Monday 8 November 2021

اسلام اور صلاحِ معاشرہ

0 comments

 اسلام اور صلاحِ معاشرہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : آج ہمارے معاشرے میں شدید اخلاقی انحطاط پایا جاتا ہے ۔ لوگ جوق در جوق بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں ۔ لوگوں نے نیکی اور بدی ، حلال اور حرام کی سمجھ بوجھ ر کھنا چھوڑ دیا ہے ۔ آخر اس معاشرتی بگاڑ کی وجہ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم بحیثیت مسلمان اپنا فرض اچھے طریقے سے ادا کر رہے ہیں ، کیا ہم اپنے نفس کا محاسبہ کر رہے ہیں ، کیا ہم سیدھے راستے پر ہیں ، کیا ہم اپنے ماتحت اور اہل و عیال کی اصلاح کا ذریعہ بن رہے ہیں ، کیا ہم اپنے حقوق اور فرائض اچھے طریقے سے ادا کر رہے ہیں ؟


اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ، اس میں ہر طبقے کے متعلق ہدایات موجود ہیں کوئی طبقہ ایسا نہیں کہ جس کے بارے میں اسلام نے کو ئی رہنمائی نہ کی ہو۔ اب صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اسلام سے رہنمائی حا صل کرنے کے لئے آمادہ ہو اور اپنا تعلق اپنے حقیقی خالق و مالک سے استوار کرے اور اپنی ہر خواہش کو رب تعالیٰ کے حکم کے سامنے قربان کرے۔ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آخر کیوں آج ہمارے معاشرے کی حالت دگرگوں ہے،ہمارے گھر کا ماحول غیر اسلامی کیوں ہے،ہمارے خاندان کا شیرازہ کیوں بکھر رہا ہے،اور ہمارا معاشرہ اصلاح کی شاہراہ پر کیوں نہیں چل رہا؟ اس کی وجہ صرف اور صرف دین اسلام سے دوری اور اصلاح معاشرہ کے پیغمبرانہ اصولوں سے انحراف ہے، ہمارے معاشرے میں جو لوگ دیندار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی صرف اپنی ذات کی حد تک ہیں ،خود صوم وصلواۃکے پابند ہیں، دین میں سمجھ بوجھ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور گناہوں سے بچنے کا بھی اہتمام کرتے ہیں ،لیکن گھر کے ماحول کو بدلنے کی کوئی فکر نہیں اور اپنے اہل خانہ کو دین کی طرف لگانے کا بھی کوئی اہتمام نہیں ۔ (چشتی)


عصر حاضرمیں خوش حالی بڑھی ہے، معاشی ترقی میں اضافہ ہواہے وسائل میں تیز رفتاری آئی ہے، اوسط آمدنی میں اضافہ ہواہے اور عام طور پر لوگوں کا معیار ِ زندگی بلند ہوگیاہے، لہذاجو پیچھے رہ گئے ہیں ان کے لئے بھی ترقی کے راستے کھلے ہیں اور ان کو بھی روشنی کی کرنیں نظر آتی ہیں۔ برائیوں كا ظهور: اصلاح معاشرہ خالق کائنات کے نزدیک مستحسن عمل ہے اور فساد وفتنہ انگیزی نہایت قبیح فعل ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر مختلف پیرایوں میں فساد کرنے والوں کے لئے ناپسندیدگی کا اظہارکیا ہے، ارشاد باری ہے:  ولا تبغ الفساد فی الارض ان اللّٰہ لا یحب المفسدین سورۃ القصص :۷۷ (اورزمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا) ایك دور تھاجب ہمارا معاشرہ اسلامی اقدار پر گامزن تھا، ایک دوسرے کے اندر مدد اور نصرت کا جذبہ بدرجہ اتم تھا، مفاد پرستی خود غرضی سے کوسوں دور تھا، مگر پھر قرآن و سنت اور رسالت کی کرنوں سے دور ہوتا گیا، فی زمانہ حالت یہ ہے کہ اب برائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔آج ہم جس معاشرے میں زندگی گزر بسر کر رہے ہیں، اس میں برائیاں پھیلی ہوئی ہیں انسان انسان کے خون کا پیاسا ہے، ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں ہر شخص دوسرے سے سبقت لینے کی خاطر تمام انسانی حقوق کو پس پشت ڈالنے پر آمادہ ہے۔  اس دور ِ ترقی میں ہر شخص ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، ہر طرف بے مروتی اور اجنبیت کا دور  دورہ ہے، ہر فردو بشر بے اطمینانی کا شکار ہے، معاشرہ کا امن و سکون مفقود ہو چکا ہے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، بندوں کے حقوق ضائع ہو رہے ہیں کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں، پوری قوم رحمت خداوندی سے محروم اور غضب الہی میں مبتلا ہو رہی ہے، معاشرہ کا چین و سکون  ختم ہوتا جا رہاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ـ: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُم بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (سور ۃالروم :۴۱) (خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے، لوگوں  کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزاچکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ با ز آئیں ) اصلاح كی ضرورت: اگرمعاشرہ میں لوگ چین و سکون کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور معاشرہ کو تباہی و بربادی کے گڑھے سے بچانا چاہتے ہیں تو وہ ایک ہی صورت ہے، اور وہ ہے’’ اصلاح معاشرہــ‘‘  انسانیت ہر روز نئے مسائل اور چیلنج سے دو چار ہے، اور ان مسائل کو حل کرنےکے لئے مادی طاقت كافی نهیں ہے۔لہذا عصر حاضر میں معاشرہ کو ایسے وقت میں روشن ہدایات و تعلیمات کی ضرورت ہے۔ ضرورت هے كه ہم ربّ کائنات کی جانب سے نازل کی ہوئی تعلیمات میں غوروفکر کریں۔ وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون (سورۃآل عمران:۱۰۴) (تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور رہنے چاہئییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کاحکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں، جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے) دین اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسانی کوحقیقت سے آگاہ کرے، اور فلا ح و کامیابی سے روشناس کرائے تاکہ ہر شخص ایک دوسرے کے کام آسکے، اور حقوق وفرائض کا پورالحاظ ركھےجس سے معاشرہ کی اصلاح ہو، او ر ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے ۔  اسلام کی تعلیمات ہیں جن کو اللہ رب العالمین نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر نازل کیا تھا، اور جن کا مقصد معاشرے کی تشکیل نو ہےان میں حقوق و فرائض کی پاسداری کا خاص خیال رکھا گیا هے۔اخلاق و حقوق و فرائض کی پاسداری فرض اولین ہے۔ تكمیل وترقی:  اسلا م تمام شعبہ ہائے زندگی کی تکمیل اور ترقی چاہتا ہے، اسلام کی بعثت کا مقصد ہی انسانیت کی فلاح و بہبود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ اللّہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ وَّالَّذِیْنَ ہُم مُّحْسِنُون( سورہ النحل :۱۲۸) (اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے، جو تقوی سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں ) تقوی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے، بدعنوانیوں سے دور رہنے اور اس کے احکام کو نافذ کرنے کانام ہے، تقوی   اختیار کرنے سے انسان برائیوں  سے بچ جاتا ہے اور رشد و ہدایت کی راہ کو اپناتا ہے۔ عصر حاضر میں ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو منصہ مشہود پر لایا جائے تاکہ ایسا معاشرہ وجود میں آسکے جس میں مساوات، عدل و انصاف اور امن و سکون ہو، جس میں ہر شخص کو طمانیت قلب کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دینے کی آزادی ہو اور وہ چین وسکون کے ساتھ زندگی گزارنے پر قادر ہو۔ غالب مغربی تہذیب کا بنیادی روگ مادہ پرستی ہے  جس نے انسان کو زندگی کے اقدارسے دور کر دیا ہے دنیا کا کوئی بھی خطہ اس خرابی سے آزاد نہ رہ سکا۔ اعلیٰ انسانی اقدار ختم هوئیں اور بگاڑنےپوری انسانیت کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ عصر حاضر اس کا متقاضی ہے کہ معاشرہ میں امن کی بقا، قیام امن وسلامتی، عدل و مساوات، كے لیے كوشش كی جائے۔ اعلی انسانی اقدار، مذہب و عقیدہ کی آزادی، رواداری پر توجه هو۔ انسانی جان کا تحفظ، انسانی جذبات کا احترام، تعلیم و تربیت كا اهتمام کیا جائے۔ تنوع كا لحاظ: اصلاح معاشره ہماری دینی و اخلاقی ذمہ دار ی ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تشكیل پانے والا معاشرہ  بڑی کشادگی اور گنجائش رکھتا ہے، اور تنوع کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتاہے۔معاشرہ کو اس حقیقت سے آشنا ہونا چاهیے كه انسانی اقدار کی حامل انسانی تہذیب کا احیاء مطلوب ہے جس میں افراد قوموں اور گروہوں کومعقول حدود كے اندر فكر و عمل كی آزادی حاصل هو۔ باہم تعاون كی فضا قائم هو۔ یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو امن و سلامتی تک پہنچا سکتا ہے۔ تشویش ناك بات یه هے كه اخلاقی بگاڑ زندگی کے ہر شعبہ میں گھر کرچکا ہے امانت ، دیانتداری ، صدق و عدل ایفائے عہد جیسی اعلیٰ اقدار دن بہ دن کمزور پڑ رہی ہیں۔ دور حاضر میں اصلاح معاشرہ سے متعلق عائد ذمہ داریوں سے لوگ غافل هیں۔ اس لیے مسائل حل نہیں ہوتے فرد کو اس کی ذمہ داری کے سلسلے میں باشعور بنانا ضروری ہے۔ قرآن کریم میں ہے: وَالْعَصْرِإِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ  (سورہ العصر: ۱۔۳) (زمانے کی قسم، انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے) خلاصہ بحث: عصر حاضرکے چیلینجیز ہمارے سامنے ہیں، ان کامقابلہ، اور اصلاح عصر حاضر کی اہم ضرورت ہے، اگر ہم وقت کے تقاضہ کو نہیں سمجھیں گے اورجو چیلینجیز ہیں ان کا مقابلہ نہیں کرینگے تو معاشرہ کا امن و سکون مفقود ہو جائۓ گا۔اسلامی تعلیمات کی راہ میں  جو چیزیں سدراہ بنی ہوئی ہیں ان کا خاتمہ کرنا لازم ہے۔  قرآن کریم کی تعلیمات اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پاکیزہ زندگی کا مکمل اسوہ ہماری اصلاح اور رہنمائی کے لئے کافی ہے اس حقیقت پر تاریخ گواہ ہے کہ یہی دونوں سرچشمے انسانیت کی فوز و فلاح  کے ضامن ہیں ۔ (چشتی)


اسلامی تعلیمات نے انسان پر صرف اپنی اصلاح کی ذمہ داری عائد نہیں کی، بلکہ اپنے گھروالوں کی اصلاح کی ذمہ داری بھی ڈالی ہے،اپنی اولاد ،عزیز واقارب اور اپنے خاندان کو راہ راست پرلانے کا فریضہ بھی گھر کے سربراہ پر عائد کیا ہے،خود حضرات انبیاء علیہم السلام بھی اس فریضے سے مستثنیٰ قرار نہیں دیے گئے ،حتی کہ امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نبوت سے سرفراز کرنے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے جو پہلا تبلیغی حکم دیا گیا وہ یہ تھا وانذر عشيرتک الاقربين ’کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے‘ عشیرہ کے معنی کنبہ اور خاندان کے ہیں یعنی تزکیر و ترہیب اپنے گھر سے شروع کریں،چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے عزیز و اقارب اور اپنے خاندان کو کھانے پر جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا : اے بنی عبد المطلب ! خدا کی قسم جو چیز میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں ۔ مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان معلوم نہیں جو اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر کوئی چیز لایا ہو ، میں تمہارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لایا ہوں اور مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی طرف دعوت دوں ، تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میرے ہاتھ مضبوط کرے اور اس کے نتیجے میں میرا بھائی بن جائے ۔ (تفسير ابن کثير، 3/ 351،چشتی)


اسی طرح ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی نے مومنین سے خطاب کے ذریعے اسی بات کی تنبیہ فرمائی چنانچہ ارشاد ہے : ياايها الذين آمنوا قوا انفسکم و اهليکم نارا ’’اے ایمان والو ! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے‘‘۔


’’لفظ اہلیکم میں اہل و عیال جن میں بیوی ،اولاد ،باندیاں اور غلام سب داخل ہیں اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر ، چاکر ، خادم بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں ۔


اس آیت میں گھر کے سربراہ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ خود بھی دوزخ کے عذاب سے بچے اور جو لوگ اس کی تربیت و کفالت اور ماتحتی میں رہتے ہیں ان کو بھی عذاب سے بچائے۔ چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! اپنے آپ کو دوزخ سے بچانے کی فکر کی جائے یہ بات تو سمجھ میں آگئی ، لیکن اہل و عیال کو کس طرح دوزخ سے بچائیں ؟، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا’’ اپنے اہل و عیال کو دو زخ سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے تم بھی ان کاموں کے کرنے کا اپنے اہل و عیال کو حکم دو اور جن کاموں سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے تم بھی ان کاموں سے اپنے اہل و عیال کو منع کردو ، یہ عمل ان کو دوزخ کی آگ سے بچا سکے گا۔حضرات فقہائے کرام نے فرمایا ہے یہ آیت ہر انسان پر ایک فرض عائد کرتی ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دیں اور اس پر عمل کرانے کی عملی کوشش کرے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا انسان کا اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع غلہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے ، نیز فرمایاکسی باپ نے پنے بچے کو اچھے ادب سے بڑھ کر کوئی ہدیہ نہیں دیا ۔ (مشکوٰۃ: 423،چشتی)


ان دونوں احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اولاد کی تعلیم و تربیت پر کتنا زور دیا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت اور ادب سکھانے کو صدقہ کرنے سے افضل قرار دیا ہے۔


جب اولاد کی تربیت اچھی ہوگی تو ظاہر ہے کہ وہ والدین کے لئے سکون قلب اور نیک نامی کا باعث بنے گی۔ بعض حضرات یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بہت کوشش کی اپنے گھر کے ماحول کو درست کرنے کی اور اپنی اولاد کو اچھی تربیت دینے کی، لیکن زمانہ کی ہوا ہی ایسی چل پڑی ہے کہ اولاد ہماری وعظ و نصیحت کا کوئی اثر لینے کو تیار ہی نہیں اور نہ ہی ہماری بات پر کان دھرنے کو تیار ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟لیکن یہ خیال محض ایک دھوکہ ہے۔حقیقت کچھ بھی نہیں ،سوال یہ ہے کہ آپ نے کتنی کوشش کی ہے کتنے اضطراب اور کتنے سوز دل کیساتھ ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے؟ آپ کی اولاد اگر جسمانی طور پر بیماری میں مبتلا ء ہو جائے یا خدا نہ کرے آگ میں چھلانگ لگانے کی خواہش ظاہر کرے تو اس وقت آپ اپنے دل میں کتنی تڑپ محسوس کریں گے اور یہ تڑپ آپ کو کیسے کیسے مشکل ترین مراحل سے گذرنے پر مجبور کرے گی، لیکن یہ سب کچھ سہہ لینے کا آپ میں حوصلہ موجود ہوگا اور آپ بے تاب ہوں گے کہ کب یہ گھڑی آئے کہ میں اپنے بیٹے کو صحت و عافیت کیساتھ دیکھوں اور یہ مشکل وقت ہم سے ٹلے،سوال یہ ہے کہ آپ نے کبھی اپنے بیٹے کو گناہوں کی چکی میں پستے دیکھ کر اس قدر پریشانی اٹھائی ہے اور اتنی تڑپ محسوس کی ہے ،جتنی اس کی بیماری کی حالت میں محسوس کی تھی ؟


اگر آپ نے اس قدر کوشش کرڈالی ہے اور اتنی تڑپ محسوس کی ہے تو بلا شبہ آپ نے اپنا فرض بجا طور پر ادا کردیا ہے اور آپ کی کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا،لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے ، یعنی آپ نے اتنی کوشش نہیں کی کہ جتنی کرنی چاہیے تھی یا آپ نے اتنی لگن اور کاوش کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا دنیاوی بیماری پر کیا تھا تو بیشک آپ کے انداز تربیت میں کوتاہی ہے،جب آپ دنیاوی معاملات میں اس کے ساتھ سختی کا برتائو کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے دین کے معاملہ میں اتنی نرمی کیوں اختیار کی گئی کہ ایک دو دفعہ کہہ دینے یا چند بار ڈانٹ ڈپٹ پر اکتفاء کر لینے کو فرض کی ادائیگی سمجھ لیا گیا۔ جس ہمت و کوشش اور فکر و لگن سے آپ ان کے لیے روزگار تلاش کرتے ہیں اتنی ہی فکر و لگن اس کی اصلا ح کی طرف کیوں نہیں کرتے۔ اولاد کی تربیت و اصلاح کے لئے سوز قلب ،توجہ اور خشوع وخضوع کے ساتھ دعا کیجئے اور ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت پر بھی بھر پور توجہ دی جائے تو بہت جلد اس کے ثمرات ظاہر ہو سکتے ہیں ،جب ایک فرد اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ مبذول کرے گا تو اس سے ایک اچھا معاشرہ وجود میں آئے گااور جب ایک معاشرہ اپنی صحیح راہ کی طرف چل پڑے گا تو دھیرے دھیرے اس کے اچھے اثرات پوری قوم میں منتقل ہوں گے اور پوری قوم میں اصلاح کا جذبہ بیدار ہوگا ۔


اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آپ کا دین برحق ہے اور مرنے کے بعد جزا وسزا کے مراحل پیش آنے والے ہیں تو خدا کے لئے اپنی اولاد کو بھی اس جزا و سزا کے دن کے واسطے تیا ر کیجیے،اسے ضروری تعلیم دلوائیے ،اس کے ذہن کی شروع ہی سے ایسی تربیت کیجئے کہ اس میں نیکیوں کا شوق اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو،اس کی صحبت اور اسکا ماحول درست رکھنے کا اہتمام کیجئے ،اپنے گھروں کو تلاوت قرآن اور اسلاف امت کے تذکروں سے آباد کیجئے،گھر میں کوئی ایسا وقت نکالئے، جس میں سارے گھر والے اجتماعی طور پر دینی کتب کا مطالعہ کریں، اپنے ذاتی عمل کو ایسا دلکش بنا ئیے کہ اولاد اس کی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرے،اپنے اہل وعیال اور اقارب و احباب کے حق میں اللہ تعالی سے دعائیں کیجئے کہ اللہ تعالی انہیں صراط مستقیم پر گامزن ہونے اور رہنے کی توفیق عطا فرمائے’’۔ان باتوں پر اگر خلوص دل سے عمل کر لیا جائے تو ہم اپنے گھر اور معاشرے کو ایک بہترین معاشرہ بنا سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سربراہ بنایا ہے تو آپ کو بھی چاہیے کہ آپ اپنے اہل و عیال اور اولاد کے لئے اچھی راہ کا انتخاب کرتے ہوئے انہیں اچھی راہ پر گامزن کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ، اپنے اہل و عیال اور معاشرے کی اصلاح کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔