عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ ہشتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : منافقین مدینہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علم غیب منکر تھے اور کہا کرتے محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیب کیا جانیں اللہ عزّ و جل کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے انہیں کیسے رُسوا کر کے نکالا آیئے پڑھتے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ منافقین کے فتنہ و شر اور فساد سے سب اہلِ ایمان کو بچائے آمین ۔
کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا : نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ، نکل ۔ اے فلاں ! تو منافق ہے ، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا ۔ (تفسیر خازن ، التوبۃ ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲/۲۷۶)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منافقوں کو پہچانتے تھے ۔ مگر پردہ پوشی سے کام لیتے تھے عینی شرح بخاری جلد صفحہ 221 میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یوم الجمعۃ فقال اخرج یا فلان فانک منافق فاخرج منھم ناسا ففضحھ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا ۔ پس فرمایا کہ اے فلاں نکل جا کیونکہ تو منافق ہے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو رسوا کر کے نکال دیا ۔
شرح شفا ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ جلد اول صفحہ 241 میں فرماتے ہیں : عن ابن عباس کان امنفقون من الرجال ثلثۃ مائۃ ومن النساء مائۃ و سبعین ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منافقین مرد تین سو تھے اور عورتیں ایک سو ستر ۔
دکتور الازھر ڈاکٹر محمد ابوشھبہ منکرین کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فلیس فی الایۃ اسمرار عدم العلم بحالھم بل فیھا مایشعر بان اللہ یفضحھم یکشف امرھم لنبیۃ علیہ السلام والمومنین المرۃ بعد المرۃ فالمراد بالمرتین التکثیر کقولہ سبحانہ ثم ارجع البصر کرتین والایۃ تشعر باطلاع اللہ سبحاہ نبیہ علیہ السلام علی احوالھم ولا سیما وقد ورد فی الروایۃ مایوید ذلک اخرج ابن ابی حاتم والطبرانی فی الاوسط وغیرھما عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ خطببا فقال قم یا فلان فاخرج فانک منافق اخرج یا فلاں فانک منافق فاخرجھم باسمائھم ففضحھم ۔ (دفاع عن السنۃ ۳۳۲،چشتی)
ترجمہ : اس آیت مبارکہ میں کہیں نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا منافقین کو نہ جاننا دائمی ہے بلکہ اس میں یہ اطلاع ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں ذلیل و رسوا فرمائے گا اور ان کے معاملہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اہل ایمان پر خوب منکشف کردے گا یہاں مرتین سے کثرت مراد ہے جیسا کہ اس ارشاد الٰہی (ثم ارجع البصر کرتین) میں ہے آیت تو واضح کررہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کے احوال پر مطلع فرمارہا ہے اور اس کی تائید یہ حدیث ہے جسے امام ابن ابی حاتم ، طبرانی نے اوسط اور دیگر محدثین نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جمعہ کے اجتماع میں خطبہ کے لیئے کھڑے ہوئے تو فرمایا فلاں تو اٹھ جا اور نکل جا تو منافق ہے ، فلاں تُو اٹھ اور نکل جا تُو منافق ہے تو ان کے نام لے لے کر آپ علیہ السلام نے انہیں نکال کر رسوا فرمایا ۔
تفسیر جمل میں اسی آیت کے ما تحت ہے : فان قلت کیف نفی عنہ علم بحال النافقین واثبتہ فی قولہ تعالٰٰی و لتعرفھم فی لحن القول فالجواب ان اٰیۃ النفی نزلت قبل اٰیۃ الاثبات ۔
اسی تفسیر جمل میں زیر آیت ۔ ولتعرفھم فی لحن القول“ ہے فکان بعد ذلک لا یتکلم منافق عند النبی علیہ السلام الا عرفیہ ویستدل علٰٰی فساباطنہ و نفاقہ ۔
ترجمہ : اگر تم کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منافقین کا حال جاننے کی نفی کیوں کی گئی حالانکہ آیت “ ولتعرفھم فی لحن القول“ میں اس کے جاننے کا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفی کی آیت کا ثبوت کی آٰیت سے پہلے اتری ہے اس آیت کے بعد کوئی بھی منافق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حرفت میں کلام نہ کرتا تھا ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کو پہچان لیتے تھے اور اس کے فساد باطن اور نفاق پر دلیل پکڑتے تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا نام بنام منافقین کو مسجد سے نکالنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ توبہ آیت نمبر 101 کی تفسیر میں کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے منافقوں کا نام لے لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا اور ان کو رسوا کر دیا ۔ اس دن کسی کام کی وجہ سے اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں نہیں پہنچے تھے ۔ جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ مسجد سے نکل رہے تھے ۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے چھپ رہے تھے ۔ ان کا گمان تھا کہ حضت عمر رضی اللہ عنہ کو حقیقتِ واقعہ کا پتا چل گیا ہے ۔ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ کو خوشخبری ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے آج منافقین کو رسوا کردیا ۔ یہ ان پر عذاب اوّل تھا اور عذاب ثانی عذاب قبر ہے ۔ (المعجم الاوسط ج ١ ص ٤٤٢، رقم الحدیث : ٧٩٦،چشتی)،(مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٣) ، (الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف ج ٢ ص ٣٠٦)
ان مفسرین کرام نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ ان میں سے بعض نے اس کو اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے : (١) امام ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ (جامع البیان جز ١١ ص ١٥) ۔ (٢) امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ، (تفسیر القرآن ج ٦ ص ١٨٧٠) ۔ (٣) امام ابواللیث سمر قندی متوفی ٣٧٥ ھ، (تفسیر سمرقندی ج ٢ ص ٧١) ۔ (٤) علامہ ابوالحسن الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ، (الوسیط ج ٢ ص ٥٢١ ) ۔ (٥) امام حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥٣٨ ھ، (معالم التنزیل ج ٢ ص ٢٧٢) ۔ (٦) علامہ محمود بن عمر زمحشری متوفی ٥٣٨ ھ، (الکشاف ج ٢ ص ٢٩١) ۔ (٧) قاضی ابن عطیہ اندلسی متوفی ٥٤٦ ھ، (المحرر الوجیز ج ٨ ص ٢٦٢ ) ۔ (٨) امام عبدالرحمن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ، (زادالمسیر ج ٣ ص ٤٩٢) ۔ (٩) امام فخر الدین رازیمتوفی ٦٠٦ ھ، ( تفسیر کبیر ج ٦ ص ١٣١) ۔ (١٠) علامہ علاء الدین خازن متوفی ٧٢٥ ھ، (لباب التاویل ج ٢ ص ٢٩١) ۔ (١١) علامہ نظام الدین نیشاپوری متوفی ٧٢٨ ھ، (غرائب القرآن ج ٣ ص ٥٢٤ ) ۔ (١٢) علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ، (البحر المحیط ج ٥ ص ٤٩٧) ۔ (١٣) حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ (تفسیر القرآن ج ٢ ص ٤٩٧) ۔ (١٤) علامہ ابو حجص عمر دمشقی متوفی ٨٨٠ ھ، (اللباب فی علوم الکتاب ج ١٠ ص ١٩٠) ۔ (١٥) حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ، (الدرالمنثور ج ٤ ص ٢٧٣) ۔ (١٦) قاضی ابوالسعود متوفی ٩٨٢ ھ، (تفسیر ابوالسعود ج ٣ ص ١٨٦) ۔ (١٧) قاضی محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ، (فتح القدیر ج ٢ ص ٥٦٧ ) ۔ (١٨) علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ، (روح المعانی ج ١١ ص ١١) ۔ (١٩) نواب صدیق حسن خان بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ، (فتح البیان ج ٥ ص ٢٨٦) ۔ (٢٠) صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ، (خزائن العرفان ص ٣٢٥ ) ۔ (٢١) (علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی متوفی ١٣٦٩ ھ ، تفسیرِ عثمانی برحاشیہ قرآن جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٣٦٩)
بعض علماء دیوبند اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ۔ اس لیے ہم نے متعدد حوالہ جات ذکر کیے ہیں جنہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے بھی منافقین کے علم کے متعلق دو حدیثیں ذکر کی ہیں : امام احمد کی سند کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمیں مکہ کی عبادت کا کوئی اجر نہیں ملے گا ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم کو تمہاری عبادتوں کے اجور ملیں گے خواہ تم لومڑی کے سوراخ میں ہو ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب اپنا سر کرکے کان لگا کر سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب میں منافقین بھی ہیں ۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بعض منافقین منکشف ہوگئے تھے اور وہ لوگ جو بے پر کی افواہیں اڑاتے تھے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو چودہ ، پندرہ معین منافقوں کا علم عطا فرمایا تھا اور یہ تخصیص اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام منافقوں کے اسماء پر شخصی طور پر مطلع نہ ہوں ۔ اور امام ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ایک شخص جس کا نام حرملہ تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : ایمان یہاں ہے اور اس نے اپنے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا ۔ اور نفاق یہاں ہے ۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا اور اس نے اللہ کا ذکر بہت کم کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی : اے اللہ ! اس کی زبان کو ذکر کرنے والا بنا دے ۔ اور دل کو شکر کرنے والا بنا دے اور اس کو میری محبت عطا فرما اور جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کی محبت عطا فرما ، اور اس کا معاملہ خیر کی طرف کر دے ۔ اس نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں منافقوں کا سردار تھا۔ کیا میں ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو ہمارے پاس آئے گا ہم اس کے حق میں استغفار کریں گے اور جو اصرار کرے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ، اور تم کسی کا پردہ فاش نہ کرنا ۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٤٣٠، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ)
محترم قارئینِ کرام : ثابت ہوا کہ دور جدید کے خوارج و منافقین جو ان آیات کو لے کر بنا سلف کے معنی و تفسیرات کے اپنی خود ساختہ تعلیمات نشر کرتےاور فساد پھیلاتے اور سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اپنے بڑوں منافقین مدینہ کی طرح رسوا ہوتے رہیں گے ان شاء اللہ ۔ غور کیجیئے کہ آج کے دور کےمنافقین و خوارج اور ان سب کے ماننے والوں کا بھی لاعلمی یا پھر منافقت سے ویسا ہی عقیدہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دور میں منافقین تھے جو کہ انکارِ علم نبوی کرتے تھے ۔ وہ اس دور میں کھلم کھلا انکار کرتے تھے ۔ اور انہوں نے مسلمانوں کا لباس پہنا ہوتا تھا نام رکھے ہوتے تھے اور آجکل یہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں بگاڑ ڈالا اور خوارج اسی لیئے کہلائے کہ امتِ مسلمہ سے ہٹ کر انہوں نے ایسی چیزوں کا انکار کیا اور توہینِ نبوی کے مرتکب ہوئے ۔
لا تعلمھم نحن نعلمھم علم نبوی کے منکرین کی ایک غلط دلیل کا جواب
محترم قارئین : منکرین سب سے بڑی دلیل اس ارشادِ الٰہی کو بناتے ہیں فرمایا : وَمِمَّنْ حَوْلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعْرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕۛ وَمِنْ اَہۡلِ الْمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعْلَمُہُمْ ؕ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ ؕ ۔ ﴿سورہ توبہ آیت نمبر 101﴾
ترجمہ : اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے ان کی خو ہوگئی ہے نفاق تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں ۔
اور کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم غیب نہیں تھا لیکن ائمہ سلف الصالحین مفسرین علیہم الرّحمہ نے اس کی تفسیر میں کچھ یوں لکھا ہے مثلا امام ابواللیث سمرقندی رحمتہ اللہ علیہ (م ۳۸۶ھ) لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے : لانی عالم السروالعلانیۃ ونعلم نفاتھم نعرفک حالھم ۔
ترجمہ : میں ظاہر و مخفی جانتا ہوں اور ان کے نفاق کو بھی جانتا ہوں اور ہم ان کا حال تم پر آشکار کردیں گے ۔ (تفسیر السّمر قندی الجزء الثانی صفحہ نمبر 71)
دکتور الازھر ڈاکٹر محمد ابوشھبہ منکرین کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فلیس فی الایۃ اسمرار عدم العلم بحالھم بل فیھا مایشعر بان اللہ یفضحھم یکشف امرھم لنبیۃ علیہ السلام والمومنین المرۃ بعد المرۃ فالمراد بالمرتین التکثیر کقولہ سبحانہ ثم ارجع البصر کرتین والایۃ تشعر باطلاع اللہ سبحاہ نبیہ علیہ السلام علی احوالھم ولا سیما وقد ورد فی الروایۃ مایوید ذلک اخرج ابن ابی حاتم والطبرانی فی الاوسط وغیرھما عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ خطببا فقال قم یا فلان فاخرج فانک منافق اخرج یا فلاں فانک منافق فاخرجھم باسمائھم ففضحھم ۔ (دفاع عن السنۃ ۳۳۲،چشتی)
ترجمہ : اس آیت مبارکہ میں کہیں نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا منافقین کو نہ جاننا دائمی ہے بلکہ اس میں یہ اطلاع ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں ذلیل و رسوا فرمائے گا اور ان کے معاملہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اہل ایمان پر خوب منکشف کردے گا یہاں مرتین سے کثرت مراد ہے جیسا کہ اس ارشاد الٰہی (ثم ارجع البصر کرتین) میں ہے آیت تو واضح کررہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کے احوال پر مطلع فرمارہا ہے اور اس کی تائید یہ حدیث ہے جسے امام ابن ابی حاتم ، طبرانی نے اوسط اور دیگر محدثین نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جمعہ کے اجتماع میں خطبہ کے لیئے کھڑے ہوئے تو فرمایا فلاں تو اٹھ جا اور نکل جا تو منافق ہے ، فلاں تُو اٹھ اور نکل جا تُو منافق ہے تو ان کے نام لے لے کر آپ علیہ السلام نے انہیں نکال کر رسوا فرمایا ۔
یعنی ثابت ہوا کہ دور جدید کے خوارج جو ان آیات کو لے کر بنا سلف کے معنی و تفسیرات کے اپنی خودساختہ تعلیمات نشر کرتے ہیں اسی وجہ سے لوگوں کے اذھان دین میں گمراہ ہوتے ہیں اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین ۔
محترم قارئین : اس آیت سے مخالفین دلیل پکڑتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمدربار میں آنے والے منافقوں کو نہ پہچانتے تھے پھر علم غیب کیسا ؟ مگر مفسرین نے اس آیت کی توجہیہ کی ہے کہ اس آیت کے بعد یہ آیت نازل ہوئی “ ولتعرفھمفنھم فی لحن القول“ اور ضرور تم ان کو بات کے طریقے سے پہچان لوگے لہذا یہ آیت منسوخ ہے یا تو یہ توجہیہ ہے کہ بغیر ھمارے بتائے انکو نہیں پہچانتے ۔
تفسیر جمل میں اسی آیت کے ما تحت ہے : فان قلت کیف نفی عنہ علم بحال النافقین واثبتہ فی قولہ تعالٰٰی و لتعرفھم فی لحن القول فالجواب ان اٰیۃ النفی نزلت قبل اٰیۃ الاثبات ۔
اسی تفسیر جمل میں زیر آیت ۔ ولتعرفھم فی لحن القول“ ہے فکان بعد ذلک لا یتکلم منافق عند النبی علیہ السلام الا عرفیہ ویستدل علٰٰی فساباطنہ و نفاقہ ۔
ترجمہ : اگر تم کہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منافقین کا حال جاننے کی نفی کیوں کی گئی حالانکہ آیت “ ولتعرفھم فی لحن القول“ میں اس کے جاننے کا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفی کی آیت کا ثبوت کی آٰیت سے پہلے اتری ہے اس آیت کے بعد کوئی بھی منافق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حرفت میں کلام نہ کرتا تھا ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کو پہچان لیتے تھے اور اس کے فساد باطن اور نفاق پر دلیل پکڑتے تھے ۔
تفسیر بیضاوی یہ ہی آیت : خفی علیک حالھم مع کمال فطنتک وصدق فراستک ۔
ترجمہ : آپ پر ان کا حال باوجود آپ کی کمال سمجھ اور سچی پردم شناسی کے مخفی رہ گیا ۔
اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں اندازہ سے پتہ لگا لینے کی نفی ہے ۔ اگر اس آیت کی یہ توجہیں نہ کی جاویں تو ان احادیث کی مخالفت ہوگی جن سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منافقوں کو پہچانتے تھے ۔ مگر پردہ پوشی سے کام لیتے تھے عینی شرح بخاری جلد صفحہ 221 میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یوم الجمعۃ فقال اخرج یا فلان فانک منافق فاخرج منھم ناسا ففضحھ ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا۔ پس فرمایا کہ اے فلاں نکل جا کیونکہ تو منافق ہے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو رسوا کر کے نکال دیا ۔
شرح شفا ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ جلد اول صفحہ 241 میں فرماتے ہیں : عن ابن عباس کان امنفقون من الرجال ثلثۃ مائۃ ومن النساء مائۃ و سبعین ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منافقین مرد تین سو تھے اور عورتیں ایک سو ستر ۔
اس آیت مبارکہ کی مزید تفسیر : وَمِمَّنْ حَوْلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعْرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ : اور اے مسلمانو تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں ۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مدینے کے منا فقین کے حالات بیان فرمائے ، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا ، پھر بیان فرمایا کہ اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے ۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶/۱۳۰)
اور یونہی خود مدینہ طیبہ میں بھی کچھ منافقین ہیں جیسے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی اور دیگر بہت سے لوگ جن کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں نشاندہی کی جاتی رہی ۔
صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جاسکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے ، ہاں اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے جیسے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۵، الحدیث: ۴۸۳(۱۳۷۷،چشتی)
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ و دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹-۷۱۰، الحدیث: ۴۵۹-۴۶۰(۱۳۶۳)
حضرت سفیان بن ابی زہیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہو گا ، اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، اور عراق فتح ہو گا ، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، ۱/۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۵، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص۷۱۹، الحدیث: ۴۹۷(۱۳۸۸)
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے ۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، ۱/۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۷،چشتی)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا:’’ جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گااللہ عَزَّوَجَلَّ اسے خوف میں ڈالے گا ۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔۔۔ الخ، ۴/۲۰، الحدیث: ۳۷۳۰، الجزء السادس)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ یا اللہ !عَزَّوَجَلَّ ، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔ (معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، ۲/۳۷۹، الحدیث: ۳۵۸۹،چشتی)
حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسوئ، ۳/۶۵۹، الحدیث: ۵۸۲۶)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا ۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵/۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)
لَا تَعْلَمُہُمْ ؕ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ : تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں ۔ اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو ، وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے منافقین کا حال جاننے کی نفی جو پہلے ہو چکا اس کے اعتبار سے ہے اور اس کا علم بعد میں عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا وَ لَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیۡ لَحْنِ الْقَوْلِ‘‘ ۔ (سورہ محمد:۳۰)
ترجمہ : اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے ۔ (تفسیر جمل، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳/۳۰۴،چشتی)
کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا : نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ، نکل ۔ اے فلاں ! تو منافق ہے ، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا ۔ (تفسیرخازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲/۲۷۶)
ہم اثبات علم غیب میں ایک حدیث پیش کر چکے ہیں جس میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ہم پر ہماری امت پیش کی گئی لہٰذا ہم نے منافقوں اور کفار اور مومنین کو پہچان لیا ۔ اس پر منافقین نے اعتراض کیا اور قرآن کی آیت ان کے جواب کے لئے آئی ۔ ان سب دلائل میں مطابقت کرنے کے لئے یہ توجہیہ کرنا ضروری ہے ۔ نیز یہ کلام اظہارِ غضب کے لئے ہوتا ہے اگر باپ بچہ کو مارنے لگے اور کوئی باپ سے بچائے تو وہ کہتا ہے کہ اس کو تم نہیں جانتے میں جانتا ہوں اس سے علم کی نفی نہیں ۔
علم غیب پر اعتراض کا جواب از فتاویٰ رضویہ
مسئلہ ۱۴۵ : از موضع پارہ پرگنہ مورانواں ضلع اناؤ مسئولہ محمد عبدالرؤف صاحب ۔ ۳ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ ۔(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 29 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کا عقیدہ ہے کہ چونکہ عالم الغیب صفت مختصہ باری تعالٰی ہے لہذا آنحضرت صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت لفظ عالم الغیب بالواسطہ یا بالعطایا کہنا بھی جائز نہیں اور نہ حضور پر نور کو کل علم غیب یعنی از روزِ ازل تا ابد شبِ معراج میں عطا فرمایا گیا تھا۔البتہ بعض بعض علوم غیبیہ کا قائل ہے اور اپنے عقیدہ کی دلیل میں چند واقعات بطور اثبات نوشتہ علمائے دیوبند پیش کرتا ہے،مثلًا سورہ کہف کہ آنحضرت صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بجواب اس سوال کے کہ اصحابِ کہف کس مدت تك سوئے تھے،فرمایا کل بتلاؤں گا،اور لفظ ان شاء ﷲ تعالٰی نہ کہنے کی وجہ سے اٹھارہ روز تک وحی کا نزول نہ ہوا،اگر علمِ غیب ہوتا تو توقف نہ فرماتے۔
دوئم۲ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ تعالٰی عنہا کا حادثہ کہ کفار مکہ نے آپ کو متہم کیا اور آنحضرت صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم طلاق دینے پر آمادہ ہوگئے۔اور اگر آپ کو علم ہوتا تو تذبذب کیوں ہوتا،وحی کے نزول پر آپ مطمئن ہوئے اور کہتا ہے کہ اگر کل علمِ غیب عطا فرمایا جاتا تو پھر وحی آنے کی کیا ضرورت تھی؟
(عقیدہ عمرو) برعکس اس کے عمرو کا عقیدہ یہ ہے کہ حضور پر نور سید یوم النشور حضرت محمد مصطفٰی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر شب معراج میں ﷲ رب العزت نے جملہ اولین و آخرین مانند آفتابِ درخشاں روشن کردیئے تھے اور تمام علم ماکان ومایکون سے صدرِ مبارك حضور پُرنور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو جلوہ افروز کردیا تھا اور جن باتوں سے آپ نے جواب نہیں دیا بلکہ سکوت اختیار فرمایا ان کو خدا اور حبیبِ خدا کے درمیانی اسرار مخفی کی جانب مبذول کرتا ہے،اور روز اول سے لے کر یوم الحشر کے تمامی علوم کو حضور سرور کائنات و مفخر موجودات صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کے علوم کے سمندر کی ایک لہر کی برابر تصور کرتا ہے۔
الجواب : اس مسئلہ میں بفضلہ تعالٰی یہاں سے متعدد کتابیں تصنیف ہوئیں۔الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ پر اکابر علمائے مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ وغیرہ ہا بلادِ اسلامیہ نے مہریں کیں،گرانقدر تقریظیں لکھیں خالص الاعتقاد دس سال سے شائع ہوا انباء المصطفٰی بیس سال سے ہزار کی تعداد میں بمبئی و بریلی و مراد آباد میں چھپ کر تمام ملك میں شائع ہوا اور بحمدہ تعالٰی سب کتابیں آج تك لاجواب ہیں، مگر وہابیہ اپنی بے حیائی سے باز نہیں آتے۔علم غیب عطا ہونا اور لفظ عالم الغیب کا اطلاق اور بعض اجلہ اکابر کے کلام میں اگرچہ بندہ مومن کی نسبت صریح لفظ یعلم الغیب وارد ہے کما فی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح لملا علی القاری(جیسا کہ ملا علی قاری کی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے۔ت)بلکہ خود حدیث سیدنا عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما میں سیدنا خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت ارشاد ہے:کان رجلا یعلم علم الغیب[جامع البیان(تفسیر الطبری)تحت آیۃ وعلمنٰہ من لدنا علما داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۵/ ۳۲۳]
وہ مرد کامل ہیں جو علمِ غیب جانتے ہیں۔ت)
مگر ہماری تحقیق میں لفظ عالم الغیب کا اطلاق حضرت عزت عزجلالہ کے ساتھ خاص ہے کہ اُس سے عرفًا علم بالذات متبادر ہے۔کشاف میں ہے:المراد بہ الخفی الذی لاینفذ فیہ ابتداء الا علم اللطیف الخبیر ولہذا لایجوزان یطلق فیقال فلان یعلم الغیب[الکشاف تحت آیۃ ۲/ ۳ انتشارات آفتاب تہران ۱/ ۱۲۱]
اس سے مراد پوشیدہ شے ہے جس تك ابتداءً (بالذات) سوائے باریکی جاننے والے یا خبیر (ﷲ تعالٰی) کے کسی کے علم کی رسائی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ علی الاطلاق یوں کہنا کہ فلاں غیب جانتا ہے جائز نہیں(ت)
اور اس سے انکار معنی لازم نہیں آتا۔حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم قطعًا بے شمار غیوب و ماکان مایکون کے عالم ہیں مگر عالم الغیب صرف ﷲ عزوجل کو کہا جائے گا جس طرح حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم قطعًا عزت جلالت والے ہیں تمام عالم میں ان کے برابر کوئی عزیز و جلیل ہے نہ ہوسکتا ہے مگر محمد عزوجل کہنا جائز نہیں بلکہ ﷲ عزوجل و محمد صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔غرض صدق وصورت معنی کو جواز اطلاق لفظ لازم نہیں نہ منع اطلاق لفظ کو نفی صحت معنی۔امام ابن المنیر اسکندری کتاب الانتصاف میں فرماتے ہیں:کم من معتقدلایطلق القول بہ خشیۃ ایہام غیرہ مما لا یجوز اعتقادہ فلا ربط بین الاعتقاد والاطلاق۔[الانتصاف]
بہت سے معتقدات ہیں کہ جن کے ساتھ قول کا اطلاق اس ڈر سے نہیں کیا جاتا کہ ان میں ایسے غیر کا ایہام ہوتا ہے جس کا اعتقاد جائز نہیں،لہذا اعتقاد اور اطلاق کے درمیان کوئی لزوم نہیں۔(ت)
یہ سب اس صورت میں ہے کہ مقید بقید اطلاق اطلاق کیا جائے یا بلا قید علی الاطلاق مثلًا عالم الغیب یا عالم الغیب علی الاطلاق اوراگر ایسا نہ ہو بلکہ بالواسطہ یا بالعطاء کی تصریح کردی جائے تو وہ محذور نہیں کہ ایہام زائل اور مراد حاصل۔علامہ سید شریف قدس سرہ حواشی کشاف میں فرماتے ہیں:وانما لم یجزالاطلاق فی غیرہ تعالٰی لانہ یتبادر منہ تعلق علمہ بہ ابتداء فیکون تنا قضا واما اذا قید وقیل اعلمہ اﷲ تعالٰی الغیب او اطلعہ علیہ فلا محذور فیہ[حاشیہ سید الشریف علی الکشاف تحت آیۃ ۲/۳ انتشارات آفتاب تہران ۱/ ۲۸]
علم غیب کا اطلاق غیر ﷲ پر اس لیے ناجائز ہے کہ اس سے غیر ﷲ کے علم کاغیب کے ساتھ ابتداء(بالذات) متعلق ہونا متبادر ہوتا ہے تو اس طرح تناقض لازم آتا ہے لیکن اگر علم غیب کے ساتھ کوئی قید لگادی جائے اور یوں کہا جائے کہ ﷲ تعالٰی نے اس کو غیب کا علم عطا فرمادیا ہے یا اس کو غیب پر مطلع فرمادیا ہے تو اس صورت میں کوئی ممانعت نہیں۔(ت)
زید کا قول کذب صریح و جہل قبیح ہے،کذب تو ظاہر کہ بے ممانعت شرعی اپنی طرف سے عدم جواز کا حکم لگا کر شریعت و شارع علیہ الصلوۃ والسلام اور رب العزۃ جل و علا پر افتراء کررہا ہے۔
قال ﷲ تعالٰی" وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوۡا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَفْتَرُوۡنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾ؕمَتٰعٌ قَلِیۡلٌ ۪ وَّلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۱۷﴾"[القرآن الکریم ۱۶/ ۱۱۶و ۱۱۷]
ﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں،یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ ﷲ تعالٰی پر جھوٹ باندھو،بے شك جو ﷲ تعالٰی پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا،تھوڑا برتنا ہے اور انکے لیے دردناك عذاب ہے۔ت)
اور جہل فاضح یہ کہ عالم الغیب صفت مختصہ باری تعالٰی ہونے پر بالواسطہ و بالعطا کہنے کے عدمِ جواز کو متفرع کررہا ہے شاید اس کے نزدیك علم غیب بالواسطہ، وبالعطا خاصہ باری تعالٰی ہے یعنی دوسرے کے دیئے سے علم غیب خاص ﷲ تعالٰی کو ہوتا ہے اس کے غیر کو علم غیب بالذات بلاواسطہ ہے ایسا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کفرِ اشد کیا ہے۔گنگوہی صاحب نے تو نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو علم غیب بالذات بے عطائے الٰہی ملنے کے اعتقاد کو کفر نہ مانا تھا صرف اندیشہ کفر کہا تھا ان کے فتاوٰی حصہ اول صفحہ ۸۳ میں ہے:جو یہ عقیدہ رکھے کہ خود بخود آپ کو علم تھا بدون اطلاق حق تعالٰی کے تو اندیشہ کفر کا ہے لہذا امام نہ بنانا چاہیے اگر چہ کافر کہنے سے بھی زبان کو روکے ۔ [فتاوٰی رشیدیہ]
حالانکہ گنگوہی صاحب کا یہ قول خود ہی صریح کفر ہے بلاشبہہ جو غیر خدا کو بے عطا ئے الہٰی خود بخود علم مانے قطعًا کافر ہے اور جو اس کے کفر میں تردد کرے وہ بھی کافر۔اسمعٰیل دہلوی صاحب نے دوسری شق لی تھی کہ ﷲ عزوجل کے علم غیب کو حادث و اختیاری مانا۔
تقویت الایمان میں ہے:غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہو کہ جب چاہے کرلیجئے یہ ﷲ صاحب کی ہی شان ہے ۔ [تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علمیی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص ۱۴]
یہ بھی صریح کلمہ کفر ہے مگر دونوں شقیں جمع کرنا کہ ﷲ تعالٰی کا علم عطائی اور دوسرے کا ذاتی یہ اسی نتیجہ قول زید کا خاصہ ہے۔
دو واقعے کہ زید نے پیش کیے اگرچہ ان پر ابحاث اور بھی ہیں مگر کیا انباء المصطفی میں صاف نہ کہہ دیا گیا تھا کہ بحمد ﷲ تعالٰی نص قطعی سے روشن ہوا کہ ہمارے حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ﷲ عزوجل نے تمام موجودات جملہ ماکان ومایکون(جو ہوچکا اور جو ہوگا۔ت)کا علم دیا اور جب یہ علم قرآن عظیم کے تبیانًا لکل شیئ ہونے نے دیا اور پر ظاہر کہ یہ وصف تمام کلام مجید کا ہے نہ ہر آیت یا سورت کا تو نزول جمیع قرآن عظیم سے پہلے اگر بعض کی نسبت ارشاد ہو لم نقصص علیک(ہم نے آپ پر بیان نہیں کیا۔ت)ہر گز احاطہ علم مصطفوی کا کانافی نہیں،مخالفین جو کچھ پیش کرتے ہیں سب انہیں اقسام کے ہیں۔ہاں ہاں تمام نجدیہ دہلوی گنگوہی جنگلی کو ہی سب کو دعوت عام ہے سب اکٹھے ہو کر ایك آیت یا ایك حدیث متواتر یقینی الافادۃ لائیں جس سے صریح ثابت ہو کہ تمام نزولِ قرآن کے بعد بھی ماکان و مایکون سے فلاں امر حضور پر مخفی رہا اگر ایسا نص نہ لاسکو اور ہم کہے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ لاسکو گے تو جان لو کہ ﷲ راہ نہیں دیتا دغا بازوں کے مکر کو اھ ۔ [انباء المصطفٰی رضا اکیڈمی بمبئی ص ۷ تا ۱۰] اس کے بعد بھی ایسے وقائع پیش کرنا کیسی شدید بے حیائی ہے،بلاشبہہ عمرو کا قول صحیح ہے جمیع ماکان وما یکون جملہ مندرجات لوح محفوظ کا علم محیط حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے علم کریم کے سمندروں سے ایك لہر ہے جیسا کہ علامہ قاری کی زبدہ شرح بردہ میں مصرح ہے ۔ وﷲ تعالٰی اعلم ۔ (مزید حصہ نہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment