Monday 9 May 2022

میر جعفر کون تھا ؟

0 comments
میر جعفر کون تھا ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : میر جعفر نام جعفر علی خان نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک سردار تھا ۔ بعد میں ترقی کرتے ہوئے سپہ سالار کے عہدے تک پہنچ گیا یہ نہایت بد فطرت آدمی تھا ۔ اس کی نگاہیں تخت بنگال پر تھیں یہ چاہتا تھا کہ نوجوان نواب کو ہٹاکر خود نواب بن جائے اس لیے اس نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہو گیا ۔ انہوں نے میر جعفر کو 1757ء برائے نام بنگال کا نواب مقرر کیا یہ ایک کٹھ پتلی حکمران تھا اصل اختیارات لارڈ رابرٹ کلائیو کے ہاتھ میں تھے اس لیے انگریزوں کو لوٹ مار کی آزادی تھی انہوں نے بنگالی عوام کو جی بھر لوٹا ان کے قالین کے کاروبار تباہ ہو گئے انگریز نے اسے معزول کر کے پنشن مقرر کر دی اوراس کے داماد میر قاسم علی خان کونواب بنایا یہ انگریزوں کا مخالف تھا اس نے انگریزوں سے جنگ کی تو انگریزوں نے میر جعفر کو دوبارہ نواب بنایا اسی وجہ سے بنگال سے اسلامی حکومت ختم ہوئی میر جعفر کی وفات 5فروری 1765ء میں ہوئی ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا : ⬇

جعفر از بنگال و صدق از دکن
ننگ آدم ننگ دین ننگ وطن

جنگ پلاسی وہ جنگ ہے جسے برصغیر میں برطانوی حکومت کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے ۔ یہ جنگ 23جون 1757ء کو لڑی گئی تھی ۔ اس جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ انگریزوں نے جو تاجروں کے روپ میں ہندوستان آئے تھے، ہندوستان کی دولت سے متاثر ہوکر اس پر قابض ہونے کے خواب دیکھنے لگے اور انہوں نے سب سے پہلے بنگال پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔ بنگال پر ان دنوں نواب سراج الدولہ کی حکمرانی تھی ۔ انگریزوں نے جن کی قیادت لارڈ کلائیو کر رہا تھا سراج الدولہ کے کئی امرا اور سپہ سالار میر جعفر کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملالیا ۔ 23 جون 1757ء کو پلاسی کے میدان میں انگریزوں اور سراج الدولہ کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئی ۔ سراج الدولہ کی فوج کا ایک بڑا حصہ جس کی کمان میر جعفر کررہا تھا ، لاتعلق کھڑا رہا نتیجہ سراج الدولہ کی شکست کی صورت میں نکلا ۔ سراج الدولہ بھی میدان جنگ سے فرار ہونے پر مجبور ہو گیا جسے میر جعفر کے بیٹے نے گرفتار کرلیا اور قتل کر دیا یوں پلاسی کی فتح نے ہندوستان میں انگریزی حکومت کے قیام کے راستے ہموار کر دیے ۔

برطانوی نو آبادکاروں کے استعماری عہد کا ڈھانچہ نوآبادیاتی فلاسفی پر استوار ہوا، اس فلسفہ کی سماجی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے یورپی افضلیت کا تصور رائج کیا گیا، گویا یہ بیانیہ تشکیل پایا کہ مغربی لوگ ترقی یافتہ اور آزاد خیال ہیں، مسلمان شدت پسند اور سائنسی تخیل کے خلاف ہیں۔ ان تصورات کو اٹل حقیقت بنا کر پیش کرنے کےلیے نصاب کو بہ طور ڈھال استعمال کیا گیا۔ اس مقصد کےلیے ، جیمز مل سے برٹش انڈیا کی تاریخ لکھوائی گئی اور بعد ازاں کمپنی نے انھیں 1823 ء میں ملازمت دی بلکہ ان کے دونوں بیٹوں جان سٹارٹ اور جیمز بینتھم کو بھی کمپنی نے ملازم رکھ لیا۔ جیمز مل نے نو آبادکاروں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے ہندستان کی سیاسی تاریخ پر کتاب لکھی اور ان کے بیٹے جان سٹارٹ مل نے نوآبادیاتی تعلیمی ڈھانچے کی بنیاد رکھنے کے لیے انگریزی زبان میں تعلیم کی حمایت میں کتابچہ تحریر کیا ۔

ہندستان میں برطانوی نو آبادیاتی عہد کی تاریخ کے الم ناک چہروں کی ملمع کاری کی گئی چنانچہ برطانوی نو آباد کار جدت طراز کے روپ میں پیش کیے گئے، چنانچہ برٹش راج دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا دور ایسٹ انڈیا کمپنی اور دوسرا دور سلطنت برطانیہ کے ماتحت۔ درحقیقت استعماریت کے سہولت کاروں نے دانستہ طور پر یہ تقسیم کی جس کا مقصد 1857 ء سے قبل ہندستان میں اقتصادی تباہ کاریوں اور وسائل کی لوٹ مار کمپنی کے کھاتے میں ڈال کر، برطانوی استعمار اپنے مداخلتی کردار سے علیحدگی چاہتا ہے وگرنہ تھامس رو برطانوی بادشاہ کے سفیر کی حیثیت سے جہانگیر کے دربار میں تجارتی پروانہ حاصل کرنے کےلیے چار سال تگ و دو کرتا رہا ۔ (چشتی)

جب برطانوی بادشاہ کو یہ اجازت نامہ مل گیا تو برطانوی پارلیمان نے ہندستان سے تجارت کی غرض سے، ایسٹ انڈیا کمپنی کو چارٹر دیا۔ برطانوی پارلیمان کے ممبرز کمپنی کے شیئر ہولڈرز بنے، کمپنی نے 1765 ء میں جب ہندستان میں دیوانی کے اختیارات حاصل کیے تو ہندستانی دولت برطانوی خزانے میں جمع کرانے کے لیے 1769 ء میں کمپنی نے پارلیمان کے ساتھ معاہدہ کیا گویا دیوانی کی مد میں حاصل کی جانے والی رقم سے چار لاکھ پاونڈز سالانہ برٹش خزانے میں کمپنی نے جمع کرانا شروع کیے ۔

میر جعفر اور رابرٹ کلائیو
دیوانی کے اختیارات حاصل کرنے سے قبل، علی وردی خان کے انتقال ہوتے ہی، بائیس سالہ سراج الدولہ کو کمپنی کی ایماء پر تخت نشین کرایا گیا اور فروری 1757 ء میں بنگال، بہار اور اڑیسہ میں کمپنی نے معاہدے کے تحت ٹیکس چھوٹ اور سکہ جاری کرنے کا اختیار حاصل کر لیا۔ اس معاہدے پر میر جعفر خان بہادر نے بھی دستخط کیے، درحقیقت یہ معاہدہ کرانے میں میر جعفر کا کلیدی کردار تھا۔ اس کے بعد سراج الدولہ کی مہروں سے، بنگال، بہار اور اڑیسہ کے ماتحت منتظمین کو کمپنی سے ٹیکس وصول نہ کرنے کے پروانے جاری کیے گئے۔ سراج الدولہ کی تخت نشینی ہوتے ہی، اس کی نا اہلی، کم عقلی کی نشاندہی شاہ ولی اللہ نے اپنے مکتوب میں کر دی تھی اور پھر وہی ہوا ۔ (چشتی)

1757 ء میں جنگ پلاسی ہوئی، جرنیل میر جعفر نے اس دھرتی سے غداری کی اور تخت نشینی کی خاطر برطانوی استعماریت کی بنیاد رکھنے میں انگریز کا گماشتہ بنا، میر جعفر کی کوٹھی آج حرام کی ڈیوڑھی کے نام سے نشان عبرت ہے۔ آج کے دن ہی، 23 جون 1757 ء میں، جنگ پلاسی کے بعد میر جعفر کو غداری کا انعام دینے کے لیے تخت نشین کرایا گیا اور اس کے لیے کمپنی کے نمائندہ کرنل رابرٹ کلائیو نے ایک معاہدہ کیا۔ تیرہ نکات پر مشتمل یہ معاہدہ 15 رمضان المبارک 1757 ء میں کیا گیا۔ معاہدہ کی شقیں ملاحظہ کیجیے : ⬇

1۔ نواب سراج الدولہ منصور الملک شاہ قلی خان بہادر ہیبت جنگ کے ساتھ امن کے دنوں میں جو معاہدہ ہوا تھا، میں اس کی مکمل پاسداری کروں گا ۔

2۔ انگریز کے دشمن میرے (میر جعفر) دشمن ہیں، خواہ وہ ہندوستانی ہوں یا یورپی ۔

3۔ صوبہ بنگال، بہار اور اڑیسہ میں فرانسیسیوں سے وابستہ تمام اثاثہ جات اور کارخانے انگریزوں کے قبضے میں رہیں گے اور نہ ہی میں فرانسیسیوں کو اب کبھی بھی مذکورہ صوبوں میں آباد رہنے دوں گا ۔

4۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ پر نواب (سراج الدولہ) کے قبضے کے دوران اور لوٹ مار سے ہونے والے نقصانات، اور فورسز پر ہونے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے، میں (کمپنی کو) ایک کروڑ روپے (ہرجانہ) ادا کروں گا ۔

5۔ کلکتہ میں انگریز باشندوں سے لوٹی گئی دولت کا نقصان پورا کرنے کے لیے، میں 50 لاکھ روپے ادا کرنے پر رضامند ہوں ۔

6۔ ہندوؤں، مسلمانوں اور کلکتہ کے دیگر باشندوں سے لوٹی گئی دولت کا نقصان پورا کرنے کے لیے، میں 25 لاکھ روپے ادا کروں گا ۔

7۔ کلکتہ کے آرمینیائی باشندوں سے لوٹی گئی دولت کے عوض، میں کمپنی کو 7 لاکھ روپے کی رقم دوں گا۔ کمپنی کو دی جانے والی رقم کی انگریزوں، ہندوؤں اور مسلمانوں میں تقسیم کا اختیار کرنل کلائیو اور کمپنی کی کونسل کے سپرد ہوگا، جسے کمپنی مناسب سمجھیں یہ رقم تقسیم کر دے ۔

8۔ کلکتہ کی سرحدوں کے چار اطراف، کھائی کے اندر جو اراضی زمینداروں کی ملکیت ہے، اس کے علاوہ، کھائی والی زمین کے ارد گرد 100 گز زمین مستقل کمپنی کے نام کروں گا ۔

9۔ کلکتہ کے جنوب میں، جہاں تک کلیپی ( کلکتہ بندر گاہ کے قریب کا علاقہ) واقع ہے، کی تمام اراضی کمپنی کے زمینداری سسٹم کے ماتحت ہوگی، اور ان علاقوں کے تمام افسران کمپنی کے دائرہ اختیار میں ہوں گے، کمپنی دیگر زمینداروں کی طرح مذکورہ افسران سے بھی محصولات لے گی ۔ (چشتی)

10۔ جب بھی میں (میر جعفر) کمپنی کی معاونت کا مطالبہ کروں تو میں کمپنی کی دیکھ بھال کا بھی ذمہ دار ہوں گا ۔

11۔ میں دریائے گنگا کے قریب ہگلی کے نیچے کوئی نیا قلعہ تعمیر نہیں کروں گا ۔

12۔ جیسے ہی میں تینوں صوبوں میں حکومت قائم کروں گا، مذکورہ بالا رقوم کو پوری ایمانداری سے ادا کیا جائے گا ۔

اس معاہدے کے تحت، ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر جعفر کو تخت پر بٹھانے کے لیے بنگال کے خزانے سے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے وصول کیے صرف یہی نہیں بلکہ بنگال، بہار، اڑیسہ کے علاقوں میں محصولات جمع کرنے کا اختیار بھی حاصل کر لیا۔ اس معاہدے کے بعد، میر جعفر نے اپنے ماتحت علاقوں میں کمپنی کے گماشتوں کے لیے سند جاری کی پندرہ جولائی 1757 ء میں جاری کی گئی اس سند کا متن واضح کرتا ہے کہ کمپنی وسائل کی لوٹ مار اور مقامی تاجروں، صنعتوں کو تباہ کر رہی تھی ان گماشتوں کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ کسی بھی مقامی تاجر کا کاروبار بند کرانے کے مجاز ہوں گے، تین سال بعد میر جعفر کو تخت سے اتار کر میر قاسم کو 1760 ء میں تخت نشین کیا گیا، پھر 1762 ء میں دوبارہ میر جعفر کو تخت نشین کیا گیا، تخت نشینی بھی کمپنی کے لیے منافع بخش کاروبار بن گئی اس سے کمپنی نے پانچ کروڑ روپے پر مشتمل دولت ہندستانی خزانے سے حاصل کی ۔ (چشتی)

یورپ بالخصوص برطانیہ میں دولت کی اس فراوانی کے بعد، ایڈم سمتھ نے 1776 ء میں ویلتھ آف نیشنز کتاب لکھ کر اقتصادی ترقی کے نئے اصولوں پر پیدائش دولت سے لے کر تقسیم دولت کا طریقہ کار پیش کیا، برطانیہ میں لکھی گئی یہ کتاب یورپی سرمایہ داروں کے لیے بائبل کا درجہ اختیار کر گئی۔ بنگال کی دولت لوٹنے کے بعد، برطانیہ میں کمپنی کے شیئرز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا یوں برطانوی پارلیمان میں بیٹھے کمپنی کے شیئر ہولڈرز کی چاندی ہو گئی۔ 1700 ء میں ہندستان کا عالمی تجارت میں 24 اعشاریہ چار فیصد حصہ تھا اور برطانیہ کا حصہ محض 2 اعشاریہ آٹھ فیصد تھا، یہ تناسب ہندستان پر انگریز قبضے کے بعد 1870 ء میں کم ہو کر 12 اعشاریہ دو فیصد رہ گیا ۔

برطانیہ میں دولت کی فراوانی ہونے کے بعد ہی، یورپی ایجادات اور صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ ہندستان میں اپنی مداخلت کی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے، برطانوی پارلیمان نے گورنر جنرل کا عہدہ متعارف کرا دیا، 1773 ء میں گورنر جنرل کا یہ عہدہ کلکتہ کے لئے تشکیل دیا گیا جسے کمپنی کی بمبئی اور مدراس پریذیڈنسی پر فوقیت دی گئی، اس عہدے کی تنخواہ 25 ہزار پاونڈز مقرر کی گئی جس کی ادائیگی ہندستانی خزانے سے ہوتی، اس عہدے کے ساتھ برطانوی پارلیمان نے پانچ رکنی کونسل تشکیل دی اور اس کونسل کے تین ممبرز کی نامزدگی کا اختیار پارلیمان کے پاس رکھا گیا، جب 1858 ء میں ملکہ وکٹوریا نے آرڈیننس پاس کیا تو برطانوی پارلیمان ہندستان پر براہ راست مسلط کر دی گئی اور کمپنی کے تحت موجود تمام اثاثہ جات بھی برطانیہ نے اپنے قبضے میں لے لیے اور یہی گورنر جنرل کا عہدہ وائسرائے کے منصب سے تبدیل کر دیا گیا ۔

تقسیم ہند کے بعد بھی یہ منصب مختلف صورتوں میں یہاں موجود ہیں، ان منصبوں کے ذریعے سے ہی جدید عہد کا استعمار مقامی افراد کے لئے میر جعفر والے کردار متعین کرتا ہے اور مابعد نوآبادیاتی سیاسی ڈھانچے کے تناظر میں ملک کی اقتصادیات کی شہ رگ کو استعمار اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ نوجوان نسل کو اس خطے کی سیاسی و اقتصادی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کر کے ایسے کرداروں کی نشاندہی کرنی چاہیے جو عہدوں کےلیے قوموں پر غلامی کا طوق مسلط کرتے ہیں ۔ یا اللہ ہمیں غدّاری اور غدّاروں سے بچا آمین ۔ (طالبِ دع و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔