Sunday, 28 November 2021

عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ دہم

 عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ دہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : علم غیب عطا ہو کر بھی غیب ہی کہلاتا ہے کیونکہ قرآن حکیم کے مطابق ﷲ تعالیٰ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات کی خبر دی تو اس باب میں ارشاد فرمایا : ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۔ (سورہ يوسف آیت نمبر 102)

ترجمہ : یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں ۔


اس سے ثابت ہوا کہ علم غیب وحی کے ذریعے عطا ہونے کے بعد بھی قرآنی اصطلاح میں ’’غیب‘‘ ہی کہلاتا ہے ۔


ذٰلِکَ مِنْ اَنۡۢبَآءِ الْغَیۡبِ : یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں ۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جو واقعات ذکر کئے گئے یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو کہ وحی نازل ہونے سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معلوم نہ تھیں کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں کے پاس نہ تھے جب انہوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں میں ڈالنے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا ا ور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں سازش کر رہے تھے ، اس کے  باوجود اے اَنبیاء علیہم السّلام کے سردار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کا ان تمام واقعات کو اس تفصیل سے بیان فرمانا غیبی خبر اور معجزہ ہے ۔  (تفسیر خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳/۴۷-۴۸ ، چشتی)،(تفسیر مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۵۴۶-۵۴۷) 


مکتبہ فکر دیوبند کے مفتی اعظم جناب مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں : جنابِ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم غیب کے متعلق یوں نہ کہا جائے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیب نہیں جانتے تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ نے علوم غیب کا بہت بڑا علم دیا تھا ۔ (تفسیر معارف القرآن جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 796 مطبوعہ مکتبۃ المعارف کراچی)


جمہور مفسرین کرام علیہم الرّحمہ کے نزدیک غیب وہ ہے جو حِس سے چھپا ہوا ہو ۔ (تفسیر کبیر،جلد اول ،صفحہ نمبر ۲۷۳)


یعنی آنکھ ، ناک،کان وغیرہ جو علم حاصل کرنے کے ذرائع ہیں ، اُن سے جو معلوم نہ کیا جا سکے وہ غیب ہے ۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ غیب وہ چیز ہے جسے کوئی بھی انسان اپنی عقل اور سوچ وفکر کے ذریعے خود سے حاصل نہ کر سکے ۔ واضح رہے کہ یہ تعریف انسان کے لحاظ سے ہے ، نہ کہ اللہ عزّ و جل کے لحاظ سے ۔ کیو نکہ ربِّ قدیر کے نزدیک تو دنیا کی کوئی چیزپو شیدہ ہی نہیں ، بلکہ ہر چیز اس کے نزدیک خوب روشن وظا ہر ہے ۔


منکرینِ علم غیبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کہتے ہیں : جب اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بتا ہی دیا تو پھر وہ علم غیب کہاں رہا ؟


جواب : وہ غیب ہی رہا ، کیو نکہ خود اللہ تعالیٰ نے اُسے غیب ہی قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد رب العالمین ہے : وما ھو علی الغیب بضنین ۔

ترجمہ : اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) غیب کی بات بتانے پر بخیل (کنجوس) نہیں ۔ (سورہ تکویر،آیت:۲۴)


پھر یہ کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی یہ کہنا درست نہ ہو کہ اللہ غیب جانتا ہے کیو نکہ اللہ کے نزدیک کوئی چیز غیب ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں نہایت روشن اور ظاہر ہیں ۔


منکرین کہتے ہیں : پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو “عالم الغیب”کہنا صحیح ہو نا چا ہئے ؟


جواب : نہیں،کیو نکہ ”عالم الغیب”  کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے ۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو “عالِمِ غیب ” عالمِ ما کان و ما یکون (جو کچھ ہو چکا ، ہوتا ہے اور ہوگا ان سب کا جاننے والا ) اور عالمِ اولین و آخرین کہا جائے گا۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم مَاکَانَ وَمَایَکُوْن


محترم قارئین کرام : ہمارا عقیدہ ہے کہ جو ہوچکا ہے جو ہو رہا ہے اور جو ہوگا ہمارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلّم جانتے ہیں آیئے اس پر دلائل کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں :


جو ہوچکا جو ہوگا حضور جانتے ہیں

تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں

(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)


مخالفین اہلسنت کے اس عقیدے کو جو کہ قران و حدیث سے ماخوذ ہے مشرکانہ عقیدہ بتاتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا ازلی شقاوت کے اظہار کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس حضور صلی ﷲعلیہ وسلم کیلئے علم ماکان ومایکون کا عقیدہ دراصل اکابرین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے ۔


ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :  اَلرَّحْمٰنُۙ O عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ‏ ، ‏خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ‏ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ  ۔ (سورہ رحمٰن)

ترجمہ : اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ۔ (ترجمہ محمد جونا گڑھی غیر مقلد وہابی)


ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے ان میں سے چند اکابرین مفسرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر پیش خدمت ہیں :


خَلَقَ الْاِنْسَانَ : انسان کو پیدا کیا ۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ’’انسان‘‘ اور’’ بیان‘‘ کے مِصداق کے بارے میں  مفسرین کے مختلف قول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں  انسان سے مراد دو عالَم کے سردار محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  اور بیان سے’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا، کا بیان مراد ہے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَوّلین و آخرین اور قیامت کے دن کی خبریں  دیتے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں  انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں  اور بیان سے مراد تمام چیزوں  کے اَسماء اور تما م زبانوں  کا بیان مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں  انسان سے اس کی جنس یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تمام اولاد مراد ہے اور بیان سے مراد گفتگو کی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے انسان دیگر حیوانوں  سے ممتاز ہوتا ہے۔( خازن، الرحمن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴/۲۰۸، صاوی، الرحمن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۶/۲۲۷۳- ۲۲۷۴،چشتی)


مشہور مفسّر امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خلق الانسان یعنی محمداً صلیﷲ علیہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔

ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (تفسیر البغوی (معالم التنزیل) صفحہ ١٢٥٧) ابی محمد حسین بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٥١٦ھ)


امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں : الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صلیﷲعلیہ وسلم  صلی ﷲعلیہ وسلم والبیان وقیل ماکان ومایکون ۔

 ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان الجزءالعشرون صفحہ١١٣)۔ابی عبد ﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ ۔ (متوفی ٦٧١ھ)


امام ابن عادل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :  المراد بالانسان ھنا محمد علیہ السلام علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون ۔

ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔

( اللباب فی علوم الکتاب المشہور تفسیر ابن عادل الجزء الثامن عشر صفحہ٢٩٣- ٢٩٤) ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٨٨٠ھ،چشتی)


امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر میں موجود ہے : خلق الانسان یعنی محمداً صلی ﷲ علیہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔

ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی ﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الکشف والبیان فی تفسیر القران المشہور تفسیر الثعلبی الجزء السادس صفحہ٤٨ ، العلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٤٢٧ھ)


اَلرَّحْمٰنُ : رحمن ۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ جب سورۂ فرقان کی آیت نمبر60 نازل ہوئی جس میں  رحمن کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا توکفارِ مکہ نے کہا کہ رحمن کیا ہے ہم نہیں  جانتے ،اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃُ الرّحمن نازل فرمائی کہ رحمن جس کا تم انکار کرتے ہو وہی ہے جس نے قرآن نازل فرمایا ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے جب کہا کہ محمد (مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو کوئی بشر سکھاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی  نے فرمایا کہ رحمن نے قرآن اپنے حبیب محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھایا ۔ (تفسیر خازن، الرحمن، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴/۲۰۸)


اِس معنی کے اعتبار سے ان آیات سے 5 باتیں  معلوم ہوئیں


(1) قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اسی لئے سب سے پہلے اس کا ذکر فرمایا ۔


(2) حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس قرآن پاک بظاہر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے واسطے سے آیا لیکن در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآن سکھایا ۔


(3) مخلوق میں  سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کوئی استاد نہیں  بلکہ آپ کا علم مخلوق کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے ۔


(4) حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک کے مُتَشابہات کا علم بھی دیا گیا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے سارا قرآن اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھادیا تو اس میں  متشابہات کا علم بھی آگیا کہ یہ بھی قرآنِ پاک کا حصہ ہی ہیں ۔


(5) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام اَشیاء کے نام سکھائے،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا‘‘(بقرہ:۳۱)

ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے ۔

 حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زِرہ بنانا سکھائی ،چنانچہ ارشاد فرمایا :

’’وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ‘‘ ۔(انبیاء:۸۰)

ترجمہ : اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے  (جنگی) لباس کی صنعت سکھا دی ۔

حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پرندوں  کی زبان سکھائی ،جیسا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ‘‘۔(نمل:۱۶۔)

ترجمہ : اے لوگو!ہمیں  پرندوں  کی بولی سکھائی گئی ہے۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو طب ، تورات اور انجیل کا علم عطا فرمایا، ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ‘‘ ۔ (اٰل عمران:۴۸)

ترجمہ : اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔

حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علمِ لدُنی عطا فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا:

’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘ ۔ (کہف:۶۵)

ترجمہ : اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا ۔

اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو کچھ سکھایا اس کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ : ’’ اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘‘

ترجمہ : رحمن نے ، قرآن سکھایا ۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ’’وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ‘‘ ۔ (نمل:۶)

ترجمہ : اور (اے محبوب!) بیشک آپ کو حکمت والے، علم والے کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے ۔

اور ایک جگہ واضح طور پر فرمادیا کہ : ’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘(النساء:۱۱۳)

ترجمہ : اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاعلم تمام اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ ہے ۔


دیوبندی ، وہابی اور غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیث کے اکابرین نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم غیب عطائی کو بھی شرک قرار دیتے ہیں ۔ علم غیب عطائی ماننے والے کو ابوجہل جیسا مشرک کہتے ہیں ۔


اہلسنّت و جماعت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے اوّلین اور آخرین کے حالات جاننے والا اور غیب کی باتیں بتانے والا کہتے ہیں ۔


اللّٰہ تعالیٰ کا قرآن مجید فرقان حمید میں فرمان ہے : وَمَاکَا نَ اللّٰہُ لِیُطلِعَکُم عَلَی الغَیبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجتَبِی مِن رُسُلِہ مَن یَّشَا ئُ ۔ (پارہ 4 رکوع 9 ّ)

ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کی اے عام لوگوں تمہیں غیب کا علم دے ۔ہاں اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے ۔


امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ


اس آیت کے تحت امام اجل جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ معنٰے یہ ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے ۔ پس ان کو غیب پر مطلع کرتا ہے ۔ (تفسیر جلالین صفحہ 66۔چشتی)


علامہ حقی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ


علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ اِسی آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ پس حقائق اور حالات کے غیب نہیں ظاہر ہوتے بغیر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے واسطہ سے ۔ (تفسیر روح البیان صفحہ 132 جلد 2 مطبوعہ بیروت)


دوسرے مقام پر اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَعَلَّمَکَ مَا لَم تَکُن تَعلَم وَکَانَ فَضلُ اللّٰہِ عَلَیکَ عَظِیمََا ۔ (پارہ 5 رکوع 14 )

ترجمہ : اور تم کو سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔


امام رازی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ


امام المفسرین فخرالدین امام رازی علیہ الرحمۃ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اَی مِنَالاَحکَامِ وَالغَیبِ ۔ یعنی احکام اور غیب ۔ (تفسیر کبیر مطبوعہ مصر)


امام نسفی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ


امام نسفی علیہ الرّحمہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : یعنی شریعت مطہرہ کے احکام اور امور دین سکھائے اور کہاگیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو علم غیب میں وہ باتیں سکھائیں جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ جانتے تھے اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چھپی چیزیں سکھائیں اور دلوں کے رازوں پر مطلع فرمایا اور منافقین کے مکر و فریب آپ کو بتادیئے ۔ اُمو ر دین سکھائے ، چھپی ہوئی باتیں اور دلوں کے راز بتائے ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 250 مطبوعہ بیروت)


علامہ کاشفی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ


علامہ کاشفی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت فرمایا ہے : یہ ماکان وما یکون کا علم ہے کہ حق تعالیٰ نے شب ِ معراج میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا فرمایا چنانچہ حدیث معراج میں ہے کہ ہم عرش کے نیچے تھے ایک قطرہ ہمارے حلق میں ڈالا ، پس ہم نے سارے گزرے ہوئے اور آئندہ ہونے والے واقعات معلوم کرلئے ۔ ( تفسیر حسینی فارسی صفحہ 124،چشتی)


علامہ قاضی ثناء اللّٰہ پانی پتی علیہ الرحمۃکا عقیدہ


علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر مظہری میں فرمایا ہے : اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اسرار و مغیبات کے علوم عطا فرمائے ۔ (تفسیر مظہری)


علامہ جار اللّٰہ محشری علیہ الرّحمہ


علامہ جار اللہ محشری علیہ الرّحمہ نے اپنی تفسیر کشاف میں فرمایا ہے : خفیہ امور لوگوں کو دلوں کے حالات ، امور دین اور احکام شریعت ۔ (تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 563 مطبوعہ بیروت)


علامہ بغوی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ


تفسیر معالم التنزیل میں اُنہیں آیات طیبات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے : اللہ تعالیٰ نے انسان یعنی محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پیدا فرمایا اور ان کو بیان یعنی اگلی پچھلی باتوں کا بیان سکھادیا ۔ (تفسیر معالم التنزیل)


عَنْ عَمْرِو بْنِ اَخْطَبَ الْاَ نْصَارِیِّ قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا الْفَجْرَ وَصَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظُّھْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَاَخْبَرَنَا بِمَا ھُوَ کَاءنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ قَالَ: فَاَعْلَمُنَا اَحْفَظُنَا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات ، الحدیث:۵۹۳۶،  ج۲،ص ۳۹۷ ،چشتی)(مشکوٰۃ ، باب المعجزات،ص۵۴۳)

ترجمہ : حضرت عَمْرو بن اَخْطَب اَنصاری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ انہوں  نے کہا کہ ایک دن ہم لوگوں کو رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ظہر کی نماز تک خطبہ پڑھتے رہے پھر اُترے اور نماز پڑھ کر پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا پھر اُترے اور نماز پڑھی پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور سورج ڈوبنے تک خطبہ پڑھتے رہے تو (اس دن بھر کے خطبہ میں) ہم لوگوں کو حضور نے تمام ان چیزوں اور باتوں کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والی ہیں  تو ہم صحابہ میں  سب سے بڑا عالم وہی ہے جس نے سب سے زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھاہے ۔


حضرت عَمْرو بن اَخْطَب : اِس حدیث کے راوی حضرت عَمْرو بن اَخْطَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں ۔ یہ اَنصاری ہیں  اور ان کی کنیت ’’اَبو زید‘‘ہے اور محدثین کے نزدیک ان کی کنیت ان کے نام سے زیادہ مشہور ہے ۔ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ بہت سے غزوات میں  شریک ِجہاد رہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نے ایک مرتبہ محبت اور پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر  دیااور ان کی خوبصورتی کے لیے دعا فرمائیی۔جس کا یہ اثر ہوا کہ ان کی سو برس کی عمر ہوگئی تھی مگر سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے اور آخری عمر تک چہرے کا حسن و جمال باقی رہا ۔ (اکمال فی اسماء الرجال، حرف العین، فصل فی الصحابۃ، ص۶۰۷، چشتی)


مختصر شرحِ حدیث : یہ حدیث مسلم شریف میں  بھی ہے ۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نماز فجر سے غروب آفتاب تک بجز ظہر و عصر پڑھنے کے برابر دن بھر خطبہ ہی میں  مشغول رہے اور سامعین سُنتے رہے اور اس خطبہ میں  حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نے قیامت تک کے ہونے والے تمام واقعات تمام چیزوں اور تمام باتوں کی سامعین کو خبر دے دی اور صحابہ میں  سے جس نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھا اتنا ہی بڑا وہ عالم شمار کیا جاتا تھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب اخبارالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ،  الحدیث:۲۸۹۲،ص۱۵۴۶)


یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  کے معجزات میں  سے ہے کہ قیامت تک کے کروڑوں واقعات کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نے صرف دن بھر کے خطبہ میں  بیان فرما دیا۔صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کو خداوند ِعالَم نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ گھوڑے پر زِین کسنے کا حکم دیتے تھے اور ساءیس گھوڑے کی زین باندھ کر درست کر تا تھا اتنی دیر میں  آپ ایک ختم ’’زبور شریف ‘‘کی تلاوت کرلیتے تھے (صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب قول اللّٰہ تعالی۔۔۔الخ، الحدیث:۳۴۱۷، ج۲،ص۴۴۷ ، چشتی)

تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نبی آخرالزمان جو تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات کے جامع ہیں  اگر دن بھر میں  قیامت تک کے تمام احوال و واقعات کو بیان فرمادیں  تو اس میں  کونسا تعجب کا مقام ہے ۔


اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل پر روشنی پڑتی ہے


حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  کو خدا وند ِعالِم ُا لْغَیْب و الشَّہادَۃ نے جس طرح بہت سے معجزانہ کمالات سے نوازااور تمام انبیاء اور رسولوں میں  آپ کو ممتاز فرماکر’’سید الانبیاء‘‘ اور’’افضل الرسل‘‘بنایا اسی طرح علمی کمالات کا بھی آپ کو وہ کمال بخشا کہ’’ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ یعنی روز ازل سے قیامت تک کے تمام علوم کا خزانہ آپ کے سینہ نبوت میں  بھر دیا ۔


مشکوۃ شریف کی حدیث ہے کہ : حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ میں  نے اپنے رب عزوجل کو بہترین صورت میں  دیکھا تو اس نے مجھ سے فرمایا کہ اوپر والی جماعت کس چیز میں  بحث کر رہی ہے؟ تو میں  نے عرض کیا کہ یا اللہ ! عزوجل تو ہی اس کو زیادہ جاننے والا ہے پھر خدا وند ِعالَم نے اپنی (قدرت کی) ہتھیلی کو میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا تو میں  نے اس کی ٹھنڈک کو اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان میں  پایا اور جو کچھ آسمان و زمین میں  ہے سب کو میں  نے جان لیا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ، باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الحدیث:۷۲۵،ج۱، ص۱۵۲،چشتی)،(مشکوٰۃ ، باب المساجد،ص۷۰)


اللہ عزوجل نے میرے لیے دُنیا کو اٹھا کر اسطرح میرے سامنے پیش فرمادیا کہ میں  تمام دنیاکو اور اس میں  قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ان سب کو اسطرح دیکھ رہا ہوں  جس طرح میں  اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب، المقصد الثامن، الفصل الثالث، ج۱۰، ص۱۲۳، وحلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب، الحدیث۷۹۷۹، ج۶،ص۱۰۷۔چشتی)(زرقانی علی المواہب ، جلد۷،ص۲۳۴)


جس طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  ’’اَفضل الْخَلق ‘‘ہیں  اسی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَعلم ُالْخَلق ‘‘ بھی ہیں  کہ تمام جن و انس اور ملائکہ کے علوم سے بڑھ کر آپکا علم ہے یہاں تک کہ حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  نے اپنے قصیدۂ بُردَہ میں  فرمایا کہ : فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا    وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ ۔ (القصیدۃ البردۃ ، الفصل العاشر فی المناجات وعرض الحال)

ترجمہ :  یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم  دنیا اور اس کی سوکن (یعنی آخرت) یہ دونوں آپ کی سخاوت کے ثمرات میں  سے ہیں  اور ’’لوح و قلم کا علم ‘‘ آپ کے علوم کا ایک جزو ہے ۔


تمام ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کیے گئے ہیں جس سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا علم غیب واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے ، لیکن دیوبندی ، وہابی غیر مقلد حضرات کے نزدیک یہ عقیدہ کفر و شرک ہے ، جبکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا اور پھر حضرات اہلسنّت و جماعت ہونے کا دعویٰ بھی کریں تو یہ صریحاََ دھوکہ اور فریب ہے لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ یہ اہلسنّت و جماعت نہیں ۔ (مزید حصہ یازدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...