استعانت اور وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : آپ احباب آئے دن پڑھتے ، سنتے ہونگے کہ نجد کی شرک کی فیکٹری سے تیار شُدہ لوگ آئے دن مسلمانان اہلسنّت پر شرک کے فتوے صادر کرتے رہتے ہیں اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی کی شان میں توہینِ آمیز باتیں کرتے اور توہین کرتے رہتے ہیں نجد کی خود ساختہ شرک کی فیکٹری کی آڑ میں آیئے اس کا مدلّل جواب پڑھتے ہیں :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو شخص میرے کسی ولی (بندہ مقرب) سے عداوت رکھے تو میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں ، اور میرا بندہ کسی اور میری پسندیدہ چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جتنا کہ فرائض کے ذریعے (میرا قرب پاتا ہے) اور میرا بندہ نفل (زائد) عبادات کے ذریعے ہمیشہ میرا قرب پاتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت فرماتا ہوں جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگروہ مجھ سے مانگے تو اسے ضرور عطاء کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو اسے ضرور پناہ عطاء فرماتا ہوں ۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث نمبر: 6021،چشتی)
حدیث بالا میں لفظ ''عادلی'' عدو سے بنا ہے۔ جس کا معنی ہے ظلم کرنا، دور رہنا، دشمنی رکھنا اور لڑائی کرنا۔ جبکہ لفظ ''ولی'' ولی یا ولایة سے بنا ہے۔ اور ولایة کا معنی ہے: محبت کرنا، قریب ہونا، حاکم ہونا، تصرف کرنا، مدد کرنا، دوستی کرنا اور کوئی کام ذمہ لینا۔ لہٰذا ''ولی'' کا لغوی معنی ہے: قریب، محب، حاکم، مددگار، دوست، متولی امر ۔ اور شریعت میں ولی اسے کہتے ہیں جو مومن اور متقی وپرہیزگار ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نواز دے۔ اور اس بات پر متکلمین کا اتفاق ہے کہ کافر اور فاسق و فاجر کو اللہ تعالیٰ اپنی ولایت (اپنے قرب محبت) سے نہیں نوازتے ۔
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں مرتبہ ولایت پر فائز ہونے کے اسباب ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : مرتبہ ولایت کے حصول کی یہی صورت ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آئینہ دل پر آفتاب رسالت کے انوار کا انعکاس ہونے لگے اور پرتو جمال محمدی (علی صاحبہ اجمل الصلوات و اطیب التسلیمات) قلب و روح کو منور کردے اور یہ نعمت انہیں بخشی جاتی ہے جو بارگاہ رسالت میں یا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے نائبین یعنی اولیاء امت کی صحبت میں بکثرت حاضررہیں ۔
لفظ ولی کے تمام لغوی معانی مبالغہ کے ساتھ اللہ کے محبوب و مقرب بندوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور اس کے دلائل کتاب و سنت اور سیرت بزرگان دین میں بکثرت موجود ہیں اور اس حدیث پاک میں بھی اس پر مضبوط استدلال موجود ہے ۔
حدیث بالامیں لفظ ''بالحرب'' سے اللہ تعالیٰ کا ولی کے دشمن کے خلاف اعلان جنگ ہے یا پھر دشمن ولی کا اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے خلاف اعلان جنگ سے مراد یہ ہے کہ اللہ اسے دنیا میں ہدایت کی توفیق مرحمت نہ فرمائے یا اسے ایمان پر خاتمہ نصیب نہ فرمائے۔ اور آخرت میں اسے عذاب الیم میں مبتلا کردے ۔
بزرگان دین فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے دو گناہوں پر وعید جنگ فرمائی ہے : 1. سود ۔ 2. اللہ کے محبوب بندوں سے عداوت ۔
حضرت علامہ علی قاری مکی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ کے محبوب بندوں کے ساتھ عداوت رکھنا انتہائی خطرناک ہے ، اس کی وجہ سے ایمان کے خلاف خاتمہ ہونے کا خطرہ ہے اور اسی قسم کا مضمون حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے ۔ (اعاذنا اللہ من ذالک)
حدیث بالامیں قرب محبت پانے والے شخص کے متعلق لفظ ''عبدی (میرابندہ)'' فرمانے میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں بلند مراتب حاصل کرنے کا اصل سبب خدا تعالیٰ کی بندگی ہے۔ جیسا سورہ اسراء میں آیت اسراء میں حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اور ''مما افرضت علیہ'' فرض سے مراد وہ دینی احکام ہیں جنہیں دلیل قطعی کے ذریعے جن و انس پر لازم کردیا جائے ۔ فرض کا انکار کفرہے، اور فرض کو ادا نہ کرنے والا فاسق و فاجر ہے۔ بعض مقامات پر فرض کا اطلاق نواہی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نواہی میں بھی کام کو نہ کرنا فرض کر دیا جاتا ہے بلکہ نواہی سے احتراز کرنا ، اوامرکی ادائیگی سے زیادہ ضرور ی ہے ۔
حدیث بالامیں ''وما یزال العبد یتقرب الی بالنوافل'' میں نوافل سے مراد وہ عبادات ہیں جو فرض وواجب نہیں۔ جیسے نفلی نماز، نفلی روزہ، تلاوت قرآن ، محافل میلاد، محافل ایصال ثواب، درود شریف وغیرہ۔ اور ''فاذا احبببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ تا ورجلہ التی یمشی'' میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ محبوب کے کان ہاتھ اور پاؤں بن جانے سے مراد یہ ہے کہ جب بندہ مومن فرائض پر پابندی کے بعد نوافل کی کثرت اختیار کرتا ہے اور مجاہدات و ریاضات کے ذریعے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انوار و تجلیات اس پر وارد ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے ۔ اب اس کا سننا، دیکھنا ، پڑھنا اور چلنا عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے دوریاں اور فاصلے ختم کردیئے جاتے ہیں اور وہ جہاں چاہے تصرف کرسکتا ہے ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کا واقعہ موجود ہے کہ ملکہ یمن بلقیس مسلمان ہونے کی غرض سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کے قریب پہنچ چکی تھی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : تم میں کون ہے جو بلقیس کا تخت (سینکڑوں میل دور صنعاء یمن سے) اس کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے میرے پاس لائے ؟ '' تو قرآن مجید، پارہ نمبر 19، سورہ نمل، آیت نمبر 40 میں ہے : اس شخص نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہا : میں آپ کے پاس وہ تحت آپکی آنکھ جھپکنے سے پہلے لاتا ہوں ۔
یہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے ولی تھے، لیکن حضور سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی امت کے اولیاء کی شان پہلی امتوں کے اولیاء کرام سے کہیں زیادہ ہے ۔
اس حدیث میں اولیاء اللہ کیلئے جن مافوق الاسباب اختیارات کا ذکر ہے وہ اختیارات روحانی ہیں ، لہٰذا اولیاء کرام کو یہ اختیار وفات کے بعد بھی حاصل رہتے ہیں کیونکہ اجماع امت ہے کہ وفات سے روح فنا نہیں ہوتی ، بلکہ علامہ ابن خلدون مقدمہ ابن خلدون میں فرماتے ہیں کہ وفات کے بعد روح جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے ۔
روح کا وفات کے بعد دنیاوی زندگی کی نسبت زیادہ مضبوط ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے ۔ چنانچہ نبی علیہ الصلوٰة و السلام کا ارشاد ہے ، جوکہ صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث نمبر 1252 میں ہے کہ : بیشک میت دفن کرکے لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔
حالانکہ اگر زندہ آدمی کو قبر میں دفن کر دیا جائے تو وہ باہر سے لاؤڈ سپیکر کی آواز بھی نہیں سن سکتا ، لیکن میت جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں : اشعۃ اللمعات شروع باب زیارت القبور میں ہے امام غزالی گفتہ ہر کہ استمداد کردہ شور بوے درحیات استمداد کردہ مے شودبوے بعد از وفات یکے از مشائخ گفتہ دیدم چہارکس راز مشائخ کہ تصرف می کنند در قبور جود مانند تسر فہا ایشاں درحیات خود یا بیشتر۔ قومے مے گویند کہ امداد جی قومی نزاست ومن مے گویم کہ امداد میت قوی ر اولیاء را تصرف درا کون حاصل است وآں نیست مگر ارواح ایشاں راوارواح باقی است ۔
ترجمہ : جن سے زندگی میں استمداد (مدد) حاصل کی جاتی ہے، ان سے بعد از وصال بھی استعانت (مدد مانگنا) کی جاتی ہے ، مشائخ عظام علیہم الرّحمہ میں سے بعض نے کہا ہے کہ میں نے چار حضرات کو دیکھا کہ وہ جس طرح اپنی زندگی میں تصرف کرتے تھے اسی طرح اپنی قبروں میں بھی تصرف کرتے ہیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ، ایک شیخ معروف کرخی اور دوسرے شیخ عبدالقادر جیلانی ، اور ان کے علاوہ دو (2) کا نام اور لیا ، ان کا مقصود ان چار میں حصر کرنا نہیں تھا بلکہ محض اپنے مشاہدے کو بیان کرنا تھا ۔ (اشعۃ اللمعات مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 923 مطبوعہ فرید بکسٹال،چشتی)
شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : چار بزرگ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور زندگی کی طرح تصرف فرماتے ہیں ۔ (زبدۃُ الآثار صفحہ 21 مترجم صفحہ 31 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ان ارشادات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ کے معتقدات وہی ہیں جو اہل سنت و جماعت کے معتقدات ہیں اور شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات کے خلاف اگر کوئی عقیدہ بیان کرتا ہے اور شیخ کو اپنا مقتدیٰ بھی مانتا ہے وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹاہے ۔ اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتقادی افکار ان کی دوسری تصانیف میں بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی عقیدہ حیات الاولیاء بعد از وصال کے قائل ہیں جبھی تو لکھا ہے کہ : وہ (حضور غوث پاک) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ذات گرامی ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ موصوف اپنی قبر میں "زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں ۔ (ہمعات اردو صفحہ نمبر 127 مطبوعہ سندھ ساگر اکادمی لاہور)
یعنی حضور غوث پاک نہ صرف اپنے مزار شریف میں زندہ ہیں بلکہ زندوں کی طرح تصرف بھی فرماتے ہیں یعنی کہیں بھی آجا سکتے ہیں اور اسی بنا پر اگر اِن سے استمداد و استعانت کی جائے کہ یہ اللہ کی عطا سے مدد پر قادر ہیں بگڑی بنا دیں گے تو ایسا عقیدہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ شرک کے ٹھیکیدارو لگاؤ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پر شرک کا فتویٰ اور کہو کہ وہ بھی مشرک تھے تاکہ تمہاری خود ساختہ نجد کی شرک کی فیکٹری سے کوئی مقدس ہستی بچ نہ سکے ؟
علاوہ ازیں تمام سلاسل روحانیہ قادریہ ، نقشبندیہ ، چشتیہ اور سہروردیہ و غیرہا کے مسلمہ مشائخ کا اہل قبور سے فیض حاصل کرنے اور ان کے روحانی تصرفات پر اجماع ہے ۔
حدیث بالا میں لفظ ''ولان سالنی لاعطینہ یعنی اگر وہ مجھ سے مانگے تو ضرور اسے عطاء کرتا ہوں۔'' سے اولیاء کرام کی دعائوں کا قبول ہونا ثابت ہوتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام سے دعا کروانا ہمیشہ سے مسلمانوں میں مروج ہے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل اویس قرنی، حدیث: 4612 میں ہے : تم میں سے جس کی بھی ان (اویس قرنی) سے ملاقات ہو ا تو وہ تمہارے لئے استغفار کریں ۔
اور امام بخاری و مسلم کے استاذ شیخ ابوبکر ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قحط پیدا ہوا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روضہ نبوی پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم آپ اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیں کیوں کہ وہ ہلاک ہونے والی ہے ۔
چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 356 طبع ریاض اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خواب میں فرمایا :عمر کے پاس جاؤ انہیں سلام کہو اور بشارت دو کہ بارش ہوگی ۔
حدیث بالا میں لفظ ''ولان استعاذنی لاعیذنہ یعنی اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور بالضرور پناہ دیتا ہوں'' سے مراد نفس شیطان کے شر سے یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی طرف سے سختی یا اس کی بارگاہ سے دوری وغیرہ سے پناہ مانگنا مراد ہے ۔ یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ اولیاء کرام گناہوں سے محفوظ ہیں ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کو اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ اور کسی حکمت کے تحت ان سے کوئی لغزش ہوجائے تو فوراً رجوع الی اللہ کی توفیق مرحمت فرماتے ہیں ۔ (مزید حصہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment