نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصہ ششم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اس معاملے سے ہم سبھی بخوبی واقف ہیں کہ یہ دین کا ایک ایسا نقطہ ہے جس نے ہمارے معاشرے کے لوگوں میں اچھا خاصا انتشار پھیلایا ہوا ہے ۔ بات ہے انسانیت کی جان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر ہیں یا نور یہ فیصلہ کرنے والے ہیں ہم گناہگار ۔ اس لیے اس معاملے پر بغیر تحقیق کیے بحث کرنے والوں پر افسوس کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ موضوع کو خاطر میں لاتے ہوئے کچھ عام باتوں کا جاننا بے حد ضروری ہے ورنہ ہم کسی ٹھوس نتیجے پر کبھی نہیں پہنچ سکتے اور یہ طریقہ بغیر تحقیق و علم ، نتیجہ نکالنے سے بے حد بہتر اور موزوں ہے ۔
.
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر ہیں یا نور ، یہ جاننے کےلیے ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ہو گا کہ بشر اور نور ہیں کیا ، ان کی ساخت کیا ہے اور ان کا اللہ کی بنائی ہوئی اشیاء پر کیا ردِعمل ہے ؟
بشر : (سائنس اور حکمت کی رو سے)
بشر کو انسان بھی کہا جاتا ہے اور یہ اللہ کی تخلیق کی گئی ایسی مخلوق ہے جو دنیا میں رہتی ہے اور آسمان پر نہیں رہ سکتی- اس مخلوق کے زندہ رہنے کے لیے آکسیجن، کھانا، پانی اور نیند کا ہونا لازم ہے- یہ مخلوق خلاء میں بغیر خلائی مصنوعات کسی صورت ٹھہر نہیں سکتی کیونکہ خلاء میں بےشمار عجیب و غریب گیسوں کی موجودگی ہوتی ہے اور ان گیسوں کا دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ بغیر احتیاطی مصنوعات انسان خلاء میں داخل ہوتے ہی موقع پہ دم توڑ دیتا ہے- اس سے ثابت ہوا کہ مخلوقِ بشریت ایسی صفات پر مشتمل ہے جن کا تعلق محض دنیا میں قیام کرنے سے ہے ۔
نور : (سائنس اور حکمت کی رُو سے)
اللہ کی ایسی مخلوق جو زمین پر بھی گشت کر سکتی ہے اور خلا میں بھی باآسانی اُڑ سکتی ہے- خلا میں ہواؤں کا دباؤ اور ان کا کیمیائی ردِ عمل، اس مخلوق کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا- یہ مخلوق اللہ پاک کے حکم ہی سے اپنے آپ کو ظاہر کیا کرتی ہے ورنہ نظر نہیں آتی، جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نور تھے اور وہ جب بھی وحی لے کر حاضر ہوا کرتے تھے تو صرف محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہی نظر آیا کرتے تھے خواہ آس پاس دیگر صحابہ بھی موجود ہوتے- اللہ کی یہ مخلوق کسی خوراک، پانی، نیند یا دنیاوی ہوس کی محتاج نہیں- اور خلاء کو چِیر کر باآسانی آگے بڑھ سکتی ہے- نورانی صفات عموماً فرشتوں میں ہی پائی جاتی ہیں انسان میں نہیں-
معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسلامی تاریخ کا وہ خوبصورت واقعہ ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم براق(بجلی کی رفتار والا گھوڑا) پر سوار ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے گئے تھے، اسی رات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خلا میں کئی انبیاء علیہم السلام سے بھی ملاقاتیں کیں، اسی رات امتِ محمدی پر نماز فرض ہوئی تھی، اسی رات سے کلمہ طیبہ میں "محمد الرّسُول اللہ" شامل کیا گیا- اور اس واقعہ کی تصدیق خود قرآنِ مجید نے کی سورہ النجم پارہ ۲۸ کی پہلی اٹھارہ آیات اور اسی طرح واضح طور پر سورہ بنی اسرائیل پارہ ۱۵ آیت ا میں کچھ اس طرح کی کہ " سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ لنریہ من اٰیتنا انہ ہو السمیع البصیر ۔
ترجمہ : "پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جن کے اردگرد ہم نے برکت رکھی اور ہم نے انہیں اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں- بے شک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔"
سرکار اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سفر معراج کا ذکر قرآن مجید کی متعدد آیات میں مفصلاً، مجملاً،کنایتاً اور اشارتاً ملتا ہے اور اس واقعہ کو مرزئیوں کے علاوہ مسلمانوں کے ہر فرقہ نے جائز اور مستند مانا ہے-
اس واقعے میں انسانیت کی جان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت جبرائیل کے ساتھ دنیا کی حدود سے باہر نکلے، خلا میں پہنچے اور وہاں بہت سے انبیاء سے باری باری ملاقات کی- اس کے بعد مزید آگے گئے اور ایک مقام پر پہنچے "سدرہ المنتہیٰ"... یہاں پہنچ کر جبرائیل علیہ سلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے درخواست کی کہ میں فرشتہ ہوں اور یہ مقام میری حد ہے، میں نور کا بنا ہوں اسلیے اگر اس مقام سے آگے بڑھا تو میرے پَر جل جائیں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اقرار کیا اور اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے آگے بڑھنے لگے-
یہ واقعہ تفصیلی طور پر قرانِ پاک میں نہیں مگر اس واقعے کا عمل پانا قرانِ مجید سے مکمل طور پر تصدیق شدہ ہے اسلیے اسے پوری دنیا کے مسلم ممالک میں بچوں کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے- آپ احباب نے بھی پرائمری اسکول میں اسلامیات کے نصاب میں پڑھا ہی ہو گا-
اب ہم اس تحریر کے عنوان کی تہہ پر آتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر ہیں یا نور ؟ بشریت کیا ہے ، نورانیت کیا ہے یہ تو ہم نے اس تحریر میں حکمت اور سائنس کے واضح شواہد سے معلوم کر لیا-
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صرف بشر یعنی انسان ہوتے تو کیا وہ جبرائیل علیہ سلام کے ساتھ خلاء میں اتر سکتے تھے، جہاں ہوا میں اتنے خطرناک کیمیکلز اور دباؤ ہوتا ہے وہاں کھڑے ہو کر اتنے انبیاء کرام سے ملاقات کیسے کر سکتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی قسم کی آکسیجن آویز مصنوعات بھی نہیں لگائی تھیں- یا تو یہاں حکمت فیل ہو گئی یا پھر سائنس- کیونکہ خلا میں صرف وہی قیام کر سکتا ہے جس کے اندر نورانیت بھی ہو- بشر تو وہاں فنا ہو جائے گا - یہ میں نہیں سائنس نے تحقیقات کے بعد ثابت کیا ہے- اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج پر گئے تھے تو یہ بات بھی واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم محض بشر نہیں نور بھی تھے اسی لیے خلا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کوئی نقصان نہ پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنی-
جب سدرہ المنتہیٰ کا مقام آیا تو روح الامین حضرت جبرائیل جو کہ اللہ کے بنائے ہوئے سب سے معزز فرشتے تھے وہاں رک گئے کیونکہ فرشتے نور سے بنے ہیں، نور کی بھی حد مقرر ہے...اور ان کی حد آ چکی تھی مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس مقام سے بھی آگے بڑھے اور اللہ پاک سے جا کر ملے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عروج کی کوئی حد مقرر نہیں تھی اور یہ باتیں میری من گھڑت کہانیاں نہیں قرآن سے ثابت ہیں-
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا میں سانس لیتے،کھاتے پیتے اور آرام کرتے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشر تھے- آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج پر گئے تو پہلے خلاء میں باآسانی گھومتے رہے اور انبیاء سے بھی ملاقات کیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نور بھی تھے- اب نور کی بھی اللہ پاک نے ایک حد مقرر کی ہے اس لیے جبرائیل علیہ السلام سدرہ کے مقام سے آگے نہ بڑھ سکے، اب اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بغیر کسی رکاوٹ کے، اس مقام سے بھی آگے گئے تھے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کا مقام ہماری عقل کے پیمانوں سے بھی کہیں زیادہ ہے- صرف بشریت حتہ کہ نورانیت تک بھی محدود نہیں- یعنی اللہ کی ذات کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقام سب سے افضل ہے اور ان کی صفاتِ اقدس ہم قرانِ کریم کی ہدایت کے بغیر کسی صورت جان ہی نہیں سکتے- بلکہ کچھ صفات تو محض اللہ ہی جانتا ہے کیونکہ اسی نے تو عطا کی ہیں اپنے محبوبِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو- "یہ کم ہے کہ رحمت اللعالمین یعنی تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر بھیجا" ۔
سمجھدار لوگوں سے گزارش ہے کہ خدارا ان لوگوں سے بحث نہ ہی کیجئے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقام سمجھنے سے قاصِر ہیں- وہ قرانِ مجید کی حکمت پر غور نہیں کرتے- جب تک قران کی آیات کی گہرائی میں نہیں جائیں گے، غوروفکر نہیں کریں گے اسلام کی حقیقتوں سے متعلق نشانیاں نہیں ملیں گی- جیسا کہ اللہ پاک نے خود فرمایا:
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
ان آیات میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں"۔(سورہ الروم ۲۱)
حدیثِ نور اور نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
يا جابر إن الله تعالى قد خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره ، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله تعالى ، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ولا سماء ولا أرض ولا شمس ولا قمر ولا جني ولا إنسي ، فلما أراد الله تعالى أن يخلق الخلق قسم ذلك النور أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول القلم ، ومن الثاني اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء فخلق من الجزء الأول حملة العرش ومن الثاني الكرسي ومن الثالث باقي الملائكة ، ثم قسم الجزء الرابع إلى أربعة أجزاء فخلق من الأول نور أبصار المؤمنين ومن الثاني نور قلوبهم وهي المعرفة بالله ومن الثالث نور أنسهم وهو التوحيد لا إله إلا الله محمد رسول الله ثم نظر إليه فترشح النور عرقاً فتقطرت منه مائة ألف قطرة ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے جابر الله نے اشیاء خلق کرنے سے قبل تمہارے نبی کا نور خلق کیا اور یہ الله کی قدرت سے جہاں الله چاہتا جاتا اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم نہ جنت نہ جہنم نہ فرشتے نہ آسمان نہ زمین نہ سورج نہ چاند نہ جن و انس- پس جب الله نے ارادہ کیا خلق کرنے کا تو اس نور کے چار ٹکرے کیے- ایک جز سے قلم بنا دوسرے سے لوح ، تیسرے سے عرش، پھر چوتھے کے بھی چار جز اور کیے ان میں سے ایک سے عرش کو اٹھانے والے، دوسرے سے کرسی ، تیسرے سے باقی فرشتے – پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے مومنوں کی آنکھوں کا نور بنا، دوسرے سے دلوں کا نور جو الله کی معرفت ہے ، تیسرے سے ان کے نفسوں کا نور جو توحید ہے لا إله إلا الله محمد رسول الله – پھر اس (کلمہ) پر نظر کی تو اس نور سے پسینہ نکلا جس سے ایک لاکھ قطرے اور نکلے ۔
حضرت سیّدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوداپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا:اے جابر! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔( الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص 63، حدیث:18، مواھب لدنیہ،ج1،ص36) حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّکے ہاں نور تھا ۔ (مواھب لدنیہ،ج1،ص39) ۔ (الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری ) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف ( مصنَّف عبدالرزاق )(الحافظ شھاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی( متوفی ٩٢٣ ھجری )(علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی( متوفی ١٠٣٨ ھجری )النور السّافر عن اخبار القرن العاشر)(العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون)(امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری ( متوفی ١١٢٢ ھجری ) شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی))(المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس)(حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)(قصص الانبیاء صفحہ نمبر 23 عبد الرشید قاسمی دیوبندی)(مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ،چشتی)
(1) الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری ) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف ( مصنَّف عبدالرزاق )
(2) الحافظ شھاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی( متوفی ٩٢٣ ھجری )المواھب اللدنیّہ بالمنح المحمدیّہ
الجزء الاول
(3) علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی( متوفی ١٠٣٨ ھجری )النور السّافر عن اخبار القرن العاشر
(4) العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون
(5) امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری
( متوفی ١١٢٢ ھجری )شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی
(6) المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی
( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس
(7) حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ
(8) مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ
توثیق امام عبدالرازاق رحمۃ اللہ علیہ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ۔ قال احمد بن صالح مصری قلت لا حمد بن ھنبل ۔ارائیت احدا احسن حدیث من عبدالرازاق قال لا ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211)
اس کے علاوہ امام یحیٰبن معین یعقوب بن شیبہ نے امام کو ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211)
قال امام الجرح والتعدیل : لو ارتد عبدالرازاق ما ترکنا حدیثا ۔ (تہذیب التہذیب 6 ص211 و میزان اعتدال ج2 ص 612)
امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کو ثقہ لکھا ۔ (تقریب التہذیب 211)
امام زہبی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ثقہ لکھا ۔ (میزان اعتدال)
صیح بخاری میں آپ سے تقریبا 120 کم وبیش احادیث مروی ہے اسی طرح مسلم میں 289 احادیث مروی ہیں ۔
مندرجہ ذیل کتب میں آپ کا تذکرہ ہے
العبر
المغنی
لسان المیزان
الطبقات الکبری
الجر ح و تعدیل
البدایہ و النہایا
اس کے علاوہ متعدد کتب میں آپ کا تذکرہ ہے ۔
نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمائے دیوبند و اہلحدیث کی نظر میں
مسلمانوں کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور ﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ،
ضابطہ اور اصول یہ ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کو دلیل و تلبیہ سے ثابت کرے اور سائل مد مقابل مخالف مدعی کے پیش کردہ دلائل کا رد و ابطال کرے ۔ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور ﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ، اہل سنت و جماعت جب اس دعویٰ پر بطور دلیل متعدد آیات قرآنیہ ، احادیث صحیحہ ، جلیل القدر مفسرین و محدثین کرام ، ائمہ دین متین علیہم الرّحمہ کی تصریحات اور گرانقدر ارشادات و فرمودات پیش کرتے ہیں تو منکرین نورانیت مصطفی علیہ التحیتہ والثناء وہابیہ بہر نوع بہرصورت ان دلائل و شواہد کے رد و ابطال کی کوشش کرتے ہیں اور خدا داد شانِ نورانیت کو مٹانے کی مذموم سعی کرتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود اکابر وہابیہ دیابنہ کا اپنی متعدد کتب و رسائل میں ہمارے دلائل و شواہد ضبط تحریر میں لاکر سرکار اقدس صلى الله عليه وسلم کے لئے نورانیت مقدسہ ثابت کرنا اہلسنت و جماعت کی حقانیت و صداقت اور عقیدہ و دعویٰ کے مضبوط و مستحکم ہونے اور منکرین کے ساکت و عاجز ہونے اور اصول و ضوابط سے عاری ہونے کی بیّن دلیل ہے ۔ علمائے دیوبند و علمائے اہلحدیث کی مستند و معتبر کتب سے چند حوالہ جات ہدیہ قارئین ہیں ۔
علامہ رشید احمد گنگوہی قدجاء کم من ﷲ نور و کتاب مبین کا ترجمہ لکھتے ہیں : تحقیق آئے ہیں تمہارے پاس ﷲ کی جانب سے نور اور کتاب مبین‘‘ نور سے مراد حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات پاک ہے ۔ حق تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو نور فرمایا اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم سایہ نہیں رکھتے تھے اور یہ واضح ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں ۔ (امداد السلوک ص 156)
نیز لکھتے ہیں ’’حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور مومنوں کو میرے نور سے‘‘ ۔ (امداد السلوک ص 157)
نیز لکھتے ہیں ’’آپ کی ذات اگرچہ اولاد آدم میں سے ہے لیکن آپ نے اپنی ذات کو اس طرح مطہر فرمایا کہ اب آپ سراپا نور ہوگئے‘‘ ۔ (امداد السلوک ص 85)
علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : (آیت مقدسہ میں) نور سے مراد حضور صلى الله عليه وسلم ہیں ۔ اس تفسیر کی ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ مراد اوپر بھی قد جاء کم رسولنا فرمایا ہے تو یہ قرینہ ہے کہ اس پر کہ دونوں جگہ جاء کم کا فاعل ایک ہو‘‘ ۔ (رسالۃ النور ص 31)
علامہ عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں : نور سے اشارہ ہے رسالت محمدی کی جانب اور کتاب مبین سے قرآن کی جانب‘‘ ۔ (تفسیر ماجدی جلد اول ص244)
علامہ ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی لکھتے ہیں : بے شک ﷲ کی طرف سے تمہارے پاس نور آچکا (یعنی نبی آخرالزمان) اور کتاب روشن (یعنی قرآن پاک) ۔ (تفسیر فیوض القرآن ،صفحہ 239،چشتی)
علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : شیخ عبدالحق (محدث دہلوی) رحمۃ ﷲ علیہ نے اول ما خلق اﷲ نوری کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص 373)
علامہ حسین احمد مدنی نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے ۔ (الشہاب الثاقب ص 47)
شاہ اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں : جیسے کہ روایت ’’اول ماخلق اﷲ نوری‘‘ اس پر دلالت کرتی ہے‘‘ ۔ (یک روزہ ص 11)
علامہ اشرف علی تھانوی نے حضرت جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت بحوالہ امام عبدالرزاق رحمۃ ﷲ علیہ نقل کی اور اس پر اعتماد کیا ۔ (نشر الطیب ص 6)
نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلکہ اپنے علماء و مشائخ کے لئے بھی نورانیت ثابت کرنا علمائے دیوبند کی کتب و رسائل سے ثابت ہے :
علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ ﷲ علیہ کو نوری اس لئے کہتے ہیں کہ آپ سے کئی بار نور دیکھا گیا ’’ ۔ (امداد السلوک ص 157)
علامہ محمود الحسن علامہ رشید احمد گنگوہی کو نور مجسم اور قبر کو تربت انور قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
چھپائے جامۂ فانوس کیونکر شمع روش کو
تھی اس نور مجسم کے کفن میں وہ ہی عریانی
تمہاری تربت انور کو دے کر طور سے تشبیہ
کہو ہوں بار بار ’’ارنی‘‘ میری دیکھی بھی نادانی
(مرثیہ گنگوہی ص 12)
علامہ عاشق الٰہی بلند شہری لکھتے ہیں : پس بے نظیر شیخ وقت اور بے عدیل قطب زماں کی سوانح کوئی لکھے تو کیا لکھے بھلا جس مجسم نور اور سرتاپا کمال کا عضو عضو اور رواں رواں ایسا حسین ہو کہ عمر بھر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے بھی سیری نہ ہوسکے۔ اس کے کوئی محاسن بیان کرے تو کیا کرے‘‘ ۔ (تذکرۃ الرشید پہلا حصہ ص 3)
علامہ سرفراز گکھڑوی حضرت شیر ربانی رحمۃ ﷲ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : دیوبند میں چار نوری وجود ہیں ۔ ان میں سے ایک (انور) شاہ صاحب ہیں ۔ (عبارات اکابر ص 37)
مکبہ فکر دیوبند معروف رسالہ میں لکھا ہے ’’مولانا احمد علی صاحب اﷲ تعالیٰ کے انوار میں سے ایک نور تھے ۔ (رسالہ خدام الدین لاہور 24 مئی1992ء)
نیز اسی میں لکھا ہے : علامہ (شمس الحق) افغانی نے دریافت فرمایا حضرت (مخاطب مولوی احمد علی ہیں) کیا وجہ ہے کہ سید (احمد) صاحب کی قبر پرانوار مولانا (اسماعیل) کی بہ نسبت کم معلوم ہوتے ہیں ۔ (رسالہ خدام الدین 22 فروری 1963)
علامہ حسین احمد مدنی کے بارے میں مکتبہ فکر دیوبند کے معروف اخبار میں لکھا ہے : اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (یعنی ٹانڈوی صاحب) عالم نور میں رہتے ہیں ، ان کی آنکھوں میں بھی نور ہے۔ ان کے دائیں بھی نور ہے،ان کے بائیں بھی نور ہے ، ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہے وہ خود نور ہوگئے ہیں ۔ (روزنامہ الجمعیت دہلی شیخ الاسلام نمبر ص 12، 1958،چشتی)
علامہ رفیع الدین لکھتے ہیں : وہ شخص (یعنی قاسم نانوتوی) ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیاگیا ۔ (حکایات اولیاء یعنی ارواح ثلاثہ ص 259، سوانح قاسمی جلد اول ص 130)
اس عبارت میں بھی بانی دیوبند علامہ قاسم نانوتوی صاحب کو نور کہا گیا ہے کیونکہ روایت ہے خلقت الملائکۃ من نور یعنی فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے ۔ (مسلم شریف جلد دوم ص 413)
اہلحدیث عالم علامہ ثناء ﷲ امرتسری نے قد جاء کم ۔۔۔ الخ آیت مقدسہ کا ترجمہ یوں کیا ’’تمہارے پاس اﷲ کا نور محمد صلى الله عليه وسلم اور روشن کتاب قرآن شریف آئی‘‘ ۔ (تفسیر ثنائی جلد اول ص 362)
نیز لکھتے ہیں ’’ہمارے عقیدے کی تشریح یہ ہے کہ رسول خدا ، خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے نورہیں‘‘ ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد دوم ص 93،چشتی)
مشہور اہلحدیث عالم علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : ﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا، پھر پانی ، پھر پانی کے اوپر عرش کو پیدا کیا ، پھر ہوا ، پھر قلم اور دوات اور لوح پھر عقل کو پیدا کیا، پس نور محمدی آسمانوں اور زمین اور ان میں پائی جانے والی مخلوق کے لئے مادہ اولیہ ہے‘‘ نیز حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ قلم اور عقل کی اولیت اضافی ہے ۔ (ہدیۃ المہدی ص 56)
مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی لکھتے ہیں : نور النبی تجلی رحمۃ‘‘ یعنی نور نبی تجلی رحمت ہے ۔ (نفح الطیب ص 60)
مشہور اہلحدیث عالم حافظ محمد لکھوی لکھتے ہیں : نور نبی دا آپے دیندا لوکاں نوں روشنائی ۔ (تفسیر محمدی 4 ص 201)
مشہور اہلحدیث عالم علامہ پروفیسر ابوبکر غزنوی تقریظ میں لکھتے ہیں : قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ بشر بھی تھے اور نور بھی تھے ۔۔۔ اور صحیح مسلک یہی ہے کہ وہ بشر ہوتے ہوئے از فرق تا بقدم نور کا سراپا تھے ۔ (تحریر 14 دسمبر 1971، تقریظ رسالہ بشریت و رسالت ص 17)
محترم قارئین : ان حوالہ جات کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے جب تمام مکاتب فکر کے علماء اس مسلہ پر متفق ہیں تو پھر نفرتیں کیوں آیئے سب مل کر ان نفرتوں کو مٹائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شانیں محبت و عقیدت سے بیان کریں اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔
سایہ مُصطفٰی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم
امام نیشا پوری رحمة اللّٰه علیہ نے لِکھا ہے کہ : آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے لِکھنا اس لیے اِختیار نہیں فرمایا کہ جس وقت آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم لِکھتے تو قلم اور ہاتھ کا سایہ اللّٰه تعالٰی کے اِسمِ مُبارک پر پڑتا،آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اللّٰه تعالٰی کے اِسمِ مُبارک کی بے ادبی کے باعث لِکھنا اِختیار ہی نہ فرمایا تو اللّٰه تعالٰی نے فرمایا! اے میرے محبوب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! اگر آپ اپنے ہاتھ اور قلم کے سایہ کو میرے اِسم پر پڑنے کو گوارا نہیں فرماتے تو میں بھی آپ کے لیے آپ کے غلاموں کو حُکم فرماتا ہوں کہ وہ آپ کے سامنے اونچا نہ بولیں اور آپ کا سایہ بھی زمین پر پڑنے نہیں دیتا تاکہ آپ کے سایہ پر کسی کے قدم نہ پڑیں تاکہ آپ کی بے ادبی نہ ہو ۔ (تفسِیر رُوح البیان جِلد ۸،صفحہ ۲۰،چشتی)
ربابِ نظر کو کوئی ایسا نہ مِلے گا
بندے تو ملیں گے پر مولا نہ مِلے گا
تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانیء محمد
ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ مِلے گا
"تمام مخلوق کا وجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وجہ سے ہے"
حضرت آدم علیہ السلام اور تمام مخلوق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وجہ سے ہیں۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو وحی بھیجی کہ ہماے محبوب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لاٶ اور اپنی امت کو بھی ہدایت کرو کہ وہ بھی ایمان لائیں اگر میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو پیدا نہ کرتا تو آدم، جنت ونار کو بھی وجود نہ بخشتا اور میں نے عرش پانی پر پیدا کیا تھا وہ حرکت کرنے لگا تو میں نے لاالہ الااللّٰہ محمدٌ رسول اللّٰہ اس پر لکھ دیا تو وہ ٹہھرگیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہ ہوتے تو میں جنت اور نار پیدا نہ کرتا،
نیز اسی مضمون کی روایت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا کہ اللہ پاک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہیں کہ اگر میں نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حبیب بنایا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے زائد باعزت اپنے نزدیک اور کوئی نہیں بنایا ہے اور میں نے دنیا اور دنیا والوں کو اس لئے پیدا کیا تاکہ تمہاری عزت وبزرگی کا اُن کو تعارف کرائوں اور اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا،
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اے محمد میری عزت وجلال کی قسم اللہ تم کو پیدا نہ کرتا تو ارض وسموات کو پیدا نہ کرتا اور نہ آسمان اٹھاتا اور نہ زمین بچھاتا،
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے
کہ اللہ پاک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے فرمایا کہ تمہاری وجہ سے میں نے ارض بطحاء کو بچھایا ہے اور پانی میں موجیں پیدا کی ہیں، آسمان بلند کیا ہے، ثواب وعقاب جنت ونار پیدا کئے ہیں،
عارف باللہ سید علی بن ابی الوفاءؒ جو مشہور صالحین، عابدین میں شمار ہوتے ہیں فرماتے ہیں ۔
قلب کو قرار ہوا ہے لہٰذا اے بدن تو اب آرام سے وقت گذار ۔ ان شاء اللہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں، تمام اشیاء کے وجود کی روح وہ فردِ فرید ہے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو کسی صاحبِ وُجود کو وُجود نہ ملتا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام۔ اور تمام بڑے انسان اگر آنکھ کے درجہ میں ہیں تو وہ اُن آنکھوں کا نور وجمال ہے اگر شیطان بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نور کی نورانیت دیکھ لیتا آدم علیہ السلام کے چہرہ میں تو سب سے پہلے سجدہ کرتا اور اگر نمرود ملعون بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جمال جہاں آرا کو دیکھ لیتا تو جلیلِ تعالیٰ کی خلیل اللہ کے ساتھ عبادت کرتا اور عنادنہ کرتا مگر اللہ کا جمال ونور ہر ایک کو دکھایا بھی نہیں جاتا وہی دیکھ سکتا ہے جس کو اللہ پاک کی توفیق میسر ہو،
سبحان اللہ شیخ علی بن ابی الوفا علیہ الرحمہ نے کس قدر عمدہ مضامین ان اشعار میں جمع فرمادیے ہیں جو اہلِ محبت کےلیے شرابِ طہور ہیں ۔ (سبل الھدی والرشاد, ص؍ ۷۶؍ج۱)
بشر سے "ب" نکال دیں تو "شر" رہ جاتا ہے, اور "شر" اشرف المخلوقات کے مقام سے گِرنا ہے. "شر" کو بسم اللہ والے نے بسم اللہ کی "ب" عطا کر کے اِس کو "شر" سے بشر بنایا, بشر کو یہاں سے آگے کی طرف سفر کرنا ھے, نہ کہ پیچھے کی طرف.
یہاں سے "اشرف" کا "الف" ہٹا لیا جائے گا اور "شرف" کی طرف اِس کا سفر شروع ہوگا. اب اِسے مزید "شرف" حاصل کرنے ہونگے اور "شرف" کے لیے یہ "میم" کا محتاج ہے. "میم" کی مدد سے ہی یہ "شرف"سے "مُشرف" ہو گا.
"احد" میں "میم" مِلا تو "احمد" ہوا. اب اِس بشر کا سفر "احمد" کی "دال" سے شروع ہوگا جو کے دنیا ہے. "د" سے یہ "میم" تک پہنچے گا جو کے "محمد" ہے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) "محمد" اِسے "ح" سے متعارف کرائیں گے جو کے "حق" ہے. اور "حق" کے بعد اِسے "الف" پھر سے واضح دِکھائی دے گا جو کہ "اللہ" ہے ۔ ا-ح-م-د 👉 احمد ۔
"شر" کو "ب" کی طاقت دے کے "بشر" بنایا, اور "الف" سے "شرف" دے کے "اشرف" کا مقام بخشا ۔
"ا ل م" آپ "میم" کے اِس طرف کھڑے ہیں, نہ کہ "الف" کے اُس طرف. آپ "میم" (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) سے جب تک فیضیاب نہیں ہونگے "لام" (لا الہ الا اللہ) تک نہیں پہنچ سکتے, "لام" کی روشنی کے بعد ہی آپ کو "الف" ( اللہ ) کا مقام دِکھے گا ۔
یہی آپ کا سفرِ امتحان ہے جو عشق کے بنا ممکن نہیں ۔ اور اگر اس سفر میں کوئی عشق والا راہبر مل جائے کہ جسے "م" سے آشنائی ہو تو پھر "ا" تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے ۔ (مزید حصہ ہفتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment