Tuesday, 2 November 2021

القابات کے نیچے دبی قوم اور القابات کی شرعی حدود و احکام

القابات کے نیچے دبی قوم اور القابات کی شرعی حدود و احکام

محترم قارئینِ کرام : نام انسان کے تعارف کا ذریعہ ہے ، اسی کے ذریعہ وہ مخا طب کیا جاتاہے ، اسی سے وہ معاشرہ میں متعارف ہوتا ہے ، نام کے ساتھ ایک جز ء لقب بھی مستعمل ہے ، بعض مرتبہ القاب کسی خاص پیشہ یا وطن یا کسی اور خصوصیت کی جانب مشیر ہوتے ہیں ، آج کل معاشرہ میں مذہبی القاب کے استعمال میں بڑی بے اعتدالیاں دیکھی جارہی ہیں ، نام کے آگے القاب جڑ دیے جاتے ہیں چاہے ان القاب کی صلاحیت آدمی میں ہو یا نہ ہو ۔ بعض مرتبہ القاب سے محض ریاکاری کا جذبہ بھی ظاہر ہونے لگتا ہے ، کبھی کسی کےلیے شیخ الاسلام ، کسی کےلیے اعلیٰ حضرت ، کسی کےلیے غوثِ زماں ، کسی کےلیے مجددِ دوراں ، کسی کےلیے شیخ الفقہ ، کسی کےلیے شیخ الحدیث ، کسی کےلیے مفتی اعظم و امیرِ اہلسنت ، کسی کےلیے خطیبِ بے بدل ، خطیبِ زماں زبانِ زد خاص و عام ہیں ، اس کی شرعی حدود کیا ہیں ؟


اعتدال اس امت کےلیے عطیہ ایزدی ہے ۔ میانہ روی اور وسطیت اس  کی شناخت ہے ، مگر کچھ لوگوں کو اس قدرتی شناخت سے روگرداں ہونے کی لا علاج بیماری لاحق ہوتی ہے ۔ہر موڑ پر ایسے لوگ کہیں نہ کہیں سے افراط و تفریط کے دام میں آہی جاتے ہیں ، اس طرح کی  غلط روی سے منازل کا بعد بڑھتا ہے ، عوائق فاسدہ جنم لیتے ہیں اور بالآخر وسطیت و اعتدالیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ اسی غلط روی کے نتائج  میں سے ایک بری روش یہ ہے کہ  جماعت میں آج کل  بے جا اور ”وضع الشی علی غیر محلہ ظلم“ کے مصداق القابات کا بہت بڑا  سیل رواں آیا ہے ، اس پر بند باندھنا سنجیدہ ، دانشور اور محتاط علما  کےلیے ضروری ہو گیا ہے ۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ  عصری تعلیم یافتہ طبقہ  یا نیم مذہبی اور نیم دنیادار افراد اسلاف کی علمی شخصیتوں سے ہی متنفر نہ ہو جائے یہ سوچ کر کہ ان کی بھی شخصیتوں اور القابات میں کوئی تطابق نہیں تھا یا جہلاے عصر نے انہیں بھی آج کل کے سطحی لوگوں کی طرح بے جا القابات سے نواز رکھا تھا ۔


القابات اپنے آپ میں امانت ہوا کرتے ہیں ، اگر وہ غیر اہل کو تفویض ہوں گے تو یہ نہایت ہی  بڑی بے ایمانی ہوگی اور بچی کھچی مذہبی وقعت پر خطرے کا سائن بھی۔اس لیے راہ اعتدال کو اپنائیے جو کہ ہمارے اسلاف کی فکری اور علمی تراث ہے ۔


لفظ : ”علامہ“ کو ہی لیجیے ،یہ لفظ دوچار صدی بلکہ ایک صدی پہلے تک ان علمی شخصیتوں کےلیے موزوں ثابت ہوتا تھا جو بیک وقت معقولات و منقولات اور دیگر علوم اسلامیہ  میں اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے ،جن کے پاس لسیانیت  سے لے کر دینیات تک کی ہر گتھی سلجھانے کا ہنر تھا ،جن کا سمند علم ہر مقام پر اپنی نادر تخلیقات و علمی کاوشوں کے  نقوش چھوڑجاتا تھا ، جن کی شخصیتوں میں بےپناہ گہرائی و گیرائی پنہاں تھی ۔تحقیقات نادرہ ،تنقیحات بازغہ اور رشحات انیقہ کے ذریعے جنہوں نے اپنے علوم کا دنیا بھر میں لوہا منوایا ان کےلیے لفظ : ”علامہ“ استعمال کیا جانا بالکل حق بجانب اور بر محل تھا ۔ تاہم ان ربانی اور قدسی صفات علما کا یہ وطیرہ تھا کہ اسے بھی وہ : ”و یحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا“ کے زمرے میں رکھتے تھے اور ہر لمحہ احتساب نفس کرتے رہتے تھے ، مگر اس وقت کی  بے فیضی اور بے برکتی دیکھیے کہ ان مقدس اور خالص علمی  القابات کا جم کر استحصال  ہورہا ہے جس کا رنج ہر محتاط فکر اور سنجیدہ شخص کو ہو رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔


اسلام جہاں غلو ، غلط بیانی اور بے جا مبالغہ سے منع کرتا ہے ، وہی ہر معاملے میں راہِ اعتدال اپنانے کی تاکید کرتا ہے ۔ یہی دینِ اسلام کی ایک بڑی خوبی ہے کہ اس نے اعتدال ، توسط اور میانہ روی کی تلقین کی ہے اور ہمیں اُمتِ وسط بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ اعتدال اپنانے والوں کو کبھی بھی گمراہی اور پچھتاوے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے بر عکس وہ لوگ جو اعتدال کے دامن کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کیے ہوئے ہیں ، وہ یا تو افراط کا شکار ہوکر گمراہ ہوجاتے ہیں یا پھر تفریط کی کھائی میں جاگرتے ہیں۔ اسی طرح دینِ اسلام سادگی اور للہیت کو بڑی اہمیت دیتا ہے ، جبکہ نام ونمود ، دکھاوے اور نمائش کی مذمت کرتا ہے ۔


آج کل ہمارے معاشرے میں مذہبی القاب کے استعمال کرنے میں جو بے اعتدالیاں پائی جارہی ہیں ، وہ کسی پر اوجھل نہیں ۔ نام کے آگے القابات پرالقابات جڑ دیے جا تے ہیں ، خواہ وہ شخص ان صفات کا حامل ہو یا نہ ہو ۔ آئے روز نئے سے نئے اوربڑے سے بڑے القابات سامنے آتے ہیں ۔ بعض اوقات تو جلسوں میں اور بعض دیگر مجالس میں امیروں ، وزیروں ، عہدیداروں ، پیروں اور خصوصاً علما کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے جاتے ہیں، مثلاً کسی کےلیے حجۃ الاسلام ، کسی کےلیے شیخ الاسلام ، کسی کےلیے شیخ الفقہ ، کسی کےلیے شیخ الحدیث ، کسی کےلیے مفتی اعظم ، کسی کےلیے خطیب بے بدل ، خطیبِ زماں ، نمونۂ اسلاف ، محققِ دوراں ، محقق العصر ، علامۃ العصر ، محدث العصر ، فقیہِ زماں ، جامعِ علوم عقلیہ و نقلیہ ، شیخ المشائخ ، اعلیٰ حضرت ، مفکرِ اسلام ، غزالیِ وقت ، غزالیِ دوران ، شہنشاہِ خطابت ، محقق علی الاطلاق ، محدثِ اعظم ، ولیِ کامل ، رہبرِ شریعت ، ثانیِ جنید وغیرہ وغیرہ ۔


افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض حضرات تو باقاعدہ اپنے حلقۂ احباب کو اس طرح بڑے بڑے القاب اپنے نام کے ساتھ لگانے کی تاکید کرتے ہیں، اور القاب کے بغیر پکارے جانے پر بے التفاتی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ علماے کرام کی اکثر مجالس اس قسم کے القابات سے گونجتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مذہبی القابات کے متعلق یہی بے اعتدالیاں، پمفلٹوں اور اشتہارات میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ اور نہایت بے احتیاطی کے ساتھ شریعت کے تقاضوں کو فراموش کیا جارہا ہے ۔ ایک طرف تو یہ معاملہ ہے ، جب کہ دوسری طرف کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو اپنے لیے ایسے القاب تجویز کرتے ہیں جس سے گناہ گاری ٹپکتی ہو ، جیسے : العبد العاصی ، عاصی وغیرہ ، حالانکہ یہ بھی درست نہیں۔ یہ ساری باتیں اور احکام سمجھنے کے ہیں۔ ان کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ افراط و تفریط اور متضاد پہلوؤں کا شکار ہیں ۔ اس موضوع پر انتہائی عمدہ اور تفصیلی گفتگو علامہ ابن الحاج المالکی المصری علیہ الرحمہ نے اپنی مشہور کتاب ’’المدخل‘‘ کی پہلی جلد ’’فصل فی ذکر النعوت‘‘ کے تحت فرمائی ہے ۔ واضح رہے کہ علامہ ابن الحاج کا شمار مسلک مالکیہ کے مشہور اور بڑے فقہا میں ہوتا ہے : وقد ذکرہ السیوطي فی من کان بمصر من فقھاء المالکیۃ ۔ (حسن المحاضرۃ السیوطی جلد ۱ صفحہ ۳۸۲) ، ان کی وفات مصر کے مشہور شہر قاہرہ میں ہوئی ۔ ’’المدخل‘‘ فقہ مالکیہ کی نہایت معتبر اور انفع کتاب ہے ۔


علامہ ابن الحاج المالکی المصری علیہ الرحمہ ان القاب کے رائج ہونے کے اسباب بیان کرتے ہیں : ان کی ترویج میں سب سے بڑا کردار عجمیوں کا رہا ہے ، اور وہ اس طرح کہ جب ترک مسندِ خلافت پر غالب آگئے ، اور حکومت کی باگ ڈور خود سنبھال لی ، تو انہوں نے اپنے لیے مختلف قسم کے القابات اختیار کر لیے ، جیسے : شمس الدولۃ ، ناصر الدولۃ ، نجم الدولۃ وغیرہ ، چونکہ ان القابات کا استعمال حکومت کے مناصب پر فائز بڑے بڑے عہدے داروں کےلیے ہوتا تھا ، اس لیے لوگ ان القاب کو باعثِ عظمت و فخر سمجھنے لگے ، اس وجہ سے عام لوگوں نے ان میں انتہائی دلچسپی ظاہر کی ۔ لیکن حکومت میں منصب اور عہدہ نہ ہونے کی بنا پر ان کےلیے اپنے لیے ان القاب کا رکھنا ممکن نہیں تھا ، چنانچہ جب انہوں نے اس کے حصول کےلیے کوئی راستہ نہیں پایا تو اب انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مذہب کا راستہ اختیار کر لیا : نجم الدولۃ نہ سہی تو نجم الدین ہی سہی ۔


اس زمانے میں ان القابات کی انتہائی اہمیت اور وقعت تھی اور بڑی باعثِ عظمت اور قابلِ فخر چیز تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت نے ان ناموں اور القاب کے رکھنے پر سخت پابندی عائد کی تھی ، لہٰذا جب کوئی اپنی اولاد کےلیے اس قسم کا لقب رکھنا چاہتا تو اسے حکومت کو ایک بھاری رقم ادا کرنی ہوتی ، اور حکومت سے باقاعدہ اجازت نامہ لینا ہوتا ۔ یوں ہی لوگ حکومت کی مقرر کردہ بھاری رقم ادا کرتے تھے اور اپنی اولاد کےلیے اس قسم کے القاب تجویز کرتے تھے ۔ کچھ عرصہ کے بعد خلافتِ عباسیہ پر ترک نے مکمل طور پر قابض ہوکر ہر قسم کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ان القابات کی اہمیت باقی نہیں رہی ، کیونکہ اب حکومت ان کےلیے ایک قسم کی لونڈی بن چکی تھی ، اس لیے اب وہ مذہبی القابات میں کشش محسوس کرتے ہوئے ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور ان کےلیے نجم الدولۃ کے بجائے نجم الدین جیسے القاب زیادہ باعثِ عظمت و فخر بن گئے ۔ اس دوران حکومت نے پابندی ختم کر کے عام لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی ۔ یہ القابات اس قدر تیزی کے ساتھ رائج ہو گئے کہ کوئی بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہا ، امیر غریب ، چھوٹے بڑے سب اس وبا کی زد میں آگئے ، یہ معاملہ اس سطح پر پہنچ گیا کہ علما نے بھی اس سے مانوس ہو کر ان کے رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کی اور لوگوں سے متاثر ہو کر ان کو قبول کرنے لگے ۔ (المدخل جلد ۱ صفحہ ۱۱۰ فصل فی النعوت) ۔ القابات کی اس ترویج کے متعلق علامہ ابن خلدون علیہ الرحمہ نے بھی مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون میں اس کے قریب قریب گفتگو فرمائی ہے ۔


جب بھی کسی کو اَلقاب دو تو ایک آیت کو یاد رکھنا وہ یہ کہ اللہ رب العزت نے فرمایا : سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَ یُسْــٴَـلُوْنَ ۔ (سورہ الزخرف آیت نمبر 19)

ترجمہ :  اب لکھ لی جائے گی اُن کی گواہی اور ان سے جواب طلب ہوگا ۔


کسی کو مختلف القابات دینا یہ آپ کی طرف سے لوگوں کےلیے گواہی ہے کہ أس میں یہ قابلیت ہے تو اللہ رب العزت کے حکم سے یہ گواہی لکھی جاتی ہے اور قیامت کو آپ نے ہر دیے گئے لقب کے متعلق جواب دینا ہو گا ۔ فقیر چشتی کی تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ ہم اپنے علماء کو یا شخصیات کو جو بھی اَلقاب دیتے ہیں إس کے متعلق اللہ ہم سے پوچھے گا کہ تمہیں پتا تھا کہ وہ اس کا اہل نہیں تھا پھر بھی یہ لقب دیا اس لیے کہ وہ آپ کی پسندیدہ شخصیت تھی یا آپ کا ہم مسلک تھا ؟

لہذا بغیر حقیقت کے اَلقابات دینا غیر شرعی ہے ، اور قرآن فرماتا ہے : وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ ۔ (سورہ الرعد آیت نمبر 8)

ترجمہ : اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے ۔


سورہ نجم آیت نمبر ۳۲ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تزکیہ (خودکو پاک قرار دینے اور اپنی خوبیاں بیان) کرنے کی ممانعت فرمائی ہے ، اپنے آپ کو عیوب سے بالکل منزہ او رروحانی ترقی یافتہ مت قرار دو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے کہ کون کس درجہ پر ہے ۔ ایک مقام پر تزکیہ کو یہودیوں کا طرزِ عمل قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کا محبوب و پسندیدہ قرار دیتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی کے سامنے ایک لڑکی کا نام برّہ ذکر کیا گیا تو انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے آپ کو پاکیزہ مت قرار دو ، بلکہ لڑکی کا نام زینب رکھو ، اسی طرح اپنے آپ کو علمی کمالات سے آراستہ قرار دینا خود ہی ”علامة الدھر“ ، ”فھامة العصر“ کے القاب سے خوش ہونا ناپسندیدہ عمل ہے ، اگرچہ خودسے اس کا اظہا ر نہیں ہوتا لیکن جب اشتہار چھپ جاتا ہے ، اور اشتہار میں القاب سے نواز اجاتا ہے ، اسے دیکھ کر بھی نکیر نہیں کی جاتی ، نیز بعض افراد تو اپنے متوسلین کو اس طرح کے القاب استعمال کرنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں ، اور تو اور بعض دفعہ القاب کے بغیر پکارے جانے پر بے التفاتی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور داعی سے خفگی و ناراضگی کا اظہار کیا جاتاہے ، علامہ ابوعبداللہ قرطبی علیہ الرحمہ نے اسماء اللہ الحسنیٰ کی شرح میں لکھا ہے کہ قرآن وحدیث سے اپنا تزکیہ کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ، ہمارے علماء نے فرمایا کہ مصر کے علاقہ میں اور دیگر بلادِ عرب و عجم میں جو رواج ہو گیا ہے کہ اپنے لیے ایسی صفات استعمال کی جاتی ہے جو تزکیہ پر دلالت کرتی ہیں وہ بھی اسی ممانعت میں داخل ہیں ۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تعریف کنندہ کے منہ پر مٹی ڈالنے کاحکم دیا ہے ۔ (سنن الترمذی حدیث نمبر ۲۳۱۷)


اسی طرح ابو معمر ناقل ہیں کہ کوئی شخص ایک دفعہ اٹھ کر کسی امیر کی تعریف کرنے لگا ،حضرت مقداد رضی اللہ عنہ اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے ، نیز یہ فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والے کے چہرے پر مٹی ڈالدیا کریں ۔ (سنن الترمذی ۸/۴۰۹،چشتی)


ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روبرو ان کی تعریف کی تو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا تو مجھے ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ عموماً جلسوں میں مقرر بھی اسٹیج پر براجمان ، اور ادھر اناٶنسر مقرر کا تعارف کرواتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں ، عموماً ناظمِ جلسہ کامشغلہ ہی تعریفوں کے پل باندھنا ہوتا ہے ، امامِ غزالی علیہ الرحمہ (متوفی ۵۰۵) نے کسی کی تعریف میں چھ نقصانات کو شمار کیا ہے ، چار نقصانات تعریف کرنے والے میں اور دو ممدوح میں : ⬇


(1) اگرتعریف میں مبالغہ آمیزی کیا ہے تو یہ مبالغہ کذب بیانی پرختم ہوگا ،اسی لیے خالدبن معدان نے کہا کہ جس نے کسی اما م یا کسی اور کی ایسی تعریف کی جو ا س میں موجود نہیں تو ایسا شخص روزِمحشر سب کے روبرو اپنی زبان کھینچتا ہوا حاضر ہوگا ۔


(2) ریاکاری : اس تعریف کے ذریعہ وہ ممدوح سے محبت کا اظہار کررہا ہے ،اورکبھی دل میں اس کی محبت نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ تمام دکھلاوے کےلیے ہوتا ہے ، ایسی صورت میں وہ ریاکار شمار ہوگا ۔


(3) ایسی چیزیں بیان کرے جو ممدوح میں نہیں ، نیز اس کی اطلاع کی بھی کوئی سبیل نہیں ، آپ ا کی موجودگی میں ایک شخص کی تعریف کی گئی آپ ا نے فرمایا : اس نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی ،اگر وہ اس کو سن لے تو کامیا ب نہ ہوگا ،پھر آپ انے فرمایا :اگر کسی کی تعریف کرنی ہی ہے تو یہ کہے کہ میں فلاں کو ایسا سمجھتا ہوں ایسا گمان کرتا ہوں ۔ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روبرو کسی کی تعریف کی ، حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے اس سے سوال کیا کہ تم نے اس کے ساتھ سفرکیا ہے ؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا ہے ؟ پھر ا س نے نفی میں جوا ب دیا ، پھر سوال کیا کہ کیا تم اس کے پڑوسی ہو ؟ پھر انہوں نے نفی میں جواب دیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس ذات ِباری کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم اس شخص کو نہیں پہنچانتے ۔


(4) کبھی ممدوح اس تعریف سے خوش ہو جاتا جب کہ وہ ظالم یا فاسق ہوتا ہے اوریہ درست نہیں ؛ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب فاسق کی تعریف کی جائے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس نے ظالم کے لیے طویل عمر کی دعاء کی اس نے اس بات کو پسند کیاکہ زمین میں اللہ کی نا فرمانی ہوتی رہے ، ظالم و فاسق تو قابلِ مذمت ہے تاکہ حسرت وافسوس کرے ، تعریف نہ کی جائے کہ وہ خوش ہو ۔


(5) اس تعریف سے ممدوح میں عجب وکبر پیدا ہوگا اوریہ دونوں مہلکات میں سے ہیں ۔


(6) تعریف پر ممدوح خوش ہو جائے گویا اس تعریف سے خود بھی راضی ہے ، اس سے اپنے آپ کوکامل سمجھے گا ، جو خو دکو کامل سمجھے وہ عمل میں کوتا ہ ہوگا ، چونکہ جب تعریف میں زبانیں چلتی ہیں تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ واقعتاً قابلِ تعریف ہے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تونے اپنے ساتھی کی گردن پر تیز استراچلایا ۔ (احیاء علوم الدین ۲/۳۵۲،چشتی)


امام غزالی علیہ الرحمہ نے جو نقصانات بیان کیے ہیں اس پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تعریف میں مبالغہ آمیزی سے واقعتاً اس قسم کے نقصانات رونما ہو رہے ہیں ، اگر کسی مقرر کو کسی موقعہ پر بڑے القاب سے نوازا گیا تو وہ ان کے دھوکے میں مخالفین پر سب و شتم کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں ، اور پھولے نہ سما کر اوروں کو بھی ان القاب کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں ، حالانکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ وہ چند رٹے رٹائے جملوں کے سوا شریعت سے بے بہرہ ہیں ، اور دین کی بنیادی معلومات سے بھی نابلد ہیں ۔


قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے تزکیہ کا اعلان کرے، یا اپنے لیے ایسے القاب اختیار کرے جس میں پاکیزگی اور تقدس کا پہلو پایا جاتا ہو، چنانچہ ذیل میں اس کے متعلق چند آیاتِ کریمہ مفسرین کی تشریح کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے : اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ بَلِ اللہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَاءُ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ۔  (سورہ النساء آیت نمبر ۴۹)

ترجمہ : کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو بڑا ہی پاکیزہ بتاتے ہیں ؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے ، اور کسی پر اس عطا میں ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔


مذکورہ آیتِ مبارک کے شانِ نزول میں مفسرین لکھتے ہیں کہ : یہود اپنے آپ کو بڑے پاکیزہ اور مقدس بتلاتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ترین لوگ ہیں ۔ اس آیتِ کریمہ میں ان کی مذمت کی گئی ہے کہ ذرا ان لوگوں کو دیکھو ! جو اپنی پاکی بیان کررہے ہیں ، ان پر تعجب کرنا چاہیے ۔


فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ۔ (سورہ النجم آیت نمبر ۳۲)

ترجمہ : تم اپنی پاکیزگی مت بیان کرو ، وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے ۔


 اس آیت سے ثابت ہوا کہ دعواۓ تقدس منع ہے ۔


ایک مرتبہ ایک شخص نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک دوسرے آدمی کی خوب مدح و تعریف کی، اس پر آپ  نے فرمایا : وَیْحَکَ ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ ۔ ’’ افسوس ہے تجھ پر ، تو نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی ۔ پھر فرمایا کہ : اگر تمہیں کسی کی تعریف کرنی ہو تو ان الفاظ سے کرو کہ میرے علم کے مطابق یہ شخص نیک و متقی ہے ۔ ’’وَلَا أُزَکِّیْ عَلَی اللہِ أَحَداً‘‘ یعنی ’’ میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ کے نزدیک بھی وہ ایسا ہی ہے جیسا میں سمجھ رہا ہوں ۔ (صحیح بخاری کتاب الشہادات و الادب ۔ مسلم کتاب الزہد)


حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا : أَنْ نَّحْثُوَ فِيْ وُجُوْہِ الْمَدَّاحِیْنَ التُّرَابَ ۔

ترجمہ : ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پر مٹی دیں ، یعنی ان کو ناکام بنا دیں ۔


ایک روایت میں ہے کہ حضرت زینب بن أبی سلمہ  فرماتی ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ : تمہارا نام کیا ہے ؟ چونکہ اس وقت میرا نام ’’برّہ‘‘ تھا (جس کے معنی ہیں نیک و گناہوں سے پاک عورت) میں نے وہی بتلایا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لَاتُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ، اَللہُ أَعْلَمُ بِأَھْلِ الْبِرِّ مِنْکُمْ ۔ (رواہ مسلم و بخاری باب تحویل الاسم) ، یعنی ’’ تم اپنے آپ کی گناہوں سے پاکی بیان نہ کرو، کیونکہ یہ علم صرف اللہ ہی کو ہے کہ تم میں سے نیک اور پاک کون ہے ۔ پھر ’’برہ‘‘ کے بجائے آپ نے زینب نام رکھا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی کا نام ’’برہ‘‘ (نیک عورت) ہوگا تو اس سے جب دریافت کیا جائے گا کہ تم کون ہو ؟ تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ یہ کہے گی ’’برّہ‘‘ یعنی میں نیک اور گناہوں سے پاک خاتون ہوں ، اس میں چونکہ بظاہر صورتاً خود اپنی زبان سے نیک ہونے کا دعویٰ پایا جاتا ہے ، اس لیے آپ  نے اس سے منع فرمایا ۔


علامہ ابن الحاج مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’سنن ابوداؤد‘‘ کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک وفد حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو سنا کہ وہ اپنے سردار کو ’’ابو الحکم‘‘ سے پکار رہے تھے ، چنانچہ آ پ نے اس کنیت کو ناپسند فرمایا ، ان کے سردار کو بُلایا اور ان سے پوچھا کہ آپ کو ’’ابو الحکم‘‘ کیوں کہتے ہیں ؟ اس نے جواب میں کہا کہ : میری قوم میں جب کوئی دو فریق اختلاف کریں تو وہ میرے پاس فیصلہ کرنے کےلیے آتے ہیں ، پھر میں ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں ۔ تو دونوں فریق اس فیصلہ کو تسلیم کر لیتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا : آپ کی اولاد ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! میرے تین بیٹے ہیں : شریح ، عبداللہ ، مسلم ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا : ان میں بڑا کون ہے؟ انہوں نے کہا : شریح ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : آپ ابو شریح ہیں نہ کہ ابو الحکم ۔ کیونکہ اس میں تقدس اور بڑائی کا پہلو پایا جاتا ہے ۔ (المدخل جلد ۱ صفحہ ۱۱۰ فصل فی ذکر النعوت)


خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذاتِ اقدس کے متعلق ارشاد فرمایا : لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارٰی عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ ۔

ترجمہ : لوگو! میری تعریف میں مبالغہ سے کام نہیں لینا ، جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام  کے متعلق مبالغہ اختیار کیا ہے ۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الوہیت کا درجہ دے کر خود کافر اور مشرک بن گئے ، میرے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرنا ’’إِنِّيْ عَبْدُاللہِ وَ رَسُوْلُہٗ‘‘ ۔ ’’میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ لہٰذا تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو ۔ (صحیح بخاری باب و اذکر فی الکتاب مریم)


یہاں پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ بعض مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح اور تعریف فرمائی ہے ، اور ان کو اچھے اچھے القابات سے نوازا ہے ۔ حضرت عثمان کے بارے میں فرمایا : ’’وَأَصْدَقُھُمْ حَیَاء عُثْمَانُ‘‘ حضرت علی کے بارے میں فرمایا : ’’وَأَقْضَاھُمْ عَلِيٌّ‘‘ حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا : وَأمِیْنُ اُمَّتِيْ أبُوْعُبَیْدَۃُ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَ أَعْلَمُ أُمَّتِيْ بِالْحَلَالِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَقْرَأُھُمْ أَبُوْ مُوْسٰی، نِعْمَ الْعَبْدُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَ غَیْرُ ذٰلِکَ ۔


جواب : اس سوال کا جواب امام نووی ، حافظ ابن حجر ، اور علامہ ابن بطال علیہم الرحمہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ صرف حقیقتِ حال بیان کرنے کی اجازت ہے کہ میرے علم کے مطابق فلاں آدمی میں یہ خوبی ہے ، اس میں مبالغہ سے کام لینا جائز نہیں ، جیسا کہ ’’الْمَدَّاحِیْن‘‘ (بہت زیادہ تعریف کرنے والے ) کا لفظ بھی اس پر دلالت کرتا ہے ۔ یہ بھی صرف اس شخص کے متعلق کہا جا سکتا ہے جس کے متعلق تکبر اور عجب کے فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحابہ کرام کے بارے میں یقین تھا کہ وہ حضرات اس سے فتنہ میں مبتلا نہیں ہوں گے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی ، چونکہ صحابہ کرام کے علاوہ دیگر لوگوں کے متعلق فتنہ میں ابتلا کا اندیشہ غالب ہے ، لہٰذا دوسرے لوگوں کی تعریف سے بچنا چاہیے ۔ (شرح صحیح البخاری لابن البطال باب ما یکرہ من التمادح جلد ۹ صفحہ ۲۵۳)(فتح الباری باب ما یکرہ من التمادح جلد ۱۰ صفحہ ۴۷۶)(شرح النووی علی صحیح مسلم باب النہی عن المدح)


قرآن وسنت کے ماہرین حضرات فقہاے کرام علیہم الرحمہ نے بھی نیکی ، تقدس ، پاکیزگی ، بڑائی اور مدح سرائی میں مبالغہ کا تأثر دینے والے ان القاب کو ناجائز قرار دیا ہے : ⏬


چنانچہ مالکیہ کے مشہور فقیہ علامہ ابن الحاج المالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس بدعت سے بچنا ضروری ہے جو وبا کی طرح پھیل گیا ہے اور شاید ہی اس کی زد سے کوئی بڑا چھوٹا محفوظ رہا ہو ، اور وہ یہ نئے اور خود ساختہ القابات ہیں جو شریعت کے سراسر مخالف ہیں ، وہ ہیں : ’’فلان الدین و فلان الدین‘‘ عالم کےلیے تو اور زیادہ ضروری ہے کہ وہ اس جیسے القاب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے ۔ اس سلسلے میں لوگوں کو بھی سمجھائیں کہ یہ القاب شریعت کے مخالف ہیں ، لہٰذا ان کو اس جیسے القاب سے نہ پکاریں ۔ ایسے القاب و اسما کو استعمال کرنا جو تزکیہ اور تعریف پر مشتمل ہو ، اس کی ممانعت کتاب اللہ ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علما کے اقوال سے ثابت ہوتی ہے ۔ نیز یہ غلط بیانی اور جھوٹ میں داخل ہوکر سلفِ صالحین کے عمل کے بالکل مخالف ہے ۔

آگے فرماتے ہیں کہ : اگر ان القاب و اسماء کا استعمال جائز ہوتا تو اُمتِ محمدیہ میں اس کے سب سے زیادہ حقدار اور مستحق صحابہ کرام تھے ، جو ہدایت کے سورج اور اندھیروں کے چراغ تھے ، اور دین کے سب سے پہلے مددگار تھے ، جیسا کہ قرآن نے اس کی گواہی دی ہے ۔ اسی طرح ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن  جن کو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کےلیے چنا اور جن کی فضیلت کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے۔ ام المومنین حضرت زینب کا پہلے نام ’’برہ‘‘ تھا ، آپ نے تبدیل کر دیا ، حالانکہ وہ اس کی مصداق اور حقدار تھیں، تو پھر ہم کون ہیں کہ اپنے لیے ایسے القاب تجویز کریں ، لہٰذا نجات اور کامیابی صحابہ کرام کی اتباع میں ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے امام نووی کا مشہور اور معروف واقعہ بھی نقل کیا ہے ۔

امام نووی علیہ الرحمہ مشہور شافعی عالم دین ہیں جو کئی مفید اور بڑی کتابوں کے مصنف ہیں ، جن میں شرح مجموع مہذب ، اور شرح مسلم جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے اور ریاض الصالحین وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ یہ شافعیہ میں بڑی عبقری شخصیت گزرے ہیں جن کی تصنیفات سے اُمت کا ایک بڑا طبقہ استفادہ کرتا چلا آرہا ہے ، دینی و علمی خدمات کی بنیاد پر جب ان کے معاصرین نے ان کو محی الدین کے لقب سے موسوم کیا تو انہوں نے سخت ناراضگی کااظہار کیا ، اور فرمایا : إِنِّيْ لَا أجْعَلُ أحَداً فِيْ حِلِّ مَنْ یُّسَمِّیْنِيْ بِمُحْيِ الدِّیْنِ ۔ ‘‘ یعنی میں کسی کو بھی محی الدین کے لقب سے پکارنے کی اجازت نہیں دیتا ، حالانکہ وہ اس لقب کے حق دار بھی تھے، یہی وجہ ہے کہ امت نے انہیں انتقال کے بعد اس لقب سے موسوم کیا ، مگر اپنی زندگی میں انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور ظاہر ہے کہ ناراضگی کی وجہ صرف یہی تھی کہ اس میں مذہبی تقدس کا پہلو تھا ۔ (المدخل جلد ۱ صفحہ ۱۱۱ فصل فی النعوت)


مولانا عبدالحئی لکھنوی  نے ’’فوائدِ بہیہ‘‘ کے آخر میں لکھا ہے کہ عراق کے فقہا میں عام طور پر القاب میں سادگی تھی ، وہ کاروبار ، محلہ ، قبیلہ یا گاؤں کی طرف نسبت کرنے پر اکتفا کیا کرتے تھے ، جیسے جصاص (گچ والا) ، قدوری (ہانڈی والا) ، طحاوی (طحا گاؤں کا باشندہ)، کرخی (مقام کرخ کا باشندہ)، صیمری (صیمرہ کا باشندہ) ، اور خراسان اور ماوراء النہر میں عام طور پر القاب میں مبالغہ کیا جاتا تھا ، اور دوسروں پر ترفع ظاہر کیا جاتا تھا ، جیسے : شمس الائمہ ، فخر الاسلام ، صدر الاسلام ، صدرِ جہاں ، صدر الشریعہ وغیرہ اور یہ صورت زمانۂ ما بعد میں پیدا ہو گئی تھی ۔ پہلے زمانے کے لوگ اس قسم کی باتوں سے پاک تھے ۔ ابو عبداللہ قرطبی اسماء اللہ الحسنیٰ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ : قرآن و حدیث سے اپنا تزکیہ کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ۔ ہمارے علما نے فرمایا ہے کہ : مصر کے علاقوں میں اور دیگر بلادِ عرب و عجم میں جو رواج ہو گیا ہے کہ اپنے لیے ایسی صفات استعمال کی جاتی ہیں جو تزکیہ اور تعریف پر دلالت کرتی ہیں وہ بھی اس ممانعت میں داخل ہے ، جیسے زکی الدین، محی الدین ، علم الدین ، اور اسی طرح کے دیگر القاب ۔


 اور محی الدین نحاس علیہ الرحمہ کی ’’تنبیہ الغافلین‘‘ میں جہاں منکرات کا تذکرہ ہے ، لکھا گیا ہے کہ منکرات میں سے وہ بھی ہے جو وبا کی طرح پھیل گیا ہے ، یعنی وہ جھوٹ جو زبانوں پر رائج ہو گیا ہے اور وہ خود ساختہ القاب ہیں : جیسے محی الدین ، نور الدین ، عضد الدین ، غیاث الدین ، معین الدین ، اور ناصر الدین وغیرہ ۔


یہ ان کےلیے جو ان القابات کا استحقاق نہیں رکھتے ۔ باقی جن بزرگان دین کے ساتھ یہ القابات ذکر کیے جاتے ہیں وہ بالکل حق بجانب اور سچ ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے سامنے یہ بات خوب واضح کر لی جائے ، کہ اس طرح بے محل القاب استعمال کرنا ہر گزر درست نہیں ، بلکہ یہ غلط بیانی اور جھوٹ میں داخل ہے ۔ نیز مدارسِ دینیہ میں طلبہ کرام کی اس طرح تربیت کی جائے کہ وہ اپنے لیے ایسے القاب پسند ہی نہ کریں ، بلکہ سادگی کے ساتھ اپنے نام کو ہی پسند کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سلسلے میں افراط و تفریط سے بچنے اور راہِ اعتدال پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔


اکابرینِ امت کی خدمات کا تنوع او راس کی وسعت وہمہ گیری کابنیادی سبب ان کاخلوص وللہیت کا خوگر ہونا اور ریاکاری سے دوری تھی ، ان کے نزدیک کام اہم ہوتا نام کی ضرورت نہ ہوتی ، علامہ نووی مشہور شافعی عالم دین ہیں ان کی مشہور کتاب شرح مجموع مہذب کئی جلدوں میں ہے ، مسلم شریف کی بھی انہوں نے بہترین شرح لکھی ہے ، اس کے علاوہ بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں ، ابن حجر عسقلانی جیسی نابغہ روزگار شخصیت نے بھی اپنی کتابوں میں جابجاعلامہ نووی کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، اس کے باوجود ان کے روبرو ایک شخص نے انہیں محی الدین کے لقب سے موسوم کیا تو علامہ نووی بگڑ گئے اور یہ کہا کہ میں نے کسی کو اپنے لیے محی الدین نام رکھنے کی اجازت نہیں دی (علیہم الرحمہ) ۔ (المدخل لابن امیر الحاج بحوالہ الشریعہ)


یہ اس لقب کے حقدار بھی تھے ، ملت نے انہیں انتقال کے بعد بھی اسی لقب سے موسوم کیا ؛ لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں اس پر خوش ہونے کے بجائے بڑے سخت لہجے میں اس کی تردید کی ۔ ا سی طرح عراق کے فقہا ء میں عام طور پر سادگی تھی ، وہ کاروبار ، محلہ ، قبیلہ ، یا گاٶں کی طرف نسبت کرتے تھے ، جیسے جصاص (گچ والا) قدوری (ہانڈی والا) طحاوی (طحا گاوٴں کاباشندہ) کرخی (مقام کرخ کا رہنے والا) البتہ ماوراء النہر کے علماء میں عام طورپر القاب میں مبالغہ کیاجاتا تھا او ردوسروں پر ترفع ظاہر کیاجاتا ،جیسے شمس الاسلام ، فخرالاسلام ، صدراالاسلام ، صدر جہاں ، صدر الشریعہ وغیرہ ، اوریہ صورت زمانہ مابعد میں پیدا ہوگئی تھی ، پہلے زمانے کے لوگ اس قسم کی باتوں سے پاک تھے ۔ ہمارے عرف میں یہ القاب محی الدین ، ناصرالدین ، وغیرہ بطورِ نا م کے استعمال ہوتے ہیں اس لیے ممنوع نہیں ہیں ، ہمارے محاورات میں القابِ عالیہ کی مثالیں مفتیِ اعظم ، محققِ بے بدل ، خطیبِ عصر ، علامہ زمان وغیر ہ ہیں ۔ 


القاب سے ایسی عظیم شخصیتوں کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ ان شخصیتوں کے نام سے القاب کو زندگی مل جاتی ہے ، اطالوی فلاسفر نکولو میکاولی (م:۱۵۲۷ء) نے کہا تھا : ⏬


"It is not titles that honor men,but men that honor titles"

ترجمہ : القاب شخصیتوں کو عزت نہیں دیتے ، شخصیتیں القاب کو قابل احترام بنادیتی ہیں ۔


خلیل مطران (م:۱۹۴۹ء) نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے : ⏬


لہ من الشِّیَم الغرّاء مملکۃٌ

إن کان ذا لقبٍ أو غیرَ ذي لقبِ

ترجمہ : دلوں پراس کے اخلاق کریمانہ کی حکومت ہے ، وہ صاحب لقب ہو یا نہ ہو ۔


لیکن یہ الفاظ کے ساتھ انصاف نہیں کہ ہر کس و ناکس کو کوئی بڑا لقب دے کر راتوں رات ہیرو بنانے کی کوشش کی جائے ، اس کو ستائش کے خول یا تعریف کے قفس زریں میں بند کر دیا جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نا پسند فرماتے تھے کہ بلا وجہ تعریف میں مبالغہ سے کام لیا جائے ، وفد بنی عامر نے تعریف پہ تعریف شروع کی تو آپ نے فرمایا : قولوا بقولکم أوبعضَ قولکم ،ولا یستجرینّکم الشیطان ۔ (سنن أبوداود:۴۸۰۸،باب في کراہیۃ التمادح)

ترجمہ : بس اپنی اسی بات پر یا انہیں میں سے بعض باتوں پر اکتفا کرو ، شیطان تم سے دھیرے دھیرے وہ بات نہ کہلوا دے جو درست نہ ہو ۔


عبقری اور عظیم شخصیات القاب کی بیساکھیوں پر چل کر ترقی کے زینے طے نہیں کرتیں ، ان کی تمام تر ترقیات ان کے خلوص ، سعی پیہم اور جانفشانیوں کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں ، لیکن اب نقل ’’کارناموں‘‘ کی نہیں ’’کار‘‘ اور ’’ناموں‘‘ کی ہونے لگی ہے ، اب صورتِ حال مختلف ہے ، القاب میں بیجا بناؤ سنگھار بھی جاری ہے ، اور طرفہ یہ کہ جو حضرات ان سے نوازے جاتے ہیں ، وہ واقعی خود کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں ، مختلف جلسوں میں سے ایک جلسہ میں فقیر چشتی کو شرکت کا موقع ملا ، وہاں ایک صاحب تشریف رکھتے تھے جو شہر میں تعلیمی خدمات کےلیے یوں شہرت رکھتے تھے کہ وہ کئی اداروں کی ورکنگ کمیٹی میں دخل رکھتے تھے ، نقیبِ محفل نے ان کو دعوت سخن دیتے ہوئے کہا : شہرِ کے سب سے بڑے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب فلاں صاحب جبکہ اداروں سے منسلک ہونا اور بات ہے اور کسی تعلیمی یا اصلاحی نظریہ کا محرک ہونا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک بالکل دوسری بات ، موسم کی طرح ہر لفظ کا ایک درجۂ حرارت یا درجۂ برودت ہوتا ہے ، ’’حضرت‘‘ کا لفظ تو ایسا ’’بے اعتبار‘‘ یا ’’بااعتبار‘‘ ہو گیا کہ واقعی کسی بڑی شخصیت کےلیے صرف حضرت کا لفظ کافی نہیں رہا ، چونکہ ’’ملاّ‘‘ بھی حضرت ہو گئے اور مراثی گوٸیے‘‘ بھی حضرت ، ضرورت ہے القاب و آداب کے استعمال میں واقعیت اور توازن کی ، دنیاکی قیادت کا منصب حقیقت پسندی کا طالب ہے ، بے جا الفاظ سے کھیلنے کا نہیں ۔ عوام میں بے محل القاب کے نقصانات بیان کیے جائیں کہ عوام خود کذب بیانی وغیرہ کے خوف سے اس سے پرہیز کرنے لگیں ، مدارسِ دینیہ میں ابتداء ہی سے ایسی تربیت کی جائے کہ طلبہ اپنے لیے القاب کے بجائے نام ہی زیادہ پسند کرنے لگیں ۔ اللہ تعالیٰ اَلقاب کے سلسلہ میں صحیح طرزِ عمل اپنا نے کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیدارِ الٰہی

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیدارِ الٰہی محترم قارئینِ کرام : : شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے دیدار پر...