Thursday 26 May 2022

جھوٹوں پر اللہ کی لعنت

0 comments

 جھوٹوں پر اللہ کی لعنت

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے ، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ ، چاہے جان کر ہو ، یا اَنجانے میں ، کتنے لوگوں کو ایک دوسرے سے بدظن کر دیتا ہے ، یہ لڑائی ، جھگڑے اور خون وخرابے کا باعث ہوتا ہے ، کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے ۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے ، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گرجاتا ہے ، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ۔ انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں ، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی ۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے : لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ ۔ (سورہ العمران آیت نمبر 61)

ترجمہ : جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں ۔


اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ۔ (سورہ النحل آیت نمبر 105)

ترجمہ : جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں ۔


کافروں  کی طرف سے قرآنِ پاک سے متعلق نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جو اپنی طرف سے قرآن بنالینے کا بہتان لگایا گیا تھا اس آیت میں  اس کا رد کیا گیا ہے ۔ آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنابے ایمانوں  ہی کا کام ہے ۔ (خازن، النحل الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۱۴۴)


اس آیت میں مشرکین کے متعلق فرمایا ہے اولئک ھم الکاذبون ہے اور یہ جملہ اسمیہ ہے اور عربی قواعد کے مطابق جب کسی کام کو جملہ اسمیہ کے ساتھ تعبیر کیا جائے تو وہ دوام و استمرار پر دلالت کرتا ہے ، اس کا معنی یہ ہے کہ مشرکین ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں، اور جب کسی کام کو جملہ فعلیہ کے ساتھ تعبیر کیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس میں دوام و استمرار کا قصد نہیں کیا گیا ۔ قرآن مجید میں ہے : ثم بدالھم من بعد ما راوا الایت لیسجننہ حتی حین ۔ (یوسف : ٣٥) پھر یوسف کی پاکیزگی دیکھنے کے بعد انہوں نے یہی مناسب جانا کہ کچھ عرصہ کےلیے ان کو قید کر دیں ۔


چونکہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ہمیشہ قید میں نہیں رکھنا چاہتے تھے ، اس لیے انہوں نے لیس جننہ کہا اور قید کرنے کو جملہ فعلیہ کے ساتھ تعبیر کیا ، اور فرعون کا ارادہ حضرت موسیٰ کو ہمیشہ قید میں رکھنا تھا ، اس لیے انہیں قید میں رکھنے کو اس نے اسم کے ساتھ تعبیر کیا اور من المسجونین کہا ۔


قال لئن اتخذت الھا غیر لاجعلنک من المسجونین ۔ (الشعراء : ٢٩) فرعون نے کہا (اے موسی) اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کو معبود بنایا تو میں تم کو ضرور قیدیوں میں شامل کردوں گا ۔


اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق الکاذبون فرمایا اور اس میں یہ تنبیہ ہے کہ کذب ان کی صفت ثابتہ راسخہ دائمہ ہے ۔ یعنی جھوٹ بولان ان کی دائمی عادت ہے ، اسی لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھی جھوٹ باندھنے کی جرات کی ۔


اس آیت میں مشرکین کا رد ہے ، وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف افترا کی نسبت کرتے تھے کہ ایک عجمی شخص سے کلام سیکھ کر العیاذ باللہ یہ افترا کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ حالانکہ وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو الصادق الامین کہتے تھے ، پھر بھی ان ظالموں نے یہ کہا کہ آپ معاذ اللہ اللہ پر افترا کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا افترا تو وہی لوگ کرتے ہیں کہ جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ، یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کاذب اور مفتری وہی ہے جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتا ، کیونکہ سب سے بڑا کزب اور افترا اللہ کا شریک قرار دینا اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنا ہے ۔


جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بدترین گناہ ہے ۔ قرآنِ مجید میں  اس کے علاوہ بہت سی جگہوں  پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی اور جھوٹ بولنے والوں پر اللّٰہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ۔ بکثرت اَحادیث میں  بھی جھوٹ کی برائی بیان کی گئی ہے ۔


حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : صدق کو لازم کرلو ، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے ۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، یہاں  تک کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو ، کیونکہ جھوٹ فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے ، یہاں  تک کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے ۔ ( بخاری، کتاب الادب باب قول اللّٰہ تعالی : یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴،چشتی)(مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ صفحہ ۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))


حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور جھوٹ باطل ہی ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں  مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا حالانکہ وہ حق پر ہو یعنی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں  کرتا ، اس کےلیے جنت کے وسط میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اَخلاق اچھے کیے ، اس کےلیے جنت کے اعلیٰ درجے میں  مکان بنایا جائے گا ۔ ( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۰،چشتی)


حضرت سفیان بن اَسِید حَضْرَمی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں  سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب الادب باب فی المعاریض ۴ / ۳۸۱، الحدیث: ۴۹۷۱،چشتی)


حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں  گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے ، وہ اس سے کہیں  زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے ۔ ( شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان ۔ الخ، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۴۸۳۲)


حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے ، لہٰذا اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا ہے ۔


حضرت صفوان بن سلیم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں : اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھا گیا : کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا : ’’ہاں‘‘ پھر سوال کیا گیا : کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا : ’’ہاں‘‘ پھر عرض کیا گیا : کیا مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : نہیں (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا) ۔ (مؤطا امام مالک حدیث : ۳۶۳۰/۸۲۴،چشتی)


ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے ، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے ، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے ، وہ خصلتِ نفاق سے متصف ہے ۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے : جس میں چار خصلتیں ہوں گی ، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے ، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے ، تا آنکہ وہ اسے چھوڑدے : جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو دھوکا دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے ۔ (صحیح بخاری، حدیث : ۳۴،چشتی)


ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے ، تورحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہو جاتے ہیں : جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے ۔ (سنن ترمذی : ۱۹۷۲)


ایک حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے ۔ حدیث کے الفاظ ہیں : یقیناً جھوٹ برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے ، تا آنکہ اللہ کے یہاں ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری، حدیث : ۶۰۹۴)


نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے ۔ خیانت تو خود ہی ایک مبغوض عمل ہے ، پھر اس کا بڑا ہونا یہ کتنی بڑی بات ہے ! حدیث ملاحظہ فرمائیں : یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو ، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے ، حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔ (سنن ابو داود، حدیث: ۴۹۷۱)


ایک حدیث شریف میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے : حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں ؟ تین بار فرمایا ۔ پھر صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُم نے عرض کیا : ہاں ! اے اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ گئے ، جب کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے ، پھر فرمایا : خبردار ! اور جھوٹ بولنا بھی (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے) ۔ (صحیح بخاری، حدیث: ۲۶۵۴)


صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ ہو اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے ، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے ۔ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں ، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے ، ایسےشخص کےلیے بربادی ہو ، ایسے شخص کےلیے بربادی ہو ۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۲۳۱۵)


شریعتِ مطہرہ میں جھوٹ بولنا اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ) اور حرام ہے ، جیسا کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس جھوٹ افتراء کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں ، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے ۔ (سورۃ النحل:۱۰۵)

ایک دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے : اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے ، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے ، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگادو گے ، بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ، وہ فلاح نہ پائیں گے ۔ (سورۃ النحل:۱۱۶)


جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، لہٰذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے ۔ جھوٹ اللہ رب العالمین اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضی کا باعث ہے ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے ، جو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں بہت عام ہے ۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انہوں نے کیا پایا اور کیا کھویا ؟ جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہو جاتی ہے، تو لوگ اسے کبھی خاطر میں نہیں لاتے ۔ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی کبھار حقیقی پریشانی میں ہوتا ہے ، مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا ۔ ایسےشخص پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے ، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کر چکا ہے ۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے ۔ لوگوں کے درمیان لڑائی ، جھگڑے کا سبب بنتی ہے ۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے ۔ اگر ہم ایک صالح معاشرے کا فرد بننا چاہتے ہیں ، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں ، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں ، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردِّ عمل نہ دیں ۔ اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں ۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کر پاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکاریں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

کھلی ہوئی روشن فتح

0 comments
کھلی ہوئی روشن فتح
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّا فَتَحۡنَا لَكَ فَتۡحًا مُّبِيۡنًا ۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 1)
ترجمہ : (اے حبیب ﷺ) ہم نے آپ کےلیے کھلی ہوئی روشن فتح عطا فرمائی ۔

اس آیت میں صرف نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا گیا ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، بے شک ہم نے آپ کےلیے ایسی فتح کا فیصلہ فرما دیاہے جو انتہائی عظیم ، روشن اور ظاہر ہے ۔

الفتح : ١ میں جس فتح کا ذکر فرمایا ہے ، اس سے مراد کون سی فتح ہے ؟ اس میں مفسرین کے کوئی اقوال ہیں : (١) فتح مکہ (٢) فتح روم (٣) صلح حدیبیہ کی فتح (٤) دلائل اور براہین سے اسلا کی فتح (٥) اسلحہ سے اسلام کی فتح (٦) حق اور باطل کے اختلاف میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ۔

جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد حدیبیہ کی فتح ہے ، حضرت انس (رض) نے الفتح : ١ کی تفسیر میں کہا : اس سے مراد حدیبیہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٤) حضرت جابر نے کہا : ہم فتح مکہ کا شمار نہیں کرتے تھے مگر حدیبیہ کے دن اور فراء نے کہا : حضرت جابر نے فرمایا : تم لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہو ، فتح مکہ بھی فتح تھی اور ہم حدیبیہ کے دن بیعت رضوان کو فتح شمار کرتے ہیں، ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چودہ سو افراد تھے، اور حدیبیہ ایک کنواں ہے ، ضحاک نے کہا : یہ فتح بغیر جنگ کے حاصل ہوئی اور یہ صلح بھی فتح تھی، مجاہد نے کہا : اس سے مراد حدیبیہ میں اونٹوں کو نحر کرنا اور سروں کو مونڈنا ہے اور کہا : فتح حدیبیہ میں بہت عظی نشانیاں ہیں، حدیبیہ کا پانی تقریباً ختم ہوگیا تھا، نبی و نے اس میں کلی فرمائی تو اس کا پانی کناروں سے چھلکنے لگا، حتیٰ کہ آپ کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے وہ پانی پی لیا، اور موسیٰ بن عقبہ نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے حدیبیہ سے واپسی کے وقت کہا : یہ فتح نہیں ہے، ہم کو بیت اللہ کی زیارت کرنے سے روک دیا گیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ یہ سب سے عظیم فتح ہے ، مشرکین اس بات سے راضی ہوگئے کہ وہ تم کو اپنے شہروں سے دور رکھیں اور تم سے مقدمہ کا سوال کریں اور امان کے حصول میں تمہاری طرف رظبت کریں اور انہوں نے تم سے وہ چیزیں دیکھیں جو ان کو ناپسند ہیں ۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٣٧١١)

شعبی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : اس فتح سے مراد فتح حدیبیہ ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس فتح میں وہ چیزیں حاصل ہوئیں جو کسی اور غزوہ میں حاصل نہیں ہوئیِ آپ کو اس میں اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلافِ اولیٰ سب کاموں پر مغفرت حاصل ہوئی، آپ کو بیعت رضوان حاصل ہوئی، اسی غزوہ کے بعد خیبر فتح ہو اور رومی ایرانیوں پر غالب ہوئے اور مسلمانوں کو اس سے خوشی ہوئی کہ اہل کتاب کو مجوسیوں پر غلبہ ہوا اور زہری نے کہا کہ حدیبیہ کی فتح سب سے بڑی فتح تھی، حدیبیہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چودہ سو مسلمان تھے اور اس کے صرف دو سال بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے ۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٣٩، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حضرت اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : جب ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا‘‘ سے لے کر ’’فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ تک آیات نازل ہوئیں  اس وقت نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حدیبیہ سے واپس لوٹ رہے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کو بہت حزن وملال تھا اور نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیبیہ میں  اونٹ نحر فرما دیا تھا ، (جب یہ آیات نازل ہوئیں) تو ارشاد فرمایا : ’’مجھ پرایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے ۔ (مسلم کتاب الجہاد والسّیر، باب صلح الحدیبیۃ فی الحدیبیۃ، ص۹۸۷، الحدیث: ۹۷،چشتی)

ترمذی شریف کی روایت میں  ہے،حضرت اَنَس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حدیبیہ سے واپسی پرنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پریہ آیت نازل ہوئی ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ تو آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا : ’’ آج مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے روئے زمین پر موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے ، پھرنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کے سامنے اس آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں  نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کو مبارک ہو ، بیشک اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ آپ کے ساتھ کیامعاملہ کیا جائے گا لیکن (ابھی تک یہ بیان نہیں فرمایا گیاکہ) ہمارے ساتھ کیا کیاجائے گا ؟ پھر نبی کریم عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی : ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا ۔ (سورہ الفتح:۵)
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مردوں  اور ایمان والی عورتوں  کو ان باغوں  میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں  بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں  رہیں  گے اورتاکہ اللہ  ان کی برائیاںان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں  بڑی کامیابی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵ / ۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)

اس آیت میں  جس فتح کی بشارت دی گئی اس سے کون سی فتح مراد ہے ، اس کے بارے میں  مفسّرین کے مختلف اقوال ہیں ، اکثر مفسّرین کے نزدیک اس سے صلحِ حدیبیہ کی فتح مراد ہے ۔حدیبیہ مکہ ٔمکرمہ کے نزدیک ایک کنواں  ہے اور اس سارے واقعہ کا مختصرخلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کے ہمراہ امن کے ساتھ مکہ ٔمکرمہ میں داخل ہوئے ، ان میں  سے کوئی حلق کیے ہوئے اور کوئی قصر کیے ہوئے تھا ، نیز آپ کعبۂ معظمہ میں داخل ہوئے ، کعبہ کی چابی لی ، طواف فرمایا اور عمرہ کیا ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کو اس خواب کی خبر دی تو سب خوش ہوئے ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عمرہ کا قصد فرمایا اور 1400 صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کے ساتھ ذی القعدہ کی پہلی تاریخ،سن 6 ہجری کو روانہ ہوگئے اور ذوالحُلَیْفَہ میں  پہنچ کر وہاں  مسجد میں  دو رکعتیں  پڑھیں ، عمرہ کا احرام باندھا اور نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اکثر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے بھی احرام باندھا۔ بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے جُحْفَہ سے احرام باندھا ۔ راستے میں  پانی ختم ہو گیا تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے عرض کی : لشکر میں  پانی بالکل باقی نہیں  ہے ، صرف حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے برتن میں  تھوڑا ساپانی بچا ہے ۔

نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے برتن میں  دستِ مبارک ڈالا تو مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جوش مارنے لگے ، پھر سارے لشکر نے پانی پیا اور وضو کیا ۔ جب مقامِ عُسفان میں  پہنچے تو خبر آئی کہ کفارِ قریش بڑے سازو سامان کے ساتھ جنگ کےلیے تیار ہیں ۔ جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو پھر پانی ختم ہوگیا حتی کہ لشکر والوں  کے پاس ایک قطرہ نہ رہا ، اوپر سے گرمی بھی بہت شدید تھی ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کنوئیں میں  کلی فرمائی تو اس کی برکت سے کنواں  پانی سے بھر گیا ، پھر سب نے وہ پانی پیا اور اونٹوں کو پلایا ۔

یہاں کفارِ قریش کی طرف سے حال معلوم کرنے کےلیے کئی شخص بھیجے گئے اور سب نے جا کر یہی بیان کیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عمرہ کےلیے تشریف لائے ہیں ، جنگ کا ارادہ نہیں  ہے ۔ لیکن انہیں  یقین نہ آیا توآخر کار انہوں نے عُرْوَہْ بن مسعود ثَقَفِی کو حقیقت حال جاننے کےلیے بھیجا ، یہ طائف کے بڑے سردار اور عرب کے انتہائی مالدار شخص تھے ، اُنہوں  نے آکر دیکھا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  دستِ مبارک دھوتے ہیں تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ تَبَرُّک کے طور پر غُسالَہ شریف حاصل کرنے کےلیے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ اگر کبھی لعابِ دہن ڈالتے ہیں  تو لوگ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں  اور جس کو وہ حاصل ہو جاتا ہے وہ اپنے چہرے اور بدن پر برکت کےلیے مل لیتا ہے ، جسمِ اقدس کا کوئی بال گرنے نہیں  پاتا اگر کبھی جدا ہوا تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ اس کو بہت ادب کے ساتھ لیتے اور جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں  ، جب نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کلام فرماتے ہیں  تو سب خاموش ہوجاتے ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ادب و تعظیم کی وجہ سے کوئی شخص اوپر کی طرف نظر نہیں اُٹھا سکتا ۔ عُروَہ نے قریش سے جا کر یہ سب حال بیان کیا اور کہا : میں  فارس ، روم اور مصر کے بادشاہوں  کے درباروں  میں  گیا ہوں ، میں  نے کسی بادشاہ کی یہ عظمت نہیں  دیکھی جو محمد مصطفی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُن کے اصحاب میں  ہے ، مجھے اندیشہ ہے کہ تم ان کے مقابلے میں  کامیاب نہ ہو سکو گے ۔ قریش نے کہا ایسی بات مت کہو ، ہم اس سال انہیں واپس کردیں گے وہ اگلے سال آئیں ۔ عُروَہ نے کہا : مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں  کوئی مصیبت پہنچے گی ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ طائف واپس چلے گئے اور اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں مشرف بہ اسلام کیا ۔ اسی مقام پر نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ سے بیعت لی، اسے ’’بیعتِ رضوان‘‘ کہتے ہیں ۔ بیعت کی خبر سے کفار خوف زدہ ہوئے اور ان کے رائے دینے والوں نے یہی مناسب سمجھا کہ صلح کرلیں ، چنانچہ صلح نامہ لکھا گیا اور آئندہ سال نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تشریف لانا قرار پایا اور یہ صلح مسلمانوں  کے حق میں  بہت نفع مند ہوئی بلکہ نتائج کے اعتبار سے فتح ثابت ہوئی، اسی لیے اکثر مفسّرین فتح سے صلحِ حدیبیہ مراد لیتے ہیں اور بعض مفسّرین وہ تمام اسلامی فتوحات مراد لیتے ہیں جو آئندہ ہونے والی تھیں  جیسے مکہ ، خیبر ، حنین اور طائف وغیرہ کی فتوحات۔اس صورت میں  یہاں  فتح کوماضی کے صیغہ سے اس لیے بیان کیاگیا کہ ان فتوحات کا وقوع یقینی تھا ۔ (تفسیر خازن الفتح تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۱۴۴)(روح البیان، الفتح الآیۃ: ۱، ۹ / ۳-۷)(تفسیر جلالین مع صاوی الفتح الآیۃ: ۱، ۵ ۔ ۱۹۶۵-۱۹۶۶) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 9 May 2022

میر جعفر کون تھا ؟

0 comments
میر جعفر کون تھا ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : میر جعفر نام جعفر علی خان نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک سردار تھا ۔ بعد میں ترقی کرتے ہوئے سپہ سالار کے عہدے تک پہنچ گیا یہ نہایت بد فطرت آدمی تھا ۔ اس کی نگاہیں تخت بنگال پر تھیں یہ چاہتا تھا کہ نوجوان نواب کو ہٹاکر خود نواب بن جائے اس لیے اس نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہو گیا ۔ انہوں نے میر جعفر کو 1757ء برائے نام بنگال کا نواب مقرر کیا یہ ایک کٹھ پتلی حکمران تھا اصل اختیارات لارڈ رابرٹ کلائیو کے ہاتھ میں تھے اس لیے انگریزوں کو لوٹ مار کی آزادی تھی انہوں نے بنگالی عوام کو جی بھر لوٹا ان کے قالین کے کاروبار تباہ ہو گئے انگریز نے اسے معزول کر کے پنشن مقرر کر دی اوراس کے داماد میر قاسم علی خان کونواب بنایا یہ انگریزوں کا مخالف تھا اس نے انگریزوں سے جنگ کی تو انگریزوں نے میر جعفر کو دوبارہ نواب بنایا اسی وجہ سے بنگال سے اسلامی حکومت ختم ہوئی میر جعفر کی وفات 5فروری 1765ء میں ہوئی ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا : ⬇

جعفر از بنگال و صدق از دکن
ننگ آدم ننگ دین ننگ وطن

جنگ پلاسی وہ جنگ ہے جسے برصغیر میں برطانوی حکومت کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے ۔ یہ جنگ 23جون 1757ء کو لڑی گئی تھی ۔ اس جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ انگریزوں نے جو تاجروں کے روپ میں ہندوستان آئے تھے، ہندوستان کی دولت سے متاثر ہوکر اس پر قابض ہونے کے خواب دیکھنے لگے اور انہوں نے سب سے پہلے بنگال پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔ بنگال پر ان دنوں نواب سراج الدولہ کی حکمرانی تھی ۔ انگریزوں نے جن کی قیادت لارڈ کلائیو کر رہا تھا سراج الدولہ کے کئی امرا اور سپہ سالار میر جعفر کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملالیا ۔ 23 جون 1757ء کو پلاسی کے میدان میں انگریزوں اور سراج الدولہ کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئی ۔ سراج الدولہ کی فوج کا ایک بڑا حصہ جس کی کمان میر جعفر کررہا تھا ، لاتعلق کھڑا رہا نتیجہ سراج الدولہ کی شکست کی صورت میں نکلا ۔ سراج الدولہ بھی میدان جنگ سے فرار ہونے پر مجبور ہو گیا جسے میر جعفر کے بیٹے نے گرفتار کرلیا اور قتل کر دیا یوں پلاسی کی فتح نے ہندوستان میں انگریزی حکومت کے قیام کے راستے ہموار کر دیے ۔

برطانوی نو آبادکاروں کے استعماری عہد کا ڈھانچہ نوآبادیاتی فلاسفی پر استوار ہوا، اس فلسفہ کی سماجی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے یورپی افضلیت کا تصور رائج کیا گیا، گویا یہ بیانیہ تشکیل پایا کہ مغربی لوگ ترقی یافتہ اور آزاد خیال ہیں، مسلمان شدت پسند اور سائنسی تخیل کے خلاف ہیں۔ ان تصورات کو اٹل حقیقت بنا کر پیش کرنے کےلیے نصاب کو بہ طور ڈھال استعمال کیا گیا۔ اس مقصد کےلیے ، جیمز مل سے برٹش انڈیا کی تاریخ لکھوائی گئی اور بعد ازاں کمپنی نے انھیں 1823 ء میں ملازمت دی بلکہ ان کے دونوں بیٹوں جان سٹارٹ اور جیمز بینتھم کو بھی کمپنی نے ملازم رکھ لیا۔ جیمز مل نے نو آبادکاروں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ہندستان کی سیاسی تاریخ پر کتاب لکھی اور ان کے بیٹے جان سٹارٹ مل نے نوآبادیاتی تعلیمی ڈھانچے کی بنیاد رکھنے کے لیے انگریزی زبان میں تعلیم کی حمایت میں کتابچہ تحریر کیا ۔

ہندستان میں برطانوی نو آبادیاتی عہد کی تاریخ کے الم ناک چہروں کی ملمع کاری کی گئی چنانچہ برطانوی نو آباد کار جدت طراز کے روپ میں پیش کیے گئے، چنانچہ برٹش راج دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا دور ایسٹ انڈیا کمپنی اور دوسرا دور سلطنت برطانیہ کے ماتحت۔ درحقیقت استعماریت کے سہولت کاروں نے دانستہ طور پر یہ تقسیم کی جس کا مقصد 1857 ء سے قبل ہندستان میں اقتصادی تباہ کاریوں اور وسائل کی لوٹ مار کمپنی کے کھاتے میں ڈال کر، برطانوی استعمار اپنے مداخلتی کردار سے علیحدگی چاہتا ہے وگرنہ تھامس رو برطانوی بادشاہ کے سفیر کی حیثیت سے جہانگیر کے دربار میں تجارتی پروانہ حاصل کرنے کےلیے چار سال تگ و دو کرتا رہا ۔ (چشتی)

جب برطانوی بادشاہ کو یہ اجازت نامہ مل گیا تو برطانوی پارلیمان نے ہندستان سے تجارت کی غرض سے، ایسٹ انڈیا کمپنی کو چارٹر دیا۔ برطانوی پارلیمان کے ممبرز کمپنی کے شیئر ہولڈرز بنے، کمپنی نے 1765 ء میں جب ہندستان میں دیوانی کے اختیارات حاصل کیے تو ہندستانی دولت برطانوی خزانے میں جمع کرانے کے لیے 1769 ء میں کمپنی نے پارلیمان کے ساتھ معاہدہ کیا گویا دیوانی کی مد میں حاصل کی جانے والی رقم سے چار لاکھ پاونڈز سالانہ برٹش خزانے میں کمپنی نے جمع کرانا شروع کیے ۔

میر جعفر اور رابرٹ کلائیو
دیوانی کے اختیارات حاصل کرنے سے قبل، علی وردی خان کے انتقال ہوتے ہی، بائیس سالہ سراج الدولہ کو کمپنی کی ایماء پر تخت نشین کرایا گیا اور فروری 1757 ء میں بنگال، بہار اور اڑیسہ میں کمپنی نے معاہدے کے تحت ٹیکس چھوٹ اور سکہ جاری کرنے کا اختیار حاصل کر لیا۔ اس معاہدے پر میر جعفر خان بہادر نے بھی دستخط کیے، درحقیقت یہ معاہدہ کرانے میں میر جعفر کا کلیدی کردار تھا۔ اس کے بعد سراج الدولہ کی مہروں سے، بنگال، بہار اور اڑیسہ کے ماتحت منتظمین کو کمپنی سے ٹیکس وصول نہ کرنے کے پروانے جاری کیے گئے۔ سراج الدولہ کی تخت نشینی ہوتے ہی، اس کی نا اہلی، کم عقلی کی نشاندہی شاہ ولی اللہ نے اپنے مکتوب میں کر دی تھی اور پھر وہی ہوا ۔ (چشتی)

1757 ء میں جنگ پلاسی ہوئی، جرنیل میر جعفر نے اس دھرتی سے غداری کی اور تخت نشینی کی خاطر برطانوی استعماریت کی بنیاد رکھنے میں انگریز کا گماشتہ بنا، میر جعفر کی کوٹھی آج حرام کی ڈیوڑھی کے نام سے نشان عبرت ہے۔ آج کے دن ہی، 23 جون 1757 ء میں، جنگ پلاسی کے بعد میر جعفر کو غداری کا انعام دینے کے لیے تخت نشین کرایا گیا اور اس کے لیے کمپنی کے نمائندہ کرنل رابرٹ کلائیو نے ایک معاہدہ کیا۔ تیرہ نکات پر مشتمل یہ معاہدہ 15 رمضان المبارک 1757 ء میں کیا گیا۔ معاہدہ کی شقیں ملاحظہ کیجیے : ⬇

1۔ نواب سراج الدولہ منصور الملک شاہ قلی خان بہادر ہیبت جنگ کے ساتھ امن کے دنوں میں جو معاہدہ ہوا تھا، میں اس کی مکمل پاسداری کروں گا ۔

2۔ انگریز کے دشمن میرے (میر جعفر) دشمن ہیں، خواہ وہ ہندوستانی ہوں یا یورپی ۔

3۔ صوبہ بنگال، بہار اور اڑیسہ میں فرانسیسیوں سے وابستہ تمام اثاثہ جات اور کارخانے انگریزوں کے قبضے میں رہیں گے اور نہ ہی میں فرانسیسیوں کو اب کبھی بھی مذکورہ صوبوں میں آباد رہنے دوں گا ۔

4۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ پر نواب (سراج الدولہ) کے قبضے کے دوران اور لوٹ مار سے ہونے والے نقصانات، اور فورسز پر ہونے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے، میں (کمپنی کو) ایک کروڑ روپے (ہرجانہ) ادا کروں گا ۔

5۔ کلکتہ میں انگریز باشندوں سے لوٹی گئی دولت کا نقصان پورا کرنے کے لیے، میں 50 لاکھ روپے ادا کرنے پر رضامند ہوں ۔

6۔ ہندوؤں، مسلمانوں اور کلکتہ کے دیگر باشندوں سے لوٹی گئی دولت کا نقصان پورا کرنے کے لیے، میں 25 لاکھ روپے ادا کروں گا ۔

7۔ کلکتہ کے آرمینیائی باشندوں سے لوٹی گئی دولت کے عوض، میں کمپنی کو 7 لاکھ روپے کی رقم دوں گا۔ کمپنی کو دی جانے والی رقم کی انگریزوں، ہندوؤں اور مسلمانوں میں تقسیم کا اختیار کرنل کلائیو اور کمپنی کی کونسل کے سپرد ہوگا، جسے کمپنی مناسب سمجھیں یہ رقم تقسیم کر دے ۔

8۔ کلکتہ کی سرحدوں کے چار اطراف، کھائی کے اندر جو اراضی زمینداروں کی ملکیت ہے، اس کے علاوہ، کھائی والی زمین کے ارد گرد 100 گز زمین مستقل کمپنی کے نام کروں گا ۔

9۔ کلکتہ کے جنوب میں، جہاں تک کلیپی ( کلکتہ بندر گاہ کے قریب کا علاقہ) واقع ہے، کی تمام اراضی کمپنی کے زمینداری سسٹم کے ماتحت ہوگی، اور ان علاقوں کے تمام افسران کمپنی کے دائرہ اختیار میں ہوں گے، کمپنی دیگر زمینداروں کی طرح مذکورہ افسران سے بھی محصولات لے گی ۔ (چشتی)

10۔ جب بھی میں (میر جعفر) کمپنی کی معاونت کا مطالبہ کروں تو میں کمپنی کی دیکھ بھال کا بھی ذمہ دار ہوں گا ۔

11۔ میں دریائے گنگا کے قریب ہگلی کے نیچے کوئی نیا قلعہ تعمیر نہیں کروں گا ۔

12۔ جیسے ہی میں تینوں صوبوں میں حکومت قائم کروں گا، مذکورہ بالا رقوم کو پوری ایمانداری سے ادا کیا جائے گا ۔

اس معاہدے کے تحت، ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر جعفر کو تخت پر بٹھانے کے لیے بنگال کے خزانے سے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے وصول کیے صرف یہی نہیں بلکہ بنگال، بہار، اڑیسہ کے علاقوں میں محصولات جمع کرنے کا اختیار بھی حاصل کر لیا۔ اس معاہدے کے بعد، میر جعفر نے اپنے ماتحت علاقوں میں کمپنی کے گماشتوں کے لیے سند جاری کی پندرہ جولائی 1757 ء میں جاری کی گئی اس سند کا متن واضح کرتا ہے کہ کمپنی وسائل کی لوٹ مار اور مقامی تاجروں، صنعتوں کو تباہ کر رہی تھی ان گماشتوں کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ کسی بھی مقامی تاجر کا کاروبار بند کرانے کے مجاز ہوں گے، تین سال بعد میر جعفر کو تخت سے اتار کر میر قاسم کو 1760 ء میں تخت نشین کیا گیا، پھر 1762 ء میں دوبارہ میر جعفر کو تخت نشین کیا گیا، تخت نشینی بھی کمپنی کے لیے منافع بخش کاروبار بن گئی اس سے کمپنی نے پانچ کروڑ روپے پر مشتمل دولت ہندستانی خزانے سے حاصل کی ۔ (چشتی)

یورپ بالخصوص برطانیہ میں دولت کی اس فراوانی کے بعد، ایڈم سمتھ نے 1776 ء میں ویلتھ آف نیشنز کتاب لکھ کر اقتصادی ترقی کے نئے اصولوں پر پیدائش دولت سے لے کر تقسیم دولت کا طریقہ کار پیش کیا، برطانیہ میں لکھی گئی یہ کتاب یورپی سرمایہ داروں کے لیے بائبل کا درجہ اختیار کر گئی۔ بنگال کی دولت لوٹنے کے بعد، برطانیہ میں کمپنی کے شیئرز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا یوں برطانوی پارلیمان میں بیٹھے کمپنی کے شیئر ہولڈرز کی چاندی ہو گئی۔ 1700 ء میں ہندستان کا عالمی تجارت میں 24 اعشاریہ چار فیصد حصہ تھا اور برطانیہ کا حصہ محض 2 اعشاریہ آٹھ فیصد تھا، یہ تناسب ہندستان پر انگریز قبضے کے بعد 1870 ء میں کم ہو کر 12 اعشاریہ دو فیصد رہ گیا ۔

برطانیہ میں دولت کی فراوانی ہونے کے بعد ہی، یورپی ایجادات اور صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ ہندستان میں اپنی مداخلت کی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے، برطانوی پارلیمان نے گورنر جنرل کا عہدہ متعارف کرا دیا، 1773 ء میں گورنر جنرل کا یہ عہدہ کلکتہ کے لئے تشکیل دیا گیا جسے کمپنی کی بمبئی اور مدراس پریذیڈنسی پر فوقیت دی گئی، اس عہدے کی تنخواہ 25 ہزار پاونڈز مقرر کی گئی جس کی ادائیگی ہندستانی خزانے سے ہوتی، اس عہدے کے ساتھ برطانوی پارلیمان نے پانچ رکنی کونسل تشکیل دی اور اس کونسل کے تین ممبرز کی نامزدگی کا اختیار پارلیمان کے پاس رکھا گیا، جب 1858 ء میں ملکہ وکٹوریا نے آرڈیننس پاس کیا تو برطانوی پارلیمان ہندستان پر براہ راست مسلط کر دی گئی اور کمپنی کے تحت موجود تمام اثاثہ جات بھی برطانیہ نے اپنے قبضے میں لے لیے اور یہی گورنر جنرل کا عہدہ وائسرائے کے منصب سے تبدیل کر دیا گیا ۔

تقسیم ہند کے بعد بھی یہ منصب مختلف صورتوں میں یہاں موجود ہیں، ان منصبوں کے ذریعے سے ہی جدید عہد کا استعمار مقامی افراد کے لئے میر جعفر والے کردار متعین کرتا ہے اور مابعد نوآبادیاتی سیاسی ڈھانچے کے تناظر میں ملک کی اقتصادیات کی شہ رگ کو استعمار اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ نوجوان نسل کو اس خطے کی سیاسی و اقتصادی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کر کے ایسے کرداروں کی نشاندہی کرنی چاہیے جو عہدوں کےلیے قوموں پر غلامی کا طوق مسلط کرتے ہیں ۔ یا اللہ ہمیں غدّاری اور غدّاروں سے بچا آمین ۔ (طالبِ دع و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)