Wednesday 10 November 2021

اسلامی سال کا چوتھا مہینہ ماہِ ربیع الآخر

0 comments

 اسلامی سال کا چوتھا مہینہ ماہِ ربیع الآخر

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : ماہ ربیع الثانی اسلامی سال کا چوتھا مہینہ ہے ۔ ربیع میں ’’رَ‘‘ مفتوح (زبر کے ساتھ) ’’بِ‘‘ مکسور (زیر کے ساتھ) اور ’’ع‘‘ ساکن ہے ۔ ربیع کی جمع اربعائ،ارباع آتی ہے  (کتاب الازمنہ والامکنہ ،ص205)


ربیع کا معنی ہے موسم بہار یعنی سردی و گرمی کا درمیان والا موسم اسی طرح موسم بہار کی بارش کو بھی ربیع کہتے ہیں ۔ (القامو س الوحید ج۱،ص593)


صاحب فیروز اللغات ربیع کا معنی ’’موسم بہار‘‘ لکھتے ہیں ۔ (فیروزاللغات اردو: 703)


حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نعیمی میں لفظ ربیع کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ ربیع کا معنی ہے ’’ بہار،اول کے معنی ہیں پہلی جس وقت مہینوں کے نام رکھے گئے تب ان دو مہینوں میں بہار کا موسم تھااس لیے انہیں ربیع کہا گیا‘‘ ۔ (تفسیر نعیمی،ج 10 ص 275)


اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں ربیع الثانی کے بارے میں ہے کہ ’’ اسلامی تقویم کا چوتھا مہینہ یہ نام انجیل کے سریانی ترجمے میں لفظ ملقوش (تاخیر سے ہونے والی بارش) کا مرادف ہے ربیع کا اصلی مفہوم ہے وہ موسم جس میں بارش کے سبب سے زمین سبزے سے ڈھک جاتی ہے ‘‘ ۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ ج10ص183،چشتی)


ماہ ربیع الثانی کی وجہ شہرت اسی مہینہ مبارک میں سیدنا و مولانا القطب الفرد الغوث شیخ الاسلام و المسلمین غوث الثقلین الشیخ محی الدین محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی الجیلانی الحنبلی المعروف پیرانِ پیر ، پیر دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا وصال مبارک ہوا۔ آپ کے وصال پاک کی تاریخوں میں ذرا سا اختلاف ہے ۔ بعض نے نویں، بعض نے سترہویں اور بعض نے گیارہویں ربیع الآخر کو وصال شریف بتایا ہے۔ محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''ماثبت من السنّہ'' کے صفحہ ١٢٣، پر رقمطراز ہیں : وَقَدْ اشْتَہَرَ فِیْ دِیَارِ نَا ہٰذَا الْیَوْمُ الْحَادِیْ عَشَرَ وَہُوَ الْمُتَعَارِفُ عِنْدَ مَشَائِخِنَا مِنْ اَہْلَ الْہِنْدِ مِنْ اَوْلَادِہ ۔

(ترجمہ : ہمارے ملک میں آج کل آپ کی تاریخ وصال ، گیارہویں تاریخ کو مشہور ہے اور ہمارے ہندوستان کے مشائخ اور ان کی اولاد کے نزدیک یہی متعارف و مشہور ہے ۔ (ماثبت من السنّہ صفحہ ١٢٣)


سال بھر اس تاریخ کو لوگ سرکارِ غوثیت کا عرس مبارک کرتے ہیں جس کو بڑی گیاہویں کہا جاتا ہے۔ اور اسی مناسبت سے اس ماہ کو ''گیارہویں شریف '' کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے ۔ (''فضائل الایام والشہور'' صفحہ ٣٦٠ ، ٣٦١)


ربیع الثانی اور روزے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر و حضر میں ایام بیض کے روزے کبھی ترک نہ فرماتے ۔ (سنن نسائی:5432،چشتی) ہر ماہ ایام ِبیض یعنی قمری مہینہ کی تیرہ، چودہ،اور پندرہ تاریخ میں روزے رکھنا تمام عمر روزے رکھنے کے برابر شمار کیا جاتا ہے (مشکوۃ، کتاب الصوم)اس ماہ مبارکہ میں بھی عبادت وریاضت،شب بیداری و روزہ رکھنا صالحین کامعمول ہے ۔ ربیع الثانی کے نوافل و عبادات اس ماہ مقدس میں صالحین ،بزرگان دین او ر پاکانِ امت سے جو عبادات منقول ہیں ان میں درج ذیل نوافل معروف ہیں۔ چار رکعت نوافل: اس مہینہ کی پہلی اور پندرہویں اور انتیسویں تاریخوں میں جو کوئی چار رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ’’قُل ہُوَ اللّٰہُ اَحَد‘‘ پانچ پانچ مرتبہ پڑھے ۔ تو اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور ہزار گناہ معاف ہوتے ہیں اور اس کے لیے چار حوریں پیدا ہوتی ہیں۔( ’’فضائل الایام والشہور‘‘ صفحہ 573 بحوالہ ’’جواہر غیبی‘‘)تیسری شب کے نوافل: ربیع الثانی کے مہینے کی تیسری شب کو چار رکعت نماز ادا کرے ، قرآن حکیم میں سے جو کچھ یاد ہے پڑھے ۔ سلام کے بعد ’’یَا بَدِیْعُ‘‘ بکثرت پڑھے (’’لطائف اشرفی‘‘ ج2،ص 143) پندرہویں شب کے نوافل: اس ماہ کی پندرہ کو چاشت کے بعد چودہ رکعتیں دو، دو رکعات ادا کرے ۔ اس نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ علق سات بار پڑھے ۔ (’’لطائف اشرفی‘‘ ج2،ص 143) اللہ تبارک وتعالی ہم مسلمانوں کو بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور ان کے ایام عقیدت و احترام سے منانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔


ماہِ ربیع الآخر کے تشریف لاتے ہی حضور سیدنا غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کے دیوانوں میں خوشی کی لہر دوڑجاتی ہے ۔اس ماہِ مبارک کو غوث ِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے خصوصی نسبت حاصل ہے ، اسی لئے عاشقانِ غوثِ اعظم اس مہینے کو ربیع الغوث بھی کہتے ہیں ۔ذیل میں چند آسان نیکیوں کا تعارف پیش کیا جاتاہے۔ ماہِ ربیع الآ خر میں خود بھی ان نیکیوں پر عمل پیرا ہوں اور دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دلا کر ثواب ِ دارین کے حق دار بنیں۔


فرمانِ مصطفے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اِمْلَاءُ الْخَیْرِ خَیْرٌ مِّنَ الّسُّکُوْتِ وَ السُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنَ الْاِمْلَاءِ الشَّرِّ یعنی اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بُری بات کہنے سے بہتر ہے ۔ (شعب الایمان ، ج4، ص256،حدیث : 4993،بیروت،چشتی)


کتنے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو صِرْف اچھی بات کہنے کےلیے زبان کو حرکت میں لاتے ہیں ، نیک لوگوں کا تذکرہ بھی اچھی گفتگو میں شامل ہے اور باعث ِ رحمت بھی ۔


چنانچہ حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے : عِنْدَ ذِکْرِالصَّالِحِیْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ یعنی نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے ۔ (حلیۃ الاولیاء، ج 7 ، ص 335، حدیث:10750،بیروت) ۔ جامعِ صغیر میں ہے : انبیاء ِ کرام علیہمُ السَّلام کا ذکر کرنا عبادت ہے اور صالحین کا ذکر(گناہوں کا) کفارہ ہے ۔ (جامع صغیر ،صفحہ نمبر 264، حدیث:4331، بیروت،چشتی)


جب نیک بندوں کے تذکرے کے وقت رحمتِ خدا وندی کا نزول ہوتا ہے تو جس مقام پرنیک بندے خود موجود ہوں ، وہاں کیوں نہ جھوم جھوم کر رحمت نازل ہوگی ، لہٰذا نیک بندوں کی ظاہری زندگی میں ان کی صحبت اور وصال ِ ظاہری کے بعد ان کے مزارات پر حاضری کو اپنا معمول بنالیجئے ۔ وہاں نازل ہونے والی بے پایاں رحمتوں سے ہم بھی اپنا حصہ پانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ


جو عشق ِ نبی کے جلوو کو سینوں میں بسایا کرتے ہیں

اللہ کی رحمت کے بادل ان لوگوں پہ سایہ کرتے ہیں


محدثِ اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ کو بچپن ہی سے اپنے بزرگوں سے والہانہ عقیدت تھی ، چنانچہ آپ اسکول کی تعلیم کے دوران اپنے استاذ صاحب سے عرض کیا کرتے : ماسٹر جی! ہمیں بزرگوں کی باتیں سنایئے اور نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیات ِ طَیِّبَہ پر ضرورروشنی ڈالا کیجئے ۔ (حیاتِ محدثِ اعظم ،ص 32،لاہور)


ربیعُ الآخِر اسلامی سال کا چوتھا مہینا ہے ۔ اس میں جن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، اَولیائے عظّام اور عُلَمائے اسلام علیہم الرحمہ کا وصال ہوا ، ان میں سے57کا مختصر ذکر “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ ربیعُ الآخِر 1439ھ تا 1442ھ کے شماروں میں کیا گیا تھا۔ مزید11 کا تعارف ملاحظہ فرمائیے :


صحابیِ رسول حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہُ عنہما  کی پیدائش سن 2 ہجری میں ہوئی ۔ آپ صحابی ابنِ صحابی ، حضرت عبدُالرّحمٰن بن عوف  رضی اللہُ عنہ  کے بھانجے ، ثقہ راویِ حدیث ، مجاہدِ جہادِ مِصر و اَفریقہ ، صاحبِ علم و فضل ، خیرخواہیِ مسلم سے سرشار تاجر ، صائمُ الدہر ، خوفِ خدا اور عبادتِ شاقّہ کے پیکر تھے۔ خلافتِ حضرت عبدُاللہ بن زبیر  رضی اللہُ عنہما  میں آپ کے وزیر و مشیر تھے ، محاصرۂ مکّۂ اوّل میں ربیعُ الاول یا یکم ربیعُ الآخر 64ھ کو شہید ہوئے ۔ جنّتُ الْمَعْلیٰ میں دفن کئے گئے ۔ (الاستیعاب ، 3 / 455)(تاریخ ابن عساکر ، 58 / 162 ، 163 ، 169)(الزہد لامام احمد ، ص 220،چشتی)


شہدائے محاصرۂ مکۂ مکرمہ اوّل : یزیدی لشکر نے25 یا 26 محرمُ الحرام 64ھ کو حضرت عبدُاللہ بن زبیر  رضی اللہُ عنہما  اور آپ کے رفقا کا مکۂ مکرّمہ میں محاصرہ کیا جو کہ تقریباً 64 دن جاری رہا ، اس میں کئی صحابہ اور دیگر مجاہدین شہید ہوئے ، یہ محاصرہ 10ربیعُ الآخر 64ھ کو یزید کے مرنے کی خبر پر ختم ہوا ۔ (اسد الغابۃ ، 3 / 246 ، الاستیعاب ، 3 / 456)


آغا شہید حضرت سیّد بدیعُ الدّین گیلانی قادری  رحمۃُ اللہِ علیہ  خاندانِ غوثِ اعظم کے چشم و چراغ ، ولیِّ کامل ، علم و عمل کے پیکر اور مجاہدِ اسلام تھے ، آپ بغداد سے بَرِّ عظیم میں تشریف لائے ، تحصیل شکر گڑھ میں 5ربیعُ الآخر904ھ کو جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے ، مزار سہاری (تحصیل شکرگڑھ ، ضلع نارووال ، پنجاب) میں مرجع خاص و عام ہے ۔ (انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام ، 1 / 87تا 97)


شہزادۂ خاندانِ غوثیہ حضرت شیخ سیّد شرفُ الدّین قاسم حموی  رحمۃُ اللہِ علیہ  خاندانِ غوثِ اعظم کے چشم و چراغ ، شیخِ وقت ، جَوّاد و سخی اور مریدین کی تربیت وفلاح کے لئے کوشش کرنے والے تھے ، آپ کا وصال 6ربیعُ الآخر916ھ کو ہوا ۔ (اتحاف الاکابر ، ص 402)


ولیِّ کامل حضرت سیّد میراں بخاری  رحمۃُ اللہِ علیہ  خاندانِ جلالیہ بخاریہ کے فرزند ، صاحبُ الفیض اور سورت (صوبہ گجرات) ہند کے اَہلُ اللہ سے تھے۔ آپ کا وصال19 ربیعُ الآخر 1221ھ کو ہوا ، مزار شریف اوڑپار سورت میں ہے ۔ (تذکرۃ الانساب ، ص235،چشتی)


نصیرُ الملّت والدّین حضرت مولانا محمد کاظم قلندر کاکوروی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1158ھ کو دہلی میں ہوئی اور 21ربیعُ الآخر 1221ھ کو وصال فرمایا ، مزار مبارک اندرون تکیہ شریف کاکوری (نزد لکھنؤ یوپی) ہند میں ہے جو خانقاہِ کاظمیہ کے نام سے معروف ہے۔ آپ عالمِ باعمل ، شیخِ طریقت ، قطبُ الارشاد ، صاحبِ دیوان شاعر ، سلسلہ قلندریہ کے عظیمُ المرتبت بزرگ اور بانیِ خانقاہ کاظمیہ تکیہ شریف ہیں۔ آپ کا دیوان نغماتُ الاسرار (سَانَت رَس) شائع شدہ ہے ۔ (تذکرہ مشاہیرکاکوری ، ص362 تا 364)


پیرِطریقت حضرت میاں مراد علی چشتی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش آڑہ (موجودہ نام موہڑہ ماڑی ، نزد کونتریلہ ، تحصیل گوجرخان ، ضلع راولپنڈی) میں 1261ھ کو ہوئی اور پہلی ربیعُ الآخر1343ھ کو وفات پائی ، موہڑہ ماڑی قبرستان میں دفن کئے گئے ، آپ سلسلۂ چشتیہ نظامیہ کے شیخِ طریقت ، خواجہ شمسُ العارفین کے خلیفہ اور مسلمانوں کے خیرخواہ تھے ۔ (فوزالمقال ، 7 / 360 ، 367)


شیخُ المشائخ ، سرکارِ اقدس حضرت الحاج شاہ محمد تیغ علی آبادانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1300ھ میں ہوئی اور پہلی ربیعُ الآخر 1378ھ کو وصال فرمایا ، مزارمبارک سُرکانہی شریف (ضلع مظفرپور ، بہار ، ہند) میں مرجعِ خلائق ہے۔ آپ نے مدرسہ عالیہ کلکتہ سے تعلیم حاصل کی ، سلسلہ آبادانیہ میں بیعت و خلافت کا شرف پایا ، سلسلہ فریدیہ اور مجیبیہ سے بھی خلافت حاصل ہوئی۔ آپ پابندِ شرع اور متبعِ سنّت بزرگ ، بانیِ مدرسہ علیمیہ انوارُ العلوم و خانقاہ آبادانیہ سرکانہی ہیں ۔ (موسوعہ اسلامیہ ، شخصیات ، 21 / 159تا172)


ساقیِ علم وعرفان حضرت مولانا سلطان محمود سیالوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1245ھ کو سدوال ضلع چکوال کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور29ربیعُ الآخر 1317ھ کو وصال فرمایا ، مزار سدوال میں ہے۔ آپ علومِ عقیلہ و نقلیہ کے ماہر ، بہترین مُدرّس ، خلیفۂ شمسُ العارفین پیر سیال لجپال ، صاحبِ کرامت ولیُّ اللہ تھے۔ عرصۂ دراز تک اپنے آبائی مدرسے میں تدریس فرمائی ۔ (تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع چکوال ، ص30 ، 32،چشتی)


رہبرِشریعت و طریقت حضرت مولانا پیر عبدالغنی صابری ہوشیار پوری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 1311ھ کو دسوہہ ، ضلع ہوشیارپور (مشرقی پنجاب ، ہند) میں ہوئی اور8ربیعُ الآخر 1379ھ لاہور میں وصال فرمایا ، بادامی باغ ریلوے اسٹیشن سے شمال کی جانب مزار واقع ہے۔ آپ عالمِ دین ، متحرک مبلغ ، کثیرُ السفر ، محبُ العلماء اور حضرت شاہ سراج الحق گورد اسپوری چشتی کے خلیفہ تھے ۔ (تذکرہ اکابر اہلسنت ، ص252 تا 254)


استاذالعلماء ، محدثِ وقت حضرت مولانا محمد ایوب خان جماعتی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت زخی چارباغ(اکبر پورہ ، پشاور) کے ایک علمی گھرانے میں1250ھ کو ہوئی اوریہیں 7ربیعُ الآخر 1335ھ کو وصال فرمایا ، آپ علومِ معقول و منقول کے جامع ، علمائے حرمین سے سندِ مکی حاصل کرنے ، مسجدِ نبوی میں درسِ حدیث کی سعادت پانے والے ، کئی کُتب کے مصنف ، پشاور کے مشہور عالمِ دین اور خلیفہ ٔ امیرِ ملت تھے ، زندگی بھر مدرسہ تعلیمُ القرآن پشاور میں درسِ حدیث دیتے رہے۔ کتاب “ تُحْفَۃُ الْفُحُول فِی الْاِسْتِغَاثَۃِ بِالرَّسُول “ آپ کی یادگار ہے۔ (تذکرہ خلفائے امیرملت ، ص35)


عالمِ شہیر مولانا مفتی محمد یار خلیق فاروقی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت جوڑہ کلاں (شاہ پور ، ضلع سرگودھا) میں 1240ھ کو ہوئی اور 14ربیعُ الآخر 1356ھ کو لاہورمیں وصال فرمایا ، تدفین اِچھرہ موڑ لاہور کے قبرستان میں ہوئی۔ آپ جیّد عالمِ دین ، استاذالعلماء ، مفتیِ اسلام ، شاعر و ادیب ، مصنفِ کُتب اور خطیبِ سنہری مسجد تھے ، “ صلوٰۃ مسعودی “ آپ کی کتاب ہے۔ (تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور ، ص277)


ماہِ ربیع الآخر میں کی جانے والی آسان نیکی گیارہویں شریف ہے ۔ حضور سیدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ایصالِ ثواب کی فاتحہ کو ادباً گیارہویں شریف کہا جاتا ہے ۔ حکیم الامّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :”اس مہینہ میں ہرمسلمان اپنے گھر میں حضور غوثِ پاک ،سرکارِ بغداد کی فاتحہ کرے ، سال بھر تک بہت برکت رہے گی ۔ اگر ہر چاند کی گیارہویں شب کو یعنی دسویں اور گیارہویں تاریخ کی درمیانی رات کو مقرر پیسوں کی شیر ینی مسلمان کی دکان سے خرید کر پابندی سے گیارہویں کی فاتحہ دیا کریں تو رزق میں بہت ہی برکت ہوگی اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کبھی پریشان حال نہ ہوگا، مگر شرط یہ ہے کہ ناغہ نہ کرے اور جتنے پیسے مقرر کردے ،اس میں کمی نہ ہو ،اتنے ہی پیسے مقرر کرے، جتنے کی پابندی کرسکے ۔ خود میں اس کا سختی سے پابند ہوں اور بفضلہٖ تعالیٰ اس کی خوبیاں بے شمار پاتاہوں۔ وَالْحَمْدُلِلّٰہ عَلٰی ذٰلِکَ ۔ (اسلامی زندگی صفحہ 132،مکتبۃ المدینہ کراچی)


حضرت مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اپنے نعتیہ دیوان”ذوقِ نعت“میں عرض کرتے ہیں : کیا غور جب گیارہویں بارہویں میں معمّا یہ ہم پر کھلا غوثِ اعظم تمہیں وصل بے فصل ہے شاہِ دیں سےدیا حق نے یہ مرتبہ غوثِ اعظم ۔ (ذوق نعت،ص۱۲۵،گجرات،ہند) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔