Monday 29 November 2021

استعانت اور وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ حصّہ ہفتم

0 comments

 استعانت اور وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ حصّہ ہفتم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : شریعتِ مطہرہ  کی روشنی میں اللہ والوں سے مدد مانگنا جائز ہے ۔ اللہ عزوجل کے نیک بندوں سے مدد مانگنے کے جواز پر قرآن و احادیث شاہد ہیں ۔ اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ۔ ترجمہ : اے مسلمانو ! تمہار ا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے جو نماز قائم رکھتے اور زکوۃ دیتے  ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔ (سورۃ المائدۃ،آیت 55)


 امام احمد بن محمد الصاوی علیہ الرحمۃ (متوفی 1241ھ) تفسیر صاوی میں آیت ، وَلا تَدْعُ مَعَ اللَّہِ اِلہاً آخَرَ ، کے تحت لکھتے ہیں : المراد بالدعاء العبادۃ وحینئذ فلیس فی الآیۃ دلیل علی ما زعمہ الخوارج من ان الطلب من الغیر حیا او میتا شرک فانہ جھل مرکب لان سوال الغیر من حیث اجراء اللہ النفع او الضرر علی یدہ قد یکون واجبا لانہ من التمسک بالاسباب ولا ینکر الاسباب الا جحود او جھول ۔ ترجمہ : آیت میں پکارنے سے مراد عبادت کرنا ہے ، لہٰذا اس آیت میں ان خارجیوں کی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ غیر خدا سے خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ کچھ مانگنا شرک ہے ، خارجیوں کی یہ بکواس جہل مرکب ہے ،کیونکہ غیر خدا سے مانگنا اس طرح کہ رب ان کے ذریعے سے نفع و نقصان دے ، کبھی واجب بھی ہوتا ہے کہ یہ طلب اسباب ہے اور اسباب کا انکا ر نہ کرے گا مگر منکر یا جاہل ۔(تفسیر صاوی،جلد4،صفحہ1550،مطبوعہ لاھور)


استمداد اور استعانت کا معنی ’’طلب معونت‘‘ یعنی مدد طلب کرنا ہے ۔ ’’استغاثہ‘‘ فریاد خواہی کو کہتے ہیں (عامۂ لغات ، نیز دیکھیں الجواہر المنظم صفحہ ۱۲۴ المجمع الثقافی ،ابو ظبی) اور توسل ، وسیلہ ، تشفع یہ استمداد اور استعانت کے قریب المعنی الفاظ ہیں جن کا معنی تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ۔ (حاشیہ الصاوی علی الجلا لین ، ج۱؍ ص ۲۸۲) یہ بھی استعانت کی ایک نوع ہے ۔ اور ’توحید‘’شرک‘ کی ضد ہے ، توحید کا حقیقی مفہوم الوہیت اور لوازمِ الوہیت کو صرف اللہ عز و جل کےلیے مخصوص ماننا اور اسی کی ذات میں منحصر سمجھنا ہے ۔ بلفظ دیگر اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات و صفات میں یکتا و منفرد اعتقاد کرنا اور شریک سے پاک ماننا ہے ۔ (حاشیہ صحیح البخاری ،ج۲؍ ص ۱۰۹۶، تعریف علامہ بدرالدین عینی حنفی)


اسلام کی ابتدائی تین صدیوں سے لے کر ساتویں صدی ہجری تک تمام اہل اسلام میں انبیاء و صالحین سے طلبِ معونت ، فریاد خواہی اور قضائے حاجت کےلیے انہیں وسیلہ بنانا ایک حقیقتِ ثابتہ رہی اور بلا تفریق جمہور مسلمین اس کے جواز و استحسان پرقولاً و عملاً متحد و متفق رہے ۔ خیر القرون میں صحابہ و تابعین و تبع تابعین رضی اللہ عنہم ، کتاب و سنت کے حاملین خود ساتویں صدی ہجری کے علمائے راسخین و فقہاء و محدثین علیہم الرحمہ کا یہی موقف رہا ، اور بے کسی اختلاف و نزاع کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحیح و حقیقی جانشین آج بھی اسی پاکیزہ موقف پر گامزن ہیں ۔ ان میں سے کسی نے بھی انبیاء و صلحاء سے’’ استمداد و توسل ‘‘کو اسلامی تصورِ توحید کے منافی نہیں جانا۔چنانچہ اسلامی معتقدات ومعمولات کے شارح حجۃ الاسلام امام غزالی (متوفی ۵۰۵؁ھ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : مَنْ یُّسْتَمَدُّ فِیْ حَیَا تِہٖ یُسْتَمَدُّ بَعْدَ وَفَا تِہٖ ۔(احیاء العلوم للغزالی)

ترجمہ : جس سے زندگی میں مدد مانگی جاتی ہے بعد وفات بھی اس سے مدد مانگی جائے گی ۔


امام احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی شافعی مکی علیہ الرحمہ (۹۷۴؁ھ)’’الجوہر المنظم‘‘ میں چند حدیثیں نقل فرماتے ہیں جو استمداد اور توسل کے جواز و استحباب کی دلیل ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں : ہر طرح کے ذکر خیر میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ اور ان سے استعانت کی جاتی ہے ۔ آپ کے اس دنیا ئے فانی میں ظہور سے قبل بھی اور بعد ظہور بھی ، آپ کی حیات ظا ہری میں بھی اور بعد وصال بھی ، یوں ہی میدان قیامت میں بھی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں گے اور یہ ان امور میں سے ہے جن پر اجماع قائم ہے اور اس تعلق سے اخبار تواتر کی حد تک ہیں ۔ (الجواہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبی المکرم ؍ص۱۷۸ ابو ظبی،چشتی)


فقیر نے صرف دو اقوال نقل کئے ، اگر علمائے راسخین کے اس قسم کے اقوال نقل کیے جائیں تو ایک کامل کتاب تیار ہوسکتی ہے ۔پوری جماعت اہل سنت کی جانب سے مسئلہ’’ استمداد اور توسل ‘‘کی وکالت کے لئے یہ دو اقتباسات کافی ہیں ۔’’استمداد وتوسل ‘‘کا یہ نظریہ ہر دور اور ہر قرن میں موجود رہا ۔اس میں پہلا رخنہ ڈالنے والا اور اس نظریۂ فکر کا پہلا منکر (نیز غیر اللہ سے استمداد وتوسل کو شرک وبت پرستی سے تعبیر کرنے والا) ساتویں صدی ہجری کے وسط کی پیدا وار ابن تیمیہ ہے(جس کی ولادت ۶۶۱ھ؁ میں ہوئی)اس دور کے علماء نے ابن تیمیہ کے دیگر تفردات کی طرح اس مسئلہ میں بھی اس کا شدید ردو ابطال فرمایا ۔ جس کے نتیجہ میں کوئی چار سو سال تک یہ فتنہ زیرِ زمین دفن رہا ۔ بارہویں صدی کے آغاز میں محمد ابن عبد الوہاب نجدی نے اس فتنہ کو ابھارا اور اسی صدی کے اخیر میں شیخ نجدی کے ایک ریزہ خوار مولوی اسماعیل دہلوی دیوبندی وہابی نے ہندوستان میں اس فتنہ کو ہوادی ، اور ان کے سُر سے سر ملاکر آج کل کے غیر مقلدین اس فاسد نظریہ کے داعی بن گئے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ آنے والے سطور میں ہم اہل سنت کے نظریہ استمداد پر ٹھوس دلائل وثبوت فراہم کریں گے ۔


صحیح مسلم شریف وسنن ابی داود وسنن ابن ماجہ میں سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے : كنت أبيت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتيته بوضوئه وحاجته فقال لي: «سل» فقلت: أسألك مرافقتك في الجنة. قال: «أو غير ذلك» قلت: هو ذاك. قال: «فأعني على نفسك بكثرة السجود“ ۔

ترجمہ : میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس رات کو حاضر رہتا ۔ ایک شب حضور کےلیے آب وضو وغیرہ ضروریات لایا (رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بحر رحمت جو ش میں آیا) ارشاد فرمایا : مانگ کیا مانگتا ہے کہ ہم تجھے عطا فرمائیں ۔ میں نے عرض کی : میں حضور سے سوال کرتاہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت عطافرمائیں ۔ فرمایا : کچھ اور؟میں نے عرض کی : میری مراد تو صرف یہی ہے ۔ فرمایا : تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجودسے ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الصلوۃ جلد1،صفحہ353، دار إحياء التراث العربي،بيروت،چشتی)


احادیثِ مبارکہ میں نیک لوگوں سے ڈائریکٹ حاجات و مدد مانگنے کی ترغیب موجود ہے ۔ المعجم الکبیر کی حدیث پاک ہے : اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ ۔

ترجمہ : بھلائی اور حاجتیں ان لوگوں سے مانگوجن کے چہرےعبادت الہٰی سے روشن ہیں ۔ (المعجم الکبیر مجاھد عن ابن عباس جلد 11 صفحہ81 مطبوعہ القاھرۃ )


مسنداسحاق بن راہویہ فضائل الصحابۃ لاحمدبن حنبل ، مسندابی یعلی موصلی ، المعجم الاوسط ، الاسماء وا لصفا للبیہقی ، شعب الایمان میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔ المستدرك على الصحيحين للحاكم میں ہے : حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اطلبوا المعروف من رحماء أمتي تعيشوا في أكنافهم ۔

ترجمہ : میرے نرم دل امتیوں سے نیکی و احسان مانگو ، ان کے ظل عنایت میں آرام کرو گے ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم کتاب الرقاق جلد 4 صفحہ 357 دار الكتب العلمية بيروت)


مکارم الاخلاق  للخرائطی ، مسند الشہاب للقضاعی ، ابن حبان ، التاریخ للحاکم میں ہے :(واللفظ للاول) اطلبوا الفضل عند الرحماء من أمتي تعيشوا في أكنافهم فإن فيهم رحمتي ۔ ترجمہ : فضل میرے رحم دل امتیوں کے پاس طلب کرو کہ ان کے سائے میں چین کرو گے کہ ان میں میری رحمت ہے ۔ (المنتقى من كتاب مكارم الأخلاق ومعاليها،باب ما جاء في السخاء۔۔الخ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 125 دار الفكر دمشق سورية،چشتی)


امام اہلسنت اعلی حضرت امام الشاہ احمدرضاخان قادری علیہ الرحمۃ اس مضمون کی سترہ احادیث نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : انصاف کی آنکھیں کہاں ہیں ؟ ذرا ایمان کی نگاہ سے دیکھیں یہ سولہ بلکہ سترہ حدیثیں کیسا صاف صاف واشگاف فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے نیک امتیوں سے استعانت کرنے ان سے حاجتیں مانگنے ، ان سے خیر واحسان کرنے کاحکم دیا کہ وہ تمھاری حاجتیں بکشادہ پیشانی روا کریں گے ، ان سے مانگو تو رزق پاؤ گے ، مرادیں پاؤ گے ، ان کے دامن حمایت میں چین کرو گے ان کے سایہ عنایت میں عیش اٹھاؤ گے ۔ یارب ! مگر استعانت اور کس چیز کا نام ہے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا صورت استعانت ہوگی ، پھر حضرات اولیاء سے زیادہ کون سا امتی نیک و رحم دل ہوگا کہ ان سے استعانت شرک ٹھہرا کہ اس سے حاجتیں مانگنے کا حکم دیاجائے گا ، الحمدللہ حق کا آفتاب بے پردہ وحجاب روشن ہوا ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 317 رضافاؤنڈیشن لاھور،چشتی)


مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابان بن صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : إذا نفرت دابۃ أحد کم أو بعیرہ بفلاۃ من الأرض لا یری بھا أحدا، فلیقل : أعینونی عباد اللہ، فإنہ سیعان ۔

ترجمہ : جب تم میں سے کسی کا جانور یا اونٹ بیابان جگہ پر بھاگ نکلے جہاں وہ کسی کو نہیں دیکھتا (جو اس کی مدد کرے) تو وہ یہ کہے : اے اللہ کے بندو میری مدد کرو ۔ تو بے شک اس کی مدد کی جائے گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، جلد6، صفحہ103، مطبوعہ الریاض)


المعجم الکبیرمیں ہے : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : إذا أضل أحدكم شيئا أو أراد أحدكم عونا وهو بأرض ليس بها أنيس ، فليقل : يا عباد الله أغيثوني ، يا عباد الله أغيثوني ، فإن لله عبادا لا نراهم ۔

ترجمہ : جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کردے یااسے مددکی حاجت ہواوروہ ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے : اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو ! میر ی مدد کرو کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنھیں ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے ، (وہ اس کی مدد کریں گے) ۔ (المعجم الكبير للطبراني ،ما أسند عتبة بن غزوان،جلد17،صفحہ 117، مطبوعہ القاهرة)


حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا : إذا انفلتت دابة أحدكم بأرض فلاة فليناد: يا عباد الله احبسوا، يا عباد الله احبسوا ، فإن لله حاضرا في الأرض سيحبسه ۔ترجمہ : جب جنگل میں جانور چھوٹ جائے تو یوں ندا کرے ، اے اللہ کے بندو ! روک دو ، اے اللہ کے بندو ! روک دو ، زمین پراللہ عزوجل کے کچھ بندے حاضر رہتے ہیں ، وہ اس جانور کو روک دیں گے ۔ (مسند أبي يعلى الموصلي جلد 9 صفحہ177 دار المأمون للتراث دمشق،چشتی)


امام اہلسنت امام احمدرضا خان قادری علیہ الرحمہ ان تین احادیث کونقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : یہ حدیثیں کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے روایت فرمائیں قدیم سے اکابر علمائے دین رحمہم اللہ تعالٰی کی مقبول ومعمول ومجرب ہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 318 رضافاؤنڈیشن)


واضح رہے کہ استمدادو استعانت (غیر اللہ سے مدد طلب کرنا) کے وسیع مفہوم میں ’’استغاثہ‘‘ (فریاد خواہی) ’’توسل‘‘تشفع‘‘ مدد کےلیے ندا سبھی شامل ہیں ، یوں ہی انبیاء و صلحاء سے ’’استمداد و توسل‘‘خواہ ان کی ظاہری زندگی میں ہو یا بعد وصال اعمال صالحہ سے استعانت و وسیلہ کی طرح یہ بھی جائز و مستحسن ہے ۔ علامہ ابن حجر ہیتمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ولا فرق بین ذکر التوسل والاستغاثۃ والتشفع والتوجہ بہ ا او بغیرہ من الانبیاء وکذاالاولیاء ۔ (الجواہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبی المکرم ؍ص۱۷۵)

ترجمہ : لفظ توسل واستعانت ذکر کیا جائے ، یا تشفع و توجہ ان میں کوئی فرق نہیں اور یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جائز و درست ہیں یونہی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء سے ۔


جیسا کہ شروع میں فقیر نے عرض کیا کہ آغاز اسلام سے لیکر اب تک ہر دور میں انبیاء ، صلحاء ، اولیاء سے استمداد و توسل کا عام دستور رہا ’ علمائے راسخین اورکتاب وسنت کے حاملین سے ہر قرن وصدی معمور رہی ،مگر کسی نے اس پر نکیر نہیں فرمائی سبھی بالاتفاق جائز ومستحسن اور قضائے حاجات کا ذریعہ سمجھتے رہے پچھلی امت میں بھی ذوات واشخاص اور اعمال سے استمداد واستعانت وتوسل کا دستور رہا ۔


حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مبارکہ سے قبل بھی آپ کی ذات پاک کا وسیلہ لیا گیا ۔ خود حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام نے لیا چنانچہ حاکم نے مستدرک میں ایک روایت نقل کی اور اسے صحیح قرار دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لما اقترفت آدم الخطیئۃ قال یا رب!اسئلک بحق محمد اان غفرت لی۔(المستدرک للحاکم ۲؍ ۶۱۵)

’’حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے بارگاہ خدا میں عرض کیا ،اے میرے پروردگار ! میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگتا ہوں کہ میری مغفرت فرما ۔


اگر یہ وسیلہ و استعانت حرام یا شرک ہوتا تو حضرت آدم علیہ السلام کیوں کر وسیلہ لیتے ؟ پھر حدیث کے آخری ٹکڑے میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’صدقت یا آدم انہ لاحب الخلق الیّ اذا سالتنی بحقہ فقد غفرتک‘‘ اے آدم ! تونے سچ کہا وہ مجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہیں اور جب تونے میرے حبیب کے وسیلے سے دعا مانگی ہے تو میں نے تمہاری مغفرت فرمادی‘‘۔

کیا اب بھی کسی کےلیے یہ گنجائش باقی ہے کہ استمداد و توسل کو تصور توحید کے منافی سمجھے ؟ یہاں نہ تو وسیلہ لینے والا کوئی عامی ہے نہ وہ جس کا وسیلہ لیا جاتا ہے ۔وسیلہ لینے والا بھی نبی ہے جس کا وسیلہ لیا جارہا ہے وہ بھی نبی ہے ۔ اور پھر اللہ عزوجل کا اس وسیلے کو قبول فرماکر مغفرت فرمانا اس کے صحت واستحسان کی مستحکم دلیل ہے ۔ یہ روایت حاکم کے نزدیک صحیح ہے ۔ اس روایت کو امام مالک علیہ الرحمہ نے بھی قبول فرمایا ہے ۔ چنانچہ امام شہاب الدین خفاجی علیہ الرحمہ (متوفی ۸۱۲ھ؁) نے شرح شفاء میں نقل کیا ہے کہ جب خلیفہ منصور نے حج کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار شریف کی زیارت کی مسجد نبوی شریف میں حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ عرض کیا کہ اے ابو عبد اللہ ! میں قبلہ کی طرف رخ کرتا ہوا دعا مانگوں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف چہرہ کروں؟۔ حضرت امام مالک نے فرمایا : ولمَ تصرف وجھک عنہ وھو وسیلتک ووسیلۃ ابیک آدم الی اللہ تعالیٰ بل استقبلہ واستشفع بہ فشفعہ اللہ فیک ۔ ( شرح الشفاء لامام خفاجی ۳؍ ۳۹۸۔ شفاء السقام ؍ ۱۵۴ ۔۔ وفاء الوفاء ص ۱۳۷۶)

’’تم کیوں حضور کی طرف سے اپنا چہرہ پھیروگے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب تمہارا بھی وسیلہ ہیں،تمہارے باپ حضرت آدم کا بھی وسیلہ ہیں؟حضور ہی کی طرف چہرہ کرو اور حضور کی شفاعت کی درخواست کرو اللہ تعالیٰ تمہارے معاملے میں آپ کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔‘‘


سابقہ امتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل و استعانت کا رواج تھا چنانچہ یہود کے بارے میں قرآن کریم میں ہے۔’’اہل کتاب یہود نبی کے وسیلے سے کافروں کے مقابلے میں فتح مانگا کرتے تھے ۔ (سورۃ البقرہ ؍ ۸۹)


اس آیت کی تفسیر میں امام رازی علیہ الرحمہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں : یعنی فتح ونصرت کا سوال کرتے اور یوں دعا مانگتے اے اللہ ! نبی ِامی کے صدقے ہمیں فتح ونصرت عطا فرما ۔ (التفسیر الکبیر ج ۳؍ ص ۲۰)

تفسیر در منثور میں ابو نعیم کے حوالے سے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جو روایت تخریج کی گئی ہے اس میں بنی قریظہ و نضیر کے یہودیوں کی دعا کے الفاظ اس طرح تھے : اے اللہ! ہم تجھ سے تیرے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل کافروں پر فتحیا بی چاہتے ہیں ، تو ہماری مدد فرما تو ان کی مدد ہوئی ۔ (تفسیر دُرِّ منثور ، ج ۱؍ ص ۱۲۵)۔(مزید حصہ ہشتم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔