Tuesday 30 November 2021

نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ ہفتم

0 comments

 نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ ہفتم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جسمِ اقدس کا سایہ نہیں تھا ظل اور فئی کی تحقیق ۔ آج اس پرفتن اور پر آشوب دور میں نہ جانے لوگوں نے کیسے کیسے مسئلے اور عقیدے گڑھنے شروع کر دئیے ہیں ، جس کا تعلق در حقیقت کسی دور سے نہیں ہوتا ہے ۔ چنانچہ جسم پاک مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق عہد صحابہ کرام سے لیکر آخر تک مضبوط، مربوط اور مسلسل شہادتیں موجود ہیں جس سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے اسلاف کرام کے عقائد اس سلسلے میں کیا تھے۔ لٰہذا ہم سب کو بھی چاہئیے کہ ذہن و فکر کی اس جدید پیداوار کی طرف نہ جائیں اور اپنے اسلاف کی اصابتِ روائے پر ہی عمل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی میں بھلائی اور ہماری ، آپ سب کی کامیابی ہے ۔ ہم نمونے کے طور پر چند احادیث اس دعوے کے ثبوت کےلیے کہ سرکار کے جسم پاک کا سایہ نہ ہونے کا عقیدہ محض بےبنیاد نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں روایات و احادیث کی تہہ میں موجود ہیں ، جن پر شروع سے صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین رضی اللہ عنہم کا عمل رہا ہے ۔


تُو ہے سایہ نور کا ہر عُضْو ٹکڑا نور کا

سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا


الفاظ و معانی : سایہ : عکس ، روشنی کے سامنے کسی شے کے حائل ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی تاریکی ۔ عُضْو : بدن کا کوئی حصّہ یا جُز ۔ ٹکڑا :حصّہ ۔


شرح : شعر کے پہلےمِصرعے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  نے اللہ  کے پیارے رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی ذاتِ اَقدس کی دوجہتوں (Dimensions)  کا ذکر فرمایا ہے کہ یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !ایک جانب تو آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ساری مخلوق پر نورِالٰہی و رحمتِ خُداوندی کا سایہ ہیں اور دوسری طرف آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کےجسمِ اَقدس کا ہر ہر عُضْو نورکاٹکڑا ہے ۔ پھر دوسرے مِصرعے میں آپ  رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی شاندار منطقی (Logical) انداز میں دوعقلی دلیلوں کے ذریعےاس بات کو ثابت فرمایا ہے کہ حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کےجسمِ منوَّر کا سایہ نہ تھا ۔


جب کوئی مجسَّم (Solid) شے روشنی کے سامنے آتی ہے تو روشنی کے مقابِل اُس شے کا سایہ و عکس بنتا ہے لیکن اُس سائے کا مزید آگے سایہ نہیں بنتا۔بِلاتشبیہ جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اللہ پاک کے نُور  کا سایہ ہیں تو پھر اِس  سایۂ نورِ خُدا (یعنی بدنِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا سایہ کیسے بن سکتا ہے ۔


نور (Light) کی وجہ سے اِس کے سامنے آنے والی مُجسَّم (Solid) شے کا سایہ تو بنتا ہے مگر نُور اور روشنی کی اپنی ذات کا سایہ نہیں ہوتا کیونکہ روشنی اور سایہ (تاریکی) ایک دوسرے کی ضد (یعنی اُلٹ) ہونے کی وجہ سے باہم جمع نہیں ہوسکتے۔ بِلاتمثیل حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نورِ الٰہی کا ایسا چمکتا دَمکتا سورج ہیں کہ جس کی روشنی سے تمام جہاں ہے لیکن اس نورِ الٰہی کے سورج کا اپنا سایہ نہیں ہے ۔


چنانچہ امام جلالُ الدّین سُیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیِّدُنا ذَکْوان رضی اللہ عنہ کی روایت نَقْل فرماتے ہیں کہ : اَنَّ رَسُوْلَ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم لَمْ یَکُنْ یُریٰ لَہٗ ظِلٌّ فِیْ شَمْسٍ وَ لَا قَمَرٍ یعنی سُورج اور چاند کی روشنی میں سرکارِمدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ نظر نہیں آتا تھا۔ (الخصائص الکبریٰ جلد 1 صفحہ 116،چشتی)


نیز سایہ نہ ہونے کے متعلّق نقل فرماتے ہیں کہ قَالَ ابنُ سبع: مِنْ خَصَائِصِہٖ اَنَّ ظِلَّہُ کَانَ لَا یَقَعُ عَلَی الْاَرْضِ وَاَنَّہُ کَانَ نُوْراً  فَکَانَ اِذَا مَشیٰ فِی الشَمْسِ اَوِ الْقَمَرِ لَا یُنْظَرُ لَہُ ظِلٌّ یعنی  ابنِ سبع  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا : رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا کیونکہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نُور ہیں، آپ  علیہ السَّلام  جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو سایہ دِکھائی نہ دیتا  تھا ۔ (الخصائص الکبری جلد 1، صفحہ 116)


اسی طرح   امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ : مِنْ اَنَّہُ کَانَ لَاظِلَّ لِشَخْصِہٖ فِیْ شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ لِاَنَّہُ کَانَ نُوْراً یعنی حضور پُرنُور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسمِ اقدس  کا سایہ نہ دُھوپ میں ہوتا اور نہ چاندنی میں،اس لئے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نُور ہیں ۔ (الشفاء،ج1،ص368)


وہی نورِحق وہی ظِلِّ ربّ،  ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب

نہیں ان کی مِلک میں آسماں، کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں


حضرت سیدنا عبداللہ ابن مبارک اور حافظ جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں :لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم لقم مع شمس الا غلب ضوءہ ضوءھا ولا مع السراج الا غلب ضوءہ ضوءہ۔

سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم پاک کا سایہ نہیں تھا نہ سورج کی دھوپ میں نہ چراغ کی روشنی میں، سرکار کا نور سورج اور چراغ کے نور پر غالب رہتا تھا۔ (الخصائص الکبرٰی ج1، صفحہ68 از نفی الظل، علامہ کاظمی زرقانی علی المواہب ج4 صفحہ 220، جمع الوسائل للقاری ج1 صفحہ 176)


امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی کتاب نوادر الاصول میں حضرت ذکوان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں : عن ذکوان ان رسول اللہ علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل فی شمس ولا قمر

سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاندنی میں۔ (المواہب اللدنیہ علی الشمائل المحمدیہ صفحہ30 مطبع مصر،چشتی)


امام نسفی تفسیر مدارک شریف میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:قال عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان اللہ ما اوقطع ظلک علی الارض لئلا یضع انسان قدمہ علی ذالک الظل۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ خدا عزوجل نے آپ کا سایہ زمین پر پڑنے نہیں دیا تاکہ اس پر کسی انسان کا قدم نہ پڑ جائے۔ (مدارک شریف ج2 صفحہ 103)


حضرت امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خصائص کبرٰی شریف میں ابن سبع سے یہ روایت نقل فرمائی:قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لا یقع علی الارض لانہ کان نورا اذا مشی فی الشمس اولقمر لا ینظرلہ ظل قال بعضھم ویشھدلہ حدیث قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ودعائہ فاجعلنی نورا ۔

ابن سبع نے کہا کہ یہ بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے کہ سرکار کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ نور تھے، آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں جب چلتے تھے تو سایہ نظر نہیں آتا تھا۔ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ اس واقعہ پر حضور کی وہ حدیث شاہد ہے جس میں حضور کی یہ دعاء منقول ہے کہ پروردگار مجھے نور بنا دے۔ ( خصائص کبرٰی ج1 صفحہ68،چشتی)


اس مسئلہ کا ثبوت اسلاف کے اقوال سے


امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “لم یقع ظلہ علی الارض ولا یری لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نورا قال زرین فغلبہ انوارہ۔“حضور کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور نہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں سایہ نظر آتا تھا، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، زریں نے کہا کہ حضور کا نور سب پر غالب تھا۔ (النموذج اللبیب)


وقت کے جلیل القدر امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “وما ذکر من انہ لاظل لشخصہ فی شمس ولا فی قمر لانہ کان نورا وان الذباب کان لا یقع علی جسدہ ولا ثیابہ۔“ یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جسم مبارک کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے حضور نور تھے ۔ (شفا شریف لقاضی عیاض جلد 1 صفحہ 342۔ 343،چشتی)


امام علامہ احمد قسطلانی ارشاد فرماتے ہیں: “قال لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل فی شمس ولا قمر رواہ الترمذی عن ابن ذکوان وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نورا فکان اذا مشی فی الشمس او القمر لہ ظل۔“ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندی میں، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، اسی لیے چاندنی اور دھوپ میں چلتے تھے تو جسم پاک کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (موالب اللدنیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 180)(زرقانی جلد 4 صفحہ 220،چشتی)


امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : “ومما یوید انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم صار نورا انہ اذا مشی فی الشمس اوالقمر لا یظھر لہ ظل لانہ لا یظھر الا لکشیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم قد خلصہ اللہ تعالٰی من سائر الکشافات الجسمانیہ وصیرہ نورا صرفا لا یظھر لہ ظل اصلا۔“ اس بات کی تائید میں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے اسی واقعہ کا اظہار کافی ہے کہ حضور پاک کے جسم مبارک کا سایہ نہ دھوپ میں پڑتا تھا، نہ چاندنی میں، اس لئے کہ سایہ کثیف چیز کا ہوتا ہے، اور خدائے پاک نے حضور کو تمام جسمانی کثافتوں سے پاک کرکے انہیں “نور محض“ بنا دیا تھا اس لئے ان کا سایہ نہیں پڑتا تھا ۔ (افضل القرٰی صفحہ72،چشتی)


محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: نبود مرآں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم را سایہ نہ در آفتاب و نہ در قمر۔ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندنی میں ۔ (مدراج النبوۃ ج1، صفحہ21)


امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سایہ نبود در عالم شہادت سایہ ہر شخص از شخص لطیف تراست چوں لطیف ترازدے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم در عالم نباشد اور اسایہ چہ صورت دارد۔“ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہر چیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے، اور سرکار کی شان یہ ہے کہ کائنات میں ان سے زیادہ کوئی لطیف چیز ہے ہی نہیں، پھر حضور کا سایہ کیونکر پڑتا۔ (مکتوبات امام ربانی ج3 صفحہ147 مطبوعہ نو لکشور لکھنئو۔)


امام راغب اصفہانی (م450) ارشاد فرماتے ہیں: “روی ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کان اذا مشی لم یکن لہ ظل۔“ مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا تھا۔ (المعروف الراغب)


امام العارفین مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں


چوں فناش از فقر پیرایہ شود

او محمد وار بے سایہ شود


جب فقر کی منزل میں درویش فنا کا لباس پہن لیتا ہے، تو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرح اس کا بھی سایہ زائل ہو جاتا ہے ۔ (مثنوی معنوی دفتر پنجم)


امام المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “از خصوصیاتے کہ آن حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم رادر بدن مبارکش دادہ بودن کہ سایئہ ایشاں برز میں نہ می افتاد۔“ جو خصوصیتیں نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک میں عطا کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔


اب ان تمام دلائل کی روشنی میں آپ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے فیصلہ کیجئے کہ جسم کے سایہ کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہونا چاہئیے ؟ مذید اگر اس سے تفصیل میں جانا چاہتے ہیں تو اعلٰی حضرت اہلسنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس مسئلہ پر مبسوط بحث فرمائی ہے۔ “جو قمر التمام فی نفی الفی والظل عن سیدالانام“ اور “نفی انفی عمن بتورہ اناء کل شئی۔“ کے نام سے رسالے کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔ اس کا مطالعہ کیجئے جس میں انھوں نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ حضور کے سایہ نہ ہونے کا عقیدہ عوام کا اختراع نہیں ہے بلکہ حدیث اور سلف صالحین سے ثابت ہے ۔


قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِيْنٌ .

ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔(المائده، 5 : 15)


يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا آرْسَلْنٰکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّراً وَّنَذِيْراً وَّ دَاعِيًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِه وَسِرَاجًا مُّنِيْراً ۔

ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب۔(الاحزاب، 33 : 46)


ان دو آیتوں میں اللہ تعاليٰ نے واضح طور پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور اور چمکا دینے والا آفتاب قرار دیا ہے۔


نور و ظلمت : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور و آفتا ب ہوئے۔ روشن کرنے والے ہوئے تو لا محالہ ظلمت و اندھیرے کا آپ سے تعلق نہ رہا کہ وہ روشنی کی ضد ہے۔ فرمان باری تعاليٰ ہے۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ ۔ ترجمہ : سب تعریفیں اللہ تعاليٰ کے لئے جس نے


السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ. ثُمَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ.

ترجمہ : آسمان اور زمین پیدا فرمائے اور اندھیرے اور نور پیدا فرمائے۔ پھر کافر لوگ (دوسروں کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔(الانعام، 6 : 1)


کیا نور و ظلمت برابر ہیں ؟


قُلْ هَلْ يَسْتَوِيْ الْاَعْمٰی وَالْبَصِيْرُ اَمْ هَلْ تَسْتَوِيْ الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ.

ترجمہ : تم فرماؤ! کیا اندھا اور انکھیارا برابر ہیں؟ یا کیا برابر ہیں اندھیریاں اور نور۔

(الرعد،13 : 16)


اللہ کا حکم، انبیاء کا منصب : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰيٰتِنَا آنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

ترجمہ : اور بے شک ہم نے موسيٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لا۔(ابراهیم، 14 : 15)(دعا گو : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


الٰر. کِتَابٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۔

ترجمہ : یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری کہ تم لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکال لائو۔ ان کے رب کے حکم سے۔(ابراهيم، 14 : 1)


اللہ کا کام اور شیطان کا کام : اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا! يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا اُوْلِيٰئُهُمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اُوْلٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خَلِدُوْنَ ۔

ترجمہ : اللہ والی ہے مسلمانوں کا، انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ دوزخ والے ہیں۔ وہی اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(البقرة، 2 : 57)


هُوَالَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِه اٰيٰتٍ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۔

ترجمہ : وہی ہے کہ اپنے بندہ پر روشن آیتیں اتارتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے۔(الحديد، 57 : 9)


ان آیات مبارکہ سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ نور و ظلمت آپس میں متضاد ہیں۔ جہاں ایک ہو دوسرا نہیں ہوسکتا۔ نہ دونوں جمع ہوں، نہ اٹھ سکیں۔ اللہ پاک رسول پاک قرآن ایمان اسلام نور ہیں اندھیرے نہیں۔ نیکی نور ہے اندھیرا نہیں۔ اللہ تعاليٰ اپنے مسلمان بندوں کے لئے نور پسند فرماتا ہے۔ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ شیطان کے دوست کافر اور کافروں کا دوست شیطان شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے کھینچ کھینچ کر اندھیروں میں جھونکتا ہے۔ ان کا فکر و عقیدہ اندھیرا۔ان کا عمل و کردار اندھیرا۔ جبکہ مسلمان کا عقیدہ بھی نور اس کا عمل بھی نور۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سِرَاج مُنِيْر، روشن آفتاب ہیں۔ نور ہیں۔ آپ کا سایہ نہیں ہوسکتا۔


حدیث پاک کی روشنی میں : حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔انی عندالله مکتوب خاتم النبيين وان ادم لمنجدل فی طينته وساخبرکم باول امری، دعوة ابراهيم وبشارة عيسٰی ورؤيا امی التی رأت حين وضعتنی وقد خرج لها نور اضاء لها منه قصور الشام ۔

ترجمہ : میں اللہ کے ہاں آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام کا خمیر مٹی سے بن رہا تھا۔ اب میں تم کو اپنی پہلی بات بتائوں گا۔ کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، عیسی علیہ السلام کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کا وہ منظر ہوں جو میری پیدائش کے وقت انہوں نے دیکھا۔ کہ ان کے جسم اقدس سے عظیم نور نکلا جس سے شام کے محلات ان پر روشن ہوگئے۔(مشکوة ص 513،چشتی)


حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا۔ وجهه مثل السيف. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ روشن تلوار کی طرح چمکتا تھا ؟ انہوں نے کہا لا نہیں ۔ بل کان مثل الشمس والقمر بلکہ سورج اور چاند کی طرح۔ مسلم ۔


حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا۔ لم ارقبله ولا بعده مثله صلی الله عليه وسلم


میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔


ترمذی شریف میں آیا ہے کہ محمد عمار بن یاسر کے بیٹے ابو عبیدہ کہتے ہیں میں نے ربیع بنت معاذ بن عفراء سے عرض کی صفی لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان کریں۔بولیں، بیٹا! اگر تم سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ۔


رَاَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً. دیکھتے کہ سورج طلوع ہورہا ہے۔ دارمی۔


جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی دیکھتا اور چاند کو بھی۔ آپ کے جسم اقدس پر سرخ رنگ کا حلہ تھا،


فاذا هو احسن عندی من القمر.

تو آپ میری نظر میں چاند سے زیادہ حسین تھے۔ ترمذی، دارمی


ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔


مارأيت شيئا احسن من رسول الله صلی الله عليه وسلم.

میں نے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھی۔


کأنّ الشمس تجری فی وجهه.

گویا سورج آپ کے چہرہ اقدس میں پیر رہا ہے۔ ترمذی


ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کرتے۔


کالنور يخرج من بين ثناياه.

گویا سامنے کے دو دانتوں سے نور نکل رہا ہے۔ دارمی


کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ اقدس یوں چمک اٹھتا جیسے قطعۃ قمر چاند کا ٹکڑا ۔ متفق علیہ ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائے نور


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں دعا مانگتے۔اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِيْ قَلْبِيْ نُوْرًا وَّ فِيْ بَصْرِيْ نُوْراً وَّفِی سَمِعْی نُوْراً وَّعَنْ يَمِيْنِيْ نُوْراً وَّعَنْ يَسَارِيْ نُوْراً فَوْقِيْ نُوْراً وَّ تَحْتِيْ نُوْراً وَّاَمَا مِيْ نُوْراً ۔ اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما۔ اور میری آنکھ (نظر) میں نور پیدا فرما۔ میرے کان (شنوائی) میںنور پیدا فرما۔میرے دائیں نور۔ اور میرے بائیں نور، میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور اور 10 میرے لئے نور وَّخَلْفِيْ نُوْراً وَّاجْعَلْ لِيْ نُوْراً. ۔۔۔۔۔۔عصبی، لحمی۔ دمی، شعری، بشری کردے۔۔۔ دوسری روایت میں ہے میرا پٹھہ، گوشت، خون، میرے بال، میرا چمڑا۔(صحيح بخاری ص 935 ج 2 طبع کراچی)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر دعاء مقبول بارگاہ ہے۔ لازم ہے کہ یہ دعائے نور بھی مقبول ہو۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں نور ثابت ہوگئے تو اس دعاء کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی دعاء اس لئے ہوتی ہے کہ جو بندے کے پاس نہیں وہ مل جائے اور کبھی اس لئے کہ جو ہے اس میں برکت ہو۔ اضافہ ہو۔ دوام ہو۔ ہم فاتحہ میں ہمیشہ ہدایت کی اور سیدھی راہ چلنے کی دعاء مانگتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ مانگتے تھے اور ہر مسلمان ہمیشہ یہ دعاء مانگ رہا ہے اور مانگتا رہے گا۔


اس کا یہی مفہوم ہے۔


تو ہے سایہ نور کاہر عضو ٹکڑا نور

سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے، نہ سایہ نور کا


اہل لعنت : النور ههنا هو سيدنا محمد رسول الله صلی الله عليه وسلم ای جاء کم نبی وکتاب.


اس جگہ نور ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یعنی تمھارے پاس نبی تشریف لائے اور کتاب آئی۔


لسان العرب لابن منظور افريقی ص 322 ج 14 طبع بيروت


ابن الاثیر نے کہا نور وہ ہے جس کی روشنی سے اندھا دیکھنے لگتا ہے اور گمراہ راہ پر آجاتا ہے۔


الظاهر فی نفسه المظهر لغيره.


جو خود ظاہر اور دوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو۔ایضاً


فی صفته صلی الله عليه وسلم انور المتجرد.


حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم پاک خالص نور تھا۔


النهاية لابن الاثير الخدری ص 125 ج 5 طبع ايران


امام قاضی ایاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔


انه کان لا ظل لشخصه فی شمس ولا قمر لانه کان نورا. وان الذباب کان لا يقع علی جسده ولا ثيابه.


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دھوپ یا چاندنی میں سایہ نہیں تھا، کیونکہ آپ نور تھے اور مکھی آپ کے جسم اقدس اور کپڑوں پر نہیں بیٹھتی تھی۔


الشفاء بتعريف حقوق المصطفی ص 243 ج 1 طبع مصر


ان النبی صلی الله عليه وسلم کان اذا مثی لم يکن له ظل.


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا۔


مفردات راغب ص 315 طبع کراچی

ظل اور فئی


ظلالهم اشخاصهم.


ان کے ظلال یعنی ذاتیں۔


ابن عباس کی حدیث میں ہے ’’کافر غیراللہ کے آگے سجدہ کرتا ہے اور اس کا ظل یعنی جسم جس کا ظل ہے، اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے‘‘۔ ظل الشئی۔ کنہ کسی چیز کا حفاظتی پردہ۔ ظل کل شئی شخصہ۔ ہر چیز کا ظل، اس کی ذات ۔


لسان العرب لابن منظور ص 261 ج 8 طبع بيروت.النهاية لابن الاثير ص 161 ج 3 طبع ايران


تیرے اور سورج کے درمیان جب کوئی شے حائل ہوجائے تو اس سے پیدا ہونے والا سایہ ظل اور فئی ہے۔ سورج ڈھلتے وقت تک ظل اور س کے بعد فئی کہلاتا ہے۔


نهاية ص 159 ج 3


کبھی ظل بول کر عزت، طاقت اور خوشحالی مراد ہوتی ہے۔ اظلنی فلان۔ حرسنی۔ فلاں نے میری حفاظت کی۔


مفردات ص 314.


ذات کو ظل کہا جاتا ہے جیسے شاعر کہتا ہے۔


لما نزلنا رفعنا ظل اخبية


جب ہم اترے تو خیموں کو نصب کیا۔ یہاں ظل سے مراد خیمے ہیں۔ کہ انہی کو نصب کیا جاتا ہے نہ کہ سائے کو۔


مفردات راغب ص 315 طبع کراچی


الظل من کل شئی شخصه.


ہر چیز کا ظل اس کی ذات۔


تاج العروس سيد مرتضيٰ الزبيدی. ص 426 ج 7 طبع بيروت


جسم کثیف پر جب روشنی پڑتی ہے تو اس کا جسم کا سایہ پیدا ہوتا ہے جو دیوار، درخت یا زمین وغیرہ پر نظر آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم میں نور اور سراج منیر (روشنی دینے والا چراغ) فرمایا گیا ہے لہذا آپ کی نورانیت کی وجہ سے آپ کے جسم اقدس کا سایہ نہ تھا۔ علمائے امت میں سے کسی قابل ذکر عالم نے آپ کی نورانیت کا انکار نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ نور کا انکار کرنے سے اس کی ضد کا اثبات لازم آئے گا۔ اور نور کی ضد ظلمت و اندھیرا ہے۔ کس مسلمان کی ہمت ہے کہ اپنے نبی کی نورانیت کا انکار کرکے اس کی ضد یعنی آپ کو اندھیرا و ظلمت و تاریکی کا نام دے؟ یاد رہے کہ نور کے مقابلہ میں بشر نہیں، اندھیرا ہے۔ نورو بشر میں کوئی تضاد نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں۔ بشر بھی۔ ہاں نور و ظلمت میں تضاد ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر گز ہر گز ظلمت و اندھیرا نہیں مانتے۔ نور مانتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن وحدیث و عربی لغت کے حوالوں سے یہ حقیقت ہم واضح کرچکے ہیں۔ یونہی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بشر مانتے ہیں۔ جو بشریت کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں۔ کہ قرآن و حدیث و حقائق کا منکر ہے۔


سایہ کی روایات اور ان کی حقیقت ومفہوم


سیدہ عائشہ رضی اللہ عہنا فرماتی ہیں کہ دوران سفر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فالتو اونٹ تھا۔ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، صفیہ کا اونٹ بیمار ہوگیا ہے اگر تم اسے اپنا اونٹ دے دو تو بہتر ہو، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بولیں، میں اس یہودیہ کو دوں؟ اس پر رسول الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ذولحجہ اور محرم دو مہینے، یا تین مہینے صفر بھی چھوڑے رکھا۔ ان کے پاس تشریف نہ لاتے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، یہاں تک میں آپ سے مایوس ہوگئی۔ (نہ جانے ملیں نہ ملیں) اور میں نے اپنی چارپائی بستر اٹھالیا۔


فبينما انا يوما بنصف النهار اذا انا بظل رسول الله صلی الله عليه وسلم مقبل.


اسی اثناء میں ایک دن دوپہر کے وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو سامنے سے آتے دیکھا۔(مسند احمد ص 132 ج 6 طبع بيروت،چشتی)


جن حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت سے کد ہے اور بہر صورت آپ کی ذات ستودہ صفات کے لئے تاریک سایہ ثابت کرنے کے درپے ہیں پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے اپنا مدعا ثابت کردیا۔ حدیث پیش کردی۔ حالانکہ ظل کا مطلب ہم نے لغت عرب کی معتبر و مستند کتب سے باحوالہ نقل کردیا ہے کہ جس طرح اس کا مطلب تاریک سایہ ہے اسی طرح ذات بھی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن و حدیث میں نور فرمایا گیا تو آپ کا تاریک سایہ کیسے ہوسکتا ہے؟ نور کی تو نورانی شعاعیں ہوتی ہیں۔ کرنیں ہوتی ہیں۔اس حدیث پاک میں بھی ظل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔


اللہ کا ظل : ہم نے ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا، کہ ظل کا مطلب جیسے مادی کثیف چیزوں کا تاریک سایہ ہے اسی طرح اس کا مفہوم ذات اور شخص ہے۔ لہذا دلائل شرعیہ کو پیش نظر رکھ کر ہی اس کا مفہوم متعین کیا جائے گا مگر بعض کم عقل و بدفہم لوگ اسی بات پر اڑے رہتے ہیں کہ ظل کا مطلب تاریک و کثیف سایہ ہے جیسے ہمارا، تمہارا اور ہر مادی چیز کا۔ وہ اس حدیث پاک پر بار بار غور کریں شاید اللہ پاک شفاء دیدے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ پاک قیامت کے دن فرمائے گا۔ میری عزت و جلال کی بنا پر آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں؟۔


اَلْيَوْمَ اُظِلُّهُمْ فِيْ ظِلِّيْ يَوْمَ لاَ ظِلَّ اِلاَّ ظِلِّيْ . آج میں ان کو اپنے سایہ میں، زیر سایہ رکھوں گا۔ جس دن میرے سائے کے بغیر کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (مشکوة ص 425 بحواله مسلم)


ظل کا لفظ دیکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تاریک کثیف سایہ ثابت کرنے والے ایمان و عقل کو سامنے رکھ کر بتائیں اللہ کا سایہ اسی طرح ثابت کرو گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثابت کرتے ہو ؟


اس تمام تحقیق و گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن و حدیث کے مطابق نور بھی ہیں۔ بشر بھی، نورانیت کی وجہ سے آپ کا تاریک سایہ نہیں تھا۔ آیت و روایت میں جہاں کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ظل کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تاریک سایہ نہیں بلکہ آپ کی ذات اور شخصیت مراد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق سلف و خلف، تمام علماء، محدثین، مفسرین، اہل سیر متفق ہیں۔ مثلاً چند اسماء گرامی ملاحظہ فرمائیں ۔ (حکيم ترمذی عن ذکوان. نور دراالاصول فی معرفة الرسول) (امام عبدالباقی زرقانی. زرقانی شرح مواهب اللدنيه ص 220 ج 4 طبع مصر) (امام راغب اصفهانی. مفردات ص 317 طبع مصر) (امام قاضی عياض. کتاب الشفاء 3.242 ص ج 1 طبع مصر. ) (شهاب الدين خفاجی. نسيم الرياض ص 391 ج 3 مصری) (سيرة حليه ص 422 ج 3 طبع مصر) (تفسيه مدارک ص 102 ج 2 طبع مصر) (تفسير عزيزی. شاه عبدالعزيز. دهلوی30 ص 219) (شيخ عبدالحق محدث دهلوی. مدارج النبوت ص 161 ج 2) (امام ابن حجر مکی. افضل القريٰ) (مجدد الف ثانی. مکتوبات شريف ص 187 . 337 ج 3 طبع نور کشور لکهنو) (مولوی رشيد احمد گنگوهی ديوبندی) (خصائص کبريٰ. سيوطی) (عزيز الفتاويٰ، مفتی عزيز الرحمن ديو بندی وغيره وغيره) ۔ (مزید حصہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ ششم

0 comments

 نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ ششم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اس معاملے سے ہم سبھی بخوبی واقف ہیں کہ یہ دین کا ایک ایسا نقطہ ہے جس نے ہمارے معاشرے کے لوگوں میں اچھا خاصا انتشار پھیلایا ہوا ہے ۔ بات ہے انسانیت کی جان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر ہیں یا نور یہ فیصلہ کرنے والے ہیں ہم گناہگار ۔ اس لیے اس معاملے پر بغیر تحقیق کیے بحث کرنے والوں پر افسوس کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ موضوع کو خاطر میں لاتے ہوئے کچھ عام باتوں کا جاننا بے حد ضروری ہے ورنہ ہم کسی ٹھوس نتیجے پر کبھی نہیں پہنچ سکتے اور یہ طریقہ بغیر تحقیق و علم ، نتیجہ نکالنے سے بے حد بہتر اور موزوں ہے ۔

.

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر ہیں یا نور ، یہ جاننے کےلیے ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ہو گا کہ بشر اور نور ہیں کیا ، ان کی ساخت کیا ہے اور ان کا اللہ کی بنائی ہوئی اشیاء پر کیا ردِعمل ہے ؟


بشر : (سائنس اور حکمت کی رو سے)

بشر کو انسان بھی کہا جاتا ہے اور یہ اللہ کی تخلیق کی گئی ایسی مخلوق ہے جو دنیا میں رہتی ہے اور آسمان پر نہیں رہ سکتی- اس مخلوق کے زندہ رہنے کے لیے آکسیجن، کھانا، پانی اور نیند کا ہونا لازم ہے- یہ مخلوق خلاء میں بغیر خلائی مصنوعات کسی صورت ٹھہر نہیں سکتی کیونکہ خلاء میں بےشمار عجیب و غریب گیسوں کی موجودگی ہوتی ہے اور ان گیسوں کا دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ بغیر احتیاطی مصنوعات انسان خلاء میں داخل ہوتے ہی موقع پہ دم توڑ دیتا ہے- اس سے ثابت ہوا کہ مخلوقِ بشریت ایسی صفات پر مشتمل ہے جن کا تعلق محض دنیا میں قیام کرنے سے ہے ۔


نور : (سائنس اور حکمت کی رُو سے)

اللہ کی ایسی مخلوق جو زمین پر بھی گشت کر سکتی ہے اور خلا میں بھی باآسانی اُڑ سکتی ہے- خلا میں ہواؤں کا دباؤ اور ان کا کیمیائی ردِ عمل، اس مخلوق کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا- یہ مخلوق اللہ پاک کے حکم ہی سے اپنے آپ کو ظاہر کیا کرتی ہے ورنہ نظر نہیں آتی، جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نور تھے اور وہ جب بھی وحی لے کر حاضر ہوا کرتے تھے تو صرف محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہی نظر آیا کرتے تھے خواہ آس پاس دیگر صحابہ بھی موجود ہوتے- اللہ کی یہ مخلوق کسی خوراک، پانی، نیند یا دنیاوی ہوس کی محتاج نہیں- اور خلاء کو چِیر کر باآسانی آگے بڑھ سکتی ہے- نورانی صفات عموماً فرشتوں میں ہی پائی جاتی ہیں انسان میں نہیں-


معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسلامی تاریخ کا وہ خوبصورت واقعہ ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم براق(بجلی کی رفتار والا گھوڑا) پر سوار ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے گئے تھے، اسی رات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خلا میں کئی انبیاء علیہم السلام سے بھی ملاقاتیں کیں، اسی رات امتِ محمدی پر نماز فرض ہوئی تھی، اسی رات سے کلمہ طیبہ میں "محمد الرّسُول اللہ" شامل کیا گیا- اور اس واقعہ کی تصدیق خود قرآنِ مجید نے کی سورہ النجم پارہ ۲۸ کی پہلی اٹھارہ آیات اور اسی طرح واضح طور پر سورہ بنی اسرائیل پارہ ۱۵ آیت ا میں کچھ اس طرح کی کہ " سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ لنریہ من اٰیتنا انہ ہو السمیع البصیر ۔

ترجمہ : "پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جن کے اردگرد ہم نے برکت رکھی اور ہم نے انہیں اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں- بے شک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔"


سرکار اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سفر معراج کا ذکر قرآن مجید کی متعدد آیات میں مفصلاً، مجملاً،کنایتاً اور اشارتاً ملتا ہے اور اس واقعہ کو مرزئیوں کے علاوہ مسلمانوں کے ہر فرقہ نے جائز اور مستند مانا ہے-


اس واقعے میں انسانیت کی جان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت جبرائیل کے ساتھ دنیا کی حدود سے باہر نکلے، خلا میں پہنچے اور وہاں بہت سے انبیاء سے باری باری ملاقات کی- اس کے بعد مزید آگے گئے اور ایک مقام پر پہنچے "سدرہ المنتہیٰ"... یہاں پہنچ کر جبرائیل علیہ سلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے درخواست کی کہ میں فرشتہ ہوں اور یہ مقام میری حد ہے، میں نور کا بنا ہوں اسلیے اگر اس مقام سے آگے بڑھا تو میرے پَر جل جائیں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اقرار کیا اور اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے آگے بڑھنے لگے-


یہ واقعہ تفصیلی طور پر قرانِ پاک میں نہیں مگر اس واقعے کا عمل پانا قرانِ مجید سے مکمل طور پر تصدیق شدہ ہے اسلیے اسے پوری دنیا کے مسلم ممالک میں بچوں کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے- آپ احباب نے بھی پرائمری اسکول میں اسلامیات کے نصاب میں پڑھا ہی ہو گا-


اب ہم اس تحریر کے عنوان کی تہہ پر آتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر ہیں یا نور ؟ بشریت کیا ہے ، نورانیت کیا ہے یہ تو ہم نے اس تحریر میں حکمت اور سائنس کے واضح شواہد سے معلوم کر لیا-

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صرف بشر یعنی انسان ہوتے تو کیا وہ جبرائیل علیہ سلام کے ساتھ خلاء میں اتر سکتے تھے، جہاں ہوا میں اتنے خطرناک کیمیکلز اور دباؤ ہوتا ہے وہاں کھڑے ہو کر اتنے انبیاء کرام سے ملاقات کیسے کر سکتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی قسم کی آکسیجن آویز مصنوعات بھی نہیں لگائی تھیں- یا تو یہاں حکمت فیل ہو گئی یا پھر سائنس- کیونکہ خلا میں صرف وہی قیام کر سکتا ہے جس کے اندر نورانیت بھی ہو- بشر تو وہاں فنا ہو جائے گا - یہ میں نہیں سائنس نے تحقیقات کے بعد ثابت کیا ہے- اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج پر گئے تھے تو یہ بات بھی واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم محض بشر نہیں نور بھی تھے اسی لیے خلا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کوئی نقصان نہ پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنی-

جب سدرہ المنتہیٰ کا مقام آیا تو روح الامین حضرت جبرائیل جو کہ اللہ کے بنائے ہوئے سب سے معزز فرشتے تھے وہاں رک گئے کیونکہ فرشتے نور سے بنے ہیں، نور کی بھی حد مقرر ہے...اور ان کی حد آ چکی تھی مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس مقام سے بھی آگے بڑھے اور اللہ پاک سے جا کر ملے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عروج کی کوئی حد مقرر نہیں تھی اور یہ باتیں میری من گھڑت کہانیاں نہیں قرآن سے ثابت ہیں-


آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا میں سانس لیتے،کھاتے پیتے اور آرام کرتے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر تھے- آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج پر گئے تو پہلے خلاء میں باآسانی گھومتے رہے اور انبیاء سے بھی ملاقات کیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نور بھی تھے- اب نور کی بھی اللہ پاک نے ایک حد مقرر کی ہے اس لیے جبرائیل علیہ السلام سدرہ کے مقام سے آگے نہ بڑھ سکے، اب اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بغیر کسی رکاوٹ کے، اس مقام سے بھی آگے گئے تھے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کا مقام ہماری عقل کے پیمانوں سے بھی کہیں زیادہ ہے- صرف بشریت حتہ کہ نورانیت تک بھی محدود نہیں- یعنی اللہ کی ذات کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقام سب سے افضل ہے اور ان کی صفاتِ اقدس ہم قرانِ کریم کی ہدایت کے بغیر کسی صورت جان ہی نہیں سکتے- بلکہ کچھ صفات تو محض اللہ ہی جانتا ہے کیونکہ اسی نے تو عطا کی ہیں اپنے محبوبِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو- "یہ کم ہے کہ رحمت اللعالمین یعنی تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر بھیجا" ۔

سمجھدار لوگوں سے گزارش ہے کہ خدارا ان لوگوں سے بحث نہ ہی کیجئے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقام سمجھنے سے قاصِر ہیں- وہ قرانِ مجید کی حکمت پر غور نہیں کرتے- جب تک قران کی آیات کی گہرائی میں نہیں جائیں گے، غوروفکر نہیں کریں گے اسلام کی حقیقتوں سے متعلق نشانیاں نہیں ملیں گی- جیسا کہ اللہ پاک نے خود فرمایا:


إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ان آیات میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں"۔(سورہ الروم ۲۱)


حدیثِ نور اور نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم


يا جابر إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره ، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله تعالى ، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ولا سماء ولا أرض ولا شمس ولا قمر ولا جني ولا إنسي ، فلما أراد الله تعالى أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول القلم ، ومن الثاني اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول حملة العرش ومن الثاني الكرسي ومن الثالث باقي الملائكة ، ثم قسم الجزء الرابع إلى أربعة أجزاء فخلق من الأول نور أبصار المؤمنين ومن الثاني نور قلوبهم وهي المعرفة بالله ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله ثم نظر إليه فترشح النور عرقاً  فتقطرت منه مائة ألف قطرة ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا اور یہ الله کی قدرت سے جہاں الله چاہتا جاتا اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم نہ جنت نہ جہنم نہ فرشتے نہ آسمان نہ زمین نہ سورج نہ چاند نہ جن و انس- پس جب الله نے ارادہ کیا خلق  کرنے کا تو اس نور کے چار ٹکرے کیے- ایک جز سے قلم بنا دوسرے سے لوح ،  تیسرے سے عرش،  پھر چوتھے کے بھی چار جز اور کیے ان میں سے ایک سے عرش کو اٹھانے والے، دوسرے سے کرسی ، تیسرے سے باقی فرشتے –  پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے  مومنوں کی آنکھوں کا نور بنا،  دوسرے سے دلوں کا نور جو الله کی   معرفت ہے ،  تیسرے سے ان کے نفسوں کا نور جو توحید ہے لا إله إلا الله محمد رسول الله –  پھر اس (کلمہ) پر نظر کی تو اس  نور سے پسینہ  نکلا  جس سے ایک لاکھ قطرے اور نکلے ۔


حضرت سیّدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوداپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا:اے جابر! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔( الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص 63، حدیث:18، مواھب لدنیہ،ج1،ص36) حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّکے ہاں نور تھا ۔ (مواھب لدنیہ،ج1،ص39) ۔ (الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری ) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف ( مصنَّف عبدالرزاق )(الحافظ شھاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی( متوفی ٩٢٣ ھجری )(علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی( متوفی ١٠٣٨ ھجری )النور السّافر عن اخبار القرن العاشر)(العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون)(امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری ( متوفی ١١٢٢ ھجری ) شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی))(المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس)(حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)(قصص الانبیاء صفحہ نمبر 23 عبد الرشید قاسمی دیوبندی)(مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ،چشتی)


(1) الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری ) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف ( مصنَّف عبدالرزاق )


(2) الحافظ شھاب الدین ابوالعباس  احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی( متوفی ٩٢٣ ھجری )المواھب اللدنیّہ بالمنح المحمدیّہ

الجزء الاول


(3) علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی( متوفی ١٠٣٨ ھجری )النور السّافر عن اخبار القرن العاشر


(4) العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون


(5) امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری

( متوفی ١١٢٢ ھجری )شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی


(6) المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی

( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس


(7) حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ


(8) مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ


توثیق امام عبدالرازاق رحمۃ اللہ علیہ


امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ۔ قال احمد بن صالح مصری قلت لا حمد بن ھنبل ۔ارائیت احدا احسن حدیث من عبدالرازاق قال لا ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211)


اس کے علاوہ امام یحیٰبن معین یعقوب بن شیبہ نے امام کو ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211)


قال امام الجرح والتعدیل  : لو ارتد عبدالرازاق ما ترکنا حدیثا ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211 و میزان اعتدال ج2 ص 612)


امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کو ثقہ لکھا ۔ (تقریب التہذیب 211)

امام زہبی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ثقہ لکھا ۔ (میزان اعتدال)

صیح بخاری میں آپ سے تقریبا 120 کم وبیش احادیث مروی ہے اسی طرح مسلم میں 289 احادیث مروی ہیں ۔


مندرجہ ذیل کتب میں آپ کا تذکرہ ہے

العبر

المغنی

لسان المیزان

الطبقات الکبری

الجر ح و تعدیل

البدایہ و النہایا


اس کے علاوہ متعدد کتب میں آپ کا تذکرہ ہے ۔


نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمائے دیوبند و اہلحدیث کی نظر میں


مسلمانوں کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور ﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ،

ضابطہ اور اصول یہ ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کو دلیل و تلبیہ سے ثابت کرے اور سائل مد مقابل مخالف مدعی کے پیش کردہ دلائل کا رد و ابطال کرے ۔ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور ﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ، اہل سنت و جماعت جب اس دعویٰ پر بطور دلیل متعدد آیات قرآنیہ ، احادیث صحیحہ ، جلیل القدر مفسرین و محدثین کرام ، ائمہ دین متین علیہم الرّحمہ کی تصریحات اور گرانقدر ارشادات و فرمودات پیش کرتے ہیں تو منکرین نورانیت مصطفی علیہ التحیتہ والثناء وہابیہ بہر نوع بہرصورت ان دلائل و شواہد کے رد و ابطال کی کوشش کرتے ہیں اور خدا داد شانِ نورانیت کو مٹانے کی مذموم سعی کرتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود اکابر وہابیہ دیابنہ کا اپنی متعدد کتب و رسائل میں ہمارے دلائل و شواہد ضبط تحریر میں لاکر سرکار اقدس صلى الله عليه وسلم کے لئے نورانیت مقدسہ ثابت کرنا اہلسنت و جماعت کی حقانیت و صداقت اور عقیدہ و دعویٰ کے مضبوط و مستحکم ہونے اور منکرین کے ساکت و عاجز ہونے اور اصول و ضوابط سے عاری ہونے کی بیّن دلیل ہے ۔ علمائے دیوبند و علمائے اہلحدیث کی مستند و معتبر کتب سے چند حوالہ جات ہدیہ قارئین ہیں ۔


علامہ رشید احمد گنگوہی قدجاء کم من ﷲ نور و کتاب مبین کا ترجمہ لکھتے ہیں : تحقیق آئے ہیں تمہارے پاس ﷲ کی جانب سے نور اور کتاب مبین‘‘ نور سے مراد حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات پاک ہے ۔ حق تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو نور فرمایا اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم سایہ نہیں رکھتے تھے اور یہ واضح ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں ۔ (امداد السلوک ص 156)

نیز لکھتے ہیں ’’حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور مومنوں کو میرے نور سے‘‘ ۔ (امداد السلوک ص 157)

نیز لکھتے ہیں ’’آپ کی ذات اگرچہ اولاد آدم میں سے ہے لیکن آپ نے اپنی ذات کو اس طرح مطہر فرمایا کہ اب آپ سراپا نور ہوگئے‘‘ ۔ (امداد السلوک ص 85)


علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : (آیت مقدسہ میں) نور سے مراد حضور صلى الله عليه وسلم ہیں ۔ اس تفسیر کی ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ مراد اوپر بھی قد جاء کم رسولنا فرمایا ہے تو یہ قرینہ ہے کہ اس پر کہ دونوں جگہ جاء کم کا فاعل ایک ہو‘‘ ۔ (رسالۃ النور ص 31)


علامہ عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں : نور سے اشارہ ہے رسالت محمدی کی جانب اور کتاب مبین سے قرآن کی جانب‘‘ ۔ (تفسیر ماجدی جلد اول ص244)


علامہ ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی لکھتے ہیں : بے شک ﷲ کی طرف سے تمہارے پاس نور آچکا (یعنی نبی آخرالزمان) اور کتاب روشن (یعنی قرآن پاک) ۔ (تفسیر فیوض القرآن ،صفحہ 239،چشتی)


علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : شیخ عبدالحق (محدث دہلوی) رحمۃ ﷲ علیہ نے اول ما خلق اﷲ نوری کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص 373)


علامہ حسین احمد مدنی نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے ۔ (الشہاب الثاقب ص 47)


شاہ اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں : جیسے کہ روایت ’’اول ماخلق اﷲ نوری‘‘ اس پر دلالت کرتی ہے‘‘ ۔ (یک روزہ ص 11)


علامہ اشرف علی تھانوی نے حضرت جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت بحوالہ امام عبدالرزاق رحمۃ ﷲ علیہ نقل کی اور اس پر اعتماد کیا ۔ (نشر الطیب ص 6)


نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلکہ اپنے علماء و مشائخ کے لئے بھی نورانیت ثابت کرنا علمائے دیوبند کی کتب و رسائل سے ثابت ہے :


علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ ﷲ علیہ کو نوری اس لئے کہتے ہیں کہ آپ سے کئی بار نور دیکھا گیا ’’ ۔ (امداد السلوک ص 157)


علامہ محمود الحسن علامہ رشید احمد گنگوہی کو نور مجسم اور قبر کو تربت انور قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :


چھپائے جامۂ فانوس کیونکر شمع روش کو

تھی اس نور مجسم کے کفن میں وہ ہی عریانی

تمہاری تربت انور کو دے کر طور سے تشبیہ

کہو ہوں بار بار ’’ارنی‘‘ میری دیکھی بھی نادانی

(مرثیہ گنگوہی ص 12)


علامہ عاشق الٰہی بلند شہری لکھتے ہیں : پس بے نظیر شیخ وقت اور بے عدیل قطب زماں کی سوانح کوئی لکھے تو کیا لکھے بھلا جس مجسم نور اور سرتاپا کمال کا عضو عضو اور رواں رواں ایسا حسین ہو کہ عمر بھر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے بھی سیری نہ ہوسکے۔ اس کے کوئی محاسن بیان کرے تو کیا کرے‘‘ ۔ (تذکرۃ الرشید پہلا حصہ ص 3)


علامہ سرفراز گکھڑوی حضرت شیر ربانی رحمۃ ﷲ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : دیوبند میں چار نوری وجود ہیں ۔ ان میں سے ایک (انور) شاہ صاحب ہیں ۔ (عبارات اکابر ص 37)


مکبہ فکر دیوبند معروف رسالہ میں لکھا ہے ’’مولانا احمد علی صاحب اﷲ تعالیٰ کے انوار میں سے ایک نور تھے ۔ (رسالہ خدام الدین لاہور 24 مئی1992ء)

نیز اسی میں لکھا ہے : علامہ (شمس الحق) افغانی نے دریافت فرمایا حضرت (مخاطب مولوی احمد علی ہیں) کیا وجہ ہے کہ سید (احمد) صاحب کی قبر پرانوار مولانا (اسماعیل) کی بہ نسبت کم معلوم ہوتے ہیں ۔ (رسالہ خدام الدین 22 فروری 1963)


علامہ حسین احمد مدنی کے بارے میں مکتبہ فکر دیوبند کے معروف اخبار میں لکھا ہے : اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (یعنی ٹانڈوی صاحب) عالم نور میں رہتے ہیں ، ان کی آنکھوں میں بھی نور ہے۔ ان کے دائیں بھی نور ہے،ان کے بائیں بھی نور ہے ، ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہے وہ خود نور ہوگئے ہیں ۔ (روزنامہ الجمعیت دہلی شیخ الاسلام نمبر ص 12، 1958،چشتی)


علامہ رفیع الدین لکھتے ہیں : وہ شخص (یعنی قاسم نانوتوی) ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیاگیا ۔ (حکایات اولیاء یعنی ارواح ثلاثہ ص 259، سوانح قاسمی جلد اول ص 130)


اس عبارت میں بھی بانی دیوبند علامہ قاسم نانوتوی صاحب کو نور کہا گیا ہے کیونکہ روایت ہے خلقت الملائکۃ من نور یعنی فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے ۔ (مسلم شریف جلد دوم ص 413)


اہلحدیث عالم علامہ ثناء ﷲ امرتسری نے قد جاء کم ۔۔۔ الخ آیت مقدسہ کا ترجمہ یوں کیا ’’تمہارے پاس اﷲ کا نور محمد صلى الله عليه وسلم اور روشن کتاب قرآن شریف آئی‘‘ ۔ (تفسیر ثنائی جلد اول ص 362)

نیز لکھتے ہیں ’’ہمارے عقیدے کی تشریح یہ ہے کہ رسول خدا ، خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے نورہیں‘‘ ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد دوم ص 93،چشتی)


مشہور اہلحدیث عالم علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : ﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا، پھر پانی ، پھر پانی کے اوپر عرش کو پیدا کیا ، پھر ہوا ، پھر قلم اور دوات اور لوح پھر عقل کو پیدا کیا، پس نور محمدی آسمانوں اور زمین اور ان میں پائی جانے والی مخلوق کے لئے مادہ اولیہ ہے‘‘ نیز حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ قلم اور عقل کی اولیت اضافی ہے ۔ (ہدیۃ المہدی ص 56)


مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی لکھتے ہیں : نور النبی تجلی رحمۃ‘‘ یعنی نور نبی تجلی رحمت ہے ۔ (نفح الطیب ص 60)


مشہور اہلحدیث عالم حافظ محمد لکھوی لکھتے ہیں : نور نبی دا آپے دیندا لوکاں نوں روشنائی ۔ (تفسیر محمدی 4 ص 201)


مشہور اہلحدیث عالم علامہ پروفیسر ابوبکر غزنوی تقریظ میں لکھتے ہیں : قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ بشر بھی تھے اور نور بھی تھے ۔۔۔ اور صحیح مسلک یہی ہے کہ وہ بشر ہوتے ہوئے از فرق تا بقدم نور کا سراپا تھے ۔ (تحریر 14 دسمبر 1971، تقریظ رسالہ بشریت و رسالت ص 17)


محترم قارئین : ان حوالہ جات کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے جب تمام مکاتب فکر کے علماء اس مسلہ پر متفق ہیں تو پھر نفرتیں کیوں آیئے سب مل کر ان نفرتوں کو مٹائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شانیں محبت و عقیدت سے بیان کریں اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔


سایہ مُصطفٰی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم


امام نیشا پوری رحمة اللّٰه علیہ نے لِکھا ہے کہ : آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے لِکھنا اس لیے اِختیار نہیں فرمایا کہ جس وقت آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم لِکھتے تو قلم اور ہاتھ کا سایہ اللّٰه تعالٰی کے اِسمِ مُبارک پر پڑتا،آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اللّٰه تعالٰی کے اِسمِ مُبارک کی بے ادبی کے باعث لِکھنا اِختیار ہی نہ فرمایا تو اللّٰه تعالٰی نے فرمایا! اے میرے محبوب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! اگر آپ اپنے ہاتھ اور قلم کے سایہ کو میرے اِسم پر پڑنے کو گوارا نہیں فرماتے تو میں بھی آپ کے لیے آپ کے غلاموں کو حُکم فرماتا ہوں کہ وہ آپ کے سامنے اونچا نہ بولیں اور آپ کا سایہ بھی زمین پر پڑنے نہیں دیتا تاکہ آپ کے سایہ پر کسی کے قدم نہ پڑیں تاکہ آپ کی بے ادبی نہ ہو ۔ (تفسِیر رُوح البیان جِلد ۸،صفحہ ۲۰،چشتی)


‏ربابِ نظر کو کوئی ایسا نہ مِلے گا

بندے تو ملیں گے پر مولا نہ مِلے گا

تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانیء محمد

ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ مِلے گا


"تمام مخلوق کا وجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وجہ سے ہے"


حضرت آدم  علیہ السلام اور تمام مخلوق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وجہ سے ہیں۔


حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو وحی بھیجی کہ ہماے محبوب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لاٶ اور اپنی امت کو بھی ہدایت کرو کہ وہ بھی ایمان لائیں اگر میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو پیدا نہ کرتا تو آدم، جنت ونار کو بھی وجود نہ بخشتا اور میں نے عرش پانی پر پیدا کیا تھا وہ حرکت کرنے لگا تو میں نے لاالہ الااللّٰہ محمدٌ رسول اللّٰہ اس پر لکھ دیا تو وہ ٹہھرگیا۔


سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہ ہوتے تو میں جنت اور نار پیدا نہ کرتا، 


نیز اسی مضمون کی روایت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا کہ اللہ پاک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہیں کہ اگر میں نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حبیب بنایا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے زائد باعزت اپنے نزدیک اور کوئی نہیں بنایا ہے اور میں نے دنیا اور دنیا والوں کو اس لئے پیدا کیا تاکہ تمہاری عزت وبزرگی کا اُن کو تعارف کرائوں اور اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا، 


حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اے محمد میری عزت وجلال کی قسم اللہ تم کو پیدا نہ کرتا تو ارض وسموات کو پیدا نہ کرتا اور نہ آسمان اٹھاتا اور نہ زمین بچھاتا، 


 حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے

 کہ اللہ پاک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے فرمایا کہ تمہاری وجہ سے میں نے ارض بطحاء کو بچھایا ہے اور پانی میں موجیں پیدا کی ہیں، آسمان بلند کیا ہے، ثواب وعقاب جنت ونار پیدا کئے ہیں، 


عارف باللہ سید علی بن ابی الوفاءؒ جو مشہور صالحین، عابدین میں شمار ہوتے ہیں فرماتے ہیں ۔

قلب کو قرار ہوا ہے لہٰذا اے بدن تو اب آرام سے وقت گذار ۔ ان شاء اللہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں، تمام اشیاء کے وجود کی روح وہ فردِ فرید ہے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو کسی صاحبِ وُجود کو وُجود نہ ملتا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام۔ اور تمام بڑے انسان اگر آنکھ کے درجہ میں ہیں تو وہ اُن آنکھوں کا نور وجمال ہے اگر شیطان بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نور کی نورانیت دیکھ لیتا آدم علیہ السلام کے چہرہ میں تو سب سے پہلے سجدہ کرتا اور اگر نمرود ملعون بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جمال جہاں آرا کو دیکھ لیتا تو جلیلِ تعالیٰ کی خلیل اللہ کے ساتھ عبادت کرتا اور عنادنہ کرتا مگر اللہ کا جمال ونور ہر ایک کو دکھایا بھی نہیں جاتا وہی دیکھ سکتا ہے جس کو اللہ پاک کی توفیق میسر ہو، 


سبحان اللہ شیخ علی بن ابی الوفا علیہ الرحمہ نے کس قدر عمدہ مضامین ان اشعار میں جمع فرمادیے ہیں جو اہلِ محبت کےلیے شرابِ طہور ہیں ۔ (سبل الھدی والرشاد, ص؍ ۷۶؍ج۱)


بشر سے "ب" نکال دیں تو "شر" رہ جاتا ہے, اور "شر" اشرف المخلوقات کے مقام سے گِرنا ہے. "شر" کو بسم اللہ والے نے بسم اللہ کی "ب" عطا کر کے اِس کو "شر" سے بشر بنایا, بشر کو یہاں سے آگے کی طرف سفر کرنا ھے, نہ کہ پیچھے کی طرف.

یہاں سے "اشرف" کا "الف" ہٹا لیا جائے گا اور "شرف" کی طرف اِس کا سفر شروع ہوگا. اب اِسے مزید "شرف" حاصل کرنے ہونگے اور "شرف" کے لیے یہ "میم" کا محتاج ہے. "میم" کی مدد سے ہی یہ "شرف"سے "مُشرف" ہو گا.

"احد" میں "میم" مِلا تو "احمد" ہوا. اب اِس بشر کا سفر "احمد" کی "دال" سے شروع ہوگا جو کے دنیا ہے. "د" سے یہ "میم" تک پہنچے گا جو کے "محمد" ہے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) "محمد" اِسے "ح" سے متعارف کرائیں گے جو کے "حق" ہے. اور "حق" کے بعد اِسے "الف" پھر سے واضح دِکھائی دے گا جو کہ "اللہ" ہے ۔ ا-ح-م-د 👉 احمد ۔

"شر" کو "ب" کی طاقت دے کے "بشر" بنایا, اور "الف" سے "شرف" دے کے "اشرف" کا مقام بخشا ۔

"ا ل م" آپ "میم" کے اِس طرف کھڑے ہیں, نہ کہ "الف" کے اُس طرف. آپ "میم" (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) سے جب تک فیضیاب نہیں ہونگے "لام" (لا الہ الا اللہ) تک نہیں پہنچ سکتے, "لام" کی روشنی کے بعد ہی آپ کو "الف" ( اللہ ) کا مقام دِکھے گا ۔

یہی آپ کا سفرِ امتحان ہے جو عشق کے بنا ممکن نہیں ۔ اور اگر اس سفر میں کوئی عشق والا راہبر مل جائے کہ جسے "م" سے آشنائی ہو تو پھر "ا"  تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے ۔ (مزید حصہ ہفتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ پنجم

0 comments

 نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ پنجم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : جمہور علمائے اہلسنت و اجماعت کے نزدیک حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نوری بشر ہیں ۔ ہم پر یہ الزام لگانا کہ ہم نعوذبااللہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بشر نہیں سمجھتے یہ بہتان ہے کہ خود ہمارے اکابرین کا یہ فتوٰی ہے کہ انبیا کی بشریت کا انکار کفر ہے ۔


فَٱتَّخَذَتْ مِن دُونِهِم حِجَاباً فَأَرْسَلْنَآ إِلَيْهَآ رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَراً سَوِيّاً ۔

تو ان سے ادھر (یعنی اپنے اور گھر والوں کے درمیان) ایک پردہ کرلیا تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا (جبریل علیہ السلام) وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔ (سورۃ المریم آیت 17)


جبرائیل علیہ سلام نوری مخلوق ہیں ۔ جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے سامنے ظاہر ہوئے تو بشری صورت میں آئے۔ تو اس وقت ان کی نورانیت ذائل نہ ہوگئی بلکہ اس وقت بھی حقیقی لحاظ سے نور ہی رہے، لیکن ان کا ظہور بشری لباس میں ہوا ۔ اگر نور و بشر ایک دوسرے کی ضد ہوتے تو حضرت جبرائیل علیہ سلام بشری صورت میں تشریف نہ لاتے ۔ اور ایسا بھی نہیں کہ اللہ عزوجل کا اختیار محدود ہے کہ کسی اور صورت اپنی منشا پوری نہ کر پاتا ۔ اللہ عزوجل علیم و خبیر ہے ، اسے معلوم تھا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب بدعقیدہ ایسے مغالطے بھی دیں گے ۔


روح المعانی میں علّامہ سیّد محمود الوسی فرماتے ہیں؛بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک جہتِ ملکیت، جس کی بنا پر آپ فیض حاصل کرتے ہیں۔ اور دوسری جہتِ بشریت جس کی بنا پر آپ فیض دیتے ہیں۔ اس لئے قرآنِ کریم آپ کی روح پر نازل کیا گیا، کیونکہ آپ کی روح ملکی صفات کے ساتھ متصف ہے جن کی بنا پر آپ روح الامین سے استفادہ کرتے ہیں۔(روح المعانی، 19/121)۔


بات ثابت نہ ہوسکے تو پچاس آیات پیش کردینے سے بھی کچھ نہ ہوگا اور ثابت ہوتی ہو تو ایک ہی آیت کافی ہے۔ اس لئے ہم صرف ایک آیتِ مبارکہ پیش کرتے ہیں۔


سورۃ المائدہ آیت 15

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ

بے شک تمہارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔


اسلام کے بیشتر مفّسرین نے اس آیت میں نور سے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مبارکہ مراد لی ہے۔ حتٰی کہ نور اور کتاب کی درمیان آیت میں و بھی اسی بات کی دلالت کرتا ہے کہ دو علیحدہ چیزوں کا بیان کیا جارہا ہے۔


حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت میں نور کی تفسیر رسول سے کرنے بعد فرمایا؛

{ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ } رسول يعني محمداً ۔ (تفسیر تنویرالمقباس)


امام محمد بن جریر طبری نے فرمایا؛باِلنُّورِ مُحَمَّدَا۔ (تفسیرِ کبیر)۔قد جاءكم يا أهل التوراة والإنـجيـل من الله نور، يعنـي بـالنور مـحمداً صلى الله عليه وسلم، ۔(جامع البیان فی تفسیرالقرآن)۔


امام جلال الدین سیوطی نے بھی اس آیت میں نور سے مراد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات بیان کی ہے۔

{قَدْ جَاءكُمْ مّنَ ٱللَّهِ نُورٌ } هو النبي صلى الله عليه وسلم { وَكِتَٰبٌ } قرآن { مُّبِينٌ } بَيِّنٌ ظاهر۔(تفسیرِ جلالین)


امام رازی نے نور کی تفسیر میں متعدد قول نقل کئے ہیں۔ پہلا قول ہے؛{قَدْ جَاءكُمْ مّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَـٰبٌ مُّبِينٌ } وفيه أقوال: الأول: أن المراد بالنور محمد، وبالكتاب القرآن، (تفسیرِ کبیر)۔


علامہ سیّد محمود آلوسی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ؛عظيم وهو نور الأنوار والنبـي المختار صلى الله عليه وسلم۔(روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم)۔


اب یا تو ان تمام مفّسرین کو بدعقیدہ قرار دے ان کر پر بھی کفر کا فتوٰی صادر فرمائیے یا پھر اپنے عقائد کی تصحیح کرکے اللہ عزوجل کے عذاب سے بچئیے۔ اس ٹاپک میں کچھ حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں قرآن جیسی مستند چیز پیش کریں تو یہ وطیرہ منکرِ احادیث کا ہے۔ حدیث بےشک قرآن سے برتر نہیں لیکن معاذاللہ غیرمستند بھی نہیں۔


یہ تو تفاسیر تھیں، مزید اس ضمن میں کئی احادیث موجود ہیں، جس میں سب سے مشہور حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ ہے جسے روایت کرنے والے امام بخاری کے استاذالاستاذ امام عبدالرزاق ہیں۔

رُوِيَ عن جابر بن عبد الله قال: قلت: يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، أخبرني عن أول شيء خلقه الله قبل الأشياء ؟

قال: يا جابر، إن الله - تعالى - خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله، ولم يكن في ذلك الوقت لوح، ولا قلم، ولا جنة، ولا نار، ولا ملك، ولا سماء، ولا أرض، ولا شمس، ولا قمر، ولا جني، ولا إنسي، فلما أراد الله أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء: فخلق من الجزء الأول: القلم، ومن الثاني: اللوح، ومن الثالث: العرش، ثم قسم الجزء الرابع: أربعة أجزاء، فخلق من الجزء الأول حملة العرش، ومن الثاني: الكرسي، ومن الثالث: باقي الملائكة، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء: فخلق من الأول: السماوات، ومن الثاني: الأرضين، ومن الثالث: الجنة والنار، ثم قسم الرابع أربعة أجزاء. فخلق من الأول: نور أبصار المؤمنين، ومن الثاني: نور قلوبهم وهي المعرفة بالله، ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله، ومن الرابع باقي الخلق... الحديث.


اس حدیث کو نقل کرنے والے کچھ محدثین و علما۔


امام ابوبکر احمد ابن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ


امام احمد قسطلانی، مواہب الّدنیہ


امام زرقانی، شرح مواہب الدنیہ


امام محمد المہدی الفاسی، مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات


علامہ دیاربکری، تاریخ الخمیس


امام ابن الحجر، فتاوٰی حدیثیہ


امام عبدالغنی النابلسی، الحدیقہ الندیہ شرح طریقہ محمدیہ


امام حاکم نیشاپوری، المستدرک للحاکم


عارف باللہ شیخ عبدالکریم جیلی، الناموس الاعظم والقاموس الاقدام فی معرفۃ قدر النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم


امام علی بن برہان الدین حلبی شافعی، سیرتِ حلیبیہ


ابوالحسن بن عبداللہ بکری، الانوار فی مولد النبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم


علامہ احمد عبد الجواد دمشقی، السراج المنیر و بسیرتہ استنیر


مولانا عبدالحئی لکھنوی فرنگی محلی، الاثار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعۃ


حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی، مکتوباتِ امامِ ربّانی فارسی


شیخ عبدالحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ


شاہ ولی اللہ دہلوی، التفہیمات الہیہ


لیکن بغض و عناد میں اندھے حضرات اس حدیث کو ضعیف قرار دے کر ردّ کرتے ہیں۔ اوّل تو اصول و ضوابط کے مطابق فضائل میں ضعیف احادیث لائقِ استناد ہوتی ہیں۔ یہ اصول ہمارا نہیں محدثین کا بیان کردہ ہے۔ فرض کیجیئے یہ تمام جلیل القدر علماومحدثین کسی محفل میں تشریف فرما ہوں اور اس حدیث کی توثیق وتصدیق کررہے ہوں تو آجکل کے کسی جعلی ملّے میں یہ جرات ہوگی کہ ان سب کو جھوٹا کہے؟ اس حدیث سے شیخ محقق دہلوی نے بھی استناد فرمایا ہے اور یہ وہی ہیں جن کی سنّدِ حدیث برِصغیر میں سب سے مضبوط مانی جاتی ہے۔ اشرف علی تھانوی نے بھی نشرالطیب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ رشید احمد گنگوہی نے فتاوٰی رشیدیہ میں اس حدیث کے بارے میں شیخ عبدالحق کا اسے نقل کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کے اصل ہونا کا اعتراف کیا ہے۔ اور قربان جائیے میرے غوث سرکارِ بغدار حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ پر جن کا نام ابنِ تیمیہ جیسے بھی احترام سے لیتے ہیں ، اس حدیث کو سرالاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار میں نقل کیا ہے۔


علامہ حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ جب جبرئیل علیہ السلام نے حضورِ پُرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سینہ مبارک چاک کرنے کے بعد قلبِ اطہر کو زم زم کے پانی سے دھویا تو فرمایا؛قَلب سَدِید فِیہِ عَینَانِ تُبصِرَانِ وَاُذنَانِ تَسمَعَانِ۔(فتح الباری شرح بخاری، ج 13، ص 410،چشتی)

قلبِ مبارک ہر قسم کی کجی سے پاک ہے، اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔


سیّدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے سایہ نہ تھا اور نہ کھڑے ہوئے آفتاب کے سامنے مگر یہ کہ ان کا نور عالم افروزخورشید کی روشنی پر غالب آگیا اور نہ قیام فرمایا چراغ کی ضیا میں مگر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تابشِ نور نے اس چمک کو دبا لیا۔(امام عبدالرحمن ابن جوزی، کتاب الوفا 402/2)۔


حضرت امام ربانی شیخ مجدد الف ثانی مکتوبات میں فرماتے ہیں؛ناچاراوراسایہ نبود۔ در عالم شہادت سایہ ہر شخص از شخص لطیف ترست۔ وچوں لطیف تر ازوے در عالم نہ باشداوراسایہ چہ صورت دارد۔

بیشک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سایہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہر چیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے لطیف کائنات میں کوئی چیز نہیں تو پھر آپ کا سایہ کس صورت سے ہوسکتا ہے۔


مزید فرماتے ہیں؛ہر گاہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ازلطافت ظل نہ بود خدائے محمد چگونہ ظل باشد۔

جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے لطیف ہونے کے سبب سایہ نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خدا کےلیے کیسے سایہ ہوسکتا ہے۔


شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدراجِ نبوۃ میں فرماتے ہیں؛نبود مرآں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم راسایہ نہ در آفتاب و نہ در قمر۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سایہ نہ سورج میں پڑتا تھا نہ چاند کی چاندنی میں۔


مزید لکھتے ہیں؛چوں آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین نور باشد نور راسایہ نباشد۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین نور ہیں اور نور کےلیے سایہ نہیں ہوتا۔


حضورِ پُرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سایہ نہ ہونے کی گواہی امام نفسی نے تفسیرِ مدارک میں دی، امام جلال الدین سیوطی نے خصائص الکبریٰ میں دی، قاضی عیاض مالکی نے الشفا میں دی، علامہ شہاب الدین خفاجی نے شرح شفا نسیم الریاض میں دی، علامہ قسطلانی نے مواہب الدنیہ میں دی، محمد بن یوسف شامی نے سبل الہدٰی والرشاد میں دی، علامہ سلیمان بن جمل نے فتوحاتِ احمدیہ شرح ہمزیہ میں دی، امامِ ربّانی مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات میں دی، شیخ عبد الحق دہلوی نے مدارج النبوۃ میں دی، شاہ عبدالعزیز دہلوی نے تفسیرِعزیز میں دی۔


ربِ کائنات نے وہ آنکھ ہی تخلیق نہ کی جو سرورِکونین تاجدارِ دوعالم کے حسن وجمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کرسکے۔ انوارِ محمدی کو اسلئے پردوں میں رکھا گیا کہ انسانی آنکھ جمالِ مصطفٰے کی تاب ہی نہیں لاسکتی۔


امام زرقانی شرح مواہب الدنیہ میں امام قرطبی کا قول نقل کرتے ہیں کہ؛

لم یظھر لنا تمام حسنہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، لانہ لو ظھر لنا تمام حسنہ لما اطاقت اعیننا رویۃ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔


اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرما گئے کہ؛حیرت درجمالِ باکمال وی خیرہ میشد مثل ماہ و آفتاب تاباں و روشن بود، و اگرنہ نقاب بشریت پوشیدہ بودی ھیچ کس را مجال نظر و ادراک حسنِ او ممکن نبودی۔(مدارجِ نبوت، 137/1،چشتی)

حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سرِ انور سے لے کر قدمِ پاک تک نور ہی نور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حسن وجمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جسمِ اطہر چاند اور سورج کی طرح منور وتاباں تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوہ ہائے حسن لباسِ بشری میں مستور نہ ہوتے تو روئے منّور کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہوجاتا۔


اسی لیے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرما گئے؛


وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني

وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ


خلقتَ مبرءاً منْ كلّ عيبٍ

كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے حسین تر میری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں اور آپ سے جمیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیئے گئے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آپ کے رب نے آپ کی خواہش کے مطابق بنایا۔


اور اس کا اعتراف بانئ دیوبند قاسم نانوتوی قصائدِ قاسمی میں اس طرح کرتے ہیں؛


رہا جمال پہ تیرے حجابِ بشریت

نہ جانا کون ہے کچھ کسی نے جز ستار


اور یاد رکھیے گا کہ انبیا علیہم السلام کو فقط بشر مان کر گستاخی کرنے والا ابلیس تھا! امام فخرالدین رازی بیان کرتے ہیں کہ "أن الملائكة أمروا بالسجود لآدم لأجل أن نور محمد عليه السلام في جبهة آدم." فرشتوں کو آدم علیہ سلام کو سجدہ کرنے کا حکم اسی لئے تھا کہ ان کی پیشانی میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جلوہ گر تھا یہی وجہ تھی کہ ملائکہ سجدے میں گر گئے لیکن یہ نور نہ دیکھا تو صرف ابلیس نے۔ پھر یہی وطیرہ آگے مشرکین نے اپنایا جو انبیا کو اپنی مانند بشر قرار دے کر نبوت کا انکار کرتے تھے۔


عوام کو یہ تاثر دینا کہ اہلسنت و جماعت انبیا علیہم السلام کی بشریت کے منکر ہیں یہ صرف اہلِ باطل کا جھوٹا پراپیگنڈا ہے۔ ہمیں بشریت کا اقرار ہے لیکن انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کو اپنے جیسا بشر کہنے کو گستاخی قرار دیتے ہیں۔ قرآنِ کریم اس بات کا گواہ ہے کہ کفّار نے انبیا کو اپنی مثل بشر قرار دیا۔


سب سے پہلے ابلیس نے آدم علیہ سلام کے متعلق فرمایا؛


سورۃ الحجر آیت 33

قَالَ لَمْ أَكُن لأَسْجُدَ لِبَشَرٍ

بولا مجھے زیبا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں۔


حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے کہا؛


سورۃ ھود آیت 27

فَقَالَ ٱلْمَلأُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قِوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلاَّ بَشَراً مِّثْلَنَا

تو اس قوم کے سردار جو کافر ہوئے تھے بولے، ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی (اپنی مثل بشر) دیکھتے ہیں۔


حضرت صالح علیہ السلام کو آلِ ثمود نے کہا؛

سورۃ القمر آیت 23

كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِٱلنُّذُرِ فَقَالُوۤاْ أَبَشَراً مِّنَّا وَاحِداً نَّتَّبِعُهُ إِنَّآ إِذاً لَّفِي ضَلاَلٍ وَسُعُرٍ

ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا تو بولا کیا ہم اپنے میں کے ایک آدمی (بشر) کی تابعداری کریں جب تو ہم ضرور گمراہ اور دیوانے ہیں۔


اسی کے ردّ میں اللہ عزوجل فرماتا ہے؛


سورۃ النور آیت 63

لاَّ تَجْعَلُواْ دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضاً

رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھرا لو جیسا تم میں ایک، دوسرے کو پکارتا ہے۔


انبیاۓ کرام علیہم السلام کو بشر یا تو اللہ عزوجل نے فرمایا، یا خود انبیا علیہم السلام نے یا پھر کفّار نے! اب بھی کوئی نہ مانے تو چاند پہ تھوکا منہ پر ہی آتا ہے ۔ ہم اسی پر بس کرتے ہیں ۔ (مزید حصہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ چہارم

0 comments

 نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ چہارم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ : سب سے پہلے تخلیق قلم کی ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کی کیونکہ قلم کے اول المخلوقات ہونے والی حدیث صحیح ہے ۔ ’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کی تخلیق سب سے پہلے ہونے کی روایت ضعیف ہے صحیح کے مقابل ضعیف کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟

جواب : سب سے پہلے تو ہم یہ ضابطہ ہی تسلیم نہیں کرتے کہ ضعیف کو مطلقاً چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ قانون یہ ہے کہ دلیل قطعی اور ظنی کا جب تعارض آجائے تو ان میں تطبیق دینے کی کوشش کی جائے اگر ان میں تطبیق ثابت ہوجائے تو بہتر ورنہ ظنی کو چھوڑ دیا جائے قرآن پاک میں : فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُo (پ ۲۹ سورۃ المزمل آیت ۲۰) قرآن پاک جہاں سے بھی آسان ہو پڑھو۔ اس آیت سے نماز میں قرآن پاک کا مطلقاً (کسی سورت سے بھی ہو جہاں سے بھی انسان پڑھنا چاہے پڑھ لے) پڑھنا فرض ثابت ہو رہا ہے لیکن حدیث پاک میں ہے: ’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ جس کا ظاہری معنی ہے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔ قرآن پاک کی آیت قطعی الدلالۃ ہے اور حدیث پاک جو خبر واحد ہے ظنی الدلالۃ ہے لیکن حدیث پاک کو مطلقاً چھوڑ دینے کا قول باطل ہوگا بلکہ اہل علم نے ان میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ قرآن پاک کی آیت کریمہ سے نماز میں قرات کی فرضیت ثابت ہو رہی ہے اور حدیث پاک سے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ثابت ہو رہا ہے اب حدیث پاک ’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ کا صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز کامل نہیں نفی کمال کی ہوگی مطلقاً وجود کی نہیں جیسے ’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ‘‘ کا ترجمہ بھی یہی ہوگا کہ جو شخص امانت کا پاس نہیں کرتا اس کا ایمان کامل نہیں۔ اس تمہید کے بعد جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قلم کی تخلیق کی اولیت اضافی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی تخلیق میں اولیت حقیقی ہے۔ یہی قول اہل علم، محققین، متقین اور کامل ایمان والوں کا ہے ہاں البتہ جن کا ایمان ضعیف ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر دلالت کرنے والی احادیث کو ضعیف کر کے رد کرتے ہی رہتے ہیں۔ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗo (پ ۹ سورۃ الاعراف آیت ۱۸۶) جن کے دلوں پر مہر لگا کر گمراہی کا طوق ان کے گلے میں رب تعالیٰ ڈال دے پھر انہیں ہدایت دینے کی کسے مجال ہوسکتی ہے آئیے اہل علم کے ارشادات دیکھیے۔ ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارض بخمسین الف سنۃ قال وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر) سر ور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی مقادیر لکھوادی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔


اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ عرش پہلے موجود تھا علاوہ ازیں قلم کو پیدا کر کے یہ حکم دیا گیا تھا ’’اکتب‘‘ لکھ اس نے عرض کیا کیا لکھوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اکتب القدر‘‘ تقدیر خدا وندی کو لکھ۔ ’’فکتب ماکان وماھو کالن الی الابد‘‘ تو اس نے جو کچھ ہوچکا تھا وہ بھی لکھ دیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا، وہ بھی لکھ دیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ قلم سے پہلے مخلوقات تھی، جس کو ماکان سے تعبیر کیا گیا، جب یہاں اولیت ہی اضافی ہے تو اس حدیث کی آڑ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور اقدس کی اوَلیت سے انکار کرنے کا کیا معنی؟ علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد اول ص ۱۶۶ پر فرماتے ہیں: ’’فی الازھار اول ما خلق اللہ القلم یعنی بعد العرش والماء والماء والریح لقولہ علیہ السلام کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارضین بخمسین الف سنۃ وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم) ’’وعن ابن عباس رضی اللہ عنھما عن قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء علی ای شیء کان الماء قال علی متن الریح‘‘ (رواہ البیہقی و ذکرہ الابھری) از ہار میں ہے کہ قلم کے اول المخلوقات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرش پانی اور ہوا کے بعد یہ پہلی مخلوق ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مقادیر خلائق کو لکھوادیا تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے دریافت کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا عرش پانی پر تھا تو یہ فرمائیے کہ پانی کس پر تھا ؟ انہوں نے فرمایا ہوا کی پشت پر۔ ’’فالا ولیۃ اضافیۃ‘‘ اس سے واضح ہوا کہ ’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ میں اولیت حقیقی نہیں بلکہ اضافہ ہے تو اس صورت میں حدیث نور میں اولیت حقیقی ہونے سے یہ حدیث کیونکر مانع ہوسکتی ہے اور یہی تحقیق علماء اعلام اور مقتدایان نے ذکر کی ہے۔ علامہ علی قاری نے فرمایا: ’’فالاولیۃ اضافیۃ والاول الحقیقی فھو النور المحمدی علی ما بینتہ فی المورد للمولد‘‘ نور محمدی اول تخلیق حقیقی ہے جس طرح کہ میں نے رسالہ المورد للمولد میں اس کی تحقیق بیان کی ہے اور قلم میں اولیت اضافی ہے۔ نیز علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ میں علامہ ابن حجر ھیتمی مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’قال ابن حجر اختلفت الروایات فی اول المخلوقات وحاصلھا کما بینتھا فی شرح شمائل الترمذی ان اول النور الذی خلق منہ علیہ الصلوۃ والسلام ثم الماء ثم العرش اول المخلوقات‘‘ (مرقاۃ جلد اول ص ۱۴۶) ۔ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اول المخلوقات کون سی شے ہے؟ اس میں روایات مختلف ہیں مگر ان میں تطبیق کی صورت وہ ہے جو میں نے شمائل ترمذی میں ذکر کی ہے کہ سب سے اول نور وہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا گیا اس کے بعد پانی اور اس کے بعد عرش۔ علامہ قسطلانی نے اس مسئلہ یعنی قلم کے اول مخلوق ہونے کی بحث کرتے ہوئے فرمایا: ’’اولیۃ القلم بالنسبۃ الی ماعدا النور المحمدی والماء والعرش وقیل الاولیۃ فی کل بالاضافۃ الی جنسہ ای اول ما خلق اللہ من الانوار نوری وکذا فی باقیھا‘‘ ۔ (مواھب لدنیہ مع زرقانی ج ۱ ص ۴۷ ۔ ۴۸) اولیت کے بیان میں روایات مختلف ہیں ان تمام میں تطبیق اور موافقت اس طرح ہے کہ قلم کا اول الخلق ہونا نور محمدی پانی اور عرش کے ماسوا کے اعتبار سے ہے اور یہ توجیہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ہر شے کی اولیت اپنی اپنی جنس کے لحاظ سے ہے یعنی انوار میں سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا گیا اور اقلام میں سے اس قلم کو جس نے تقدیریں لکھیں اور جن اشیاء پر عرش کا لفظ بولا جاتا ہے ان میں سے عرش اعظم کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔ تنبیہ: نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت کے بیان والی حدیث کو صرف ضعیف ایمان والوں نے ضعیف کھا ہے ورنہ امام قسطلانی علامہ ابن حجر ہیتمی ملا علی قاری، علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کسی نے بھی ضعیف نہیں کہا ۔ (ماخوذ از تنویر الابصار صفحہ نمبر ۹۸)


عوام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صرف بشر نہ کہیں: جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ظاہری طور پر بشر ہیں اور باطنی طور پر نور ہیں لیکن عوام جو بشر کے معنی کمال سے بے خبر ہیں وہ لفظ بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ملائیں جو تعظیم پر دلالت کریں اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے سید الاولیاء حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس میں شک نہیں کہ اہل ایمان کے لیے ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بطریق تکریم و تعظیم واجب اور ضروری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ لفظ بشر کے معنی میں بحسب لغت عربیہ عظمت و کمال پایا جاتا ہے یا حقارت میری ناقص رائے میں لفظ بشر مفہوماً و مصداقاً متضمن بہ کمال ہے مگر چونکہ اس کمال تک ہر کس و ناکس سوائے اہل تحقیق و عرفان کے رسائی نہیں رکھتا لہذا اطلاق لفظ بشر میں خواص بلکہ اخص الخواص کا حکم عوام سے علیحدہ ہے، خواص کے لیے جائز اور عوام کے لیے بغیر زیادت لفظ دال بر تعظیم نا جائز‘‘۔ توضیح: آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو بشر کس واسطے کہا گیا؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو شرف مباشرت بالیدین عطا فرمایا گیا ہے۔ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّo (پ ۲۳ سورۃ ص آیت ۷۵) کس چیز نے تجھے اس (آدم) کو سجدہ کرنے سے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ چونکہ ملائکہ کمال آدم علیہ السلام سے بے خبر تھے ایسا ہی ابلیس ’’فقالوا ما قالوا‘‘ (انہوں نے وہ کہا جو کہا) فرق اتنا ہے کہ ملائکہ جتلانے کے بعد سمجھ گئے اور معترفِ بالتصور ہوئے۔ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاo (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۳۲) فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے عطا کیا ہے۔ اور ابلیس کو علاوہ قصور جہل کے غرور بھی تھا لہذا وہ ’’اَبیٰ وَاسْتَکْبَرَ‘‘ شیطان نے انکار کیا اور تکبر کیا ..... کا مصداق بنا۔ بشر ہی کو کمال استجلاء کے لیے مظہر بنایا گیا ہے اور ملائکہ بوجہ نقص مظہریت اس کمال سے محروم ٹھہرے اور مظاہر اور مرایا کمالات استجلائیہ سے از گروہ انبیاء علیہم السلام سیدنا ابو القاسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصالۃ و ازجماعت اولیائے کرام وارث مصرع ’’وانی علی قدم النبی بدر الکمال‘‘ اور میں نبی بدر کمال کے نقش قدم پر ہوں۔ (قصیدہ غوثیہ) سیدنا عبدالقادر وامثالہ رضی اللہ عنہم وراثتاً مظہر اکمل وا اتم لاسمہ الا عظم ٹھہرے، بشر ہی کے لیے تنزل اخیر ہونے کے باعث اس قدر اہتمام ہوا کہ ہئیت اجتماعیہ و ترکیبات اسمائیہ واتصالات و اوضاع ’’انی خمرت طینۃ آدم‘‘ سے لے کر تا ظہور جسد عنصری صلی اللہ علیہ وسلم واتباعہ من الاکمل کو متوجہ کیا گیا ہے اور خدام بنائے گئے تاکہ: ’’من رأنی فقد رأی الحق‘‘ جس نے میرا دیدار کیا اس نے خدائے تعالیٰ کا دیدار کیا (الحدیث) کا آئینہ و چہرہ علی وجہ الکمال اور پورا حق نما ہو۔ قصہ مختصر بشر ہی ہے کہ جس کو ..... گر خواھی خدا بینی در چھرہ من بنگر من آئینہ اویم او نیست جدا از من (گر تو خدا کو دیکھنا چاہتا ہے تو میرے چہرہ کو دیکھ میں اس کا آئینہ ہوں وہ مجھ سے جدا نہیں ہے۔) ..... ہونے اور کہنے کا استحاق حاصل ہے۔ اس تقریر سے ثابت ہوا کہ عارف کو بشر کہنا از قبیل ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بالا سماء المعظمہ ہوا بخلاف غیر عارف کے اس کے لیے بغیر انضمام کلمات تعظیم صرف لفظ بشر ذکر کرنا جائز نہیں چنانچہ آیت کریمہ میں بشر کے بعد ’’یُوْحٰی اِلَّی‘‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اور تشہد میں عہدہ کے بعد و رسولہ کا ذکر ہے اور کلام اہل عرفان میں ہے۔ فمبلغ العلم فیہ انہ بشر وانہ خیر خلق اللہ کلھم (قصیدہ بردہ) ہمارا نہایت علم یہ ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بہتر ہیں۔ (فتاوٰی مھریہ صفحہ نمبر ۴،چشتی)


خلاصہ کلام : حضرت کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اہل علم جو بشر کا معنی اور اس میں جو کمالات پائے جاتے ہیں انہیں جانتے ہیں وہ تو بشر کہہ سکتے ہیں لیکن عام لوگوں کو بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ذکر کرنے چاہئیں تاکہ انہیں بھی آپ کی عظمت کا پتہ ہو مثلا سید الکائنات افضل الانبیاء حبیب خدا وغیرہ الفاظ ساتھ ملائے جائیں۔ حقیقت میں بشر میں وہ کمال ہے جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہوا کیونکہ رب تعالیٰ نے اپنی ذات صفات اور اسماء کا مظہر صرف بشر کو ہی بنایا ہے اس کمال سے فرشتے محروم ہیں پھر یہ وصف کمال تمام انبیائے کرام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی واسطہ کے عطا ہوا لیکن اولیائے کرام کو آپ کے واسطہ سے یہ کمال عطا کیا گیا پھر اولیائے کرام میں جلیل القدر ہستیوں یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی اور اس قسم کے اولیائے کرام علیہم الرحمہ کو بالواسطہ یہ کمال اعلیٰ درجہ کا حاصل ہوا دوسرے حضرات کو کچھ کم انبیائے کرام علیہ السلام کو بعض بعض صفات اور بعض بعض اسماء گرامی کا مظہر بنایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رب تعالیٰ کی آٹھ صفات مختصہ کے بغیر تمام صفات کے مظہر ہیں۔ جب یہ بات کسی کی سمجھ میں آجائے کہ بشر اس شان والے عظیم شخص کو کہا جاتا ہے اور اس کمال میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں وہ تو سمجھ سکتا ہے کہ بشر آپ کا عظیم وصف ہے لیکن عام انسان تو بشر کا معنی یہی سمجھے گا کہ معاذ اللہ آپ بھی ہماری طرح تھے ایسا سمجھنا ہی دین سے دور ہونے کا نام ہے اور ایسے شخص کو صرف لفظ بشر کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔


امتناعِ نظیر : امتناع نظیر کا یہ مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مثل پیدا کرنا رب تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہے ۔ جو چیزیں محال بالذات ممتنع بالذات ہیں وہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہوں تو رب تعالیٰ کی شان اور قدرت میں کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ وہ اشیاء اس قابل نہیں کہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں۔ اس مسئلہ کو سید الاولیاء حضرت علامہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ مقدمات: ۱۔ ممتنعات ذاتیہ کا احاطہ قدرت سبحانہ سے خروج کمال ذاتی باری پر دھبہ نہیں لگاتا بلکہ یہ قصور راجع بجانب قابل ہے کہ ممتنع ذاتی قبولیت کا صالح نہیں۔ ۲۔ انقلاب حقائق واقعہ کا خواہ معدودات سے ہوں مثل انسان، فرس، بقر، غنم، کے یا مراتب عددیہ سے ہوں مثل ایک دو تین چار یا مختلط یعنی معدود بحیثیت عروض مرتبہ عددی مثلاً زید جو اول مولود ہے بہ نسبت باقی اولاد عمر و کے ممتنع بالذات ہیں۔ ۳۔ کسی چیز کی نظیر اس چیز کو کہا جاتا ہے کہ علاوہ مشارکت نوعی کے اوصاف ممّیزہ کاملہ میں اس چیز کی ہم پلہ ہو۔ ۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحسب الحقیقۃ الروحانیۃ النوریۃ اول مخلوق ہیں: ’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ اور ’’اول ما خلق اللہ العفل‘‘ تصریحات محققین ازاہل کشف و شمود اس پر شاہد ہیں: ’’کما قال الشیخ الاکبر قدس اللہ سرہ الاطھر قلم یکن اقرب الیہ قبولا فی ذالک الھباء الا حقیقۃ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم المسماۃ بالعقل فکان مبدأ العالم باسرہ و اول ظاھر فی الوجود فکان وجود ہ من ذالک النور الالھی‘‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا ہے یا یہ ارشاد کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا ہے ان دونوں کا مطلب ہے شیخ اکبر قدس سرہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ وہی نور جس کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا اور حقیقت محمدیہ کہلایا اسی کا نام عقل بھی ہے جو تمام عالم کا مبدا ہے تمام جہان سے پہلے اسی نور کا وجود ہے اور وہ نور نور الٰہی سے معروض وجود میں آیا ہے۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اولیت کی صفت سے متصف ہیں اسی طرح آخریت کی صفت سے بھی متصف ہیں کہ آپ آخر الانبیاء ہیں: ارشاد خدا وندی: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَo (پ ۲۲ سورۃ الاحزاب آیت ۴۰) لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ اہل بصیرت کو ان مقدمات مذکورہ پر گہری نظر ڈالنے سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود ممتنع بالذات بایں معنی ہے کہ خالق سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو ایسا بنایا ہے کہ اور ایسے کاملہ ممیّزہ مختصہ صفات کے ساتھ سنوارا ہے کہ جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ در صورت وجود نظریر انقلاب حقیقت لازم آتا ہے کیونکہ فرض نظیر کا وجود آپ کے بعد ہی ہوگا تو لامحالہ ایسا معدوم ہوگا جس کو مرتبہ ثانیہ عددی عارض ہو اور نظیر کہلانے کا مستحق جب ہی ہوسکتا ہے کہ وصف ممیّز کامل یعنی اول مخلوقیت و ختم نبوت میں مشارک ہو تو معروض مرتبہ ثانیہ کا معروض مرتبہ اولیٰ کا ہو۔ (یہ ممتنع بالذات ہے، ایسا ہو نہیں سکتا)۔ ایسا ہی بلحاظ ختمیت فرض کیا کہ آپ مثلاً چھٹے مرتبہ میں تو نظیر آپ کی معروض ساتویں مرتبہ کی مثل ہوکر معروض مرتبہ سادسہ کی ہوگی ’’وھو خلف‘‘ (یہی حقیقت کے خلاف ہے)۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ ممتنعات ذاتیہ میں سے دو قسم اولین اور قسم ثالث میں فرق ظاہر ہے کیونکہ قسم ثالث کا امتناع اوصاف عارضہ کے لحاظ سے ہے اس لیے کہ محل بحث امتناع یا امکان نظیر ہے نہ امتناع یا امکان مثل خلاصہ یہ کہ آئینہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم میں خالق عز مجدہ نے جداگانہ کمال دکھایا یعنی ایسا بنایا کہ نظیرش امکان ندا رد (جس کی نظیر ممکن نہیں)۔ ’’فھذا الکمال راجع الیہ سبحانہ کما ان الجمال مختص بہ من منع اللہ فسبحان من خلقہ واحسنہ واجملہ واکملہ‘‘ ۔(فتاوی مھریہ صفحہ نمبر ۹،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس شان سے پیدا کرنا در حقیقت رب تعالیٰ کا ہی کمال ہے جس طرح یہ شان اور جمال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مختص ہے وہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہی وہ ذات پاک ہے جس نے آپ کو اس جداگانہ شان سے بنایا اور آپ کو سب زیادہ حسین اور سب سے زیادہ جمیل اور سب سے زیادہ با کمال بنایا ۔


خلاصہ کلام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رب تعالیٰ سب کائنات سے اول معرض وجود میں لایا اور آپ کو خاتم الانبیاء بنایا اگر آپ کی نظیر کوئی اور بھی بن سکے تو اسے بھی یہ دونوں وصف حاصل ہوں گے حالانکہ اول تو ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد آنے والے تو دوسرے درجہ میں ہوجاتے ہیں اور اسی طرح خاتم بھی ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد اس کی نظیر کو اگر خاتم کہا جائے گا تو پہلی ذات کا خاتم ہونا باطل ہوگا یہ دونوں صورتیں ممتنع بالذات ہیں ممتنع بالذات قدرت باری سے خارج ہیں ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ یہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں رب تعالیٰ کی قدرت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ حقیقت محمدیہ موجودات عالم میں جاری و ساری ہے: مولنا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ شرح و قایہ کی شرح سعایہ میں فرماتے ہیں ’’السر فی خطاب التشھد ان الحقیقۃ المحمدیۃ کانھا ساریۃ فی کل وجود وحاضرۃ فی باطن کل عبد وانکشاف ھذہ الحالۃ علی الوجہ الاتم فی حالۃ الصلوۃ فحصل محل الخطاب وقال بعض اھل المعروفۃ ان العبد لماتشرف بشاء اللہ فکانہ فی حریم الحرام الالھی ونور البصیرہ و وجد الحبیب حاضرا فی حرم الحبیب فاقبل علیہ وقال السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘۔ تشہد میں خطاب یعنی ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ ۔ میں راز یہ ہے کہ حقیقت محمد یہ ہر وجود میں جاری و ساری ہے اور ہر بندے کے باطن میں موجود ہے نماز کی حالت میں اس حالت کا کامل انکشاف ہوتا ہے پس محل خطاب حاصل ہوجاتا ہے بعض اہل معرفت نے کہا ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی ثناء سے مشرف ہوتا ہے تو گویا اس کو حرم حریم الٰہی میں جگہ مل گئی اور نور بصیرت اس کو حاصل ہوا۔ حبیب (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دربار حبیب (اللہ تعالیٰ) میں موجود پایا تو فورا آپ کی طرف متوجہ ہوکر صیغہ خطاب سے کہا: السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکات ہوں۔ اشعۃ اللمعات میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’نیز آنحضرت ھمیشہ نصب العین مومناں وقرۃ العین عابداں است در جمیع احوال و اوقات خصوصا در حالت عبادت و آخر آں کہ وجود نورانیت و انکشاف دریں احوال بیشتر و قوی تراست و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجھت سریان حقیقت محمدیہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات پس آنحضرت درذات مصلیان موجود و حاضر است پس مصلی راباید کہ ازیں بآگاہ باشد وازیں شھود غافل نہ بو دتا بانوار قرب و اسرار معرفت منتورو فائز گرد‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مومنوں کا نصب العین اور عبادت گزاروں کی آنکھوں کی ٹھندک ہیں جمیع احول اوقات میں خصوصاً حالت عبادت میں اور اس کے آخر میں نورانیت کا وجود اور انکشاف ان احوال میں زیادہ اور بہت قوی ہوتا ہے بعض عرفاء نے کہا ہے تشہد میں خطاب اسی وجہ سے ہے کہ حقیقت محمدیہ موجودات کے تمام ذرات اور ممکنات کے تمام افراد میں جاری و ساری ہے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں موجود ہوتے ہیں لہذا نمازی کو چاہیے کہ اس معنی سے آگاہ رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موجودگی سے غافل نہ رہے تاکہ انوار قرب اور اسرار معرفت سے منور اور فیضیاب ہو ۔


علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ویحتمل ان یقال علی طریق اھل العرفان ان المصلین لما استفتحوا باب الملکوت بالتحیات اذن لھم بالد خول فی حریم الخی الذی لا یموت فقرت اعینھم بالمناجات فنبھوا علی نوالک بواسطۃ نبی الرحمۃ و برکۃ متابعۃ فالتفتوا فاذا الحبیب فی حرم الحبیب حاضر فاقبلوا علیہ قائلین السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ ۔(فتح الباری شرح بخاری ج ۲ ص ۲۵۰ (مطبوعہ مصر ) ۔ اہل معرفت کے طریقہ پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ بیشک نمازی جب التحیات کے ذریعے ملکوت کا دروازہ کھلوا لیتے ہیں ان کو حی لا یموت کی بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے مناجات سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ان کو اس پر متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہیں نبی رحمت اور ان کی تابعداری کی برکت کے وسیلہ سے حاصل ہے وہ فوراً توجہ کرتے ہیں تو حبیب کو حرم حبیب میں موجود پاتے ہیں یعنی بارگاہ ذوالجلال میں حبیب پاک کو جلوہ گر پاتے ہیں تو خطاب کے صیغے سے ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہتے ہیں۔ حقیقت محمدیہ کیا ہے؟ جب یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ حقیقت محمدیہ جمیع موجودات عالم میں جاری و ساری ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ حقیقت محمدیہ کیا ہے؟ اس پر علامہ جلال الدین محقق دوانی رحمہ اللہ کا قول ان کی مشہور کتاب اخلاق جلالی کے صفحہ ۲۵۶ میں ملاحظہ فرمائیں، آپ فرماتے ہیں: ’’تحقیق کلام دریں مقام آں است کہ با طباق اصحاب نظر و برھان و اتفاق ارباب شھود و عیاں تخستیں گوھر یکہ بامر کن فیکون بوسیلہ قدرت و ارادہ ہے چوں از دریائے غیب مکنون بساحل شھادت آمد جوھر بسیط نورانی بود کہ بعرف حکماء آنرا عقل اول خوانند و در بعضے اخبار تعبیر ازاں بقلم اعلی رفتہ واکابر ائمہ وکشف و تحقیق آں را حقیقت محمدیہ خوالند‘‘ اس مقام میں کلام کی تحقیق یہ ہے کہ اصحاب نظر و برھان اور ارباب شہود و عیاں کا اس پر اتفاق ہے کہ بے مثل ذات (اللہ تعالیٰ) کی قدرت اور اس کے ارادہ کے وسیلہ سے سب سے پہلے جوہر بسیط کن فیکون کے امر سے دریائے غیب مکنون سے ظہور کے ساحل پر آیا (معرض و جود میں آیا وہ جوہر بسیط نورانی تھا) جس کو حکماء کے عرف میں عقل اول کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں اس کو قلم اعلی سے تعبیر کیا گیا ہے اس کو اکابرائمہ کرام اور اصحاب کشف و تحقیق نے حقیقت محمدیہ کہا ہے۔ جناب سید اولالیاء پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ مسئلہ حاضر و ناظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے خیال میں ظہور و سریان حقیقت احمد یہ عالم و ہر مرتبہ اور ہر ذرہ ذرہ میں عندالمحققین من الصوفیہ ثابت ہے اس کو حقیقۃ الحائق کہتے ہیں اور لکھتے ہیں: ’’فھو نور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‘‘ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور ہے ۔ اولا جو بصورت تقی نقی اور جسد شریف عنصری کے ظاہر ہوا ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بصورت مثالیہ شریفہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام ہر مکان و زمان میں احادیث صحیحہ سے ثابت ہے جس کا اقرار واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار اور اس کا انکار آپ کا انکار مانا گیا ہے: ’’کما فی حدیث البخاری فی کتاب الایمان‘‘ اس سے مراد وہ حدیث ہے جونکیرین کے سوال سے متعلق وارد ہوئی ہرمیت سے سوال کرتے ہیں۔ ’’ماکنت تقول فی حق ھذا الرجال لمحمد‘‘ تم اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتے تھے۔ چونکہ اس حدیث میں لفظ ’’ھذا‘‘ استعمال ہوا ہے جو محسوس مبصر پر دلالت کرتا ہے جبکہ ایک وقت میں کئی حضرات کو دفن کیا جاتا ہے تو اس طرح آپ کو بصورت مثالیہ کئی جگہ پر تشریف فرما ہونا یقینی ہے اسی کو ماننا ایمان ہے اور اسی کا انکار کفر ہے۔ اہل تجربہ کو ظہور کذائی مثالی کا کراتا مراتاً (بار بار) اتفاق ہوتا رہتا ہے البتہ ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بجسدہ العنصری العینی کا پتہ بعض اہل مشاہد کے ہاں سے ملتا ہے اور بلحاظ واقعہ معراج شریف و خصائص والوازم مختصہ جسد شریف علی صاحبھا الصلوۃ والسلام سے مستبعد (بعید) نہیں۔ ’’ھذا ما عندی والعلم ما عند اللہ‘‘۔ (فتاوی مھریہ ص ۵) ’’انہ لما تعلقت ارادۃ الحق بایجاد خلقہ و تقدیر رزقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ ۔ (مواھب الدنیۃ) اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو موجود کرنے اور اس کے رزق کی تقدیر کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے حقیقت محمدیہ کو ظاہر فرمایا۔ زرقانی میں اس عبارت کی جو شرح بیان کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ: صاحب مواھب کے قول ’’ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذات کو بمع صفت اول کے سب سے پہلے ظاہر فرمایا جیسے تو قیف میں ذکر کیا گیا ہے اور لطائف کاشی میں اس طرح مذکور ہے کہ محقیقن حضرات حقیقت محمدیہ سے مراد وہ حقیقت لیتے ہیں کہ جس کو حقیقت الحقائق کہتے ہیں یہ حقیقت تمام حقائق میں اسی طرح جاری و ساری جیسے کلی اپنی جزئیات میں جاری و ساری ہوتی ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت محمدیہ یہ حقیقۃ الحقائق کی صورت ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان بر زخ و واسطہ کی حیثیت رکھتی ہے اس وقت اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم و وصف غالب نہیں تھا یہی وہ واسطہ یعنی حقیقت محمدیہ ہی نور احمدی ہے جس کی طرف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی اشارہ کررہا ہے وہ یہ کہ: ’’اول ما خلق اللہ نوری ای قدر علی اصل الوضع اللغوی وبھذا الا عتبار سمی المصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنور الا نوار وبابی الا رواح‘‘ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا اسی وجہ سے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام نور الانوار اور ابوالا رواح رکھا گیا ہے ۔ (زرقانی صفحہ نمبر ۲۷)


مختصر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے تمام مخلوق کو آپ کے نور سے پیدا کیا کیا تمام انبیائے کرام اپنی اپنی نبوتوں میں اصل نبی ہونے کے باوجود آپ کے تابع ہیں حقیقت محمدیہ تمام کائنات میں جاری و ساری ہے حقیقت محمدیہ کو عقل اول قلم اعلی جوہر بسیط نورانی نور الا نوار ابو الارواح یعنی روح الارواح کہا گیا ہے زیادہ وضاحت کے لیے میرے رسالہ عقیدہ حاضر و ناظر کا مطالعہ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاک نسلوں سے تشریف لائے: علامہ امام ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے روایت کو نقل کیا ہے کہ : ’’لما اراد اللہ عزوجل ان یخلق محمدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امر جبرائیل علیہ السلام فاتاہ بالقبضۃ البیضاء التی ھی موضع قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فعجنت بماء التسنیم فغمست فی انھار الجنۃ وطیفھا فی السموات فعرفت الملائکۃ محمدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبل ان یعرف آدم ثم کان نور محمد یری فی غرۃ جبھۃ آدم و قیل لہ یادم ھذا سید ولدک من المرسلین فلما حملت حواء بشیث انتقل النور من آدم الی حواء و کانت تلد فی کان بطن ولدین ولدین الاشیئا فانہ ولدتہ وجدہ کرامۃ لمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ثم لم یزل ینتقل من طاھر الی طاھر الی ان ولدتہ آمنۃ من عبد اللہ ابن عبد المطلب‘‘ ۔ (مرقاۃ ج ۱۱ ص ۴۴ باب فضائل سید المرسلین) ۔ جب اللہ تعالیٰ نے محمد (رسول اللہ) صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو جبرائیل کو حکم دیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر شریف کی جگہ سے سفید مٹی کی ایک مٹھی لی پھر اسے ماء تسنیم (جنت کی نہر تسنیم کے پانی) سے گوندھا گیا پھر اسے جنت کی نہروں میں ڈبویا گیا اور آسمانوں میں اسے پھرایا گیا پس فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو پہچاننے سے پہلے ہی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہچان لیا پھر نور محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آدم علیہ السلام کی پیشانی میں رکھا گیا جس کی وجہ سے آپ کی پیشانی جگماتی تھی اور آپ کو بتایا گیا اے آدم یہ تمہاری اولاد سے ہوں گے اور تمام رسولوں کے سردار ہوں گے پس جب حضرت حوا کے پیٹ میں شیث آئے تو وہ نور آدم علیہ السلام کی پیشانی سے منتقل ہوکر حوا کے پاس آگیا حالانکہ حضرت حوا کے بطن مبارک سے دو دو بچے ہر حمل سے پیدا ہو رہے تھے لیکن (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کو منقسم ہونے سے بچانے کے لیے) صرف شیث علیہ السلام ہی اکیلے پیدا ہوئے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت کو مد نظر رکھا گیا پھر آپ کا نور ہمیشہ سے پاک ہستی سے پاک ہستی کی طرف منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ آپ کی والدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو عبد اللہ بن عبد المطلب سے جنا۔ خیال رہے کہ پاک نسلوں سے منتقل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد بدکاری اور کفر سے پاک تھے طہارت کو صرف بدکاری کی نجاست سے پاک ہونے کے ساتھ خاص کرنا باطل ہے بلکہ زیادہ مقصود ہی کفر سے پاک ہونا ہے یہ تفصیل حضرت ابراہیم کے حالات میں دیکھی جائے وہاں میں نے وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری: ’’والا کثرون انہ ولد عام الفیل وانہ بعد الفیل بخمسین یوما وانہ فی شھرربیع الاول یوم الاثنین لثنتی عشرۃ خلت من عند طلوع الفجر‘‘ ۔ (مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷) اکثر اہل علم کا قول یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس سال دنیا میں تشریف لائے جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں پر سوار ہوکر کعبہ شریف کو شہید کرنے کی مذموم (حرکت) کی اور وہ تباہ و برباد ہوا اس سال کو عام الفیل کہتے ہیں یعنی آپ اس واقعہ کے پچاس دن بعد تشریف لائے یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور اس کی بارہ تاریخ تھی پیر کا دن تھا صبح صادق کا وقت تھا ۔ پیر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعلق : آپ کی پیدائش پیر کے دن آپ کی نبوت عطا ہوئی پیر کے دن مکہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت پیر کے دن کی مدینہ طیبہ میں پہنچے پیر کے دن قریش کے نزاع کو مٹانے کے لیے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک میں رکھ کر سب قبائل کے سرداروں کو اٹھانے کے متعلق ارشاد فرمایا اور خود حجر اسود کو اٹھاکر کعبہ شریف کی دیوار میں نصب کردیا یہ بھی پیر کا دن تھا مکہ شریف فتح فرمایا پیر کے دن سورہ مائدہ کا آپ پر نزول پیر کے دن ہوا تھا۔(مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور منتقل ہونے کے بعد بھی اثر انداز رہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے پچاس دن پہلے ابرہہ کا واقعہ درپیش آیا اس وقت وہ نور حضرت عبد المطلب سے منتقل ہوکر حضرت عبد اللہ کی والدہ کے پاس اور ان سے حضرت عبد اللہ کے پاس اور ان سے حضرت آمنہ کے پاس آچکا تھا لیکن پھر بھی اس کے اثرات حضرت عبد المطلب کی پیشانی میں موجود تھے ’’فرکب عبد المطلب فی قریش حتی طلع جبل ثبیر فاستدار ت دارۃ غرۃ رسول اللہ علی جبھتہ کالھلال واشتد شعاعھا علی البیت الحرام مثل السراج فلما نظر عبد المطلب الی ذالک قال یا معشر قریش ارجعوا فقد کفیتم ھذا الامر فو اللہ ما استدار ھذا النور منی الا ان یکون الظفر لنا۔ (مواھب لدنیہ ج ۱ ص ۸۵) حضرت عبد المطلب سوار ہوکر قریش کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر (ابرھہ کے لشکر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے) شبیر پہاڑ پر چڑھے تو آپ کی پیشانی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور گول چاند کی طرح ظاہر ہوا اور اس کی شعاعیں چراغ کی طرح کعبہ شریف پر پڑیں۔ جب عبد المطلب نے یہ حال دیکھا تو آپ نے کہا: اے قریش کی جماعت واپس لوٹ چلو یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی یہ نور میری پیشانی میں جو چمکا ہے یہ ہماری کامیابی کی دلیل ہے۔ آپ کے نور سے شام کے محلات روشن ہوگئے: حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’انی عند اللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ و ساخبر کم باول امری دعوۃ ابراھیم و بشارۃ عیسی و رویا امی التی رات حین وضعتنی وقد خرج لھا نور اضاء لھا منہ قصور الشام‘‘ ۔ (شرح السنۃ، مسند احمد از ساخبر کم تا اخیر، مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین صفحہ نمبر ۵۱۳،چشتی) ۔ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا ہوا تھا کہ جب آدم علیہ السلام کیچڑ میں تھے یعنی آپ کا خمیر تیار کیا جا رہا تھا تمہیں اپنے اول امور کی خبر دے رہا ہوں کہ میں ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کی رویا ہوں جو آپ نے اس وقت دیکھا جب مجھے جنا کہ آپ سے ایک نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔ دعوۃ ابراھیم سے اشارہ اس طرف تھا جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے بعد دعا کی: ’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ‘‘ (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۱۲۹) کہ اے ہمارے رب تعالیٰ ان میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان میں سے ہی ہو۔ ’’بشارۃ عیسیٰ‘‘ سے مراد جو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ‘‘ (پ ۲۸ سورۃ الصف آیت ۶) آپ نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول تشریف لائیں گے جن کا نام احمد ہوگا۔ رؤیا: کیا رویا سے مراد خواب ہے یا ظاہر طور پر دیکھنا مراد ہے اس پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں: ’’ظاھر ھذا الکلام ان رویۃ نور اضاء بہ قصور الشام کانت فی المنام وقد جاءت الاخبار انھا کانت فی الیقظۃ واما الذی فی المنام فھو انھا رأت انہ اتاھا آت فقال لھا شعرت انک قد حملت بسید ھذہ الامۃ ونبیھا فینبغی ان یحمل الرؤیا علی الرؤیۃ بالعین واللہ اعلم‘‘ (لمعات) اگرچہ ظاہر طور پر تو یہ سمجھ آتا ہے کہ آپ کا نور دیکھنا جس سے شام کے محلات روشن ہوئے خواب کا واقعہ ہو لیکن احادیث میں یہی واقعہ جاگتے ہوئے بھی درپیش آنے کا ذکر ہے خواب کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی والدہ نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر مجھے کہہ رہا ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم اس امت کے سردار اور نبی سے حاملہ ہوچکی ہو ، مناسب یہی ہے کہ اس حدیث میں رویا سے آنکھ سے جاگتے ہوئے دیکھنا مراد لیا جائے۔ راقم کے نزدیک اس حدیث میں خواب کا معنی لینا ہی حقیقت سے دوری کی علامت ہے اس لیے کہ ’’حین وضعتنی‘‘ ظرف ہے ’’رأت‘‘ کی (جس وقت میری والدہ نے مجھے جنا اس وقت دیکھا) ۔ پیدائش کے وقت خواب کا دیکھنا ناممکن ہے اس حدیث میں ظاہری طور پر دیکھنا مراد لیا جائے تو یہ معنی ظاہری ترکیب کے بالکل مطابق ہے خواب والا معنی لینا تکلفات اور تاویلات سے خالی نہیں ۔ (مزید حصہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ سوم

0 comments

 نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ سوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : کچھ لوگوں نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے کتابیں لکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو کم کرنے کی نا پاک جسارت کی ہے ان کی کتابوں کو پڑھ کر اپنے ایمان کو ضائع نہ کریں۔ ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے لکھی ہوئی کتابوں کو بھی دیکھیں اور ان کے مقابل مدارج النبوۃ اور ’’ضیاء النبی‘‘ کو بھی پڑھیں خود بخود نمایاں فرق نظر آئے گا کہ کن حضرات نے عشقِ رسول، محبت رسول میں ڈوب کر علم و عرفان کے سمندر سے موتی نکال کر پیش کیے اور کن لوگوں نے زہر پر مٹھائی چڑھا کر لوگوں کے ایمان کو قتل کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ بات صرف قسمت کی ہے کسی کی قسمتیں رب تعالیٰ نے یہ عظمت عطا فرمائی ہے کہ وہ دن رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو تلاش کرتا رہتا ہے اسی میں اس کی عمر بیت جاتی ہے۔ اور کچھ کم بختوں کی عمر اس میں گزرجاتی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقص تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ فضائل پر مشتمل احادیث اور اقوال علماء و صلحاء ان کی عقلوں میں انہیں ضعیف نظر آتے ہیں اور بتوں کے حق میں نازل شدہ آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جو عجز و انکساری پر مشتمل ہیں وہ انہیں حقیقت نظر آتے ہیں۔ سیدھے سادے لوگوں کو اس طرح گمراہ کرتے ہیں کہ: ’’ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ واقعہ درست نہیں‘‘ اس طرح کے گمراہ کن ہتھکنڈے ان کا وطیرہ ہے ۔ الا مان والحفیظ ۔


تخلیق اول نورِ محمدی: ’’وروی عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللہ قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیء خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالیٰ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذالک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ ولم یکن فی ذالک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا منٰک ولا سماء ولا ارض ولا شمس ولا قمر ولا جنی ولا انس‘‘ (زرقانی ج ۱ ص ۴۹، الانوار المحمدیۃ ص ۱۳، موھب) عبد الرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سند سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے یہ خبر دیجیے کہ تمام چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسے پیدا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جابر بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا پھر وہ نور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے جہاں بھی اسے منظور تھا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم اور نہ جنت اور نہ دوزخ اور نہ فرشتے اور نہ آسمان اور نہ زمین اور نہ سورج اور نہ چاند اور نہ جن اور نہ انسان تھے۔ خیال رہے کہ یہ حدیث مولوی اشرف علی تھانوی صاحب دیوبندی نے اپنی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں بھی نقل کی ہے۔ ’’عن العرباض بن ساریۃ عن رسول اللہ ﷺ انہ قال انی عند اللہ مکتوب خاتم النبین وان آدم لمنجدل فی طینتہ‘‘ (شرح السنۃ، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، مواھب مع زرقانی ص ۳۹) حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی تک اپنے خمیر میں تھے۔ مولوی اشرف تھانوی صاحب دیوبندی اپنی کتاب نشر الطیب میں بیان کرتے ہیں کہ اسے احمد، بیہقی اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور مشکوۃ میں یہ حدیث شرح السنہ سے مذکور ہے۔ اس حدیث پاک کی وضاحت میں استاذ المکّرم حضرت علامہ ابوالحسنات محمد اشرف سیالوی صاحب مدظلہ العالیٰ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث پاک سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تحقیقاً آدم علیہ السلام سے قبل نبی ہونا بھی ثابت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہونا بھی ثابت موجود ہونا بھی ثابت اور آپ کی حقیقت کا نور ہونا بھی ثابت کیونکہ بشروں کا باپ بعد میں پیدا کیا جارہا ہے اور آپ کی حقیقت پہلے ہی موجود متحقق تھی اور ان صفات کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی‘‘۔ اس مقام پر مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کے بیان کردہ نکتہ اور ایک تو ہم کا ازالہ بھی ملاحظہ فرماتے جائیں: ’’اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ شائد مراد یہ ہے کہ میرا خاتم النبیین ہونا مقدر ہوچکا تھا۔ سو اس لیے آپ کے وجود کا تقدم آدم علیہ السلام پر ثابت نہ ہوا۔ جواب یہ ہے اگر یہ مراد ہوتی تو آپ کی کیا تخصیص تقدیر تمام اشیاء مخلوقہ کی ان کے وجود سے مقدم ہے پس یہ تخصیص خود دلیل ہے اس کی کہ مقدر ہونا مراد نہیں بلکہ اس صفت کا ثبوت مراد ہے اور ظاہر ہے کہ کسی صفت کا ثبوت فرع ہے مثبت لہ کے ثبوت کی پس اس سے آپ کے وجود کا تقدم ثابت ہوگیا اور چونکہ مرتبہ بدن متحقق نہیں ہوتا اس لیے نور اور روح کا مرتبہ متعین ہو گیا‘‘۔ اس سوال و جواب نے واضح کردیا کہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محض علم الٰہی کے لحاظ سے نہیں تھی بلکہ خارج اور واقع میں آپ کا نور انور اور روح اقدس اور حقیقت محمدیہ اس کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی اور یہی ہمارا نظریہ و عقیدہ ہے کہ بشریت کے لحاظ سے اولاد آدم بھی ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے اصل موجودات ہیں اور آدم علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اس لحاظ سے آپ بنیاد ہیں۔ یہی تھانوی صاحب ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں سوال یہ ہے جب انبیاء موجود ہوتے تو ان کے خاتم کا موجود ہونا بھی متصور ہوسکتا تھا جب ان کا بلکہ ان کے والد اور معدن واصل کا وجود نہیں تھا تو آپ خاتم النبیین کس طرح ہوگئے تھانوی صاحب کی زبانی سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں۔ ’’اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنی کیونکہ نبوت آپ کو چالیس برس کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپ سب نبیوں کے بعد مبعوث ہوئے اس لیے ختم نبوت کا حکم کیا گیا یہ وصف تو خود تاخیر کو مقتضی ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ تاخیر مرتبہ ظہور میں ہے مرتبہ نبوت میں نہیں جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ مل جائے تو تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھی بھیجے کے بعد‘‘۔ یعنی جس طرح اس تحصیلدار کے منصب کا لوگوں کو علم اس وقت ہوگا جب وہ تحصیل میں جاکر چارج سنبھالے گا اس وقت معلوم کریں گے کہ یہ ہمارے تحصیلدار صاحب ہیں حالانکہ سرکار کے نزدیک وہ اس وقت سے تحصیلدار ہے جب سے اسے نامزد کیا گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین کے مرتبہ پر اس وقت فائز ہوچکے تھے جب آدم علیہ السلام ہنوز عالم آب وگل میں تھے اگرچہ لوگوں کو اس وقت پتہ چلا جب آپ کا ظہور ہوا، الغرض ظہور اگرچہ بعد میں ہوا لیکن وجود پہلے تھا اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ حقیقت نوریہ کے لحاظ سے آپ اصل موجودات اور بنیاد آدم علیہ السلام ہیں اگرچہ ظہور اور نشاۃ دینویہ کے لحاظ سے اولاد آدم ہیں۔ (تنویر الابصارص ۱۹) عن ابی ھریرہ قال قالوا یا رسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ قال و آدم بین الروح والجسد (ترمذی، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، زرقانی ج ۱ ص ۳۴،چشتی)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی آپ نے فرمایا جس وقت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی ان کے جسم میں جب جان بھی نہیں آئی تھی میں اس وقت سے نبی ہوں۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ایسے ہی الفاظ سے میسرہ ضبی کی روایت ہے امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تاریخ اور ابو نعیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حلیہ میں اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو تصریح کی ہے۔ صحابہ کرام کے پوچھنے اور سوال کرنے سے کہ آپ کب سے نبی بنے ہیں۔ پتہ چل گیا کہ جن کے گھر آپ پیدا ہوئے اور عمر شریف کے چالیس سال گزارے تھے اور اس قدر طویل عرصہ گزار نے کے بعد نبوت کا اعلان فرمایا جب وہ اس طرح کا سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کب سے نبی ہیں؟ معلوم ہوا ان کے ایمان نے گواہی دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ نبوت کا اعلان اور اظہار چالیس سال کے بعد کیا لیکن آپ نبی بنے ہوئے پہلے کے تھے انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے اعلان نبوت و رسالت کب فرمایا؟ بلکہ پوچھا ہے ..... ’’متی وجبت لک النبوۃ یا رسول اللہ‘‘ آپ کے لیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کس وقت سے ثابت ہے؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب کہ میں اس وقت سے نبی ہوں جب تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی روح ابھی ان کے جسم میں پھونکی نہیں گئی تھی صحابہ کرام کے اس نظریہ و عقیدہ پر مہر تصدیق ہے کہ تم نے درست سمجھا واقعی میں عمر شریف کے چالیس سال گزار کر نبی نہیں بنا بلکہ اس وقت سے یہ منصب اور اعزاز مجھے حاصل ہے جب کہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے تن بدن میں جان نہیں آئی تھی۔ اس روایت کو ترمذی شریف میں نقل کیا گیا ہے اور ترمذی شریف حدیث کی وہ کتاب ہے کہ جس کے متعلق محدثین نے فرمایا جس کے گھر میں یہ کتاب موجود ہو وہ یوں سمجھے کہ رب تعالیٰ کا رسول میرے گھر میں موجود اور تشریف فرما ہے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو موضوع اور من گھڑت بھی نہیں کہا اور ضعیف بھی نہیں کہا بلکہ انہوں نے اس کو حسن کہا ہے اصول حدیث میں یہ واضح ہے کہ حسن حدیث حجت و دلیل اور سند ہوسکتی ہے۔ اور پھر اشرف علی تھانوی صاحب نے تصریح کردی ہے کہ میسرہ ضبی کی روایت میں بھی اسی طرح کے الفاظ آتے ہیں گویا یہ روایت دو صحابیوں سے مروی ہوئی اس طرح کل چار صحابیوں (حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری، حضرت عرباض بن ساریہ، حضرت ابوھریرہ اور حضرت میسرہ ضبی رضی اللہ عنہم) کی شہادت اور گواہی اب تک آچکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و ایجاد سے پہلے نبوت و رسالت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہوچکے تھے۔ علاوہ ازیں اس کو امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے جو اہل سنت کے چوتھے امام ہیں اور امام ابو حنیفہ، امام ابو مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا درجہ ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی تاریخ میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے استاد ابو نعیم نے اس کو حلیہ میں نقل کیا ہے اور حاکم جیسے محدث نے اس کی تصحیح کی ہے۔ حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ وہ محدث ہیں جس نے بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ و مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ سے رہ جانے والی صحیح احادیث کو جمع کیا ہے اور اس کتاب کا نام مستدرک رکھا ہے۔ (تنویر الابصار صفحہ ۲۲،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور و بشر ہونا: قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالیٰ اسی مسئلہ پر دلیل قائم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر بشری ہے اور باطن نوری ہے۔ ’’کما قال ﷺ تنام عینی ولا ینام قلبی یعنی فیما یدل علی ان باطنہ ملکی وظاھرہ بشری‘‘ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی اس پر دلالت کر رہا ہے کہ آپ کا باطن ملکی (فرشتوں کی طرح نورانی) ہے اور آپ کا ظاہر بشری ہے قاضی شہاب خفاجی فرماتے ہیں: ’’وکذالک سائر الانبیاء تنام اعینھم دون قلوبھم کما ورد مصر حابہ فی حدیث البخاری‘‘ اسی طرح دوسرے تمام انبیائے کرام کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتے ہیں۔ جس طرح بخاری کی حدیث میں صراحتاً ذکر ہے۔ یعنی تمام انبیائے کرام کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کا ظاہر بشر اور باطن نور ہے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور نور من نور اللہ ہے اور تمام کائنات کے لیے اصل و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے یعنی آپ کا نور تمام انبیائے کرام کی نورانیت کا بھی اصل ہے۔ ’’وھذا دلیل علی ان ظاھرہ ﷺ بشری وباطنہ ملکی ولذا قالوا ان نومہ لا ینقض الوضوء کما صرحوا بہ ولا یقاس علیہ غیرہ من الامۃ کما توھم ونوضأ بعد نومہ استحبابا او تعلیما لغیرہ اولعروض ما یقتضیہ‘‘ (نسیم الریاض ج ۳ ص ۵۴۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی: کہ میری آنکھیں سوتی ہیں دل بیدار ہوتا ہے یہ دلیل ہے اس پر کہ آپ کا ظاہر بشری ہے اور باطن ملکی نورانی ہے اسی وجہ سے محدثین کرام فقہاء عظام نے اتفاقی طور پر ارشاد فرمایا کہ بے شک آپ کی نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند پر آپ کے کسی امتی کی نیند کو قیاس نہیں کیا جاسکتا یعنی صحابہ کرام اولیائے کرام اور امت کے کسی فرد کو بھی یہ مقام حاصل نہیں اگر کسی صحابی یا ولی کے متعلق کوئی یہ کہے کہ اس کی نیند سے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا یہ اس کا وہم ہوگا غلط سوچ ہو گی اس شخص کی بات کو تسلیم نہ کیا جائے۔ خیال رہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت کی ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی نیند سے ان کے وضو نہیں ٹوٹتے تھے میں نور الایضاح کے عربی حاشیہ ذیعۃ النجاح میں بفضلہ تعالیٰ اسے ذکر کیا ہے جبکہ ہدایہ تک تمام فقہی کتب کے محشی حضرات اسے ذکر نہ کرسکے یا دیدہ دانستہ ذکر نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگنے کے بعد وضو کرتے تھے آپ کا یہ وضو کرنا وجوبی طور پر نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ مستحب سمجھ کر آپ وضو کرتے یا تعلیم امت کے لیے یا آپ کو چونکہ معلوم ہوتا تھا کہ سوتے ہوئے کوئی چیز وضو کے خلاف سرزد ہوئی ہے اس لیے آپ کبھی کبھی اپنے علم کے مطابق وضو ٹوٹنے کی وجہ سے وضو کرتے ہوں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت کا ثبوت قرآن پاک سے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌo (پ ۶ سورۃ المائدۃ آیت ۱۵) بے شک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تین قول ملتے ہیں ایک عام مفسرین کا جنہوں نے نور سے مراد نبی کریم اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا ہے دوسرا قول معتزلہ کا ہے جنہوں نے نور اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا تیسرا قول محققین کا ہے جیسے علامہ آلوسی اورملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ انہوں نے نور اور کتاب مبین دونوں سے ہی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’قد جاء کم من اللہ نور عظیم وھو نور الانوار والنبی المختارﷺ‘‘ نور سے مراد نور عظیم ہے جو سب نوروں کا نور ہے۔ یعنی تمام نوروں کا اصل ہے اور وہ نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ’’والی ھذا ذھب قتادہ و اختارہ الزجاج‘‘ یہی قول قتادہ کا ہے اور ز جاج نے بھی اسی قول کو مختار قرار دیا ہے۔ ’’وقال ابو علی الجبائی عنی بالنور القرآن لکشفہ واظھارہ طرق الھدی والیقین واقتصر علی ذالک زمحشری وعلیہ فالعطف فی قولہ تعالیٰ وکتاب مبین لتنزیل المغایرۃ بالعنوان منزلۃ المغایرۃ بالذات‘‘ ابو علی جبائی نے کہا ہے نور سے مراد بھی قرآن ہے کیونکہ قرآن ہدایت و یقین کے راستوں کو ظاہر کرنے والا ہے اور منکشف کرنے والا ہے اس لیے اسے نور کہا گیا ہے زمحشری نے بھی اسی قول پر اقتصار کیا ہے اس قول پر بظاہر ایک اعتراض تھا کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے جب معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد قرآن پاک ہے لیکن دو نام علیحدہ علیحدہ ذکر کیے گئے ہیں علیحدہ علیحدہ عنوان کی وجہ سے جو مغائرت پائی گئی ہے وہ مغائرت ذاتی کے درجے میں ہے۔ ’’واما علی الاول فھو ظاھر‘‘ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے جس میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مرد قرآن پاک ہے۔ ’’وقال الطیبی انہ اوفق لتکریر قولہ سبحانہ قد جاء کم بغیر عطف فعلق بہ اولا وصف الرسول والثانی وصف الکتاب‘‘ علامہ طیّبی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ پہلے ’’قَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلُنَا‘‘ ذکر کیا گیا ہے اور پھر بغیر حرف عطف کے’’ قَدْ جَاءَ کُمْ مِنَ اللہِ نُوْرٌ‘‘ ذکر کیا گیا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں سے مراد ایک ہی ذات ہے اس لیے حرف عطف ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ مغائرت پر دلالت کرتا ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ولا یبعد عندی ان یراد بالنور والکتاب المبین النبی ﷺ والعطف علیہ کالعطف علی ماقالہ الجبائی ولا شک فی صحۃ اطلاق کل علیہ علیہ الصلوۃ والسلام‘‘ میرے نزدیک یہ کوئی بعید بات نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اگر کوئی اعتراض کرے کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد ایک ذات کیسے؟ تو اس کا ہم بھی وہی جواب دیں گے جو جبائی نے دیا ہے کہ عنوان کی مغائرت کو مغائرت کے درجے میں رکھ کر عطف کو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں کا اطلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔(از روح المعانی پ ۶) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں کا اطلاق کیسے صحیح ہے؟ اس کا جواب ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے واضح ہوجاتا ہے آپ فرماتے ہیں: ’’ای مانع من ان یجعل النعتان للرسول ﷺ فانہ نور عظیم لکمال ظھورہ بین الانوار وکتاب مبین حیث انہ جامع لجمیع الاسرار ومظھر للاحکام والا حوال والا خبار‘‘ (شرح شفا ج ۱ ص ۴۲) نور اور کتاب مبین دونوں صفتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنانے میں کون سا مانع موجود ہے؟ یعنی کوئی مانع نہیں؛ کیونکہ آپ نور عظیم ہیں اس لیے کہ سب نوروں سے آپ کا نور زیادہ ظاہر ہے۔ اور آپ کتاب مبین (روشن کتاب) ہیں کیونکہ آپ تمام اسرار کے جامع ہونے کی وجہ سے کتاب ہیں اور تمام احکام احوال اور اخبار کے ظاہر کرنے کی وجہ سے ’’مبین‘‘ ہیں۔ تنبیہ: مذکورہ بحث سے واضح ہوا کہ آیت کریمہ میں نور سے مراد قرآن پاک جبائی اور زمحشری نے لیا ہے اور اہل علم سے مخفی نہیں کہ یہ معتزلہ کے رئیس ہیں عام اہل علم کا قول یہ ہے کہ نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک اور محققین حضرات نے دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیا ہے ۔ (مزید حصہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)