Thursday, 25 November 2021

عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ پنجم

 عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ پنجم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : قرآن کریم کے کسی مسئلہ سے متعلق بعض آیات کو لینا اور بعض کو ہاتھ ہی نہ لگانا وہ بددیانتی ہے جو تو ریت کے ساتھ یہودی علماء اور انجیل کے ساتھ عیسائی پادری کرتے رہے ۔ جسے قرآن کریم میں تحریف اور کتاب ﷲ کا انکار قرار دیا گیا ہے ۔ ہمارے کچھ لوگوں نے بھی وہی وطیرہ اپنایا ہوا ہے ۔ اپنے مطلب کی بات لینا اور جو اپنے خلاف ہو اسے چھوڑ دینا ۔ اس جرم کی سزا قرآن میں یہ بتائی گئی ہے ۔ کہ ’’دنیا میں ذلت اور آخرت میں سخت تر عذاب ‘‘ ۔ (البقرہ، 2 : 85) ۔ ایسے لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیے کہیں یہی انجام ان کا بھی نہ ہو ۔ قرآن میں یہ سب کچھ بیان کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ یہ کہ ہم ایسی حرکت نہ کریں ورنہ انجام ان سے مختلف نہ ہو گا ۔


علم غیب قرآن سے ثابت ہے


سورہ بقرہ کی ابتداء میں متقین یعنی پرہیزگار لوگوں کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی گئی :


الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ.

البقرہ، 2 : 3

’’جو غیب پر ایمان لاتے ‘‘


وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لائیں۔ غیب اس پوشیدہ حقیقت کو کہا جاتا ہے جو نہ حواس خمسہ سے معلوم ہو نہ عقل سے معلوم ہو۔ اس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کی پہلی شرط ہے۔ ایمان تصدیق کو کہا جاتا ہے۔ تصدیق علم کے بغیر نہیں ہو سکتی تو غیب پر ایمان کا مطلب ہوا غیب کی تصدیق۔ غیب کی تصدیق غیب کے علم کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ بغیر علم تصدیق کرنا جھوٹ ہے مثلا ﷲ کی ذات و صفات، ملائکہ، انبیائ، قبر، حشر نشر، قیامت، جنت اور جہنم کی تفضیلات وغیرہ وہ حقائق ہیں جو نہ حواس سے معلوم ہیں نہ عقل سے۔ ہر مسلمان صرف نبی کے بتانے سے ان پر ایمان لاتا ہے ہے مثلاً قبر میں پہلا سوال، دوسرا سوال، تیسرا سوال، منکر نکیر وغیرہ ان حقائق کو سچا یقین کرنا تصدیق ہے اور یہی ایمان ہے۔ ہر مسلمان ان حقائق کو جانتا بھی ہے اور دل سے حق سچ مانتا بھی ہے۔ یہ سب علم غیب ہے جو نبی کے ذریعے ہمیں ملا۔ اب اگر کوئی شخص نبی کے لئے ہی علم غیب نہ مانے تو وہ نبی کی بات اور دعوت کی تصدیق کیسے کرے گا؟ نبی ان حقائق کی خبریں دیں گے اور وہ کہے گا آپ کو غیب کا کیا پتہ؟ اورجس کے پاس علم غیب نہیں اس کی غیبی خبر کا کیا اعتبار؟ دیکھا آپ نے ایمان کے یہ دشمن کس طرح مسلمانوں کو ایمان سے محروم کر رہے ہیں۔ قرآن میں ﷲ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا :


عالم الغیب والشهادة.

الحشر، 59، 22

یعنی جو کچھ مخلوق کے سامنے ہے ﷲ تعالیٰ اس کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ مخلوق سے پوشیدہ ہے ۔ ﷲ اس کو بھی جاننے والا ہے۔ ﷲ سے کبھی کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی، نہ ہے، نہ ہو گی۔


وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاءِ.یونس، 10 : 61

’’ اور آپ کے رب (کے علم) سے ایک ذرّہ برابر بھی (کوئی چیز) نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس (ذرہ) سے کوئی چھوٹی چیز ہے ‘‘


قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں علم غیب کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی، کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ گرتے کو تنکے کا سہارا اور وہ ان لوگوں سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پرامید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئے قرآن کریم میں فرمایا :


قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ الْغَیْبَ اِلاَّ ﷲُ ۔ النمل، 27 : 65

’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے۔ ‘‘

انبیاء کے لئے علم غیب کا ثبوت


اب یہ سوال پیدا ہوا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پہلے انبیاء کرام بھی تو غیب کی باتیں بتاتے تیں تو ان کو بھی دوسروں کی طرح سمجھیں حالانکہ انبیاء کرام کی غیبی باتیں تو سو فیصد سچی ہوتی ہیں۔ اگر انبیاء کرام کی بتائی ہوئی باتیں حقیقت ہیں تو شاید انبیاء کرام خود غیب جان لیتے ہیں۔ ان کی باتیں حق سچ ہوتی ہیں۔ اس خیال کی نفی کرنے کے لئے رسول ﷲ اور دیگر انبیاء سے بذات خود غیب دانی کی نفی کروائی۔


وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ ۔ الانعام، 6 : 50

’’اور نہ میں اَز خود غیب جانتا ہوں‘‘


جب انبیاء کرام بھی خود بخود غیب نہیں جانتے تو آحر ان کے علم غیب کی بنیاد کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے انبیاء کو غیب کا علم عطا کیا۔


وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاo

النساٗ، 4 : 113

’’اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔ ‘‘


مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo ۔ آل عمران، 3 : 179

’’اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔ ‘‘


عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo ۔ الجن، 72 : 26۔ 27

’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔ ‘‘


نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں


وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo ۔ التکویر، 81 : 24

’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔ ‘‘


علم غیب حدیث پاک سے


رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : رایت ربی عزوجل فی أحسن صوره قال فیم یختصم الملاء الاعلی قلت أنت أعلم قال فوضع کفه بین کتفی فوجدت بردها بین ثدیی فعلمت ما فی السموات والارض وتلا وکذلک نری ابراهیم ملکوت السموات والارض ولیکون من الموقنین.(دارمی، ترمذی، السنن، کتاب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ ص، 5 / 342، الرقم : 3233،چشتی)

’’میں نے اپنے عزت و جلال والے رب کو بہترین صورت میں دیکھا۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا عالم بالا کے فرشتے کسی بات میں جھگڑ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی تو بہتر جانتا ہے پھر اس نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا پر میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی، ’’ہم یونہی دکھاتے ہیں ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت کہ وہ یقین والوں میں سے رہیں۔ ‘‘


دوسری روایت میں ہے


فتجلّی لی کلَ شیئیٍ وعرفتُ ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر القرآن، باب سورۃ، ص، الرقم : 3235)

’’سو میرے لئے ہر شے روشن ہو گئی اور میں نے ہر چیز پہچان لی۔ ‘‘


فقیر نے قرآن و حدیث سے نبی علیہ السلام کا علم الغیب آپ کے سامنے پیش کر دیا اور نفی کی آیات کی توجیہہ بھی کر دی۔ ﷲ تعالیٰ اور رسول کریم کے کلام میں اختلاف نہیں ہوتا بشرطیکہ دل میں حوف خدا ہو اور آدمی پوری حدیث پر نظر رکھے ۔ بعض کو ماننا اور بعض کا انکار مومن کی شان نہیں ۔ ﷲتعالیٰ سب کو ہدایت دے۔ ‘‘


نبی کا معنی


عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے۔ غیب کی خبریں دینے والا اور ظاہر ہے کہ غیب کی خبر وہی دے گا جسے غیب کا علم ہو گا بغیر علم کے خبر جھوٹی ہوتی ہے جبکہ نبی کی خبر قطعی سچی ہوتی ہے۔ عربی کی لغت کی معتبر کتاب المنجد میں ہے۔


والنبوه الاخبار عن الغیب أو المستقبل بالهام من ﷲ الاخبار عن ﷲ وما یتعلق به تعالی ۔ (المنجد، 784)

’’نبوت کا مطلب ہے ﷲ کی طرف سے الہام پا کر غیب یا مستقبل کی خبر دینا۔ نبی کا مطلب ﷲ اور اس کے متعلقات کی خبر دینے والا۔ ‘‘


النبی المخبر عن ﷲ لانه انباء عن ﷲ عزوجل فعیل بمعنی فاعل ۔ (لسان العرب لابن منظور، افریقی، 14 : 9،چشتی)

’’نبی کا معنی ﷲ کی خبر دینے والا کیونکہ نبی نے ﷲ کی خبر دی ۔ فعیل فاعل کے معنی میں ۔ ‘‘


النباء (محرکه الخبر) وهما مترادفان وفرق بینهما بعض وقال الراغب النباء خبر ذو فائده عظیمة یحصل به علم او غلبة الظن ولا یقال للخبر فی الاصل نباحتی یتضمن هذه الاشیاء الثلاثة ویکون صادقا و حقه ان یعتری عن الکذب کالمتواتر و خبر ﷲ وخبر الرسول صلی الله علیه وآله وسلم و نتضمنه معنی الخبر یقال انباته بکذا او لتضمنه معنی العلم یقال انباته کذا والنبی المخبر عن ﷲ فان ﷲ تعالی اخبره عن توحیده واطلعه علی غیبه واعلمه انه نبیه ۔ (تاج العروس شرح القاموس للزبیدی، 1 : 121)

’’نبا (حرکت کے ساتھ) اور خبر مترادف ہیں۔ بعض نے ان میں فرق کیا ہے۔ امام راغب کہتے ہیں نبا بڑے فائدے والی خبر ہے۔ جس سے علم قطعی یا ظن غالب ہے جس سے علم قطعی یا ظن غالب حاصل ہو جب تک ا ن تین شرائط کو متضمن نہ ہو خبر کو نبا نہیں کہا جاتا اور یہ خبر سچی ہوتی ہے۔ اس کا حق ہے کہ جھوٹ سے پاک ہو جیسے متواتر اور ﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر چونکہ نبا خبر چونکہ نبا خبر کے معنی کو مضمن ہوتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے میں نے اسے خبر بتائی اور چونکہ معنی علم کو متضمن ہوتی ہے اس لئے کہاجاتا ہے کہ میں نے اسے یوں خبر بتائی۔ نبی ﷲ کی طرف سے خبر دینے والا، بے شک ﷲ نے آپ کو اپنی توحید کی خبر دی اور آپ کو اپنے غیب پر اطلاع دی اور آپ کو آپ کا نبی ہونا بتایا۔ ’‘


کلمہ طیبہ لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ نماز، زکوٰۃ، حج، حج کے مہنے دن جگہ، زکوٰۃ کی شرح و شرائط، اور نماز (صلوٰۃ) کی شکل و صورت سب غیب تھا صرف اور صرف رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے ہمیں ان کی تفسیر و تشریح معلوم ہوئی۔ جو شخص نبی کے علم غیب کا انکار کرے وہ ان شرعی احکام کو قرآن یا لغت کی مدد سے ثابت کر کے دکھائے۔ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہنے سے پہلے کہ نبی کو ﷲ نے غیب کا علم نہیں دیا۔ اس کے نتائج اور اپنی عاقبت پر نگاہ رکھے۔ امت کو گمراہ نہ کرے۔ رہی یہ حقیقت کہ علم ﷲ کی عطا سے ہے تو ہم ہزار بار اعلان کرتے ہیں کہ کسی مخلوق کی نہ ذات مستقل ہے نہ کوئی صفت، سب ﷲ کی عطا و کرم سے ہے مگر جو ہے اسے تسلیم تو کرنا فرض ہے۔ یہی ایمان ہے، یہی دیانت ہے۔


علم رسول پر اعتراضات کا رد


سوال : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں غلم غیب کا عقیدہ سلف صالحین میں بھی تھا یا آج کے دور میں گھڑا گیا اور علم غیب کی ذاتی اور عطائی تقسیم کا تصور بھی پہلے سے ہے یا آج کی پیداوار ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سارا عقیدہ جدید زمانے میں اپنایا گیا ہے۔ قرآن و حدیث اور اسلام کی تفسیر سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں؟


جواب : غیب کی لغوی تعریف ۔ غیب کام معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ۔ (المنجد، 892)


امام راغب فرماتے ہیں غیب مصدر ہے۔ سورج آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو کہتے ہیں غابت الشمس سورج غائب ہو گیا۔

کل غائب عن الحاسه وعما یغیب عن علم الانسان بمعنی الغائب یقال للشئ غیب وغائب باعتباره بالناس لا باﷲ تعالی فانه لا یغیب عنه الشئ قوله عالم الغیب والشهادة أی ما یغیب عنکم وما تشهدونه والغیب في قوله ’’یومنون بالغیب‘‘ ما لا یقع تحت الحواس ولا تقتضیه بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیاء علیهم السلام وبدفعه یقع علی الانسان اسم الالحاد ۔ (مفردات راغب : 367،چشتی)

’’جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔ کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ ﷲ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے ﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یومنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جا سکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں۔ ‘‘


شرح عقائد میں ہے : وبالجمله العلم بالغیب امر تفرد به ﷲ تعالی لا سبیل للعباد الیه الا باعلام منه ۔ (شرح عقائد مع النبراس : 572)

’’خلاصہ کلام یہ کہ علم غیب ﷲ تعالیٰ کی خاص صفت ہے۔ بندوں کے لئے اس طرف کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے بتائے اور وہ وحی کے ذریعے بتاتا ہے جیسے نبی کا معجزہ یا الہام کے ذریعے جیسے ولی کی کرامت یا نشانات و علامات سے جیسے استدلالی علم۔ ‘‘


قاضی ناصر الدین بیضاوی (متوفی 791ھ) فرماتے ہیں : المراد به الخفی الذی لا یدرکه الحس ولا یقتضیه بداهه العقل وهو قسمان لا دلیل علیه وهو المعنی بقوله تعالی ’’وعنده مفاتح الغیب‘‘ لا یعلمها الا هو. وقسم نصب علیه دلیل کالصانع وصفاته والیوم الاخر واحواله وهو المراد به فی هذه الایه (یومنون بالغیب) ۔ (تفسیر بیضاوی، 1 : 7)

’’غیب سے مراد ہے وہ پوشیدہ چیز جسے حس معلوم نہ کر سکے اور نہ ہدایت عقل چاہے اس کی دو قسمیں ہیں پہلی جس پر کوئی دلیل قائم نہیں اور وہی مراد ہے ﷲ کے اس فرمان میں عندہ مفاتح الغیب الخ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں صرف وہ جانتا ہے، دوسری جس پر دلیل قائم ہو جیسے صانع (خالق) اور اس کی صفات، یوم قیامت اور اس کے احوال اور یہی مراد اس آیہ کریمہ یومنون بالغیب میں ہے۔ ‘‘


امام رازی فرماتے ہیں : ان الغیب هو الذی یکون غائباً عن الحاسه ثم هذا الغیب ینقسم الی ما علیه دلیل والی ما لیس علیه دلیل فالمراد من هذه الایه مدح المتقین بانهم یومنون بالغیب الذی دل علیه الدلیل بان یتفکروا ویستدلوا فیومنوا به وعلی هذه یدخل فیه العلم باﷲ تعالی وبصفاته والعلم بالاخر والعلم بالنبوه والعلم بالاحکام وبالشرائع فان فی تحصیل هذه العلوم بالاستدلال مشقه فیصلح ان یکون سببا لاستحقاق الثناء العظیم ۔ (تفسیر کبیر، 2 : 27)

’’غائب وہ ہے جو حاسہ سے غائب ہو پھر یہ غیب دو قسم پر ہے ایک وہ جس پر دلیل قائم ہو دوسری وہ جس پر دلیل نہیں۔ اس آیہ کریمہ سے مراد متقیوں کی تعریف کرنا ہے کہ وہ اس غیب پر ایمان رکھتے ہیں جس پر دلیل قائم ہے کہ غور و فکر اور استدلال کرتے ہوئے اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس میں ﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم، آخرت، نبوت اور احکام شرع کا علم شامل ہے کیونکہ ان علوم کو استدلال سے حاصل کرنے میں مشقت ہے لہٰذا بڑی مدح و ثنا کا مستحق ہے۔ ‘‘


ایک سوال کا جواب


امام رازی ایک سوال قائم کرتے ہیں : فان قیل افتقولون العبد یعلم الغیب أم لا ؟ قلنا قد بینا ان الغیب ینقسم الی ما علیه دلیل والی ما لا دلیل علیه أما الذی لا دلیل علیه فهو سبحانه وتعالی العالم به لا غیره وأما الذی علیه دلیل فلا یمتنع ان تقول نعلم من الغیب ما لنا علیه دلیل ویفید الکلام فلا یلتبس ۔ (تفسیر کبیر، 2 : 28) ۔ ’’اگر کہا جائے کیا تم یہ کہتے ہو کہ بندہ غیب جانتا ہے یا نہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ غیب کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس پر دلیل ہے اور دوسرا وہ جس پر کوئی دلیل نہیں۔ وہ جس پر کوئی دلیل نہیں وہ ﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا علم ہے، کسی اور میں یہ صفت نہیں پائی جاتی مگر جس پر دلیل قائم ہے سو کچھ مانع نہیں کہ ہم کہیں کہ ہم وہ غیب جانتے ہیں جس پر دلیل ہے۔ یہ کلام مفید ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ ‘‘


امام ابو عبد ﷲ محمد بن احمد انصاری القرطبی (متوفی 671ھ) فرماتے ہیں : (یومنون) یصدقون، والایمان فی اللغه التصدیق… الغیب کل ما اخبر به الرسول مما لا تهتدی الیه العقول من اشراط الساعة وعذاب القبر والحشر والنشر والصراط والمیزان والجنة والنارِ ۔ (الاحکام القرآن للقرطبی، 1 : 114۔ 115،چشتی) ۔ ’’(ایمان لاتے ہیں یعنی) تصدیق کرتے ہیں۔ لغت میں ایمان کا مطلب ہے تصدیق… غیب ہر شے جس کی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی، جس کی طرف عقل رہنمائی نہ کر سکے مثلاً قیامت کی شرطیں، عذاب قبر، حشر و نشر، پل صراط، میزان، جنت و جہنم۔ ‘‘


امام قرطبی سورۃ الانعام کی آیت : 59 عندہ مفاتیح الغیب لا یعلمہا الا ہو کے تحت لکھتے ہیں : فاﷲ تعالی عنده علم الغیب وبِیده الطرق الموصلة الیه، لا یملکها الا هو فمن شاء اطلاعه علیها اطلعه ومن شاء حجبه عنها ولا یکون ذلک من افاضته الا علی رسله بدلیل قوله تعالی وما کان ﷲ لیطلعکم علی الغیب ولکن ﷲ یجتبی من رسله من یشاء وقال عالم الغیب فلا یظهره علی غیبه احدا الا من ارتضی من رسول ۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، 7 : 3)

’’سو ﷲ کے پاس غیب کا علم ہے (یعنی جو مخلوق سے پوشیدہ ہے اسے ﷲ جانتا ہے) اور اسی کے ہاتھ میں غیب تک پہنچانے والے راستے ہیں۔ وہی ان کا مالک ہے سو جس کو ان پر اطلاع دینا چاہے اطلاع دیتا ہے اور جن سے پردے میں رکھنا چاہے پردے میں رکھتا ہے اور اس کی فیضان صرف رسول پر ہوتا ہے۔ ‘‘


منافقین کا علم


وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۔ آل عمران، 3 : 179

’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے۔ ‘‘


فان سنة ﷲ جاریة بانه لا یطلع عوام الناس علی غیبه بل لا سبیل لکم الی معرفة ذلک الامتیاز الا بالامتحانات مثل ما ذکرنا من وقوع المحن والافات حتی یتمیز عندها الموافق من المنافق فاما معرفته ذلک علی سبیل الاطلاع من الغیب فهو من خواص الانبیاء فلهذا قال ولکن ﷲ یجتبی من رسله من یشاء أی ولکن ﷲ یصطفی من رسله من یشاء فخصهم باعلامهم ان هذا مومن وهذا منافق… ویحتمل ولکن ﷲ یجتبی من یشاء فیمتحن خلقه بالشرائع علی ایدیهم حتی یتمیز الفریقان بالامتحان ویحتمل ایضا ان یکون المعنی وما کان ﷲ لیطلعکم لیجعلکم کلکم عالمین بالغیب من حیث یعلم الرسول حتی تصیروا مستغنین عن الرسول بل ﷲ یخص من یشاء من عباده بالرسالة ثم یکلف الباقین طاعة هولاءِ الرُسُل ۔ (تفسیر کبیر، 9 : 111،چشتی)

’’ﷲ کی سنت جاری ہے کہ عوام کو اپنے غیب پر اطلاع نہیں دیتا بلکہ تمہارے لئے اس امتیاز ایمان و نفاق کے سلسلہ میں بجز اس کے کوئی رستہ نہیں کہ امتحانات ہوں جیسے ہم نے ذکر کیا کہ آفات و آلام نازل ہوں تاکہ اس وقت موافق و منافق میں تمیز ہو سکے۔ رہا اس پر خبردار ہونا علم غیب پر دسترس حاصل کر لے تو یہ نبیوں کا خاصہ ہے اسی لئے فرمایا لیکن ﷲ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے چن لیتا ہے پھر خصوصی طور پر ان کو باتا ہے کہ یہ مومن ہے اور یہ منافق… یہ احتمال بھی ہے کہ ﷲ اپنے رسولوں سے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے پھر نبیوں کے ذریعے احکام شرع بھیج کر اپنی مخلوق کا امتحان لیتا ہے یہاں تک کہ اس جانچ سے دونوں جماعتیں ممتاز ہو جاتی ہیں۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ معنی ہو کہ ﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تم سب کو غیب پر اطلاع کر دے جیسے رسول کو علم غیب دیتا ہے کہ تم رسولوں سے بے نیاز ہو جاؤ بلکہ ﷲ اپنے بندوں میں خاص کو رسالت سے سرفراز فرماتا ہے پھر باقیوں کو ان رسولوں کی اطاعت کا مکلف بناتا ہے۔ ‘‘


امام فخر الدین رازی سورۃ التوبہ کی آیت : 82 کے تحت لکھتے ہیں : وﷲ تعالی کان یطلع الرسول علیه الصلوه والسلام علی تلک الاحوال حالا فحالا ویخبره عنها علی سبیل التفصیل وما کانوا یجدون فی کل ذلک الاالصدق فقیل لهم ان ذلک لو لم یحصل باخبار ﷲ تعالی والا لما اطرد الصدق فیه ولظهر فی قول محمد انواع الاختلاف والتفاوت فلما لم یظهر ذلک علمنا ان ذلک لیس الا باعلام ﷲ تعالی ۔ (تفسیر کبیر، 10 : 196) ۔ ’’ﷲ تعالیٰ منافقین کے تمام احوال پر نبی ں کو اطلاع دیتا رہا اور تفصیل بتاتا رہا اور وہ ان خبروں کو ہمیشہ سچ ہی پاتے۔ سو ان سے کہا گیا کہ اگر یہ خبریں ﷲ کے بتانے سے نہ ہوتیں تو اس میں سچائی کس طرح جمع ہو جاتی۔ محمد کی اپنی بات ہوتی تو اس میں اختلاف وتفاوت واضح ہوتا ہے۔ جب ایسا کبھی ظاہر نہیں ہوا تو ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ سب کچھ محض ﷲ کے بتانے سے ہے۔ ‘‘


فاغرض عنھم


والمعنی لا تهتک سترهم ولا تفضحهم ولا تذکرهم باسماء هم وَ لمّا امر ﷲ بستر امر المنافقین الی ان یستقیم امر الاسلام ۔ (تفسیر کبیر، 10 195) ۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ ان منافقین کی پردہ داری فرمائیں اور ان کے نام سرعام لے کر ان کو رسوا نہ کریں۔ ﷲ نے منافقین کے معاملات کو چھانے کا حکم دیا، یہاں تک کہ اسلام کا معاملہ درست اور مضبو ہو جائے۔ ‘‘


امام رازیؒ آیہ کریمہ ۔ ولا یحیطون بشئٍی من علمه الا بما شآء.’’اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے۔ ‘‘


کے تحت لکھتے ہیں : لا یعلمون الغیب الا عند اطلاع ﷲ بعض انبیاء هم علی بعض الغیب کما قال عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احد الا من ارتضی من رسول ۔ (تفسیرکبیر، 7 : 11)

’’یعنی لوگوں کو غیب کا علم نہیں مگر ہاں جب کسی نبی کو اس نے کسی غیب کی اطلاع کر دی تو اس کو علم غیب حاصل ہو جاتا ہے جیسے فرمایا : وہ عالم غیب ہے اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا مگر جس نبی کو اس کے لئے چن لے۔ ‘‘


تتقیح مسئلہ علم غیب


احتج اهل الاسلام بهذه الایة علی انه لا سبیل الی معرفة المغیبات الا بتعلیم ﷲ تعالی وانه لا یمکن التوصل الیها بِعِلم النجوم والکهانه والعرافة وَنظیرُه قوله تعالی و عنده مفاتح الغیب لا یعلمها الا هو و قوله عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احد الا من ارتضی من رسول ۔ (تفسیر کبیر، 2 : 209)

’’تمام اہل اسلام نے اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ غیبی امور کی معرفت ﷲ کے بتائے بغیر کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتی، اسے علم نجوم، کہانت اور ماہرانہ نظر سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثال ﷲ کا فرمان ہے اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور فرمان باری تعالیٰ ہے وہ غیب جاننے والا ہے۔ سو اپنے غیب پر بجز اپنے پسندیدہ رسولوں کے کسی کو مسلط نہیں کرتا۔ ‘‘


وَعَلَّمَ اَدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّها ۔ (البقره).

کے تحت لکھتے ہیں : ان المراد اسماء کل ما خلق ﷲ من اجناس المحدثات من جمع اللغات المختلفه التی یتکلم بها ولد ادم الیوم من العربیة والفارسیة والرومیة وغیرها وکان ولد ادم علیه السلام یتکلمون بهذه اللغات فلما مات ادم تفرق ولده فی نواحی العالم تکلم کل واحد منهم بلغة معینة من تلک اللغات فغلب علیه ذلک اللسان فلما طالت المدة و مات منهم قرن بعد قرن نسوا سائر اللغات فهذا هو السبب فی تغیر الالسنه فی ولد ادم علیه السلام ۔ (تفسیر کبیر، 2 : 176،چشتی)

’’مشہور بات یہی ہے کہ اسماء سے مراد تمام مخلوق کی اجناس و اقسام کے نام ہیں ان مختلف زبانوں میں جن کو اولاد آدم آج تک استعمال کر رہی ہے مثلاً عربی، فارسی، رومی وغیرہ۔ اولاد آدم ان زبانوں میں گفتگو کرتی تھی جب آدم علیہ السلام کی وفات ہوئی اور آپ کی اولاد دنیا کے کونے کونے ان زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں بات کرنی شروع کر دی اور ان لوگوں پر وہی زبان غالب آگئی جب مدت لمبی ہو گئی اور یکے بعد دیگرے قومیں رخصت ہوتی گئیں تو لوگ باقی زبانیں بھول گئے۔ یہی سبب ہے اولاد آدم میں مختلف زبانوں کے اختلاف۔ ‘‘


قال علما ونا وقد انقلبت الاحوال فی هذه الازمان باتیان المنجمین والکهان لاسیما بالدیار المصریة فقد شاع فی روسائهم واتباعهم و امرائهم اتخاذ المنجمین بلٌ لقد انخدع کثیر من المنتسبین الفقه والدین فجاؤَا الی هولاء الکهنه و العرافین فبهر جوا علیهم بالمحال و استخرجوا منهم الاموال فحصلوا من اقوالهم علی السراب والال ومن ادیانهم علی الفساد والضلال وکل ذلک من الکبائر لقوله علیه السلام ’’لم تقبل له صلاة اربعین لیله فکیف بمن اتخذهم وانفق علیهم معتمدا علی اقوالهم‘‘ روی المسلم رحمه ﷲ عن عائشة رضی ﷲ عنها قالت سَألَ رسولَ ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم اناسٌ عن الکهان فقال انهم لیسوا بشئی فقالوا یا رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم انهم یحدثون احیانا بشئی فیکون حقا فقال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم تلک الکلمة من الحق یخطفها الجنی فیقرها فی اذن ولیه قر الدجاجه فیخلطون معها مائه کذبه‘‘ واخرج البخاری ایضا من حدیث ابی لاسود محمد بن عبدالرحمن عن عروه عن عائشه رضی ﷲ عنها سمعت رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم یقول ان الملائکة تنزل فی العنان و هو السحاب فتذکر الامر قضی فی السماء فتسترق الشیاطین السمع فتسمعه فتوحیه الی الکهان فیکذبون معها مائة کذبة من عند انفسهم ۔ (تفسیر قرطبی، 7 : 4)

’’ہمارے علماء نے فرمایا اس زمانے میں حالات میں انقلاب آگیا ہے۔ لوگ نجومیوں اور کاہنوں کے پاس آتے ہیں خصوصاً مصر میں کہ ان کے رئیسوں، ان کے پیروکاروں اور ان کے امراء میں نجومیوں کی خدمات حاصل کرنا بہت عام ہے بلکہ بہت سے دین و فقہ کی طرف منسوب ہونے والے (علمائ) بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ وہ ان کاہنوں (غیب کے دعویداروں) او رماہروں، قیانہ شناسوں کے پاس آتے ہیں۔ پھر یہ لوگ بڑے ناز و انداز سے ان کو محال باتوں کے ہونے کا اطمینان دلاتے اور ان سب سے مال نکالتے ہیں۔ سو ان باتوں سے وہ سراب (دوپہر کو پانی کی طرح نظر آنے والی ریت) اور آل (دوپہر کو فضا میں چمکتے پانی کے قطرے) ہی حاصل کر سکتے ہیں یعنی صفر، ان کے مسلک سے فساد و گمراہی ہی مل سکتی ہے۔ بہر حال یہ سب بڑے گناہ ہیں کیونکہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان کیپاس آنے والے کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ تو کیا حال ہو گا ان لوگوں کا جو ان کے دامن سے وابستہ ان پر اپنے مال خرچ کر تے اور ان کی باتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ امام مسلم ؒ نے (ام المؤمنین حضرت) عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کی کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لوگوں نے کاہنوں (بزعم خود غیب دان) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کاہن کچھ نہیں۔ صحابہ ث نے عرض کیا کیا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی باتیں بسا اوقات سچی نکل آتی ہیں تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کلمہ حق کوئی جن کہیں سے لے آتا ہے اور اسے اپنے دوست کاہن کے کان میں ڈال دیتا ہے تو پھر یہ لوگ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتے ہیں اور امام بخاریؒ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کی کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا کہ فرشتے بادل میں اتر کر کسی ایسی بات کا ذکر کرتے ہیں جس کا آسمانوں پر فیصلہ ہوا ہو۔ شیطان چوری سے انہیں سن لیتے اور کاہنوں کو بتا دیتے ہیں جس میں وہ اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا لیتے ہیں۔ ‘‘


امام رازی لکھتے ہیں : قال الفراء یاتیه غیب السماء وهو شیئی نفیس فلا یبخل به علیکم وقال ابو علی الفارسی المعنی انه یخبر بالغیب فیبینه ولا یکتمه کما یکتم الکاهن ذلک ویمتنع من اعلامه حتی یا خذ علیه حلوانا ۔ (تفسیر، کبیر، 31 : 74) ۔ ’’فراء نے کہا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آسمانی غیب آتا ہے جو نفیس چیز ہے۔ پھر آپ اس کے عطا فرمانے میں تم سے بخل نہیں کرتے۔ ابو علی فارسی نے کہا مطلب یہ کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب واضح طور پر بتا دیتے ہیں اور کاہن کی طرح چھپاتے نہیں جو مٹھائی لے کر بتاتا ہے۔ (وہ بھی غلط)۔ ‘‘


قُلْ لاَّ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنَ ﷲِ ۔ کے تحت لکھتے ہیں غلم غیب کا مفہوم : المراد منه ان یظهر الرسول من نفسه التواضع ﷲ والخضوع له والاعتراف بعبودیته حتی لا یعتقد فیه مثل اعتقاد النصاری فی المسیح ۔

’’مراد یہ ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷲ کے سامنے اپنی عاجزی ظاہر فرمائیں اور اپنی بندگی کا اعتراف فرمائیں تاکہ آپ کے بارے میں ایسے عقیدے نہ رکھے جائیں جیسے عیسائیوں نے مسیح ں کے متعلق گھڑے ہیں۔ ‘‘

القول الثانی : هذه الامور التی طلبتموها فلا یُمْکِمن تحصیلها الا بقدرة ﷲ فکان المقصود من هذا الکلام اظهار العز والضعف وانه لا یستقل بتحصیل هذه المعجزات التی طلبتوها منه ۔ ’’یہ ہے کہ جو مطالبے تم مجھ سے کر رہے ہو ان کو تو صرف ﷲ کی قدرت سے حاصل کیا جاسکتا ہے پس اس کلام کا مقصد یہ ہے کہ عاجزی و کمزوری کا اظہار کرنا اور یہ بتانا ہے کہ جن معجزات کا مطالبہ تم سرکار سے کرتے آئے ہو، وہ ان کو پورا کرنے میں مستقل قدرت نہیں رکھتے۔ ‘‘

القول الثالث : معناه انی لا ادعی کونی موصوفا بالقدره الائقه باﷲ تعالی وقوله (ولا اعلم الغیب) أی ولا ادعی کوئی موصوفا بعلم ﷲ تعالی وبجموع هذین الکلامین حصل انه لا یدعی الالهیه ۔ (تفسیر کبیر، 12 : 231)

’’اس کی وضاحت میں یہ ہے کہ میں اس قدرت کے ساتھ موصوف ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا جو صرف ﷲ تعالیٰ کے لائق ہے۔ (لا اعلم الغیب) کا مطلب یہ ہے کہ اس صفت علم سے موصوف ہونے کا دعویدار ہی نہیں جو ﷲ کی صفت خاصہ ہے دونوں باتوں کے مجموعے سے یہ مفہوم نکلا کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا ہونے کا دعوی نہیں فرما رہے۔ ‘‘


لا رطبٍ ولا یابس الا فی کتاب مبین لوح محفوظ میں ہر چیز لکھنے کے تین فائدے ہیں :


انه تعالی انما کتب هذه الاحوال فی اللوح المحفوظ لتفف الملائکه علی نفاذ علم ﷲ تعالی فی المعلومات وانه لا یغیب عنه مما فی السموات والارض شئی فیکون فی ذالک عبرة تامه کامله للملائکه الموکلین باللوح المحفوظ لانهم یقابلون به ما یحدث فی صحیفه هذا العالم فیجدونه موافقا له وثانیها یجوز ان یقال انه تعالی ذکر ما ذکر من الورقه والحبه تنبیها للمکلفین علی أمر الحساب واعلاما بانه لا یفوته من کل ما یصنعون فی الدنیا شئی لأنه اذا کان لا یهمل الاحوال التی لیس فیها ثواب ولا عقاب ولا تکلیف فبان لا یهمل الاحوال المشتمله علی الثواب والعقاب اولی وثالثها انه تعالی علم احوال جمیع الموجودات فیمتنع تغییرها عن مقتضی ذالک العلم والالزام الجهل ۔ (تفسیر کبیر، 13 : 11،چشتی) ۔ ’’ﷲ تعالیٰ نے یہ تمام حالات لوح محفوظ میں اس لئے لکھے ہیں کہ فرشتے اسے دیکھ کر معلوم کر لیں کہ مخلوق میں ﷲ کے علم کے مطابق کیا کچھ کرنا ہے۔ ﷲ سے تو زمین و آسمان کی کوئی شئے غائب نہیں۔ اس میں کامل و تام عبرت ہے۔ ان فرشتوں کے لئے جو لوح محفوظ پر مقرر ہیں کہ وہ صحیفہ کائنات میں ہونے والے امور کا لوح محفوظ میں لکھے گئے امور سے مقابلہ کرتے اور اس کے موافق پاتے ہیں۔ دوم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے ہر پتے اور دانے کا لوح محفوظ میں ذکر کر کے مکلفین کو حساب و کتاب پر تنبیہ کی ہے اور ان کو بتا دیا کہ وہ دنیا میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ ﷲ سے ذرہ بھر چھپا نہیں اس لہے کہ جب وہان امور میں سستی نہیں کرتا جن کا ثواب و عذاب اور تکلیف سے کوئی تعلق نہیں تور ان امور کے لکھنے میں بطریق اولیٰ سستی نہیں کرتا جن کا تعلق ثواب و عذاب سے ہے۔ سوم ﷲ تعالیٰ تمام موجودات کے حالات کو جانتا ہے تو اس کے علم کے خلاف ہونا محال ہے ورنہ اس کی جہالت لازم آئے گی تو جب اس نے تمام موجودات کے حالات پوری تفصیل سے لکھ دے۔ اب بھی ان میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ورنہ جہالت لازم آئے گی۔ ‘‘


دور و نزدیک


يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ قَالُوا بَلَى وَلَكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُo ۔ (الحدید، 57 : 14)

’’وہ (منافق) اُن (مومنوں) کو پکار کر کہیں گے : کیا ہم (دنیا میں) تمہاری سنگت میں نہ تھے؟ وہ کہیں گے : کیوں نہیں لیکن تم نے اپنے آپ کو (منافقت کے) فتنہ میں مبتلا کر دیا تھا اور تم (ہمارے لیے برائی اور نقصان کے) منتظر رہتے تھے اور تم (نبوّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام میں) شک کرتے تھے اور باطل امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال دیا، یہاں تک کہ اللہ کا امرِ (موت) آپہنچا اور تمہیں اللہ کے بارے میں دغا باز (شیطان) دھوکہ دیتا رہا۔ ‘‘


جنت آسمانوں سے بلند تر اور جہنم اسفل السافلین یعنی تمام مخلوق سے نیچ ترین جگہ ہے تب ان میں یہ مکالمہ کیسے ہو گا ؟


امام رازی ؒ فرماتے ہیں : اذا یَدُلُّ علی ان البعد الشدید لا یمنع من الادراک ۔ (تفسیر کبیر، 29 : 226) ۔ ’’اس آیت کا مضمون اس بات پر دلیل ہے کہ بہت زیادہ دوری علم کے لئے مانع نہیں۔ ‘‘


ان اکثر ارباب الملل و النحل یسلمون وجود ابلیس ویسلمون انه هو الذی یتولی القاء الوسوسه فی قلوب بنی آدم ویسلمون انه یمکنه الانتقال من المشرق الی المغرب لَـاَجل القاء الوساوس فی قلوب بنی آدم فلما سلموا جواز مثل هذا الحرکه السریعه فی حق ابلیس فلان یسلموا جواز مثلها فی حق اکابر الانبیاء کان اولی ۔ (تفسیر کبیر، 20 : 149)

’’اکثر اہل مذاہب ابلیس کا وجود مانتے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اولاد آدم کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اولادِ آدم کے دلوں میں وسوسہ اندازی کے لئے اس کا مشرق سے مغرب تک منتقل ہونا ممکن ہے سو جب اس قسم کی تیز حرکت ابلیس کے لئے جائز مانتے ہیں تو اکابر انبیاء کے لئے بطریق اولیٰ جائز ماننا چاہیے۔ ‘‘


فان کان القول لمعراج محمد صلی الله علیه وآله وسلم فی الیله الواحده ممتنعا فی العقول کان القول بنزول جبریل علیه السلام من العرش الی مکة فی اللحظه الواحده ممتنعا ولو حکمنا بهذا الامتناع کان ذلک طعنا فی نبوه جمیع الانبیاء علیهم السلام.تفسیر کبیر، 20 : 148

ایک رات میں معراج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عقلاً محال ہے تو جبرائیل علیہ السلام کا عرش سے مکہ تک ایک آن میں اترنا بھی محال ہو گا۔ اگر ہم اس محال کا فیصلہ کرلیں تو تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر طعن ہو گا۔ ‘‘


تفسیر کی امہات کتب سے واضح ہوتا ہے کہ علم غیب کاعقیدہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے۔ جو کہ اہل سنت و جماعت اور تمام اسلام کا عقیدہ رہا ہے اور آج ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے۔


علم رسول کی وسعت ما کان وما یکون کو شامل ہے


سوال : ہمیں ایک مسئلہ کی وضاحت درکار ہے۔ ہمارے علاقے کے علماء نے اس مسئلہ پر مناظرانہ رنگ اختیار کر لیا ہے۔ عوام الناس پریشان ہیں۔ مسئلہ کسی کی سمجھ نہیں آرہا۔ برائے مہربانی مسئلہ کا حل لکھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آیا ﷲ تعالیٰ نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ما کان وما یکون عطا کیا ہے یا نہیں؟ اس پر مبسوط جواب تحریر کر دیں۔


جواب : علم ما کان وما یکون قرآن سے


ﷲ تعالیٰ نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو ہوا اور ہو گا سب کا علم عطا فرمایا قرآن کریم میں ہے : وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاo ۔ النساء، 4 : 113

’’اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔ ‘‘


اعتراض کرنے والوں سے پوچھیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کیا نہیں جانتے تھے ؟ جب فہرست بنا کر دیں تو یہ آیہ کریمہ پڑھ کر سنا دیں ۔ کہ جو جو کچھ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ جانتے تھے وہ سب کچھ ﷲ نے آپ کو بتا دیا اور سکھا دیا ہے۔ اس جاننے اور سیھکنے کے بعد بھی آپ پر غیب، غیب ہی رہا ؟ پھر اس پڑھانے سکھانے کا کیا فائدہ اور اس اعلان خداوندی کا کیا مطلب ؟ کیا معاذ ﷲ، ﷲ کے اعلان ایسے ہوتے ہیں جیسے انسانوں کے ؟


دوسری جگہ قرآن میں فرمایا : مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ ۔ آل عمران، 3 : 179

’’اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آئو، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔ ‘‘


سب جانتے ہیں کہ وجود، علم، حسن، قدرت، اختیار، اقتدار، بادشاہی، سننا دیکھنا، جزا و سزا دینا، رزق، صحت، بیماری دینا، کھلانا پلانا وغیرہ سب ﷲ تعالیٰ کی صفات ازلی ہیں۔ مخلوق کے پاس جو کچھ بھی ہے ﷲ کی دین ہے، اس کی عطا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے دیئے بغیر نہ کسی کا وجود اپنا ہے نہ کوئی صفت، نہ کوئی فعل نہ حکم وغیرہ، ﷲکے دیئے ہوئے سے ہے۔ جو بھی مخلوق کے پاس ہے یہی حقیقت کبریٰ ہے۔ یہی ایمان ہے اور یہی اسلام کی بنیاد ہے۔ دونوں باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔


اول


یہ کہ ﷲ تعالیٰ تمام کمالات کا مالک ہے۔ باقی سب اس کی عنایت و عطا ہے۔


دوم


یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے جس مخلوق کو جو جتنا کمال دیا ہے اس پر بھی ایمان اسی طرح لایا جائے جس طرح پہلی حقیقت پر، کسی ایک کا بھی انکار کفر ہے۔


چند مثالیں


ﷲ مالک ہے، بادشاہ ہے، قرآن میں فرمایا :


قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَـنْـزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo ۔ (آل عمران، 3 : 26)

’’(اے حبیب! یوں) عرض کیجیے : اے ﷲ! سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بے شک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔ ‘‘


دیکھ لیجئے مالک الملک کس طرح اپنا ملک دے بھی رہا ہے اور چھین بھی رہا ہے۔


ﷲ حلیم ہے، علیم ہے، رؤف ہے، رحیم ہے مثلاً


وَﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo  (البقرہ، 2 : 247)

’’اور ﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘


إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ (البقرہ، 2 : 143)

’’بے شک ﷲ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے۔ ‘‘


إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُo ۔ (الإسراء، 17 : 1)

’’بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔ ‘‘


اب ذرا غور سے دیکھیں یہی صفات ﷲ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کو عطا فرمائی ہیں :


فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ ۔ (الصافات، 37 : 101)

’’پس ہم نے انہیں بڑے بُردبار بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) کی بشارت دی۔ ‘‘


اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍo ۔ (الحجر، 15 : 53)

’’ہم آپ کو ایک دانش مند لڑکے (کی پیدائش) کی خوش خبری سناتے ہیں۔ ‘‘


بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌo ۔ (التوبہ، 9 : 128)

’’مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔ ‘‘


فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاo ۔ (الدھر، 76 : 2)

’’پس ہم نے اسے (ترتیب سے) سننے والا (پھر) دیکھنے والا بنایا ہے۔ ‘‘


یہ سب عام انسانوں کی صفات بتائی گئی ہیں۔ پس قرآن کریم سے بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ ایک لفظ مخلوق کے لئے استعمال ہوا اور وہی لفظ کسی دوسری جگہ ﷲ کے لئے استعمال ہوا۔ یہ اشتراک لفظی تو ہے معنوی و حقیقی اشتراک ہرگز نہیں۔ پس رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ﷲ کا دیا ہوا علم غیب ہے اور ساری کائنات سے زیادہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ نہ جانتے تھے وہ سب کچھ ﷲ نے آپ کو بتا دیا جو پہلی آیت میں مذکور ہے۔


وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُo ۔ (النسا، 4 : 113)

’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے۔ ‘‘


احادیث سے ثبوت


حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن صبح کی نماز کے لئے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ تاخیر سے تشریف لائے یوں لگتا تھا کہ سورج نکل آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی سے تشریف لائے تکبیر ہوئی، مختصر نماز پڑھائی، سلام پھیر کر باآواز بلند فرمایا اپنی جگہ بیٹھے رہو پھر ہماری طرف رخ انور پھیر کر فرمایا۔ میں تمہیں تاخیر کی وجہ بتاتا ہوں، میں رات کو اٹھا، وضو کر کے جو مقدر میں تھی نماز پڑھی، مجھے نماز میں اونگھ آ گئی دیکھا تو سامنے بہترین شکل و صورت میں میرا پروردگار تھا۔


فقال یا محمد قلت لبیک رب قال فیما یختصم الملاء الاعلی قلت لا ادری قالها ثلث قال فوضح کفه بین کتفی حتی وجدت بردَ اَنامِلَه بین ثدبی قتجلی لی کل شئ وعرفت… الخ ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر القرآن، باب سورۃ ص، الرقم : 3235،چشتی)(احمد، ترمذی، امام بخاری نے صحیح کہا، مشکوۃ : 72)

’’فرمایا : اے محمد! میں نے عرض کی، پروردگار! حاضر ہوں۔ فرمایا : فرشتے کس بات میں بحث کر رہے ہی ؟ میں نے عرض کی : مجھے معلوم نہیں۔ یہی بات تین بار فرمائی۔ فرمایا : میں نے دیکھا اس نے اپنا دست اقدس میرے دو شانوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی (انگلیوں سے مراد جو بھی ہے) پھر ہر چیز مجھ پر روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لی… الخ۔ ‘‘


حضرت حذیفہ بن یمان ص فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے : ما ترک شیئا یکون فی مقامه ذالک الی قیام الساعه الا حدث به حفظه من حفظه ونسیه من نسیه قد علمه اصحابی هولاء وانه لیکون منه الشئ قد نسیته فاراه فاذکره کما یذکر الرجل وجه الرجل واذا غاب عنه ثم اذا راه عرفه ۔ (بخاری، الصحیح، کتاب القدر، باب وکان امر ﷲ قدرا مقدورًا، 6 / 2435، الرقم : 6230)(مسلم، مشکوۃ : 461)

’’کوئی چیز نہ چھوڑی، قیامت تک ہونے والی ہر چیز بتا دی جس نے یاد رکھی، یاد رکھی اور جو بھول گیا سو بھول گیا۔ میرے ان ساتھیوں کو علم ہے، اس میں سے کوئی بات میں بھول جاتا ہوں پھر ہوتے دیکھتا ہوں تو یاد آ جاتی ہے جیسے کوئی شخص دوسرے کا چہرہ پہچانتا ہے پھر وہ اس سے غائب ہو جاتا ہے پھر جب اسے دیکھتا ہے تو پہچان لیتا ہے۔ ‘‘


حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میری امت میں تلوار چلے گی تو قیامت تک نہ اٹھے گی اور قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے کچھ قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں یہاں تک کہ میری امت کے بعض گروہ بتوں کی عبادت کریں گے (جیسے گاندھی، نہرو، پٹیل کی یا آج امریکی سامراج کی) میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔


کلهم بزعم انه نبی ﷲ و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی لا تزال ظائفه من امتی علی الحق ظاهرین لا یضرهم من خالفهم حتی تاتی امر ﷲ ۔ (ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4 / 432، الرقم : 2219،چشتی)(ابوداؤد، ترمذی، مشکوۃ : 465)

’’ہر ایک نبوت کا دعویٰ کرے گا حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا، مخالف ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا یہاں تک کہ ﷲ کا حکم آ جائے گا۔ ‘‘


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ان رسول ﷲ قال لا تقوم الساعة حتی تَقْتَتِل فئتان عظیمتان تکون بینهما مقتلة عظیمة دعواهما واحدة… الخ (بخاری، الصحیح، کتاب الفتن، باب خروج النار، 6 / 2605، الرقم : 6704)

’’رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک دو بڑی جماعتیں جنگ نہ کریں اور ان میں بہت بڑی خونریزی ہو گی، دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا (یعنی اسلام)… الخ۔ ‘‘


مومن تو ہوتا ہی وہ ہے جو یومنون بالغیب غیب پر ایمان لائے کہ ﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو غیب کی باتیں بیان فرمائیں ان پر یقین کرے جو کہے کہ نبی کو غیب کا علم ﷲ نے دیا ہی نہیں ہے وہ فرشتوں، قبر، قیامت، ذات باری تعالیٰ، جنت، جہنم، منکر نکیر، حور و غلمان وغیرہ پر یقین کیسے کرے گا؟ یہ حقائق تو صرف نبی نے بتائے، ماننے والے مسلمان اور شک کرنے والے یا انکار کرنے والے غیر مسلم کہلائے۔ نبی کا مفہوم ہی غیب بتانے والا ہے۔ دیکھو عربی لغت کی کوئی کتاب قرآن و سنت میں یہ حقیقت واضح کر دی گئی۔ ﷲ سب کو ہدایت دے۔


تکمیل علم


رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ کلی علم پہلے دن سے ہی آپ کو حاصل نہیں ہو گیا بلکہ بتدریج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ اس کا نزول ہوا چونکہ قرآن کریم کے نزول میں 23 سال لگے ہیں لہٰذا ہر وہ بات جس کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے علم نہ تھا وہ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہو گئی ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...