عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ ہفتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نفی میں پیش کی جانی والی آیات کا جواب : ⬇
(آیت نمبر 1) وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِۚۛ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوۡنَ ﴿سورہ اعراف آیت نمبر 188)
ترجمہ : اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔
وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ : اور اگر میں غیب جان لیا کرتا ۔ اس آیتِ مبارکہ میں علمِ غیب کی نفی کی علماء ِکرام نے مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں ، ان میں سے چار توجیہات درج ذیل ہیں جنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علوم کے بیان پر مشتمل اپنی لاجواب کتاب’’اِنْبَائُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُوْنَ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْئ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کا کلام قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں بیان فرمایا ہے ۔
(1) اس آیت میں علمِ عطائی کی نفی نہیں بلکہ علمِ ذاتی کی نفی ہے ۔ امام قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غُیوب پر مُطّلع فرمایا اور آئندہ ہونے والے واقعات سے با خبر کیا۔ اس باب میں احادیث کا وہ بحرِ ذَخّار ہے کہ کوئی اس کی گہرائی جان ہی نہیں سکتا اور نہ ا س کا پانی ختم ہوتا ہے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے معجزات میں سے یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو یقین اور وُثوق سے معلوم ہے اور ہم تک ا س کی خبریں مُتواتِر طریقے سے کثرت سے پہنچی ہیں اور غیب پر اطلاع ہونے پر اِن احادیث کے معانی و مطالب آپس میں متحد ہیں ۔ (شفاء شریف، فصل ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ص۳۳۵-۳۳۶، الجزء الاول)
(2) اس آیت سے بعض لوگ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کی نفی کرتےہیں ۔ یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ قرآن پڑھ کر لوگوں کا گمراہ ہونا ۔ قرآن سے ثابت ہے ۔ سورہ بقرہ،آیت نمبر26 يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦) اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے (ف۴۷) اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں-(ف ۴۸) (٢٦)
کسی نے بخاری شریف کے بارے میں کہا ہے۔
بغیر عشق کے جو پڑھتے ہیں بخاری
آتا ہے بخار ان کو آتی نہیں بخاری
اعظم چشتی علیہ الرحمہ نے کہا تھا۔
محبوبان اتے نقطی چینی کرنا کم نہیں عاشقاں دا
جتھے دل لگ جاوے اعظم اوتھےعیب نظر نہیںآؤندا
علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’یہ وضاحت ا ن قرآنی آیات کے منافی نہیں جن میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور اس آیتِ کریمہ’’ وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ‘‘ میں کسی واسطے کے بغیر (یعنی علمِ ذاتی) کی نفی کی گئی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکا غیب پر مطلع ہونا ثابت ہے اور ا س کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ۔ عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہ اَحَدًا ۔ ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ‘‘ (سورۂ جن۲۶،۲۷) ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (نسیم الریاض، القسم الاول فی تعظیم العلی الاعظم۔۔۔ الخ، فصل فیما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ۴/۱۴۹)
یہ کلام ادب و تواضع کے طور پر ہے
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اس بات کا احتمال ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے یہ کلام تواضع اور ادب کے طور پر فرمایا ہو اور مطلب یہ ہے کہ میں غیب نہیں جانتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس کی مجھے اطلاع دی اور جو میرے لئے مقرر فرمایا میں صرف اسی کو جانتا ہوں ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷ )
اس آیت میں فی الحال غیب جاننے کی نفی ہے مستقبل میں نہ جاننے پر دلیل نہیں ہے ۔ علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے غیب پر مطلع ہونے سے پہلے یہ کلام فرمایا، پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو علمِ غیب کی اطلاع دی تو حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا س کی خبر دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ‘‘ (سورۂ جن۲۶،۲۷) ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷،چشتی)
یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا، پھر ا س کے بعد اللہ تعالیٰ نے غیبی اَشیاء کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَپر ظاہر کیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی خبر دی تاکہ یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا معجزہ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت صحیح ہونے پر دلیل بن جائے ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷)
لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ:تومیں بہت سی بھلائی جمع کرلیتا ۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت ،امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بھلائی جمع کرنا اور برائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہوسکتا ہے جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی رکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہوکیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے اس کے تمام صفات ذاتی ،تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کرلیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا ۔ بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے تنگی و تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کرلینا ہو اور برائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا تو حاصلِ کلام یہ ہوگا کہ اگر میں نفع و ضَرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین وکافرین ! تمہیں سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی ۔ (تفسیر خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ص۳۳۰،چشتی)
(آیت نمبر 2) قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْؕ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ وَ مَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ (سورہ احقاف آیت نمبر 9)
ترجمہ : تم فرماؤ میں کوئی انوکھا رسول نہیں اور میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے اور میں نہیں مگر صاف ڈر سنانے والا ۔
قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ : تم فرماؤ : میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پرنت نئے اعتراضات کرنا کفارِ مکہ کا معمول تھا ، چنانچہ کبھی وہ کہتے کہ کوئی بشرکیسے رسول ہوسکتاہے؟ رسول توکسی فرشتے کوہوناچاہیے ،کبھی کہتے کہ آپ توہماری طرح کھاتے پیتے ہیں ،ہماری طرح بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں ،آپ کیسے رسول ہوسکتے ہیں ؟کبھی کہتے: آپ کے پاس نہ مال ودولت ہے اورنہ ہی کوئی اثر ورسوخ ہے ۔ ان سب باتوں کاجواب اس آیتِ مبارکہ میں دیا گیا کہ اے پیارے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، آپ ان سے فرما دیں :میں کوئی انوکھارسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی رسول آچکے ہیں ، وہ بھی انسان ہی تھے اوروہ بھی کھاتے پیتے تھے اور یہ چیزیں جس طرح ان کی نبوت پر اعتراض کا باعث نہ تھیں اسی طرح میری نبوت پر بھی اعتراض کا باعث نہیں ہیں تو تم ایسے فضول شُبہات کی وجہ سے کیوں نبوت کا انکار کرتے ہو ؟
دوسری تفسیر یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کفارِ مکہ عجیب معجزات دکھانے اور عناد کی وجہ سے غیب کی خبریں دینے کا مطالبہ کیا کرتے تھے ۔اس پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا کہ آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں کہ میں انسانوں کی طرف پہلا رسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول تشریف لاچکے ہیں اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی وحدانیّت اور عبادت کی طرف بلاتے تھے اور میں اس کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بلانے والا نہیں ہوں بلکہ میں بھی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے اور سچے دل کے ساتھ اس کی عبادت کرنے کی طرف بلاتا ہوں اور مجھے اَخلاقی اچھائیوں کو پورا کرنے کے لئے بھیجاگیا ہے اور میں بھی اس چیز پر (ذاتی)قدرت نہیں رکھتا جس پر مجھ سے پہلے رسول (ذاتی) قدرت نہیں رکھتے تھے، تو پھر میں تمہیں تمہارا مطلوبہ ہر معجزہ کس طرح دکھا سکتا ہوں اور تمہاری پوچھی گئی ہر غیب کی خبر کس طرح دے سکتا ہوں کیونکہ مجھ سے پہلے رسول وہی معجزات دکھایا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے تھے اور اپنی قوم کو وہی خبریں دیا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی تھیں اور جب میں نے پچھلے رسولوں سے کوئی انوکھا طریقہ اختیار نہیں کیا تو پھر تم میری نبوت کا انکار کیوں کرتے ہو ؟ ( تفسیرکبیر ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : ۹، ۱۰/۹ ، خازن ، الاحقاف ، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸/۴۶۷،چشتی)
وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ : اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا؟} آیت کے اس حصے کے بارے میں مفسرین نے جو کلام فرمایا ہے ا س میں سے چار چیزیں یہاں درج کی جاتی ہیں :
یہ آیت منسوخ ہے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں دو صورتیں ہیں ،پہلی صورت یہ کہ اگر اس آیت کے یہ معنی ہوں ’’ قیامت میں جو میرے اور تمہارے ساتھ کیا جائے گا وہ مجھے معلوم نہیں ۔‘‘تو یہ آیت سورہِ فتح کی آیت نمبر 2 اور 5 سے منسوخ ہے ،جیسا کہ حضرت عکرمہ اور حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں : اسے سورہِ فتح کی اس آیت ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ(۱) لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ۔۔۔الایۃ ‘‘ نے منسوخ کر دیا ہے۔(تفسیر طبری، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۱۱/۲۷۶)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :آیت کریمہ ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ اور ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ۔۔۔الایۃ ‘‘ نازل فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بتا دیا کہ وہ آپ کے ساتھ اور ایمان والوں کے ساتھ (آخرت میں ) کیا معاملہ فرمائے گا۔( در منثور، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۷/۴۳۵)
اس کی تفصیل اس حدیثِ پاک میں ہے ،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حُدَیْبِیَہ سے واپسی کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی : لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ۔ (فتح:۲)
ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارےاگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے ۔
توحضورِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے زمین پر موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔پھر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سامنے اسی آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو مبارک ہو،اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے تو بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرے گا،اب (یہ معلوم نہیں کہ) ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا،تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ۔
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ ۔ (فتح:۵)
بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اور تاکہ اللہ ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵/۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عُزّیٰ کی قسم! اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارا اور محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کا یکساں حال ہے ، انہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت نہیں ، اگر یہ قرآن ان کا اپنا بنایا ہوا نہ ہوتا تو ان کو بھیجنے والا انہیں ضرور خبر دیتا کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرے گا ۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’ لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ (فتح:۲) ۔ ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارےاگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضور کو مبارک ہو، آپ کو تو معلوم ہوگیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا ،اب یہ انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کیا کرے گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ(فتح:۵)
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔
اور یہ آیت نازل ہوئی : وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا‘‘(احزاب:۴۷) ترجمہ : اور ایمان والوں کو خوشخبری دیدو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے ۔
تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اور مومنین کے ساتھ کیا کرے گا۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳،چشتی)
دوسری صورت یہ ہے کہ آخرت کا حال تو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا بھی معلوم ہے ، مومنین کا بھی اورجھٹلانے والوں کا بھی ،اور اس آیت کے معنی یہ ہیں ’’ دنیا میں کیا کیا جائے گا، یہ معلوم نہیں ‘‘ اگر آیت کے یہ معنی لئے جائیں تو بھی یہ آیت منسوخ ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ بھی بتادیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ‘‘( توبہ:۳۳) ۔ ترجمہ : تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے ۔
اورارشاد فرمایا : وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘(انفال:۳۳)
ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذابدے جب تک اے حبیب! تم ان میں تشریف فرما ہو۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴/۱۲۳، خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴)
یہاں اس آیت کے منسوخ ہونے کے بارے میں جو تفصیل بیان کی اسے دوسرے انداز میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمانا ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ قرآنِ مجید کا نزول مکمل ہونے سے پہلے کی بات ہے ،ا س لئے یہاں فی الحال جاننے کی نفی ہے۔ آئندہ اس کا علم حاصل نہ ہونے کی نفی نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ آیت اسلام کے ابتدائی دور میں ،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مومنین اور کفارکا انجام بیان کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی، ورنہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ا س وقت تک دنیا سے تشریف نہ لے گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآنِ مجید میں اِجمالی اور تفصیلی طور پر وہ سب کچھ بتا دیا جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مومنین اور کفار کے ساتھ کیا جائے گا۔( صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۵/۱۹۳۳-۱۹۳۴،چشتی)
(2)…یہاں ذاتی طور پر جاننے کی نفی کی گئی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نفی دائمی اور اَبدی ہے، لیکن اس سے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے ہر چیز کے جاننے کی نفی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ علامہ نظام الدّین حسن بن محمد نیشا پوری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :آیت کے اس حصے میں اپنی ذات سے جاننے کی نفی ہے وحی کے ذریعے جاننے کی نفی نہیں ہے۔( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶/۱۱۸)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو حضور کے ساتھ اور حضور کی امت کے ساتھ پیش آنے والے اُمور پر مُطَّلع فرما دیا خواہ وہ دنیا کے ہوں یا آخرت کے اور اگر دِرایَت بَمعنی اِدراک بِالقیاس یعنی عقل سے جاننے کے معنی میں لیا جائے تو مضمون اور بھی زیادہ صاف ہے اور آیت کا اس کے بعد والا جملہ اس کا مُؤیِّد ہے۔(خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴،چشتی)
یہاں تفصیلی دِرایَت کی نفی ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مومنین پر فضل و ثواب کی خِلعَتُوں کی نوازش کرتا رہے گا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں پر ذلت و عذاب کے تازیانے اور کوڑے برساتا رہے گا اور یہ سب کے سب غیر مُتناہی ہیں یعنی ان کی کوئی انتہاء نہیں ، اور غیر مُتناہی کی تفصیلات کا اِحاطہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی کر سکتا ہے ۔
علامہ نیشا پوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں : تفصیلی دِرایَت حاصل نہیں ہے ۔ ( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶/۱۱۸ ،چشتی)
اورعلامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ـ:ممکن ہے کہ یہاں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ تفصیلی دِرایَت ہو،یعنی مجھے اِجمالی طور پر تو معلوم ہے لیکن میں تمام تفصیلات کے ساتھ یہ نہیں جانتا کہ دنیا اور آخرت میں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گاکیونکہ مجھے (ذاتی طور پر )غیب کا علم حاصل نہیں ۔
آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مُبَلِّغ(یعنی بندوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دینے والا )بنا کر بھیجا گیا ہے اور کسی کو ہدایت دے دینا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غیبوں کا ذاتی علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے جبکہ انبیا ء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا غیبی خبریں دینا وحی، اِلہام اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے واسطے سے ہے۔(روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸/۴۶۷-۴۶۸)
یہاں دِرایَت کی نفی ہے، علم کی نہیں ۔دِرایَت کا معنی قیاس کے ذریعے جاننا ہے یعنی خبر کی بجائے آدمی اپنی عقل سے جانتا ہواور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اُخروی اَحوال کو اپنے عقلی قیاس سے نہیں جانا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانا۔ یہ معنی اوپر دوسری تاویل میں خزائن العرفان کے حوالے سے ضمنی طور پربھی موجود ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ان کے ساتھ اور آپ کی امت کے ساتھ پیش آنے والے امُور پر مُطَّلع فرمادیا ہے خواہ وہ دنیا کے اُمور ہوں یا آخرت کے اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیب کا ذاتی علم نہیں رکھتے اور جوکچھ جانتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے جانتے ہیں ۔
نوٹ : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’اِنْبَاءُ الْحَی اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُونُ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْئ‘‘ (قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں اسی آیت کو ذکرکر کے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کی نفی پر بطورِ دلیل یہ آیت پیش کرنے والوں کا رد فرمایا اور اس آیت میں مذکور نفی ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ:میں نہیں جانتا‘‘ کے 10جوابات ارشاد فرمائے ہیں ،ان کی معلومات حاصل کرنے کے لئے مذکورہ بالا کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔
نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک سے یہ فرمان پیش کیا گیا ہے کہ ماادری مایفعل بی ولا بکم ، جس کا ترجمہ انہوں نے یہ کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے، اس کے ساتھ ہی بعد میں دی جانے والی حدیث کو کو بھی شامل کردیا جائے تو بہتر ہوگا ۔
حدیث نمبر 1 میں ہے کہ ایک صحابیہ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد یہ الفاظ کہے کہ میں گواہی دیتی ہوں اس بات کی کہ ضرور تحقیق اﷲ نے تیرا اکرام کیا ہے (بخاری) اس کے بعد نبی پاک ۖ نے فرمایا میں خدا کا نبی ہوں مگر درایت کی رو سے میں ایسا بیان جاری نہیں کرتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا، (مشکوٰة بحوالہ بخاری) ، آیت وحدیث ملا کر پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل کے حوالے سے کوئی یقینی بات روایت کی رو سے کرنی چاہئے ، درایت(عقل وقیاس) کی رو سے نہیں، لیکن بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ جیسے نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنا اور دوسروں کا انجام معاذ ﷲ معلوم نہیں، یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین نے یہ آیت سنی تو ہمارے دور کے کم فہموں والا مفہوم مراد لے بیٹھے اور خوشی سے پھولے نہ سمائے، پھر ﷲ تعالیٰ نے سورة فتح نازل فرمائی تو درایت سے پیدا ہونے والے ابہام کو توضیحی بیان سے دور فرمایا اور صحابہ کرام کو سورة فتح کے نزول سے بہت زیادہ خوشی ہوئی، جس میں سورة الاحقاف کی مذکورہ زیر بحث آیت میں بیان شدہ خبر کے ابہام کو توضیح سے بدل دیا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سورة الاحقاف کی مذکورہ آیت کو سورة فتح نے منسوخ کردیا، جو اخبار میں نسخ کے قائل ہیں وہ یہی کہتے ہیں، اور دوسرے یہ کہتے ہیں کہ خبر کے ابہام کو بعد میں آنے والی توضیح نے منسوخ کردیا۔
ایک تو یہ لوگ ہیں جو سورة الاحقاف کے نزول تک بھی نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنے اور اپنے صحابہ کے انجام سے بے خبر بتاتے ہیں اور دوسری طرف ہم محبت کے مارے ہیں جو کہتے ہیں کہ جس قلم نے ماکان ومایکون کا علم لکھا وہ نور محمدی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہے، اور آپ اُس وقت سے اپنے اور سب کے انجام سے واقف ہیں، تفصیل یہ ہے کہ ترمذی شریف میں حضرت عبادہ بن صامت رضی ﷲ عنہ کی حدیث ابواب القدر کے باب نمبر ١٧ میں موجود ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو تخلیق فرمایا ، اسے فرمایا لکھ، اس نے عرض کیا کیا لکھوں، حکم ہوا کہ اکتب القدر ما کان وماھو کائن الی الابد(حدیث نمبر ٢١٥٥) ، یعنی لکھ تقدیر کو جو کچھ ہوا اور جوکچھ ابد تک ہونے ولا ہے۔ (مشکوٰة، ص٢١)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اوّل الخلق کاتب تقدیر ذی شعور قلم ہے کون سا ؟ اس کا جواب بخاری ، کتاب القدر، حدیث نمبر٦٦٠٩، بخاری کتاب الایمان والنذور، حدیث نمبر ٦٦٩٤، ابودائود، کتاب الایمان، حدیث نمبر٣٢٨٨ میں آچکا ، حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ''لا یاتی ابن أدم النذر بشی لم أکن قدرتہ '' کہ ابن آدم کو نذر (منت) سے وہ چیز نہیں ملتی جو میں (نبی پاک ۖ) نے اُس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ تقدیر لکھنے والے نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہیں اور قلم لا لفظ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے بطور استعارہ آیا ہے، عجب نہیں کہ ن والقلم (سورة قلم، آیت ١) میں نور محمدی بشکلِ قلم مراد ہو، ورنہ قلموں کی کیا مجال کہ وہ ماکان وما یکون جان سکیںلکھنا تو دُور کی بات ہے، (سورة لقمان، آیت ٢٧)، بعض عارفین نے کہا کہ اوّل الخلق نبی پاک ۖ ہیں، اوّل الخلق کے طور پر حدیثوں میں آنے والے سب نام آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے استعارةً استعمال ہوئے ہیں۔(سر الاسرار، ص١٢، ١٤ ۔ مرصاد العباد، ص٣٠۔ تاریخ الخمیس،ج ١، ص١٩)
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
ماکان ومایکون کا علم تو نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اُس وقت بھی حاصل تھا، البتہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا علم مبارک تکمیلِ نزولِ قرآن تک ہر لمحہ ﷲ تعالیٰ بڑھاتا رہا، اور ہر لمحہ کا علم پچھلے لمحہ کی نسبت تفصیل بنتا چلا گیا اور ماضی والا علم اُس کی روشنی میں اجمالی نظر آیا، تاہم باقی تمام مخلوقات کے تفصیلی علوم کے مجموعے سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا اجمالی علم جو لوح نے قلم سے محفوظ کیا وہ زائد ہے، امیر مینائی نے کیا خوب کہا !
حضرت کا علم علمِ لدنی تھا اے امیر
دیتے تھے قدسیوں کو سبق بے پڑھے ہوئے
تعلیم جبرائیلِ امیں تھی برائے نام
حضرت وہیں سے آئے تھے لکھے پڑھے ہوئے
اس کلام کی روشنی میں قصیدہ بردہ کا وہ مصرعہ سمجھنا مشکل نہ رہا کہ'' ومن علومک علم اللوح والقلم '' ، لوح وقلم کا علم تو آپ کے علوم میں سے صرف ایک علم ہے، یہ محض عقیدت نہیں حدیثوں کو ملا کر دیکھنے سے ثابت ہے، یہ قرآن کے عجائب وغرائب ہیں جنہیں قیامت تک ظاہر ہوتے رہنا ہے، حاصل یہ ہوا کہ حضور ۖ کا یہ علم درایة پر مبنی نہیں ، قیاس کے گھوڑے دوڑا کر حاصل نہیں کیا گیا ، یہ قطعی یقینی تعلیم الٰہی پر مبنی ہے۔
حدیث نمبر ١۔ رسول ﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ گو میں خدا کا نبی ہوں مگر مجھے یہ'' معلوم نہیں '' کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے ۔ اس کی وضاحت اوپر پیش کی جاچکی ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا، کے حوالے سے میرا علم ظن وتخمین اور درایت وقیاس پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں میرا علم قطعی اور وحی الٰہی پر مبنی ہے۔
حدیث نمبر 2 ۔ ربیع بنت معوذ کا بیان ہے کہ چند بچیاں کچھ شعر پڑھ رہی تھیں ان میں سے کسی نے کہا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ(ہم میں ایک ایسا نبی ہے جو آنے والی کل کی بات جانتا ہے) ، آپ نے فرمایا ایسا مت کہو جو شعر پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھتی رہو۔ (بخاری)
بچیوں نے شادی کی تقریب میں شہداء کا مرثیہ پڑھتے پڑھتے نبی پاک ۖ کو دیکھ کر اچانک موضوع بدلا اور نعتیہ کلام شروع کردیا، جس میں کہا گیا تھا وفینا نبی یعلم مافی غدٍ ، ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات سے باخبر ہے، یہ مصرعہ کسی صحابی کی کہی گئی نعت کا ہی ہوسکتا ہے جو بچیوں تک کو یاد تھی، بچیوں نے منقبت صحابہ کو چھوڑ کر نبی پاک ۖ کی نعت شروع کی تو آپ ۖ نے اُنہیں منقبت صحابہ جاری رکھنے کا حکم دیا اور کسر نفسی اور تواضع سے کام لیا، اگریہ جملہ شرکیہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اُن بچیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور توبہ کی تلقین فرماتے، آپ نے صرف اتنا فرمایا اسے رہنے دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں، بلکہ اس مصرعہ سے ملتا جلتا مصرعہ حضرت مالک بن عوف رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا تو نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اُس کو مصرعہ چھوڑنے کی بجائے انعام سے نوازا، مصرعہ یہ ہے ومتیٰ تشاء یخبرک عما فی غدٍ اور جب تو چاہے تو وہ تجھے بھی اس بات سے باخبر کردیں کہ کل کیا ہونے والا ہے(الاصابہ ، ابن حجر عسقلانی، ج٥، ص٥٥١) ۔
کے حوالے سے منقول ہے کہ جو شخص تمہیں کہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ یہ پانچ غیب جانتے تھے تو وہ شخص بڑا جھوٹا ہے(بخاری شریف) ۔
اُم المومنین سے دوسری جگہ یہ الفاظ یوں منقول ہیں کہ جو شخص کہتا ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کل کیا ہوگا سے باخبر ہیں، اُس نے جھوٹ بولا انہ یعلم ماغدٍ (بخاری ، کتاب التفسیر سورة النجم، حدیث ٤٨٥٥) ۔
تیسری جگہ الفاظ یوں ہیں انہ یعلم الغیب یعنی جو کہتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیب کا علم رکھتے ہیں تو وہ کذب کا مرتکب ہے۔اب روایتیں ملا کر دیکھیں تو پورا مفہوم یہ ہوا کہ جو شخص کہتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کل کی بات کا علم ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سورة لقمان کے آخر والے پانچوں غیب جانتے ہیں اور آپ ۖ کو غیب کا علم حاصل ہے تو وہ کذب کا مرتکب ہوتا ہے، اُم المومنین رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے دو باتیں اور بھی اپنے اس فتوے میں ارشاد فرمائی ہیں ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر سورة النجم،حدیث نمبر٣٢٧٨ ) سے پتہ چلتا ہے کہ اُم المومنین حضرت عبدﷲ ابن عباس اور بنو ہاشم (رضی اللہ عنہم) کی طرف اشارہ فرمارہی ہیں کہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے رب کو دیکھا، اُم المومنین اُن کا ردّ کرتے ہوئے فرمارہی ہیں کہ جو تجھے کہے کہ (1) حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے رب کو دیکھا ، (2) یا حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسرار مخفی رکھے، (3) یا حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غیوب کا علم حاصل ہے تو وہ جھوٹ کا مرتکب ہے، یہ واضح بات ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اِن فضائل کا قائل اُس دَور کا کوئی کافر ومشرک تو نہیں تھا ، وہ جو بھی تھا مسلمانوں میں سے تھا ، اور اُم المومنین اُس دور کے کسی مسلمان کے اِن نظریات کی عبارت اور تعبیر میں خطا کو کذب سے تعبیر کر رہی ہیں ، تو یہ اُم المومنین رضی اللہ عنہا کا اُن سے اجتہادی اختلاف ہے ، اُم المومنین نفی ادراکِ باری سے نفی رویتِ باری کا مفہوم نکال رہی ہیں ، تو اُن کا قیاس ہے ورنہ احادیث نبویہ میں رویت باری کا ثبوت ہر دو جہاں میں ملتا ہے ، اسی طرح تبلیغی احکام نہ چھُپانے کا مطلب یہ نہیں کہ اسرار بھی کسی سے نہ چھپائے ، اور علم غیب کے حوالے سے حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما حضرت خضر علیہ السلام کی بابت بیان فرماتے ہیں کان رجلاً یعلم علم الغیب''وہ مرد تھے جو علمِ غیب جانتے تھے'' ۔ (تفسیر ابن جریر۔ تفسیر ابن کثیر) ، بلکہ بخاری شریف میں تو حدیث مرفوع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین اقوال پر بھی لفظِ کذب استعمال کیا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ وہ بھی صورتاً کذب ہے نہ کہ حقیقتاً ۔ (مزید حصہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment