران کی ابو الصلت ہروی سے روایت ہے کہ ایک دن مامون نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا ، میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ : ’’ ہمارے ’’ابوبکر‘‘ نے کہا ۔‘‘ عیسیٰ بن مہران کہتے ہیں کہ میں نے ابو الصلت سے پوچھا کہ آپ کے ابو بکر سے کون مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ علی بن موسی الرضا ، ان کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔ (مقاتل الطالبین، ص:۵۶۱-۵۶۲)

حضرت امام موسیٰ کاظم  رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بیٹی کا نام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام پر عائشہ رکھا تھا ، مشہور شیعہ عالم شیخ مفید نے موسیٰ بن جعفر کے احوال واولاد کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ : ’’ابو الحسن موسیٰ کے سینتیس(۳۷) بیٹے اور بیٹیاں تھیں، بیٹیوں میں فاطمہ ، عائشہ اور اُمِ سلمہ تھیں ۔‘‘ (شیعہ کتاب الارشاد، ص:۳۰۲-۳۰۳، الفصول المہمۃ، ص:۲۴۲،چشتی)

حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی کا نام

حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے بھی اپنی ایک صاحب زادی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۹۰)

حضرت امام علی بن محمد الہادی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا، چنانچہ شیخ مفید نے لکھا ہے : ’’وتوفي أبو الحسن علیہما السلام في رجب سنۃ أربع وخمسین ومائتین، ودفن في دارہ بسرّ من رأی، وخلف من الولد أبا محمد الحسن ابنہ وابنتہ عائشۃ ۔ ‘‘ (کشف الغمۃ، ص:۳۳۴۔ الفصول المہمۃ، ص:۲۸۳)

یعنی ’’ابو الحسن رجب ۲۵۴ ہجری میں فوت ہوئے اور ’’سُرَّ مَنْ رَاٰی‘‘ میں اپنے گھر میں دفن کیے گئے ، انہوں نے اولاد میں بیٹا ابو محمد حسن اور بیٹی عائشہ چھوڑی ۔‘‘

اس کے علاوہ بنو ہاشم کے کئی بزرگوں نے اپنے بچوں کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ۔‘‘ (شیعہ کتاب مقاتل الطالبیین، ص:۱۲۳،چشتی)

آلِ بیت رضی اللہ عنہم کے ان مقدس نفوس کا اپنی اولاد کا نام ’’ابوبکر‘‘ اور ’’عائشہ‘‘ رکھنا اِن ناموں سے عقیدت ومحبت اور احترام و مودت کی دلیل ہے اور یہی حقیقت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہلِ بیت ( رضی اللہ عنہم ) کے نام لیوا اور محبت کا دم بھرنے والوں کو اپنے اکابر وائمہ کی زندگی کے اُن روشن پہلوؤں سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

قرونِ ثلاثہ کی تاریخ فرقہ باطلہ کی وجہ سے بے پناہ تحریف کا شکار رہی ، لوگوں کو اصل سے گمراہ کرنے کےلیے بے شمار روایات گھڑی گئیں ، صحیح روایات میں تحریف کی گئی ۔ تاریخِ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتدا تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں بھی شگاف پیدا ہو ئے ۔ اصحاب و اہل بیت رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن و حدیث کی گواہی کے برعکس ایک غلط تاثر سامنے آیا ۔

قرآن و حدیث تو ان کی عدالت ، امانت ، دیانت ، آپس کی محبت پر شاہد ہیں ، اگر تاریخ پر بھی تحقیقی نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں تاریخ سے بھی کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال اور اُن کی صحیح روایات میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ رافضی و ان کے ہمنوا نیم تفضیلی بغضیے رافضی حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس ۔ تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بیاہ دی تھی ۔ {بحوالہ شیعہ کتاب : الکافی ، ج:5 ، ص:346}

حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے ۔

امیرالمومنین حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر ، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم) کے ناموں پر رکھے ۔ (معرفة الصحابة ، ج:1 ، صفحہ 309،چشتی)

حضرت امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا ۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279)

حضرت امامِ جعفر صادق بن محمد رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ جنا ہے ۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہم کی دختر تھیں) ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255،چشتی)

اس طرح تاریخ سے کئی ایسی روایات پیش کی جا سکتی ہیں جو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن کی آیت ‘رحماء بینھم ‘ کی مصداق ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا۔ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت و خلافت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح فرمائی تھی ، ان کے خلاف بغاوت نہیں کی ، اپنے دور میں ان کے کسی قانون کو منسوخ نہیں کیا ، ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داریاں بڑھائیں ۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو شروع سے اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی مخالفت اور دشمنی ایک گروہ کا خاصہ بنی ۔ اس کے ساتھ ایک اور گروہ بھی وجودمیں آیا جو اس کے الٹ تھا یہ آلِ بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا تھا اور ہے ۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں ۔ پہلا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کرام کے فضائل و مناقب انہیں نہیں دینا چاہتا ، یہ گروہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کا منکر ہے ۔ ان دونوں انتہاؤں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے ۔ یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ : تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے ۔ اور اہل بیتِ اطہات رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے ۔

اہل بیتِ اطہار خود بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی گروہ میں شامل ہیں اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے ۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا ۔ آخر میں اہلِ تشیع اور ان کے ہمنوا نیم رافضی حضرات کو خاص طور پر تعلیم یافتہ اور نوجوانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تصویر کے اس رُخ پر بھی غور کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ائمہ کرام  رضی اللہ عنہم کی زندگی کے ان حقائق کو ان سے کیوں چھپایا جارہا ہے ؟

صحابہ کرام و اہلبیت رضی اللہ عنہم کا آپسی تعلق و محبت : حضرت امام عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر جلد 1 صفحہ 256)

حضرت امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ نمبر 94)

خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی علیہما الرّحمہ تفسیرِ خزائنُ العرفان میں لکھتے ہے : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ (خزائنُ العرفان، پ25،الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، صفحہ 894)

صَحابَۂ کرام جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے ، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین سے کیسی محبت رکھتے تھے اوراپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا کرتے تھے ! آئیے اس کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں : ⬇

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء،ج 1 ص 244،چشتی)(تاریخ ابنِ عساکر ج 26،ص372)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔(معجمِ کبیر،ج 10،ص285، حدیث:10675)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب،ج 2،ص360)

ایک موقع پر حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا:اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے ! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے  قَرابَت  داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ۔ (بخاری،ج2،ص438،حدیث:3712،چشتی)

ایک بار حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔(بخاری،ج2 حدیث: 3713)

حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صِدّیق  رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی ، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو ، حضرت علی کے نہیں ۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث:8161)

ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم ! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789،چشتی)

ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہم کی شان  کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔(ریاض النضرۃ،ج1،ص341)

یوں ہی جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کےلیے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا ، دونوں کےلیے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 259)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ صفحہ 59)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی ج 10 ص 205)(مؤطا امام مالک،ج2،ص259)

ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی:اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب،ج 3،ص209،چشتی)

یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید،ج 5،ص344)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے  تھے ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)

ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309)(طبقات ابن سعد،ج 6 ص 409)(معجم الصحابہ،ج 4،ص370)(کشف المحجوب ص 77)(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)

حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد، ص92،چشتی)

نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء،ص135)

حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔(مسند امام احمد،ج 3،ص632،چشتی)

ابومہزم رحمۃ اللہ  علیہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4 ص 407)

عیزار بن حریث رحمۃ اللہ  علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا:اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179،چشتی)

محترم قارٸینِ کرام : آپ نے بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی  اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار سے اپنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول رضی اللہ عنہم کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کے محترم نفوسِ قدسیہ اور حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے درمیان باہمی رشتہ داریاں ، تعلق ، محبت ، احترام واکرام اور اس کا اظہار ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش اس کے برعکس تاریخ سے ڈھونڈ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات کو بنیاد بنا کر اُن نفوسِ قدسیہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں جن سے اُن کا دامن صاف تھا۔ آج کی تحریر میں تصویر کے اصل اور حقیقی رخ کی ایک جھلک دکھانی ہے اور مستور حقائق کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ماننے والے بھی باہمی محبت ومودت اور احترام کے ساتھ معاشرت کا مظہر بن سکیں ۔ خاص طور پر اہلِ بیت کرام اور خلیفۂ اول، خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہم کے درمیان محبت ومودت کا جو تعلق تھا، اس کا ذکر نہ صرف اہلِ سنت علماء کرام نے کیا، بلکہ اہلِ تشیع کے علماء نے بھی اسے بیان کیا ۔مضمون کے اس حصّے میں صرف شیعہ حضرات کی کتب سے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے ، تاکہ اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم سے محبت کا دعویٰ کرنے والے حضرات اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور معاشرہ میں اسی محبت ومودت کو فروغ مل سکے ۔

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کا حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنا

یہ عام فہم اور معقول بات ہے کہ آدمی اپنی اولاد اور بچوں کے نام ہمیشہ باکردار ، پسندیدہ ، نیک سیرت اور صالح لوگوں کے نام پر رکھتا ہے اور جس نام کا انتخاب کیا جاتا ہے ، وہ عقیدت ، محبت ومودت اور احترام کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ ایک عام انسان بھی کسی ناپسندیدہ شخصیت اور اپنے دشمنوں کا نام اپنے بچوں کو نہیں دیتا ، یہی وجہ ہے کہ اہلِ بیت کرام  رضی اللہ عنہم کے مقدس نفوس نے بھی خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عقیدت و محبت اور مودت کا اظہار مختلف طرح سے کیا ، ان میں سے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھا ۔

ابو الائمہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل

اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم میں سے ابو الائمہ سیدنا مولا حضرت علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ نے اسی محبت و مودت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیٹے کا نام سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام پر ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، مشہور شیعہ عالم ’’شیخ مفید‘‘ نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی اولاد ، ان کے نام اور تعداد کے عنوان سے لکھا ہے : ’’۱۲-محمد الأصغر المکنی بأبي بکر ، ۱۳-عبید اللہ، الشہیدان مع أخیہما الحسین (ع) بألطف أمہما لیلی بنت مسعود الدارمیۃ ۔‘‘(الارشاد، ص:۱۸۶،چشتی)

یعنی ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادوں میں سے محمد اصغر جن کی کنیت ابو بکر تھی اور عبید اللہ جو کہ لیلیٰ بنت مسعود دارمیہ کے بطن سے تھے، دونوں اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کی معیت میں شہید کیے گئے ۔‘‘

مشہور شیعہ مؤرخ ’’یعقوبی‘‘ نے لکھا ہے : وکان لہ من الولد الذکور أربعۃ عشر ، ذکر الحسن والحسین ۔۔۔ وعبید اللہ وأبو بکر لا عقب لہما أمہما لیلی بنت مسعود الحنظلیۃ من بني تیم ۔ (تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص:۲۱۳)
یعنی ’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی ۱۴ نرینہ اولاد تھی ، ان میں حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ عنہما  کا تذکرہ کیا اور ان میں سے عبید اللہ اور ابوبکر کا نام بھی ذکر کیا، جن کی کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی والدہ بنو تیم کی لیلیٰ بنت مسعود حنظلیہ تھیں ۔‘‘

شیعہ عالم ابو الفرج اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  اور اُن کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والے اہلِ خانہ کے عنوان سے لکھا ہے : ’’وکان منہم: أبو بکر بن علي بن أبي طالب وأمہ لیلٰی بنت مسعود ۔‘‘ (مقاتل الطالبیین ، ص:۱۴۲، ط: دار المعرفۃ، بیروت)

یہی بات ’’کشف الغمۃ‘‘ میں ہے اور مجلسی نے ’’جلاء العیون‘‘ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۲۶۔ جلاء العیون، ص:۵۸۲) میں اسی طرح لکھا ہے ۔

کیا یہ اس بات پر دلیل نہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی اور اُن کے درمیان محبت ومودت اور بھائی چارے کا رشتہ تھا ، تبھی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا ؟

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت مولا علی  رضی اللہ عنہ  کے یہ صاحب زادے حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کو خلیفۂ اول مقرر کیے جانے کے بعد پیدا ہوئے تھے ، بلکہ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد اُن کی ولادت ہوئی تھی، کیا آج حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے نام لیوا اور اُن کی محبت کا دم بھرنے والے شیعہ حضرات میں کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی اتباع میں اپنے کسی بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھ سکے ؟ کیا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موالات رکھتے ہیں یا عملی طور پر اُن کی مخالفت کرتے ہیں ؟

حضرت مولا علی  رضی اللہ عنہ  کی اولاد کا طرزِ عمل

خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  سے محبت ومودت کا یہ سلسلہ صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تک محدود نہیں تھا ، بلکہ اُن کے بعد ان کی آل واولاد نے اپنے والد بزرگوار کی پیروی کی اور انہی کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے بچوں کا نام حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر رکھا ۔

حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ  کے صاحبزادے کا اسم گرامی

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا  کے بڑے صاحب زادے ، نواسۂ رسول حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ  جن کو شیعہ‘ امامِ ثانی اور امامِ معصوم کا درجہ دیتے ہیں ، انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، تاریخِ یعقوبی اور منتہی الآمال میں ہے : ’’وکان للحسن من الولد ثمانیۃ ذکور وہم الحسن بن الحسن وأمہ خولۃ  وأبوبکر وعبد الرحمٰن لأمہات أولاد شتی وطلحۃ وعبید اللہ ۔ (شیعہ کتب تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص: ۲۲۸،چشتی)(منتہی الآمال، ج: ۱، ص: ۲۴)
یعنی ’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ  کی آٹھ نرینہ اولاد تھی، جن میں سے حسن بن حسنؓ کی والدہ کا نام خولہ تھا، عبد الرحمٰن اور ابو بکر اُمِ ولد سے تھے، طلحہ اور عبید اللہ بھی آپ کے صاحبزادے تھے ۔‘‘

اصفہانی نے مقاتل الطالبیین، ص:۸۷) میں لکھا ہے کہ ابو بکر بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی اپنے چچا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والوں میں سے تھے، انہیں عقبہ غنوی نے شہید کیا تھا ۔

حضرت امامِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما  کے صاحبزادے کا اسمِ گرامی

حضرت امامِ حسین بن علی  رضی اللہ عنہما  نے بھی اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، معروف شیعہ مؤرخ نے ’’التنبیہ والإشراف‘‘ میں شہداء کربلا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’وممن قتلوا في کربلاء من ولد الحسین ثلاثۃ، علي الأکبر وعبد اللہ الصبي وأبوبکر بنوا الحسین بن عليؓ۔‘‘ (شیعہ کتاب التنبیہ والاشراف، ص: ۲۶۳،چشتی)

یعنی ’’حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں سے آپ کے تین صاحب زادے علی الاکبر، عبد اللہ اور ابوبکر کربلا میں شہید ہوئے ۔‘‘

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کنیت

’’کشف الغمۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ : ’’امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ  کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔‘‘ (شیعہ کتاب کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۷۴)

حضرت امامِ حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم کے صاحبزادے کا نام

حضرت اماِ حسن بن امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہم نے اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، چنانچہ مقاتل الطالبیین، ص:۱۸۸، ط: دار المعرفۃ ، بیروت) میں اصفہانی کی محمد بن علی حمزہ علوی سے روایت ہے کہ : ’’ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ شہید ہونے والوں میں ابو بکر بن حسن بن حسن بھی تھے ۔‘‘

حضرت امام موسیٰ بن جعفر رضی اللہ عنہما جن کا لقب کاظم ہے ، انہوں نے بھی اپنے پیش رو بزرگوں کی طرح اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص:۲۱۷)

اصفہانی نے ذکر کیا ہے کہ : حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ، اسی کتاب میں عیسیٰ بن مہران کی ابو الصلت ہروی سے روایت ہے کہ ایک دن مامون نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا ، میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ : ’’ ہمارے ’’ابوبکر‘‘ نے کہا ۔‘‘ عیسیٰ بن مہران کہتے ہیں کہ میں نے ابو الصلت سے پوچھا کہ آپ کے ابو بکر سے کون مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ علی بن موسی الرضا ، ان کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔ (مقاتل الطالبین، ص:۵۶۱-۵۶۲)

حضرت امام موسیٰ کاظم  رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بیٹی کا نام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام پر عائشہ رکھا تھا ، مشہور شیعہ عالم شیخ مفید نے موسیٰ بن جعفر کے احوال واولاد کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ : ’’ابو الحسن موسیٰ کے سینتیس(۳۷) بیٹے اور بیٹیاں تھیں، بیٹیوں میں فاطمہ ، عائشہ اور اُمِ سلمہ تھیں ۔‘‘ (شیعہ کتاب الارشاد، ص:۳۰۲-۳۰۳، الفصول المہمۃ، ص:۲۴۲،چشتی)

حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی کا نام

حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے بھی اپنی ایک صاحب زادی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۹۰)

حضرت امام علی بن محمد الہادی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا، چنانچہ شیخ مفید نے لکھا ہے : ’’وتوفي أبو الحسن علیہما السلام في رجب سنۃ أربع وخمسین ومائتین، ودفن في دارہ بسرّ من رأی، وخلف من الولد أبا محمد الحسن ابنہ وابنتہ عائشۃ ۔ ‘‘ (کشف الغمۃ، ص:۳۳۴۔ الفصول المہمۃ، ص:۲۸۳)

یعنی ’’ابو الحسن رجب ۲۵۴ ہجری میں فوت ہوئے اور ’’سُرَّ مَنْ رَاٰی‘‘ میں اپنے گھر میں دفن کیے گئے ، انہوں نے اولاد میں بیٹا ابو محمد حسن اور بیٹی عائشہ چھوڑی ۔‘‘

اس کے علاوہ بنو ہاشم کے کئی بزرگوں نے اپنے بچوں کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ۔‘‘ (شیعہ کتاب مقاتل الطالبیین، ص:۱۲۳،چشتی)

آلِ بیت رضی اللہ عنہم کے ان مقدس نفوس کا اپنی اولاد کا نام ’’ابوبکر‘‘ اور ’’عائشہ‘‘ رکھنا اِن ناموں سے عقیدت ومحبت اور احترام و مودت کی دلیل ہے اور یہی حقیقت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہلِ بیت ( رضی اللہ عنہم ) کے نام لیوا اور محبت کا دم بھرنے والوں کو اپنے اکابر وائمہ کی زندگی کے اُن روشن پہلوؤں سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

قرونِ ثلاثہ کی تاریخ فرقہ باطلہ کی وجہ سے بے پناہ تحریف کا شکار رہی ، لوگوں کو اصل سے گمراہ کرنے کےلیے بے شمار روایات گھڑی گئیں ، صحیح روایات میں تحریف کی گئی ۔ تاریخِ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتدا تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں بھی شگاف پیدا ہو ئے ۔ اصحاب و اہل بیت رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن و حدیث کی گواہی کے برعکس ایک غلط تاثر سامنے آیا ۔

قرآن و حدیث تو ان کی عدالت ، امانت ، دیانت ، آپس کی محبت پر شاہد ہیں ، اگر تاریخ پر بھی تحقیقی نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں تاریخ سے بھی کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال اور اُن کی صحیح روایات میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ رافضی و ان کے ہمنوا نیم تفضیلی بغضیے رافضی حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس ۔ تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بیاہ دی تھی ۔ {بحوالہ شیعہ کتاب : الکافی ، ج:5 ، ص:346}

حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے ۔

امیرالمومنین حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر ، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم) کے ناموں پر رکھے ۔ (معرفة الصحابة ، ج:1 ، صفحہ 309،چشتی)

حضرت امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا ۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279)

حضرت امامِ جعفر صادق بن محمد رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ جنا ہے ۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہم کی دختر تھیں) ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255،چشتی)

اس طرح تاریخ سے کئی ایسی روایات پیش کی جا سکتی ہیں جو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن کی آیت ‘رحماء بینھم ‘ کی مصداق ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا۔ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت و خلافت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح فرمائی تھی ، ان کے خلاف بغاوت نہیں کی ، اپنے دور میں ان کے کسی قانون کو منسوخ نہیں کیا ، ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داریاں بڑھائیں ۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو شروع سے اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی مخالفت اور دشمنی ایک گروہ کا خاصہ بنی ۔ اس کے ساتھ ایک اور گروہ بھی وجودمیں آیا جو اس کے الٹ تھا یہ آلِ بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا تھا اور ہے ۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں ۔ پہلا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کرام کے فضائل و مناقب انہیں نہیں دینا چاہتا ، یہ گروہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کا منکر ہے ۔ ان دونوں انتہاؤں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے ۔ یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ : تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے ۔ اور اہل بیتِ اطہات رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے ۔

اہل بیتِ اطہار خود بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی گروہ میں شامل ہیں اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے ۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا ۔ آخر میں اہلِ تشیع اور ان کے ہمنوا نیم رافضی حضرات کو خاص طور پر تعلیم یافتہ اور نوجوانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تصویر کے اس رُخ پر بھی غور کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ائمہ کرام  رضی اللہ عنہم کی زندگی کے ان حقائق کو ان سے کیوں چھپایا جارہا ہے ؟

صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت و رشتہ داریاں : بعض شر پسند و فتنہ پرور لوگ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کی مخاصمت اور لڑائی تھی یونہی اس کے بالعکس بعض شر پسند و فتنہ پرور لوگ شان صحابہ رضی اللہ عنہم اسی انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کے درمیان بیحد محبت و آپس میں قریبی رشتہ داریاں و تعلقات تھے ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی فضلیت پر احادیثِ مبارکہ بیان فرماتے تھے ۔ جب ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے پوچھا جاتا ہے کہ لوگوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا ؟ تو آپ فرماتی ہیں فاطمہ رضی ﷲ عنہا ۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا ؟ فرماتی ہیں ‘، اُن کے شوہر یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ (جامع ترمذی) ۔ اسی طرح جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا جاتا ہے کہ لوگوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا ؟ تو آپ فرماتی ہیں ‘ عائشہ رضی اللہ عنہا ۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا ؟ تو آپ فرماتی ہیں ‘ ان کے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ۔ (صحیح بخاری)

اگر خدانخواستہ ان کے درمیان کوئی مخاصمت یا رنجش ہوتی تو وہ ایسی احادیث بیان نہ کرتے ۔

حضرے سیدنا ابوبکر صدی و سیدنا علی رضی ﷲ عنہما کی باہم محبت

حضرت ابوبکر اور حضرت علی رضی ﷲ عنہما کے درمیان کس قدر محبت تھی ‘ اس کا اندازہ اس حدیث پاک سے کیجیے ۔ قیس بن ابی حازم رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ چہرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے پوچھا ‘ آپ کیوں مسکرا رہے ہیں ؟ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ ’’ میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ پل صراط پر سے صرف وہی گزر کر جنت میں جائے گا جس کو علی وہاں سے گزرنے کا پروانہ دیں گے ۔ اس پر سیدنا علی رضی ﷲ عنہ ہنسنے لگے اور فرمایا ‘ اے ابوبکر ! آپ کو بشارت ہو ۔ میرے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ (اے علی!) پل صراط پر سے گزرنے کا پروانہ صرف اسی کو دینا جس کے دل میں ابوبکر کی محبت ہو ۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج۲:۵۵ امطبوعہ مصر،چشتی)

حضرت سیدنا مولا علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ ایک دن مشرکین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے نرغہ میں لے لیا ۔ وہ آپ کو گھسیٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم وہی ہو جو کہتا ہے کہ ایک خدا ہے ۔ خدا کی قسم ! کسی کو ان مشرکین سے مقابلہ کی جرأت نہیں ہوئی سوائے ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے ۔ وہ آگے بڑھے اور مشرکین کو مارمار کر اور دھکے دے دے کر ہٹاتے جاتے اور فرماتے جاتے ‘ تم پر افسوس ہے کہ تم ایسے شخض کو ایذا پہنچا رہے ہو جو کہتا ہے کہ ’’ میرا رب صرف ﷲ ہے ۔‘‘ یہ فرما کر حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی ترہو گئی ۔ پھر فرمایا ‘ اے لوگو ! یہ بتاؤ کہ آل فرعون کا مومن اچھا تھا یا ابوبکر رضی ﷲ عنہ اچھے تھے ؟ لوگ یہ سن کر خاموش رہے تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے پھر فرمایا ‘ لوگو ! جواب کیوں نہیں دیتے ۔ خدا کی قسم ! ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی زندگی کا ایک لمحہ آلِ فرعون کے مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر اور برتر ہے کیونکہ وہ لوگ اپنا ایمان ڈر کی وجہ سے چھپاتے تھے اور ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ نے اپنے ایمان کا اظہار علی الاعلان کیا ۔ (تاریخ الخلفاء عربی صفحہ ۱۰۰)

حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے پاس سے گزرا اور وہ صرف ایک کپڑا اوڑھے بیٹھے تھے ۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر بے ساختہ میری زبان سے نکلا ‘ کوئی صحیفہ والا ﷲ تعالٰی کو اتنا محبوب نہیں جتنا یہ کپڑا اوڑھنے والا ﷲ تعالٰی کو محبوب ہے ۔ (تاریخ الخلفاء: ابن عساکر)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے صحابہ کے درمیان مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ آئے اور سلام کر کے کھڑے ہوگئے ۔ حضور منتظر رہے کہ دیکھیں کون ان کےلیے جگہ بناتا ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ آپ کی دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ اپنی جگہ سے اْٹھ گئے اور فرمایا ‘ اے ابوالحسن ! یہاں تشریف لے آئیے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ ‘ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے درمیان بیٹھ گئے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا ‘ ’’اہل فضل کی فضلیت کو صاحب فضل ہی جانتا ہے ۔‘‘ اسی طرح سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی ﷲ عنہ کی بھی تعظیم کیا کرتے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ ۲۶۹)

ایک روز حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ مسجد نبوی میں منبر پر تشریف فرما تھے کہ اس دوران امام حسن رضی ﷲ عنہ آگئے جو کہ اس وقت بہت کم عمر تھے ۔ امام حسن رضی ﷲ عنہ کہنے لگے ‘ میرے بابا جان کے منبر سے نیچے اتر آئیے ۔ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ ’’ تم سچ کہتے ہو ۔ یہ تمہارے باباجان ہی کا منبر ہے ۔‘‘ یہ فرما کر آپ نے امام حسن رضی ﷲ عنہ کوگود میں اٹھا لیا اور اشکبار ہوگئے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی وہاں موجود تھے ۔ انہوں نے کہا ‘ خدا کی قسم ! میں نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا ۔ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا : آپ سچ کہتے ہیں ‘ میں آپ کے متعلق غلط گمان نہیں کرتا ۔(تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۴۷)(الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر ۲۶۹،چشتی)

امام ابن عبدالبر رحمة ﷲ علیہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ اکثر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے ۔ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا ‘ میں نے آقا و مولٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی رضی ﷲ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔ (الصواعق المحرقتہ: ۲۶۹،چشتی)

ایک روز سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ تشریف فرما تھے کہ سیدنا علی رضی ﷲ عنہ آگئے ۔ آپ نے انہیں دیکھ کر لوگوں سے فرمایا ‘ جو کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قریبی لوگوں میں سے عظیم مرتبت‘ قرابت کے لحاظ سے قریب تر ‘ افضل اور عظیم تر حق کے حامل شخص کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس آنے والے کو دیکھ لے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ ۲۷۰‘ دار قطنی)

سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے سب سے زیادہ بہادر ہونے سے متعلق سیدنا علی رضی ﷲ عنہ کا ارشاد پہلے تحریر ہو چکا ‘ اگر ان کے مابین کسی قسم کی رنجش ہوتی تو کیا یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے ؟ یہ احادیث مبارکہ ان کی باہم محبت کی واضح مثالیں ہیں۔

سیدنا عمر و سیدنا علی رضی ﷲ عنہما کی باہم محبت

حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ دورِفاروقی میں مدائن کی فتح کے بعد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں مال غنیمت جمع کر کے تقسیم کرنا شروع کیا ۔ امام حسن رضی ﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں ایک ہزار درہم نذر کیے ۔ پھر امام حسین رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں بھی ایک ہزار درہم پیش کیے ۔ پھر آپ کے صاحبزادے عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ آئے تو انہیں پانچ سو درہم دیے۔ انہوں نے عرض کی ‘ اے امیرالمٔومنین ! جب میں عہدِ رسالت میں جہاد کیا کرتا تھا اس وقت حسن و حسین بچے تھے ۔ جبکہ آپ نے انہیں ہزار ہزار اور مجھے سو درہم دیے ہیں ۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ تم عمر کے بیٹے ہو جبکہ ان والد علی المرتضٰی ‘ والدہ فاطمۃ الزہرا ‘ نانا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ نانی خدیجہ الکبریٰ ‘ چچا جعفر طیار ‘ پھوپھی اْم ہانی‘ ماموں ابراہیم بن رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ خالہ رقیہ و ام کلثوم و زینب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹیاں ہیں رضی ﷲ عنہن ۔ اگر تمہیں ایسی فضیلت ملتی تو تم ہزار درہم کا مطالبہ کرتے ۔ یہ سن کر حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما خاموش ہو گئے ۔ جب اس واقعہ کی خبر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کوہوئی تو انہوں نے فرمایا ‘ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ عمر اہل جنت کے چراغ ہیں ۔‘‘ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ تک پہنچا تو آپ بعض صحابہ کے ہمراہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر تشریف لائے اور دریافت کیا ‘ اے علی ! کیا آپ نے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے اہل جنت کا چراغ فرمایا ہے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ ہاں ! میں نے خود سنا ہے ۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ اے علی! میری خواہش ہے کہ آپ یہ حدیث میرے لیے تحریر کربدیں ۔ سیدنا علی رضی ﷲ عنہ نے یہ حدیث لکھی : یہ وہ بات ہے جس کے ضامن علی بن ابی طالب ہیں عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کےلیے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ‘ اْن سے جبرائیل علیہ السلام نے ‘ اْن سے ﷲ تعالٰی نے کہ : ان عمر بن الخطاب سراج اھل الجنۃ ۔ ترجمہ : عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں ۔ سیدنا علی رضی ﷲ عنہ کی یہ تحریر حضرت عمررضی ﷲ عنہ نے لے لی اور وصیت فرمائی کہ جب میرا وصال ہو تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا ۔ چنانچہ آپ کی شہادت کے بعد وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی ۔ (ازالتہ الخفاء، الریاض النضرۃ ج ا:۲۸۲،چشتی)

اگر ان کے مابین کسی قسم کی مخاصمت ہوتی تو کیا دونوں حضرات رضی اللہ عنہما ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے ؟ یہ واقعہ ان کی باہم محبت کی بہت عمدہ دلیل ہے ۔

امام دارقطنی رحمة ﷲ علیہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کوئی بات پوچھی جس کا انہوں نے جواب دیا ۔ اس پر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ اے ابوالحسن ! میں اس بات سے ﷲ تعالٰی کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں ایسے لوگوں میں رہوں جن میں آپ نہ ہوں ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر ۲۷۲)

اس واقعہ سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کس قدر محبت تھی ۔

حضرت عمر رضی ﷲ عنہ امورِ سلطنت کے وقت کسی سے نہیں ملے تھے ۔ آپ کے صاحبزادے عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ نے ملاقات کی اجازت طلب کی تو نہیں ملی ۔ اس دوران امام حسن رضی ﷲ عنہ بھی ملاقات کے لیے آگئے ۔ انہوں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی ﷲ عنہما کو اجازت نہیں ملی تو مجھے بھی اجازت نہیں ملے گی ۔ یہ سوچ کر واپس جانے لگے ۔ کسی نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو اطلاع کر دی تو آپ نے فرمایا‘ انہیں میرے پاس لاؤ۔ جب وہ آئے تو فرمایا‘ آپ نے آنے کی خبر کیوں نہ کی ؟ امام حسن رضی ﷲ عنہ نے کہا‘ میں نے سوچا‘ بہت بیٹے کو اجازت نہیں ملی تو مجھے بھی نہیں ملے گی ۔ آپ نے فرمایا‘ وہ عمر کا بیٹا ہے اور آپ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بیٹے ہیں اس لیے آپ اجازت کے زیادہ حقدار ہیں ۔ عمر رضی ﷲ عنہ کو جو عزت ملی ہے وہ ﷲ کے بعد اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اہلبیت رضی اللہ عنہم کے ذریعے ملی ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آئندہ جب آپ آئیں تو اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ۔ (الصواعق المحرقہ: ۲۷۲،چشتی)

ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں جس سے سیدنا عمر و علی رضی ﷲ عنہما میں محبت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ جب شدید علیل ہو گئے تو آپ نے کھڑکی سے سر مبارک باہر نکال کر صحابہ سے فرمایا‘ اے لوگو! میں نے ایک شخص کو تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے کیا تم اس کام سے راضی ہو ؟ ۔ سب لوگوں نے متفق ہو کر کہا‘ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! ہم بالکل راضی ہیں ۔ اس پر سیدنا علی رضی ﷲ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا‘وہ شخص اگر عمر رضی ﷲ عنہ نہیں ہیں تو ہم راضی نہیں ہیں ۔ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا‘ بیشک وہ عمر ہی ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء:۱۵۰‘ عساکر)

اسی طرح امام محمد باقر رضی ﷲ عنہ حضرت جابر انصاری رضی ﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب وصال کے بعد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ تشریف لائے اور فرمانے لگے‘ ان پر ﷲ تعالٰی کی رحمت ہو‘ میرے نزدیک تم میں سے کوئی شخص مجھے اس (حضرت عمررضی ﷲ عنہ) سے زیادہ محبوب نہیں کہ میں اس جیسا اعمال نامہ لےکر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں ۔ (شیعہ کتاب تلخیص الشافی:۲۱۹‘ مطبوعہ ایران)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات میں کس قدر پیار و محبت تھی ۔ اور فاروقی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ جب ایک حاسد شخص نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے ان کی خوبیاں بیان کیں پھر پوچھا‘ یہ باتیں تجھے بری لگیں؟ اس نے کہا‘ ہاں ۔ آپ نے فرمایا‘ ﷲ تعالٰی تجھے ذلیل و خوار کرے۔ جا دفع ہو اور مجھے نقصان پہنچانے کی جو کوشش کر سکتا ہو کر لے ۔ (صحیح بخاری باب مناقب علی رضی اللہ عنہ)

حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا‘ ’’قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سوا ہر سلسلۂ نسب منقطع ہو جائے گا’’۔ اسی بنا پر سیدنا عمر رضی ﷲ عنہ نے سیدنا علی رضی ﷲ عنہ سے ان کی صاحبزادی سیدہ اْم کلثوم رضی ﷲ عنہا کا رشتہ مانگ لیا۔ اور ان سے آپ کے ایک فرزند زید رضی ﷲ عنہ پیدا ہوئے ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد بھی قابلِ غور ہے‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ جب تم صالحین کا ذکر کرو تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو کبھی فراموش نہ کرو ۔‘‘ (تاریخ الخلفاء: ۱۹۵)

سیدنا علی اور عظمت شیخین رضی اللہ عنہم

سیدنا علی رضی ﷲ عنہ اور حضرات شیخین رضی ﷲ عنہا ایک دوسرے کی خوشی کو اپنی خوشی اور دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھتے تھے ۔ شعیہ عالم ملا باقر مجلسی نے جلا ء العیون صفحہ نمبر ۱۶۸ پر لکھا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگنے کے لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہ نے قائل کیا ۔ اسی کتاب میں مرقوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کی شادی کےلیے ضروری سامان خریدنے کے لیے سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو ذمہ داری سونپی تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھریلو معاملات میں بھی خاص قرب حاصل تھا ۔

حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے جسمِ اقدس کے پاس کھڑا تھا کہ ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آکر میرے کندھے پر اپنی کہنی رکھی اور فرمایا‘ ﷲتعالٰی آپ پر رحم فرمائے! بے شک مجھے امید ہے کہ ﷲ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں دوستوں (یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ) کا ساتھ عطا کرے گا کیونکہ میں نے بار ہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’میں تھا اور ابوبکر و عمر‘’میں نے یہ کہا اور ابوبکر و عمر نے‘’میں چلا اور ابوبکر و عمر‘’میں داخل ہوا اور ابوبکر و عمر‘’میں نکلا اور ابوبکر و عمر‘۔ (رضی ﷲ عنہما) میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ تھے ۔ (صحیح  بخاری المناقب)(مسلم کتاب الفضائل الصحابہ،چشتی)

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ سیدنا علی کرم ﷲ وجہہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے خصوصی قرب ومحبت کے باعث سیدنا ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے دلی محبت رکھتے تھے ۔

ایک شخص نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے دریافت کیا‘ میں نے خطبہ میں آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ’’ اے ﷲ! ہم کو ویسی ہی صلاحیت عطا فرما جیسی تو نے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کو عطا فرمائی تھی‘‘۔ ازراہِ کرم آپ مجھے ان ہدایت یاب خلفائے راشدین کے نام بتا دیں ۔ یہ سن کر حضرت علی رضی ﷲ عنہ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا : وہ میرے دوست ابوبکر اور عمر رضی ﷲ عنہما تھے ۔ ان میں سے ہر ایک ہدایت کا امام اور شیخ الاسلام تھا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد وہ دونوں قریش کے مقتدیٰ تھے‘ جس شخص نے ان کی پیروی کی وہ ﷲ تعالٰی کی جماعت میں داخل ہو گیا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ نمبر ۲۶۷،چشتی) ۔ یہی واقعہ شیعہ حضرات کی کتاب تلخیص الشافی جلد ۳ صفحہ ۳۱۸ پر امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ نے امام باقر رضی ﷲ عنہ سے روایت کیا ہے ۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ ﷲ فرماتے ہیں‘ یہ بات صحیح روایات سے ثابت اور تواتر سے نقل ہوتی چلی آئی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں اپنے رفقاء کے سامنے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ ان کی افضلیت کو برملا اور علانیہ بیان کرتے رہے ہیں ۔ امام ذہبی رحمة ﷲ علیہ نے اسی (80) سے زیادہ حضرات سے صحیح سندوں کے ساتھ ثابت کیا ہے اور صحیح بخاری کے حوالے سے بھی بیان کیا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سب لوگوں سے افضل ترین ابوبکر رضی ﷲ عنہ ہیں پھر عمر رضی ﷲ عنہ ۔ آپ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہما نے کہا‘ پھر آپ ؟ تو آپ تو فرمایا‘ میں ایک عام مسلمان ہوں۔(تکمیل الایمان صفحہ نمبر ۱۶۶،چشتی)

سیدنا علی رضی ﷲ عنہ نے انہیں سیدنا ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہ سے افضل کہنے والوں کے لیے درّوں کی سزا تجویز فرمائی ہے‘ شعیہ حضرات کی اسماء الرجال کی معتبر کتاب رجال کشی کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں ۔ سفیان ثوری‘ محمد بن سکندر رحہما اللہ علیہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو کوفہ کے منبر پربیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ فرمارہے تھے‘ اگر میرے پاس کوئی ایسا شخص آئے جو مجھے ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دیتا ہوتو میں اس کو ضرور دْرّے لگائوں گا جو کہ بہتان لگانے والے کی سزا ہے ۔ (تکمیل الایمان: ۱۶۶)(سنن دارقطنی)(رجال کشی۳۳۸ مطبوعہ کربلا)

شیعوں کی اسی کتاب میں سیدنا علی رضی ﷲ عنہ کا فتویٰ موجود ہے کہ ’’حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض کفر ہے ۔‘‘ (رجال کشی صفحہ ۳۳۸)

امام احمد رضا خان قادری رحمة ﷲ علیہ فرماتے ہیں‘ محبت علی مرتضٰی رضی ﷲ عنہ کا یہی تقاضا ہے کہ محبوب کہ اطاعت کیجیے (یعنی سیدنا ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو ساری امت سے افضل مانیے) اور خود کو غضب اور اسی کوڑوں کے استحقاق سے بچئے ۔ (اعتقادالاحباب صفحہ نمبر ۵۶،چشتی)

شیعہ حضرات یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ ’’یہ ساری باتیں تقیہ کے طور پر کہی گئی تھیں (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) ۔ یعنی حضرت علی رضی ﷲ عنہ حضرات شیخین کی تعریف محض جان کے خوف اور دشمنوں کے ڈر سے کیا کرتے تھے ۔ اگر ایسا نہ کرتے تو ان کی جان کو خطرہ تھا مگر دلی طور پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ حضرات شیخین کے خلاف تھے ۔ شعیوں کے اس بیان میں قطعاً کوئی صداقت نہیں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ جو شیرخدا تھے اور مرکز دائرہ حق تھے‘ اتنے بزدل‘ مغلوب اور عاجز ہو گئے تھے کہ وہ حق بیان کرنے سے قاصر رہے اور ساری زندگی خوف وعجز میں گزار دی‘ پھر اسدُﷲِ الغالب کا لقب کیا معنی رکھتا ہے ؟ ۔ (تکمیل الایمان صفحہ ۱۶۷)

سیدنا علی المرتضٰی حیدر کرار رضی ﷲ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے آپ کے یہ ارشاد بھی دل کے کانوں سے سن لیں ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہ سب سے بہتر ہیں۔ کسی مومن کے دل میں میری محبت اور ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کا بغض کبھی یکجا نہیں ہو سکتے ۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۲۲‘ معجم الاوسط،چشتی)

صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت : بالخصوص چاروں خلفاء راشدین اور اہلبیت اس قدر مضبوط و مستحکم ، خاندانی و ایمانی رشتوں میں بندھے ہوئے تھے کہ اس تعلق کو کوئی بھی ایک دوسرے سے ختم نہیں کر سکا ۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر ہیں ۔ کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نکاح میں آئی تھیں ۔ خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے داماد ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو صاحبزادیاں حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہما یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں اور خاتون جنت سیدہ حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ سبحان اللہ !! کیا عالی شان تقسیم ہے کہ دو خلفاء حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر اور دو خلفاء داماد ہیں ۔ جب امُ المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نکاح میں آئیں تو ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر ہوئے ۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ (حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی اور حضرت ابو سفیان کے بیٹے) کے بہنوئی ہوئے ۔

حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہما چونکہ حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی بہنیں تھیں لہٰذا حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کی خالہ ہوئیں اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خالو جان ہوئے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا چونکہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے نانا جان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نکاح میں آئیں تھیں تو یہ تینوں مقدس خواتین حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کی نانیاں ہوئیں ۔ سبحان اللہ !! غور کیجئے صحابہ کرام اور اہلبیت رضی اللہ عنہم اجمعین کو اللہ تعالٰی نے کتنی گہری وابستگی عطا فرمائی ہے ۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی اور پیغمبر اسلام کی حقیقی نواسی ہیں ۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ ان کی خاندانِ نبوت سے رشتہ داری قائم ہو جائے ، چنانچہ آپ نے اپنی اس خواہش کا اظہار حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپ کی اس درخواست کو قبول فرما لیا اور اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زید بن عمر رحمة اللہ علیہ ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ہی کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عمر زیادہ تھی مگر اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی کم عمر بیٹی کا ان سے نکاح کر دیا ۔ یہ واقعہ ان اسلام دشمن قوتوں کے لئے عبرت کا تعزیانہ ہے جو بظاہر اہلبیت رضی اللہ عنہم سے اپنی محبت کا ظاہری دم بھرتے ہیں اور جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شان اقدس میں گستاخی کرکے اپنی آخرت کو برباد کرتے ہیں ، اور نعوذ باللہ ان پر سب و شتم کر کے اپنے اعمال کو سیاہ اور داغدار کرتے ہیں ۔ کوئی ان ظالموں سے پوچھے اے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرنے والو ! تمہارا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ جنہوں نے بقول تمہارے ایک غاصب، ظالم اور مرتد سے اپنی کمسن صاحبزادی کا نکاح کر دیا ؟ ذرا سوچئے ! اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نعوذ باللہ ظالم ہوتے تو کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی انہیں دیتے ؟ ہرگز نہیں ۔

ابتدائے اسلام ہی سے اسلام دشمن قوتوں یہودی ابنِ سبا کی نسل سباٸیوں اور خارجیوں و ناصبیوں نے مسلمانوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کےلیے صحابہ کرام اور اہلبیت رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف ابھارا تاکہ بعد میں آنے والے مسلمانوں کو انتشار کا شکار کر دیا جائے ۔ ان کی یہ کوشش ہوتی کہ جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی کوئی ایسی بات پکڑی جائے جسے اہلبیت رضی اللہ عنہم کے خلاف ابھارا جا سکے اور اس طرح اہلبیت رضی اللہ عنہم کی محبت ظاہر کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کی جا سکے ۔ آج بھی یہود و نصارٰی کے آلہ کار ابنِ سبا یہودی کی نسلیں اس ناپاک سازش میں مصروف ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شان میں گستاخی کر کے اپنے بغض و حسد کی آگ کو ٹھنڈا کر رہے ہیں ۔ حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اہلبیت رضوان اللہ علیھم اجمعین میں کسی نوعیت کا کوئی ذاتی اختلاف نہ تھا ۔ وہ تو ایک دوسرے سے رشتے داریاں کرتے ، گویا قدرت نے انہیں ایک لڑی میں پرو دیا تھا ۔ اللہ پاک ہمیں سب صحابہ کرام اور تمام اہلبیت رضی اللہ عنہم سے سچی اور حقیقی محبت نصیب فرمائے آمین ۔

امام عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گذرا جس نے اہلِ بیت رضی اللہ عنہ کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر جلد 1 صفحہ 256)

امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد، صفحہ نمبر 94،چشتی)

حضرت صدر الافاضل سد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمة علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ (تفسیر خزائنُ العرفان، پ25،الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، ص894)

صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے ، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے تھے اور اپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا فرمایا کرتے تھے : ⬇

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے ، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔(تہذیب الاسماء،ج 1،ص244، تاریخ ابنِ عساکر،ج 26،ص372)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔ (معجمِ کبیر،ج 10، صفحہ 285 ، حدیث:10675)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جا رہے ہوتے اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب،ج 2،ص360،چشتی)

حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے ! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے  قَرابَت  داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ۔ (صحیح بخاری ، جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3712)

ایک بار حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو ۔ (صحیح بخاری جلد 2 حدیث 3713،چشتی)

حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صِدّیق  رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی ، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو، حضرت علی کے نہیں۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث نمبر 8161،چشتی)

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے گھرانے کی آپس میں رشتہ داریاں کی تفصیل دیکھیں یہ سب اہل سنت اور شیعہ دونوں کی معتبر کتابوں میں موجود ہے ۔ پہلی رشتہ داری تو یہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر ہیں وفات سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غم زدہ تھے ۔ تو سیدنا صدیق اکبر نے اپنی خود بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں اس رشتہ کی پیش کش کی آپ کی اس بیٹی کا نام محبوبہ محبوبِ خدا سیدہ امی عائشہ صدیقہ بنت صدیق اکبر ہے  ۔ جو ام المومنین ہیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (تہذیب جلد نمبر 4 صحفہ نمبر 298ابن حجر عسقلانی،چشتی)(تاریخ ائمہ صحفہ نمبر 147 علی حیدر نقوی)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ہز اروں احادیث زبانی یاد تھیں ان کا مقام یہ ہے کہ جلیل القدر صحابہ کرام کو مسئلہ درپیش ہوتا تووہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے عورتوں کے مسائل ہوں یا فقیہی مسائل آپ ان کا حل اپنی دانش اور فہم و فراست سے حل کر دیتی ام المومنین سید ہ عائشہ صدیقہ اہلبیت کی شان میں درجنوں احادیث کی اکلوتی راوی ہیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔

دوسرا رشتہ سیدنا صدیق اکبر امام جعفر صادق کے نانا اور دادا لگتے ہیں ، آپ کا شجرہ نسب والد اور والدہ کی طرف سے سیدنا جعفر بن ام فروابنت قاسم بن محمد بن ابی بکرالصدیق (والدہ کی طرف سے) ۔ سیدنا جعفر بن محمد الباقر بن علی بن زین العابدین بن حسین بن علی المرتضٰی (والد کی طرف سے) یوں امام جعفر الصادق والد کی جانب سے علوی و فاطمی اور والدہ کی طرف سے صدیقی ہیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (احقاق الحق صحفہ7)(شرح العقائد صحفہ 195،چشتی)(عمدةالطالب آ ل ابی طالب صحفہ 195)(اصول کافی جلد نمبر 586 شیعہ کی معروف کتاب ہے)

تیسرارشتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سیدنا صدیق اکبر دونوں ہم زلف ہیں وہ اس طرح کے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سیدہ میمونا بنت حارث اور زوجہ صدیق اکبر سیدہ اسماء بنت عمیس والدہ کی طرف سے دونوں بہنیں ہیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات الکبری جلد 8 صحفہ نمبر 104)

چوتھا رشتہ امام حسین سیدنا صدیق اکبر کے بیٹے محمد بن ابی بکر کے ہم زلف تھے اور امام زین العابدین کے خالہ زاد بھائی تھے ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (فتیی الاحال جلد نمبر2صحفہ نمبر 4)(مناقب آل ابی طالب جلد نمبر 4صحفہ نمبر 49)(اصول کافی جلد1صحفہ نمبر 586)(کشف الغمہ جلد نمبر 2 نمبر 84) ۔ یہ تمام حوالے سنی شیعہ مکاتب فکر کی معتبر کتب میں بھی موجو د ہیں ۔

پانچواں اور چھٹا رشتہ : سیدنا صدیق اکبر کے بیٹے عبدالرحمان ابی بکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہم زلف تھے اور امام حسین عبدالرحمن بن ابی بکر کے داماد تھے ۔ عبدالرحمان کی زوجہ قرین الصغری زوجہِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ام سلمٰی کی ماں جائی بہن تھیں اس طرح حضرت ام سلمٰی کی ماں جائی بہن تھیں اس طرح حضرت ام سلمٰی عبدالرحمان بن ابی بکر کی سالی ہوئی ، حفصہ بن عبدالرحمان جن کا نکاح منذر بن زبیر سے ہوا اور اس کے بعد اپ کا نکاح امام حسین بن علی بن ابی طالب سے ہوا ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد جلد نمبر 8 صحفہ نمبر 468، 469،چشتی)

ساتواں رشتہ : امام حسن کے عقد میں عبدالرحمان بن ابی بکر کی دو صاحبزادیاں حفصہ بن عبدالرحمان او ر ہندہ بنت عبدالرحمان یکے بعد دیگرے آئیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (شیعہ کتب ۔ ابن حدید شرح نہج البلاغہ جلد نمبر 4 صحفہ نمبر 5)(بحار الانوار جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 8،چشتی)
اس رشتہ میں درج ذیل رشتے ثابت ہوئے ۔ 1۔عبدالرحمان بن ابی بکر ہم زلف رسول بنے ۔ 2۔ سیدہ عائشہ حفصہ کی پھوپھی بنی ،۔
3۔ سیدنا ام سلمیٰ ان کی خالہ بنی ۔ رضی اللہ عنہم ۔

آٹھوا ں رشتہ : امام حسن کی بیٹی (ام الحسن) سے صد یق اکبر کے نواسے (عبداللہ بن زبیر) کا عقد ہو ا ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (شیعہ کتاب ۔ ناسح التواریخ جلد نمبر 2 صحفہ نمبر 271) ۔ اس کے علاوہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کی ایک صاحبزادی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عقد میں تھیں ۔ اس طرح وہ بھی ام المومنین کی حیثیت سے معتبر تھیں ، اس مکمل تفصیل سے معلوم ہوا کے سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا علی المر تضٰی باہمی الفت و محبت کے پیکر تھے ان میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا ۔ اور آل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی عظمت صدیق اکبر کو تسلیم کرتی تھی ۔ اور آل صدیق اکبر بھی اہل بیت پر نچھاور ہوتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ شان و خصائل صدیق اکبر بزبان علی المرتضیٰ میں بکثرت روایت ہیں اور مزید یہ ان کی آپس میں رشتہ داریاں بھی قائم ہوتی رہی ہیں ، خلفائے راشدین کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھرانے میں رشتہ داریوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان سب (رضی اللہ عنہم) کے درمیان محبت ، پیار اور اخوت قائم تھا ۔ لیکن آج یہ سب مصلحتوں اور فرقہ واریت کا شکار ہوکر رہ گے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات میں برابر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مذہبی سکالرز علماء کرام اور ذاکرین یہ اختلافات اور فاصلے کم کرنے کی کوشش کریں تو مسلم امہ کی بہت بڑی خدمت ہوگی ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پوتی قرینۃالصغری (سیدہ حفصہ) بنت عبدالرحمن بن ابی بکر امام حسن کی اہلیہ تھیں ، امام حسن کی وفات کے بعد امام حسین سے نکاح ہوا ۔ (رضی اللہ عنہم)

اسماءبنت عمیس جو پہلے حضرت صدیقِ اکبر کی بیوی تھیں حضرت فاطمۃ الزھراء کی وفات کے بعد حضرت علی المرتضی سےشادی ھوئی ، اسماء سے امام حسین کے دو بھائی یحی بن علی اور عون بن علی پیدا ہوۓ ـ (رضی اللہ عنہم)

حضرت امام حسین اور حضرت محمد بن ابی بکر ہم زلف تھے ، شاہِ ایران یزدگر کی 2 بیٹیاں مالِ غنیمت میں آئیں ایک کا نکاح امام حسین سے اور دوسری کا نکاح محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہم سے کیا گیا ـ

حضرت بی بی شہربانو زوجہ امام حسین کے صاحبزادے امام زین العابدین کے خالہ زاد بھائی قاسم بن محمد بن ابوبکر کی بیٹی ام فروہ فاطمہ کا نکاح امام باقر بن زین العابدین سے ہوا جن سے امام جعفرصادق پیدا ہوئے رضی اللہ عنہم ۔

قرینۃالکبری بنت ھند بنت عبدالرحمان بن ابوبکر کا نکاح امام حسن سے ہوا یوں امام حسن خاندانِ صدیقی کے ذوالنورین بن گئے ۔ (رضی اللہ عنہم)

امام حسین امیرالمؤمنین عمر کےنسبتی بھائی ہیں ، امام حسین کی بہن امِ کلثوم بنت علی (حضرت سیدہ فاطمہ کی بیٹی) کا نکاح 17 ھ ذوالقعدہ میں ہوا 40،000 درھم حق مہر طے ہوا ان سے بیٹا زید بن عمر ، بیٹی رقیہ بنت عمر رضی اللہ عنہم پیدا ہوئیں ۔ (شیعہ کتب ۔ الشافی صفحہ نمبر 116)(مناقب ابن ابی طالب جلد 3 صفحہ 162)(المبسوط ج 4 ص 272،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عثمان کا نکاح حضرت فاطمہ بنت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہم سے ہوا ، یعنی دادا حضرت عثمان داماد ہیں نانا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ، اور پوتا عبداللہ داماد ہیں نواسہ حسین کے ، <اولاد> بقاسم و محمد ، بیٹی رقیہ تھی رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8)

حضرت بی بی سکینہ’بنت’ امام حسین
کا پہلا نکاح حضت ابوبکر صدیق کے نواسے مصعب ابن زبیر سے ہوا شہادتِ مصعب کے بعد زید بن عمرو بن عثمان سے ہوا یعنی دادا حضرت عثمان داماد ہیں نانا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ، اور پوتا زید داماد ہیں نواسے حسین کے ، حضرت امام حسین اپنی 2 بیٹیاں حضرت عثمان کے دو پوتوں کے نکاح میں دیں رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8)

حضرت جعفر طیار کی پوتی ، ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر طیار کا نکاح عثمان غنی کے صاحبزادے ابان سے ہوا ۔ رضی اللہ عنہم ۔

حضرت امام حسن کی پوتی ام القاسم کا نکاح حضرت سیدنا عثمان غنی کے پوتےمروان بن
ابان بن عثمان سے ہوا رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8)

ایک بار حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم ! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789)

ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی شان  کے لائق ہو تو آپ نے ان کےلیے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔ (ریاض النضرۃ،ج1،ص341)

یوں ہی جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کےلیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لئے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔(سیر اعلام النبلاء ج3،ص259،چشتی)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ صفحہ نبر 59)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی،ج10،ص205، مؤطا امام مالک،ج2،ص259)

ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی رضی اللہ عنہ سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی : اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب جلد 3،صفحہ 209،چشتی)

یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہم کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید،ج 5،ص344)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے  تھے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)

ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے ، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار ، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 309)(طبقات ابن سعد جلد 6 صفحہ 409)(معجم الصحابہ،ج 4،ص370)(کشف المحجوب صفحہ 77)(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)

حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول رضی اللہ عنہم کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد، ص92) ۔ نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء،ص135)

حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔ (مسند امام احمد،ج 3،ص632)

ابومہزم رحمۃ اللہ  علیہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 407)

عیزار بن حریث رحمۃ اللہ  علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا : اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 179،چشتی)

محترم قارٸینِ کرام : آپ نے بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی  اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے ، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے ، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے ، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔

مذکورہ روایات و دلاٸل سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی آپس محبت و قریبی رشتہ داریاں ۔ شمنانانِ اسلام ، یہودیوں ، سباٸیوں ، رافضیوں ، ناصبیوں اور خارجیوں نے من گھڑت تاریخی روایات گھڑیں اور مسلمانوں میں نفرت ، تفرقہ اور انتشار پھیلایا جس میں بڑی حد تک وہ کامیاب بھی ہوۓ ان کی اس کامیابی میں جاہل پیروں ، جاہل خطیبوں ، جاہل نوٹ خوانوں نقیبوں اور اجہل ذاکروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ فقیر اِس گمراہی و نفرت و تفرقہ کے پیروکاروں کو اپنی حد تک دلاٸل کے ذریعے عرصہ دراز سے جواب بھی دے رہا ہے اور بے نقاب بھی کر رہا ہے۔ جواب میں گالیاں بھی سنیں ، ستم بھی برداشت کیے اور کر رہا ہے مگر الحَمْدُ ِلله فقیر نے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر اپنا مشن نہیں چھوڑا اگرچہ فقیر کو غیروں سے زیادہ اپنوں سے شکوہ عدمِ تعاون ضرور ہے ہمارے سنی صاحبِ حیثیت لوگ جاہل پیروں ، جاہل خطیبوں ، جاہل نوٹ خوانوں اور نقیبوں پر تو سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں مگر وہ اہلِ علم جو ہر طرح کے کسمپرسی کے حالات میں دفاعِ عقاٸدِ مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ۔ اللہ عزوجل اہلسنت صاحبِ ثروت حضرات کو سمجھ عطا فرماۓ اور اہلِ حق اہلِ علم کی مدد و حفاظت فرماۓ آمین ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ اہلبیت سے ہیں اور آپ کی محبت و بغض مومن و منافق کی پہچان : ⏬

حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت و تکریم سے عاری دل ، سوائے منافقت خانے کے اور کچھ نہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ وعنھم تو منافقین کی پہچان ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام لے کر کرتے تھے ۔ جس کے چہرے پر مولا علی رضی اللہ عنہ کا نام سن کر خوشی آجاتی ، سمجھ جاتے وہ مومن ہے ۔ اور جس کے چہرے پر تنگی ، کڑواہٹ ، بغض و عداوت ، تکلیف و پریشانی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں (جیسے آج بھی بعض حضرات کے چہروں پر ذکرِ و فضائلِ مولا علی رضی اللہ عنہ سے تکلیف کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور ان کی توانائیاں اس موضوع سے توجہ ہٹانے کےلیے فوراً حرکت میں آ جاتی ہیں) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سمجھ جاتے تھے کہ یہ منافق ہے ۔

علی ہیں‌ اہل بیتِ مصطفی میں‌ یہ روایت ہے
وہی ہے مومن کامل جسے اُن سے محبت ہے

عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسْمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِيْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۔
ترجمہ : حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا ۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علي أن حب الأنصار و علي من الإيمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78،ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064،چشتی،وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الحديث رقم : 291، و البزار في المسند، 2 / 182، الحديث رقم : 560، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1325)

عَنْ عَلِيٍّ : قَالَ لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ . قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِيْنَ دَعَالَهُمُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا کہ مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور کوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا ۔ عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے کے لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب 5 / 643، الحديث رقم : 3736، چشتی)

عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنَّ ﷲ أَمَرَنِيْ بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ، وَأخْبَرَنِيْ أنَّهُ يُحِبُّهُمْ. قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ سَمِّهُمْ لَنَا، قَالَ : عَلِيٌّ مِنْهُمْ، يَقُوْلُ ذَلِکَ ثَلَاثاً وَ أَبُوْذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ، وَ سَلْمَانُ وَ أَمًرَنِيْ بِحُبِّهِمْ، وَ أَخْبَرَنِيْ أَنَّّهُ يُحِبُّهُمْ ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ ۔ وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ﷲ بھی ان سے محبت کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ ! ہمیں ان کے نام بتا دیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہے ، اور باقی تین ابو ذر ، مقداد اور سلمان ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان سے محبت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، 5 / 636، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، الحديث رقم : 3718، وابن ماجة في السنن، مقدمه، فضل سلمان وأبي ذرومقداد، الحديث رقم : 149، وأبونعيم في حلية الاولياء، 1 / 172)

عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ إِنَّا کُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم انصار لوگ ، منافقین کو ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبو نعيم في حلية الاولياء، 6 / 295، چشتی)

عَنِ أُمِّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ وَلَا يُبْغِضُهُ مُؤْمِنٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کرسکتا اور کوئی مومن اس سے بغض نہیں رکھ سکتا ۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبويعلي في المسند، 12 / 362، الحديث رقم : 6931 و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 375، الحديث رقم : 886، چشتی)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ قَالَ : وَاللّٰهِ مَاکُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِيْنَا عَلٰي عَهْدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اپنے اندر منافقین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے ہی پہچانتے تھے ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 264، الحديث رقم : 4151، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132، چشتی)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِنَّمَا دَفَعَ ﷲُ الْقُطْرَ عَنْ بَنِيْ إِسْرَئِيْلَ بِسُوْءِ رَأْيِهِمْ فِي أَنْبِيَائِهِمْ وَ إِنَّ ﷲَ يَدْفَعُ الْقُطْرَ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ الدَّيْلِمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ﷲ تعالی نے بنی اسرائیل سے ان کی بادشاہت انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ ان کے برے سلوک کی وجہ سے چھین لی اور بے شک ﷲ تبارک و تعالیٰ اس امت سے اس کی بادشاہت کو علی کے ساتھ بغض کی وجہ سے چھین لے گا ۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 344، الحديث رقم : 1384، والذهبي في ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 2 / 251)

حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما میں ہونے والے اختلاف اور معافی ، کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے دے دی تھی ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مولا علی رضی عنہ سے محبت کرتے تھے ۔ (تفسیر در منثور جلد 1 صفحہ 831 مترجم اردو)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی بر حق ہے ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ امت کے دو گروہوں میں صلح کروائیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی حق ہے ۔ اسی طرح دیگر صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے متعلق خبریں بر حق ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی رنجش و اختلاف اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کی خبر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی اس فرمان کے بعد اس پر کیچڑ اچھالنے والے ، توہین کرنے والے اور اعتراضات کرنے والے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اقدس کی توہین نہیں کر رہے ؟ اے اہل ایمان سوچیے اور فیصلہ کیجیے اللہ ہمیں اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ادب کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور بے ادبی سے بچائے آمین ۔

صَحابَۂ کرام جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے ، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین سے کیسی محبت رکھتے تھے اوراپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا کرتے تھے ! آئیے اس کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں : ⬇

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء،ج 1 ص 244،چشتی)(تاریخ ابنِ عساکر ج 26،ص372)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔(معجمِ کبیر،ج 10،ص285، حدیث:10675)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب،ج 2،ص360)

ایک موقع پر حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا:اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے ! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے  قَرابَت  داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ۔ (بخاری،ج2،ص438،حدیث:3712،چشتی)

ایک بار حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔(بخاری،ج2 حدیث: 3713)

حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صِدّیق  رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی ، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو ، حضرت علی کے نہیں ۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث:8161)

ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم ! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789،چشتی)

ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہم کی شان  کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔(ریاض النضرۃ،ج1،ص341)

یوں ہی جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کےلیے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا ، دونوں کےلیے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 259)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ صفحہ 59)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی ج 10 ص 205)(مؤطا امام مالک،ج2،ص259)

ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی:اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب،ج 3،ص209،چشتی)

یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید،ج 5،ص344)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے  تھے ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)

ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309)(طبقات ابن سعد،ج 6 ص 409)(معجم الصحابہ،ج 4،ص370)(کشف المحجوب ص 77)(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)

حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد، ص92،چشتی)

نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء،ص135)

حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔(مسند امام احمد،ج 3،ص632،چشتی)

ابومہزم رحمۃ اللہ  علیہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4 ص 407)

عیزار بن حریث رحمۃ اللہ  علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا:اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179،چشتی)

محترم قارٸینِ کرام : آپ نے بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی  اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار سے اپنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول رضی اللہ عنہم کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کے محترم نفوسِ قدسیہ اور حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے درمیان باہمی رشتہ داریاں ، تعلق ، محبت ، احترام واکرام اور اس کا اظہار ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش اس کے برعکس تاریخ سے ڈھونڈ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات کو بنیاد بنا کر اُن نفوسِ قدسیہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں جن سے اُن کا دامن صاف تھا۔ آج کی تحریر میں تصویر کے اصل اور حقیقی رخ کی ایک جھلک دکھانی ہے اور مستور حقائق کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ماننے والے بھی باہمی محبت ومودت اور احترام کے ساتھ معاشرت کا مظہر بن سکیں ۔ خاص طور پر اہلِ بیت کرام اور خلیفۂ اول، خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہم کے درمیان محبت ومودت کا جو تعلق تھا، اس کا ذکر نہ صرف اہلِ سنت علماء کرام نے کیا، بلکہ اہلِ تشیع کے علماء نے بھی اسے بیان کیا ۔مضمون کے اس حصّے میں صرف شیعہ حضرات کی کتب سے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے ، تاکہ اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم سے محبت کا دعویٰ کرنے والے حضرات اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور معاشرہ میں اسی محبت ومودت کو فروغ مل سکے ۔

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کا حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنا

یہ عام فہم اور معقول بات ہے کہ آدمی اپنی اولاد اور بچوں کے نام ہمیشہ باکردار ، پسندیدہ ، نیک سیرت اور صالح لوگوں کے نام پر رکھتا ہے اور جس نام کا انتخاب کیا جاتا ہے ، وہ عقیدت ، محبت ومودت اور احترام کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ ایک عام انسان بھی کسی ناپسندیدہ شخصیت اور اپنے دشمنوں کا نام اپنے بچوں کو نہیں دیتا ، یہی وجہ ہے کہ اہلِ بیت کرام  رضی اللہ عنہم کے مقدس نفوس نے بھی خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عقیدت و محبت اور مودت کا اظہار مختلف طرح سے کیا ، ان میں سے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھا ۔

ابو الائمہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل

اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم میں سے ابو الائمہ سیدنا مولا حضرت علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ نے اسی محبت و مودت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیٹے کا نام سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام پر ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، مشہور شیعہ عالم ’’شیخ مفید‘‘ نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی اولاد ، ان کے نام اور تعداد کے عنوان سے لکھا ہے : ’’۱۲-محمد الأصغر المکنی بأبي بکر ، ۱۳-عبید اللہ، الشہیدان مع أخیہما الحسین (ع) بألطف أمہما لیلی بنت مسعود الدارمیۃ ۔‘‘(الارشاد، ص:۱۸۶،چشتی)

یعنی ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادوں میں سے محمد اصغر جن کی کنیت ابو بکر تھی اور عبید اللہ جو کہ لیلیٰ بنت مسعود دارمیہ کے بطن سے تھے، دونوں اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کی معیت میں شہید کیے گئے ۔‘‘

مشہور شیعہ مؤرخ ’’یعقوبی‘‘ نے لکھا ہے : وکان لہ من الولد الذکور أربعۃ عشر ، ذکر الحسن والحسین ۔۔۔ وعبید اللہ وأبو بکر لا عقب لہما أمہما لیلی بنت مسعود الحنظلیۃ من بني تیم ۔ (تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص:۲۱۳)
یعنی ’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی ۱۴ نرینہ اولاد تھی ، ان میں حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ عنہما  کا تذکرہ کیا اور ان میں سے عبید اللہ اور ابوبکر کا نام بھی ذکر کیا، جن کی کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی والدہ بنو تیم کی لیلیٰ بنت مسعود حنظلیہ تھیں ۔‘‘

شیعہ عالم ابو الفرج اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  اور اُن کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والے اہلِ خانہ کے عنوان سے لکھا ہے : ’’وکان منہم: أبو بکر بن علي بن أبي طالب وأمہ لیلٰی بنت مسعود ۔‘‘ (مقاتل الطالبیین ، ص:۱۴۲، ط: دار المعرفۃ، بیروت)

یہی بات ’’کشف الغمۃ‘‘ میں ہے اور مجلسی نے ’’جلاء العیون‘‘ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۲۶۔ جلاء العیون، ص:۵۸۲) میں اسی طرح لکھا ہے ۔

کیا یہ اس بات پر دلیل نہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی اور اُن کے درمیان محبت ومودت اور بھائی چارے کا رشتہ تھا ، تبھی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا ؟

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت مولا علی  رضی اللہ عنہ  کے یہ صاحب زادے حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کو خلیفۂ اول مقرر کیے جانے کے بعد پیدا ہوئے تھے ، بلکہ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد اُن کی ولادت ہوئی تھی، کیا آج حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے نام لیوا اور اُن کی محبت کا دم بھرنے والے شیعہ حضرات میں کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی اتباع میں اپنے کسی بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھ سکے ؟ کیا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موالات رکھتے ہیں یا عملی طور پر اُن کی مخالفت کرتے ہیں ؟

حضرت مولا علی  رضی اللہ عنہ  کی اولاد کا طرزِ عمل

خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  سے محبت ومودت کا یہ سلسلہ صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تک محدود نہیں تھا ، بلکہ اُن کے بعد ان کی آل واولاد نے اپنے والد بزرگوار کی پیروی کی اور انہی کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے بچوں کا نام حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر رکھا ۔

حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ  کے صاحبزادے کا اسم گرامی

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا  کے بڑے صاحب زادے ، نواسۂ رسول حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ  جن کو شیعہ‘ امامِ ثانی اور امامِ معصوم کا درجہ دیتے ہیں ، انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، تاریخِ یعقوبی اور منتہی الآمال میں ہے : ’’وکان للحسن من الولد ثمانیۃ ذکور وہم الحسن بن الحسن وأمہ خولۃ  وأبوبکر وعبد الرحمٰن لأمہات أولاد شتی وطلحۃ وعبید اللہ ۔ (شیعہ کتب تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص: ۲۲۸،چشتی)(منتہی الآمال، ج: ۱، ص: ۲۴)
یعنی ’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ  کی آٹھ نرینہ اولاد تھی، جن میں سے حسن بن حسنؓ کی والدہ کا نام خولہ تھا، عبد الرحمٰن اور ابو بکر اُمِ ولد سے تھے، طلحہ اور عبید اللہ بھی آپ کے صاحبزادے تھے ۔‘‘

اصفہانی نے مقاتل الطالبیین، ص:۸۷) میں لکھا ہے کہ ابو بکر بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی اپنے چچا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والوں میں سے تھے، انہیں عقبہ غنوی نے شہید کیا تھا ۔

حضرت امامِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما  کے صاحبزادے کا اسمِ گرامی

حضرت امامِ حسین بن علی  رضی اللہ عنہما  نے بھی اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، معروف شیعہ مؤرخ نے ’’التنبیہ والإشراف‘‘ میں شہداء کربلا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’وممن قتلوا في کربلاء من ولد الحسین ثلاثۃ، علي الأکبر وعبد اللہ الصبي وأبوبکر بنوا الحسین بن عليؓ۔‘‘ (شیعہ کتاب التنبیہ والاشراف، ص: ۲۶۳،چشتی)

یعنی ’’حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں سے آپ کے تین صاحب زادے علی الاکبر، عبد اللہ اور ابوبکر کربلا میں شہید ہوئے ۔‘‘

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کنیت

’’کشف الغمۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ : ’’امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ  کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔‘‘ (شیعہ کتاب کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۷۴)

حضرت امامِ حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم کے صاحبزادے کا نام

حضرت اماِ حسن بن امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہم نے اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، چنانچہ مقاتل الطالبیین، ص:۱۸۸، ط: دار المعرفۃ ، بیروت) میں اصفہانی کی محمد بن علی حمزہ علوی سے روایت ہے کہ : ’’ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ شہید ہونے والوں میں ابو بکر بن حسن بن حسن بھی تھے ۔‘‘

حضرت امام موسیٰ بن جعفر رضی اللہ عنہما جن کا لقب کاظم ہے ، انہوں نے بھی اپنے پیش رو بزرگوں کی طرح اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص:۲۱۷)

اصفہانی نے ذکر کیا ہے کہ : حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ، اسی کتاب میں عیسیٰ بن مہران کی ابو الصلت ہروی سے روایت ہے کہ ایک دن مامون نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا ، میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ : ’’ ہمارے ’’ابوبکر‘‘ نے کہا ۔‘‘ عیسیٰ بن مہران کہتے ہیں کہ میں نے ابو الصلت سے پوچھا کہ آپ کے ابو بکر سے کون مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ علی بن موسی الرضا ، ان کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔ (مقاتل الطالبین، ص:۵۶۱-۵۶۲)

حضرت امام موسیٰ کاظم  رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بیٹی کا نام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام پر عائشہ رکھا تھا ، مشہور شیعہ عالم شیخ مفید نے موسیٰ بن جعفر کے احوال واولاد کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ : ’’ابو الحسن موسیٰ کے سینتیس(۳۷) بیٹے اور بیٹیاں تھیں، بیٹیوں میں فاطمہ ، عائشہ اور اُمِ سلمہ تھیں ۔‘‘ (شیعہ کتاب الارشاد، ص:۳۰۲-۳۰۳، الفصول المہمۃ، ص:۲۴۲،چشتی)

حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی کا نام

حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے بھی اپنی ایک صاحب زادی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۹۰)

حضرت امام علی بن محمد الہادی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا، چنانچہ شیخ مفید نے لکھا ہے : ’’وتوفي أبو الحسن علیہما السلام في رجب سنۃ أربع وخمسین ومائتین، ودفن في دارہ بسرّ من رأی، وخلف من الولد أبا محمد الحسن ابنہ وابنتہ عائشۃ ۔ ‘‘ (کشف الغمۃ، ص:۳۳۴۔ الفصول المہمۃ، ص:۲۸۳)

یعنی ’’ابو الحسن رجب ۲۵۴ ہجری میں فوت ہوئے اور ’’سُرَّ مَنْ رَاٰی‘‘ میں اپنے گھر میں دفن کیے گئے ، انہوں نے اولاد میں بیٹا ابو محمد حسن اور بیٹی عائشہ چھوڑی ۔‘‘

اس کے علاوہ بنو ہاشم کے کئی بزرگوں نے اپنے بچوں کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ۔‘‘ (شیعہ کتاب مقاتل الطالبیین، ص:۱۲۳،چشتی)

آلِ بیت رضی اللہ عنہم کے ان مقدس نفوس کا اپنی اولاد کا نام ’’ابوبکر‘‘ اور ’’عائشہ‘‘ رکھنا اِن ناموں سے عقیدت ومحبت اور احترام و مودت کی دلیل ہے اور یہی حقیقت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہلِ بیت ( رضی اللہ عنہم ) کے نام لیوا اور محبت کا دم بھرنے والوں کو اپنے اکابر وائمہ کی زندگی کے اُن روشن پہلوؤں سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

قرونِ ثلاثہ کی تاریخ فرقہ باطلہ کی وجہ سے بے پناہ تحریف کا شکار رہی ، لوگوں کو اصل سے گمراہ کرنے کےلیے بے شمار روایات گھڑی گئیں ، صحیح روایات میں تحریف کی گئی ۔ تاریخِ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتدا تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں بھی شگاف پیدا ہو ئے ۔ اصحاب و اہل بیت رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن و حدیث کی گواہی کے برعکس ایک غلط تاثر سامنے آیا ۔

قرآن و حدیث تو ان کی عدالت ، امانت ، دیانت ، آپس کی محبت پر شاہد ہیں ، اگر تاریخ پر بھی تحقیقی نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں تاریخ سے بھی کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال اور اُن کی صحیح روایات میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ رافضی و ان کے ہمنوا نیم تفضیلی بغضیے رافضی حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس ۔ تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بیاہ دی تھی ۔ {بحوالہ شیعہ کتاب : الکافی ، ج:5 ، ص:346}

حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے ۔

امیرالمومنین حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر ، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم) کے ناموں پر رکھے ۔ (معرفة الصحابة ، ج:1 ، صفحہ 309،چشتی)

حضرت امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا ۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279)

حضرت امامِ جعفر صادق بن محمد رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ جنا ہے ۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہم کی دختر تھیں) ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255،چشتی)

اس طرح تاریخ سے کئی ایسی روایات پیش کی جا سکتی ہیں جو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن کی آیت ‘رحماء بینھم ‘ کی مصداق ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا۔ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت و خلافت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح فرمائی تھی ، ان کے خلاف بغاوت نہیں کی ، اپنے دور میں ان کے کسی قانون کو منسوخ نہیں کیا ، ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داریاں بڑھائیں ۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو شروع سے اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی مخالفت اور دشمنی ایک گروہ کا خاصہ بنی ۔ اس کے ساتھ ایک اور گروہ بھی وجودمیں آیا جو اس کے الٹ تھا یہ آلِ بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا تھا اور ہے ۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں ۔ پہلا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کرام کے فضائل و مناقب انہیں نہیں دینا چاہتا ، یہ گروہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کا منکر ہے ۔ ان دونوں انتہاؤں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے ۔ یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ : تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے ۔ اور اہل بیتِ اطہات رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے ۔

اہل بیتِ اطہار خود بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی گروہ میں شامل ہیں اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے ۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا ۔ آخر میں اہلِ تشیع اور ان کے ہمنوا نیم رافضی حضرات کو خاص طور پر تعلیم یافتہ اور نوجوانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تصویر کے اس رُخ پر بھی غور کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ائمہ کرام  رضی اللہ عنہم کی زندگی کے ان حقائق کو ان سے کیوں چھپایا جارہا ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...