نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : جمہور علمائے اہلسنت و اجماعت کے نزدیک حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نوری بشر ہیں ۔ ہم پر یہ الزام لگانا کہ ہم نعوذبااللہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بشر نہیں سمجھتے یہ بہتان ہے کہ خود ہمارے اکابرین کا یہ فتوٰی ہے کہ انبیا کی بشریت کا انکار کفر ہے ۔
فَٱتَّخَذَتْ مِن دُونِهِم حِجَاباً فَأَرْسَلْنَآ إِلَيْهَآ رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَراً سَوِيّاً ۔
تو ان سے ادھر (یعنی اپنے اور گھر والوں کے درمیان) ایک پردہ کرلیا تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا (جبریل علیہ السلام) وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔ (سورۃ المریم آیت 17)
جبرائیل علیہ سلام نوری مخلوق ہیں ۔ جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے سامنے ظاہر ہوئے تو بشری صورت میں آئے۔ تو اس وقت ان کی نورانیت ذائل نہ ہوگئی بلکہ اس وقت بھی حقیقی لحاظ سے نور ہی رہے، لیکن ان کا ظہور بشری لباس میں ہوا ۔ اگر نور و بشر ایک دوسرے کی ضد ہوتے تو حضرت جبرائیل علیہ سلام بشری صورت میں تشریف نہ لاتے ۔ اور ایسا بھی نہیں کہ اللہ عزوجل کا اختیار محدود ہے کہ کسی اور صورت اپنی منشا پوری نہ کر پاتا ۔ اللہ عزوجل علیم و خبیر ہے ، اسے معلوم تھا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب بدعقیدہ ایسے مغالطے بھی دیں گے ۔
روح المعانی میں علّامہ سیّد محمود الوسی فرماتے ہیں؛بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک جہتِ ملکیت، جس کی بنا پر آپ فیض حاصل کرتے ہیں۔ اور دوسری جہتِ بشریت جس کی بنا پر آپ فیض دیتے ہیں۔ اس لئے قرآنِ کریم آپ کی روح پر نازل کیا گیا، کیونکہ آپ کی روح ملکی صفات کے ساتھ متصف ہے جن کی بنا پر آپ روح الامین سے استفادہ کرتے ہیں۔(روح المعانی، 19/121)۔
بات ثابت نہ ہوسکے تو پچاس آیات پیش کردینے سے بھی کچھ نہ ہوگا اور ثابت ہوتی ہو تو ایک ہی آیت کافی ہے۔ اس لئے ہم صرف ایک آیتِ مبارکہ پیش کرتے ہیں۔
سورۃ المائدہ آیت 15
قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
بے شک تمہارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
اسلام کے بیشتر مفّسرین نے اس آیت میں نور سے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مبارکہ مراد لی ہے۔ حتٰی کہ نور اور کتاب کی درمیان آیت میں و بھی اسی بات کی دلالت کرتا ہے کہ دو علیحدہ چیزوں کا بیان کیا جارہا ہے۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت میں نور کی تفسیر رسول سے کرنے بعد فرمایا؛
{ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ } رسول يعني محمداً ۔ (تفسیر تنویرالمقباس)
امام محمد بن جریر طبری نے فرمایا؛باِلنُّورِ مُحَمَّدَا۔ (تفسیرِ کبیر)۔قد جاءكم يا أهل التوراة والإنـجيـل من الله نور، يعنـي بـالنور مـحمداً صلى الله عليه وسلم، ۔(جامع البیان فی تفسیرالقرآن)۔
امام جلال الدین سیوطی نے بھی اس آیت میں نور سے مراد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات بیان کی ہے۔
{قَدْ جَاءكُمْ مّنَ ٱللَّهِ نُورٌ } هو النبي صلى الله عليه وسلم { وَكِتَٰبٌ } قرآن { مُّبِينٌ } بَيِّنٌ ظاهر۔(تفسیرِ جلالین)
امام رازی نے نور کی تفسیر میں متعدد قول نقل کئے ہیں۔ پہلا قول ہے؛{قَدْ جَاءكُمْ مّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَـٰبٌ مُّبِينٌ } وفيه أقوال: الأول: أن المراد بالنور محمد، وبالكتاب القرآن، (تفسیرِ کبیر)۔
علامہ سیّد محمود آلوسی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ؛عظيم وهو نور الأنوار والنبـي المختار صلى الله عليه وسلم۔(روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم)۔
اب یا تو ان تمام مفّسرین کو بدعقیدہ قرار دے ان کر پر بھی کفر کا فتوٰی صادر فرمائیے یا پھر اپنے عقائد کی تصحیح کرکے اللہ عزوجل کے عذاب سے بچئیے۔ اس ٹاپک میں کچھ حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں قرآن جیسی مستند چیز پیش کریں تو یہ وطیرہ منکرِ احادیث کا ہے۔ حدیث بےشک قرآن سے برتر نہیں لیکن معاذاللہ غیرمستند بھی نہیں۔
یہ تو تفاسیر تھیں، مزید اس ضمن میں کئی احادیث موجود ہیں، جس میں سب سے مشہور حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ ہے جسے روایت کرنے والے امام بخاری کے استاذالاستاذ امام عبدالرزاق ہیں۔
رُوِيَ عن جابر بن عبد الله قال: قلت: يا رسول الله، بأبي أنت وأمي، أخبرني عن أول شيء خلقه الله قبل الأشياء ؟
قال: يا جابر، إن الله - تعالى - خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله، ولم يكن في ذلك الوقت لوح، ولا قلم، ولا جنة، ولا نار، ولا ملك، ولا سماء، ولا أرض، ولا شمس، ولا قمر، ولا جني، ولا إنسي، فلما أراد الله أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء: فخلق من الجزء الأول: القلم، ومن الثاني: اللوح، ومن الثالث: العرش، ثم قسم الجزء الرابع: أربعة أجزاء، فخلق من الجزء الأول حملة العرش، ومن الثاني: الكرسي، ومن الثالث: باقي الملائكة، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء: فخلق من الأول: السماوات، ومن الثاني: الأرضين، ومن الثالث: الجنة والنار، ثم قسم الرابع أربعة أجزاء. فخلق من الأول: نور أبصار المؤمنين، ومن الثاني: نور قلوبهم وهي المعرفة بالله، ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله، ومن الرابع باقي الخلق... الحديث.
اس حدیث کو نقل کرنے والے کچھ محدثین و علما۔
امام ابوبکر احمد ابن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ
امام احمد قسطلانی، مواہب الّدنیہ
امام زرقانی، شرح مواہب الدنیہ
امام محمد المہدی الفاسی، مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات
علامہ دیاربکری، تاریخ الخمیس
امام ابن الحجر، فتاوٰی حدیثیہ
امام عبدالغنی النابلسی، الحدیقہ الندیہ شرح طریقہ محمدیہ
امام حاکم نیشاپوری، المستدرک للحاکم
عارف باللہ شیخ عبدالکریم جیلی، الناموس الاعظم والقاموس الاقدام فی معرفۃ قدر النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
امام علی بن برہان الدین حلبی شافعی، سیرتِ حلیبیہ
ابوالحسن بن عبداللہ بکری، الانوار فی مولد النبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
علامہ احمد عبد الجواد دمشقی، السراج المنیر و بسیرتہ استنیر
مولانا عبدالحئی لکھنوی فرنگی محلی، الاثار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعۃ
حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی، مکتوباتِ امامِ ربّانی فارسی
شیخ عبدالحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ
شاہ ولی اللہ دہلوی، التفہیمات الہیہ
لیکن بغض و عناد میں اندھے حضرات اس حدیث کو ضعیف قرار دے کر ردّ کرتے ہیں۔ اوّل تو اصول و ضوابط کے مطابق فضائل میں ضعیف احادیث لائقِ استناد ہوتی ہیں۔ یہ اصول ہمارا نہیں محدثین کا بیان کردہ ہے۔ فرض کیجیئے یہ تمام جلیل القدر علماومحدثین کسی محفل میں تشریف فرما ہوں اور اس حدیث کی توثیق وتصدیق کررہے ہوں تو آجکل کے کسی جعلی ملّے میں یہ جرات ہوگی کہ ان سب کو جھوٹا کہے؟ اس حدیث سے شیخ محقق دہلوی نے بھی استناد فرمایا ہے اور یہ وہی ہیں جن کی سنّدِ حدیث برِصغیر میں سب سے مضبوط مانی جاتی ہے۔ اشرف علی تھانوی نے بھی نشرالطیب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ رشید احمد گنگوہی نے فتاوٰی رشیدیہ میں اس حدیث کے بارے میں شیخ عبدالحق کا اسے نقل کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کے اصل ہونا کا اعتراف کیا ہے۔ اور قربان جائیے میرے غوث سرکارِ بغدار حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ پر جن کا نام ابنِ تیمیہ جیسے بھی احترام سے لیتے ہیں ، اس حدیث کو سرالاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار میں نقل کیا ہے۔
علامہ حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ جب جبرئیل علیہ السلام نے حضورِ پُرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سینہ مبارک چاک کرنے کے بعد قلبِ اطہر کو زم زم کے پانی سے دھویا تو فرمایا؛قَلب سَدِید فِیہِ عَینَانِ تُبصِرَانِ وَاُذنَانِ تَسمَعَانِ۔(فتح الباری شرح بخاری، ج 13، ص 410،چشتی)
قلبِ مبارک ہر قسم کی کجی سے پاک ہے، اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔
سیّدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے سایہ نہ تھا اور نہ کھڑے ہوئے آفتاب کے سامنے مگر یہ کہ ان کا نور عالم افروزخورشید کی روشنی پر غالب آگیا اور نہ قیام فرمایا چراغ کی ضیا میں مگر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تابشِ نور نے اس چمک کو دبا لیا۔(امام عبدالرحمن ابن جوزی، کتاب الوفا 402/2)۔
حضرت امام ربانی شیخ مجدد الف ثانی مکتوبات میں فرماتے ہیں؛ناچاراوراسایہ نبود۔ در عالم شہادت سایہ ہر شخص از شخص لطیف ترست۔ وچوں لطیف تر ازوے در عالم نہ باشداوراسایہ چہ صورت دارد۔
بیشک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سایہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہر چیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے لطیف کائنات میں کوئی چیز نہیں تو پھر آپ کا سایہ کس صورت سے ہوسکتا ہے۔
مزید فرماتے ہیں؛ہر گاہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ازلطافت ظل نہ بود خدائے محمد چگونہ ظل باشد۔
جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے لطیف ہونے کے سبب سایہ نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خدا کےلیے کیسے سایہ ہوسکتا ہے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدراجِ نبوۃ میں فرماتے ہیں؛نبود مرآں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم راسایہ نہ در آفتاب و نہ در قمر۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سایہ نہ سورج میں پڑتا تھا نہ چاند کی چاندنی میں۔
مزید لکھتے ہیں؛چوں آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین نور باشد نور راسایہ نباشد۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عین نور ہیں اور نور کےلیے سایہ نہیں ہوتا۔
حضورِ پُرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سایہ نہ ہونے کی گواہی امام نفسی نے تفسیرِ مدارک میں دی، امام جلال الدین سیوطی نے خصائص الکبریٰ میں دی، قاضی عیاض مالکی نے الشفا میں دی، علامہ شہاب الدین خفاجی نے شرح شفا نسیم الریاض میں دی، علامہ قسطلانی نے مواہب الدنیہ میں دی، محمد بن یوسف شامی نے سبل الہدٰی والرشاد میں دی، علامہ سلیمان بن جمل نے فتوحاتِ احمدیہ شرح ہمزیہ میں دی، امامِ ربّانی مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات میں دی، شیخ عبد الحق دہلوی نے مدارج النبوۃ میں دی، شاہ عبدالعزیز دہلوی نے تفسیرِعزیز میں دی۔
ربِ کائنات نے وہ آنکھ ہی تخلیق نہ کی جو سرورِکونین تاجدارِ دوعالم کے حسن وجمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کرسکے۔ انوارِ محمدی کو اسلئے پردوں میں رکھا گیا کہ انسانی آنکھ جمالِ مصطفٰے کی تاب ہی نہیں لاسکتی۔
امام زرقانی شرح مواہب الدنیہ میں امام قرطبی کا قول نقل کرتے ہیں کہ؛
لم یظھر لنا تمام حسنہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، لانہ لو ظھر لنا تمام حسنہ لما اطاقت اعیننا رویۃ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔
اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرما گئے کہ؛حیرت درجمالِ باکمال وی خیرہ میشد مثل ماہ و آفتاب تاباں و روشن بود، و اگرنہ نقاب بشریت پوشیدہ بودی ھیچ کس را مجال نظر و ادراک حسنِ او ممکن نبودی۔(مدارجِ نبوت، 137/1،چشتی)
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سرِ انور سے لے کر قدمِ پاک تک نور ہی نور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حسن وجمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جسمِ اطہر چاند اور سورج کی طرح منور وتاباں تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلوہ ہائے حسن لباسِ بشری میں مستور نہ ہوتے تو روئے منّور کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہوجاتا۔
اسی لیے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرما گئے؛
وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني
وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ
خلقتَ مبرءاً منْ كلّ عيبٍ
كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے حسین تر میری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں اور آپ سے جمیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیئے گئے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آپ کے رب نے آپ کی خواہش کے مطابق بنایا۔
اور اس کا اعتراف بانئ دیوبند قاسم نانوتوی قصائدِ قاسمی میں اس طرح کرتے ہیں؛
رہا جمال پہ تیرے حجابِ بشریت
نہ جانا کون ہے کچھ کسی نے جز ستار
اور یاد رکھیے گا کہ انبیا علیہم السلام کو فقط بشر مان کر گستاخی کرنے والا ابلیس تھا! امام فخرالدین رازی بیان کرتے ہیں کہ "أن الملائكة أمروا بالسجود لآدم لأجل أن نور محمد عليه السلام في جبهة آدم." فرشتوں کو آدم علیہ سلام کو سجدہ کرنے کا حکم اسی لئے تھا کہ ان کی پیشانی میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جلوہ گر تھا یہی وجہ تھی کہ ملائکہ سجدے میں گر گئے لیکن یہ نور نہ دیکھا تو صرف ابلیس نے۔ پھر یہی وطیرہ آگے مشرکین نے اپنایا جو انبیا کو اپنی مانند بشر قرار دے کر نبوت کا انکار کرتے تھے۔
عوام کو یہ تاثر دینا کہ اہلسنت و جماعت انبیا علیہم السلام کی بشریت کے منکر ہیں یہ صرف اہلِ باطل کا جھوٹا پراپیگنڈا ہے۔ ہمیں بشریت کا اقرار ہے لیکن انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کو اپنے جیسا بشر کہنے کو گستاخی قرار دیتے ہیں۔ قرآنِ کریم اس بات کا گواہ ہے کہ کفّار نے انبیا کو اپنی مثل بشر قرار دیا۔
سب سے پہلے ابلیس نے آدم علیہ سلام کے متعلق فرمایا؛
سورۃ الحجر آیت 33
قَالَ لَمْ أَكُن لأَسْجُدَ لِبَشَرٍ
بولا مجھے زیبا نہیں کہ بشر کو سجدہ کروں۔
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے کہا؛
سورۃ ھود آیت 27
فَقَالَ ٱلْمَلأُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قِوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلاَّ بَشَراً مِّثْلَنَا
تو اس قوم کے سردار جو کافر ہوئے تھے بولے، ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی (اپنی مثل بشر) دیکھتے ہیں۔
حضرت صالح علیہ السلام کو آلِ ثمود نے کہا؛
سورۃ القمر آیت 23
كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِٱلنُّذُرِ فَقَالُوۤاْ أَبَشَراً مِّنَّا وَاحِداً نَّتَّبِعُهُ إِنَّآ إِذاً لَّفِي ضَلاَلٍ وَسُعُرٍ
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا تو بولا کیا ہم اپنے میں کے ایک آدمی (بشر) کی تابعداری کریں جب تو ہم ضرور گمراہ اور دیوانے ہیں۔
اسی کے ردّ میں اللہ عزوجل فرماتا ہے؛
سورۃ النور آیت 63
لاَّ تَجْعَلُواْ دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضاً
رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھرا لو جیسا تم میں ایک، دوسرے کو پکارتا ہے۔
انبیاۓ کرام علیہم السلام کو بشر یا تو اللہ عزوجل نے فرمایا، یا خود انبیا علیہم السلام نے یا پھر کفّار نے! اب بھی کوئی نہ مانے تو چاند پہ تھوکا منہ پر ہی آتا ہے ۔ ہم اسی پر بس کرتے ہیں ۔ (مزید حصہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment