Tuesday, 30 November 2021

نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ دوم

 نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حدیث نور اور نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : يا جابر إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره ، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله تعالى ، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ولا سماء ولا أرض ولا شمس ولا قمر ولا جني ولا إنسي ، فلما أراد الله تعالى أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول القلم ، ومن الثاني اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول حملة العرش ومن الثاني الكرسي ومن الثالث باقي الملائكة ، ثم قسم الجزء الرابع إلى أربعة أجزاء فخلق من الأول نور أبصار المؤمنين ومن الثاني نور قلوبهم وهي المعرفة بالله ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله ثم نظر إليه فترشح النور عرقاً  فتقطرت منه مائة ألف قطرة ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا اور یہ الله کی قدرت سے جہاں الله چاہتا جاتا اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم نہ جنت نہ جہنم نہ فرشتے نہ آسمان نہ زمین نہ سورج نہ چاند نہ جن و انس- پس جب الله نے ارادہ کیا خلق  کرنے کا تو اس نور کے چار ٹکرے کیے- ایک جز سے قلم بنا دوسرے سے لوح ،  تیسرے سے عرش،  پھر چوتھے کے بھی چار جز اور کیے ان میں سے ایک سے عرش کو اٹھانے والے، دوسرے سے کرسی ، تیسرے سے باقی فرشتے –  پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے  مومنوں کی آنکھوں کا نور بنا،  دوسرے سے دلوں کا نور جو الله کی   معرفت ہے ،  تیسرے سے ان کے نفسوں کا نور جو توحید ہے لا إله إلا الله محمد رسول الله –  پھر اس (کلمہ) پر نظر کی تو اس  نور سے پسینہ  نکلا  جس سے ایک لاکھ قطرے اور نکلے ۔


حضرت سیّدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا : اے جابر! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا ۔ (الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص 63، حدیث:18، مواھب لدنیہ،ج1،ص36) حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں نور تھا ۔ (مواھب لدنیہ،ج1،ص39) ۔ (الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف (مصنَّف عبدالرزاق)(الحافظ شھاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی(متوفی ٩٢٣ ھجری)(علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی(متوفی ١٠٣٨ ھجری) النور السّافر عن اخبار القرن العاشر)(العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون)(امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری ( متوفی ١١٢٢ ھجری ) شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی،چشتی)(المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس)(حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)(قصص الانبیاء صفحہ نمبر 23 عبد الرشید قاسمی دیوبندی)(مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ)


حضرت سیّدنا جابر   رضی اللہ  تعالٰی عنہ  نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو  حضور پُرنور صلَّی اللہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوداپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا:اے جابر! اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔( الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص 63، حدیث:18، مواھب لدنیہ،ج1،ص36) حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام  کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ  عَزَّوَجَلَّ  کے ہاں نور تھا۔ (مواھب لدنیہ،ج1،ص39) حضورنبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب   اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت  آدم علیہ السَّلام کو پیدا فرمایا  تو ان کے بیٹوں کو باہم فضیلت دی۔ آپ علیہ السَّلام نے ان کی ایک دوسرے پر فضیلت ملاحظہ فرمائی ۔ پھر حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : آدم علیہ السَّلام نے سب سے آخر میں مجھے ایک بلند نورکی صورت میں دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب یہ کون ہے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارا  بیٹا احمد ہے،یہ اوّل بھی ہے، آخر بھی ہے  اور یہی  سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے۔(دلائل النبوۃ للبیہقی، ج5،ص483)


صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے نبیِ پاک   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی نورانیت کےجلووں کو دیکھا تو سب نے اپنے اپنے انداز میں اظہار کیا :


حضرت سیّدناعبد اللہ بن عباس   رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا:حضورانور   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےسامنےکے مبارک دانتوں میں کُشادَگی تھی، جب آپ گفتگو فرماتے تو اُن میں سے نور دکھائی دیتا تھا۔(جامع صغیر، ص403، حدیث:6482)


شیخ الاسلام علّامہ عبدالرءوف مُناویعلیہ رحمۃ اللہ الکافی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :یہ نور محسوس ہوتا تھا اور آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی کُل ذاتِ شریفہ ظاہری و باطنی طور پر نور تھی  حتّٰی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحاب  میں سے جس کو چاہتے اُسے نور عطا فرماتے جیسا کہ حضرت سیّدنا طفیل بن عَمرودَوسی   رضی اللہ تعالٰی عنہ کوعطافرمایا۔(فیض القدیر، ج5،ص93)


حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: بَوَقتِ سحر کھو جانے والی سوئی حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ انور کی روشنی کی کرن  سے مل گئی۔(القول البدیع، ص302)


حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: جب نبیٔ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تو درو دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے۔(مصنف عبدالرزاق،ج 10،ص242، حدیث: 20657)


حدیث نور کے حوالہ جات


(1) الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری ) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف ( مصنَّف عبدالرزاق )


(2) الحافظ شھاب الدین ابوالعباس  احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی( متوفی ٩٢٣ ھجری )المواھب اللدنیّہ بالمنح المحمدیّہ

الجزء الاول


(3) علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی( متوفی ١٠٣٨ ھجری )النور السّافر عن اخبار القرن العاشر


(4) العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون


(5) امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری

( متوفی ١١٢٢ ھجری) شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی


(6) المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی

( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس


(7) حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ


(8) مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ


توثیق امام عبدالرازاق رحمۃ اللہ علیہ


امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ۔ قال احمد بن صالح مصری قلت لا حمد بن ھنبل ۔ارائیت احدا احسن حدیث من عبدالرازاق قال لا ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211)


اس کے علاوہ امام یحیٰبن معین یعقوب بن شیبہ نے امام کو ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211)


قال امام الجرح والتعدیل  : لو ارتد عبدالرازاق ما ترکنا حدیثا ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211 و میزان اعتدال ج2 ص 612)


امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کو ثقہ لکھا ۔ (تقریب التہذیب 211)

امام زہبی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ثقہ لکھا ۔ (میزان اعتدال)

صیح بخاری میں آپ سے تقریبا 120 کم وبیش احادیث مروی ہے اسی طرح مسلم میں 289 احادیث مروی ہیں ۔


مندرجہ زیل کتب میں آپ کا تزکرہ ہے

العبر

المغنی

لسان المیزان

الطبقات الکبری

الجر ح و تعدیل

البدایہ و النہایا


اس کے علاوہ متعدد کتب میں آپ کا تزکرہ ہے ۔


نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت آدم علیہ السَّلام کو پیدا فرمایا تو ان کے بیٹوں کو باہم فضیلت دی ۔ آپ علیہ السَّلام نے ان کی ایک دوسرے پر فضیلت ملاحظہ فرمائی ۔ (پھر نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا آدم علیہ السَّلام نے سب سے آخر میں مجھے ایک بلند نورکی صورت میں دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب یہ کون ہے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارا بیٹا احمد ہے ، یہ اوّل بھی ہے، آخر بھی ہے اور یہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ، جلد نمبر 5 ، صفحہ نمبر 483)


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبیِ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نورانیت کےجلووں کو دیکھا تو سب نے اپنےاپنےاندازمیں اظہار کیا :


حضرت سیّدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنےکے مبارک دانتوں میں کُشادَگی تھی ، جب آپ گفتگو فرماتے تو اُن میں سے نور دکھائی دیتا تھا ۔ (جامع صغیر، ص403، حدیث:6482)


شیخ الاسلام علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : یہ نور محسوس ہوتا تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کُل ذاتِ شریفہ ظاہری و باطنی طور پر نور تھی حتّٰی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحاب میں سے جس کو چاہتے اُسے نور عطا فرماتے جیسا کہ حضرت سیّدنا طفیل بن عَمرو دَوسی رضی اللہ تعالٰی عنہ کوعطافرمایا ۔ (فیض القدیر، ج5،ص93 ،چشتی)


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں : بَوَقتِ سحر کھو جانے والی سوئی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ انور کی روشنی کی کرن سے مل گئی ۔ (القول البدیع، ص302 )


حضرت سیّدنا ابوہریرہرضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : جب نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تو درو دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے ۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد 10،صفحہ 242، حدیث: 20657)


یاد رہے نور اور بشر ایک دوسرے کی ضد نہیں کہ ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں کیونکہ حضرت جبریل علیہ السَّلام نوری مخلوق ہونے کے باوجود حضرت سیّدتنا بی بی مریم رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سامنے انسانی شکل میں جلوہ گَر ہوئے تھے ۔ جیسا کہ قراٰنِ حکیم میں ہے : (فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا(۱۷)) ۔ (پ16، مریم:17) ترجمہ : تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔“نیزحضرت مَلَکُ الموت علیہ السَّلام بشری صورت میں حضرت سیّدنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ( بخاری،ج1،ص450،حدیث:1339،چشتی)


جلیل القدر مُفَسِّرین ، مُحَدِّثِیْن ، علمائے ربّانِیِّین اور اولیائے کاملین علیہم الرّحمہ نے بھی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور ہونے کو بیان فرمایا ۔ جیسا کہ قراٰنِ مجید کی آیت : (قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ ، (پ6،المآئدۃ:15) (ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب) کے تحت امام ابو جعفر محمد بن جَرير طَبَری (سالِ وفات 310ہجری) ، امام ابومحمد حسین بغوی (سالِ وفات 510ہجری) ، امام فخرالدین رازی (سالِ وفات 606ہجری) ، امام ناصرالدین عبداللہبن عمربَیضاوی(سالِ وفات685 ہجری) ، علّامہ ابوالبرکات عبداللہنَسَفی (سالِ وفات 710ہجری ،چشتی) علّامہ ابوالحسن علی بن محمد خازِن(سالِ وفات 741ہجری)، امام جلال الدین سُیُوطی شافعی (سالِ وفات 911ہجری) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سمیت کثیر مُفَسِّرین نے فرمایا کہ اس آیتِ طیبہ میں موجود لفظ”نور“ سے مراد نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرَکات ہے ۔


حضرت علامہ قاضی عِیاض مالکی (سالِ وفات 544ہجری) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ سورج چاند کی روشنی میں زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نور ہیں ۔ (الشفا ، جلد نمبر 1 ، صفحہ نمبر 368)


شارحِ بخاری امام احمدبن محمد قَسطلانی (سالِ وفات 923ہجری) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جب ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور کو پیدا فرمایا تو اُسے حکم فرمایا کہ تمام انبیاء علیہم السّلام کے نور کو دیکھے چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام انبیاء علیہم السّلام کے نور کو ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور سے ڈھانپ دیا ۔ انہوں نے عرض کی : مولیٰ یہ کس کے نور نے ہمیں ڈھانپ لیا ؟ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا : ہٰذَا نُورُ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبدِ اللہِ یعنی یہ عبد اللہ کے بیٹے محمد (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا نور ہے ۔ (المواھب اللدنیۃ،ج1،ص33)


محترم قارئینِ کرام : نورانیتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےمتعلّق تفصیل جاننے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کارسالہ صِلَاتُ الصَّفَاءِ فِیْ نُوْرِ الْمُصْطَفٰے ۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 30،ص657) پڑھیں ۔


نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمائے دیوبند و اہلحدیث کی نظر میں


مسلمانوں کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور ﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ،

ضابطہ اور اصول یہ ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کو دلیل و تلبیہ سے ثابت کرے اور سائل مد مقابل مخالف مدعی کے پیش کردہ دلائل کا رد و ابطال کرے ۔ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور ﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ، اہل سنت و جماعت جب اس دعویٰ پر بطور دلیل متعدد آیات قرآنیہ ، احادیث صحیحہ ، جلیل القدر مفسرین و محدثین کرام ، ائمہ دین متین علیہم الرّحمہ کی تصریحات اور گرانقدر ارشادات و فرمودات پیش کرتے ہیں تو منکرین نورانیت مصطفی علیہ التحیتہ والثناء وہابیہ بہر نوع بہرصورت ان دلائل و شواہد کے رد و ابطال کی کوشش کرتے ہیں اور خدا داد شانِ نورانیت کو مٹانے کی مذموم سعی کرتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود اکابر وہابیہ دیابنہ کا اپنی متعدد کتب و رسائل میں ہمارے دلائل و شواہد ضبط تحریر میں لاکر سرکار اقدس صلى الله عليه وسلم کے لئے نورانیت مقدسہ ثابت کرنا اہلسنت و جماعت کی حقانیت و صداقت اور عقیدہ و دعویٰ کے مضبوط و مستحکم ہونے اور منکرین کے ساکت و عاجز ہونے اور اصول و ضوابط سے عاری ہونے کی بیّن دلیل ہے ۔ علمائے دیوبند و علمائے اہلحدیث کی مستند و معتبر کتب سے چند حوالہ جات ہدیہ قارئین ہیں ۔


علامہ رشید احمد گنگوہی قدجاء کم من ﷲ نور و کتاب مبین کا ترجمہ لکھتے ہیں : تحقیق آئے ہیں تمہارے پاس ﷲ کی جانب سے نور اور کتاب مبین‘‘ نور سے مراد حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات پاک ہے ۔ حق تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو نور فرمایا اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم سایہ نہیں رکھتے تھے اور یہ واضح ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں ۔ (امداد السلوک ص 156)

نیز لکھتے ہیں ’’حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور مومنوں کو میرے نور سے‘‘ ۔ (امداد السلوک ص 157)

نیز لکھتے ہیں ’’آپ کی ذات اگرچہ اولاد آدم میں سے ہے لیکن آپ نے اپنی ذات کو اس طرح مطہر فرمایا کہ اب آپ سراپا نور ہوگئے‘‘ ۔ (امداد السلوک ص 85)


علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : (آیت مقدسہ میں) نور سے مراد حضور صلى الله عليه وسلم ہیں ۔ اس تفسیر کی ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ مراد اوپر بھی قد جاء کم رسولنا فرمایا ہے تو یہ قرینہ ہے کہ اس پر کہ دونوں جگہ جاء کم کا فاعل ایک ہو‘‘ ۔ (رسالۃ النور ص 31)


علامہ عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں : نور سے اشارہ ہے رسالت محمدی کی جانب اور کتاب مبین سے قرآن کی جانب‘‘ ۔ (تفسیر ماجدی جلد اول ص244)


علامہ ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی لکھتے ہیں : بے شک ﷲ کی طرف سے تمہارے پاس نور آچکا (یعنی نبی آخرالزمان) اور کتاب روشن (یعنی قرآن پاک) ۔ (تفسیر فیوض القرآن ،صفحہ 239،چشتی)


علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : شیخ عبدالحق (محدث دہلوی) رحمۃ ﷲ علیہ نے اول ما خلق اﷲ نوری کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص 373)


علامہ حسین احمد مدنی نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے ۔ (الشہاب الثاقب ص 47)


شاہ اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں : جیسے کہ روایت ’’اول ماخلق اﷲ نوری‘‘ اس پر دلالت کرتی ہے‘‘ ۔ (یک روزہ ص 11)


علامہ اشرف علی تھانوی نے حضرت جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت بحوالہ امام عبدالرزاق رحمۃ ﷲ علیہ نقل کی اور اس پر اعتماد کیا ۔ (نشر الطیب ص 6)


نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلکہ اپنے علماء و مشائخ کے لئے بھی نورانیت ثابت کرنا علمائے دیوبند کی کتب و رسائل سے ثابت ہے :


علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ ﷲ علیہ کو نوری اس لئے کہتے ہیں کہ آپ سے کئی بار نور دیکھا گیا ’’ ۔ (امداد السلوک ص 157)


علامہ محمود الحسن علامہ رشید احمد گنگوہی کو نور مجسم اور قبر کو تربت انور قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :


چھپائے جامۂ فانوس کیونکر شمع روش کو

تھی اس نور مجسم کے کفن میں وہ ہی عریانی

تمہاری تربت انور کو دے کر طور سے تشبیہ

کہو ہوں بار بار ’’ارنی‘‘ میری دیکھی بھی نادانی

(مرثیہ گنگوہی ص 12)


علامہ عاشق الٰہی بلند شہری لکھتے ہیں : پس بے نظیر شیخ وقت اور بے عدیل قطب زماں کی سوانح کوئی لکھے تو کیا لکھے بھلا جس مجسم نور اور سرتاپا کمال کا عضو عضو اور رواں رواں ایسا حسین ہو کہ عمر بھر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے بھی سیری نہ ہوسکے۔ اس کے کوئی محاسن بیان کرے تو کیا کرے‘‘ ۔ (تذکرۃ الرشید پہلا حصہ ص 3)


علامہ سرفراز گکھڑوی حضرت شیر ربانی رحمۃ ﷲ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : دیوبند میں چار نوری وجود ہیں ۔ ان میں سے ایک (انور) شاہ صاحب ہیں ۔ (عبارات اکابر ص 37)


مکبہ فکر دیوبند معروف رسالہ میں لکھا ہے ’’مولانا احمد علی صاحب اﷲ تعالیٰ کے انوار میں سے ایک نور تھے ۔ (رسالہ خدام الدین لاہور 24 مئی1992ء)

نیز اسی میں لکھا ہے : علامہ (شمس الحق) افغانی نے دریافت فرمایا حضرت (مخاطب مولوی احمد علی ہیں) کیا وجہ ہے کہ سید (احمد) صاحب کی قبر پرانوار مولانا (اسماعیل) کی بہ نسبت کم معلوم ہوتے ہیں ۔ (رسالہ خدام الدین 22 فروری 1963)


علامہ حسین احمد مدنی کے بارے میں مکتبہ فکر دیوبند کے معروف اخبار میں لکھا ہے : اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (یعنی ٹانڈوی صاحب) عالم نور میں رہتے ہیں ، ان کی آنکھوں میں بھی نور ہے۔ ان کے دائیں بھی نور ہے،ان کے بائیں بھی نور ہے ، ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہے وہ خود نور ہوگئے ہیں ۔ (روزنامہ الجمعیت دہلی شیخ الاسلام نمبر ص 12، 1958،چشتی)


علامہ رفیع الدین لکھتے ہیں : وہ شخص (یعنی قاسم نانوتوی) ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیاگیا ۔ (حکایات اولیاء یعنی ارواح ثلاثہ ص 259، سوانح قاسمی جلد اول ص 130)


اس عبارت میں بھی بانی دیوبند علامہ قاسم نانوتوی صاحب کو نور کہا گیا ہے کیونکہ روایت ہے خلقت الملائکۃ من نور یعنی فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے ۔ (مسلم شریف جلد دوم ص 413)


اہلحدیث عالم علامہ ثناء ﷲ امرتسری نے قد جاء کم ۔۔۔ الخ آیت مقدسہ کا ترجمہ یوں کیا ’’تمہارے پاس اﷲ کا نور محمد صلى الله عليه وسلم اور روشن کتاب قرآن شریف آئی‘‘ ۔ (تفسیر ثنائی جلد اول ص 362)

نیز لکھتے ہیں ’’ہمارے عقیدے کی تشریح یہ ہے کہ رسول خدا ، خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے نورہیں‘‘ ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد دوم ص 93،چشتی)


مشہور اہلحدیث عالم علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : ﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا، پھر پانی ، پھر پانی کے اوپر عرش کو پیدا کیا ، پھر ہوا ، پھر قلم اور دوات اور لوح پھر عقل کو پیدا کیا، پس نور محمدی آسمانوں اور زمین اور ان میں پائی جانے والی مخلوق کے لئے مادہ اولیہ ہے‘‘ نیز حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ قلم اور عقل کی اولیت اضافی ہے ۔ (ہدیۃ المہدی ص 56)


مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی لکھتے ہیں : نور النبی تجلی رحمۃ‘‘ یعنی نور نبی تجلی رحمت ہے ۔ (نفح الطیب ص 60)


مشہور اہلحدیث عالم حافظ محمد لکھوی لکھتے ہیں : نور نبی دا آپے دیندا لوکاں نوں روشنائی ۔ (تفسیر محمدی 4 ص 201)


مشہور اہلحدیث عالم علامہ پروفیسر ابوبکر غزنوی تقریظ میں لکھتے ہیں : قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ بشر بھی تھے اور نور بھی تھے ۔۔۔ اور صحیح مسلک یہی ہے کہ وہ بشر ہوتے ہوئے از فرق تا بقدم نور کا سراپا تھے ۔ (تحریر 14 دسمبر 1971، تقریظ رسالہ بشریت و رسالت ص 17)


محترم قارئین : ان حوالہ جات کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے جب تمام مکاتب فکر کے علماء اس مسلہ پر متفق ہیں تو پھر نفرتیں کیوں آیئے سب مل کر ان نفرتوں کو مٹائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شانیں محبت و عقیدت سے بیان کریں اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ (مزید حصہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...