Sunday 28 November 2021

عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ دوازدہم

0 comments

 عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ دوازدہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : لفظ نبی کا معنیٰ ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں ۔ چھٹی صدی ہجری کی مشہور اور علمی شخصیّت قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ لفظ نبی کا معنی و مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں : والمعنیٰ ان ﷲ تعالیٰ اطلعہ علیٰ غیبہ ۔

ترجمہ : اس کا معنی یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اسے غیب پر مطلع فرمایا ہے ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم الجزء الاول صفحہ ١٥٧ القاضی ابی الفضل عیاض مالکی الیحصُبی اندلسی ثم مراکشی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥٤٤ھ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)(النسختہ الثانیہ صفحہ ١٦٩ مطبوعہ دارالحدیث القاہرہ (مصر)(کتاب الشفاء (اردو) جلد اول صفحہ 388 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور (پاکستان۔چشتی)۔(دوسرا نسخہ حصہ اول صفحہ 178 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور (پاکستان)


شفاء شریف کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ شہاب الدین خفاجی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : (والمعنیٰ) ای معنیٰ النبی المفھوم من الکلام علیٰ ھذا القول (ان ﷲ اطلعہ علیٰ غیبہ) ای اعلمہ واخبرہ بمغیباتہ ۔

ترجمہ : علامہ خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ نبی کا جو معنی بتایا ہے کہ : ﷲ نے اسے غیب پر مطلع کیا ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں ۔(نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الجزء الثالث صفحہ ٣٤١ شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر الخفاجی المصری متوفی ١٠٦٩ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)


معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمتہ نے جو لفظ نبی کا ترجمہ : غیب کی خبریں بتانے والا ۔ کیا ہے یہ ترجمہ اکابرین و سلف صالحین کی تعلیمات اور ان کے عقائد کے عین مطابق ہے ۔

نبی کا لغوی معنیٰ ہی غیب کی خبریں دینے والا ہے توپھر نبی کے علم غیب سے کیسے انکارکیاجا سکتاہے نبی کے علم غیب کا انکار کرنا نبوت کی بنیاد سے انکارکرناہے جب کہ اس موضوع پر بکثرت احادیث موجود ہیں جو نبی کے عالم غیب ہونے پر دلالت کرتی ہیں ملاحظہ کریں ۔


صحابہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہم نے ایک شخص کی تعریف کی کہ جہاد میں ایسی قوت رکھتاہے اورعبادت میں ایسی کوشش کرتا ہے ،اتنے میں وہ سامنے سے گزرا حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس کے چہرے پرشیطان کا داغ پاتاہوں اس نے پاس آکرسلام کیا ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے دل کی بات بتائی کہ کیوں تونے اپنے دل میں کہا کہ اس قوم میں تجھ سے بہتر کوئی نہیں ۔کہا ہاں۔پھر چلا گیا اور ایک مسجد مقرر کرکے نماز پڑھنے کھڑا ہوا ، حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ایسا ہے جو اٹھ کر جائے اور اسے قتل کردے ؟ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ گۓ دیکھا وہ نماز پڑھتا ہے واپس آئے اورعرض کیا کہ میں نے اسے نماز میں دیکھا مجھے قتل کرتے خوف آیا حضور نے پھر فرمایا تم میں کون ایسا ہے کہ اٹھ کرجائے اور اسے قتل کردے ؟ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ گےٗ اور نماز پڑھتا دیکھ کر چھوڑ آے اوروہی عذر کیا حضور نے پھر فرمایا تم میں کون ایسا ہے جو اٹھ کر جاے اور اسے قتل کردے ؟ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ نے عرض کی میں حضور نے فرمایا ہاں تم اگر اسے پاوٶ یہ گیےء وہ جاچکا تھا۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا یہ میری امت سے پہلا سینگ نکلا تھا اگر یہ قتل ہو جاتاتو مستقبل میں امت میں کچھ اختلاف نہ پڑتا ۔ (دلائل النبوت للبہیقی باب ماروی فی اخبارہ صلی اللہ علیہ وسلّم الیٰ آخرہٖ دارالکتب العلمیہ بیروت جلد 6 صفحہ نمبر 287 و288۔چشتی)


حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک چور لایا گیا آپ نے فرمایا اس کو قتل کر دو عرض کی گٸی کہ اس نے چوری ہی تو کی ہے فرمایا اس کا ہاتھ کاٹ دو پھر اسے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس اس حال میں لایا گیاکہ اس کے تمام ہاتھ پاوٗں کاٹے جا چکے تھے ۔تو آپ نے فرمایا میں اس کے بغیر تیرا علاج نہیں جانتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے تیرے بارے میں فیصلہ فرمایا تھا کہ اس کو قتل کر دو وہ تیرا حال خوب جانتے تھے ۔چنانچہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کا حکم دیا ۔(کنزالعمال جلد 5 صفحہ 538۔چشتی)


صحیح بخاری و مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ایک بار ہم میں کھڑے ہوکرابتداے آفرینش سے قیامت تک جوکچھ ہونے والا تھا سب بیان فرما دیا ، کوٸی چیز نہ چھوڑی ، جسے یاد رہایادرہا اور جو بھول گیا بھول گیا۔(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن الفصل الاول صفحہ 461 مطبع مجتبای دہلی)


دس صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایامیں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے اپنا دست قدرت میری پشت پر رکھا کہ میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہویٗ اسی وقت ہرچیز مجھ پر روشن ہو گیٗ اور میں نے سب کچھ پہچان لیا ۔ (سنن ترنذی کتاب التفسیر حدیث نمبر 3246 دارالفکربیروت)


حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آ گیا ۔ (سنن ترمذی کتاب التفسیر حدیث نمبر 3244 دارالفکر بیروت۔چشتی)


حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں بیشک میرے سامنے اللہ عزوجل نے دنیا اٹھا لی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسا دیکھ رہاہوں جیسے اپنی ہتھیلی کودیکھ رہاہوں اس روشنی کے سبب جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کےلےٗ روشن فرمایاجیسے محمد سے پہلے انبیاء کے لے روشن کی تھی صلی اللہ علیہ وسلّم ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد 6 صفحہ 101 دارالکتاب العربی بیروت،چشتی)


جو ہوچکا ہے جو ہو رہا ہے اور جو ہوگا ہمارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم جانتے ہیں


مخالفین اہلسنت کے اس عقیدے کو جو کہ قران و حدیث سے ماخوذ ہے مشرکانہ عقیدہ بتاتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا ازلی شقاوت کے اظہار کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کیلئے علم ماکان ومایکون کا عقیدہ دراصل اکابرین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے ۔

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا !”خلق الانسان علمہ البیان” اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا (ترجمہ جونا گڑھی غیر مقلد وہابی)

ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے ان میں سے چند اکابرین مفسرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر پیش خدمت ہیں :

مشہور مفسّر امام بغوی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں:خلق الانسان یعنی محمداً صلیﷲ علیہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔ ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (تفسیر البغوی (معالم التنزیل) صفحہ ١٢٥٧ ابی محمد حسین بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥١٦ھ)


اسی طرح قدیم مفسّر امام قرطبی رحمتہ ﷲ علیہ یوں فرماتے ہیں : الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صلیﷲ علیہ وسلم صلی ﷲ علیہ وسلم والبیان وقیل ماکان و مایکون ۔

ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان الجزءالعشرون صفحہ١١٣) ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٦٧١ھ)


ایک اور مفسّر امام ابن عادل حنبلی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : المراد بالانسان ھنا محمد علیہ السلام علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون ۔

ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (اللباب فی علوم الکتاب المشہور تفسیر ابن عادل الجزء الثامن عشر صفحہ نمبر ٢٩٣-٢٩٤)ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٨٨٠ھ)


اسی طرح امام ثعلبی علیہ الرحمتہ کی تفسیر میں موجود ہے : خلق الانسان یعنی محمداً صلیﷲ علیہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔

ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی ﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الکشف و البیان فی تفسیر القران المشہور تفسیر الثعلبی الجزء السادس صفحہ نمبر ٤٨) العلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٤٢٧ھ)


الحمد للہ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ علم غیب متقدمین مفسرین اکابرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر اور عقائد و نظریات کے مطابق ہے ۔

عقیدۂ علم غیب اور امام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” عَالِمُ الغَیبِ فَلَا یُظہِرُ عَلیٰ غَیبِہ اَحَداً اِلَّا مَنِ الرتَضیٰ مِن الرَسُول ” (سورہ جنّ آیت ٢٦ ٢٧)

ترجمہ : وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے ۔ (مولوی محمد جوناگڑھی وھابی)


اس آیت کی تفسیر میں معروف مفسّر “امام قُرطبی” علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : کان فیہ دلیل علیٰ انّہ لا یعلم الغیب احد سواہ , ثم استثنیٰ من ارتضاہ من الرسل ۔

ترجمہ : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا پھر ان رسولوں کو اس سے مستثنیٰ کردیا جن پر وہ راضی ہے ۔ (الجامع الاحکام القران صفحہ ٣٠٨الجزء الحادی والعشرون مؤلف ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبیؒ (متوفی ٦٧١) مطبوعہ بیروت لبنان )( تفسیر قرطبی (اردو) جلد دہم صفحہ ٣٩ مطبوعہ ضیاء القران لاہور )


الف : جہاں علم غیب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا جاوے یا اس کی بندوں سے نفی کی جاوے تو اس علم غیب سے ذاتی ، دائمی، جمیع علوم غیبیہ، قدیمی مراد ہوگا ۔


ب : جہاں علم غیب بندوں کے لئے ثابت کیا جاوے یا کسی نبی کا قول قرآن میں نقل کیا جاوے کہ فلاں پیغمبر نے فرمایا کہ میں غیب جانتا ہوں وہاں مجازی، حادث ، عطائی علم غیب مراد ہوگا جیسا کہ قاعدہ نمبر ۱۵ میں دیگر صفات کے بارے میں بیان کردیا گیا ۔

”الف” کی مثال یہ ہے :

(1) قُل لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ

تم فرمادو کہ آسمانوں اورزمین میں غیب کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا۔(پ20،النمل:65)

(2) عِنۡدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیۡبِ لَا یَعْلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ

اس رب کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سواکوئی نہیں جانتا ۔(پ7،الانعام:59)

(3) اِنَّ اللہَ عِنۡدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ

قیامت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔(پ21،لقمٰن:34)

(4) وَمَا تَدْرِیۡ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا ؕ وَمَا تَدْرِیۡ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوۡتُ

اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی ۔(پ21،لقمٰن:34)

(5) وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ

اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت خیر جمع کرلیتا ۔(پ9،الاعراف:188)

  ان جیسی تمام آیات میں علم غیب ذاتی یا قدیمی یا مستقل مراد ہے اس کی نفی بندوں سے کی جارہی ہے ۔ب کی مثال یہ آیات ہیں:

(1) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ

قرآن ان پر ہیز گار وں کا ہادی ہے جو غیب پر ایمان لائیں (پ1،البقرۃ:2،3) (ظاہر ہے کہ غیب پر ایمان جان کر ہی ہوگا )

(2) عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ

اللہ غیب کا جاننے والا ہے پس نہیں مطلع کرتا اپنے غیب پرکسی کو سوا پسندیدہ رسول کے۔(پ29،الجن:26،27)

(3) وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ؕ وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ﴿۱۱۳﴾

اور سکھا دیا آپ کو وہ جوآپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے ۔(پ5،النسآء:113)

(4) وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَاتَعْلَمُوۡنَ ﴿۶۲﴾

یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ جانتا ہوں میں اللہ کی طرف سے وہ جوآپ نہیں جانتے(پ8،الاعراف:62)

(5) وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ

اور خبر دیتا ہوں میں تمہیں جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو او رجو جمع کرتے ہو۔(پ3،اٰل عمرٰن:49)

(6) قَالَ لَا یَاۡتِیۡکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖۤ اِلَّا نَبَّاۡتُکُمَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمَا ؕ ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیۡ رَبِّیۡ

یوسف علیہ السلام نے فرمایاجو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے وہ تمہارے پا س نہ آئیگا کہ میں اس کی تعبیر اس کے آنے سے پہلے تمہیں بتا دوں گا یہ ان علموں میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے (پ13،یوسف:37)۔

(7) وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴﴾

اور وہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں۔(پ30،التکویر:24)

  ان جیسی تمام آیتو ں میں علم غیب عطائی، غیر مستقل ،حادث ، عارضی مراد ہے کیونکہ یہ علم غیب بندہ کی صفت ہے جب بندہ خود غیر مستقل اور حادث ہے تو اس کی تمام صفات بھی ایسی ہی ہوں گی ۔


معلوم ہوا کہ ﷲ پاک اپنے پسندیدہ رسولوں کو “علمِ غیب” عطا فرماتا ہے اور بحمد ﷲ قران کی مذکورہ آیات اور ان کی تفسیر اسی بات پر دلالت کرتی ہے ! یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ “اہلسنت و جماعت” نے قران کو اسی طرح سمجھا ہے جیسے اکابرین و سلف صالحین (علیہم الرحمہ) نے سمجھا تھا ۔ (مزید حصہ سیزدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔