Monday, 29 November 2021

استعانت اور وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ حصّہ ہشتم

 استعانت اور وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ حصّہ ہشتم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : ذوات واشخاص ہی کے ساتھ استمداد و توسل خاص نہ تھا بلکہ انبیاء و صلحاء کی طرف منسوب اشیاء سے بھی لوگ توسل کرتے اور مدد چاہتے تھے ۔ چنانچہ ’’تابوت سکینہ‘‘ کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اور جسے کتاب اللہ نے عظیم الشان نشانی قرار دیا ہے ۔ (سورۃ البقرہ آیت ۲۴۸) ۔ علامہ قاضی بیضاوی اور دیگر مفسرین کی صراحت کے مطابق ’’تابوت سکینہ‘‘میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا مبارک اور آپ کے کپڑے،آپ کے نعلین،حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ مبارکہ اور توریت کے ٹکڑے تھے ۔ (تفسیر بیضاوی بقرہ ص۱۶۱) ۔ اس تابوت کے تعلق سے کتب تفاسیر میں یہ ذکر ہے کہ جب بنی اسرائیل کو کوئی مصیبت در پیش ہوتی تو وہ اس تابوت کے وسیلہ سے دعائیں کرتے اور دشمنوں کے مقابلے میں فتح پاتے’’وکانوا یستفتحونہٗ علی عدوھم ویقدمون فی القتال ویسکنون الیہ ۔  (تفسیر جلالین بقرہ ص ۳۸)’’بنی اسرائیل اس تابوت کے توسل سے اپنے دشمنوں پر فتح یابی طلب کرتے اور اسے معرکۂ جنگ میں آگے رکھتے اور اس سے سکون حاصل کیا کرتے تھے ‘‘ظاہر ہے کہ ’’تابوت سکینہ‘‘اللہ نہیں ہے ،غیر اللہ ہے تو اس کے توسل سے فتح یابی چاہنا غیر اللہ سے استعانت ہوئی ۔اور قرآن کریم نے نکیر نہ فرمائی بلکہ موقع مدح میں ذکر فرمایا۔اس لئے قرآن وتفاسیر کا مطالعہ کرنے والااور اس پر ایمان لانے والا کوئی بھی شخص استعانت بغیراللہ کا انکار کرہی نہیں سکتا ۔ان چیزوں سے استعانت اس لئے تھی کہ یہ چیزیں انبیاء کرام علیہم السلام کی جانب منسوب تھیں ۔حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے کہ انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زیب تن کیا ہوا جُبّہ ملا تو وہ اسے مریضوں کے لئے نکالا کرتی اور دھو کر اس کا غسالہ مریضوں کو پلایا کرتی تھیں اور اس سے شفا چاہتی تھیں۔(مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ص؍۳۷۴)


رب کریم ارشاد فرماتا ہے ’’واستعینوا بالصبر والصلوٰۃ‘‘(سورۃ البقرہ آیت ۱۵۳) ’’صبر اور نماز سے مدد چاہو‘‘۔ظاہر ہے کہ نہ صبر خدا ہے ،نہ نماز بلکہ دونوں غیر اللہ ہیں،اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا ہے ۔اس سے ثابت ہو ا کہ اعمال صالحہ سے استمداد واستعانت جائز ومستحسن ہے ۔

رب عزوجل اشخاص وذوات سے بھی استمداد کا حکم فرماتا ہے۔ ارشاد ہے’’تعاونوا علی البر والتقویٰ‘‘(سورۂ مائدہ آیت ۲)’’نیکی اور پر ہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو‘‘اس آیت میں اشخاص سے استمدادواستعانت کا حکم فرمایا گیا ہے۔ائمہ مجتہدین شخصیت اور عمل دونوں کے وسیلے سے متعلق استدلال میں درج ذیل آیت کریمہ پیش کرتے ہیں:’’یاایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ‘‘(سورئہ مائدہ آیت ۳۵)’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو‘‘حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وسیلہ لیا ۔اور ان کے وسیلہ سے بارش ہوئی ۔تو حضرت عمر نے فرمایا ’’ھذا واللہ الوسیلۃ الی عزوجل والمکان منہ‘‘خدا کی قسم حضرت عباس اللہ کی بارگاہ کے وسیلہ اور رتبہ والے ہیں۔(الاستیعاب لابن عبد البر) اس روایت نے واضح کردیا کہ مذکورہ آیت کریمہ میں صرف اعمال صالحہ کا وسیلہ مطلوب نہیں ۔ بلکہ صلحاء کی ذات کا بھی وسیلہ مطلوب ہے۔یعنی خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بناناجو غیر اللہ سے استمداد کی ایک اہم صورت ہے کیا کوئی دعویٰ اسلام کے بعد یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ معاذ اللہ غیر اللہ سے استمدادو استعانت کاحکم دے کر اللہ عزوجل نے ناجائز وحرام بلکہ شرک کا حکم دیا ۔لہٰذا ماننا پڑے گا کہ استمدادو استعانت اور توسل ذوات واشخاص کا بھی درست ہے پھر یہ اپنے عموم میں زندہ ووصال یافتہ دونوں کو شامل ہے ۔

احادیث سے استمداد بغیر اللہ کا ثبوت

استمدادو استعانت خواہ اعمال سے ہو یا ذوات واشخاص سے قبل وصال ہو یا بعد وصال اس کا ثبوت کثیر وافر احادیث سے ہے ۔علماء راسخین نے غیراللہ سے استمداد ووسلیہ کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ (۱)عمل صالح سے استمدادوتوسل(۲)نیک اشخاص سے استمداد وتوسل۔


اعمال صالحہ سے استمداد وتوسل کے تعلق سے مندرجہ ذیل حدیث پاک سے استدلال بہت معروف ہے جسے امام بخاری نے کتاب الاجارہ میں ،امام مسلم نے کتاب الذکر والدعا والتوبہ والاستغفار ،باب قصۃ اصحاب الغار الثلثۃ میں ذکر فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تین آدمی جارہے تھے کہ بارش ہونے لگی ان لوگوں نے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی ،غار کے منھ پر ایک چٹان آگئی جس سے غار کا منھ بند ہوگیا ،ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا ،اللہ کے لئے جو نیک کام تم نے کیا اس پرغور کرو اور ان اعمال صالحہ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگو،شاید اللہ عزوجل یہ مصیبت تم سے دور فرمادے ، تو ان تین میں سے ایک نے یہ دعا کی ۔ اے اللہ ! میرے ماں ،باپ بوڑھے تھے ، میری بیوی تھی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ،میں ان کے لئے بکریاں چراتا جب میں واپس لوٹتا تو دودھ دُوہتا ،اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے ماں باپ کو دودھ پلاتا ،ایک دن درختوں نے مجھے دور پہونچا دیا تو رات سے پہلے میں لوٹ نہ سکا ،میرے والدین میرے لوٹنے تک سوچکے تھے ،میں نے حسب معمول دودھ دُوہااور ایک برتن میں دودھ لیکر والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا ،ان کو نیند سے بیدار کرنا میں ناپسند کرتا تھا اور ان سے پہلے بچوں کو دودھ پلانا بھی مجھے نا پسند تھا ،باوجودیکہ میرے بچے میرے قدموں کے پاس چیخ رہے تھے ،فجر طلوع ہونے تک میرا اور میرے ماں ،باپ کا یہی حال رہا ،اے اللہ تجھے یقینا علم ہے کہ میں نے یہ عمل تیری رضا جوئی کے لئے کیا تھا ،تو ہمارے اس غار میں کشادگی کردے کہ ہم اس غار سے آسمان کو دیکھ لیں ،تو اللہ عزوجل نے کچھ کشادگی کردی اور ان تینوں نے اس غار سے آسمان کو دیکھ لیا ۔ پھر دوسرے شخص نے دعا کی اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جس سے مجھے بے پناہ محبت تھی جیسا کہ مرد عورت سے محبت کرتا ہے ،میں نے اس سے ملاقات کی درخواست کی ،اس نے انکار کیا اور سودینار کی طلبگار ہوئی ،میں نے بڑی مشقّت سے سو دیناراکٹھا کئے اور اسے لے کر اپنی محبوبہ کے پاس گیا ،جب میں اس کے ساتھ جنسی عمل کرنے بیٹھا تو اس نے کہا ،اے اللہ کے بندے!اللہ سے ڈر اور حرام طریقے سے مہر نہ توڑ،تو میں اسی وقت اس سے علیحدہ ہوگیا ۔ اے اللہ! تجھے یقینا علم ہے کہ میں نے تیری رضا مندی کے لئے ایسا کیا تھا ،تو ہمارے لئے اس غار کو کچھ کھول دے ،تو اللہ تعالیٰ نے غار کو کچھ کھول دیا ۔اور تیسرے شخص نے کہا ،اے اللہ ! میں ایک شخص کو ایک فرق چاول کی اجرت پر اجیر رکھا تھا ،جب اس نے اپنا کام پورا کرلیا تو کہا میری اجرت دے دو، میں نے اس کو مقررہ اجرت دے دی مگر اس نے اس سے اعراض کیا ،پھر میں ان چاولوں سے کاشت کرتا رہا تاآنکہ اس کی آمدنی سے میں نے گائے اور چرواہے جمع کرلئے ،ایک دن وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا ۔اللہ سے ڈرو اور میرا حق نہ مارو،میں نے کہا جائو اوران گایوں اور چرواہوںکو لے لو ،اس نے کہا اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو۔میں نے کہا میں تم سے مذاق نہیں کرتا یہ گائے اور چرواہے لے لو ،وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ اے اللہ !تجھے یقینا علم ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضاجوئی کے لئے کیا تھا ،تو غار کے منھ کا جو حصہ کھلنے سے رہ گیا ہے اسے کھول دے تو اللہ تعالیٰ نے کھول دیا بعض روایتوں میں ہے کہ وہ غار سے نکل کر روانہ ہوگئے ۔ (صحیح المسلم جلد دوم ص ۳۵۳)

ان تینوں آدمی نے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا کی اور وہ دعا بارگاہ ِالٰہی میں قبول ہوئی اور یہ حدیث موقع مدح میں ہے تو اس سے وسیلے کا جواز واستحسان ثابت ہوا ۔

بخاری ونسائی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔’’استعینوا بالغدوۃ والروحۃ وشئی من الدجلۃ‘‘صبح کی عبادت سے استعانت کرو ،شام کی عبادت سے استعانت کرو ،کچھ رات کا حصہ باقی ہوتو اس کی عبادت سے استعانت کرو ۔

ابن ماجہ اور حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہ فرمایا ’’استعینوا بطعام السحر علے صیام النھار و بالقیلولۃ علے قیام اللیل‘‘سحر کے کھانے سے دن کے روزے پر استعانت کرواور دوپہر کے سونے سے قیام لیل پر استعانت کرو۔

ظاہر ہے کہ نہ تو صبح کی عبادت خدا ہے ،نہ شام کی ،نہ سحر کی ،نہ دوپہر کا سونا ۔تو ان سے استمدادو استعانت کا حکم دیا گیا۔ جس سے ثابت ہو کہ غیر اللہ سے استمدادواستعانت جائز وروا، مستحسن ومستحب ہے۔

ذوات واشخاص سے استمداد و توسل

ائمہ دین نے مندرجہ ذیل احادیث کریمہ سے مسئلۂ استمداد واستعانت وتوسل میں استدلال فرمایا ہے ۔حضرت عثمان ابن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث ہے،حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں خود ایک دعا تعلیم فرمائی ۔جس کے الفاظ یہ ہیں’’اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک نبیک محمد نبی الرحمہ یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہٖ لتقضی لی حاجتی ۔اللھم فشفعہ۔ (ترمذی شریف جلد دوم ص ۱۹۷)

’’اے اللہ ! میں تیرے نبی محمد ا جو نبیِ رحمت ہیں۔کے وسیلے سے تجھ سے مانگتا اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ، یارسول اللہ !میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت میں توجہ کرتا ہوںتاکہ میری حاجت پوری ہو ،الٰہی !حضور کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔‘‘یہ حدیث صرف امام ترمذی نے اخذ نہیں کی ہے بلکہ امام بخاری نے تاریخ کبیر میں ،ابن ماجہ نے سنن صلوۃ الحاجۃ میں ،نسائی نے عمل الیوم واللیلۃ میں ،ان کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی اس کی تخریج فرمائی اور متعدد محدثین نے اس کے صحیح ہونے کی صراحت بھی فرمائی اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ نبیٔ کریم علیہ الصلاۃ والسلام کو وسیلہ ورابطہ بنا کر قضائے حاجات کے لئے ان سے استمداد واستعانت منصوص ہے ۔ حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں مذکورہے کہ ایک شخص کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک اہم کام تھا جو پورا نہیں ہورہا تھا ۔وہ حضرت عثمان بن حنیف کے پاس آیا آپ نے نماز حاجت کے سوا مذکورہ دعا ’’اللھم انی اسئلک الخ‘‘کی تعلیم فرمائی ۔ اس طرح اس کی حاجت پوری ہوگئی ،پھر جب اس شخص کی ملاقات حضرت عثمان بن حنیف سے ہوئی تو اس نے کہا ’’ جزاک اللہ خیرا ماکان ینظر ولا یلتفت اِلَیَّ حتّٰی کلمتُہ فی‘‘اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے وہ میری طرف التفات کرتے ہی نہ تھے پھر میں نے اپنی ضرورت کے تعلق سے گفتگو کی اور وہ پوری ہوئی ۔ (الترغیب والترہیب جلد اول۔ والخصائص الکبریٰ جلد دوم ؍ص۱ ۲۰)

روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف نے اس شخص سے کہا کہ ،خلیفۃ المسلمین سے آپ کے بارے میں میری کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر تھے ۔ایک نابینا صحابی بھی حاضر بارگاہ ہوئے ،اور اپنی بینائی کے لئے دعاکی درخواست کی ۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے صبر کی تلقین کی ۔مگر وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں وضو،نماز اور اسی دعا کی تلقین فرمائی ۔ وہ نابینا صحابی دعا کرنے کے لئے گئے ،اور ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں دیر تک رہے۔ تو ہم نے دیکھا کہ وہ نابینا صحابی حضور کی بارگاہ میں اس حال میں آئے کہ ان کی دونوں آنکھیں بالکل صحیح تھیں۔(وفاء الوفاء جلد چہارم ص۱۳۷۳ للعلامہ السمھودی)

غور فرمائیں کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابیٔ رسول ہیں ان حضرات سے بڑھ کر احادیث رسول کو سمجھنے والے کون ہوسکتے ہیں؟۔ انہوں نے دعائے حاجت والی حدیث سے یہی سمجھا کہ یہ دعا نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری زندگی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔حضور سے استمدادو استعانت ،نداء اور پکار ان کی ظاہری زندگی کے بعد بھی خود صحابہ کا معمول ہے ۔پھر حضرت عثمان ابن حنیف کے کہنے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنے والے حاجت مند یا تو صحابی تھے یا کم از کم کبار تابعین میں سے تھے ۔ انہوں نے بلا چون و چرا اس عملِ توسل واستعانت پر عمل کیا جس سے واضح ہے کہ بعد رحلت بھی استمدادووسیلہ ونداء جائز ومستحسن ہیں ……… ربیعہ ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں’’کنت أبیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فأتیتہ بوضوئہ وحاجتہ فقال لی سل فقلت اسئلک مرافقتک فی الجنۃ قال أوغیر ذلک قلت ھو ذاک ،قال فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود (رواہ مسلم) (مسلم شریف بحوالہ مشکوٰۃص ۸۴)

’’میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ وہاں رات میں رہتا ۔ ایک دفعہ رات میں آپ کے لئے وضو کا پانی اور دیگر ضرورت کی چیزیں لایا۔ آپ نے فرمایا کہ ربیعہ !مانگ کیا مانگتا ہے ؟۔عرض کی میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں حضور کی رفاقت ہو ،فرمایا کچھ اور مانگنا ہے ۔ عرض کی میری مراد تو بس یہی ہے ،فرمایا تو تم اپنے نفس پرمیری مدد زیادہ سجدہ کرکے کرو‘‘۔ مذکورہ حدیث پاک میں وارد دو،تین الفاظ کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔(۱)ایک تولفظ’’ سَلْ‘‘ ہے(۲)دوسرا’’اسئلک مرافقتک‘‘ یعنی جنت میں حضور کی رفاقت کا سوال(۱)سَلْ امر کا صیغہ ہے جس میں حضورا نے ربیعہ بن کعب سے مانگنے کو کہا ،اس کا مفعول مذکور نہیں کیونکہ کوئی خاص مفعول یہاں مطلوب نہیں ،تو جس چیز کا بھی مطالبہ ہو وہ صحیح ہوگا۔کہ اس میں نا کسی چیز کی تقید ہے ،نا کسی امر کی تحصیص تو اس سے صاف واضح ہوا کہ حضورا ہر قسم کی حاجت وضرورت پوری فرما سکتے ہیں ،ہر طرح کی مدد کرسکتے ہیں۔(۲)جنت میں حضور کی رفاقت کا سوال خود حضور سے ہی کیا گیا ، جنت میں رفاقت عظیم ترین نعمت ہے۔مگر اس نعمت کے سوال پر حضور نے منع نہ فرمایااور نہ یہ فرمایا کہ ربیعہ یہ شرک ہے ۔بلکہ مزید مانگنے کا مطالبہ فرمایا۔یہ غیر خدا سے مدد مانگنا ہوا ۔(۳)لفظ أعِنِّیْ کا معنی ہی ہے ’’میری مدد واعانت کر ‘‘اسی کو استعانت کہتے ہیں۔تو غیر اللہ سے استعانت ہوئی ۔ اگر یہ تصور توحید کے منافی ہوتا تو حضور ہر گز ارشاد نہ فرماتے۔شیخ محقق اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں’’سل‘‘فرماکر سوال کو مطلق رکھا ،کسی خاص چیز سے مقید نہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ تمام معاملات حضور کے دست کرم میں ہیں،جوچاہیں ،جس کو چاہیںاپنے رب کے حکم سے عطا کر دیں ۔ (اشعۃ اللمعات للشیخ عبد الحق ،باب السجود وفضلہ)

شیخ محقق کی یہ تشریح استمداد کو تصور توحید کے منافی قرار دینے والوں کے لئے تا زیانۂ عبرت ہے ۔

قحط میں حضورکے وسیلے سے دعاکرنا

جب اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی۔تو خوب جم کر بارش ہوئی ۔مدینہ منورہ کے آس پاس کے لوگوں نے حاضر ہوکر عرض کی ہم ڈوب جائیں گے ۔پھر آپ نے دعا کی اور بارش صرف ارد گرد میں ہوئی ۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ولو ادرک ابو طالب ھذا الیوم لسرہ فقال لہ بعض اصحابہ یا رسول اللہ!اردت بقول ؎ وابیض یستقی الغمام بوجھہ ثمال الیتامیٰ عصمۃللارامل

’’ قال نعم‘‘یعنی اگر ابو طالب اس دن کو پاتے تو خوش ہوتے ایک صحابی نے عرض کیا ۔ حضور آپ کااشارہ ان کے اس شعر کی جانب ہے ۔ گورے رنگ والے جن کے چہرے کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگی جاتی ہے ۔ یتیموںاور ناداروں کے ماویٰ وملجاء ،فرمایا ہاں۔(السیرۃ النبویہ لابن ھشام ج ۱؍ص ۱۷۹ ۔صحیح البخاری باب الاستقاء اول ص ۱۳۷)


وسیلہ بالانسان کے متعلق بخاری باب الاستقاء میں روایت ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل یہ تھا کہ جب قحط پڑتا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وسیلے سے آپ اللہ سے بارش کا سوال کرتے ۔دعا کے الفاظ یہ ہوتے ۔ ’’اللھم انا کنا نتوسل الیک نبینا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون۔ (صحیح البخاری جلد اول ص ۱۳۷)

اے اللہ ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی ا کا وسیلہ لے کر حاضر ہوتے تھے توتو ہمیں سیراب کرتا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لیکر آئے ہیں،ہم پر بارش برسا ۔راوی کہتے ہیں تو مینہ برستا‘‘۔

یہ حدیث اس پر واضح دلیل ہے کہ اہل بیت اور بزرگان دین کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا اور ان کے سہارے مدد طلب کرنا مستحب ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل تمام صحابۂ کرام کے مجمع میں ہوا اور بلا نکیر سب نے اس پر عمل کیا تو توسل واستعانت کے مستحب ہونے پر صحابہ کا اجماع ہوگیا ۔توسل سے یہاں دعاکی درخواست مراد نہیں ،جیسا کہ ابن تیمیہ کے ریزہ خوار کہتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں صاف تصریح ہے کہ اے اللہ !ہم اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ لاتے ہیں۔ہم پر بارش نازل فرما۔اس کو دعا کی درخواست پر محمول کرنا حدیث کی تحریفِ معنوی ہے۔ابن تیمیہ کے پیرو کاروں کا یہ کہنا ہے کہ اگر بعد رحلت بھی حضور اکرم ا سے تو سل جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عباس سے کیوں وسیلہ لیتے۔دھوکا اور فریب وجہالت ہے کیونکہ کسی چیز کے مختلف طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کو اپنانا دوسرے کی نفی کی دلیل نہیں بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ بر تر کے ہوتے ہوئے اس سے کم رتبے والے سے بھی وسیلہ لیا جاسکتا ہے ۔پھر یہ کہ حضرت عباس سے توسل میں ایک اہم افادہ مقصود تھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل واستعانت کا مستحب مستحسن ہونا سب کو معلوم تھا ممکن ہے کہ کسی کو یہ وہم ہو کہ غیر نبی سے تو سل جائز نہیں تو حضرت عمر نے حضرت عباس کو وسیلہ بنا کر واضح کردیا کہ غیر نبی سے توسل بھی مستحب ہے،بالخصوص رشتۂ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ لینا ، حدیث کے الفاظ ’’کنا نتوسل‘‘سے ظاہر ہے کہ یہ تو سل واستعانت صرف عہد رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ خاص نہ تھا بعد میں بھی صحابہ کا یہ معمول رہا ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وصال کے بعد استمداد ووسیلہ لینا جائز نہیں،وہ در اصل صحیح روایتوں کے منکر ہیں۔چنانچہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں اور علامہ قسطلانی نے ’’المواھب اللدنیہ‘‘میں مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے یہ روایت بیان فرمائی۔ اس کے راوی حضرت عمر کے خازن مالک الدار ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ’’اصاب الناس قحط فی زمان عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فجاء رجل الی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ!استق اللہ لامتک فانھم قد ھلکو افاتاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی المنام فقال ائت عمر فاقرئہ السلام واخبرہ انھم یسقون۔ (فتح الباری دوم ،ص ۱۳۷)

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں لوگ قحط میں مبتلاء ہوئے تو ایک شخص نبیٔ کریم ا کے مزار اقدس پر حاضر ہوا ،اور کہا یا رسول اللہا !اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرمائیں ،لوگ ہلاک ہورہے ہیں ۔نبی کریم ا خواب میں ایک شخص کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: عمر سے جاکر عرض کرو کہ عنقریب بارش آئے گی۔بعض لوگوں نے اس شخص کا نام بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بتایا ہے۔اس حدیث کو علامہ ابن حجر اور علامہ قسطلانی نے صحیح قرار دیا ہے۔بیہقی نے’’ دلائل النبویہ‘‘ میں یہ حدیث ذکر کیا ہے ۔تو اس حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ وقتا فوقتا صحابۂ کرام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضر ہوکر حضورا سے استعانت واستمداد کرتے تھے ۔

منکرین استمداد کے لئے یہ آیت کریمہ کافی ہے۔اللہ عزوجل فرماتا ہے :

’’ولوانھم اذ ظلموا انفسھم جاؤک فاستغفروااللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما۔(سورۃ النساء آیت ۶۴)

اور جب وہ اپنی جانو ںپر ظلم (یعنی گناہ)کرکے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور معافی مانگیںان کے لئے رسول تو بیشک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دے کر ان سے معافی مانگنے اور توبہ واستغفار کرنے کا یہ حکم حضور کی حیات ظاہری کے ساتھ خاص نہیں۔بلکہ آپ کے پردہ فرمانے کے بعد بھی یہ حکم جو ں کا تو ںباقی ہے ۔ صحابۂ کرام اور ائمۂ اسلام نے اس آیت کریمہ سے یہی سمجھا ہے ۔ چنانچہ علامہ نور الدین علی ابن احمد سمہودی اپنی کتاب’’وفاء الوفاء ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’علماء اسلام نے اس آیت کریمہ سے یہی سمجھا ہے کہ یہ حکم حضور اکی ظاہری حیات اور بعد وصال دونوں کو عام ہے اور آپ کی قبر انور پر حاضر ہونے والوں کے لئے اس آیت کریمہ کی تلاوت اور توبہ کرنے اور مغفرت چاہنے کو مستحب قرار دیا ہے‘‘ چنانچہ ذیل میں عہد صحابہ کے دو واقعات بیان کئے جاتے ہیں جن سے علامہ سمہودی علیہ الرحمہ اور دیگر علمائے راسخین کی رائے اور مسلک اہلسنت وجماعت کی تائید ہوتی ہے ۔

(۱)محمد عتبی سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر انور کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی دیہاتی آیا اور وہ السلام علیک یا رسول اللہ کے بعد کہنے لگا ،اے رسولوں میں سب سے بہتر اللہ تعالیٰ نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائی ہے ،اور اس میں ارشاد فرمایا ہے جب لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ کی بار گاہ میں حاضر ہوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی ان کے لئے سفارش کریں تو اللہ ضرور توبہ قبول فرمائے گا ۔میں آپ کے پاس اپنے گناہوں کی مغفرت کے لئے آیا ہو ں یارسول اللہ! میں آپ کو اپنے رب عزوجل کی بارگاہ میں شفیع بناتاہوں،پھر روتے ہوئے اس نے یہ اشعار پڑھے۔

یا خیرمن دفنت بالقاع أعظمہ

فطاب من طیبھن لاقاع والاکم

نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ

فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم

’’اے ان تمام لوگوں میں سب سے افضل جو زمین میں دفن کردیئے گئے تو ان کی خوشبو سے چٹیل میدان اور ٹیلے مہک اٹھے ۔میری جان اس قبر پر فدا جس میں آپ آرام فرماہیںجو پاک دامنی اور جود وکرم کا خزانہ ہے‘‘۔راوی کہتے ہیں کہ وہ اعرابی دوبارہ مغفرت طلب کرکے لوٹااتنے میں میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں نبیٔ کریم ا کی زیارت سے مشرف ہوا۔سرکار نے فرمایا:’’یا عتبی الحق الاعرابی فبشرہ بان اللہ تعالیٰ قد غفرلہ۔‘‘ ’’جائو اس اعرابی سے مل کر بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے میری سفارش سے اس کی مغفرت فرمادی ہے۔‘‘(رواہ ابن عساکر فی تاریخہ ،الجواہر المنظم لابن حجر الھیتمی ص ۱۵۳)

(۲)دوسری روایت ابو سعید السمعانی کی ہے ۔وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے تین دن بعد ایک اعرابی آپ کی قبر انور پر حاضر ہوئے اور انہوں نے خود کو قبر شریف پر گرا دیا اور قبر کی مٹی اپنے سر پر ڈالنے لگے اور کہتے جاتے تھے ۔ یارسول اللہ ! جو کچھ آپ نے فرمایا ہم نے سنا اور ہم نے آپ کے بتائے ہوئے کو محفوظ کرلیا یا رسول اللہ! آپ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ’’ولو انھم اذ ظلمواالخ‘‘میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اب میں آپ کی بار گاہ میں حاضر آیا ہوںکہ آپ اپنے رب سے میرے لئے استغفار کریں ۔تو قبر انور سے آواز آئی کہ تیری مغفرت ہوگئی‘‘۔( وفاء الوفاء ،ج ۴، ص ۱۳۶۱، الجواہر المنظم ص ۱۵۵،چشتی)

ان دونوں روایتوں میں صاف وضاحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد قبر انور پر حاضر ہوکر استغفار واستمداد واستعانت واستشفاء جائزومستحب ہے اور یہ صحابۂ کرام کا طریقہ ہے۔عہد صحابہ کے بعد کے ائمہ ،علماء واولیاء نے بھی استمداد واستعانت وتوسل کو جائز ومستحسن سمجھا ۔ اس تعلق سے مستند کتابوں میں اتنا کچھ ہے کہ اس کے لئے دفتر در کار ہے ۔ یہاں سید الاولیاء حضرت غوث الثقلین کا ایک ارشاد نقل کیا جارہا ہے ۔ حضور سیدنا غوث اعظم کا یہ ارشاد’’ بہجۃ الاسرار شریف ‘‘میں مذکور ہے ۔’’جو کسی تکلیف میں مجھ سے فریاد کرے وہ تکلیف دفع ہواور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے وہ سختی دور ہواور جو کسی حاجت میں اللہ تعالیٰ کی طرف مجھ سے توسل کرے وہ حاجت بر آئے اور دورکعت نماز پڑھے ، ہر رکعت میں بعد فاتحہ کے سورۂ اخلاص گیارہ بار پڑھے پھر سلام پھیر کر نبی اپر درود بھیجے اور مجھے یاد کرے پھر عراق شریف کی طرف گیارہ قدم چلے ان میں میرا نام لیتا جائے اور اپنی حاجت یاد کرے‘‘۔اس طرح بہت سے اقوال حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہیں ۔ان کے علاوہ بہت سے بزرگان دین سے اس طرح کے اقوال مروی ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیاء وصلحاء سے استمداد جائز ودرست ہے۔

حضرت شیخ حسن عدوی حمزاوی نے ’’مشارق الانوار‘‘ میں شیخ الاسلام شہاب الدین رملی کا یہ عقیدہ بیان فرمایا۔’’شیخ الاسلام رملی سے پوچھا گیا کہ عوام مصیبت وپریشانی کے وقت یا شیخ فلاں اور اس قسم کے الفاظ کہتے ہیں تو کیا مشائخ کرام وصال کے بعد امداد فرماتے ہیں ؟تو آپ نے جواب دیا کہ انبیاء،اولیاء، صالحین اور علماء سے استغاثہ (فریاد خواہی) جائز ہے۔کیونکہ یہ حضرات وصال کے بعد ایسی ہی امداد فرماتے ہیں ۔جیسی وہ اپنی حیات ظاہری میں امداد فرمایا کرتے تھے کیونکہ انبیاء کے معجزے ، اولیاکی کی کرامتیں ہیں۔ مشارق الانوار ،للشیخ الحسن العدوی الحمزاوی

خاتم الفقہاء علامہ ابن عابدین شامی کی رد المختار کے حاشیہ میں ہے’’زیادی نے یہ بات بہ تحقیق بیان کی ہے، جب کسی انسان کی کوئی چیز گم ہوجائے اور وہ یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز واپس فرمادے تو اسے چاہییٔ کہ کسی بلند جگہ قبلہ رو کھڑا ہو جائے اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب نبیٔ کریم ا کو پہونچائے پھر سیدی احمد بن علوان کو ایصال ثواب کرے۔’’یا سیدی احمد یا ابن علوان ان لم ترد علی ضالتی والانزعتک من دیوان الاولیاء‘‘یعنی اس طرح کہے یا سیدی احمد اے ابن علوان !اگر آپ نے میری گم شدہ چیز واپس نہ کی تو میں آپ کا نام دفتر اولیاء سے کاٹ دوں گاتو اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے کہنے والے کو واپس فرمادے گا۔‘‘رد المختار کتاب اللقطہ ج ۶؍ص ۴۴۷

شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ’’فتح العزیز‘‘میں سورئہ فاتحہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ غیراللہ سے استمدادو استعانت اگر بایں طور ہے کہ اس غیراللہ پر کلی اعتماد کرتا ہے اور اسے عون الٰہی کا مظہر نہیں جانتا تو وہ حرام ہے اور اگر التفات تو حق تعالیٰ کی طرف ہے اور غیر اللہ سے استمداد بایں طور ہے کہ اسے مدد الٰہی کا مظہر جانتا ہے جس کو استعانت ظاہری کہتے ہیں یہ شرعا جائز ودرست ہے۔انبیاء ،اولیاء سے اس قسم کی استعانت کی جاتی ہے‘‘۔ فتح العزیز تفسیر سورۂ فاتحہ

الغرض ذوات واشخاص سے استعانت واستمداد بلا شبہ جائز ومستحسن ہے۔کوئی بھی مسلمان انبیاء ،اولیاء ،صلحاء سے استمدادا نہیں مستقل بالذات سمجھ کر نہیں کرتا ہے۔نہ ہی انہیں قادر بالذات سمجھتا ہے بلکہ انہیں قضائے حاجات کا وسیلہ اور وصول فیض کا واسطہ جانتا ہے اور یہ معنیٰ تو غیر خدا ہی کے ساتھ خاص ہے ۔اس استمدادواستعانت کو تصور توحید کے منافی قرار دینا اور مشرک گرداننا توحید اور شرک کے شرعی مفہوم سے جاہل وناواقف رہنے کی بین دلیل ہے۔جیسا کہ ابن تیمیہ اور اس کے ریزہ خوار محمد ابن عبد الوھاب واسماعیل دہلوی نے اسے شرک قرار دیا ہے ۔ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ پورے عالم کا مسئلہ استمدادپر اجماع واتفاق رہا کہ عہد رسالت سے تقریبا سات سو سال تک کسی کے دل میں یہ خیال بھی نہ گزرا ہوگا کہ انبیاء واولیاء سے استمداد توحید کے منافی عمل ہے۔رہا ابن تیمیہ کا اسے حرام وشرک بتانا تو یہ جمہور اسلام کی مخالفت ہے جسے اس کے دور کے علماء نے اسے مسترد کردیا ہے ۔در اصل ابن تیمیہ اور اس کے متبعین شرک وتوحید کا معنیٰ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ لوگ اس بنیادی نکتہ پر غور نہ کر سکے کہ عہد رسالت کے مشرکین کا اصل شرک کیا تھا ۔اس لئے انہوں نے اپنے خود ساختہ تصور توحید کو اسلامی تصور توحید قراردے دیاحالانکہ اسلامیات کے ماہرین نے اس بات کی خوب صراحت کردی ہے ، کہ عہد رسالت کے مشرکین کا شرک ان کا چند معبود جاننے کا نظریہ تھا اور اللہ سبحانہ کے لئے اولاد ماننے کا عقیدہ تھا اور اپنے خود ساختہ معبودوں کو نظام کائنات کی تدبیر میں خدا کا شریک سمجھناتھا ۔شرک توحید کی ضد ہے۔علامہ عینی نے توحید کا معنیٰ یہ بیان کیا ہے۔ ’’توحید اصل میں وَحَّدَ یُوَحِّدُ کا مصدر ہے اور وَحّدْتُ اللہ َ کے معنیٰ ہیں میں نے اللہ کو اس کی ذات وصفات میں منفرداعتقاد کیا ۔ جس کی نہ تو کوئی نظیر ہے ،نہ ہی اس کی کوئی شبیہ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ توحید نام ہے اللہ کی ذات کے لئے یہ ثابت کرنا کہ وہ دوسری ذات کے مشابہ نہیں ہے اور نہ صفات سے عاری ہے‘‘۔ حاشیہ بخاری جلد دوم ،ص ۱۰۹۶

اسی کے ساتھ ساتھ شرک کا مفہوم بھی ذھن میں بسالیں علامہ سعد الدین تفتازانی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں ۔شرک کرنے کے معنیٰ یہ ہیں۔الوہیت بمعنٰی وجوب وجود میں کسی کو خدا کا شریک ثابت کرنا جیسا کہ مجوسیوں کا شرک ہے ۔یا الوہیت بمعنیٰ استحقاق عبادت میں کسی کو خدا کا شریک ثابت کرنا جیسا کہ اصنام پرستوں کا شرک ہے۔ شرح العقائد للنسفی ۶۱ ، مجلس برکات مبارکپور اعظم گڑھ

شرک کی اس تعریف سے بخوبی عیاں ہے کہ خدا کی عطا کردہ قوت امداد مان کر انبیاء اولیا ء سے مدد طلب کرنا ہرگز ہرگز شرک کے خانے میں نہیں آتا …نہ ہوگا کہ دینی و دنیاوی کسی بھی طرح کی مدد کسی غیر اللہ سے چاہنا شرک ٹھہرے گا ۔والعیاذ باللہ ! تو حق وہی ہے جس پر عہد رسالت سے لیکر آج تک مسلمانان عالم کا اجماع ہے ۔بلکہ پچھلی اُمتوں کا بھی کہ قضائے حاجات کے لئے صالحین سے استمداد تصوّرِ توحید کے منافی نہیں ۔


اللہ عزوجل کے نیک بندوں سے ڈائریکٹ مانگنے کے حوالے سے چند بزرگانِ دین کے اقوال  ملاحظہ ہوں ۔ چنانچہ حضور پر نور حضورغوث اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :” من استغاث بی فی کربۃ کشف عنہ و من نادانی  باسمی فی شدۃ فرجت عنہ ومن توسل بی الی ﷲ فی حاجۃ قضیت لہ ومن صلی رکعتین یقرا فی کل رکعۃ بعد الفاتحۃ سورۃ الاخلاص احدی عشرۃ مرۃ ثم یصلی ویسلم علی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعد السلام ویذکر نی ثم یخطو الی جھۃ العراق احدی عشرۃ خطوۃ ویذکر اسمی ویذکر حاجتہ فانھا تقضی باذن ﷲ تعالی“ترجمہ:جو کسی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے وہ مصیبت دور ہو اور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے وہ سختی دفع ہو اور جو اللہ عزوجل کی طرف کسی حاجت میں مجھ سے وسیلہ کرے وہ حاجت پوری ہو اور جو دورکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں بعد فاتحہ گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھے پھرسلام پھیر کر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پردرود وسلام بھیجے اور مجھے یاد کرے، پھر بغداد شریف کی طرف گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے اور اپنی حاجت کاذکر کرے تو بیشک اللہ تعالی کے حکم سے وہ حاجت روا ہو۔(بھجۃ الاسرار  ، ذکر فضل اصحابہ وبشراھم  ،صفحہ102، مصر،چشتی)


امام عارف باﷲ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ ربانی  تحریرفرماتے ہیں:”سیدی محمد غمری رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک مرید بازار میں تشریف لیے جاتے تھے ۔ ان کے جانور کا پاؤں پھسلا،  باآواز پکارا ”یا سیدی محمد یا غمری“ادھر ابن عمر حاکمِ صعید کو بحکم سلطان چقمق قید کیے لیے جاتے تھے،  ابن عمر نے فقیر کا نداء کرنا سُنا ،  پوچھا یہ سیدی محمد کون ہیں ؟ کہا :میرے شیخ، کہا: میں ذلیل بھی کہتا ہوں ، یا سیدی یا غمری لاحِظنی“اے میرے سردار! اے محمد غمری ! مجھ پر نظر عنایت کرو،  ان کا یہ کہنا ہے کہ حضرت سیّدی محمد غمری رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے اور مدد فرمائی کہ بادشاہ اور اس کے لشکریوں کی جان پر بن گئی،  مجبورانہ ابن عمر کو خلعت دے کر رخصت کیا ۔ (لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار،ترجمہ الشیخ محمد الغمری ،جلد2،صفحہ88،مصر،چشتی)


لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار میں ہے :”حضرت سیدی محمدشمس الدین حنفی  رضی اللہ تعالی عنہ اپنے مرضِ موت میں فرماتے تھے”من کانت حاجۃ فلیأت الی قبری و یطلب حاجتہ اقضھا لہ فانّ مابینی وبینکم غیر ذراعٍ من تراب وکل رجل یحجبہ عن اصحٰبہ ذراع من تراب فلیس برجل“یعنی :جسے کوئی حاجت ہو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر حاجت مانگے میں رَوا فرمادوں گا کہ مجھ میں تم میں یہی ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے اور جس مرد کو اتنی مٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کردے ، وہ مرد کا ہے کا۔(لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ سیدنا ومولٰنا شمس الدین الحنفی، جلد2،صفحہ96،مصر)


شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری کے فتاوی میں ہے :”سئل عما یقع من العامۃ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلان و نحو ذالک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والصالحین وھل للمشائخ اغاثۃ بعد موتھم ام لا ؟فاجاب بما نصہ ان الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والاولیاء والعلماء الصالحین جائزۃ وللانبیاء والرسل والاولیاء والصالحین اغاثۃ بعد موتھم “یعنی ان سے استفتاء ہوا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیاء ومرسلین واولیاء و صالحین سے فریاد کرتے اور یاشیخ فلاں (یارسول اللہ ،یاعلی ،یا شیخ عبدالقادر جیلانی )اوران کی مثل کلمات کہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟اوراولیاء بعد انتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ بے شک انبیاء و مرسلین واولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی امداد فرماتے ہیں ۔(فتاوی رملی ،مسائل شتی ،تفضیل البشر علی الملائکہ، جلد4،صفحہ382،مکتبۃ الاسلامیہ)


مسلمان اللہ عزوجل کے نیک بندوں سےجو مددمانگتے ہیں ، وہ ان کوواسطہ  وصول فیض اوروسیلہ قضائے حاجات سمجھتے ہیں  کہ اولیاء اللہ مانگنے والے اوررب عزوجل کے درمیان  واسطہ ہیں ، وہ اللہ عزوجل کی مددکے مظہرہیں اوریہ قطعایقینادرست ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن عظیم میں ﴿ وابتغوا الیہ الوسیلۃ ﴾ یعنی اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔کاحکم فرمایاہے ۔حقیقی استعانت صرف اللہ عزوجل  کے ساتھ خاص ہےکہ وہ قادربالذات ومالک مستقل وغنی بے نیازہے ۔استعانت حقیقیہ کااعتقاداگرکوئی کسی ولی کے لیے رکھے ، تویہ شرک ہے ۔بحمداللہ کوئی مسلمان بھی اس معنی کااعتقادکسی ولی کے لیے نہیں رکھتا ۔ چنانچہ امام اہلسنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : ” استعانت حقیقیہ یہ کہ اسے قادر بالذات ومالک مستقل وغنی بے نیاز جانے کہ بے عطائے الٰہی وہ خود اپنی ذات سے اس کام کی قدرت رکھتاہے، اس معنی کا غیر خدا کے ساتھ اعتقاد ہر مسلمان کے نزدیک شرک ہے نہ ہر گز کوئی مسلمان غیر کے ساتھ اس معنی کا قصد کرتا ہے بلکہ واسطہ وصول فیض وذریعہ ووسیلہ قضائے حاجات جانتے ہیں اور یہ قطعا حق ہے۔ خود رب العزت تبارک وتعالی نے قرآن عظیم میں حکم فرمایا: ﴿ وابتغوا الیہ الوسیلۃ ﴾  اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔بایں معنی استعانت بالغیر ہر گز اس سے حصرایاک نستعین کے منافی نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 21 صفحہ نمبر 303 رضا فاونڈیشن لاھور،چشتی)


فتاوی رضویہ میں ہے:”استعانت بالغیروہی ناجائزہے کہ اس غیر کو مظہر عون الٰہی نہ جانے بلکہ اپنی ذات سے اعانت کا مالک جان کر اس پر بھروسا کرے، اور اگر مظہر عون الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتاہے تو شرک وحرمت بالائے طاق، مقام معرفت کے بھی خلاف نہیں خود حضرات انبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے ۔ ( فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 325 رضافاؤنڈیشن،لاھور)


اولیاء سے استعانت کا اہل ایمان کیامعنی مرادلیتے ہیں ؟ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے  سیدی اعلی حضرت الشاہ احمدرضاخان علیہ الرحمن فرماتے ہیں :” اہل استعانت سے پوچھو تو کہ تم انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلوۃ والثنا کو عیاذا باللہ خدا یا خدا کا ہمسر یا قادر بالذات یا معین مستقل جانتے ہو یا اللہ عزوجل کے مقبول بندے اس کی سرکار میں عزت ووجاہت والے اس کے حکم سے اس کی نعمتیں بانٹنے والے مانتے ہو؟ دیکھو تو تمھیں کیا جواب ملتاہے ۔ اما م علامہ خاتمۃ المجتہدین تقی الملۃ والدین فقیہ محدث ناصر السنۃ ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی رضی اللہ تعالی عنہ کتاب مستطاب ”شفاء السقام “ میں استمداد واستعانت کو بہت احادیث صریحہ سے ثابت کرکے ارشاد فرماتے ہیں :” لیس المراد نسبۃ النبي صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم إلی الخلق والاستقلال بالأفعال ھذا لا یقصدہ مسلم فصرف الکلام إلیہ ومنعہ من باب التلبیس في الدین والتشویش علی عوام الموحدین“یعنی: نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مددمانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور انور کو خالق اور فاعل مستقل ٹھہراتے ہوں ۔ یہ تو اس معنی پر کلام کو ڈھال کر استعانت سے منع کرنا دین میں مغالطہ دینا اور عوام مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔فقیہ محدث علامہ محقق عارف باللہ امام ابن حجر مکی قدس سرہ المکی کتاب افادت نصاب ”جوہر منظم“ میں حدیثوں سے استعانت کا ثبوت دے کر فرماتے ہیں : فالتوجہ والاستغاثۃ بہ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم بغیرہ لیس لھما معنی في قلوب المسلمین غیر ذلک ولا یقصد بھما أحد منھم سواہ فمن لم ینشرح صدرہ لذلک فلیبکِ علی نفسہ نسأل ﷲ العافیۃ والمستغاث بہ في الحقیقۃ ھو ﷲ، والنبي صلی ﷲ تعالی علیہ واسطۃ بینہ وبین المستغیث فھو سبحانہ مستغاث بہ والغوث منہ خلقاً وإیجاداً والنبي صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم مستغاث والغوث منہ سبباً وکسباً“یعنی :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا حضور اقدس کے سوا اور انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلاۃ والثناء کی طرف توجہ اور ان سے فریاد کے یہی معنی مسلمانوں کے دل میں ہیں اس کے سوا کوئی مسلمان اور معنی نہیں سمجھتا  ، نہ قصد کرتا ہے تو جس کا دل اسے قبول نہ کرے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...