Sunday 28 November 2021

عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ یازدہم

0 comments

 عقیدہ علم غیب قرآن و حدیث کی روشنی میں حصّہ یازدہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : عقیدہ علم غیب اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا : حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ایک بار اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا سر مبارک میری گود میں تھا اور رات روشن تھی، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں جتنی ہوں گی ؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا :’’ جی ہاں ! وہ عمر ہیں ، جن کی نیکیاں ان ستاروں جتنی ہیں ۔‘‘حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :’’میں نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! پھر میرے والد ماجد سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نیکیاں کس درجہ میں ہیں ؟‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی کے برابر ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب المناقب، الفصل الثالث، الحدیث:۶۰۶۸، ج۳، ص۳۴۹)


منکرین کیا کہتے ہیں اب اگر بقول تمہارے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں جس نے یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علم غیب جانتے ہیں وہ جھوٹا ھے تو خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ سوال کیوں کیا ؟


حدیث بخاری کا جواب : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ تینوں باتیں اپنی ظاہری معنٰی پر نہیں ہیں آپ کے یہ قول اپنی رائے سے ہیں ۔ اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتیں بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں رب تعالٰی کو دیکھنے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت پیش فرمائی ۔ اور اب تک جمہور اہل اسلام اس کو مانتے چلے آئے ہیں۔ دیکھو اس کی تحقیق مدارج اور نسیم الریاض وغیرہ میں ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن سوری النجم میں اسی طرح صدیقہ کا فرمانا کہ حضور علیہ السلام نے کوئی چیز نہ چھپائی۔ اس سے مراد احکام شرعیہ تبلیغیہ ہیں۔ ورنہ بہت سے اسرار الہیہ پر لوگوں کع مطلع نہ فرمایا ۔


مشکوٰۃ کتاب العلم دوم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضور علیہ السلام سے دو قسم کے علوم ملے ۔ ایک وہ جن کی تبلیغ کر دی۔ دوسرے وہ کہ تم کو بتاؤ تو تم میرا گلا گھونٹ دو ۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسرار الہیہ نا محرم سے چھپائے گئے۔ اسی طرح صدیقہ کا یہ فرمانا کہ کل کی بات حضور علیہ السلام نہیں جانتے تھے۔ اس سے مراد ہے بالذات نہ جاننا اور صدہا احادیث اور قرآنی آیات کی مخالفت لازک آوے گی۔ حضور علیہ السلام نے قیامت کی، دجال کی، امام مہدی کی اور حوض کوثر کی شفاعت بلکہ امام حسین کی شہادت کی، جنگ بدر ہونے سے پیشتر کفار کے قتل کی، اور جگہ قتل کی خبر دی ۔ نیز اگر صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کے ظاہری معنٰے کئے جاویں تو مخالفین کے بھی خلاف ہے کہ وہ بہت سے غیوب کا علم مانتے ہیں اور اس میں بالکل نفی ہے۔ مجھے آج یقین ہے کہ کل پیچشنبہ ہوگا۔ سورج نکلے گا، رات آوے گی۔ یہ بھی تو کل کی بات کا علم ہوا۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے معراج جسمانی کا بھی انکار فرمایا ۔ مگر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ واقعہ معراج انکے نکاح میں آنے سے پیشتر کا ہے۔ جو اب تک ان کے علم میں نہ آیا تھا۔


ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا مفہوم : صحیح بخاری شریف میں روایت ہے:عن مسروق عن عائشة رضي الله عنها قالت من حدثک أن محمدا صلی الله عليه و سلم رأي ربه فقد کذب وهو يقول (لا تدرکه الابصار)

ترجمہ : مسروق بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص تم کو یہ بتائے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کواحاطہ کے ساتھ دیکھا ہے تواس نے جھوٹ کہا اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا تدرکه الابصار۔ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ (انعام103:) (صحیح بخاری شریف کتاب التوحید باب قول اللہ تعالی عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا،حدیث نمبر:7380 )

اس حدیث پاک میں مطلق دیدار الہی کی نفی نہیں ہے بلکہ احاطہ کے ساتھ دیدار کرنے کی نفی ہے اللہ تعالی کا دیدار احاطہ کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اور اُس کی صفات لامحدود ہیں ‘اس لئے احاطہ کے ساتھ دیدارِخداوندی محال ہے ۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیراحاطہ کے اپنے رب کا دیدارکیا ہے ۔

جامع ترمذی‘مسند احمد‘مستدرک علی الصحیحین‘عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘ ،تفسیر ابن کثیر‘‘سبل الہدی والرشاد میں حدیث پاک ہے : عن عکرمة عن ابن عباس قال راي محمد ربه قلت اليس الله يقول لا تدرکه الابصار و هو يدرک الابصار قال و يحک اذا تجلي بنوره الذي هو نوره و قد راٰي محمد ربه مرتين ۔ ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کادیدارکیاہے۔ میں نے عرض کیا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک واحاطہ کرتا ہے؟تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:تم پر تعجب ہے! جب اللہ تعالیٰ اپنے اُس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اُس کا غیر متناہی نور ہے اور بے شک سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دو مرتبہ دیدارکیاہے ۔ (جامع ترمذی ،ابواب التفسیر ‘باب ومن سورۃ النجم ‘حدیث نمبر:3590۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، سورۃ والنجم،تفسیر ابن کثیر، سورۃ النجم5،ج7،ص442-سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، جماع أبواب معراجہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج3،ص61-مستدرک علی الصحیحین ، کتاب التفسیر ، تفسیرسورۃ الانعام ، حدیث نمبر:3191۔مسند احمد،معجم کبیر،تفسیرابن ابی حاتم ، سورۃ الانعام ، قولہ لاتدرکہ الابصار،حدیث نمبر:7767)


علم غیب کی تعریف اور جہلاۓ زمانہ کے فریب کا جواب


محترم قارٸینِ کرام : جو تعریف جہلاۓ زمانہ علم غیب کی کرتے ہیں اس حساب سے نعوذ بااللہ اللہ پاک کو علم غیب کا مالک کہنا سواۓ جہالت کے کچھ نہیں کیونکہ اللہ پاک ہر ایک شۓ کا مالک و خالق ہے اس سے جب کوئی شٸے غیب ہے ہی نہیں تو اس کے پاس غیب کا علم کہنا کیسا یہ بات ان جہلاۓ زمانہ کے لیۓ ہے جو کہتے ہیں کہ اطلاع علی الغیب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا علم ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی بھی استاد نہیں سوائے اللہ پاک کے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جو بھی علم ہے وہ سب کا سب علم غیب ہی ہے کیونکہ وہ علم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل کسی بھی انسان کے پاس نہیں تھا لہٰذا قرآن پاک کا علم ہو یا حدیث رسول سب کا سب علمِ غیب ہے کیونکہ قرآن پاک فرماتا ہے ۔۔۔ وما ینطق عن الھوا ان ھوا الا وحی یو حی ۔۔۔۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی بھی کچھ بھی نہیں فرما تے یہاں تک کہ جب تک اللہ پاک کی وحی نازل نہ ہو جائے ۔


یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے لے کر وصال تک کا ہر ایک عمل علم غیب ہی ہے


وعلمک مالم تکن تعلم ۔

اے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو بھی آپ نہیں جانتے تھے وہ سب کا سب علم ہم نے آپ کو عطا فرما دیا ۔


قرآن پاک فرماتا ہے ۔


ولا رطب ولا یئبس الا فی کتاب ۔

نہ ہی اللہ پاک کی تخلیق میں کوئی خوشک اور نہ ہی تر ہے جس کا علم اس کتاب می کھول کھول کر بیان نہ کیا گیا ہو ۔۔


ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتا ہے ۔


ولا اصغر من ذلك ولا اكبر الا فی كتاب مبين ۔

نہ ہی کوئی انتہائی چھوٹے سے بھی چھوٹی اور نہ ہی انتہائی بڑے سے بھی بڑی چیز ہے ہی نہیں جس کا علم اس کتاب میں کھول کھول کر بیان نہ کیا گیا ہو ۔ایک اور مقام پر فرماتا ہے ۔


الرحمان علم القران ۔

وہی رحم فرمانے و لا ہے جس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قرآن پاک کا مکمل علم سکھایا ۔


جبکہ قرآن پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم غائب کی نفی کے نام پر کافروں کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے سے روکتا ہے وہ اس لیے کہ جب منافقین اور کفار آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو بار بار سوالات کر کر کے ستانے لگے تو اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم غائب کا انکار نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما دیجئے کہ غائب کے خزانوں کی چابیاں اللہ پاک کے پاس ہیں میں نہیں جانتا ۔


تاکہ کافر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو ستانا چھوڑ دیں ۔۔ جب امتیوں نے آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا تو اللہ پاک نے فرمایا ۔


وما ھوا علی الغیب بضنین ۔

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی بھی غائب کی خبروں کو بتانے میں بخیل نہیں ہیں ۔


اب منافقین اور کفار آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے علم پر اعتراض کرتے تھے ہیں اور تا قیامت کرتے رہیں گے جبکہ اہل ایمان آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کی عطا سے پہلے بھی علم غیب جاننے والے مانتے تھے ہیں اور تا قیامت رہیں گے ان شاءاللہ ۔


منکرین انبیاء علیہم السلام کے علم غیب پر بے سروپا اعتراض کررہے ہیں، علم کیا ہوتا ہے اور غیب کیا ہوتا ہے اس کو سمجھیں ۔

علم : علم کے معنٰی ہیں جاننا ۔

غیب : کہ معنٰی ہے ہر وہ شئے جو عقول و حواس سے پوشیدہ ہو ۔

اور نبی : نبی کہتے ہی اس مبارک ہستی کو ہیں جو غیب کی خبروں کو اللہ پاک کی ذات سے بطور علم کے اخذ کرکے آگے امت تک منتقل کرے ۔

جیسا کہ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ : الغيب كل ما أخبر به الرسول عليه السلام مما لا تهتدي إليه العقول ۔

ترجمہ : ہر وہ چیز جسی کی خبر یا ہر وہ مخفی حقیقت کہ جس کی خبر نبی دے اور انسانی عقول اس سے عاجز ہوں وہ غیب ہے ۔


محترم قارئینِ کرام آپ نے دیکھا کہ غیب کی تعریف ہی یہ ہے یعنی غیب کہتے ہی اسے ہیں کہ جسکی خبر انسانوں کو نبی کے زریعہ سے معلوم پڑے اب اس پر کوئی یہ کہہ دے کہ نبی کو غیب کا علم نہیں یا خبر نہیں یا غیب پر اطلاع نہیں ؟

کتنی عجیب اور مضحکہ خیز بات ہوگئی کہ جس کا عقل و فہم شعور و ہدایت کے ساتھ کوئی دور کا بھی واسطہ نہ ہوگا کہ نبی تو نام ہی اس ہستی کا ہے جو اللہ کی طرف سے غیب پر مطلع ہو کر پھر انسانوں کو اس سے خبردار کرتا ہے تو معلوم ہوا کہ غیب اور نبی تو آپس میں اس طرح سے لازم و ملزوم ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے عین یک دگر ہیں کہ ان دونوں کو ہرگز ایک دوسرے سے جدا ہی نہیں کیاجاسکتا کہ نبی کہتے ہی اسے ہیں کہ جو اللہ کی طرف سے مامور ہوطکر اخذِ فیض علم کر کے بطور غیب کی اخبار لوگوں تک پہنچائے تو پھر دونوں یعنی نبی اور غیب کو آپس میں کس طرح سے جدا کیا جاسکتا ہے؟

کیا کبھی کسی نے یہ کہا کہ یہ پانی ہے مگر گیلا نہیں ، یہ آگ ہے مگر جلاتی نہیں ؟

یعنی نبی ایک ایسا عہدہ ہے کہ جس کے لیۓ (اللہ کی طرف سے غیب پر مطلع ہونا) اس کی لازمی صفت قرار پاتی ہے یعنی نبی ذات ہے اور غیب اس کی صفت اور صفت بھی ایسی کہ جسے اس کے موصوف سے ہرگز جدا نہ کیا جاسکے ۔ (مزید حصہ دوازدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔