Tuesday, 30 November 2021

نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ اول

 نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جہاں بے مثال بشر ہونے کا شرف عطا فرمایا وہیں حِسّی و معنوی نورانیت  سے بھی نوازا ۔ حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں۔ظاہِری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے ۔ (رِسالہ نورمع رسائل نعیمیہ صفحہ نمبر 39) 


قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ ۔ (سورۃ المائدہ ۔ 15)

ترجمہ : بے شک آیا تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور “یعنی محم دصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم” اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید) ۔


اس آیت میں نور سے مراد حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں اور روشن کتاب سے مراد قرآن ِ مجید ہے ۔ (تنویر المقیاس من تفسیر ابنِ عباس صفحہ نمبر 72) (تفسیر ِ کبیر جلد3 صفحہ 566۔)(تفسیر خازن جلد اول صفحہ 441)(تفسیر جلالین صفحہ 97)(تفسیر روح البیان جلد 2 صفحہ 32 .)(تفسیر روح المعانی پارہ نمبر 6 صفحہ 87 )(تفسیر حقانی جلد 2 صفحہ21)


گرائمر کی رُو سے مندرجہ بالاآیت میں و اوء عطف ِ تفسیری ہے جو نور اور روشن کتا ب کو علیحدہ علیحدہ کرتی ہے ،اور لفظ نور مصدر ہے ،مصدر نکلے کی جگہ کو کہتے ہیں اس لحاظ سے بھی حضور سار ی کائنات کے انوار کا منبع ہیں یعنی ساری کائنات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے نور سے تخلیق ہوئی ہے۔جن لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ نور او رروشن کتاب دونوں سے مراد قرآن مجید ہے ان کے رد میں اما م فخر الدین رازی تفسیرِ کبیر جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 566 میں فرماتے ہیں : یہ قول کہ نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن ہے ھذا ضعیف، یہ ضعیف ہے۔


امام صاوی تفسیرِ صاوی جلد اول میں لکھتے ہیںحضورصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا ہے اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم عقلوں کو روشن کرتے ہیں اور ان کو رشد کے لیے ہدائتیں دیتے ہیں اس لیئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہر حسی اور معنوی نور کی اصل ہیں ۔


علامہ فاسی رحمۃ اللہ علیہ مطالع المسرات صفحہ نمبر 220 پر لکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نور حسی اور معنوی ظاہر ہے ،آنکھوں اور عقلوں کے لیے چمکنے والا،بے شک اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نام اس آیت میں نور رکھا ہے ۔


امام مُلا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ شرح شفاشریف جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 114 میں لکھتے ہیں اور کون سی رکاوٹ ہے کہ اس آیت میں کہ دونوں نعتیں یعنی نور اور کتاب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لیے ہوں ۔بےشک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نورِ عظیم ہیں بوجہ اپنے کمالِ ظہور کے انوارمیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کتابِ مبین ہیں اس حیثیت سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم جمیع اسرارکے جامع ہیں اور احکام واخبار کے مظہر ہیں ۔


نورانیتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ، وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا ۔ (سورۃ االاحزاب آیت45,46)

ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بے شک ہم نے تجھے بھیجا حاضروناظر بنا کر اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والااور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااور نور بانٹنے والاآفتا ب بنا کر ۔


عربی لغت میں سراج سے مراد سورج ہے اور منیر ا سے مراد نور بانٹنے والا،یا نور تقسیم کرنے والا،جو لوگ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کا ترجمہ کرتے ہیں روشن آفتاب وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عربی میں روشن کے لیے لفظ منور استعمال ہو تا ہے جبکہ منیرسے مراد نور تقسیم کرنے والاکےہیں ۔


اگر ہم قرآن پاک کے الفاظ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کی گہرائی میںجاکر دیکھیں ،تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورج کے لیے لفظ استعمال کیا ہے وجعل فیھا سراج اور چاند کے لیے لفظ استعمال کیا ہے وقمرًا منیرًا ۔چونکہ سراج یعنی سور ج کی حکمرانی دن کو ہوتی ہےیعنی وہ دن کو روشنی بکھیرتا ہے اور قمر یعنی چاند کی حکمرانی رات کو ہوتی ہےاوروہ رات کو روشنی تقسیم کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنےمحبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لیے یہ دونوں الفاظ یکجا کر دئیےاور سِرَاجًا مُّنِیْرًا ارشاد فرما کر یہ عیاں کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے نور کی ضیا پاشیاں دن کو بھی ہوتی ہیں اور رات کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نور روشنی بکھیرتا ہے۔


يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ (سورۃ توبہ آیت 33)

ترجمہ : کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) اپنے مونہوں سے ٰ(پھونکیں مار کر) بجھا دیں مگر اللہ انہیں ایسا نہیں کر نے دے گا وہ اپنے نور کو پورا کرکے چھوڑے گا اگرچہ کا فروں کو برا ہی لگے ۔ اس آیت میں بھی نور سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہی ہیں حوالہ کے لیے کتابیں درج ہیں ۔ (تفسیر دُرّ ِ منشورجلد3صفحہ 231)(نسیم الریاض جلد2صفحہ 396) (مطالع المسرات،استناداً،صفحہ104)(موضوعاتِ ملاعلی قاری صفحہ99)(زرقانی علی المواہب جلد 3صفحہ149،چشتی)


اللہ جل شانہُ ایک اور مقام پر یہ ارشاد فرماتا ہے : يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ۭ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ (سورۃ الصف، آیت 8)

ترجمہ : چاہتے ہیں کافر لوگ کہ اللہ کے نور (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں( سے بجھا دیں اور اللہ کو تو اپنا نور پورا کرنا ہے اگرچہ کافر برا ہی منائیں ۔


یہاں بھی نور سے مراد نورِ مصطفیصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہی ہے ،حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اللہ کا نور ہیں ۔کافریہ چاہتے تھے کہ نعوز با للہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو قتل کر دیں تا کہ اسلام کی شمع گل ہو جائےمگر اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا محافظ و نگہبان ہے ۔


حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر نور العرفان کے صفحہ نمبر 305 میں امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف موضوعاتِ کبیر کے حوالے سےبیان کیا ہے کہ کہ ملا علی قاری نے موضوعات ِکبیر کے آخر میں فرمایاکہ قرآن مجید میں ہر جگہ نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ۔ (نور العرفان ازمفتی احمد یار خاں نعیمی صفحہ305 ,882)


اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ (سورہ النور آیت 35)

ترجمہ : اس کے نور )محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کے اندر ایک چراغ ہے جس کے اور ایک فانوس ہےوہ فانوس گویا ایک ستارے کی مانند ہے جو موتی کی طرح چمکتا ہوا روشن ہے جو جلتا ہے ایک برکت والے زیتون کےدرخت مبارک کے تیل سے،جو نہ مشرق کا نہ مغرب کا ،قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئے ،نور کے اوپر ایک اور نور ہے ،اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے ۔

اس آیت میں مثل نورہ اس کے نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ۔ (تفسیر کبیرجلد7صفحہ 403،)(تفسیرمظہری جلد6صفحہ 522،)( تفسیر دُرِ منشور ،علامہ سیوطی جلد 5صفحہ 48،)(شرح شمائل القار ی جلد 1صفحہ 47،) (اشعۃُاللمعات جلد1صفحہ 725، جواہر البحار جلد1صفحہ6،)(تفسیر خازن جلد3صفحہ332،)(زرقانی علی المواہب جلد6صفحہ238،)(تفسیر حقانی جلد5صفحہ 244،)(موضوعاتِ قاری صفحہ 99،)(شواہد النبوت صفحہ3،)(تفسیر روح البیان جلد4صفحہ141،چشتی)


امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌنُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے حضرت کعب اور حضرت ابنِ جبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اس کے نور کی مثال نورِمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہے ۔ حضرت سہل تستری نے فرمایا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ آسمان اور زمین والوں کا ہادی ہے اس کا نور ،نورِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی مثل جب کہ وہ پیٹھوں میںتھا طاق کی طرح ہے یعنی اس کے نور کی صفت اس طرح تھی اور مصباح سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا قلب مبارک ہے ،زجاجہ [فانوس] حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا سینا ہے یعنی وہ چمکتا ہوا موتی روشن ستارہ ہےاس لیے کہ اس میں ایمان اور حکمت ہے ۔ برکت والے درخت یعنی نورِ ابراہیم علیہ السّلام سے منور ہےنورِ ابراہیم علیہ السّلام کی مثال شجرہ مبارکہ سے بیان کی گئی ہے اور قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی نبوت کلام سے قبل اس تیل کی طرح خودبخود لوگوں کے لیے ظاہر ہو جائے ۔ (شفا شریف جلد1صفحہ 13)(شرح شفا القاری جلد1صفحہ108)(زرقانی مواہب الدنیہ جلد6صفحہ238)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ذات اقدس نور ہے اللہ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی نورانیت کو کبھی براہ ِراست اور کبھی تشبیہ و استعارہ کے روپ میں قرآن مجید میں بیان کیا ہے ۔ درج ذیل آیت میں نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے نور مقدس کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے :


وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۔ ترجمہ : اس چمکتے ہوئے تارے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی قسم جب یہ معراج سے اترے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے النجم کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ نجم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ھو ا کے معنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا انوار سے بھرا اورغیر اللہ سے منقطع کشادہ سینہ مبارک ہے ۔ (شفا شریف جلد 1صفحہ 28)(تفسیر روح البیان جلد 6 صفحہ 4)(تفسیر مظہری ،جلد9 صفحہ 103)(شرح زرقانی جلد 6 صفحہ 216)

اس آیت مقدسہ میں نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ، ستارہ آسمان کا نور اور اس کی زینت ہوتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم زمین کا نور اور اس کی زینت ہیں ۔ جن مفسرین کرام نے نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ذات مبارکہ کو لیا ہے ، ان کا حوالہ پیش خدمت ہے ۔ (تفسیر خازن،جلد 4صفحہ 190)( تفسیر صاوی جلد 4 صفحہ 114)(تفسیر خزائن العرفان صفحہ625،چشتی)


وَالْفَجْرِ ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ ۔ ) پارہ 30 سورہ فجر)

ترجمہ : قسم ہے صبح کی اور قسم ہےدس راتوں کی ۔

حضرت ابن عطا ء رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول والفجر o و لیال عشرo کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ فجر سے مراد حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ایمان کا مطلع ہیں ، ایمان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے ظاہر ہوا ۔آپ ہی کا وجود تاریکیوں میں فجر کی علامت ہے ۔ (شفا شریف جلد 1صفحہ82)


وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ ، وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ ، النَّجْمُ الثَّاقِبُ ۔ (سورۃ طارق)

ترجمہ : آسمان کی قسم اور رات کو آنے والے کی قسم ،اور کچھ تم نے جانا رات کو آنے والا کیا ہے ،خوب چمکتا ہوا تارا ہے ۔


مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ان انجم ھنا ایضاً محمد ۔ یعنی نجم سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ۔ (شفا شریف ،جلد 1صفحہ 30)(نسیم الریاض جلد1صفحہ215)


وَالشَّمْسِ وَضُحٰهَا ، وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰهَا ۔ (سورۃ الشمس)

ترجمہ : سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی قسم اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے ۔

اس آیت میں شمس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا دل انور ہے اور ضحی سے مراد نور نبوت کی روشنی ہے ،اور قمر سے مراد مرشد کامل ہے ۔ بعض تفا سیر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے چہرہ انور کو وضحی کہا گیا ہے اور لیل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی زلفیں ، ضحی وہ وقت ہوتا ہے جب سورج اپنی پوری آب و تاب سےآسمان پر جلوہ گر ہوتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم چونکہ منبع انوار ہیں اس لئے ضحی کا وقت وہ ہو تا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے چہرہ انور کی روشنی سے پورا عالم منور ہوتا ہے ، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : شمس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا دل مبارک ہے ، ضحی سے مراد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے نور نبوت کی روشنی ہے اور قمر سے مراد مرشد کامل ہو تا ہے ، جو پیغمبر کے نقش قدم پر ہوتا ہے جس طرح چاند سورج کی پیروی کرتا ہے یعنی سورج کے بعد طلوع ہوتا ہے اس طرح مرشد کامل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے بعد چاند کی مانند حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے روشنی لے کر تقسیم کرتا ہے ۔ (تفسیر عزیزی پارہ نمبر 30 صفحہ نمبر 188ٍ،چشتی)


حضرت سیّدہ آمنہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت ایسا نور ظاہر ہوا جس نے جملہ عالم مشرق و مغرب کو منور کر دیا۔ بصریٰ و روم و شام کے محلات نظر آگئے۔فاطمہ بنت عبداللہ بھی اس وقت موجود تھیں انہوں نے دیکھا کہ ہمارا گھر آپ کے نور سے معمور ہو گیا ۔ (مواہب الدنیا مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 14)


ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ بوقت سحر میں کپڑا سی رہی تھی کہ اچانک چراغ بجھ گیا اور سوئی ہاتھ سے گر گئی پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے چہرہ مبارک کے نور میں میں نے سوئی تلاش کر لی اور اسی روشنی سے دھاگا سوئی میں ڈال لیا ۔ (جواہر البحار صفحہ 814 نسیم الریاض جلد 1 صفحہ 328 مطالع المسرات صفحہ 239،چشتی)


حدیث قدسی : حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ)سے روایت ہے" اللہ تعالٰی نے(اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس پر ) فرمایا کہ جس نے میرے ولی سے عداوت کی میرا اس سے اعلان جنگ ہے اور جن چیزوں کے ذریعے بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب چیز میرے نزدیک فرائض ہیں اور بندہ نوافل کے ذریعہ میری طرف ہمیشہ نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اسکی آنکھیں ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا جس وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اگر وہ مجھ سے پناہ مانگ کر کسی بری چیز سے بچنا چاہے تو میں اسے ضرور بچاتا ہوں ۔ (بخاری شریف مطبوعہ مجتبائی جلد 2 صفحہ 963 :مشکٰوۃ مطبوعہ کانپور کتاب الداعوات جلد 1)


امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث قدسی کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : " اور اسی طرح جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی اختیار کر لیتا ہے تو اس مقام پر پہنچ جا تا ہے جس کے متعلق اللہ تعالٰی نے " کنت لہ سمعاً و بصراً" فرمایا ہے ، جب اللہ کے جلال کا نور اس کی سمع ہو جاتا ہے تو وہ دورونزدیک کی بات کو سن لیتا ہے اور جب یہی نور اس کا بصر ہو گیا تو وہ دورونزدیک کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہی نور جلال اس کا ہاتھ ہو جائے تو یہ بندہ مشکل اور آسان دور اور قریب کی چیزوں میں تصرف کرنے پر قادر ہو جاتا ہے ۔ (امام فخرالدین رازی تفصیر کبیر سورہ کہف(آیت ام حسبت ان اصحٰب الکھف)جلد 21 صفحہ 91)

اس حدیث قدسی کی شرح میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے مقرب بندہ کی شان میں جو کچھ لکھا ہے وہ عبد اور بشر سمجھتے ہوئے لکھا ہے ، جس ظاہر ہے کہ اس طرح ان صفاتِ عالیہ کا اس بندے کے لئے ماننا اس کی عبدیت اور بشریت کے منا فی نہیں ۔


اللہ تعالٰی نے حضور اکرم صلٰی علیہ وسلم کو کہیں بھی اپنے طور پر بشر نہیں کہا، بلکہ اگر ضرورت پیش آگئی تو نبی ہی سے کہلوایا کہ وہ بشر ہیں اگر اللہ اپنے طور پر اعلان فرما دیتا کہ نبی بشر ہیں تو سارا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالٰی نے یٰسین ۔ طٰہ ۔ نور ۔ سراجاً منیرا اور بہت سے صفاتی ناموں سے پکارا ہے ۔


انوار محمدیہ من مواہب اللدنیا صفحہ 9 میں ہے" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پیدا ہونے سے چودہ ہزار سال پہلے اپنے رب کے حضور میں ایک نور تھا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ الصلٰوۃ و السلام سے فرمایا اے جبریل آپ کی عمر کتنے سال ہے ؟ جبریل علیہ الصلٰوۃ و السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم) اس کے سوا میں نہیں جانتا کہ ایک ستارہ ستر ہزار سال بعد طلوع ہوتا تھا میں نے اسے بہتر ہزار مرتبہ دیکھا طلوع ہوتے دیکھا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جبریل مجھے اپنے رب جل جلالہ کی قسم وہ ستارہ (نور) میں ہوں ۔ (جواہر البحار صفحہ 248 ۔ تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 974) ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...