Thursday, 25 November 2021

عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ ششم

عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ ششم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قرآن (غیب) قلب رسول پر القاء ہوتا تھا افعال خمسہ کے ذریعے نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل پر وحی نازل کی جاتی تھی جس کا شمار حواس خمسہ میں نہیں ہوتا یعنی الله عزوجل کے سکھانے کے بعد بھی وہ علم غیب ہی ہوتا ہے کیونکہ غیب تو وہ ہے جو حواس کے بغیر معلوم کیا جائے ۔

قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلۡبِكَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡهِ وَ ہُدًی وَّبُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔ ﴿البقرہ ۹۷﴾
اے محبوب! تم فرمادو :جو کوئی جبرئیل کا دشمن ہو (تو ہو) پس بیشک اس نے تو تمہارے دل پر الله کے حکم سے یہ اتارا ہے، جو اپنے سے پہلے موجود کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہے اور ایمان والوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے۔

وَاِنَّه لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۹۲﴾ نَزَلَ بِه الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ عَلٰی قَلۡبِكَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ ﴿الشعراء ۱۹۴﴾
اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے، اسے روح الامین لے کر اترا تمہارے دل پر کہ تم ڈر سناؤ

ان آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول قلب مصطفی پر ہوتا تھا اور یہ افعال خمسہ میں سے نہیں لہذا اس ذریعے سے جو علم حاصل ہوگا اسے علم غیب ہی کہا جائے گا ۔

اب آتے ہیں جامعیت و علوم قرآن پر

قرآن میں ما کان ما یکون کا علم مخفی ہے ۔

وَمَا مِنۡ غَآئِبَةٍ فِی السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ۔ ﴿النمل ۷۵﴾
اور جتنے غیب ہیں آسمانوں اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں ۔

ونزلنا علیك الکتٰب تبیاناً لکل شیئ وھدی ورحمۃ وبشرٰی للمسلمین ۔
اتاری ہم نے تم پر کتاب جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت و رحمت و بشارت ۔ (القرآن الکریم ۱۶ /۸۹)

مافرطنا فی الکتب من شیئ ۔
ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھا نہیں رکھی ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۳۸)

ولا حبّة فی ظلمٰت الارض ولارطب ولا یابس الا فی کتٰب مبین ۔
کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک مگر یہ کہ سب ایک روشن کتاب میں لکھا ہے ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۵۹)

مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡهِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡهِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔ ﴿یونس ۟۳۷﴾
اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنالے بے اللہ کے اتارے ہاں وہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے اس میں کچھ شک نہیں ہے پروردگار عالم کی طرف سے ہے ۔

خارجـیـوں کے علـم غیب نبوی پر اعـتراض کا جواب

اعتراض : قرآن شریف میں ہے قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا الله آپ کہیے کہ آسمانوں میں اور زمینوں میں الله کے سوا کوئی (ازخود) غیب نہیں جانتا
یعنی نبی غیب نہیں جانتے تھے ؟

جواب : یہاں علم غیب ذاتی کل مراد ہے ۔ ہم نبی کے لئے اس طرح کا علم غیب نہیں مانتے ، رسول کے لئے ہم بعض علم غیب عطائی مانتے ہیں اور اس آیت میں الله ﷻ نے یہ نہیں کہا کہ وہ کسی کو سکھاتا بھی نہیں اور اہل سنت کو عالم الغیب نہیں کہتے بلکہ عالم غیب کہتے ہیں ۔ ورنہ ان آیات کا مطلب بتاؤ : ⬇

عٰلم الغیب فلا یظھر علٰی غیبه احدًا الامن ارتضٰی من رسولٍ ۔
غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (القرآن الکریم ، 24/72)
ہم نبی کو عالم غیب مانتے ہیں عالم الغیب نہیں، وہ بھی لامحدود نہیں ۔

وما ھوا علی الغیب بضنین ۔ (التکویر، 24)
اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل (کنجوس) نہیں ۔

وَکَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَلِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ ۔ (الانعام 75)
اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور اس لیے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے ۔

اگر تم کہو کہ صرف بعض علم غیب بتایا گیا سکھایا نہیں گیا تو اس آیت کا مطلب کیا ہے وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما ۔
اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے ۔ (سورۃ النساء، 113)

اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : من الحکام والغیب، یعنی احکام اور غیب اگر تم کہو یہاں علم سے تمام علوم حتی کے علم غیب مراد نہیں تو اس سے اس بات کی قطعی دلیل مانگو جو کہ آیت قطعی اور حدیث متواترہ ہے ۔

ہم اہل سنت و جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے مکمل قرآن نازل ہونے کے بعد سے بعض علم غیب مانتے ہیں جو ما کان ما یکون سے بھی زیادہ ہے کیونکہ قرآن میں ما کان ما یکون کا سارا علم ہے ۔

قرآن میں ما کان ما یکون کا علم مخفی ہے

وَمَا مِنۡ غَآئِبَةٍ فِی السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ  ۔ ﴿النمل ۷۵﴾
اور جتنے غیب ہیں آسمانوں اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں ۔

ونزلنا علیك الکتٰب تبیاناً لکل شیئ وھدی ورحمۃ وبشرٰی للمسلمین ۔
اتاری ہم نے تم پر کتاب جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت و رحمت و بشارت ۔ (القرآن الکریم ۱۶ /۸۹)

مافرطنا فی الکتب من شیئ ۔
ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھا نہیں رکھی ۔
(القرآن الکریم ۶/ ۳۸)

ولاحبّة فی ظلمٰت الارض ولارطب ولا یابس الا فی کتٰب مبین ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۵۹)
کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک مگر یہ کہ سب ایک روشن کتاب میں لکھا ہے ۔

مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡهِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡهِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔ ﴿یونس ۟۳۷﴾
اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنالے بے اللہ کے اتارے ہاں وہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے اس میں کچھ شک نہیں ہے پروردگار عالم کی طرف سے ہے ۔

اب آئیں تعلیم الہی پر جو الله عزوجل نے نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم پر تعلیم فرمائی ۔ الله تعالی نے خود اپنے حبیب کو قرآن سکھایا ۔ سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنۡسٰۤی ﴿العلی ۶﴾
اب ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم نہ بھولو گے ۔

وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما ۔
اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے ۔ (سورۃ النساء، 113)

اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾ عَلَّمَه الۡبَیَان ۔ ﴿الرحمن ۴﴾
الرحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا، انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا اور انہیں بیان سکھایا ۔

فرمایا نبی کریم صلی الله تعالی عليه وآله وسلم نے
تجلی کل شیئ وعرفت ۔
ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی ۔ (جامع سنن الترمذی حدیث نمبر ۳۲۴۶،چشتی)

رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دل پر وحی نازل کی جاتی تھی جس کا شمار حواس خمسہ میں نہیں ہوتا یعنی الله عزوجل کے سکھانے کے بعد بھی وہ علم غیب ہی ہوتا ہے کیونکہ غیب تو وہ ہے جو حواس کے بغیر معلوم کیا جائے ۔

قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰی قَلۡبِكَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡهِ وَ ہُدًی وَّبُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔ ﴿البقرہ ۹۷﴾
اے محبوب! تم فرمادو :جو کوئی جبرئیل کا دشمن ہو (تو ہو) پس بیشک اس نے تو تمہارے دل پر الله کے حکم سے یہ اتارا ہے، جو اپنے سے پہلے موجود کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہے اور ایمان والوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے ۔

وَاِنَّه لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۹۲﴾ نَزَلَ بِه الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ عَلٰی قَلۡبِكَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ ۔ ﴿الشعراء ۱۹۴﴾
اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے، اسے روح الامین لے کر اترا تمہارے دل پر کہ تم ڈر سناؤ ۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول قلب مصطفی پر ہوتا تھا اور یہ افعال خمسہ میں سے نہیں لہذا اس ذریعے سے جو علم حاصل ہوگا اسے علم غیب ہی کہا جائے گا ۔

نوٹ : ہر صحیح حدیث سے عقائد اخذ نہیں کئے جاتے بلکہ احادیث متواترہ اور قطعی آیات سے اخذ کیے جاتے ہیں (آخر میں مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں :

اگر کوئی بدمذہب علم غیب نبوی پر اعتراض کرے اور دلیل پیش کرے تو اس سے پوچھو

ا …… کیا یہ آیت نص قطعی ہے ؟

ب …… کیا یہ حدیث متواترہ ہے؟ کیونکہ ہر حدیث سے عقیدہ نہیں بنایا جاتا. اس حدیث میں آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تواضع اور انکساری تو نہیں ۔

ج …… کیا یہ روایت نزول قرآن مکمل ہونے کے بعد کی ہے؟ کیونکہ ہم اہل سنت و جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے مکمل قرآن نازل ہونے کے بعد سے بعض علم غیب مانتے ہیں جو ما کان ما یکون سے بھی زیادہ ہے کیونکہ قرآن میں ما کان ما یکون کا سارا علم ہے. ونزلنا علیک الکتٰب تبیاناً لکل شیئ وھدی ورحمة وبشرٰی للمسلمین اتاری ہم نے تم پر کتاب جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت و رحمت و بشارت ۔ (القرآن الکریم ۱۶ /۸۹) مافرطنا فی الکتب من شیئ ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھا نہیں رکھی ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۳۸)

د ….. اگر وہ آنا کانی کرے کہے کتاب سے مراد قرآن نہیں "کل” سے مراد ضروری احکام ہے بس تو اس سے کہو قطعی دلیل دے قرآن یا حدیث متواترہ سے. عقائد میں علماء اور خودساختہ کے اقوال معتبر نہیں ہوتے ۔

و ……. اگر وہ قرآنی آیت پیش کرے تو اس سے کہو یہاں علم ذاتی اور کل مراد ہے؟ ہم نبی کے لئے ایسا علم نہیں مانتے اور اگر نہ مانے تو ان آیتوں کے مطلب پوچھیں *عٰلم الغیب فلا یظھر علٰی غیبه احدًا الامن ارتضٰی من رسولٍ* غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (القرآن الکریم ، 24/72) ہم نبی کو عالم غیب مانتے ہیں عالم الغیب نہیں، وہ بھی لامحدود نہیں ۔

ھ …….. اگر وہ کہے صرف بعض علم غیب بتایا گیا سکھایا نہیں گیا تو اس سے پوچھیں اس آیت کا مطلب کیا ہے *وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما* اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے ۔ (سورۃ النساء، 113) اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : من الحکام والغیب، یعنی احکام اور غیب …. اگر وہ کہے یہاں علم سے تمام علوم حتی کے علم غیب مراد نہیں تو اس سے اس بات کی قطعی دلیل مانگو جو کہ آیت قطعی اور حدیث متواترہ ہے ۔

ز …….. اگر وہ کہے تم کہے تم اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہو تو کہو کیا الله اگر بعض علم قرآن کے ذریعے سکھا دے تو کس بنیاد پر شرک ہوگا … اور لوح محفوظ میں غیب کی باتیں لکھی ہیں اسے تم الله کا شریک سمجھتے ہو ؟ ولا حبّة فی ظلمٰت الارض ولارطب ولایا بس الا فی کتٰب مبین کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک مگر یہ کہ سب ایک روشن کتاب میں لکھا ہے ۔ (القرآن الکریم ۶/ ۵۹) …… شرک ہونے کی دلیل دو کیونکہ شرک قطعی دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے ظنی دلائل سے نہیں ۔

ح …….. اگر وہ کہے کہ یہ تمہارا پیدا کیا ہوا عقیدہ ہے جو یوں جواب دیجئے : ⬇

وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما ۔
اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی الله کا آپ پر بڑا فضل ہے ۔ (سورۃ النساء، 113)
اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
من الحکام والغیب ، یعنی احکام اور غیب ۔

ابن حجر قسطلانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں : قد اشتھر وانتشر امرہ صلی الله تعالی علیه وسلم بین اصحابه بالاطلاع علی الغیوب
بے شک صحابہ کرام میں مشہور و معروف تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غیبوں کا علم ہے ۔ (المواہب اللدنیة ،المقصد الثامن، الفصل الثالث، ۳ /۵۵۴،چشتی)
النبوأۃ ماخوذۃ من النباء وھو الخبر ای ان ﷲ تعالٰی اطلعه علٰی غیبه ۔
حضور کو نبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ﷲ تعالٰی نے حضور کو اپنے غیب کا علم دیا ۔ (المواہب اللدنیہ ،المقصد الثانی، ۲ /۴۵ و ۴۶)

قاضی عیاض رحمة الله علیه فرماتے ہیں : (ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعه صلی الله تعالی علیہ وسلم علی الغیب ( المعلومة علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا او التردد فیہا لا حدٍ من العقلاء ( لکثرۃ رواتھا واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذا لا ینافی الاٰیات الدالة علی انه لایعلم الغیب الا ﷲ وقوله ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمه من غیر واسطة وامّا اطلاعه صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم علیہ با علام ﷲ تعالٰی له فامر متحقق بقوله تعالٰی فلا یظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول ۔
رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت خیر جمع کرلیتا ، اس لیے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر خدا کے بتائے ہو اور ﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے، کہ ﷲ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسول کے ۔ (نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض، ومن ذٰلک ما اطلع علیه من الغیوب ۳ /۱۵۰،چشتی)

امام زرقانی رحمة الله علیه فرماتے ہیں : اصحابه صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جازمون ليش علی الغیب ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غیب کا علم ہے ۔ (شرح الزرقانی، علی المواہب الدنیة، الفصل الثالث، ۷ /۲۰۰)

امام ابن حجر مکی رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں : انه تعالی اختص به لکن من حیث الاحاطة فلا ینافی ذلک اطلاع الله تعالی لبعض خواصه علی کثیر من المغیبات حتی من الخمس التی قال صلی الله تعالى علیه وسلم فیھن خمس لا یعلمھن الا الله ۔
غیب ﷲ کے لیے خاص ہے مگر بمعنی احاطہ تو اس کے منافی نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے اپنے بعض خاصوں کو بہت سے غیبوں کا علم دیا یہاں تک کہ ان پانچ میں سے جن کو نبی صلی الله تعالی علیه وسلم نے فرمایا کہ ان کو ﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے ۔ (افضل القراء القراء ام القرٰی، تحت شعرلک ذات العلوم ۴۴ ۔ ۱۴۳)

ابوعبدالله شیرازی رحمة الله علیه فرماتے ہیں : مولٰنا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ شریف میں کتاب عقائد تالیف حضرت شیخ ابوعبدﷲ شیرازی سے نقل فرماتے ہیں : نعتقدان العبدینقل فی الاحوال حتی یصیر الی نعت الروحانية فیعلم الغیب ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ بندہ ترقیِ مقامات پا کر صفتِ روحانی تک پہنچتا ہے اس وقت اسے علمِ غیب حاصل ہوتا ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان الفصل الاول، تحت حدیث ۲، ۱ /۱۲۸)

ملا علی قاری رحمة الله علیه فرماتے ہیں : علمه صلی الله تعالی علیه وسلم حاو لفنون العلم (الٰی ان قال) ومنہا علمه بالامور الغیبیة ۔
رسول الله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کا علم اقسام علم کو حاوی ہے غیبوں کا علم بھی علمِ حضور کی شاخوں سے ایک شاخ ہے ۔ (الزبدۃ العمدۃ صفحہ ۵۷)

علامہ شامی رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں : الخواص یجوزان ان یعلموا الغیب فی قضیة اوقضایا کما وقع لکثیر منھم و اشتھر ۔
جائز ہے کہ اولیاء کو کسی واقعے یا وقائع میں علم غیب ملے جیسا کہ ان میں بہت کے لیے واقع ہو کر مشتہر ہوا ۔ (الاعلام بقواطع الاسلام صفحہ نمبر ۳۵۹،چشتی)

امام ابن جریر طبری رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں : قال انّک لن تستطیع معی صبرا، وکان رجلا یعلم علم الغیب قد علم ذٰلک ۔
حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے موسٰی علیہ السلام سے کہا : آپ میرے ساتھ نہ ٹھہر سکیں گے۔ خضر علمِ غیب جانتے تھے انہیں علم غیب دیا گیا تھا ۔ (جامع البیان، تحت آیة ۱۸/ ۶۷، ۱۵ /۳۲۳)

امام بوصیری رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں :
فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا و آخرت دونوں حضور کی بخشش سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کا علم، حضور کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے۔(مجموع المتون متن قصیدۃ البردۃ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر ص ۱۰،چشتی)

امام نیشاپوری رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں : ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون ۔
یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے، ورنہ حضور تو خود فرماتے ہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ۔ (غرائب القرآن، تحت آلایة ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)

تفسیر انموذج جلیل میں ہے : معناہ لایعلم الغیب بلادلیل الا ﷲ اوبلا تعلیم الا ﷲ اوجمیع الغیب الاﷲ ۔
آیت کے یہ معنی ہیں کہ غیب کو بلادلیل و بلا تعلیم جاننا یا جمیع غیب کو محیط ہونا یہ ﷲ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے ۔

تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان میں ہے :
لم ینف الاالدرایۃ من قبل نفسہ وما نفی الدرایۃ من جھۃ الوحی ۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی ذات سے جاننے کی نفی فرمائی ہے خدا کے بتائے سے جاننے کی نفی نہیں فرمائی۔ (غرائب القرآن ۔ (تفسیر النیساپوری تحت آیۃ ۴۶ /۹ ، ۸ /۲۶ )

تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے : وعندہ مفاتیح الغیب وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لایعلمھا کما ھی ابتداءً الاّ ھو ۔
یہ جو آیت میں فرمایا کہ غیب کی کنجیاں ﷲ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداء ً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی ۔ (عنایۃ القاضی علٰی تفسیر البیضاوی ،تحت آیتہ ۶ /۵۸، ۴ /۷۳)

تفسیر علامہ نیشاپوری میں ہے : (قل لا اقول لکم) لم یقل لیس عندی خزائن ﷲ لیعلم ان خزائن ﷲ وھی العلم بحقائق الاشیاء وما ھیاتھا عندہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم باستجابۃ دعاء ہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی قولہ ارنا الا شیاء کما ھی ولکنہ یکلم الناس علٰی قدر عقولھم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمت ماکان وما سیکون ۔
یعنی ارشاد ہوا کہ اے نبی ! فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے خزانے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس ہیں مگر حضور لوگوں سے ان کی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں، اور وہ خزانے کیا ہیں ، تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے قبول فرمائی پھر فرمایا : میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے ، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تو خود فرماتےہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ۔ (غرائب القرآن تحت آلایۃ ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲،چشتی)

ذکرناہ فی الاٰیۃ صرح بہ النووی رحمۃ ﷲ تعالٰی فی فتاواہ فقال معناھا لایعلم ذٰلک استقلا لاً وعلم احاطۃ بکل المعلومات الاّ ﷲ تعالی ۔
یعنی ہم نے جو آیاتِ کی تفسیر کی امام نووی رحمۃ ﷲ تعالٰی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح کی، فرماتے ہیں آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ غیب کا ایسا علم صرف خدا کو ہے جو بذاتِ خود ہو اور جمیع معلومات کو محیط ہو ۔ (فتاوٰی حدیثیہ ابن حجر مکی ،مطلب فی حکم مااذا.. الخ، ص ۲۲۸)

تفسیر کبیر میں ہے : قولہ ولا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات ۔
یعنی آیت میں جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ارشاد ہوا تم فرمادو میں غیب نہیں جانتا، اس کے یہ معنی ہیں کہ میرا علم جمیع معلومات الہٰیہ کو حاوی نہیں ۔ (مفاتح الغیب)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں حدیث کے نیچے فرماتے ہیں :
پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں ۔
چنانچہ میں (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی ۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ ۱ /۳۳۳)

ابن حجر قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ولا شک ان ﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین ۔
اور کچھ شک نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القاء کیا ۔ (المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ وسلم من الغیب ۳ /۵۶۰)

علم غیب ذاتی صرف الله کو ہے

ذکرناہ فی الاٰیۃ صرح بہ النووی رحمۃ ﷲ تعالٰی فی فتاواہ فقال معناھا لایعلم ذٰلک استقلا لاً وعلم احاطۃ بکل المعلومات الاّ ﷲ تعالی ۔
یعنی ہم نے جو آیاتِ کی تفسیر کی امام نووی رحمۃ ﷲ علیہ نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح کی، فرماتے ہیں آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ غیب کا ایسا علم صرف خدا کو ہے جو بذاتِ خود ہو اور جمیع معلومات کو محیط ہو ۔ (فتاوٰی حدیثیہ ابن حجر مکی ،مطلب فی حکم مااذا.. الخ، ص ۲۲۸،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم غیب الله عزوجل کے علم کے برابر نہیں

تفسیر کبیر میں ہے : قولہ ولا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات ۔
یعنی آیت میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ارشاد ہوا تم فرمادو میں غیب نہیں جانتا، اس کے یہ معنی ہیں کہ میرا علم جمیع معلومات الہٰیہ کو حاوی نہیں ۔ (مفاتح الغیب)

ہمارا عقیدہ ہے کہ الله *عالم الغیب* ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم *عالم غیب* ہیں. نبی کو عالم غیب کہہ سکتے ہیں عالم الغیب کہنا منع ہے ۔ (حبیب الفتاوی)

علم ما کان و مایکون نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حاصل ہے

حدیث صحیح جامع ترمذی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : تجلّٰی کل شیئ وعرفتُ ۔
ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی ۔ (جامع سنن الترمذی ، کتاب التفسیر من سورۃ ص، حدیث ۳۲۴۶، ۵ /۱۶۰)

فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا و آخرت دونوں حضور کی بخشش سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کا علم، حضور کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے۔(مجموع المتون متن قصیدۃ البردۃ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر ص ۱۰)

امام ابن حجر مکی اس کی شرح میں فرماتے ہیں : لان ﷲ تعالٰی اطلعه علی العالم فعلم علم الاولین والاخرین ماکان ومایکون ۔
اس لیے کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام عالم پر اطلاع دی، تو سب اولین وآخرین کا علم حضور کو ملا جو ہو گزرا اور جو ہونے والا ہے سب جان لیا ۔ (افضل القرا لقراء ام القرٰی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سب کچھ بتا دیا

صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے :
ایک دن رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ فرمایا، بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا ۔ *فاخبرنا بما ھو کائن الی یوم القیمۃ فاعلمنا احفظه* اس میں *سب کچھ* ہم سے بیان فرمادیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن، ۲ /۳۹۰)
حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم *سب کچھ* جانتے ہیں جو اللہ نے انہیں سکھایا اور نبی نے سب کچھ بیان فرمادیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چھپی ہوئی چیزوں کو جانتے ہیں

جامع ترمذی شریف وغیرہ کتب کثیرئہ آئمہ حدیث میں دس صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سےروایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : فرأیتہ عزّوجل وضع کفّہ بین کتفّی فوجدت برد انا ملہ بین ثدّی فتجلّٰی لی کل شیئ وعرفت ۔
ترجمہ : میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے اپنا دستِ قدرت میری پشت پر رکھا کہ میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا ۔ (سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۴۶ ۵ /۱۶۰)
امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ھذا حدیث حسن سألت محمد بن اسمٰعیل عن ھذا الحدیث فقال صحیح ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ، میں نے امام بخاری سے اس کا حال پوچھا، فرمایا صحیح ہے۔(سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۴۶ ۵ /۱۶۱،چشتی)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں : پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں ۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی ۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ ۱ /۳۳۳)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہر چیز کی خبر دے دی یہاں تک کہ ہر پرندے کے بھی

امام احمد مسند اور ابن سعد طبقات اور طبرانی معجم میں بسند صحیح حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابویعلٰی وابن منیع و طبرانی حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی : لقد ترکنارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وما یحّرک طائر جناحیہ فی السمّاء الّا ذکر لنا منہ علما ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں اس حال پر چھوڑا کہ ہوا میں کوئی پرندہ پَر مارنے والا ایسا نہیں جس کا علم حضور نے ہمارے سامنے بیان نہ فرمادیا ہو ۔ (مسند احمد بن حنبل عن ابی ذر غفار ی رضی اللہ عنہ ۵/۱۵۳،چشتی)،(مجمع الزوائد عن ابی الدرداء کتاب علامات النبوۃ باب فیما اوقی من العلم، ۸ /۲۶۴)

نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض و شرح زرقانی للمواہب میں ہے : ھذا تمثیل لبیان کل شیئ تفصیلاً تارۃً واجمالاً اُخرٰی ۔
ترجمہ : یہ ایک مثال دی ہے اس کی کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہر چیز بیان فرمادی، کبھی تفصیلاً کبھی اجمالاً ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، فصل و من ذٰلک مااطلع الخ ۳ /۱۵۳)۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل الثالث ۷ /۲۰۶)

مواہب امام قسطلانی میں ہے : ولا شک ان ﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین ۔
اور کچھ شک نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القاء کیا، صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔ (المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم من الغیب ۳ /۵۶۰)

بد مذہبوں کا قرآنی آیات سے استدال غلط ہے

امام قاضی عیاض شفا شریف اور علامہ شہاب الدین خفا جی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : (ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علی الغیب (المعلومۃ علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا اوالتردد فیہا لا حدٍ من العقلاء (لکثرۃ رواتھا واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذالاینافی الاٰیات الدالۃ علی انہ لایعلم الغیب الا ﷲ وقولہ ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمہ من غیرواسطۃ وامّا اطلاعہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم علیہ با علام ﷲ تعالٰی لہ فامرمتحقق بقولہ تعالٰی فلایظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول ۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت خیر جمع کرلیتا ، اس لیے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر خدا کے بتائے ہو اور ﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے، کہ ﷲ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسول کے ۔ (نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض ومن ذٰلک ما اطلع علیہ من الغیوب ۳ /۱۵۰)

تفسیر نیشا پوری میں ہے : لا اعلم الغیب فیہ دلالۃ علی ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الّا ﷲ ۔
آیت کے یہ معنی ہیں کہ علم غیب جو بذاتِ خود ہو وہ خدا کے ساتھ خاص ہے ۔ (غرائب القرآن تحت آیۃ ۶ /۵۰، ۶ /۱۱۰)

تفسیر انموذج جلیل میں ہے : معناہ لایعلم الغیب بلادلیل الا ﷲ اوبلا تعلیم الا ﷲ اوجمیع الغیب الاﷲ ۔
آیت کے یہ معنی ہیں کہ غیب کو بلادلیل و بلا تعلیم جاننا یا جمیع غیب کو محیط ہونا یہ ﷲ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے ۔

تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان میں ہے :
لم ینف الاالدرایۃ من قبل نفسہ وما نفی الدرایۃ من جھۃ الوحی ۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی ذات سے جاننے کی نفی فرمائی ہے خدا کے بتائے سے جاننے کی نفی نہیں فرمائی ۔ (غرائب القرآن تفسیر النیساپوری تحت آیۃ ۴۶ /۹ ، ۸ /۲۶)

تفسیر جمل شرح جلالین و تفسیر خازن میں ہے : المعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی ﷲ تعالٰی علیہ ۔
آیت میں جو ارشاد ہوا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ میں بے خدا کے بتائے نہیں جانتا ۔ (لباب التاویل (تفسیر الخازن) تحت الآیۃ ۷ /۱۸۸ ، ۲ /۲۸۰ والفتوحات (تفسیرالجمل) ۳ /۱۵۸)

تفسیر البیضاوی میں ہے : لااعلم الغیب مالم یوح الی ولم ینصب علیہ دلیل ۔
آیت کے یہ معنی ہیں کہ جب تک کوئی وحی یا کوئی دلیل قائم نہ ہو مجھے بذاتِ خود غیب کا علم نہیں ہوتا۔( انوارالتنزیل (تفسیر البیضاوی تحت آیۃ ۶ /۵۰ ۲ /۴۱۰)

تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے : وعندہ مفاتیح الغیب وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لایعلمھا کما ھی ابتداءً الاّ ھو ۔
یہ جو آیت میں فرمایا کہ غیب کی کنجیاں ﷲ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداءً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی۔ (عنایۃ القاضی علٰی تفسیر البیضاوی ،تحت آیتہ ۶ /۵۸، ۴ /۷۳)

تفسیر علامہ نیشاپوری میں ہے : (قل لا اقول لکم) لم یقل لیس عندی خزائن ﷲ لیعلم ان خزائن ﷲ وھی العلم بحقائق الاشیاء وما ھیاتھا عندہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم باستجابۃ دعاء ہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی قولہ ارنا الا شیاء کما ھی ولکنہ یکلم الناس علٰی قدر عقولھم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمت ماکان وما سیکون ۔
یعنی ارشاد ہوا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے خزانے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس ہیں مگر حضور لوگوں سے انکی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں، اور وہ خزانے کیا ہیں، تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم حضور نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے قبول فرمائی پھر فرمایا : میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے ، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تو خود فرماتےہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ۔ (غرائب القرآن تحت آلایۃ ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)۔(مزید حصّہ ہفتم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...