Thursday 25 November 2021

عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ اوّل

0 comments

 عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کو ابتداء عالم سے لے کر جنتیوں کے جنت میں جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں جانے تک کا تفصیلی علم عطا فرمایا لیکن یہ علم تفصیلی ایک بار نہیں بلکہ آہستہ آہستہ عطا فرمایا ۔ یہ علم شریف اس وقت مکمل ہوا جب قرآن عظیم مکمل طور پر نازل ہو گیا ۔ تکمیل نزول قرآن پر سرکار کے علومِ مذکورہ کی تکمیل ہو گئی اور آپ کا علم شریف صرف قیام قیامت تک محدود نہیں بلکہ ابد الآباد کے بے حد و بے شمار علوم سے آپ کو نوازا گیا ہے لہٰذا اگر تکمیل نزولِ قرآن سے قبل آپ کو کسی بات کا علم نہ ہو تو یہ اہل سنت کے نظریہ کے مخالف نہیں ۔


غیب کی تعریف : غیب کے (لفظی) معنی ہیں : غائب یعنی چُھپی ہوئی چیز ۔ غیب وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اور ہم اپنے حَوّاسِ خَمسہ یعنی دیکھنے ، سُننے ، سونگھنے ، چکھنے اور چُھونے سے نہ جان سکیں اور غور و فکر سے عَقل اُسے معلوم نہ کرسکے ۔ (تفسیرِ بیضاوی،ج 1،ص114 وغیرہ)


استاذی المکرّم حضور غزالئیِ زماں علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جیسے جنَّت اور دوزخ وغیرہ ہمارے لئے اِس وقت غَیب ہیں کیونکہ اِنہیں ہم حوّاس (یعنی آنکھ ، ناک ، کان وغیرہ) سے معلوم نہیں کرسکتے ۔ عقیدہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کو روزِ اوّل سے روزِ آخِر تک کا علم عطا فرمایا ہے ۔ لوحِ محفوظ میں درج تمام عُلُوم نیز اپنی ذات و صفات کی معرفت سے متعلّق بہت اور بے شُمار عُلوم عطا فرمائے ۔ عُلُومِ خمسہ پر مطلع فرمایا جس میں خاص وقتِ قِیامت کا علم بھی شامل ہے ۔ ساری مخلوقات کے احوال اور تمام مَاکَانَ (جو ہو چکا) اور مَایَکُوْنُ (جو ہوگا) کا علم عطا فرمایا ۔ لیکن اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کا علم ’’عطائی (اللہ کریم کا عطا کیا ہوا) ‘‘ہونے کی وجہ سے’’حادِث‘‘ ہے اور اللہ پاک کا علم’’ ذاتی و قدیم‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کا علم ہرگز ہرگز اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر نہیں ۔ (مقالاتِ کاظمی،ج 2،ص111)


علمِ مصطفےٰ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کی تکمیل : یاد رہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے مبارَک علم میں نزولِ قراٰن کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا تھا آخِرکار قراٰنِ پاک کی تکمیل کے ساتھ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم بھی مکمل ہوگیا جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فقیر نے قرآنِ عظیم کی آیاتِ قطعیہ سے ثابت کیا کہ قرآنِ عظیم نے 23 برس میں بتدریج نزولِ اِجلال فرما کر اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جَمِیْع مَاکَانَ وَ مَا یَکُوْن یعنی روزِ اوّل سے روزِ آخِر تک کی ہر شَے ، ہر بات کا علم عطا فرمایا ۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص512،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے علمِ غیب کے متعلق چند ضَروری باتیں ذِہْن نشین فرما لیجئے ، ان شاء اللہ عزوجل نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علمِ غیب سے متعلق شیطانی وسوسوں کا علاج ہوجائے گا ۔


امامِ اہلِ سنّت شاہ امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

(1) بےشک غیرِ خدا کےلئے ایک ذَرّہ کا علم’’ ذاتی‘‘ نہیں اتنی بات’’ضَروریاتِ دین‘‘سے ہے اور اس کا مُنْکِر (یعنی انکار کرنے والا) کافر ہے ۔ (یعنی جو کوئی اللہ پاک کے بتائے بغیر غیرِ خدا کے لئے ایک ذرّے کا بھی علم مانے وہ مسلمان نہیں) ۔

(2) بے شک غیرِ خدا کا عِلم اللہ تعالیٰ کی معلومات کا اِحاطہ نہیں کرسکتا ، برابر ہونا تو دُور کی بات ۔ تمام اَوّلِین و آخِرین ، اَنبیاء و مُرسَلین ، ملائکہ و مُقرّبین سب کے عُلوم مل کر عُلومِ الہِٰیّہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصّے کو ہے کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصّہ دونوں ’’مُتَناہی (Limited) ‘‘ہیں (یعنی ان کی ایک انتہا ہے) اور  ”متناہی“  کو ’’متناہی ‘‘سے نسبت ضَرور ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ کے عُلوم ’’غیرمُتَناہی دَر غیرمتناہی دَر غیرمتناہی (Unlimited) ‘‘ہیں (یعنی ان کی کوئی انتہا ہے ہی نہیں) اور مخلوق کے عُلوم اگرچہ عرش و فرش، مشرق و مغرب، روزِ اوّل تا روزِ آخِر جملہ کائنات کو محیط ہوجائیں پھر بھی ’’مُتَناہی (Limited) ‘‘ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں (boundaries) ہیں ، روزِ اوّل اور روزِ آخِر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب’’ مُتَناہی (Limited) ‘‘ہے ۔

(3) بِالفعل غیرِمُتَناہی کا علمِ تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا تو جُملہ عُلومِ خَلق کو علمِ الٰہی سے اصلاً نسبت ہونی محالِ قطعی ہے نہ کہ مَعَاذَ اللہ تَوَہُّمِ مساوات ۔ (یعنی جس بارِی تعالیٰ کے علم کی حقیقی طور پر کوئی حَد اور کِنارہ نہیں ہے اس کا سارے کا سارا علم مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا ، لہٰذا جب ساری مخلوق کے سارے عُلوم مل کر بھی اللہ پاک کے علم سے کسی طرح بھی نسبت نہیں رکھتے تو معاذاللہ انہیں اللہ پاک کے علم کے برابر ہونے کا وہم و گمان بھی کیسے ہوسکتا ہے)

(4) اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیئے سے انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو کثیر و وافِر غیبوں کا عِلم ہے یہ بھی ضَروریاتِ دین سے ہے جو اِس کا منکر ہو کافر ہے کہ سِرے سے نَبُوّت ہی کا منکر ہے ۔

(5)اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضلِ جلیل میں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حصّہ تمام انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور تمام جہان سے اَتَمّ (کامل ترین) اور اعظم (سب سے بڑا) ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیبِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شُمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص450،451،چشتی)


حضرت سیّدنا انس بِن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : سورج ڈھلنے پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لائے ، نمازِ ظہر ادا فرمائی، پھر منبر پر کھڑے ہوکر قِیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں بڑے بڑے اُمور ہیں ۔ پھر ارشاد فرمایا : جو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو تو پوچھ لے اور تم مجھ سے جس کسی شے کے بارے میں سوال کرو گے میں تمہیں اسی جگہ بتا دوں گا ۔ تو لوگ زار و قِطار رونے لگے ۔ بہت زیادہ روئے اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عبدُاللہ بن حُذافَہ سَہْمی رضی اللہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوکر عرض گزار ہوئے : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : تمہارا باپ حُذافہ ہے ۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گُھٹنوں کے بل کھڑے ہوکر عرض کی : ہم اللہ پاک کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نبی ہونے پر راضی ہیں ۔ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموش ہوگئے، پھر فرمایا: ابھی مجھ پر جنّت اور جہنّم اس دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں، میں نے ایسی اچّھی اور بُری چیز نہیں دیکھی ۔ (بخاری ،ج1، ص200، حدیث: 540)


غیب کی لغوی تعریف


غیب کا معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ ۔ (المنجد، 892)


امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : غیب مصدر ہے ۔ سورج آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو کہتے ہیں غابت الشمس سورج غائب ہو گیا ۔ کل غائب عن الحاسه وعما یغیب عن علم الانسان بمعنی الغائب یقال للشئ غیب وغائب باعتباره بالناس لا باﷲ تعالی فانه لا یغیب عنه الشئ قوله عالم الغیب والشهادة أی ما یغیب عنکم وما تشهدونه والغیب في قوله ’’یومنون بالغیب‘‘ ما لا یقع تحت الحواس ولا تقتضیه بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیاء علیهم السلام وبدفعه یقع علی الانسان اسم الالحاد ۔

ترجمہ : جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔ کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ اﷲ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے ﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یومنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جا سکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں ۔ (مفردات راغب : 367،چشتی)


نبی کا معنی


عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے ۔ غیب کی خبریں دینے والا اور ظاہر ہے کہ غیب کی خبر وہی دے گا جسے غیب کا علم ہو گا بغیر علم کے خبر جھوٹی ہوتی ہے جبکہ نبی کی خبر قطعی سچی ہوتی ہے ۔


لفظ ’’نبی‘‘ منقول عرفی ہے یعنی اسے لغت سے عرف شرع میں نقل کیا گیا ہے۔ پہلے ہم لفظ نبی کے لغوی معنی بیان کرتے ہیں جس کے ضمن میں اس کے ماخذ (نبوّۃ) کے معنی پر بھی روشنی پڑ جائے گی۔ کیوں کہ مشتق میں اس کے ماخذ کے معنی کا پایا جانا ضروری ہے ۔


لفظ ’’نبی‘‘ کے معنی : نبی کے معنی (1) مُخْبِر یعنی خبر دینے والا (2) مُخْبَر یعنی خبر دیا ہوا  (3) طریق واضح (4) ایک جگہ سے دوسری جگہ نکلنے والا (5) ایک جگہ سے دوسری جگہ نکالا ہوا (6) پوشیدہ اور ہلکی آواز سننے والا (7) ظاہر (8) رفعت اور بلندی والا ۔


لفظ نبی کے منقولہ بالا آٹھ معنی لغوی ہیں اور عرف شرع میں نبی اس مقدس انسان کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا ایسا مصطفیٰ، مخلص اور برگزیدہ ہو جسے اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ میں نے تجھے فلاں قوم یا تمام لوگوں کی طرف اپنا مبلغ ، پیغامبر اور نبی بنایا ہے ، یا میری طرف سے میرے بندوں کو میرے احکام پہنچا دے یا اس قسم کے اور الفاظ جو ان معنی کا فائدہ دیتے ہیں۔ جیسے بعثتک ونبئھم اللہ تعالیٰ اسے فرمائے اور ’’نبوۃ‘‘ عرف شرع میں ’’اخبار عن اللّٰہ‘‘ کو کہتے ہیں۔ بعض علماء نے ’’اطلاع علی الغیب‘‘ سے بھی نبوت کی تفسیر کی ہے۔ جیسا کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں اور علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب لدنیہ میں ارقام فرمایا ہے ۔


عربی کی لغت کی معتبر کتاب المنجد میں ہے : والنبوه الاخبار عن الغیب أو المستقبل بالهام من ﷲ الاخبار عن ﷲ وما یتعلق به تعالی ۔

ترجمہ : نبوت کا مطلب ہے ﷲ کی طرف سے الہام پا کر غیب یا مستقبل کی خبر دینا ۔ نبی کا مطلب ﷲ اور اس کے متعلقات کی خبر دینے والا ۔ (المنجد، 784)


النبی المخبر عن ﷲ لانه انباء عن ﷲ عزوجل فعیل بمعنی فاعل ۔

ترجمہ : نبی کا معنی ﷲ کی خبر دینے والا کیونکہ نبی نے ﷲ کی خبر دی۔ فعیل فاعل کے معنی میں ۔ (لسان العرب لابن منظور، افریقی، 14 : 9)


النباء (محرکه الخبر) وهما مترادفان وفرق بینهما بعض وقال الراغب النباء خبر ذو فائده عظیمة یحصل به علم او غلبة الظن ولا یقال للخبر فی الاصل نباحتی یتضمن هذه الاشیاء الثلاثة ویکون صادقا و حقه ان یعتری عن الکذب کالمتواتر و خبر ﷲ وخبر الرسول صلی الله علیه وآله وسلم و نتضمنه معنی الخبر یقال انباته بکذا او لتضمنه معنی العلم یقال انباته کذا والنبی المخبر عن ﷲ فان اﷲ تعالی اخبره عن توحیده واطلعه علی غیبه واعلمه انه نبیه ۔ (تاج العروس شرح القاموس للزبیدی، 1 : 121،چشتی)

ترجمہ : نبا (حرکت کے ساتھ) اور خبر مترادف ہیں ۔ بعض نے ان میں فرق کیا ہے ۔ امام راغب کہتے ہیں نبا بڑے فائدے والی خبر ہے ۔ جس سے علم قطعی یا ظن غالب ہے جس سے علم قطعی یا ظن غالب حاصل ہو جب تک ا ن تین شرائط کو متضمن نہ ہو خبر کو نبا نہیں کہا جاتا اور یہ خبر سچی ہوتی ہے ۔ اس کا حق ہے کہ جھوٹ سے پاک ہو جیسے متواتر اور ﷲ و رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خبر چونکہ نبا خبرچونکہ نبا خبر کے معنی کو مضمن ہوتی ہے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے میں نے اسے خبر بتائی اور چونکہ معنی علم کو متضمن ہوتی ہے اس لئے کہاجاتا ہے کہ میں نے اسے یوں خبر بتائی ۔ نبی ﷲ کی طرف سے خبر دینے والا، بے شک ﷲ نے آپ کو اپنی توحید کی خبر دی اور آپ کو اپنے غیب پر اطلاع دی اور آپ کو آپ کا نبی ہونا بتایا ۔


لفظ نبی کے یہ آٹھ لغوی معنی جو بیان کئے گئے ہیں وہ سب عرفی نبی میں پائے جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے خبر دار کیا جاتا ہے اس لئے مُخْبَر ہے اور ارشاداتِ خداوندی کی خبر اپنی امت کو دیتا ہے لہٰذا مُخْبِر ہے اور اس کی ذات نجات اخروی کا روشن راستہ اور معرفت خداوندی کا وسیلہ ہے اس لئے وہ طریق واضح ہے۔ اللہ کا نبی دشمنوں کی انتہائی ایذا رسانی کے بعد بحکم ایزدی ایک جگہ سے نکل کر دوسری جگہ جاتا ہے، یا کفار کی طرف سے شدید عداوت کی بناء پر بظاہر اس کا اخراج عمل میں آتا ہے اس لئے وہ خارج اور مُخْرَج بھی ہے ۔ نبی وحی الٰہی کی صوت خفی اور ہلکی آواز سنتا ہے لہٰذا اس میں صوت خفی سننے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ نبی علامات نبوت معجزات و آیات کا حامل ہونے کی وجہ سے کمال ظہور کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے ، اس لئے وہ ظاہر بھی ہے ۔ جسمانی اور روحانی اعتبار سے اللہ کے نبی کا مقام سب سے بلند ہوتا ہے اس لئے اس میں رفعت اور بلندی کے معنی بھی موجود ہے ۔ نبوت اور نبی کے معنی کی یہ تفصیلات ہم نے حسب ذیل کتب سے اخذ کی ہیں ۔ مسامرہ ، نبراس ، شرح مواقف، مفردات امام راغب اصفہانی ، اقرب الموارد ، شفاء قاضی عیاض اور مواہب لدنیہ ۔


مسامرہ میں ہے : واما اصلہ لغۃ فلفظہ بالہمز وبہٖ قرأ نافع من النباء وہو الخبر فعیل بمعنی اسم الفاعل ای منبِّئٌ عن اللّٰہ او بمعنی اسم المفعول ای مُنَبَّأً لان الملک ینبئہم عن اللّٰہ بالوحی وبلا ہمزوبہ قرأ الجمہور وہو اما مخفف المہموز بقلب الہمزۃ واواً ثم ادغم الیأفیہا واما من الـنبـوۃ او النبـــاوۃ بفتح النون فیہا ای الارتفاع فہو ایضأفعیل بمعنی اسم الفاعل او بمعنی اسم المفعول لان النبی ا مرتفع الرتبۃ علی غیرہٖ او مرفوعہا ۔ (مسامرہ جلد دوم طبع مصر ص ۸۳،چشتی)

ترجمہ : ازروئے لغت لفظ نبی کی اصل ہمزہ سے ہے ۔ یہی نافع کی قرأت ہے کہ انہوں نے اسے نباء سے مشتق مانا ہے جس کے معنی ’’خبر‘‘ ہیں ۔ (اس تقدیر پر) لفظ نبی فعیل کے وزن پر اسم فاعل ہے ، جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دینے والا یا اسم مفعول ہے جس کے معنی ہیں منجانب اللہ خبر دیا ہوا ۔ اس لئے کہ فرشتہ نبی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ساتھ خبر دیتا ہے اور بلا ہمزہ کے بھی اس کی اصل ہو سکتی ہے ۔ جمہور کی قرأت یہی ہے اور اس قول پر لفظ نبی کو مہموز کا مخفف مانا جائے گا بایں طور کہ اس کا ہمزہ واؤ سے بدلا گیا ہے پھر اس میں یأ کو مدغم کر دیا گیا ہے ۔ یا یہ کہا جائے کہ وہ ’’نبوۃ‘‘ یا ’’نبـأۃ‘‘ سے ماخوذ ہے ۔ ان دونوں میں نون مفتوح ہے ۔ ان دونوں لفظوں کے معنی ہیں ’’ارتفاع‘‘ اس تقدیر پر بھی لفظ نبی فعیل کے وزن پر اسم فاعل یا اسم مفعول ہے ۔ کیوں کہ نبی اپنے غیر پر بلند مرتبہ رکھنے والا ہوتا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ رتبہ کے اعتبار سے بلند کیا ہوا ہوتا ہے ۔


نبراس میں ہے : فالنبی مشتق من النبأۃ بفتح الباء وہو بمعنی الاخبار او الظہور او من النبأۃ بسکون الباء وہو الصوت الخفی وکل من المعانی الثلا ثۃ صحیح فی النبی لانہ مخبر وظاہر الحقیقۃ وسامع الوحی ۔ (نبراسی ص ۸)

ترجمہ : پس لفظ نبی ’’نباء بفتح الباء‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’اخبار یا ظہور‘‘ یا ’’نبأۃ بسکون الباء‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’پوشیدہ آواز‘‘ اور یہ تینوں معنی نبی میں پائے جاتے ہیں کیوں کہ وہ خبر دینے والا بھی ہے اور علاماتِ نبوت کے ساتھ بحیثیت نبی ہونے کے ظاہر الحقیقت ہے اور وحی الٰہی وصوت خفی کو سننے والا ہے ۔


شرح مواقف میں ہے : المقصد الاول فی معنی النبی، وہو لفظ منقول فی العرف عن مسماہ اللغوی الی معنی عرفی اما المعنی اللغوی (فقیل ہو المنبیٔ) واشتقاقہ (من النباء) فہو حینئذٍ مہموز لکنّہ یخفف ویدغم وہذا المعنی حاصل لمن اشتہر بہذا الاسم (لانبائہ عن اللہ تعالیٰ وقیل) النبی مشتق (من النبوۃ وہو الارتفاع) یقال تنبأ فلان اذا ارتفع وعلا والرسول عن اللّٰہ تعالیٰ موصوف بذالک (لعلو شانہ) وسطوع برہانہ (وقیل من النبی وہو الطریق لانہ وسیلۃ الی اللّٰہ تعالیٰ ۔ (شرح مواقف جلد ۸ صفحہ ۲۱۷ـ۔۲۱۸ طبع مصر،چشتی)

ترجمہ : پہلا مقصد نبی کے معنی میں لفظ نبی اپنے لغوی مسمیٰ سے عرف شرع میں معنی عرفی کی طرف منقول ہے اس کے لغوی معنی کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ نبی کے معنی ہیں خبر دینے والا اور اس کا اشتقاق النبأ سے ہے ۔ ایسی صورت میں وہ مہموز ہے لیکن اسے مخفف یا مدغم کر دیا جاتا ہے اور یہ معنی یعنی ’’خبر دینے والا‘‘ ہر اس مقدس شخص میں پائے جاتے ہیں جو نبی کے نام سے مشہور ہے کیوں کہ وہ منجانب اللہ خبر دیتا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ نبوۃ سے مشتق ہے جن کے معنی ہیں ’’ارتفاع‘‘ عرب کے محاورہ میں تنبأ فلان اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی شخص رفیع المرتبت اور بلند رتبہ ہو جائے اور اللہ کا نبی اپنی شان کی بلندی اور برہانِ نبوت کی روشنی کی وجہ سے اس کمال کے ساتھ موصوف ہوتا ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ اس لفظ نبی سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ’’الطریق‘‘ یعنی راستہ کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ ہوتا ہے ۔


مفردات میں ہے : والنبأ الصوت الخفی ۔ (مفردات ص ۵۰۰)

ترجمہ : نباء (بسکون الباء) صوت خفی کو کہتے ہیں ۔

اسی مفردات امام راغب میں ہے : النبی بغیر ہمزہ …… وَقَالَ بَعْضُ الْعُلمَائِ ھُوَ مِنَ النُّبُوَّۃِ اَیِ الرِّفْعَۃِ وَسُمِّیَ نَبِیًّا لِرِفْعَۃِ مَحَلِّہٖ عَنْ سَائِرِ النَّاسِ اَلْمَدْلُوْلِ عَلَیْہِ ’’وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا‘‘ …… والنبوۃ والنباوۃ الارتفاع …… (مفردات ص ۵۰۰ طبع مصر)

ترجمہ : بعض علماء نے کہا ہے کہ ’’نبی‘‘ ’’نبوۃ‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں رفعت و بلندی اور نبی کا نام نبی اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس کا مقام تمام لوگوں سے اونچا ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا قول ’’وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا‘‘ دلالت کرتا ہے اور (لغت میں) ’’نبوۃ‘‘ اور ’’نباوۃ‘‘ کے معنی ارتفاع ہیں ۔


اقرب الموارد میں ہے : (النبوۃ) اسم من النبیٔ وہی الاخبار عن اللّٰہ تعالیٰ ویقال النبوۃ بالقلب والادغام ۔ (اقرب الموارد جلد ۲ ص ۱۲۵۹ طبع مصر،چشتی)

ترجمہ : ’’النبوۃ‘‘ اسم ہے ’’النبیٔ‘‘ سے اور وہ نبوۃ اخبـار عن اللّٰہ تعالیٰ کے معنی میں ہے اور اس لفظ النبوۃ کو قلب و ادغام کے ساتھ النبوۃ بھی کہا جاتا ہے ۔

اسی اقرب الموارد میں ہے : النبی ایضاً الخارج من مکان الیٰ مکان فعیل بمعنی فاعل وقیل المخرج فیکون فعیلا بمعنی مفعول ۔ (اقرب الموارد جلد ۲ ص ۱۰۹ طبع مصر)

ترجمہ : ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نکلنے والے کو بھی ’’نبی‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ فعیل کے وزن پر اسم فاعل ہے اور ’’ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نکالے ہوئے‘‘ کو بھی ’’نبی‘‘ کہا گیا ہے ۔ اس تقدیر پر فعیل بمعنی مفعول ہو گا ۔


لفظ ’’نبی‘‘ کے عرفی معنی


شرح مواقف میں ہے : (واما) مسماہ (فی العرف فہو عند اہل الحق) من الاشاعرۃ و غیرہم الملیین (من قال لہ اللّٰہ) تعالیٰ ممن اصطفاہ من عبادہ ارسلنٰک الی قوم کذا اوٰلی الناس جمیع او بلغہم عنی ونحوہ من الالفاظ المفیدۃ لہذا المعنی کبعثتک ونبئہم ۔ (شرح مواقف جلد ۸ ص ۲۱۸ طبع مصر)

ترجمہ : حق پرست علماء اشاعرہ وغیرہم اہل ملت کے نزدیک عرف شرع میں لفظ نبی کا مسمیٰ وہ مقدس شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایسا برگزیدہ ہو جسے اللہ تعالیٰ فرمائے کہ میں نے تجھے اپنا پیغامبر بنا کر فلاں قوم یا تمام لوگوں کی طرف بھیجا یا میری طرف سے تو انہیں میرے احکام پہنچا دے اور اس طرح کے الفاظ جن کا مفاد یہی معنی ہوں جیسے بعثتک (میں نے تجھے مبعوث کیا) نبئہم (میری طرف سے میرے بندوں کو خبر پہنچا دے) ۔


شفاء قاضی عیاض میں نبوۃ شرعیہ کی تفسیر ان الفاظ میں فرمائی : ’’النبوۃ التی ہی الاطلاع علی الغیب‘‘ (شفاء شریف ص ۷۳)

ترجمہ : وہ نبوت جو اطلاع علی الغیب ہے ۔

بعینہٖ یہی عبارت مواہب لدنیہ میں علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارقام فرمائی ہے ۔ (مواہب لدنیہ جلد ۱ ص ۲۸۱)


کلمہ طیبہ لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ نماز ، زکوٰۃ ، حج ، حج کے مہنے دن جگہ ، زکوٰۃ کی شرح و شرائط، اور نماز (صلوٰۃ) کی شکل و صورت سب غیب تھا صرف اور صرف رسول ﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتانے سے ہمیں ان کی تفسیر و تشریح معلوم ہوئی۔ جو شخص نبی کے علم غیب کا انکار کرے وہ ان شرعی احکام کو قرآن یا لغت کی مدد سے ثابت کر کے دکھائے۔ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہنے سے پہلے کہ نبی کو ﷲ نے غیب کا علم نہیں دیا ۔ اس کے نتائج اور اپنی عاقبت پر نگاہ رکھے ۔ امت کو گمراہ نہ کرے۔ رہی یہ حقیقت کہ علم ﷲ کی عطا سے ہے تو ہم ہزار بار اعلان کرتے ہیں کہ کسی مخلوق کی نہ ذات مستقل ہے نہ کوئی صفت ، سب ﷲ کی عطا و کرم سے ہے مگر جو ہے اسے تسلیم تو کرنا فرض ہے۔ یہی ایمان ہے، یہی دیانت ہے ۔ (بقیہ حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔