کھلی ہوئی روشن فتح
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّا فَتَحۡنَا لَكَ فَتۡحًا مُّبِيۡنًا ۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 1)
ترجمہ : (اے حبیب ﷺ) ہم نے آپ کےلیے کھلی ہوئی روشن فتح عطا فرمائی ۔
اس آیت میں صرف نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا گیا ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، بے شک ہم نے آپ کےلیے ایسی فتح کا فیصلہ فرما دیاہے جو انتہائی عظیم ، روشن اور ظاہر ہے ۔
الفتح : ١ میں جس فتح کا ذکر فرمایا ہے ، اس سے مراد کون سی فتح ہے ؟ اس میں مفسرین کے کوئی اقوال ہیں : (١) فتح مکہ (٢) فتح روم (٣) صلح حدیبیہ کی فتح (٤) دلائل اور براہین سے اسلا کی فتح (٥) اسلحہ سے اسلام کی فتح (٦) حق اور باطل کے اختلاف میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ۔
جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد حدیبیہ کی فتح ہے ، حضرت انس (رض) نے الفتح : ١ کی تفسیر میں کہا : اس سے مراد حدیبیہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٤) حضرت جابر نے کہا : ہم فتح مکہ کا شمار نہیں کرتے تھے مگر حدیبیہ کے دن اور فراء نے کہا : حضرت جابر نے فرمایا : تم لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہو ، فتح مکہ بھی فتح تھی اور ہم حدیبیہ کے دن بیعت رضوان کو فتح شمار کرتے ہیں، ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چودہ سو افراد تھے، اور حدیبیہ ایک کنواں ہے ، ضحاک نے کہا : یہ فتح بغیر جنگ کے حاصل ہوئی اور یہ صلح بھی فتح تھی، مجاہد نے کہا : اس سے مراد حدیبیہ میں اونٹوں کو نحر کرنا اور سروں کو مونڈنا ہے اور کہا : فتح حدیبیہ میں بہت عظی نشانیاں ہیں، حدیبیہ کا پانی تقریباً ختم ہوگیا تھا، نبی و نے اس میں کلی فرمائی تو اس کا پانی کناروں سے چھلکنے لگا، حتیٰ کہ آپ کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے وہ پانی پی لیا، اور موسیٰ بن عقبہ نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے حدیبیہ سے واپسی کے وقت کہا : یہ فتح نہیں ہے، ہم کو بیت اللہ کی زیارت کرنے سے روک دیا گیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ یہ سب سے عظیم فتح ہے ، مشرکین اس بات سے راضی ہوگئے کہ وہ تم کو اپنے شہروں سے دور رکھیں اور تم سے مقدمہ کا سوال کریں اور امان کے حصول میں تمہاری طرف رظبت کریں اور انہوں نے تم سے وہ چیزیں دیکھیں جو ان کو ناپسند ہیں ۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٣٧١١)
شعبی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : اس فتح سے مراد فتح حدیبیہ ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس فتح میں وہ چیزیں حاصل ہوئیں جو کسی اور غزوہ میں حاصل نہیں ہوئیِ آپ کو اس میں اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلافِ اولیٰ سب کاموں پر مغفرت حاصل ہوئی، آپ کو بیعت رضوان حاصل ہوئی، اسی غزوہ کے بعد خیبر فتح ہو اور رومی ایرانیوں پر غالب ہوئے اور مسلمانوں کو اس سے خوشی ہوئی کہ اہل کتاب کو مجوسیوں پر غلبہ ہوا اور زہری نے کہا کہ حدیبیہ کی فتح سب سے بڑی فتح تھی، حدیبیہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چودہ سو مسلمان تھے اور اس کے صرف دو سال بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے ۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٣٩، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : جب ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا‘‘ سے لے کر ’’فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ تک آیات نازل ہوئیں اس وقت نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حدیبیہ سے واپس لوٹ رہے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کو بہت حزن وملال تھا اور نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیبیہ میں اونٹ نحر فرما دیا تھا ، (جب یہ آیات نازل ہوئیں) تو ارشاد فرمایا : ’’مجھ پرایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے ۔ (مسلم کتاب الجہاد والسّیر، باب صلح الحدیبیۃ فی الحدیبیۃ، ص۹۸۷، الحدیث: ۹۷،چشتی)
ترمذی شریف کی روایت میں ہے،حضرت اَنَس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حدیبیہ سے واپسی پرنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پریہ آیت نازل ہوئی ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ تو آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا : ’’ آج مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے روئے زمین پر موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے ، پھرنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کے سامنے اس آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کو مبارک ہو ، بیشک اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ آپ کے ساتھ کیامعاملہ کیا جائے گا لیکن (ابھی تک یہ بیان نہیں فرمایا گیاکہ) ہمارے ساتھ کیا کیاجائے گا ؟ پھر نبی کریم عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی : ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا ۔ (سورہ الفتح:۵)
ترجمہ : تاکہ وہ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اورتاکہ اللہ ان کی برائیاںان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵ / ۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)
اس آیت میں جس فتح کی بشارت دی گئی اس سے کون سی فتح مراد ہے ، اس کے بارے میں مفسّرین کے مختلف اقوال ہیں ، اکثر مفسّرین کے نزدیک اس سے صلحِ حدیبیہ کی فتح مراد ہے ۔حدیبیہ مکہ ٔمکرمہ کے نزدیک ایک کنواں ہے اور اس سارے واقعہ کا مختصرخلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کے ہمراہ امن کے ساتھ مکہ ٔمکرمہ میں داخل ہوئے ، ان میں سے کوئی حلق کیے ہوئے اور کوئی قصر کیے ہوئے تھا ، نیز آپ کعبۂ معظمہ میں داخل ہوئے ، کعبہ کی چابی لی ، طواف فرمایا اور عمرہ کیا ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کو اس خواب کی خبر دی تو سب خوش ہوئے ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عمرہ کا قصد فرمایا اور 1400 صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کے ساتھ ذی القعدہ کی پہلی تاریخ،سن 6 ہجری کو روانہ ہوگئے اور ذوالحُلَیْفَہ میں پہنچ کر وہاں مسجد میں دو رکعتیں پڑھیں ، عمرہ کا احرام باندھا اور نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اکثر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے بھی احرام باندھا۔ بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے جُحْفَہ سے احرام باندھا ۔ راستے میں پانی ختم ہو گیا تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے عرض کی : لشکر میں پانی بالکل باقی نہیں ہے ، صرف حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے برتن میں تھوڑا ساپانی بچا ہے ۔
نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے برتن میں دستِ مبارک ڈالا تو مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جوش مارنے لگے ، پھر سارے لشکر نے پانی پیا اور وضو کیا ۔ جب مقامِ عُسفان میں پہنچے تو خبر آئی کہ کفارِ قریش بڑے سازو سامان کے ساتھ جنگ کےلیے تیار ہیں ۔ جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو پھر پانی ختم ہوگیا حتی کہ لشکر والوں کے پاس ایک قطرہ نہ رہا ، اوپر سے گرمی بھی بہت شدید تھی ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کنوئیں میں کلی فرمائی تو اس کی برکت سے کنواں پانی سے بھر گیا ، پھر سب نے وہ پانی پیا اور اونٹوں کو پلایا ۔
یہاں کفارِ قریش کی طرف سے حال معلوم کرنے کےلیے کئی شخص بھیجے گئے اور سب نے جا کر یہی بیان کیا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عمرہ کےلیے تشریف لائے ہیں ، جنگ کا ارادہ نہیں ہے ۔ لیکن انہیں یقین نہ آیا توآخر کار انہوں نے عُرْوَہْ بن مسعود ثَقَفِی کو حقیقت حال جاننے کےلیے بھیجا ، یہ طائف کے بڑے سردار اور عرب کے انتہائی مالدار شخص تھے ، اُنہوں نے آکر دیکھا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دستِ مبارک دھوتے ہیں تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ تَبَرُّک کے طور پر غُسالَہ شریف حاصل کرنے کےلیے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ اگر کبھی لعابِ دہن ڈالتے ہیں تو لوگ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کو وہ حاصل ہو جاتا ہے وہ اپنے چہرے اور بدن پر برکت کےلیے مل لیتا ہے ، جسمِ اقدس کا کوئی بال گرنے نہیں پاتا اگر کبھی جدا ہوا تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ اس کو بہت ادب کے ساتھ لیتے اور جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ، جب نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کلام فرماتے ہیں تو سب خاموش ہوجاتے ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ادب و تعظیم کی وجہ سے کوئی شخص اوپر کی طرف نظر نہیں اُٹھا سکتا ۔ عُروَہ نے قریش سے جا کر یہ سب حال بیان کیا اور کہا : میں فارس ، روم اور مصر کے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں ، میں نے کسی بادشاہ کی یہ عظمت نہیں دیکھی جو محمد مصطفی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُن کے اصحاب میں ہے ، مجھے اندیشہ ہے کہ تم ان کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکو گے ۔ قریش نے کہا ایسی بات مت کہو ، ہم اس سال انہیں واپس کردیں گے وہ اگلے سال آئیں ۔ عُروَہ نے کہا : مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں کوئی مصیبت پہنچے گی ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ طائف واپس چلے گئے اور اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں مشرف بہ اسلام کیا ۔ اسی مقام پر نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ سے بیعت لی، اسے ’’بیعتِ رضوان‘‘ کہتے ہیں ۔ بیعت کی خبر سے کفار خوف زدہ ہوئے اور ان کے رائے دینے والوں نے یہی مناسب سمجھا کہ صلح کرلیں ، چنانچہ صلح نامہ لکھا گیا اور آئندہ سال نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تشریف لانا قرار پایا اور یہ صلح مسلمانوں کے حق میں بہت نفع مند ہوئی بلکہ نتائج کے اعتبار سے فتح ثابت ہوئی، اسی لیے اکثر مفسّرین فتح سے صلحِ حدیبیہ مراد لیتے ہیں اور بعض مفسّرین وہ تمام اسلامی فتوحات مراد لیتے ہیں جو آئندہ ہونے والی تھیں جیسے مکہ ، خیبر ، حنین اور طائف وغیرہ کی فتوحات۔اس صورت میں یہاں فتح کوماضی کے صیغہ سے اس لیے بیان کیاگیا کہ ان فتوحات کا وقوع یقینی تھا ۔ (تفسیر خازن الفتح تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۱۴۴)(روح البیان، الفتح الآیۃ: ۱، ۹ / ۳-۷)(تفسیر جلالین مع صاوی الفتح الآیۃ: ۱، ۵ ۔ ۱۹۶۵-۱۹۶۶) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment