معرفت مقامِ مصطفیٰ ﷺ اور اُس کے تقاضے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم انسانی زندگی کے لیے بہترین نمونہ ہیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات و صفات کو اتنا جامع کیا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ اے اللہ چونکہ دلیل کمزور تھی اس واسطے ہمیں تیرا پتہ نہ چل سکا چونکہ گواہ میں کمی تھی اس واسطے ہم تجھے پہچان نہیں سکے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی دلیل اور اپنے گواہ کو اتنی جامعیت دی ،اتنا حسن و جمال دیا ،اتنا علم دیا، اتنا کمال دیا کہ جو شخص بھی عادل مزاج ہو کر ان کے چہرہ پر نور کو دیکھتا ہے اسے یقیناً رسالت کے قرب سے معرفت خداوندی کا تحفہ میسر آجاتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو یہودیوں کے بہت بڑے سکالر تھے ۔ جس وقت انہوں نے کلمہ پڑھا تو جامع ترمذی میں ان کے یہ الفاظ موجود ہیں ۔حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم الْمَدِینَۃَ ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ شریف تشریف لائے ۔
جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ شریف پہنچے تو میں نے ارادہ کیا کہ میں جا کر دیکھوں کیونکہ میں نے ابھی سرکار علیہ السلام کا کلمہ نہیں پڑھا تھا اور وہ نیا دین لائے تھے میں نے دیکھنے کا ارادہ کیا میں ماننا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میں اپنے دین کا بہت بڑا علمبردارتھا ۔ فَجِءْتُ فِی النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَیْہِ ۔۔۔ میں لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھنے کی غرض سے آیا ۔۔۔ فَلَمَّا تَبَیَّنْتُ وَجْہَہُ ۔۔۔ جب میں نے رخ زیبا دیکھا ۔۔۔ عَرَفْتُ ۔۔۔ مجھے یقین ہو گیا ۔ أَنَّ وَجْہَہُ لَیْسَ بِوَجْہِ کَذَّاب (سنن الترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقاق رقم الحدیث : 2409،چشتی) اتنا نورانی چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہو سکتا ۔
اس وقت جو انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب میسر آیا وہ دین جو Expair ہو چکا تھا اس کو چھوڑا کر اسلام کو ماننا لازم تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا قرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے حاصل کرنے کا نصاب جاری ہو چکا تھا ۔حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا جب انہیں قرب رسالت میسر آیا ۔ قرب رسالت سے ان کے پردے ہٹ گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی معرفت عطا کر دی ۔
حقیقت میں آج پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب سے ڈائریکٹ تعلق ہے اور درمیا ن میں ہمیں کسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہم خود رب سے رابطہ رکھتے ہیں اس نعرہ کی بنیاد یہود نے رکھی تھی قرآن مجید میں ان کا تذکرہ موجود ہے : وَقَالَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ أَبْنَاءُ اللّٰہِ وَأَحِبَّاؤُہُ(سورۃ الماءۃ رقم الآیۃ :18 )اوریہودی اور نصرانی بولے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ۔
یعنی ہم اس کے بڑے برگزیدہ ہیں تو ان کا مقصد یہ تھا کہ رب کو نہیں چھوڑیں گے مگر اس نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کلمہ نہیں پڑھیں گے ۔ ہمارا اپنا رب سے تعلق ہے جب ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا رابطہ قائم کرنا چاہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں جائے بغیر رب کی طرف جانا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی ۔
قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ (سورۃ آل عمران رقم الا یت 31)
ترجمہ : اے محبوب آپ فرما دیں کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کو کہہ دو کہ جو تجھے چھوڑ کے میرا بننا چاہتے ہیں اور جو تمھارا کلمہ پڑھے بغیر میرے کلمے کا ورد کرنا چاہتے ہیں جو تمھارا بنے بغیر مجھے ڈھونڈنا چاہتے ہیں اور مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو اے محبو ب انہیں بتا دو اگر یہ تجھ سے پیار نہیں کریں گے تو انہیں کبھی میرے محب ہو نے کا منصب حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر یہ تمہارے پیچھے پیچھے چلیں، تمہیں اپنے آگے سمجھیں، تمھاری اتباع و پیروی کریں، تمہیں جان کے میری طرف آنا چاہیں تو پھر صرف محب ہی نہیں میں انہیں اپنا محبو ب بھی بنالوں گا ۔
اس واسطے قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ رسالت کا قرب، رسالت سے عشق ،رسالت سے پیار ،رسالت کا ادب اور رسالت کو ہر عیب سے پاک ماننا اصل میں یہ سبق توحید کا ہی ہے اس کی بنیاد پر اندھیرے چھٹتے ہیں ۔
بخاری شریف میں ہے کہ جس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیبیہ کے مقام پر موجود تھے اور عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جنہوں نے ابھی تک کلمہ نہیں پڑھاتھااس وقت وہ قریش مکہ کے سفیر تھے وہاں پہ آگئے انہوں نے صحابہ کرام کی ادائے محبت دیکھی اور پھر جس وقت وہ واپس قریش مکہ کی طرف گئے تو کہنے لگے : وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوکِ وَوَفَدْتُ عَلَی قَیْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِیِّ وَاللّٰہِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہُ أَصْحَابُہُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا ۔ (بخاری صفحہ نمبر 256،چشتی) ۔ ترجمہ : اے قریش مکہ میں قیصر کے پاس بھی گیا، میں کسری کے پاس بھی گیا ،میں نجاشی کے پاس بھی گیا، مگر خدا کی قسم ہے میں نے آج تک وہ چمک کسی دربار میں نہیں دیکھی جو محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں دیکھ کے آیا ہوں ۔ میں نے ہر جگہ لوگوں کا معائنہ کیا میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کو دیکھا اس وقت کی بڑی حکومتیں یہی تھی قیصر و کسریٰ اور نجاشی کی حکومتیں ،یہ جہاندیدہ انسان دوسرے درباروں سے آکے یہاں پہنچا تو اس وقت کو ئی معتقد نہیں تھا،کٹر مشرک تھا بلکہ قریش مکہ نے نبوت کا امید وار بنایا ہوا تھا لیکن یہاں آکے اس نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دیوانے کیسے ہوتے ہیں اور نبوت کا ادب کیسے ہوتا ہے ،نبوت کا کتنا احترام ہوتا ہے ؟ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد قریش مکہ کو بتا دیا وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوکِ ۔ میں بادشاہوں کے پاس گیا۔۔۔وَوَفَدْتُ عَلَی قَیْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِیِّ۔۔۔میں نے قیصر کو بھی دیکھا ، کسریٰ اور نجاشی کو بھی دیکھا ۔ وَاللّٰہِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہُ أَصْحَابُہُ ۔ خدا کی قسم میں نے آج تک کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ جن سے اس کے اصحاب اتنی محبت اور اس کی تعظیم کرتے ہوں ۔ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مُحَمَّدًا۔۔۔ جو تعظیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اصحاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کرتے ہیں ۔ قریش مکہ کویہ سن کر اس پر بڑا تعجب ہو اکہ ہمارے عروہ نے قیصر کو بھی دیکھا ،کسری کو بھی دیکھا، نجاشی کو بھی دیکھا مطلب یہ تھا کہ ان کے دربار بڑے عالیشان ہیں ،سونے کی کرسیاں ہیں ،بڑے قیمتی قالین ہیں اور گارڈ آف آنر ہے، یہ وہاں تو متاثر نہیں ہوا ہمارا عروہ حدیبیہ میں متاثر ہو کے آگیا ہے جہاں اینٹوں کے سرہانے ہیں، پتوں کے بچھونے ہیں اور سادہ سا نظام ہے تو پوچھتے ہیں کیا تم نے دیکھا ؟کہ جس کی وجہ سے تمھاری روح میں یہ بات سما گئی ہے ۔
وہ کیا تم دیکھ آئے ہو اب ہماری بات کرتے نہیں ہو جب بھی بولتے ہو ان کی بات کرتے ہو تو عروہ کہنے لگے میں یہ دیکھ کے آیا ہوں ۔ وَاللّٰہِ إِنْ یَتَنَخَّمُ نُخَامَۃً إِلَّا وَقَعَتْ فِی کَفَّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ ۔ میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب اپنا لعاب دہن اپنے ہونٹوں سے جدا کرتے ہیں تو ان کا لعاب دہن دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے ہاتھ نیچے کر لیتے تھے اور اسے نیچے نہیں گرنے دیتے تھے آپ بھی ادب کرتے ہیں اور جس کے حصے میں آتا ہے وہ رومال سے ستھر ا نہیں کرتا بلکہ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہ ۔ یعنی بلغمی لعاب دہن اپنے ماتھے پر لگا لیتا تھا ۔
یہاں سے عروہ بن مسعود کو ایک مقام ملا اور ایک خبر ملی ۔ جب آئے تھے تو کٹر مشرک تھے مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لعاب دہن ماتھے پہ لگاتے دیکھا تو دل کو یہ پیغام ملا ،نور داخل ہوا، پھر بعد میں کلمہ بھی پڑھا ،منصب شہادت پہ فائز بھی ہوئے ۔
اس عرب دماغ کو اور حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو توحید کا پتہ کیسے چلا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار میں لعاب دہن ہاتھوں پر لگتا دیکھا توعروہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے دل کا کفر ٹوٹ گیا ان کو چمکتا دل میسر آیا ہے ۔
انہیں بظاہر توحید کا کوئی سبق نظر نہیں آرہا تھا ،یہ رسالت سے عشق تھا ، رسالت سے پیار تھا ،یہ رسالت کی محبت ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ادب تھا کہ صحابہ کرام لعاب دہن ہاتھوں میں لے رہے ہیں ہاتھوں پہ لگا رہے ہیں مگر اس نے عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو رب کے ایک ہونے کا پتہ دے دیا ۔
یہاں سے ان کو سمجھ آگئی کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کیا ہے ؟ معارف رسالت کا پہلا حصہ یہ ہے کہ جس سے لوگوں کو قرب خداوندی کا پتہ چلتا ہے بلکہ عقیدہ توحید کی روشنی اس ذریعے سے آتی ہے اس بنیاد پر معرفت رسالت دور منصب نبوت میں وہ عقیدہ ہے جس پر اہلسنت و جماعت زور دیتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہر عیب سے پاک مانو اور ان کو انسانی کمالات کی معراج پر سمجھو اور کسی کمی اور کجی کو ان کی طرف منسوب مت کرو ، ان کے کردار کو شبنم سے بھی شستہ سمجھو ، اور ان کی ہر ادا کو خواہش انسانی سے دور سمجھو، اس بنیاد پر جو رسالت کا عقیدہ بیان کیا جاتا ہے یہ حقیقت میں توحید کے عقیدے کی شناخت بنتاہے ۔
اس کی وجہ سے معرفت خداوندی کا حصول آسان ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے پورے دین کے اند ر اس چیز کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے اسی چیز کو آج تک معیار حق قرار دیا گیا ہے ۔
جبکہ دوسری طرف جو نکتہ نظر ہے جس کی بنیاد پر نبوت کو عقل پہ تولا جاتا ہے اور عام انسانی سطح پر معاذ اللہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کھڑا کرنا ہے اورکوشش کی جاتی ہے پھر اس کے ساتھ برابری اور ہمسری کے دعوے کیئے جاتے ہیں اور ایسے دلائل گھڑے جاتے ہیں اس فکر کی بنیاد پر بالآخر اندھیرا پھیلتا ہے گمراہی آتی ہے نبوت کے بارے میں بے ادبی کی مختلف زبانیں کھلتی ہیں یہاں تک کہ گستاخیوں کے دھویں اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس بنیاد پر منصب نبوت کے معارف کے لحاظ سے ہمیں اسی فکر پر رہنا ہے اور اللہ کے فضل سے ہم موجود ہیں جو کہ صفہ والوں نے آگے پہنچائی ہے جس کا ہمیشہ سبق دیا گیا ہے اور دوسری طرف جو مشرکین مکہ کا ویو تھا اس کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے اس سے نکلنے والی سوچ کے خلاف ہمیں اپنے تبلیغی انداز میں فیصلہ کردار اد ا کرنے کی ضرورت ہے ۔
مشرکین مکہ کا انداز یہ تھا کہ وہ نبوت کو اپنے انداز سے سوچ رہے تھے اور کچھ اپنی طرف سے امور بنائے ہوئے تھے جن کی بنیاد پر انسان نبی ہو سکتاہے ۔اور اللہ تعالیٰ کو مشورے دے رہے تھے کہ اللہ تو فلاں کو نبی بنا دے اور فلاں کو نبی بنا دے، انہوں نے اپنے انداز سے نبوت کو کھینچنے کی کوشش کی آج بھی اسی انداز سے اسی فکر کو عام کرنے کی کوشش ہو تی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ : وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (سورۃ الزخزف رقم الآیت 31) ۔ اور بولے کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن ان دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر ۔
ان کے نزدیک مکہ شریف اور طائف میں ایک امیدوار بنایا جاتا ۔ مکہ شریف میں ولید بن مغیرہ اور طائف میں عروہ بن مسعود یہ دونوں انسان پیش کر کے وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ان پر قرآن نازل کیا جاتا یہ نبی ہوتے چونکہ ان کے پاس دولت زیادہ ہے ان کے پاس دنیاوی رعب بڑا ہے لہٰذا نبی انہیں ہو نا چاہیے تھا عظیم انسان کو نبی ہونا چاہیے تھا تو نے کس کو نبی بنا دیا ہے (معاذ اللہ) جو انہوں نے عظمت کا معیار بنا رکھا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے مسترد کر دیا اور فرما دیا کہ میں نے عظیم انسان کوہی نبی بنایا ہے جو نبوت کا ازل سے حق رکھتے ہیں میں نے ان کو منتخب کر رکھا ہے : اللّٰہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ( سورۃ الأنعام رقم الآیۃ: 124)
ترجمہ : اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے ۔
رب زیادہ جانتاہے کہ اس نے اپنی رسالت کہاں پہ رکھنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے موقف کو رد کرتے ہوئے بڑے حسین اسلوب میں اس کی جڑیں اکھیڑ دیں اور فرمایا کہ : أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ ۔
ترجمہ : کیا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ہم نے ان میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا ۔(سورۃ الزخزف رقم الآیت 32)
ترجمہ : اے محبوب !کیا وہ تمہارے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں ،نہیں نہیں وہ نہیں کرتے، میں آپ تقسیم کرتا ہوں ۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ جس وقت مشرکین مکہ رسول اللہﷺ کے سامنے کہتے ہیں ۔لَسْتَ مُرْسَلاً ۔۔۔تم رسول نہیں ہو ۔ رسول ہم اپنا بنوائیں گے ، ہم اپنی مرضی کا رسول لائیں گے اس طرح کی جب باتیں ہوتی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طبیعت پر ملال آتا تھا آپ فرماتے کہ میں تو سورج سے زیادہ روشن دین لیکر آیا ہوں ۔ ان لوگوں کو ابھی پتہ ہی نہیں چل رہا تو اللہ تعالیٰ کا قرآن اس کی سینکڑوں آیات اسی مضمون پر ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبو ب سے محبت کے اظہار کے طور پر حوصلہ افزائی فرمائی حالانکہ کمی پہلے بھی نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ضروری سمجھا کہ جب وہ ایسی بات کرتے ہیں تو میں اپنے محبوب کا حوصلہ کیوں نہ بڑھاؤں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ ۔ کیا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ۔رب نے اپنی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف کر کے محبت کو ظاہر کیا ہے اور پھر فرمایا کہ : نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنَّیَا ۔ ہم نے ان میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا ۔
انہیں یہ ماننا پڑے گا کہ اگر یہ خود تقسیم کرتے ہوتے تو یہ سارے ہی مالدار ہوتے کچھ غریب ہیں اور کچھ امیر ہیں تو ہم نے ان میں رزق تقسیم کیا ہے . وَ رَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ ۔
ترجمہ : اور ان میں ایک دوسرے پر درجوں بلندی دی ۔
یعنی دنیاوی طور پر بھی ہم نے یہ فرق رکھا ہے دنیا کا رزق ہم نے بانٹا ہے دلیل یہ کہ اے محبوب جب ادنیٰ چیز بانٹتے وقت میں نے ان کو منشی نہیں بنایا اور میں نے خود ہی بانٹی ہے ۔ جب دنیا کا مال ان کے ہاتھوں سے تقسیم نہیں کروایا ، میں نے وہ خود کیا ہے تو نبوت ان کو میں کیسے دے سکتا ہوں کہ جسے چاہیں اس کے سر پر تاج رکھتے پھریں، جو اپنی طرف سے نبوت کے امیدوار ڈھونڈتے پھرتے رہیں فرمایا جب رزق میں نے بانٹاہے ادنیٰ چیز جب میں نے بانٹی ہے تو اعلیٰ بھی میں ہی بانٹنے والا ہوں ۔
لہٰذا جو ان لوگوں کے معیار ہیں اور جو انہوں نے ضابطے بنائے ہوئے ہیں کہ نبی ایسا ہونا چاہیے ،نبی ایسا ہوناچاہیے فرمایا اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کا ازلی فیصلہ ہے اس نے کامل لوگوں کو اپنی طرف سے نبوت کا تحفہ عطا فرمایا ہے ۔
اس مقام پر نبوت کے آداب اور منصب کے لحاظ سے جو اس کے معارف ہیں اس میں آج کے ماحول کے لحاظ سے دو باتیں کھل کے سامنے آچکی ہیں اس کا بیان کسی پہ کوئی الزام نہیں ہے وہ اپنی کتابوں میں بار بار لکھ چکے ہیں چھاپ چکے ہیں اس پر ضد کرتے ہیں ہر جگہ اس کو بیان کرتے ہیں ۔
وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بہت بڑا مقام و مرتبہ ہے اتنا کہ جتنا بڑے بھائی کا ہوتا ہے، اتنا کہ جتنا گاؤں کے چودھری کا ہوتا ہے ،جتنا پوسٹ مین ڈاکیے کا ہوتا ہے، یہ ان لوگوں کی گردان ہے، یہ ان کا سبق ہے، اس سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں یہ ان کے درس قرآن کا موضوع ہے ،وہ بیان کرتے وقت نبوت کا یہ تعارف پیش کرتے ہیں ۔
دوسری طرف ہم اہل حق ہیں ہم کہتے ہیں کہ کروڑوں چوہدری ان کی خاک پر قربان کیے جاسکتے ہیں، کروڑوں بڑے بھائی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔کیا ڈاکیا اور کیا اس کی حقیقت ہم تو یہ سمجھتے ہیں ۔
فلک کو اس بلندی پر بھی وہ عظمت نہیں حاصل
جبین خاک سے پوچھو مقام نقش پا کیا ہے
جس جگہ پر قدم رکھتے ہیں وہ زمین کی جگہ بھی آسمان بن جاتی ہے تو یہ جو تعارف پیش کیا جارہا ہے یہ ہرگز حقیقی تعارف نہیں ہے بلکہ یہ شایان شان نبوت نہیں ہے اس طرح ان کا مرتبہ بیان نہیں ہو سکتا ہے ۔صفہ کا ماحول بھی دیکھو اور حدیبیہ کی بات دیکھو !اگر حدیبیہ کے مقام پر بیٹھے ہوئے صحابہ کرام آپس میں ٹولیوں میں بیٹھ کر تعارف یہ کروارہے ہوتے جو آج ان لوگوں کی زبان پر ہے تو کبھی حضرت عروہ کو کلمہ نصیب نہ ہوتا اگر وہ آتے اور ٹولیوں میں پانچ پانچ صحابہ بیٹھ کے یہ بتا رہے ہوتے کہ ہمارے نبی بہت بڑی شان رکھتے ہیں جتنی بڑے بھائی کی ہوتی ہے، جتنی گاؤں کے چوہدری کی ہوتی ہے، جتنی ڈاکیے کی ہوتی ہے ،بس ان کے بھی دو ہاتھ ہیں، ہمارے بھی دوہاتھ ہیں، انہوں نے بھی شادی کی، ہم بھی شادی کرنے والے ہیں، یہ دعائیں مانگ کے تھک جاتے ہیں رب ان کی کوئی نہیں مانتا ہے، یہ کسی چیز کے مالک و مختار نہیں ہیں، اگر یہ انداز تبلیغ ہوتا تو عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کبھی بھی کلمہ نہ پڑھتے وہ دیکھتے ہی ہٹ جاتے کہ جو ماننے والے ہیں انہوں نے یہ کچھ مانا ہے وہ مجھے کیا کچھ دے سکتاہے لیکن جس وقت حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ماننے والوں کا انداز یہ دیکھا ہے کہ وہ لعاب دہن بھی ماتھے پہ لگا رہے ہیں ۔
انہوں نے سمجھا کہ لوگ محبوبو ں سے پیار کرتے رہتے ہیں مگر لعاب دہن ایک نئی بات ہے اور پھر گاڑھا بلغمی تھوک ماتھوں سے لگاتے ہیں ۔ارے وہ تھو ک تھوک تو نہیں تھا وہ تو چشمہ رحمت کی جھاگ تھا ،گلِ قدس کی پتیوں پر جب لوح محفوظ کا شبنم ظاہر ہوتا ہے، اور پھر جدا ہوتا ہے ۔ صحابہ کرام ہاتھوں میں لیتے ہیں ماتھوں پر لگاتے ہیں اور دنیا والوں کو بتاتے ہیں لوگوں ان سے برابری کاتصور مت لاؤ ان کی نبوت اور رسالت کی پہچان بڑے بھائی اور ڈاکیے سے مت کرواؤ۔کون ہے جو بڑے بھائی کا تھوک ماتھے پر لگاتاہے؟ کون ہے جو گاؤں کے چوہدری کا تھوک دیکھنا پسند کرتاہے؟ کون ہے جو ڈاکیے اور پوسٹ مین کے لعاب کو دیکھنا خوشی محسوس کرتا ہو ؟
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتاہے لپٹ کے درودیوار کے ساتھ
عام انسان کا تھوک تو باعث نفرت ہوتاہے مگر یہاں پر اتنا مرکز محبت بنا ہو ا ہے صحابہ کرام اس لعاب دہن کو ماتھے پہ لگا کر کیا پیغام دے رہے تھے کہ لوگو! جن کے لعاب کی مثال نہ ہو تو رسالت مآب کی مثال کہاں سے آئے گی ۔
حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس انداز کو دیکھا توکفر ٹوٹ گیا ان کے دل میں یہ بات آگئی کہ یہ ساتھ جو اس میں پیدا ہوئے تھے صدیق و عمر رضی اللہ عنہما اور اپنے عہد کے قد آور انسان اس دربار میں آکے یوں گم ہو گئے ہیں کہ لعاب دہن بھی ماتھے پہ لگا رہے ہیں ہمسری نہیں کرتے ، برابری نہیں کرتے اور لعاب دہن ماتھے پہ لگا کر لوگوں کو پیغام دے رہے ہیں۔ اس سے عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کفر ٹوٹا انہیں کلمہ میسر آیا اس واسطے میں پورے وثوق کے ساتھ جو مزاج اہلسنت کا ہے اور جو انداز اہلسنت کا ہے اس کو مزاج صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تجلی سمجھتا ہوں ۔
اس ماحول میں اگر یہ انداز اپنائے جو آج اس کمپنی کا ہے تو عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کفر کبھی بھی نہ ڈگمگاتا اور قریش مکہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ ہوتے اور کبھی ان کا آیا ہوا سفیر ان کو منصب شہادت میسر نہ ہوتا ۔حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جس عقیدہ پر جہنم سے نکل کر جنت میں آباد ہوئے ہیں ۔ یہ عشق کی جھلک تھی جو انہوں نے حدیبیہ میں دیکھی تھی ۔اس عقیدہ پر نبوت کی شان کتنی اونچی ہے اس سے برابری اور ہمسری نہیں کی جا سکتی اس چیز کو دیکھ کر حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کلمہ نصیب ہوا ۔
آج بھی کائنات میں حق کی آذا ن کے لیے اور حق کی حمایت کے لیے اور آج بھی اسلام کا نور پھیلانے کے لیے اسی انداز تبلیغ کی ضرورت ہے اور نبوت و رسالت کے اس تعارف کی ضرورت ہے جو صحابہ کرام نے حضرت عروہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے سامنے پیش فرمایاتھا ۔
آج جس وقت ادھر برابری کی باتیں ہوتی ہیں پھر وہ اس کو سیرت قرار دیتے ہیں، برابری کی باتیں ہوتی ہیں اس کو اپنی تبلیغ قرار دیتے ہیں ۔دوسری طرف ہماری طرز ہے جماعت کی بات ہے مسلم امہ کے جمہور کا موقف ہے ہم نے جس وقت دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ طبقہ جو آج ضدی بنا ہوا ہے کہ بڑا بھائی مان لو، گاؤں کے چوہدری جیسا مان لو، ادھر یہ جماعت ہے جو کہتے ہیں کہ ہم ایسا مانیں گے جیسا کہ صحابہ کرام نے ماناتھا ۔
دیکھا انہوں نے بھی نہیں اور دیکھا ہم نے بھی نہیں مگر فرق یہ ہے کہ انہوں نے دیکھے بغیر اپنی سوچ کے مطا بق مانا ہے ہم دیکھے بغیردیکھنے والوں کے کہنے پہ مانا ہے ۔ان کا جو فارمولہ ہے کہ اپنے جیسا برابری والا اپنی مثل والا اس فارمولہ پر اگر کوئی ماننا چاہے تو دیکھو گے کہ اگر انسان دیکھ بھی لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اسے پھر بھی پتہ نہیں چلے گا بغیر دیکھے کیسے پتہ چل جاتاہے ۔
ان کے فارمولہ کو دیکھو : ابو جہل نے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سینکڑوں بار دیکھا مگر ایک بار بھی اسے پتہ نہیں چل سکا ، پھر بھی رجسٹرڈ جہنمی ہی رہا حالانکہ اس دور میں موجود تھا کوئی دور کی بات نہیں تھی بار بار دیکھاہے۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ جو صدیوں بعد پیدا ہوئے ہیں صحابی نہیں ہیں مگر پھر بھی جنتی بن گئے تو فرق صرف نبوت و رسالت کو ماننے کے فارمولے میں تھا ۔
ابو جہل کا فارمولہ اور تھا ، داتا صاحب کا فارمولہ اور تھا ، ابو جہل کا فارمولہ یہ تھا اس نے جب بھی دیکھا معاذ اللہ اپنے جیسا سمجھ کر دیکھا ایک بار بھی اگر بے مثل جانتا اس انداز میں دیکھتا تو پھر معاملہ اور ہوتا اس نے جب بھی دیکھا اپنے جیسا سمجھ کے دیکھا نتیجہ جہنم میں نکلا ۔ داتا صاحب صدیوں بعد پیدا ہوئے ساری زندگی ان جیسا کسی کو نہ دیکھا اللہ تعالیٰ نے فردوس کا وارث بنا دیا ہے ۔
اس بنیاد پر معارف رسالت کے لحاظ سے آج جو دو رائے موجود ہیں ان میں آپ اللہ کے فضل سے راہ حق پر ہیں دوسروں تک اس بات کو پہنچانا لازم ہے وہ فارمولا جس کو تم لیے ہوئے ہو وہ تو اتنا ناکارہ ہے اگر انسان عہد رسالت میں ہوتا پھر بھی اس پہ فیض نہیں مل سکتا تھا اور جو ہمار ا فارمولا ہے یہ آج بھی ذرے آفتاب بناتا ہے اور کانٹے گلاب بنا دیتا ہے ۔
اس سلسلہ میں حضرت مجد دالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات شریف میں اس پوری بحث کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : محبوبان کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم را بشر گفتند و در رنگ سائر بشر تصور نمودند (مکتوبات جلد دوم مکتوب نمبر 64 ،ص 145 مکتبہ احمدیہ مجددیہ کوئٹہ)
ترجمہ : وہ لوگ پردے میں ہیں ان کی آنکھوں پر پردہ ہے کون لوگ ؟ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بشر کہتے ہیں اور اس پر ہی رک جاتے ہیں بشریت تو قرآن کا حصہ ہے قرآن کی آیات ہیں لیکن ان لوگوں کا انداز کیا ہے ؟
بشر بشر کی مجانست قائم کرتے ہیں بشریت کو ماننے کیلئے اپنی بشریت کو شیشیہ بناتے ہیں ایک نبی کی نبوت کو ماننے کیلئے ان کی بشری جہت کے سامنے اپنی بشریت کو رکھ کے ان کی بے مثل بشریت کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔جب انہیں کہا جائے کہ وہ بیٹھے فرش پر ہیں اور نگاہ عرش سے پار گزر جاتی ہیں ۔ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ أَلَا تُحَدِّثُنِی عَنْ حَارِثَۃَ وَکَانَ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ أَصَابَہُ سَہْمٌ غَرْبٌ ۔۔۔ حضرت ام حارثہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا تھا میرا حارثہ شہید ہو گیا ہے وہ کہاں پہنچا ہے ۔ فَإِنْ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ صَبَرْتُ وَإِنْ کَانَ غَیْرَ ذَلِکَ اجْتَہَدْتُ عَلَیْہِ فِی الْبُکَاءِ ۔۔۔ اگر جنت میں پہنچ گیا ہے تو صبر کر لیتی ہوں اگر نہیں پہنچا تو رونے کی اجازت دے دو۔ قَالَ یَا أُمَّ حَارِثَۃَ ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے ام حارثہ ۔ إِنَّہَا جِنَانٌ فِی الْجَنَّۃِ وَإِنَّ ابْنَکِ أَصَابَ الْفِرْدَوْسَ الْأَعْلَی ۔ (بخاری کتاب الجہاد والسیرباب من اتاہ سہم رقم الحدیث :2598،چشتی) حارثہ کی امی تم ایک جنت کی بات کرتی ہو میرے رب کی تو کئی جنتیں ہیں تیرا حارثہ تو جنت الفردوس میں پہنچ چکا ہے ۔
سات آسمانوں کے پار جنت میں حارثہ کی موجودگی کی خبر اس وقت سنائی دے اور جس وقت یہ عقیدہ بیان کیا جائے اگر کوئی شخص اس کے مقابلے میں بشریت رکھ کے اس کو چیک کرے میری آنکھ تو تھوڑی دیر بعد دیکھنا بند ہو جاتی ہے مجھے بھی دیوار کے پیچھے نظر نہیں آتا ۔مجھے فضا میں موجود مخلوقات نظر نہیں آتی۔ تو میں بھی بشر ہوں وہ بھی بشر ہیں۔اور ہم ایک جیسے ہیں۔تو پھر اس کے لیے ایک رکاوٹ بن جائے گی ،ایک حجاب بن جائیگا ،وہ کہے گا نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، میری بھی تو آنکھیں ہیں جب مجھے نظر نہیں آتا تو انہیں نظر کیسے آسکتا ہے ؟
اب یہاں کیوں انکار آیا ،شان نبوت کو سمجھنے کے لیے اپنی ذات کو آئینہ بنایا ہوا ہے۔ اس کی آنکھوں پر بشریت کا حجا ب پڑا ہوا ہے اور مثلیت کی بنیاد پر جب بھی کمال نبوت سامنے آتا ہے اس کو پرکھنے کے لیے کسوٹی اپنے آپ کو سمجھا ہوا ہے، نتیجہ گمراہی میں نکلتا ہے ۔
بخاری شریف میں موجود ہے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہیں ، مدینہ شریف میں مسجد نبوی میں جماعت کرا رہے ہیں جماعت کراتے کراتے قدم آگے بڑھاتے ہیں ، ہاتھ کو اونچا کر لیا ہے پھر ہاتھ نیچے کیا اور قدم پیچھے ہٹا لیا جب سلام پھیرا تو صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم معاملہ کیا تھا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہَ إِنِّیْ أُرِیْتُ الْجَنَّۃَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْہَا عُنْقُوْدًا وَلَوْ أَخَذْتُہُ لَأَکَلْتُمْ مِنْہُ مَا بَقِیَتِ الدُّنْیَا ( بخاری کتاب الاذان بَاب رَفْعِ الْبَصَرِ إِلَی الْإِمَامِ رقم الحدیث :706 بے شک میں نے جنت کو دیکھا اس جنت سے ایک گچھا میرے ہاتھ میں تھا اگر میں وہ توڑ لیتا تو تم اس سے قیامت تک کھاتے رہتے لیکن وہ ختم نہ ہوتا ۔
یعنی اے میرے صحابہ !جب نے میں ہاتھ اونچا کیا تھا تو میں نے جنت کا گچھا پکڑ لیا تھا۔ جب ایسا معاملہ ہو کہ حدیث کے مضمون کے مطابق زمین سے آسمان تک پانچ سوسال کا سفر ہو اور ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کا سفرہو، ہر آسمان سے دوسرا آسمان تک پانچ سو سال کا سفر ،سات آسمانوں کے پار جنت اور پھر جنت کا باغ یہ ہمارے آقا علیہ السلام کی بشریت ہے کہ کھڑے مدینہ شریف کی زمین پر ہیں اور ہاتھ جنت بریں میں پہنچ چکا ہے۔جب جنت پہنچنے میں اتنی دیر نہیں لگی تو عاشقوں کو حوصلہ ہوا جب سات آسمانوں کے پار پہنچنے میں دیر نہ لگے تو پاکستان آنے میں کتنی دیر لگے گی وہ ہاتھ ضرور پہنچے گا ۔
یہ حدیث شریف اس طبقہ کے سامنے پیش کرو تو وہ فوراً اس کو کھینچ کے اپنے اوپر لائیں گے دیکھیں گے کہ ہمارا بھی قد ہے ، ہمارے بھی بازو ہیں ہمارے بھی ہاتھ ہیں ،ہم بھی قد رکھتے ہیں اور پھر تقریر میں یہ کہ ان کے بھی دو ہاتھ ہیں ہمارے بھی دو ہاتھ ہیں ۔
جس وقت انہوں نے شان رسالت کے سامنے اپنے آپ کو رکھا سرکار علیہ السلام کی بشریت ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ بن گئی اور انہیں پتہ نہ چل سکا کہ ہماری بشریت گلیوں میں پھرتی ہے ان کی بشریت عرش پر جا کے بیٹھ جاتی ہے ،یہ بشریت کے لفظ میں ہی گم ہو گئے ۔
ان کے ہاں یہ سیرت بن گئی کہ یہ بتائیں کہ ان کے بھی دو ہاتھ ہیں ،ان کے بھی دو قدم ہیں جب کہ اس کا تعلق سیرت سے کیا ہے ،یہ بچہ بچہ جانتاہے کہ ان کے ہاتھ دو ہی ہیں ،ان کے قدم دو ہی ہوں مگر سیرت یہ نہیں کہ ہاتھ قدم گنتے رہو، سیرت یہ ہے کہ یہ بتاؤ قدم اونچا کتنا ہے ،بازو لمبا کتنا ہے ہاتھ کھلا کتنا ہے ،وہ کھڑے تو زمین پر ہیں لیکن ہاتھ جنت الفردوس میں پہنچ چکا ہے۔
آپ فرماتے ہیں میرے صحابہ وہ گچھا جو میں نے پکڑا تھا میں نے توڑا نہیں ہے اگر میں توڑ لیتا توصحابہ تم کھاتے ،تمھارے بیٹے پوتے ،پرپوتے کھاتے ،یمنی ،شامی، حجازی، عراقی، پاکستانی کھاتے قیامت تک کے لوگ کھاتے رہتے، میرے ہاتھ کا ایک بھی گچھا ختم نہ ہوتا ۔جس وقت اتنی عظیم شان رسالت کے سامنے اپنی معمولی ذات کو رکھیں گے اور وہ اتنے کھلے ہاتھ کے سامنے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ رکھیں گے کہ ان میں کچھ نہیں آتا تو اس ہاتھ میں کیوں کچھ آسکتاہے تو انہیں گمراہی کے سوا کیا کچھ ہاتھ میں آئے ۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے فارمولا غلط اپنا رکھاہے جس کے نتیجہ میں رب نے آنکھوں کے سامنے اندھیرہ کر دیاہے چونکہ انہوں نے جو بھی رسالت کے بارے میں سمجھناہے اسے اپنے لحاظ سے سمجھنا ہے، اپنی بشریت کو سامنے رکھ کر اس سے موازنہ کرتے ہیں کہ اس بشریت میں اس کا عکس نظر آتا ہے اور یہ کیسے ہو سکتاہے کہ شیشے میں وہ نور نظر آسکے بُونے قدمیں اس لمبے قد والے کی عظمت کو سمجھا جا سکے ۔
پھر کیا ہوتا ہے کہ حضرت مجد د الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ناچار منکر آمدند و صاحب دولتاں کہ او را علیہ السلام بعنوان رسالت و رحمت عالمیاں دانستند ۔ بس نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ منکر ہو جاتے ہیں انہیں کچھ میسر نہیں آتا۔
دوسری طرف کون ہیں فرمایا جو صاحب دل لوگ ہیں یہ کیا کرتے ہیں : وازسائر ناس ممتاز دیدند بدولت ایمان مشرف گشتندو از اہل نجات آمدند ۔ (مکتوبات جلد دوم مکتوب نمبر 64 ،ص 145 مکتبہ احمدیہ مجددیہ کوئٹہ،چشتی)
وہ ان جیسا کسی کو نہیں مانتے اور ان کی عظمت کو مانتے وقت اپنے آپ کو نہیں دیکھتے شان قدرت کو دیکھتے ہیں تونتیجہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صداقت میں نکل آتاہے ۔
یہی سارا مسئلہ ہے اور معارف رسالت کے لحاظ سے یہ فیصلہ کن بات ہے دنیا کے چوک میں کھڑے ہو کر بلا جھجک تم اس کو بیان کر سکتے ہو ،جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے دل کی بیماری دور ہو جائے یا تم چاہو کہ اس کے دل کی بیماری دور ہو جائے اسے کہو کہ کچھ وقت کے لیے اپنا فار مولہ چھوڑ کے ہمارا فارمولہ اپنا کے دیکھ تو سہی اگر لذت نہ ملی تو بات کر لینا، اگر پردے نہ ہٹے تو پھر بات کر لینا تم مانتے وقت یہ کیوں کہتے ہو کہ میں ان جیسا وہ مجھ جیسے یہ دیکھ کے مانو کہ وہ محبوب کس کے ہیں، یہ دیکھ کے مانو کہ وہ رسول کس کے ہیں ،یہ دیکھ کے مانو انہیں گواہ کس نے بنایا ہے، کس چیز کا گواہ بنایا ہے ، کس چیز کی برہان بنایا ہے ،لہذا بریلی شریف سے میرے امام کی آواز آتی ہے مانو تو یوں مانو :
اللہ کی سرتا بقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ
لہذا جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مانتے وقت ان کو اس لحاظ سے مانتا ہے ،اس جہت کو سامنے رکھ کر کہے یہ اللہ کے رسول ہیں ،یہ خالق کائنات کے نائب ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ،اب وہ بھول بھلیوں میں نہیں پڑتا ،اللہ تعالیٰ اس کو نو ر عطا فرما دیتاہے ۔اس بنیاد پر آج کے ماحول کی یہ ہماری جو گھنٹوں بحث کی بات ،جس کی تلاشی ہو سکتی ہے، اس کو معین کرنا یہ تشخیص ہے، آگے پھر اس کا علاج ہے ان لوگوں تک اس بات کو پہچانا چاہیے کہ یہ صورتحال ہے کہ تمہارے سامنے زمانہ تاریک نظر آتاہے ،کہیں تمہیں نور نظر نہیں آتا کہ فارمولا غلط اپنا لیا ۔اس فارمولے کی وجہ سے آگے نحوستیں پڑ گئیں جو عادت پڑ گئی جو رسالت ہو اسے اپنے اوپر قیاس کرتا ہے اگر اپنے بدن میں وہ کمال اجازت دے تو پھر مانناہے ورنہ نہیں ماننا یہ بری عادت ہے جو شخص اس کو ترک کر دے اور اس مزاج سے شان رسالت سمجھے جس سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھا ہے تو ان شاء اللہ ایک منٹ سے پہلے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صحابہ کرام کے سامنے اکثر یہ دعا مانگتے ہیں : یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَی دِینِکَ (سنن الترمذی ص 29) اے دلو کے بدل دینے والے میرا دل اپنے دین پر ثابت رکھ ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب یہ دعا سنی تو اس سے مطلب کیا نکالا آج جس وقت ایسی احادیث سامنے آتی ہیں تو ان کو ایک طبقہ کھینچ کے فورا ایک سطحی انسان کے ساتھ ملا دیتاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایسی باتوں کو بیان کرتاہے ۔
وہ کچھ کالج ، یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور کچھ بگڑے ہوئے سکالر وہ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ بات کیا ہے ؟ معاملہ کیا ہے ؟ اور ہم نے کس انداز میں اس چیز کو بیان کرنا ہے ، صحابہ کرام رض اللہ عنہم نے اس کو سمجھا تو کیسے سمجھا ان کی سوچ میں کتنا بہترین طریقہ ہے جس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بولتے اپنے بارے میں ہیں ۔ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ (سنن الترمذی ص 29،چشتی) ۔۔۔ میرا دل دین پر ثابت رکھ ۔
آج کا بگڑا ہو مزاج ہوتا تو کہتے دیکھو اللہ کے نبی کو خطرہ ہے اپنے بارے میں کہ کہیں دل پھر نہ جائے اور کہیں راہ حق مجھ سے چھن نہ جائے ،یہ خطرہ تھا اس لیے اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے ،ان لوگوں نے چونکہ مزاج یہ بنایا ہوا تھا اس بنیاد پر یہ ترجمے اور ساری تقریریں شروع ہو جاتی تھیں مگر صفہ پہ بیٹھے ہوئے صحابہ کرام کی شان دیکھو کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہِ فَہَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا (سنن الترمذی ص 29 ) ۔ ہم آپ پر اور جو کچھ آپ لے کر آئے اس پر ایمان لائے تو کیا آ پ کو ہمارے بارے میں خطرہ ہے کہ ہم پھر جائیں گئیں۔
سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ صحابہ کرام کو نہیں کہا کہ تم یہ دعا مانگو بلکہ آپ نے خوددعا مانگی ہے اور کہا کہ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَی دِینِکَ ۔ (سنن الترمذی صفحہ نمبر 29،چشتی) ۔۔۔ میرا دل ثابت رکھ اپنے دین پر ۔ مگر صحابہ کرام سمجھ گئے کہ یہ دل تو پھر نہیں سکتا بات ہماری ہو رہی ہے سمجھایا ہمیں جارہا ہے پڑھایا ہمیں جارہا ہے، وہ جن کی لغت میں گفتگو ہو رہی ہے وہ جن کی بصیرت پر نبوت گواہی دے، وہ جن کے دماغوں پر رسالت کا چراغ موجودہے، وہ انہیں کہ سامنے اکڑ کے کھڑے ہو جاتے کہ دیکھو یہ ہم جیسے ہیں ہم ان جیسے ہیں ہمیں بھی خطرہ ہے انہیں بھی خطرہ ہے نہیں نہیں انہوں نے کہا محبوب آپ کو خطرہ نہیں ہے اور ہمارے بارے میں محسوس کر رہے ہو ہم تو بڑے پکے ہیں تو محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أُصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُہَا کَیْفَ یَشَاءُ ۔ (سنن الترمذی باب القدر عن رسول اللہﷺباب ما جاء ان القلوب بین اصبعی الرحمن رقم الحدیث :2066 ) ہر وقت ڈرتے رہو کہ یہ دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ جب چاہے پھیر دیتا ہے ۔
یہاں پر دلیل صحابہ کرام کے انداز سے حاصل ہوئی وہ کیا کہ ایسے امور کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبوت پہ فٹ نہیں کرتے حالانکہ واضح لفظ موجودہیں ۔
ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ ۔۔۔میرا دل ثابت رکھ اپنے دین پر ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مفہوم سمجھ کر بیان کر رہے ہیں اور پھر آپ تصدیق فر ما رہے ہیں اور فرمایا کہ تمھیں سنت سکھا رہے ہیں ، تمہیں دعا مانگنے کا طریقہ دیا ہے اب وہ دل جو ازل سے ابد تک ہمیشہ جس کی وجہ سے کروڑوں کو ،اربوں کوصراط مستقیم میسرہے اس دل کے بدلنے کا کوئی چانس نہیں تھا اور یہ لفظ تعلیم امت کے لیے بولا ہے صحابہ کرام نے تعلیم کے لیے سمجھا ہے کہ بات محبوب کی نہیں بلکہ ہماری ہے یہ کیوں سمجھا ہے کہ عقیدہ یہ تھا کہ محبوب جیساکوئی نہیں ہے ۔
اپنے آپ کو یوں بناتے ہوتے جیسے آج کا ایک گستاخ انداز ہے کہتے میں بھول گیا تو کیا ہوا ، نبی بھی معاذ اللہ بھول گئے ،میں نے غلطی کی تو کیا ہو ا ،نبی نے بھی غلطی کی تھی ،فورا اپنے آپ کو نبوت کے قد کے برابر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن صحابہ کرام کا ادب دیکھو واضح لفظ موجود ہیں ۔
لیکن پھر بھی اس چیز کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف نہیں ہونے دی بلکہ نسبت اپنی طرف کی جب اپنی طرف کر کے بیان کیا اور کہا کہ ’’أَتَخَافُ عَلَیْنَا ‘‘کیا آپ کو ہمارے بارے میں خطرہ ہے ۔
تو سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ میں نے تو تمہاری بات ہی نہیں کی تم کیوں گھبرا رہے ہو میں تو اپنی بات کر رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے واضح کر دیا ہے میں نے تمہاری ہی بات کی تھی اگرچہ لفظ میں نے اپنے بارے میں بولے ہیں لیکن بات تمہاری کی تھی میں تمہیں دعا مانگنے کا ایک طریقہ بتا رہا تھا میری زبان سے یہ لفظ نکلے گا کہ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ ۔۔۔میرا دل ثابت رکھ اپنے دین پر ۔ پھر تمہارے لئے سنت بن جائے گی تم بھی اسی طرح بولو گے تو اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جائیں گے ۔
آج معاذ اللہ ایسی چیزوں کو لوگ بیان کر کے چوڑے ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کہ دیکھو تم نے نبی کو اتنا عظیم بنایا ہو اہے، وہاں بھی یہ بات ہے یہاں بھی یہ بات ہے اس طرح بات اس غلط فارمولے کی وجہ سے جس کی بنیاد پر سارا سفر رائیگاں جا رہاہے اور بات بات پر برابری کے دعوے کیے جارہے ہیں جب کہ صحابہ کرام لعاب دہن چہرے پر لگا کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات بیان کر کے واضح کر رہے ہیں کہ بعد والے ہمارے قدموں کی خاک تک نہیں پہنچ سکتے اور ہم وہ ہیں جو شان نبوت میں گم ہو چکے ہیں ۔
اس بنیاد پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جو سوچ ہے اس میں ہمیشہ معرفت رسالت کے لحاظ سے یہ ہے کہ ایک خوبی دیکھ کے دوسری خود سمجھ لینی ہے، ایک پہلو پڑھ کے دوسرا ویسے ہی مان لیا جاتا ہے، تول کے نہیں ماننا،ناپ کے نہیں ماننا ،بخل سے نہیں ماننا، تو ل تول کے نہیں، سینہ کھول کے مانتاہے ۔یہ صحابہ کرام کا انداز ہے نبوت و رسالت کے لحاظ سے ،اس طبقہ میں آج اتنی کمی آگئی کہ ان کو اپنے باپ دادا کی شان منواؤ تو ان کے لئے چیزیں مانیں گے اس سے اپنے لیڈروں کی عظمتیں خود بیان کریں گے لیکن جب بھی شان نبوت کی باری آئے گی تو فورا بڑے حساس ہو جائیں گے اور اسلحہ تیز کر لیں گے کہ سند کمزور ہے ،راوی کی کمزوری ہے۔ نہیں مطلب یہ نہیں یہ تو خاص ایک وقت کے لیے تھا بس یہ ایک معجزہ ہے اس سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا اس طرح کی باتیں شروع کر دیتے ہیں یہ وہ بیماری ہے جس کا آغاز منافقت سے ہوا تھاا ور کھلے سینے سے شان رسالت کو ماننا یہ وہ صداقت ہے جس کا چاند صفہ سے طلوع ہوا تھا ۔
بخاری شریف میں موجود ہے کہ جب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حدیبیہ میں موجود تھے اور پانی ختم ہو گیا تھا تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے درخواست کی گئی تو آپ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ مبارک رکھا جس میں پہلے پانی تھا ۔ فَجَعَلَ الْمَاءُ یَفُورُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِہِ کَأَمْثَالِ الْعُیُونِ قَالَ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا ۔۔۔ انگلیوں سے پانی یوں بہنے لگا جیسے چشمہ جاری ہوتا ہے پھر ہم پانی پیا اور وضو بھی کیا ۔
اس میں پہلی تو یہ بات ہے کہ نبوت کو عقل پہ تولا ہی نہیں جا سکتا اگر یہ تولیں تو بتائیں کہ وہ پانی کہاں سے آیا تھا وہ پانی طاہر بھی تھا ،مطہر بھی تھا ،شبنم سے شفاف اور زمزم سے اعلیٰ وہ پانی کہاں سے آرہا تھا، انسان کے بدن میں خون ہے یا رطوبت ہے وہ ایسی نہیں کہ وہ طاہر ،مطہر ہو یہ پانی نکلا ہے اور اتنا نکلا ہے یہ سر میں کہاں سے داخل ہوا یا قدموں میں کہاں سے ملا ہے نہیں نہیں اس محبوب کے پیکر نے کسی سے کچھ نہیں لیا ۔سب کو اپنی طرف عطا فرمایاہے کسی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کَمْ کُنْتُمْ یَوْمَءِذٍ ۔۔۔ اس دن تم کتنے تھے جن لوگوں نے پانی پیا ایک انداز بخاری میں یہ ہے کہ انہوں نے سوال ہی مسترد کر دیا تمہیں پتہ ہی نہیں کہ سوال کیسے کیا جاتا ہے ۔ کَمْ کُنْتُم یومئذ ۔۔۔یہ تم پوچھتے ہو کہ ہم کتنے تھے یہ پوچھو کہ پانی کتنا تھا کیونکہ جواب میں یہ جملہ مقدم کر گئےْ ۔ قَالَ لَوْ کُنَّا مِاءَۃَ أَلْفٍ لَکَفَانَا کُنَّا خَمْسَ عَشْرَۃَ مِاءَۃً ۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیۃ رقم الحدیث : 3837،چشتی) ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر ہم لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی کافی تھا لیکن ہم اس وقت پندرہ سو تھے ۔
یہ مقام ہے جہاں سے انسان کے سارے پردے ہٹ سکتے ہیں چودہ طبق روشن ہوتے ہیں آخر واقعہ کیا ہے کہ پانی انگلیوں سے نکلا انہوں نے پی لیا اور جانور وں کو بھی پلایا لیکن اس پانی کا کوئی حوض بنا ہوا نہیں تھا بلکہ جو نکلا وہ ساراپلا دیا ۔
اب حضرت جابر رضی اللہ عنہ جب مانتے ہیں کہ پندرہ سو پینے والے تھے تو پانی پندرہ سو سے زائد کیسے اور کیوں مان رہے ہیں ،کس بنیاد پر مان رہے ہیں ،پھر زائد تھوڑا بول دیتے یہ حوض بھر کے کس نے لگایا ہے، پا نی وہی تھا جو انگلیوں سے نکلا ہے لوگوں نے پی لیا ہے اگر آج کا مزاج ان لوگوں کا ہوتا جنہیں آج پتہ نہیں چل رہا ان سے پوچھا جا ئے کہ حقیقت یہ ہوتی کہ پندرہ سو نے پیا ہوتا اور وہی پانی ہے جو پی لیا تو کہتے تحقیق والے لوگ ہیں کہا سفر نہیں کریں گے بس اتنا ہی ہونا تھا جتنے ہم تھے پندرہ سو تھے اگر ایک بھی زائد ہوتا تو پانی ختم تھا ان لوگوں کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ پندرہ سو تک پندرہ سو ہی ماننا چاہیے مگر صحابہ کرام کا عشق کہتاہے کہ پندرہ سو پر لاکھ مان جانا چاہیئے ۔
انہوں نے پندرہ سو پر لاکھ جانا ہے انہوں نے تجربہ نہیں کیا ان کو اگر کہو کہ پندرہ سو پر دو ہزار مان جاؤ تو کہیں گے نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہم کیوں خلاف واقع مانیں جب پندرہ سو نے پیا ہے تو پندرہ سو ہی مانیں گے لیکن کیاعظمت ہے صحابہ کرام کی اصل میں مسئلہ تحقیق کاہے، مسئلہ ضد کا ،بخل کا اور ہٹ دھرمی کا نہیں ہے جو فارمولے کی وجہ سے مزاج میں آگئی ہے ۔
اب صحابہ کرام پندرہ سو پر اعلان کرتے ہیں کہ اگر لاکھ ہوتے تو پانی کافی تھا کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ لوگو !جن کی انگلیاں پندرہ سو کو پلا سکتی ہیں پھر لاکھ کو پلانا کیا کام ہے ۔یہ انداز ہے اور کھلا سینہ ہے نبوت کو جاننے کے لحاظ سے اوپر کوئی بد عقیدگی کی کوئی پابندی نہیں کہ جو مجبور کرے کہ پندرہ سو سے اوپر مت مانو۔پھر کہتے ہیں کہ یہ تو معجزہ ہے معجزہ سے عقیدہ کیسے مان جائیں نبوت کے معجزہ پر یوں تبصرہ کرنا جس سے یہ پتہ چلے کہ نبی کا اس میں کوئی دخل ہی نہیں ہے ۔اس میں نبی کی ذات کے لحاظ سے کوئی چیز ثابت ہی نہیں ہوتی اس فکر کا تعلق ہرگز فکر صحابہ کرام سے نہیں ہے ۔
صحابہ کرام کا جو انداز ہے اور معجزہ سے جو عقیدہ سمجھ آتا ہے وہ بخاری میں موجود ہے ۔ہمارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر پہ بیٹھے ہیں قحط سالی ہے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺکہ بارش نہیں ہو رہی ،رستے ویران ہو گئے دعا فرما دو کہ بارش اتر جائے سرکارﷺنے ہاتھ اٹھائے سارا آسمان خالی تھا مگر بادل دوڑ کے آگئے ہیں ،بارش برسنا شروع ہو گئی ہے اور پھر پورا ہفتہ یعنی جمعہ سے دوسرے جمعہ تک مسلسل بارش ہوتی رہی ،صحابہ کرام نے پھر کہا اے محبو ب علیہ السلام پھر دعا کر دو کہ بارش رک جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہاتھ اونچا کیا اور فرمایا کہ : اللَّہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا (بخاری شریف ص 474) ۔ اے اللہ آگے پیچھے ہوتی رہے مگر مدینہ شریف پر نہ ہو ۔
لگتا تھا کہ جیسے بادل بلانے پر آیا تھا اور پھر وہ جاتا کیسے وہ اجازت کا منتظر تھا فورا پیچھے ہٹ گیا ۔یہ بات ہم بیان کریں تو اس سے عقیدہ بیان کریں مگر یہ طبقہ کہتا ہے کہ بھلا معجزہ سے بھی کوئی عقیدہ ثابت ہوتا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھ لیتے ہیں وہ یہ حدیث بیان کر کے کیا فرماتے ہیں ۔
یُرِیہِمْ اللّٰہُ کَرَامَۃَ نَبِیِّہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وَإِجَابَۃَ دَعْوَتِہِ (صحیح بخاری ص 43،چشتی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کہنے پر بارش کا ہو جانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کہنے پر بادل کا چلے جانا اس سے ثابت کیا ہوا ؟
یُرِیہِمْ اللّٰہُ کَرَامَۃَ نَبِیِّہِ ۔۔۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی ویلیو دکھا رہا ہے بادل کو بلا کے بارش برسا کے اور پھر بادل کو ہٹا کے ثابت کیا ہوا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے عقیدہ کے مطابق وہی جو حضرت امام احمد رضا خان نے پڑھ کے سنایا حضرت انس کا یہ جملہ بخاری شریف میں ہے ۔۔۔۔ یُرِیہِمْ اللّٰہُ کَرَامَۃَ نَبِیِّہِ ۔۔۔اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے نبی کی ویلیو دکھاتا ہے ان سے ہمسری کوئی نہ کرے ان کے چہرے سے بادلوں کو پیار ہے ۔
یہ وہ سوچ ہے جو جامع ہے اس کا فارمولہ صحیح ہے دوسری طرف ادھار کھایا ہوا ہے، کمی ثابت کرنے کیلئے جو کچھ کہہ دو بس انکار لیکن صحابہ کرام کا انداز کتنا جامع ہے کہ ہم جس وقت اس ماحول کو صحابہ سے لے کر اسلاف تک یہی بات موجو د ہے آج چھوٹے چھوٹے لوگ جب بھول جائیں تو کہتے ہیں کہ کیا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز میں بھول گئے تھے۔ پوچھو اس شخص سے جو مزاج شناس نبوت ہے حضرت سید نا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے یہ معاملہ جب پوچھا گیا مکتوبات شریف میں ہے کہ : یَا لَیْتَنِیْ کُنْتُ سَہَْوَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔ اے کاش کہ رب میری صحیح پڑھی ہوئی نمازیں لے لے اور محبوب کی بھولی ہوئی نماز عطا فرمادے ۔
آج اس حدیث شریف کو لوگ اپنا قد بڑا ثابت کرنے کے لیئے پیش کرتے ہیں کوئی بات نہیں ہم بھول گئے تو کیا ہوا، نبی بھی بھول گئے تھے۔ برابری کی نیت سے اس کو استعمال کرتے ہیں جبکہ مجدد صاحب فرماتے ہیں دیکھو ان کے بھولنے کا سبب کیا ہے؟ برابری مت کرو تم بھول گئے اپنے مال کے حساب میں ،تم بھولے گھر کی بات میں، تم بھول گئے مال میں، وہ بھولے رب کے جمال میں ۔ان کی بھول کامعامہ اور ہے اور وہ بھول کی عظمت ہے ۔اس انداز کی جو فکر ہے نبوت کے بارے میں جو شروع سے آرہی ہے اس ماحول میں سمجھانے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالی سب کو معرفت مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی بھی تو فیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔(طالبِ دعا ودعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment