Tuesday, 2 November 2021

القابات کے نیچے دبی قوم اور شرعی حکم

 القابات کے نیچے دبی قوم اور شرعی حکم

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : نام انسان کے تعارف کا ذریعہ ہے ، اسی کے ذریعہ وہ مخا طب کیا جاتاہے ، اسی سے وہ معاشرہ میں متعارف ہوتا ہے ، نام کے ساتھ ایک جز ء لقب بھی مستعمل ہے ، بعض مرتبہ القاب کسی خاص پیشہ یا وطن یا کسی اور خصوصیت کی جانب مشیر ہوتے ہیں ، آ ج کل معاشرہ میں مذہبی القاب کے استعمال میں بڑی بے اعتدالیاں دیکھی جارہی ہیں ، نام کے آگے القاب جڑدئیے جاتے ہیں چاہے ان القاب کی صلاحیت آدمی میں ہو یا نہ ہو ۔ بعض مرتبہ القاب سے محض ریاکاری کا جذبہ بھی ظاہر ہونے لگتا ہے ، کبھی کسی کےلیے شیخ الاسلام ، ، کسی کے لیے شیخ الفقہ ، کسی کےلیے شیخ الحدیث ، کسی کےلیے مفتی اعظم و امیرِ اہلسنت ، کسی کےلیے خطیبِ بے بدل ، خطیبِ زماں زبانِ زد خاص و عام ہیں ، اس کی شرعی حدود کیا ہیں ؟


جب بھی کسی کو ألقاب دو تو ایک آیت کو یاد رکھنا وہ یہ کہ اللہ رب العزت نے فرمایا : ستکتب شهادتهم ويسئلون ۔ (سورہ الزخرف : 19)

ترجمہ : ہم أنکی گواہی کو لکھتے ہیں أور ( قیامت کے دن) أن سے ( أس گواہی کے متعلق) پوچھا جائے گا ۔


کسی کو مختلف ألقابات دینا یہ آپ کی طرف سے لوگوں کےلیے گواہی ہے کہ أس میں یہ قابلیت ہے تو اللہ رب العزت کے حکم سے یہ گواہی لکھی جاتی ہے أور قیامت کو آپ نے ہر دیے گئے لقب کے متعلق جواب دینا ہوگا ۔


فقیر چشتی کی تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ ہم أپنے علماء کو یا شخصیات کو جو بھی ألقاب دیتے ہیں إس کے متعلق اللہ ہم سے پوچھے گا کہ تمہیں پتا تھا کہ وہ اس کا اہل نہیں تھا پھر بھی یہ لقب دیا اس لیے کہ وہ آپ کی پسندیدہ شخصیت تھی یا آپ کا ہم مسلک تھا ؟

لہذا بغیر حقیقت کے ألقابات دینا غیر شرعی ہے ، أور قرآن فرماتا ہے : وكل شيء عنده بمقدار ۔ (سورہ الرعد: 8)

ترجمہ : أسی ( اللہ تعالیٰ) کے ہاں ہر شئے کی ایک مقدار ہے ۔


سورہ نجم آیت نمبر۳۲ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تزکیہ (خودکو پاک قراردینے اور اپنی خوبیاں بیان) کرنے کی ممانعت فرمائی ہے ، اپنے آپ کو عیوب سے بالکل منز ہ او رروحانی ترقی یافتہ مت قرار دو ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے کہ کون کس درجہ پر ہے ۔ ایک مقام پر تزکیہ کو یہودیوں کا طرزِ عمل قراردیا گیا ہے کہ وہ اپنے آ پ کو اللہ کا محبوب و پسندیدہ قرار دیتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی کے سامنے ایک لڑکی کا نام برّہ ذکرکیا گیا تو انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے آپ کو پاکیزہ مت قراردو ؛ بلکہ لڑکی کا نام زینب رکھو ، اسی طرح اپنے آپ کو علمی کمالات سے آراستہ قراردینا خود ہی ”علامة الدھر “،”فھامة العصر “کے القاب سے خوش ہونا ناپسندیدہ عمل ہے، اگرچہ خودسے اس کا اظہا ر نہیں ہوتا لیکن جب اشتہار چھپ جاتا ہے ، او راشتہار میں القاب سے نواز اجاتا ہے ، اسے دیکھ کر بھی نکیر نہیں کی جاتی ، نیز بعض افراد تو اپنے متوسلین کو اس طرح کے القاب استعمال کرنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں ، اور تو اور بعض دفعہ القاب کے بغیر پکارے جانے پر بے التفاتی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور داعی سے خفگی وناراضگی کا اظہارکیا جاتاہے ،علامہ ابوعبداللہ قرطبی نے اسماء اللہ الحسنیٰ کی شرح میں لکھا ہے کہ قرآن وحدیث سے اپنا تزکیہ کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ، ہمارے علماء نے فرمایا کہ مصر کے علاقہ میں اوردیگر بلاد ِعرب و عجم میں جو رواج ہوگیا ہے کہ اپنے لیے ایسی صفات استعمال کی جاتی ہے جو تزکیہ پر دلالت کرتی ہیں وہ بھی اسی ممانعت میں داخل ہیں ۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں آپ ا نے تعریف کنندہ کے منہ پر مٹی ڈالنے کاحکم دیا ہے ۔ (سنن الترمذی:۲۳۱۷)


اسی طرح ابو معمر ناقل ہیں کہ کوئی شخص ایک دفعہ اٹھ کر کسی امیر کی تعریف کرنے لگا ،حضرت مقداد رضی اللہ عنہ اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے ، نیز یہ فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والے کے چہرے پر مٹی ڈالدیا کریں ۔ (سنن الترمذی ۸/۴۰۹،چشتی)


ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روبرو ان کی تعریف کی تو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا تو مجھے ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ عموماً جلسوں میں مقرر بھی اسٹیج پر براجمان ، اور ادھر اناٶنسر مقرر کا تعارف کرواتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں ، عموماً ناظم ِجلسہ کامشغلہ ہی تعریفوں کے پل باندھنا ہوتا ہے ، امام ِغزالی علیہ الرحمہ (متوفی ۵۰۵) نے کسی کی تعریف میں چھ نقصانات کو شمار کیا ہے ، چار نقصانات تعریف کرنے والے میں اوردوممدوح میں ۔


(1) اگرتعریف میں مبالغہ آمیزی کیا ہے تو یہ مبالغہ کذب بیانی پرختم ہوگا ،اسی لیے خالدبن معدان نے کہا کہ جس نے کسی اما م یا کسی اور کی ایسی تعریف کی جو ا س میں موجود نہیں تو ایسا شخص روزِمحشر سب کے روبرو اپنی زبان کھینچتا ہوا حاضر ہوگا ۔


(2) ریاکاری :اس تعریف کے ذریعہ وہ ممدوح سے محبت کا اظہار کررہا ہے ،اورکبھی دل میں اس کی محبت نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ تمام دکھلاوے کے لیے ہوتا ہے ،ایسی صورت میں وہ ریاکار شمار ہوگا ۔


(3) ایسی چیزیں بیان کرے جو ممدوح میں نہیں ، نیز اس کی اطلاع کی بھی کوئی سبیل نہیں ، آپ ا کی موجودگی میں ایک شخص کی تعریف کی گئی آپ ا نے فرمایا : اس نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی ،اگر وہ اس کو سن لے تو کامیا ب نہ ہوگا ،پھر آپ انے فرمایا :اگر کسی کی تعریف کرنی ہی ہے تو یہ کہے کہ میں فلاں کو ایسا سمجھتا ہوں ایسا گمان کرتا ہوں ۔ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روبرو کسی کی تعریف کی ، حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے اس سے سوال کیا کہ تم نے اس کے ساتھ سفرکیا ہے ؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا ہے ؟ پھر ا س نے نفی میں جوا ب دیا ، پھر سوال کیا کہ کیا تم اس کے پڑوسی ہو ؟ پھر انہوں نے نفی میں جواب دیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس ذات ِباری کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم اس شخص کو نہیں پہنچانتے ۔


(4) کبھی ممدوح اس تعریف سے خوش ہو جاتا جب کہ وہ ظالم یا فاسق ہوتا ہے اوریہ درست نہیں ؛ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب فاسق کی تعریف کی جائے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس نے ظالم کے لیے طویل عمر کی دعاء کی اس نے اس بات کو پسند کیاکہ زمین میں اللہ کی نا فرمانی ہوتی رہے ، ظالم و فاسق تو قابلِ مذمت ہے تاکہ حسرت وافسوس کرے ، تعریف نہ کی جائے کہ وہ خوش ہو ۔


(5) اس تعریف سے ممدوح میں عجب وکبر پیدا ہوگا اوریہ دونوں مہلکات میں سے ہیں ۔


(6) تعریف پر ممدوح خوش ہوجائے گویا اس تعریف سے خود بھی راضی ہے ، اس سے اپنے آپ کوکامل سمجھے گا ،جو خو دکو کامل سمجھے وہ عمل میں کوتا ہ ہوگا ، چونکہ جب تعریف میں زبانیں چلتی ہیں تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ واقعتا قابل تعریف ہے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : تونے اپنے ساتھی کی گردن پر تیز استراچلایا ۔ (احیاء علوم الدین ۲/۳۵۲،چشتی)


امام غزالی علیہ الرحمہ نے جو نقصانات بیان کیے ہیں اس پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تعریف میں مبالغہ آمیزی سے واقعتاً اس قسم کے نقصانات رونما ہو رہے ہیں ، اگر کسی مقرر کو کسی موقعہ پر بڑے القاب سے نوازا گیا تو وہ ان کے دھوکے میں مخالفین پر سب و شتم کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں ، اور پھولے نہ سما کر اوروں کو بھی ان القاب کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں ، حالانکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ وہ چند رٹے رٹائے جملوں کے سوا شریعت سے بے بہرہ ہیں ، اور دین کی بنیادی معلومات سے بھی نابلد ہیں ۔


اکابرینِ امت کی خدمات کا تنوع او راس کی وسعت وہمہ گیری کابنیادی سبب ان کاخلوص وللہیت کا خوگر ہونا اور ریاکاری سے دوری تھی ، ان کے نزدیک کام اہم ہوتا نام کی ضرورت نہ ہوتی ، علامہ نووی مشہور شافعی عالم دین ہیں ان کی مشہورکتا ب شرح مجموع مہذب کئی جلدوں میں ہے ، مسلم شریف کی بھی انہوں نے بہترین شرح لکھی ہے ،اس کے علاوہ بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں ، ابن حجر عسقلانی جیسی نابغہ ٴروزگار شخصیت نے بھی اپنی کتابوں میں جابجاعلامہ نووی کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ،اس کے باوجود ان کے روبرو ایک شخص نے انہیں محی الدین کے لقب سے موسوم کیاتو علامہ نووی بگڑگئے اور یہ کہا کہ میں نے کسی کو اپنے لیے محی الدین نام رکھنے کی اجازت نہیں دی (علیہم الرحمہ) ۔ (المدخل لابن امیر الحاج بحوالہ الشریعہ)


یہ اس لقب کے حقدار بھی تھے ، ملت نے انہیں انتقال کے بعد بھی اسی لقب سے موسوم کیا ؛ لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں اس پر خوش ہونے کے بجائے بڑے سخت لہجے میں اس کی تردید کی ۔ ا سی طرح عراق کے فقہا ء میں عام طور پر سادگی تھی ، وہ کاروبار ، محلہ ، قبیلہ ، یا گاٶں کی طرف نسبت کرتے تھے ، جیسے جصاص (گچ والا) قدوری (ہانڈی والا) طحاوی (طحا گاوٴں کاباشندہ) کرخی (مقام کرخ کا رہنے والا) البتہ ماوراء النہر کے علماء میں عام طورپر القاب میں مبالغہ کیاجاتا تھا او ردوسروں پر ترفع ظاہر کیاجاتا ،جیسے شمس الاسلام ، فخرالاسلام ، صدراالاسلام ، صدر جہاں ، صدر الشریعہ وغیرہ ، اوریہ صورت زمانہ مابعد میں پیدا ہوگئی تھی ، پہلے زمانے کے لوگ اس قسم کی باتوں سے پاک تھے ۔ ہمارے عرف میں یہ القاب محی الدین ، ناصرالدین ، وغیرہ بطورِ نا م کے استعمال ہوتے ہیں اس لیے ممنوع نہیں ہیں ، ہمارے محاورات میں القابِ عالیہ کی مثالیں مفتیِ اعظم ، محققِ بے بدل ، خطیبِ عصر ، علامہ زمان وغیر ہ ہیں ۔ 


القاب سے ایسی عظیم شخصیتوں کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتابلکہ ان شخصیتوں کے نام سے القاب کو زندگی مل جاتی ہے ، اطالوی فلاسفر نکولو میکاولی (م:۱۵۲۷ء) نے کہا تھا :

"It is not titles that honor men,but men that honor titles"

ترجمہ : القاب شخصیتوں کو عزت نہیں دیتے ، شخصیتیں القاب کو قابل احترام بنادیتی ہیں ۔


خلیل مطران (م:۱۹۴۹ء) نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے :


لہ من الشِّیَم الغرّاء مملکۃٌ

إن کان ذا لقبٍ أو غیرَ ذي لقبِ

ترجمہ : دلوں پراس کے اخلاق کریمانہ کی حکومت ہے ، وہ صاحب لقب ہو یا نہ ہو ۔


لیکن یہ الفاظ کے ساتھ انصاف نہیں کہ ہر کس و ناکس کو کوئی بڑا لقب دے کر راتوں رات ہیرو بنانے کی کوشش کی جائے ، اس کو ستائش کے خول یا تعریف کے قفس زریں میں بند کر دیا جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نا پسند فرماتے تھے کہ بلا وجہ تعریف میں مبالغہ سے کام لیا جائے ، وفد بنی عامر نے تعریف پہ تعریف شروع کی تو آپ نے فرمایا : قولوا بقولکم أوبعضَ قولکم ،ولا یستجرینّکم الشیطان  (أبوداود:۴۸۰۸،باب في کراہیۃ التمادح)

ترجمہ : بس اپنی اسی بات پر یا انہیں میں سے بعض باتوں پر اکتفا کرو ، شیطان تم سے دھیرے دھیرے وہ بات نہ کہلوا دے جو درست نہ ہو ۔


عبقری اور عظیم شخصیات القاب کی بیساکھیوں پر چل کر ترقی کے زینے طے نہیں کرتیں ، ان کی تمام تر ترقیات ان کے خلوص ، سعی پیہم اور جانفشانیوں کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں ، لیکن اب نقل ’’کارناموں‘‘ کی نہیں ’’کار‘‘ اور ’’ناموں‘‘ کی ہونے لگی ہے ، اب صورتِ حال مختلف ہے ، القاب میں بیجا بناؤ سنگھار بھی جاری ہے ، اور طرفہ یہ کہ جو حضرات ان سے نوازے جاتے ہیں ، وہ واقعی خود کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں ، مختلف جلسوں میں سے ایک جلسہ میں فقیر چشتی کو شرکت کا موقع ملا ، وہاں ایک صاحب تشریف رکھتے تھے جو شہر میں تعلیمی خدمات کےلیے یوں شہرت رکھتے تھے کہ وہ کئی اداروں کی ورکنگ کمیٹی میں دخل رکھتے تھے ، نقیبِ محفل نے ان کو دعوت سخن دیتے ہوئے کہا : شہرِ کے سب سے بڑے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جناب فلاں صاحب جبکہ اداروں سے منسلک ہونا اور بات ہے اور کسی تعلیمی یا اصلاحی نظریہ کا محرک ہونا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک بالکل دوسری بات ، موسم کی طرح ہر لفظ کا ایک درجۂ حرارت یا درجۂ برودت ہوتا ہے ، ’’حضرت‘‘ کا لفظ تو ایسا ’’بے اعتبار‘‘ یا ’’بااعتبار‘‘ ہوگیا کہ واقعی کسی بڑی شخصیت کےلیے صرف حضرت کا لفظ کافی نہیں رہا ، چونکہ ’’ملاّ‘‘ بھی حضرت ہوگئے اور مراثی گوٸیے‘‘ بھی حضرت ، ضرورت ہے القاب و آداب کے استعمال میں واقعیت اور توازن کی ، دنیاکی قیادت کا منصب حقیقت پسندی کا طالب ہے ، بے جا الفاظ سے کھیلنے کانہیں ۔ عوام میں بے محل القاب کے نقصانات بیان کیے جائیں کہ عوام خو د کذب بیانی وغیرہ کے خوف سے اس سے پرہیز کرنے لگیں ، مدارسِ دینیہ میں ابتداء ہی سے ایسی تربیت کی جائے کہ طلبہ اپنے لیے القاب کے بجائے نام ہی زیادہ پسند کرنے لگیں ۔ اللہ تعالیٰ القاب کے سلسلہ میں صحیح طرزِ عمل اپنا نے کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...